بسمل سعیدی کے اشعار
خوشبو کو پھیلنے کا بہت شوق ہے مگر
ممکن نہیں ہواؤں سے رشتہ کئے بغیر
گل تو گل خار پہ دیکھی جو کبھی گرم شعاع
چھا گئے باغ پہ ہم ابر بہاراں ہو کر
ادھر ادھر مری آنکھیں تجھے پکارتی ہیں
مری نگاہ نہیں ہے زبان ہے گویا
محبت میں خدا جانے ہوئیں رسوائیاں کس سے
میں ان کا نام لیتا ہوں وہ میرا نام لیتے ہیں
تم جب آتے ہو تو جانے کے لیے آتے ہو
اب جو آ کر تمہیں جانا ہو تو آنا بھی نہیں
ہم نے کانٹوں کو بھی نرمی سے چھوا ہے اکثر
لوگ بے درد ہیں پھولوں کو مسل دیتے ہیں
کیا تباہ تو دلی نے بھی بہت بسملؔ
مگر خدا کی قسم لکھنؤ نے لوٹ لیا
کسی کے ستم اس قدر یاد آئے
زباں تھک گئی مہرباں کہتے کہتے
رو رہا ہوں آج میں سارے جہاں کے سامنے
روئے گا کل دیکھنا سارا جہاں میرے لیے
نا امیدی ہے بری چیز مگر
ایک تسکین سی ہو جاتی ہے
دو دن میں ہو گیا ہے یہ عالم کہ جس طرح
تیرے ہی اختیار میں ہیں عمر بھر سے ہم
حسن بھی کمبخت کب خالی ہے سوز عشق سے
شمع بھی تو رات بھر جلتی ہے پروانے کے ساتھ
ٹھوکر کسی پتھر سے اگر کھائی ہے میں نے
منزل کا نشاں بھی اسی پتھر سے ملا ہے
زمانہ سازیوں سے میں ہمیشہ دور رہتا ہیں
مجھے ہر شخص کے دل میں اتر جانا نہیں آتا
سکوں نصیب ہوا ہو کبھی جو تیرے بغیر
خدا کرے کہ مجھے تو کبھی نصیب نہ ہو
سر جس پہ نہ جھک جائے اسے در نہیں کہتے
ہر در پہ جو جھک جائے اسے سر نہیں کہتے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کعبے میں مسلمان کو کہہ دیتے ہیں کافر
بت خانے میں کافر کو بھی کافر نہیں کہتے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
دہرائی جا سکے گی نہ اب داستان عشق
کچھ وہ کہیں سے بھول گئے ہیں کہیں سے ہم
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
عشق بھی ہے کس قدر بر خود غلط
ان کی بزم ناز اور خودداریاں
-
موضوع : عشق
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ