Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Mirza Ghalib's Photo'

مرزا غالب

1797 - 1869 | دلی, انڈیا

عظیم شاعر۔ عالمی ادب میں اردو کی آواز۔ خواص و عوام دونوں میں مقبول۔

عظیم شاعر۔ عالمی ادب میں اردو کی آواز۔ خواص و عوام دونوں میں مقبول۔

مرزا غالب کے اشعار

392.3K
Favorite

باعتبار

شعر غالبؔ کا نہیں وحی یہ تسلیم مگر

بخدا تم ہی بتا دو نہیں لگتا الہام

وداع و وصل میں ہیں لذتیں جداگانہ

ہزار بار تو جا صد ہزار بار آ جا

کیوں نہ فردوس میں دوزخ کو ملا لیں یا رب

سیر کے واسطے تھوڑی سی جگہ اور سہی

اے نوا ساز تماشا سر بکف جلتا ہوں میں

اک طرف جلتا ہے دل اور اک طرف جلتا ہوں میں

کلکتے کا جو ذکر کیا تو نے ہم نشیں

اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے

میں بھلا کب تھا سخن گوئی پہ مائل غالبؔ

شعر نے کی یہ تمنا کے بنے فن میرا

عمر بھر دیکھا کیے مرنے کی راہ

مر گئے پر دیکھیے دکھلائیں کیا

کام اس سے آ پڑا ہے کہ جس کا جہان میں

لیوے نہ کوئی نام ستمگر کہے بغیر

یوسف اس کو کہو اور کچھ نہ کہے خیر ہوئی

گر بگڑ بیٹھے تو میں لائق تعزیر بھی تھا

پنہاں تھا دام سخت قریب آشیان کے

اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے

فرداودی کا تفرقہ یک بار مٹ گیا

کل تم گئے کہ ہم پہ قیامت گزر گئی

صادق ہوں اپنے قول کا غالبؔ خدا گواہ

کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے

تم سلامت رہو ہزار برس

ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار

بوسہ کیسا یہی غنیمت ہے

کہ نہ سمجھے وہ لذت دشنام

ہے تماشا گاہ سوز تازہ ہر یک عضو تن

جوں چراغان دوالی صف بہ صف جلتا ہوں میں

آتا ہے داغ حسرت دل کا شمار یاد

مجھ سے مرے گنہ کا حساب اے خدا نہ مانگ

گر تجھ کو ہے یقین اجابت دعا نہ مانگ

یعنی بغیر یک دل بے مدعا نہ مانگ

میں بھی رک رک کے نہ مرتا جو زباں کے بدلے

دشنہ اک تیز سا ہوتا مرے غم خوار کے پاس

میں نے کہا کہ بزم ناز چاہیئے غیر سے تہی

سن کے ستم ظریف نے مجھ کو اٹھا دیا کہ یوں

جو یہ کہے کہ ریختہ کیونکے ہو رشک فارسی

گفتۂ غالبؔ ایک بار پڑھ کے اسے سنا کہ یوں

ہے مشتمل نمود صور پر وجود بحر

یاں کیا دھرا ہے قطرہ و موج و حباب میں

ہے غیب غیب جس کو سمجھتے ہیں ہم شہود

ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں

رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھیے تھمے

نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں

ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند

گستاخی فرشتہ ہماری جناب میں

دیکھیے لاتی ہے اس شوخ کی نخوت کیا رنگ

اس کی ہر بات پہ ہم نام خدا کہتے ہیں

اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہو

جو مے و نغمہ کو اندوہ ربا کہتے ہیں

آج ہم اپنی پریشانیٔ خاطر ان سے

کہنے جاتے تو ہیں پر دیکھیے کیا کہتے ہیں

ہے پرے سرحد ادراک سے اپنا مسجود

قبلے کو اہل نظر قبلہ نما کہتے ہیں

کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں

ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں

میری قسمت میں غم گر اتنا تھا

دل بھی یارب کئی دیے ہوتے

  • موضوعات : دل
    اور 1 مزید

آ ہی جاتا وہ راہ پر غالبؔ

کوئی دن اور بھی جیے ہوتے

میں اور بزم مے سے یوں تشنہ کام آؤں

گر میں نے کی تھی توبہ ساقی کو کیا ہوا تھا

نہ ستایش کی تمنا نہ صلے کی پروا

گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی

نہ ہوئی گر مرے مرنے سے تسلی نہ سہی

امتحاں اور بھی باقی ہو تو یہ بھی نہ سہی

ایک ہنگامہ پہ موقوف ہے گھر کی رونق

نوحۂ غم ہی سہی نغمۂ شادی نہ سہی

اللہ رے ذوق دشت نوردی کہ بعد مرگ

ہلتے ہیں خود بہ خود مرے اندر کفن کے پاؤں

دھوتا ہوں جب میں پینے کو اس سیم تن کے پانو

رکھتا ہے ضد سے کھینچ کے باہر لگن کے پانو

بھاگے تھے ہم بہت سو اسی کی سزا ہے یہ

ہو کر اسیر دابتے ہیں راہزن کے پانو

بے نیازی حد سے گزری بندہ پرور کب تلک

ہم کہیں گے حال دل اور آپ فرماویں گے کیا

دوست غمخواری میں میری سعی فرماویں گے کیا

زخم کے بھرتے تلک ناخن نہ بڑھ جاویں گے کیا

ہے اب اس معمورہ میں قحط غم الفت اسدؔ

ہم نے یہ مانا کہ دلی میں رہیں کھاویں گے کیا

گر کیا ناصح نے ہم کو قید اچھا یوں سہی

یہ جنون عشق کے انداز چھٹ جاویں گے کیا

آج واں تیغ و کفن باندھے ہوے جاتا ہوں میں

عذر میرے قتل کرنے میں وہ اب لاویں گے کیا

حضرت ناصح گر آویں دیدہ و دل فرش راہ

کوئی مجھ کو یہ تو سمجھا دو کہ سمجھائیں گے کیا

پوچھتے ہیں وہ کہ غالبؔ کون ہے

کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا

رات دن گردش میں ہیں سات آسماں

ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا

ادھر وہ بد گمانی ہے ادھر یہ ناتوانی ہے

نہ پوچھا جائے ہے اس سے نہ بولا جائے ہے مجھ سے

سنبھلنے دے مجھے اے نا امیدی کیا قیامت ہے

کہ دامان خیال یار چھوٹا جائے ہے مجھ سے

تشریح

غالب کے اشعار کے معنی کی تہوں تک پہنچنا ایسا ہی ہے جیسے دریا سے موتی نکالنا۔ بلکہ کسی بھی شعر کی تشریح اور تفسیر کا عمل ایسا ہی ہے جیسے کسی پھول کی پنکھڑیوں کو بکھیر دیا جائے۔ مگر پھر بھی سمجھنے اور سمجھانے کے لیے ضروری ہے کہ اشعار کو ان کے مطلب کے ساتھ کھول کر بیان کیا جائے، جس سے کہ سننے والے کو اس کے مطلب تک پہنچنا اور آسان ہو جائے۔

غالب کے اس شعر کی بات کی جائے تو پہلے کچھ الفاظ کے مفہوم پر بحث کی جانی بہت ضروری ہے۔ پہلا لفظ جو اس شعر میں استعمال ہوا ہے وہ 'نا امیدی' ہے جو امید کا antonym یا विलोम ہے ۔جس کا अर्थ hopelessness یا despair ہے اور دوسرا لفظ 'قیامت' ہے جس کا اس شعر کے مطابق محاوراتی مطلب فتنہ 'مصیبت، آفت' ہے۔ اس کے علاوہ 'دامانِ خیالِ یار' کا مطلب دیکھیں تو سمجھ آئے گا کہ محبوب کے تصور کا دامن یا اپنے یار کی कल्पनाओं का सिरा یا imaginary form of beloved ہے۔

سب سے پہلے تو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ کسی شعر میں دو aspacts ہوتے ہیں۔ پہلا اس کے الفاظ کی ترتیب اور اس کی کرافٹ ہے اور دوسرا اس کے معنی کی گہرائی جو شعر کا باطنی حسن ہے۔ یا یوں کہیے کہ جو شعر کی اصل بنیاد ہے۔ معنی وہ ہیں کہ جن کی تہیں بہت گہری ہیں بہت اندر تک پہنچی ہوئی ہیں جن کو کماحقہ (پوری طرح )سمجھنا تو بہت مشکل ہے، مگر یہ کہ اگر سمجھنے کی کوشش کی جائے تو پرت در پرت بہت سے امکانات سامنے آتے چلے جاتے ہیں۔ اس شعر میں شاعر اپنے دل پر نا امیدی اور ناکامی کے سایوں کے پڑنے کی وجہ سے اتنا پریشان ہے کہ اس کے ہاتھ سے اپنے محبوب کی یاد کے سرے بھی نکلے جاتے ہیں ۔ غالب کسی بات کو سیدھے اور آسان لفظوں میں کہنے کے عادی نہیں ہیں۔ سیدھی سادھی بات کو بھی آفاقی بنا دیتے ہیں اور اتنا व्यापक अर्थ खुलते हुए نظر آتے ہیں کہ جس کو دیکھ کر حیران ہو جانا بالکل فطری ہے۔

یہاں غالب خود کو امید اور اس سے اتنا خالی پاتے ہیں کہ نا امید ہو جاتے ہیں اور اسی نا امیدی کو personify کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے نا امیدی! ذرا مجھے سنبھلنے تو دے، مجھے دم لینے تو دے، مجھ کو سوچنے سمجھنے تو دے، مجھ پر ایک کے بعد ایک یاس کی بوچھار نہ ہونے دے، کیونکہ یہ یاس اور ناامیدی ایک طرح سے مجھے ہر قسم کی دنیاوی مصیبتوں میں گھیرے رکھتی ہے، وہیں دوسری طرف میں اپنے محبوب کے تصور اور اس کی کلپنا سے بھی دور ہو جاتا ہوں۔ غالب نے دامان خیال یار کا استعمال کر کے اس عام سے جذبے کو بھی بہت خاص بنا دیا ہے اور عام سے مفہوم کو بہت گہرائی عطا کر دی ہے۔

غالب کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک کے بعد ایک دکھ درد پریشانی اور مصیبت، آفت اور بے چینی ایسی ہے کہ جو زندگی کو گھیرے ہوئی ہے اور انہیں پریشانیوں اور مصیبتوں نے اس کی زندگی سے اُس کو چھین کر یاس میں بدل دیا ہے۔ شعر کی پرتوں کو کھولیں تو دیکھیں گے کہ اس شعر میں جس حسن اور خوبصورتی سے اس درد کو بیان کیا گیا ہے اس نے اس کے اظہار کو نئی سمت اور نیا رنگ عطا کر دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ دنیاوی معاملات اور مسائل کی زیادتی ہمیشہ ہی دل کے معاملات پر بھاری ہو جاتی ہے اور یہی غالب کے ساتھ بھی ہوا جس کو وہ اس شعر میں بیان کرتے ہیں۔ ایک اور جگہ غالب اسی طرح بیان کرتے ہیں کہ

کوئی امید بر نہیں آتی

کوئی صورت نظر نہیں آتی

یعنی ساری امیدیں ختم ہو چکی ہیں آگے اندھیرا ہی اندھیرا ہے تاریکی ہی تاریکی ہے غم ہی غم ہے پریشانی ہی پریشانی ہے ۔

سہیل آزاد

کبھی نیکی بھی اس کے جی میں گر آ جائے ہے مجھ سے

جفائیں کر کے اپنی یاد شرما جائے ہے مجھ سے

قیامت ہے کہ ہووے مدعی کا ہم سفر غالبؔ

وہ کافر جو خدا کو بھی نہ سونپا جائے ہے مجھ سے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے