Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Bismil Saeedi's Photo'

بسمل سعیدی

1901 - 1976 | ٹونک, انڈیا

کلاسیکی طرز معروف شاعر/ سیماب اکبرآبادی کے شاگرد

کلاسیکی طرز معروف شاعر/ سیماب اکبرآبادی کے شاگرد

بسمل سعیدی کے اشعار

9.7K
Favorite

باعتبار

میرے دل کو بھی پڑا رہنے دو

چیز رکھی ہوئی کام آتی ہے

خوشبو کو پھیلنے کا بہت شوق ہے مگر

ممکن نہیں ہواؤں سے رشتہ کئے بغیر

گل تو گل خار پہ دیکھی جو کبھی گرم شعاع

چھا گئے باغ پہ ہم ابر بہاراں ہو کر

ادھر ادھر مری آنکھیں تجھے پکارتی ہیں

مری نگاہ نہیں ہے زبان ہے گویا

محبت میں خدا جانے ہوئیں رسوائیاں کس سے

میں ان کا نام لیتا ہوں وہ میرا نام لیتے ہیں

تم جب آتے ہو تو جانے کے لیے آتے ہو

اب جو آ کر تمہیں جانا ہو تو آنا بھی نہیں

ہم نے کانٹوں کو بھی نرمی سے چھوا ہے اکثر

لوگ بے درد ہیں پھولوں کو مسل دیتے ہیں

کیا تباہ تو دلی نے بھی بہت بسملؔ

مگر خدا کی قسم لکھنؤ نے لوٹ لیا

کسی کے ستم اس قدر یاد آئے

زباں تھک گئی مہرباں کہتے کہتے

رو رہا ہوں آج میں سارے جہاں کے سامنے

روئے گا کل دیکھنا سارا جہاں میرے لیے

نا امیدی ہے بری چیز مگر

ایک تسکین سی ہو جاتی ہے

دو دن میں ہو گیا ہے یہ عالم کہ جس طرح

تیرے ہی اختیار میں ہیں عمر بھر سے ہم

حسن بھی کمبخت کب خالی ہے سوز عشق سے

شمع بھی تو رات بھر جلتی ہے پروانے کے ساتھ

ٹھوکر کسی پتھر سے اگر کھائی ہے میں نے

منزل کا نشاں بھی اسی پتھر سے ملا ہے

زمانہ سازیوں سے میں ہمیشہ دور رہتا ہیں

مجھے ہر شخص کے دل میں اتر جانا نہیں آتا

سکوں نصیب ہوا ہو کبھی جو تیرے بغیر

خدا کرے کہ مجھے تو کبھی نصیب نہ ہو

سر جس پہ نہ جھک جائے اسے در نہیں کہتے

ہر در پہ جو جھک جائے اسے سر نہیں کہتے

کعبے میں مسلمان کو کہہ دیتے ہیں کافر

بت خانے میں کافر کو بھی کافر نہیں کہتے

دہرائی جا سکے گی نہ اب داستان عشق

کچھ وہ کہیں سے بھول گئے ہیں کہیں سے ہم

عشق بھی ہے کس قدر بر خود غلط

ان کی بزم ناز اور خودداریاں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے