Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اب اور تب

پطرس بخاری

اب اور تب

پطرس بخاری

MORE BYپطرس بخاری

    جب مرض بہت پرانا ہو جائے اور صحت یا بی کی کوئی امید باقی نہ رہے تو زندگی کی تمام مسرتیں محدود ہو کر بس یہیں تک رہ جاتی ہیں کہ چارپائی کے سرہانے میز پر جو انگور کا خوشا رکھا ہے اس کے چند دانے کھا لئے، مہینے دو مہینے کے بعد کوٹھے پر غسل کر لیا یا گاہے گاہے ناخن ترشوا لیے۔

    مجھے کالج کا مرض لاحق ہوئے اب کئی برس ہو چکے ہیں۔ شباب کا رنگین زمانہ امتحانوں میں جوابات لکھتے لکھتے گزر گیا، اور اب زندگی کے جو دو چار دن باقی ہیں وہ سوالات مرتب کرتے کرتے گزر جائیں گے۔ ایم اے کا امتحان گویا مرض کا بحران تھا۔ یقین تھا کہ اس کے بعد یا مرض نہ رہے گا یا ہم نہ رہیں گے۔ سو مرض تو بدستور باقی ہے اور ہم، ہر چند کہیں کہ ہیں۔ لیکن نہیں ہیں۔ طالب علمی کا زمانہ بےفکری کا زمانہ تھا۔ نرم نرم گدیلوں پر گزرا، گویا بستر عیش پر دراز تھا۔ اب تو صاحبِ فراش ہوں۔ اب عیش صرف اس قدر نصیب ہے کہ انگور کھا لیا، غسل کرلیا، ناخن ترشوا لیے۔

    تمام تگ ودو لائبریری کے ایک کمرے اور اسٹاف کے ایک ڈربے تک محدود ہے، اور دونوں کے درمیان کا ہر موڑ ایک کمین گاہ معلوم ہوتا ہے۔کبھی ’’راوی‘‘ سے بہت دلچسپی تھی۔ روزانہ علی الصبح اس کی تلاوت کیا کرتا تھا، اب اس کے ایڈیٹر صاحب سے ملتے ہوئے ڈرتا ہوں کہ کہیں نہ کہیں سلام روستائی کھینچ ماریں گے۔ ہال میں سے گزرنا قیامت ہے۔ وہم کا یہ حال ہے کہ ہر ستون کے پیچھے ایک ایڈیٹر چھپا ہوا معلوم ہوتا ہے۔

    کالج کے جلسوں میں اپنی دریدہ دہنی سے بہت ہنگامہ آرائیاں کیں۔ صدر جلسہ بننے سے ہمیشہ گھبرایا کرتا ہوں کہ یہ ’’دہن سگ بہ لقمہ دوختہ بہ‘‘ والا معاملہ ہے۔ اب جب کبھی جلسہ کا سن پاتا ہوں ایک خنک سا ضعف بدن پر طاری ہوجاتا ہے۔ جانتا ہوں کہ کرسیٴِ صدارت کی سولی پر چڑھنا ہوگا اور سولی بھی ایسی کہ انا الحق کا نعرہ نہیں لگا سکتا۔قاضی صاحب قبلہ نے اگلے دن کالج میں ایک مشاعرہ کیا۔ مجھ سے بدگمانی اتنی کہ مجھے اپنے عین مقابل ایک نمایاں اور بلند مقام پر بٹھا دیا اور میری ہر حرکت پر نگاہ رکھی۔ میرےاردگرد محفل گرم تھی اور میں اس میں کنچن چنگا کی طرح اپنی بلندی پر جما بیٹھا تھا۔

    جس دن کالج میں تعطیل ہوا کرتی مجھ پر اداسی سی چھا جاتی۔ جانتا کہ آج کے دن تہمد پوش، تولیہ بردار، صابن نواز ہستیاں دن کے بارہ ایک بجے تک نظر آتی رہیں گی۔ دن بھر لوگ گنے چوس چوس کر جابجا پھوگ کے ڈھیر لگا دیں گے، جو رفتہ رفتہ آثار صنا دید کا سا مٹیالہ رنگ اختیار کرلیں گے۔ جہاں کسی کو ایک کرسی اور اسٹول میسر آگیا وہیں کھانا منگوا لے گا اور کھانا کھا چکنے پر کوؤں اور چیلوں کی ایک بستی آباد کرتا جائے گا، تاکہ دنیا میں نام برقرار رہے۔اب یہ حال ہے کہ مہینوں سے چھٹی کی تاک میں رہتا ہوں۔ جانتا ہوں کہ اگر اس چھٹی کے دن بال نہ کٹوائے تو پھر بات گرمی کی تعطیلات پر جا پڑے گی۔ مرزا صاحب سے اپنی کتاب واپس نہ لایا تو وہ بلا تکلف ہضم کرجائیں گے۔ مچھلی کے شکار کو نہ گیا تو پھر عمر بھر زندہ مچھلی دیکھنی نصیب نہ ہوگی۔

    اب تو دلچسپی کے لئے صرف یہ باتیں رہ گئی ہیں کہ فورتھ ائیر کی حاضری لگانے لگتا ہوں تو سوچتا ہوں، کہ اس دروازے کے پاس جو نوجوان سیاہ ٹوپی پہنے بیٹھے ہیں اور اس دروازے کے پاس جو نوجوان سفید پگڑی پہنے بیٹھے ہیں، حاضری ختم ہونے تک یہ دونوں جادو کی کرامات سے غائب ہوجائیں گے اور پھر ان میں سے ایک صاحب تو ہال میں نمودار ہوں گے اور دوسرے بھگت کی دکان میں دودھ پیتے دکھائی دیں گے۔

    آج کل کے زمانے میں ایسی نظر بندی کا کھیل کم دیکھنے میں آتا ہے۔ یا صاحبِ کمال کے کرتب کا تماشا کرتا ہوں جو عین لیکچر کے دوران میں کھانستا کھانستا یک لخت اُٹھ کھڑا ہوتا ہے اور بیماروں کی طرح دروازے تک چل، کر وہاں سے پھر ایسا بھاگتا ہے کہ پھر ہفتوں سراغ نہیں ملتا۔ یا ان اہل فن کی داد دیتا ہوں جو روزانہ دیر سے آتے ہیں اور یہ کہہ کر اپنی حاضری لگوا لیتے ہیں کہ صاحب غریب خانہ بہت دور ہے۔ جانتا ہوں کہ دولت خانہ ہاسٹل کی پہلی منزل پر ہے لیکن منہ سے کچھ نہیں کہتا۔ میری بات پر یقین انہیں بھلا کیسے آئے گا، اور کبھی ایک دو منٹ کو فرصت نصیب ہو تو دل بہلانے کے لئے یہ سوال کافی ہے کہ ہال کی گھڑی مینار کی گھڑی سے تین منٹ پیچھے ہے۔ دفتر کی گھڑی ہال کی گھڑی سے سات منٹ آگے ہے۔ چپڑاسی نے صبح دوسری گھنٹی مینار کے گھڑیال سے پانچ منٹ پہلے بجائی اور تیسری گھنٹی ہال کی گھڑی سے نو منٹ پہلے تو مرکب سود کے قاعدے سے حساب لگا کر بتاؤ کہ کس کا سر پھوڑا جائے۔

    وہی میں نے کہا نا کہ انگور کھا لیا، غسل کرلیا، ناخن ترشوا لئے

    دل نے دنیا نئی بنا ڈالی

    اور ہمیں آج تک خبر نہ ہوئی

    مأخذ:

    انتخاب مضامین پطرس (Pg. 110)

    • مصنف: پطرس بخاری
      • ناشر: اترپردیش اردو اکیڈمی، لکھنؤ
      • سن اشاعت: 1984

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے