Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Munawwar Rana's Photo'

منور رانا

1952 - 2024 | لکھنؤ, انڈیا

معروف شاعر، مشاعروں میں بے انتہا مقبول

معروف شاعر، مشاعروں میں بے انتہا مقبول

منور رانا کے اشعار

80.7K
Favorite

باعتبار

اب جدائی کے سفر کو مرے آسان کرو

تم مجھے خواب میں آ کر نہ پریشان کرو

تمہاری آنکھوں کی توہین ہے ذرا سوچو

تمہارا چاہنے والا شراب پیتا ہے

چلتی پھرتی ہوئی آنکھوں سے اذاں دیکھی ہے

میں نے جنت تو نہیں دیکھی ہے ماں دیکھی ہے

ابھی زندہ ہے ماں میری مجھے کچھ بھی نہیں ہوگا

میں گھر سے جب نکلتا ہوں دعا بھی ساتھ چلتی ہے

اس طرح میرے گناہوں کو وہ دھو دیتی ہے

ماں بہت غصے میں ہوتی ہے تو رو دیتی ہے

کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دکاں آئی

میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا مرے حصے میں ماں آئی

جب بھی کشتی مری سیلاب میں آ جاتی ہے

ماں دعا کرتی ہوئی خواب میں آ جاتی ہے

ایک آنسو بھی حکومت کے لیے خطرہ ہے

تم نے دیکھا نہیں آنکھوں کا سمندر ہونا

سو جاتے ہیں فٹ پاتھ پہ اخبار بچھا کر

مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتے

کل اپنے آپ کو دیکھا تھا ماں کی آنکھوں میں

یہ آئینہ ہمیں بوڑھا نہیں بتاتا ہے

کچھ بکھری ہوئی یادوں کے قصے بھی بہت تھے

کچھ اس نے بھی بالوں کو کھلا چھوڑ دیا تھا

تیرے دامن میں ستارے ہیں تو ہوں گے اے فلک

مجھ کو اپنی ماں کی میلی اوڑھنی اچھی لگی

یہ سوچ کے ماں باپ کی خدمت میں لگا ہوں

اس پیڑ کا سایا مرے بچوں کو ملے گا

منور ماں کے آگے یوں کبھی کھل کر نہیں رونا

جہاں بنیاد ہو اتنی نمی اچھی نہیں ہوتی

برباد کر دیا ہمیں پردیس نے مگر

ماں سب سے کہہ رہی ہے کہ بیٹا مزے میں ہے

فرشتے آ کر ان کے جسم پر خوشبو لگاتے ہیں

وہ بچے ریل کے ڈبوں میں جو جھاڑو لگاتے ہیں

تمہارا نام آیا اور ہم تکنے لگے رستہ

تمہاری یاد آئی اور کھڑکی کھول دی ہم نے

یہ ایسا قرض ہے جو میں ادا کر ہی نہیں سکتا

میں جب تک گھر نہ لوٹوں میری ماں سجدے میں رہتی ہے

تمام جسم کو آنکھیں بنا کے راہ تکو

تمام کھیل محبت میں انتظار کا ہے

تمہیں بھی نیند سی آنے لگی ہے تھک گئے ہم بھی

چلو ہم آج یہ قصہ ادھورا چھوڑ دیتے ہیں

میں نے کل شب چاہتوں کی سب کتابیں پھاڑ دیں

صرف اک کاغذ پہ لکھا لفظ ماں رہنے دیا

ہم نہیں تھے تو کیا کمی تھی یہاں

ہم نہ ہوں گے تو کیا کمی ہوگی

کسی کے زخم پر چاہت سے پٹی کون باندھے گا

اگر بہنیں نہیں ہوں گی تو راکھی کون باندھے گا

دن بھر کی مشقت سے بدن چور ہے لیکن

ماں نے مجھے دیکھا تو تھکن بھول گئی ہے

لپٹ جاتا ہوں ماں سے اور موسی مسکراتی ہے

میں اردو میں غزل کہتا ہوں ہندی مسکراتی ہے

بچوں کی فیس ان کی کتابیں قلم دوات

میری غریب آنکھوں میں اسکول چبھ گیا

شہر کے رستے ہوں چاہے گاؤں کی پگڈنڈیاں

ماں کی انگلی تھام کر چلنا بہت اچھا لگا

گر کبھی رونا ہی پڑ جائے تو اتنا رونا

آ کے برسات ترے سامنے توبہ کر لے

تمہارے شہر میں میت کو سب کاندھا نہیں دیتے

ہمارے گاؤں میں چھپر بھی سب مل کر اٹھاتے ہیں

سگی بہنوں کا جو رشتہ ہے اردو اور ہندی میں

کہیں دنیا کی دو زندہ زبانوں میں نہیں ملتا

ہنس کے ملتا ہے مگر کافی تھکی لگتی ہیں

اس کی آنکھیں کئی صدیوں کی جگی لگتی ہیں

دولت سے محبت تو نہیں تھی مجھے لیکن

بچوں نے کھلونوں کی طرف دیکھ لیا تھا

بوجھ اٹھانا شوق کہاں ہے مجبوری کا سودا ہے

رہتے رہتے اسٹیشن پر لوگ قلی ہو جاتے ہیں

یہ سوچ کر کہ ترا انتظار لازم ہے

تمام عمر گھڑی کی طرف نہیں دیکھا

گھر میں رہتے ہوئے غیروں کی طرح ہوتی ہیں

لڑکیاں دھان کے پودوں کی طرح ہوتی ہیں

پھر کربلا کے بعد دکھائی نہیں دیا

ایسا کوئی بھی شخص کہ پیاسا کہیں جسے

ماں خواب میں آ کر یہ بتا جاتی ہے ہر روز

بوسیدہ سی اوڑھی ہوئی اس شال میں ہم ہیں

کسی کی یاد آتی ہے تو یہ بھی یاد آتا ہے

کہیں چلنے کی ضد کرنا مرا تیار ہو جانا

اب آپ کی مرضی ہے سنبھالیں نہ سنبھالیں

خوشبو کی طرح آپ کے رومال میں ہم ہیں

محبت ایک پاکیزہ عمل ہے اس لیے شاید

سمٹ کر شرم ساری ایک بوسے میں چلی آئی

مرے بچوں میں ساری عادتیں موجود ہیں میری

تو پھر ان بد نصیبوں کو نہ کیوں اردو زباں آئی

مٹی کا بدن کر دیا مٹی کے حوالے

مٹی کو کہیں تاج محل میں نہیں رکھا

کھلونوں کی دکانوں کی طرف سے آپ کیوں گزرے

یہ بچے کی تمنا ہے یہ سمجھوتا نہیں کرتی

اے خاک وطن تجھ سے میں شرمندہ بہت ہوں

مہنگائی کے موسم میں یہ تہوار پڑا ہے

ہر چہرے میں آتا ہے نظر ایک ہی چہرا

لگتا ہے کوئی میری نظر باندھے ہوئے ہے

پھینکی نہ منورؔ نے بزرگوں کی نشانی

دستار پرانی ہے مگر باندھے ہوئے ہے

کھلونوں کے لئے بچے ابھی تک جاگتے ہوں گے

تجھے اے مفلسی کوئی بہانہ ڈھونڈ لینا ہے

عشق ہے تو عشق کا اظہار ہونا چاہئے

آپ کو چہرے سے بھی بیمار ہونا چاہئے

کسی دن میری رسوائی کا یہ کارن نہ بن جائے

تمہارا شہر سے جانا مرا بیمار ہو جانا

بھلے لگتے ہیں اسکولوں کی یونیفارم میں بچے

کنول کے پھول سے جیسے بھرا تالاب رہتا ہے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے