Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Ambareen Haseeb ambar's Photo'

عنبرین حسیب عنبر

1981 | کراچی, پاکستان

مشاعروں میں بے انتہا مقبول پاکستانی شاعرہ

مشاعروں میں بے انتہا مقبول پاکستانی شاعرہ

عنبرین حسیب عنبر کے اشعار

2.9K
Favorite

باعتبار

دنیا تو ہم سے ہاتھ ملانے کو آئی تھی

ہم نے ہی اعتبار دوبارہ نہیں کیا

فیصلہ بچھڑنے کا کر لیا ہے جب تم نے

پھر مری تمنا کیا پھر مری اجازت کیوں

تعلق جو بھی رکھو سوچ لینا

کہ ہم رشتہ نبھانا جانتے ہیں

مجھ میں اب میں نہیں رہی باقی

میں نے چاہا ہے اس قدر تم کو

اب کے ہم نے بھی دیا ترک تعلق کا جواب

ہونٹ خاموش رہے آنکھ نے بارش نہیں کی

اڑ گئے سارے پرندے موسموں کی چاہ میں

انتظار ان کا مگر بوڑھے شجر کرتے رہے

عمر بھر کے سجدوں سے مل نہیں سکی جنت

خلد سے نکلنے کو اک گناہ کافی ہے

اس عارضی دنیا میں ہر بات ادھوری ہے

ہر جیت ہے لا حاصل ہر مات ادھوری ہے

تم نے کس کیفیت میں مخاطب کیا

کیف دیتا رہا لفظ تو دیر تک

ہم تو سنتے تھے کہ مل جاتے ہیں بچھڑے ہوئے لوگ

تو جو بچھڑا ہے تو کیا وقت نے گردش نہیں کی

دھیان میں آ کر بیٹھ گئے ہو تم بھی ناں

مجھے مسلسل دیکھ رہے ہو تم بھی ناں

بن کے ہنسی ہونٹوں پر بھی رہتے ہو

اشکوں میں بھی تم بہتے ہو تم بھی ناں

بھول جوتے ہیں مسافر رستہ

لوگ کہتے ہیں کہانی پھر بھی

محبت اور قربانی میں ہی تعمیر مضمر ہے

در و دیوار سے بن جائے گھر ایسا نہیں ہوتا

کیا جانئے کیا سوچ کے افسردہ ہوا دل

میں نے تو کوئی بات پرانی نہیں لکھی

جو تم ہو تو یہ کیسے مان لوں میں

کہ جو کچھ ہے یہاں بس اک گماں ہے

دل جن کو ڈھونڈھتا ہے نہ جانے کہاں گئے

خواب و خیال سے وہ زمانے کہاں گئے

وہ جنگ جس میں مقابل رہے ضمیر مرا

مجھے وہ جیت بھی عنبرؔ نہ ہوگی ہار سے کم

زندگی میں کبھی کسی کو بھی

میں نے چاہا نہیں مگر تم کو

کیا خوب تماشہ ہے یہ کار گہ ہستی

ہر جسم سلامت ہے ہر ذات ادھوری ہے

اک حسیں خواب کہ آنکھوں سے نکلتا ہی نہیں

ایک وحشت ہے کہ تعبیر ہوئی جاتی ہے

تشہیر تو مقصود نہیں قصۂ دل کی

سو تجھ کو لکھا تیری نشانی نہیں لکھی

ترے فراق میں دل کا عجیب عالم ہے

نہ کچھ خمار سے بڑھ کر نہ کچھ خمار سے کم

لفظ کی حرمت مقدم ہے دل و جاں سے مجھے

سچ تعارف ہے مرے ہر شعر ہر تحریر کا

عیاں دونوں سے تکمیل جہاں ہے

زمیں گم ہو تو پھر کیا آسماں ہے

مانوس بام و در سے نظر پوچھتی رہی

ان میں بسے وہ لوگ پرانے کہاں گئے

اے آسماں کس لیے اس درجہ برہمی

ہم نے تو تری سمت اشارا نہیں کیا

پیروی سے ممکن ہے کب رسائی منزل تک

نقش پا مٹانے کو گرد راہ کافی ہے

ہزار خوف مسلط رہے ہیں انساں پر

مگر ہمیں تو ہمی سے ڈرا دیا گیا ہے

تمہاری یاد کا چہرہ ہمارے درد کا رنگ

نکھر گئے ہیں سبھی اشک بار ہونے سے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے