Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آٹھواں عجوبہ

محمد اسد اللہ

آٹھواں عجوبہ

محمد اسد اللہ

MORE BYمحمد اسد اللہ

    یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں چھٹی کلاس میں تھا اس سال اسکول شروع ہوا تو ہماری کلاس میں ایک نئے لڑکے کا داخلہ ہوا۔ نام تھا اسکا جنید۔ مجھے میرے دوست عامر نے بتایا کہ جنید کے والد ڈبلیو سی ایل میں ملازم ہیں اور ابھی ابھی ان کا بھوپال سے یہاں ٹرانسفر ہوا ہے۔

    جنید بہت ہی دبلا پتلا تھا۔ لگتا تھا ذرا پھونک ماریں گے تو اڑ جائے گا۔ رنگ سانولا، آنکھیں نیپالی لوگوں جیسی چھوٹی چھوٹی سی، بال گھنگرالے، پتہ نہیں کیوں پہلی مرتبہ اسے دیکھ کر مجھے لگا جیسے میں کسی چوہے کو دیکھ رہا ہوں۔ وہ تمام طلباء سے ذرا الگ قسم کا تھا۔ اسکے دبلے پن کے باوجود ایسا محسوس نہیں ہوتا تھا کہ وہ کمزور ہے۔ کسی حد تک گٹھا ہوا بدن، چوہے جیسی چستی پھرتی اس میں تھی۔ ایک تو وہ اجنبی اور حلیہ سب سے جدا لڑکوں نے اسے آڑے ہاتھوں لیا اور ستانا شروع کر دیا۔

    پہلے ہی دن جب وہ سیڑھوں کے پاس کھڑا تھا میری کلاس کے سارے لڑکے جو وہاں سے گزر رہے تھے، جاتے جاتے اس کے سر پر ٹپّو مارتے جارہے تھے۔ دوسرے دن چھٹی کے دوران وہ باہر نکلا تو اس کی پیٹھ پر کاغذ کا پرزہ چپکا ہوا تھا جس پر لکھا تھا ’نیپالی چوہا‘۔

    سبھی جانتے تھے کہ یہ حرکت اسامہ کی تھی۔ اسامہ ہماری کلاس کا سب سے زیادہ شریر بلکہ خطرناک طالب علم تھا۔ پوری کلاس پر اپنی دھاک جمائے ہوئے تھا۔ جہاں کسی نے اس کی مرضی کے خلاف کوئی کام کیا تو وہ اس کا دشمن بن جاتا تھا۔ ہم سب گھبرا گئے کہ اب اس نے نہ جانے کیوں جنید کو اپنا نشانہ بنالیا تھا۔ شاید نیا طالب علم دیکھ کر اسے نئی شرارت سوجھی تھی۔ اسامہ خوب موٹا تازہ تھا اسے دیکھ کر ایسا لگتا تھا جیسے کسی نے بڑے سے تکئے میں خوب ٹھونس ٹھونس کر روئی بھر دی ہو۔ البتہ وقت پڑے تو تیزی سے بھا گنا اس کے بس کی بات نہ تھی۔ سومو پہلوانوں جیسا دکھائی دیتا تھا۔ طاقت تو کچھ زیادہ نہ تھی بسں اپنے موٹاپے اور شرارتوں کے بل پر سب کو ڈراتا رہتا تھا۔

    دو چار دن گزرے ہوں گے کہ اسکول اسیمبلی میں پیش درس کے بعد اعلان کیا گیا کہ کل کسی لڑکے کا بیگ گم ہوگیا ہے، کسی کو نظر آئے تو آفس میں اطلاع دے۔ اس دن چھٹی کے دوران چند بچوں نے چپراسی کو بتایا کہ اسکول کے کنارے ایک درخت کی شاخوں پر کسی کا بیگ لٹکا ہوا ہے۔ چپراسی نے چڑھ کر اسے نکالا تو پتہ چلا وہ جنید ہی کا کھویا ہوا بستہ تھا۔ دھیرے دھیرے جنید کے ساتھ شرارتوں کا سلسلہ بڑھتا ہی جارہا تھا۔ جنید یہ سب چپ چاپ سہتا رہا، اس کی طرف سے اس سلسلہ میں کوئی جوابی کاروائی نہیں ہوئی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب چھوٹے چھوٹے بچے بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے لگے۔

    ان دنوں، اسامہ جواب تک صرف اپنی کلاس کے لڑکوں سے لڑتا رہتا تھا، بڑی کلاس کے طلباء سے بھی الجھنے لگا تھا۔ اس کی شکایتیں بار بار اساتذہ تک پہنچتی تھیں۔ اسے دیکھ کر دوسرے لڑکے بھی لڑائی جھگڑے کرنے لگے تھے۔ کئی ٹیچرس یہ سوچتے تھے کہ ایسی گندی مچھلی کو جو سارا تالاب گندہ کر سکتی ہے نکال باہر کرنا چاہئے لیکن اسامہ کے والد اس شہر کے نامی گرامی لوگوں میں تھے اسکول مینجمنٹ سے ان کے بڑے اچھے تعلقات تھے اس لئے اس پر ہاتھ ڈالنا اتنا آسان نہ تھا۔ ٹیچرس بھی امیر باپ کی اس بگڑی اولاد کے آگے مجبور تھے پھر بھی کبھی چاہتے تھے کے اسکول کے ماحول میں رہ کر وہ سدھر جائے اس لئے گاہے لگاہے اسے سمجھاتے رہتے تھے۔

    ایک ہفتہ بعد ایک دن جب ہم اسکول سے اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے، راستے میں کئی لڑکے کھڑے نظر آئے۔ ان کے تیور کچھ اس قسم کے تھے گویا وہ کسی کا انتظار کر رہے تھے اور اس کی پٹائی کرنا چاہتے تھے۔ ہم لوگ تھوڑی دیر وہاں رکے اس کے بعد ساری گڑبڑ شروع ہوگئی شاید ان بدمعاش لڑکوں کو ان کا شکار مل گیا تھا۔ سب مل کر اسے پیٹنے لگے ان کے ہاتھوں میں ہاکی اسٹکس اور بیلٹ تھے۔ وہ سب مل کر اسکول کے کسی لڑکے کی پٹائی کر رہے تھے۔ یہ منظر اتنا بھیانک تھا کہ طلبا کی وہاں رکنے کی ہمت ہی نہ ہوئی۔

    دوسرے دن جب ہم اسکول پہنچے تو پتہ چلا اسامہ کی حرکتوں سے پریشان بڑی کلاس کے طلباء نے جب کئی بار ٹیچرس سے اس کی شکایت کی اور اسکول کی طرف سے کوئی کاروائی نہ ہوئی تو انھوں نے خود ہی اسے سبق سکھانے کا ارادہ کیا۔ اس شام اسے سب نے مل کر گھیرا اور بری طرح پیٹ دیا۔ پٹائی کر کے بڑی کلاس کے لڑکے چلے گئے تو وہاں کوئی بھی نہ تھا۔ مارے ڈر کے سارے لڑکے غائب ہوچکے تھے۔ سوائے جنید کے جو یہ سارا تماشا دیکھ رہا تھا۔ اسامہ خون میں لت پت تھا اور اٹھنے کے قابل بھی نہ تھا۔ سب کے جانے کے بعد جنید نے اسے کسی طرح اٹھا کر اس کے گھر پہنچایا۔

    دو تین دن بعد جب اسامہ اسکول آیا تو اس کے ہاتھ پاؤں پر پٹیاں بندھی تھیں اور سر پر چوٹ کے نشانات تھے۔ اسکول کے پی۔ ٹی۔ آئی انیس سرکا پیریڈ تھا۔ کوئی اجنبی شاید کسی اسٹوڈنٹ کے والد ان سے ملنے آئے تھے۔ دیر تک کلاس سے باہر دروازے پر کھڑے ان سے باتیں کرتے رہے اور پھر انیس سر انھیں کلاس میں لے کر آئے اور طلبا سے مخاطب ہو کر کہنے لگے، یہ شیخ اکرام صاحب ہیں، ہماری کلاس میں جو جنید ہیں ان کے والد، یہ آپ لوگوں سے کچھ کہنا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد جنید کے والد نے نرم لہجے میں طلبا سے کہنا شروع کیا۔ ’بچو! میرا بیٹا جنید آپ کے ساتھ پڑھتا ہے ہم لوگ اس شہر میں نئے آئے ہیں۔ مجھے کئی دنوں سے یہ شکایت مل رہی ہے کہ آپ لوگوں میں سے کچھ لڑکے اسے پریشان کر رہے ہیں اور وہ خاموشی کے ساتھ برداشت کر رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ وہ آپ سے ڈرتا ہے اور اسے بدمعاش لڑکوں سے نمٹنا نہیں آتا۔ میں آپ کو بتا دوں کہ وہ کراٹے کا ماہر ہے اور بچوں کے کراٹے کے مقابلوں میں نیشنل چیمپین ہے اور کراٹے کے مقابلوں میں کئی انعامات حاصل کر چکا ہے۔ اس کی کراٹے کلاس میں اسے یہ سکھایا جاتا ہے کہ اپنی طاقت کا غلط استعمال نہ کریں اور نہ بدلہ لیں۔ اسی لئے وہ خاموش ہے لیکن تمہاری زیادتیاں حد سے بڑھنے لگیں اور وہ شروع ہوگیا تو تم مشکل میں پڑ جاؤ گے، اس لئے بہتر ہے اسے ستانا چھوڑ دو۔ یہ کہہ کر وہ چلے گئے۔

    اسامہ نے اپنے سر پر بندھی پٹیوں کے نیچے سوجھی ہوئی آنکھیں پھاڑ کر ڈری ڈری نظروں سے جیند کو دیکھا وہ اپنے ڈیسک پر اس طرح خاموش اور مطمئن بیٹھا تھا جیسے کچھ

    ہوا ہی نہ ہو۔

    اسامہ کی نظروں میں ڈر بھی تھا شکر گذاری بھی اور حیرت بھی جیسے دنیا کا آٹھواں

    عجوبہ اس کے سامنے ہو۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے