Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Bashir Badr's Photo'

بشیر بدر

1935 | بھوپال, انڈیا

معروف جدید شاعر، سادہ و سلیس زبان میں شعر کہنے کے لئے مشہور ہیں

معروف جدید شاعر، سادہ و سلیس زبان میں شعر کہنے کے لئے مشہور ہیں

بشیر بدر کے اشعار

336.3K
Favorite

باعتبار

بھول شاید بہت بڑی کر لی

دل نے دنیا سے دوستی کر لی

گلابوں کی طرح شبنم میں اپنا دل بھگوتے ہیں

محبت کرنے والے خوب صورت لوگ ہوتے ہیں

سوچا نہیں اچھا برا دیکھا سنا کچھ بھی نہیں

مانگا خدا سے رات دن تیرے سوا کچھ بھی نہیں

وہ اب وہاں ہے جہاں راستے نہیں جاتے

میں جس کے ساتھ یہاں پچھلے سال آیا تھا

وہ انتظار کی چوکھٹ پہ سو گیا ہوگا

کسی سے وقت تو پوچھیں کہ کیا بجا ہوگا

تم ابھی شہر میں کیا نئے آئے ہو

رک گئے راہ میں حادثہ دیکھ کر

غزلوں نے وہیں زلفوں کے پھیلا دئیے سائے

جن راہوں پہ دیکھا ہے بہت دھوپ کڑی ہے

دل کی بستی پرانی دلی ہے

جو بھی گزرا ہے اس نے لوٹا ہے

ہم تو کچھ دیر ہنس بھی لیتے ہیں

دل ہمیشہ اداس رہتا ہے

مجھے لگتا ہے دل کھنچ کر چلا آتا ہے ہاتھوں پر

تجھے لکھوں تو میری انگلیاں ایسی دھڑکتی ہیں

کبھی کبھی تو چھلک پڑتی ہیں یوں ہی آنکھیں

اداس ہونے کا کوئی سبب نہیں ہوتا

میں تمام تارے اٹھا اٹھا کے غریب لوگوں میں بانٹ دوں

وہ جو ایک رات کو آسماں کا نظام دے مرے ہاتھ میں

مدت سے اک لڑکی کے رخسار کی دھوپ نہیں آئی

اس لئے میرے کمرے میں اتنی ٹھنڈک رہتی ہے

عاشقی میں بہت ضروری ہے

بے وفائی کبھی کبھی کرنا

میرا شیطان مر گیا شاید

میرے سینے پہ سو رہا ہے کوئی

دشمنی جم کر کرو لیکن یہ گنجائش رہے

جب کبھی ہم دوست ہو جائیں تو شرمندہ نہ ہوں

رات کا انتظار کون کرے

آج کل دن میں کیا نہیں ہوتا

ہم نے تو بازار میں دنیا بیچی اور خریدی ہے

ہم کو کیا معلوم کسی کو کیسے چاہا جاتا ہے

اک میرؔ تھا سو آج بھی کاغذ میں قید ہے

ہندی غزل کا دوسرا اوتار میں ہی ہوں

گلے میں اس کے خدا کی عجیب برکت ہے

وہ بولتا ہے تو اک روشنی سی ہوتی ہے

جس کو دیکھو مرے ماتھے کی طرف دیکھتا ہے

درد ہوتا ہے کہاں اور کہاں روشن ہے

ایک عورت سے وفا کرنے کا یہ تحفہ ملا

جانے کتنی عورتوں کی بد دعائیں ساتھ ہیں

اجازت ہو تو میں اک جھوٹ بولوں

مجھے دنیا سے نفرت ہو گئی ہے

مخالفت سے مری شخصیت سنورتی ہے

میں دشمنوں کا بڑا احترام کرتا ہوں

سات صندوقوں میں بھر کر دفن کر دو نفرتیں

آج انساں کو محبت کی ضرورت ہے بہت

میں یوں بھی احتیاطاً اس گلی سے کم گزرتا ہوں

کوئی معصوم کیوں میرے لیے بدنام ہو جائے

ہم دلی بھی ہو آئے ہیں لاہور بھی گھومے

اے یار مگر تیری گلی تیری گلی ہے

تم مجھے چھوڑ کے جاؤ گے تو مر جاؤں گا

یوں کرو جانے سے پہلے مجھے پاگل کر دو

کچھ تو مجبوریاں رہی ہوں گی

یوں کوئی بے وفا نہیں ہوتا

کمرے ویراں آنگن خالی پھر یہ کیسی آوازیں

شاید میرے دل کی دھڑکن چنی ہے ان دیواروں میں

وہ ماتھا کا مطلع ہو کہ ہونٹھوں کے دو مصرع

بچپن سے غزل ہی میری محبوبہ رہی ہے

تمہارے گھر کے سبھی راستوں کو کاٹ گئی

ہمارے ہاتھ میں کوئی لکیر ایسی تھی

لہجہ کہ جیسے صبح کی خوشبو اذان دے

جی چاہتا ہے میں تری آواز چوم لوں

نہ تم ہوش میں ہو نہ ہم ہوش میں ہیں

چلو مے کدہ میں وہیں بات ہوگی

چاند سا مصرعہ اکیلا ہے مرے کاغذ پر

چھت پہ آ جاؤ مرا شعر مکمل کر دو

خدا کی اس کے گلے میں عجیب قدرت ہے

وہ بولتا ہے تو اک روشنی سی ہوتی ہے

تری آرزو تری جستجو میں بھٹک رہا تھا گلی گلی

مری داستاں تری زلف ہے جو بکھر بکھر کے سنور گئی

وہ جن کے ذکر سے رگوں میں دوڑتی تھیں بجلیاں

انہیں کا ہاتھ ہم نے چھو کے دیکھا کتنا سرد ہے

حیات آج بھی کنیز ہے حضور جبر میں

جو زندگی کو جیت لے وہ زندگی کا مرد ہے

گھروں پہ نام تھے ناموں کے ساتھ عہدے تھے

بہت تلاش کیا کوئی آدمی نہ ملا

محبتوں میں دکھاوے کی دوستی نہ ملا

اگر گلے نہیں ملتا تو ہاتھ بھی نہ ملا

خدا کی اتنی بڑی کائنات میں میں نے

بس ایک شخص کو مانگا مجھے وہی نہ ملا

بہت عجیب ہے یہ قربتوں کی دوری بھی

وہ میرے ساتھ رہا اور مجھے کبھی نہ ملا

میں چپ رہا تو اور غلط فہمیاں بڑھیں

وہ بھی سنا ہے اس نے جو میں نے کہا نہیں

میں جس کی آنکھ کا آنسو تھا اس نے قدر نہ کی

بکھر گیا ہوں تو اب ریت سے اٹھائے مجھے

عجب چراغ ہوں دن رات جلتا رہتا ہوں

میں تھک گیا ہوں ہوا سے کہو بجھائے مجھے

میں چاہتا ہوں کہ تم ہی مجھے اجازت دو

تمہاری طرح سے کوئی گلے لگائے مجھے

میں تمام دن کا تھکا ہوا تو تمام شب کا جگا ہوا

ذرا ٹھہر جا اسی موڑ پر تیرے ساتھ شام گزار لوں

یہ ایک پیڑ ہے آ اس سے مل کے رو لیں ہم

یہاں سے تیرے مرے راستے بدلتے ہیں

اداس آنکھوں سے آنسو نہیں نکلتے ہیں

یہ موتیوں کی طرح سیپیوں میں پلتے ہیں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے