Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آزادی کا شوق

شوکت تھانوی

آزادی کا شوق

شوکت تھانوی

MORE BYشوکت تھانوی

    میں آپ سے عرض کروں کہ مجھ کو آزادی کا پہلے پہل کب شوق ہوا ہے؟

    یہ ایک تفصیل طلب واقعہ ہے۔ اور میرا جی چاہتا ہے کہ یہ تفصیل پیش کر ہی دوں۔ خواہ آپ زندگی سےیا کم از کم مجھ سے بیزار ہی کیوں نہ ہوجائیں۔ مگر ہو جانے دیجیے میرا یہ شوق پورا۔

    بات اصل میں یہ ہے کہ میں ذرا اپنے سسرال جا رہا تھا۔ سسرال سے میرا مطلب یہ ہے کہ میری شادی تو خیر اب تک وہاں ہوئی نہیں، مگر نسبت بالکل طے تھی اور میری آؤبھگت بڑے زور شور سے ہو رہی تھی۔ یہ بات تو آپ کو معلوم ہی ہوگی کہ جس شخص کی شادی ہونے والی ہوتی ہے۔ وہ خواہ کتنا ہی زمین پر چلے مگر پیر آسمان پر ہی پڑتے ہیں۔ بات یہ ہے نا کہ اس کو ایک دم یہ احساس ہوتا ہے کہ آخاہ ہم بھی کسی قابل ہیں۔ پھر سسرال والے کچھ اس طرح دید و دل فرش راہ کرتے ہیں کہ اگر آدمی ذرا بھی بیوقوف ہو تو پیغمبری کا دعویٰ کر بیٹھے۔ عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کچھ اسی قسم کے اشرف المخلوقات ہونے کے وہم میں ان دنوں میں بھی مبتلا تھا۔ اور بہانے ڈھونڈ کر سسرال پہنچا کرتا تھا۔ جامہ زیبی بھی اس زمانے میں مجھ پر ختم تھی۔ آرائش جمال کے لیے کیا کیا جتن کیے جاتے تھے۔ اور مقصد ہوتا تھا صرف یہ کہ ہونے والی سسرال جانا ہے۔ خیر یہ تو بات سے بات نکل آئی۔ عرض یہ کر رہا تھا کہ میں ذرا سسرال جارہا تھا۔ بال بال موتی پروے سولہ سنگھار بتیس پٹار کئے کہ ایک چوراہے پر معمولی سے ایک کانسٹبل نے ہاتھ پھیلا کر مجبور کر دیا کہ بائیسکل سے اتر پڑوں، کاش یہ کانسٹبل ذرا میری ہونے والی سسرال تک زحمت کرتا اور اندازہ کرسکتا کہ جس عظیم المرتب شخصیت کو اس نے اس رعونت سے روکا ہے وہ کس پایہ کا انسان ہے۔

    بہرحال سائیکل سے اترنا پڑا۔ اور اب اس کے روکے جانے کی وجہ یہ معلوم ہوئی کہ دور سے ایک ولایتی گورا اپنی بائیسکل پر آرہاتھا۔ کیوں صاحب کیا یہ نہیں ہوسکتا تھا کہ مجھ کو گزرجانے دیا ہوتا۔ اور اس گورے کو جو اپنی سسرال بھی نہیں جارہا تھا۔ روک لیا جاتا؟ بائیسکل سے اترنے کے زندگی میں پہلی مرتبہ اس خیال نے انگڑائی لی۔ کہ یہ گورا مجھ سے زیادہ معزز ہے۔ اور اس کے مقابلہ میں میری حیثیت صرف یہ ہے کہ میں اس کے لیے روکا جاؤں۔ اس لیے کہ میں غلام ہوں اور وہ آقائی کرنے والی قوم کا ایک فرد ہے۔

    خیال تو بڑا باغیانہ تھا مگر اس کانسٹبل بیچارے کو کیا معلوم کہ یہ راہ گیر اس وقت اس قسم کی باتیں سوچ رہا ہے۔ نتیجہ یہ کہ جب وہ گورا نہایت بازاری انداز سے سیٹی بجاتا ہوا اپنی بائیسکل پر گزر گیا۔ تو کانسٹبل صاحب نے گھوم کر مجھ کو بھی اس ادا سے گزرنے کا اشارہ کیا گویا سرکار گزر گئے ہیں۔ اب درباری بھی سڑک پار کرسکتے ہیں، میں سڑک تو خیر پار کرگیا۔ مگر اب دماغ میں اسی قسم کے خیال ابل رہے تھے۔ کہ سات سمندر پار کی قوم یہاں آکر ہم پر اس طرح حکومت کرے کہ ہماری ہی سڑک، ہمارا ہی بھائی کانسٹبل اور حکم چل رہا ہے اس گورے کا۔ مقدر ہے وہی منہ سے سیٹی بجا بجا کر بائیسکل چلانے والا گورا جس کی چقندر نما بانہوں پر او دےاودے خوفناک سانپ اور اژدہے گدے ہوئے تھے۔ مگر اس کے باوجود کیا دبد بہ تھا۔ کیا خوداعتمادی تھی۔ اور کس فاتحانہ شان سے گزرا ہے۔ اور کس غلامانہ عجز سے مجھ کو دیکھنا پڑا ہے۔

    اس کا یہ تحکم۔ کچھ غصہ کچھ غیرت اور زیادہ تر حماقت میں مبتلا۔ احتجاجاً بائیسکل پر سوار نہیں بلکہ بائیسکل کو ٹہلاتا ہوا ان خیالات میں چلا جارہا تھا۔ کہ ادھر سے آنکلا ایک جلوس نعرے بلند کرتا ہوا۔ ’’بن کے رہے گا پاکستان، بٹ کے رہے گا ہندوستان۔‘‘ ایک سبزہ آغاز، سبزہ پوش، سبز علم لیے ہوئے صاحب میرے قریب ہی آکر جان پر کھیل کر چیخے۔ ’’آزادی‘‘ اور بیشمار آوازوں نے ایک آواز میں کہا ’’یا موت۔‘‘ چوٹ کھایا ہوا دل تو تھا ہی۔ میں نے بھی دل ہی دل میں کہا۔ ’’واقعی آزادی یا موت۔‘‘ اور اس آزادی یا موت نے ایسا گھیرا کہ اب میں بھی اس سمندر میں ایک قطرہ بن کر گرا اور سمندر بن گیا۔ سسرال جانے کے بجائے اب میں اس جلوس کے ساتھ اس میدان میں پہنچ گیا جہاں جلوس یکایک جلسہ بن گیا۔ اللہ اکبر۔ پاکستان زندہ باد۔ آزادی یا موت وغیرہ کے نعرے بلند ہوئے اور پھر جو تقریریں شروع ہوئی ہیں تو رات کے گیارہ بجے میں اپنے بستر پر لیٹا ہوا یہ غور کر رہا تھا کہ آزادی ملنے کے بعد بیوی کو سہاگن بنانا مناسب رہے گا۔ یا آزادی ملنے سے پہلے ہی بیوی کو بیوہ بنانا ٹھیک رہے گا۔

    اس قسم کی باتیں تو فوراً طے ہوا نہیں کرتیں۔ بڑی کشمکش میں مبتلا ہونا پڑتا ہے انسان کو، مگر اس گورے والے واقعہ نے وہ کاری ضرب لگائی تھی۔ کہ پھول کی پتی سے پتھر کا جگر کٹ چکا تھا۔ اور مجھ اور مجھ ایسے مرد نادان پر بھی اس کا خرام نرم و نازک اثر کرچکا تھا۔ نتیجہ یہ کہ صبح میں مسلم لیگ کے دفتر میں تھا۔ اور کوشش یہی تھی کہ اول تو یہ لوگ مجھ کو ابھی اپنے کندھوں پر اٹھاکر میرا جلوس نکالیں۔ ورنہ کم سے کم محلہ کمیٹی ہی کا صدر بنادیں۔ مگر جگہ فی الحال رضاکاروں میں وہ بھی اس طرح پر کہ اپنی وردی میں خود بنواؤں۔ چنانچہ منظور کرلی یہ شرط بھی، اور آزادی کی جدوجہد میں ایک ادنیٰ سپاہی کی حیثیت سے شامل ہوگئے۔ اس لیے کہ مقصد دراصل کوئی عہدہ یا مرتبہ نہ تھا بلکہ آزادی تھی۔ لیجیے صاحب اب ہوگئیں شروع قومی سرگرمیاں، آج اس جلوس میں شرکت کرنا ہے۔ کل اس جلسہ میں ڈیوٹی ہے۔ آج یہاں پہرہ دے رہے ہیں۔ کل وہاں قواعد کر رہے ہیں۔ مگر دل کو یہ اطمینان ضرور تھا کہ یہ سب کچھ حصول آزادی کے لیے کر رہے ہیں۔ سب سے بڑا امتحان جو دینا پڑا وہ یہ تھا کہ ایک جلسہ میں سبز وردی پہنے ڈنڈا ہاتھ میں لیے پہرہ دے رہے تھے کہ ہونے والے خسر صاحب جو ادھر سے گزرتے ہیں۔ تو اپنی بیٹی کے مجازی خدا کو رضاکار دیکھ کر سکتے کے عالم میں آگئے۔ پہلے تو کچھ دیر تک بول ہی نہ سکے۔ اس کے بعد بمشکل تمام یہ فرمایا،

    ’’میاں یہ تم۔۔۔‘‘

    عرض کیا ’’جی ہاں۔‘‘ بات یہ ہے کہ،

    ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

    وہ ٹھہرے آنریری مجسٹریٹ۔ خطاب کے لیے کلکٹر نے بھیج رکھی ہے سفارش۔ وہ اس چاند ستارہ کو بھلا کیا جانیں۔ ان کے جانیں دشمن، کچھ عجیب شش و پنج کے عالم میں بولے۔ ’’اور اگر آپ کے والد صاحب قبلہ کو اس کی خبر ہوگئی تو۔‘‘

    یہ تو میں نے بھی نہ سوچا تھا کہ واقعی اس اطلاع کے بعد والد صاحب خودکشی کرنا مناسب سمجھیں گے۔ یا مجھ کو ہی عاق کردینا کافی سمجھ کر صبر کریں گے۔ البتہ اس وقت میں یہ غور کر رہا تھا کہ ملت کا رضاکار بننا زیادہ برا ہے یا کسی کلب میں برج کھیلتے ہوئے پایا جانا۔ مجھ کو غور کرتا ہوا چھوڑ کر خسر صاحب تو روانہ ہوگئے، مگر دوسرے ہی دن ’’خسر شپ‘‘ سے انکار، استعفیٰ آگیا۔ اور والد صاحب قبلہ کو انہوں نے صاف صاف لکھ بھیجا کہ جس عالم میں کل آپ کے بلند اقبال نظر آئے ہیں اس کے بعد مجھ سے آپ کو یہ امید نہ ہونا چاہئے کہ میں ان کو اپنا داماد بناسکوں گا۔ والد صاحب چیخے۔ والدہ بیچاری روئیں۔ اور آخر دونوں کی متفقہ رائے سے یہ تجویز منظور ہوگئی کہ ایسی اولاد ہوتے ہی مرجائے تو زیادہ بہتر ہے۔ اس تجویز میں ایک خامی یہ تھی کہ یہ طے نہ ہو سکا کہ اگر یہ اولاد نہ مرے ہوتے ہی، تو اس کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہیے۔ جھگڑا یہ پڑگیا تھا کہ والد صاحب تو ابھی گولی ماردینے کی تائید میں تھے۔ خواہ اس کارِخیر کے لیے کسی کی بندوق ہی کیوں نہ چرانا پڑے۔ مگر والدہ صاحبہ کا نعرہ یہ تھا کہ کھوٹا پیسہ اور نالائق اولاد وقت پر کام آہی جاتی ہے۔ چنانچہ اسی میں اپنا کام بن گیا۔ ورنہ آج شہیدانِ ملت میں اپنا شمار بھی ہوتا۔

    نسبت کے چھوٹنے اور والد صاحب کو ناراض کرنے کے بعد اب تو اور بھی آزاد تھے۔ دوسرے یہ بات ذہن نشین ہوچکی تھی کہ منزل لیلیٰ کے لیے شرطِ اوّل مجنوں بننا ہے۔ ایسے ایسے خدا جانے کتنے امتحان دینا پڑیں گے۔ چنانچہ اب ہر طرف سے خالی الذہن ہوکر، میں تھا اور قومی خدمت، آج یہاں لاٹھی کھا رہے ہیں۔ کل وہاں ڈنڈوں کی دعوت ہے۔ آج اس جلسے میں پولیس نے مارتے مارتے بھرتہ کردیا۔ کل اس جلسہ سے پولیس پکڑ لے گئی۔ اور شہر کے باہر لے جاکر چھوڑ آئی۔ قصہ مختصر یوں ہوتا ہے کہ پِٹے اکثر بچے بہت کم۔ اور دو دن کے لیے جیل بھی ہو آئے۔ یہاں تک کہ اسی عالم میں چودہ اگست ۱۹۴۷ء آگئی۔ اور ہمارا نعرہ یکایک واقعہ بن گیا۔ دل نے کہا۔

    مورے سیاں بھئے کو توال اب ڈر کاہے کا

    مگر ابھی خوش بھی نہ ہونے پائے تھے۔ کہ ایک تبسم نے لاکھوں آنسو نچوڑ لیے یہ ایک مسرت سیکڑوں غموں کے معاوضہ میں ملی۔ معلوم ہوا کہ قومی رضاکار اب بننا ہے کہ جو لوٹے جارہے ہیں ان کو بچائیں۔ جہاں آگ لگی ہے وہاں سرفرد شانہ اپنے کو جھونکنا ہے۔ اپنے کو نہیں دوسروں کو بچانا ہے۔ منزل سامنے ہے مگر عبور کرنے میں خون کے سمندر، آگ کے جہنم، بلکتے ہوئے بچوں کو چھوڑ کر نہیں جاسکتے۔ ماؤں کی چیخوں کو سنی ان سنی نہیں کرسکتے، زخمیوں کی کراہوں کو روند کر آگے نہیں بڑھ سکتے۔ سب کو لیے ہوئے بڑھے۔ جو پاس تھا، وہ زخم دینے والوں کو دیا۔ پاکستان پر سب کچھ نچھاور کرتے ہوئے۔ دونوں ہاتھوں سے اپنے کو لٹاتے ہوئے زخموں سے چور مگر مسرور اللہ اکبر کی گونج اور خود نگری کے نشے میں جھومتے ہوئے والہانہ اپنی منزل کی طرف بڑھے۔ غلامی نے سرحد تک تعاقب کیا کہ او بے وفا صدیوں کی رسم توڑ کر کہاں جاتا ہے۔ مگر آخر اپنی آزاد مملکت میں پہنچ گئے۔ جو کھویا تھا یکلخت بھول گئے۔ معلوم ہوا سب کچھ پاگئے، زخموں سے چور تھے۔ فاقوں سےنڈھال تھے۔ خون رلانے والے مناظر، دل پاش پاش کیے دیتے تھے۔ مگر اب دل کو اطمینان تھا۔ کہ سب کچھ مل گیا۔ نقصان کا دور گذر گیا۔ تلافی کا وقت آپہنچا۔ چقندر نما باہوں پر نیلے نیلے اژدھوں اور سانپوں کے نقوش لیے ہوئے گورے سیٹیاں بجا بجا کر کوئک مارچ کر رہے تھے۔ اور اب ہم ان پر فاتحانہ نظر ڈال رہے تھے۔

    رفتہ رفتہ ایک سال گزرا۔ دوسرا گزرا اور تیسرا بھی گزر گیا۔ حالات پہلے معمول پر آئے۔ پھر تعمیری سرگرمیوں نے غیر معمولی صورت اختیار کرلی، زخم بھی مندمل ہوگئے۔ اور بچھڑے ہوئے بھی مل گئے۔ تو اب پھر اپنا کنوارا پن یاد آیا۔ ارادہ ہوا کہ اب شادی کرلیں۔ ادھر ادھر نظر دوڑائی۔ مگر نظر سے کام نہ بنا۔ آخر ایک دوست ہی کام آئے۔ اور ایک جگہ سلسلہ جنبانی کردی۔ یہ بڑا شریف گھرانہ ہے۔ بڑے دردمند مسلمان ہیں یہ لوگ۔ اور سنا ہے کہ صاحبزادی کو خدا نے گریجیوٹ ہونے سے بال بال بچایا ہے۔ صرف چند نمبروں سے فیل ہوئی ہیں۔ صورت شکل سنا ہے بہت اچھی ہے۔ فرشتہ خصلت، مجسمہ صنعت و حرفت اور خدا جانے کیا کیا ہیں۔ مجھ کو آج ہی ان کے یہاں دیکھنے کو بلایا گیا تھا۔ چنانچہ جب میں وہاں پہنچا ہوں تو وہ بزرگ جن کا تقدس ایک فرلانگ سے نظر آرہا تھا۔ بڑی گرم جوشی سے بڑھے۔ وظیفہ ملتوی فرمایا اور نہایت شفقت سے اپنے ساتھ جنت نظیر ڈرائنگ روم میں لے گئے۔ اور ادھر ادھر کی رسمی باتیں کرکے فرمایا،

    ’’صاحبزادے اور تو سب کچھ ٹھیک ہے، مگر آپ کے بیان سے معلوم ہوتا ہےکہ آپ گویا مہاجر ہیں۔‘‘

    عرض کیا، ’’میں تو اپنے آپ کومہاجر نہیں کہتا۔ میں تو سچ پوچھیے تو دشتِ غربت سے وطن آیا ہوں۔ یہ میرا گھر ہے۔ میں نے سپاہیانہ عزم اور ہمت کے ساتھ اس کو فتح کیا ہے، میں اس کا فاتح ہوں۔‘‘

    بڑی متانت سے بولے۔ ’’یہ درست ہے مگر مہاجرہی ہوئے نا آپ، اور میرے واسطے مصیبت یہ ہے کہ دنیا یہی کہے گی کہ میں نے اپنی لڑکی ایک مہاجر کو دے دی۔‘‘

    حیرت سے پوچھا،

    ’’تو گویا یہ بری بات ہے۔‘‘

    بڑے اللہ والے بن کر بولے،

    ’’یہ تو میں کیسے کہہ سکتا ہوں۔ جب کہ مہاجر نوازی ہمارا مذہب ہم کو سکھاتا ہے۔‘‘

    بات کاٹ کر عرض کیا۔ ’’بلکہ مہاجر اور انصار کو ایک رشتہ میں۔۔۔‘‘

    وہ بھلا بات کیوں نہ کاٹتے۔ ’’جی جی وہ میں سمجھ گیا۔ مگر برخوردار یہ برادری والے نہایت نامعقول ہوتے ہیں۔ کس کس کی زبان بند کروں گا میں۔‘‘

    اور جب مجھ کو بہت مایوس دیکھا تو جھوٹ بھی بول دیے ’’بہرحال میں غور کروں گا۔ مگر یہ واقعہ ہے کہ آپ سے مل کر بے حد مسرت ہوئی ہے۔‘‘

    کاش ان کو معلوم ہوتا کہ مجھ کو ان سے مل کر کس قدر ’’مسرت‘‘ ہوئی۔ مگر میرے دوست نے بڑے مزے کی بات کہی ہے کہ بھائی تم کو آزادی کا شوق تھا وہ پورا ہوا۔ پھر کیوں اپنی اس آزادی کو دائمی غلامی سے بدل رہے ہو۔ گورے کی غلامی سے بیزار اور گوری کی غلامی کے لیے بے قرار۔ سمجھ میں نہیں آئی یہ بات۔

    مأخذ:

    (Pg. 14)

    • مصنف: شوکت تھانوی
      • ناشر: آہلو والیہ بک ڈپو، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 1982

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے