Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Sauda Mohammad Rafi's Photo'

محمد رفیع سودا

1713 - 1781 | دلی, انڈیا

اٹھارہویں صدی کے عظیم شاعروں میں شامل، میر تقی میر کے ہم عصر

اٹھارہویں صدی کے عظیم شاعروں میں شامل، میر تقی میر کے ہم عصر

محمد رفیع سودا کے اشعار

13.1K
Favorite

باعتبار

جب یار نے اٹھا کر زلفوں کے بال باندھے

تب میں نے اپنے دل میں لاکھوں خیال باندھے

نہ کر سوداؔ تو شکوہ ہم سے دل کی بے قراری کا

محبت کس کو دیتی ہے میاں آرام دنیا میں

فکر معاش عشق بتاں یاد رفتگاں

اس زندگی میں اب کوئی کیا کیا کیا کرے

کیفیت چشم اس کی مجھے یاد ہے سوداؔ

ساغر کو مرے ہاتھ سے لیجو کہ چلا میں

سوداؔ جو بے خبر ہے وہی یاں کرے ہے عیش

مشکل بہت ہے ان کو جو رکھتے ہیں آگہی

گلہ لکھوں میں اگر تیری بے وفائی کا

لہو میں غرق سفینہ ہو آشنائی کا

جس روز کسی اور پہ بیداد کرو گے

یہ یاد رہے ہم کو بہت یاد کرو گے

ساقی گئی بہار رہی دل میں یہ ہوس

تو منتوں سے جام دے اور میں کہوں کہ بس

ترا خط آنے سے دل کو میرے آرام کیا ہوگا

خدا جانے کہ اس آغاز کا انجام کیا ہوگا

سمجھے تھے ہم جو دوست تجھے اے میاں غلط

تیرا نہیں ہے جرم ہمارا گماں غلط

کون کسی کا غم کھاتا ہے

کہنے کو غم خوار ہے دنیا

سوداؔ تو اس غزل کو غزل در غزل ہی کہہ

ہونا ہے تجھ کو میرؔ سے استاد کی طرف

میں نے تم کو دل دیا اور تم نے مجھے رسوا کیا

میں نے تم سے کیا کیا اور تم نے مجھ سے کیا کیا

سوداؔ خدا کے واسطے کر قصہ مختصر

اپنی تو نیند اڑ گئی تیرے فسانے میں

یہ تو نہیں کہتا ہوں کہ سچ مچ کرو انصاف

جھوٹی بھی تسلی ہو تو جیتا ہی رہوں میں

وے صورتیں الٰہی کس ملک بستیاں ہیں

اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستیاں ہیں

نہ جیا تیری چشم کا مارا

نہ تری زلف کا بندھا چھوٹا

سوداؔ ہوئے جب عاشق کیا پاس آبرو کا

سنتا ہے اے دوانے جب دل دیا تو پھر کیا

کہیو صبا سلام ہمارا بہار سے

ہم تو چمن کو چھوڑ کے سوئے قفس چلے

گر تجھ میں ہے وفا تو جفاکار کون ہے

دل دار تو ہوا تو دل آزار کون ہے

عشق سے تو نہیں ہوں میں واقف

دل کو شعلہ سا کچھ لپٹتا ہے

سوداؔ جہاں میں آ کے کوئی کچھ نہ لے گیا

جاتا ہوں ایک میں دل پر آرزو لیے

عمامے کو اتار کے پڑھیو نماز شیخ

سجدے سے ورنہ سر کو اٹھایا نہ جائے گا

سوداؔ جو ترا حال ہے اتنا تو نہیں وہ

کیا جانیے تو نے اسے کس آن میں دیکھا

تشریح

سوداؔ کے اس شعر میں لفظ ’جو‘ اتنا تو نہیں وہ ’’اسے‘‘ اور کس آن ہم ہیں۔ ’’وہ‘‘ اور ’’اسے‘‘ اشارہ محبوب کی طرف ہے۔ شعر کے قریب کے معنی تو یہ ہیں کہ سودا جو ترا حال ہے اتنا وہ یعنی تیرا محبوب نہیں ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ تونے اسے کس وقت دیکھا ہے۔

لیکن جب دور کے معنی پر غور کرتے ہیں تو خیال کی ایک صورت حال ابھرتی ہے ۔ اس صورت حال کے دو کردار ہیں ایک سودا دوسرا متکلم یعنی سوداؔ سے بات کرنے والاا۔ یہ سودا کا کوئی دوست بھی ہو سکتا ہے یا خد سوداؔ بھی۔

بہر حال جو بھی ہے وہ سوداؔ سے یہ کہتا ہے کہ اے سوداؔ تونے جس معشوق کے غم میں اپنا یہ حال بنا دیا ہے یعنی اپنی حالت بگاڑ دی ہے، میں نے اسے دیکھا اور وہ ہرگز اس قدر خوبصورت نہیں کہ اس کے پیچھے کوئی اپنی جان کھپائے۔ معلوم نہیں تم نے اسے کس آن میں دیکھا ہے کہ وہ تیرے دل کو بھا گیا۔ آن کے دو معنی ہیں ایک ہے وقت اور دوسرا معشوقانہ چھپ، شان و شوکت۔ وضع اور ڈھنگ۔ اور شعر میں آن کو دوسرے معنی یعنی معشوقانہ چھپ، وضع، ڈھنگ میں لیا گیا ہے۔ یعنی پتہ نہیں اے سوداؔ تونے اسے یعنی اپنے محبوب کو کس معشوقانہ چھپ، وضع یا ڈھنگ میں دیکھا ہے کہ اس کے عشق میں جان کھپا بیٹھا ہے۔ میں نے اسے دیکھا وہ اس قدر بھی خوبصورت نہیں کہ کوئی اپنی حالت اس کے عشق میں بگاڑ دے۔

شفق سوپوری

زاہد سبھی ہیں نعمت حق جو ہے اکل و شرب

لیکن عجب مزہ ہے شراب و کباب کا

دل مت ٹپک نظر سے کہ پایا نہ جائے گا

جوں اشک پھر زمیں سے اٹھایا نہ جائے گا

غرض کفر سے کچھ نہ دیں سے ہے مطلب

تماشائے دیر و حرم دیکھتے ہیں

گر ہو شراب و خلوت و محبوب خوب رو

زاہد قسم ہے تجھ کو جو تو ہو تو کیا کرے

اکیلا ہو رہ دنیا میں گر چاہے بہت جینا

ہوئی ہے فیض تنہائی سے عمر خضر طولانی

کیا ضد ہے مرے ساتھ خدا جانے وگرنہ

کافی ہے تسلی کو مری ایک نظر بھی

یارو وہ شرم سے جو نہ بولا تو کیا ہوا

آنکھوں میں سو طرح کی حکایات ہو گئی

دل کے ٹکڑوں کو بغل گیر لئے پھرتا ہوں

کچھ علاج اس کا بھی اے شیشہ گراں ہے کہ نہیں

گل پھینکے ہے اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی

اے خانہ بر انداز چمن کچھ تو ادھر بھی

ہر سنگ میں شرار ہے تیرے ظہور کا

موسیٰ نہیں جو سیر کروں کوہ طور کا

بدلا ترے ستم کا کوئی تجھ سے کیا کرے

اپنا ہی تو فریفتہ ہووے خدا کرے

دکھاؤں گا تجھے زاہد اس آفت دیں کو

خلل دماغ میں تیرے ہے پارسائی کا

عبث تو گھر بساتا ہے مری آنکھوں میں اے پیارے

کسی نے آج تک دیکھا بھی ہے پانی پہ گھر ٹھہرا

سوداؔ کی جو بالیں پہ گیا شور قیامت

خدام ادب بولے ابھی آنکھ لگی ہے

تنہا ترے ماتم میں نہیں شام سیہ پوش

رہتا ہے سدا چاک گریبان سحر بھی

ہر آن آ مجھی کو ستاتے ہو ناصحو

سمجھا کے تم اسے بھی تو یک بار کچھ کہو

مت پوچھ یہ کہ رات کٹی کیونکے تجھ بغیر

اس گفتگو سے فائدہ پیارے گزر گئی

کیا کروں گا لے کے واعظ ہاتھ سے حوروں کے جام

ہوں میں ساغر کش کسی کے ساغر مخمور کا

بادشاہت دو جہاں کی بھی جو ہووے مجھ کو

تیرے کوچے کی گدائی سے نہ کھو دے مجھ کو

فراق خلد سے گندم ہے سینہ چاک اب تک

الٰہی ہو نہ وطن سے کوئی غریب جدا

ہے مدتوں سے خانۂ زنجیر بے صدا

معلوم ہی نہیں کہ دوانے کدھر گئے

نہیں ہے گھر کوئی ایسا جہاں اس کو نہ دیکھا ہو

کنھیا سے نہیں کچھ کم صنم میرا وہ ہرجائی

یہ رنجش میں ہم کو ہے بے اختیاری

تجھے تیری کھا کر قسم دیکھتے ہیں

کس منہ سے پھر تو آپ کو کہتا ہے عشق باز

اے رو سیاہ تجھ سے تو یہ بھی نہ ہو سکا

بے ثباتی زمانے کی ناچار

کرنی مجھ کو بیان پڑتی ہے

موج نسیم آج ہے آلودہ گرد سے

دل خاک ہو گیا ہے کسی بے قرار کا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے