Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بیمار کی باتیں

ابراہیم جلیس

بیمار کی باتیں

ابراہیم جلیس

MORE BYابراہیم جلیس

    ’’تندرستی ہزار نعمت ہے۔‘‘

    یہ کہاوت پہلے محض کہاوت تھی لیکن اس میں ایک مصرعے کا اضافہ کر کے سالکؔ نے اسے ایک مکمل شعر بنا دیا ہے۔

    تنگدستی اگر نہ ہو سالکؔ

    تندرستی ہزار نعمت ہے

    گویا پرانے زمانے کے لوگوں میں یہ خیال عام تھا کہ؛

    تنگدستی بھی ہو اگر سالکؔ

    تندرستی ہزار نعمت ہے

    لیکن سالک نے اپنے ذاتی تجربے اور دوسرے غریب مگر تنگ دست لوگوں کی حالت زار کا مشاہدہ کرکے یہ فیصلہ دیا کہ؛

    ’’تندرستی تو ہزار نعمت ہے بشرطیکہ تندرست آدمی تنگدست نہ ہو۔‘‘

    آدمی تندرست ہونے کے علاوہ تنگ دست بھی ہو تو وہ زیادہ عرصے تک تندرست نہیں رہ سکتا۔ تنگ دستی کے باعث وہ خالص گھی اور خالص دودھ نہیں خرید سکتا، ایسی قیمتی غذائیں نہیں کھا سکتا جن میں وٹامن اور غذائیت کے دیگر ضروری اجزا ہوں۔ تنگ دستی کے باعث روٹی کے بعد فروٹ نہیں کھا سکتا۔ جب فروٹ نہیں کھا سکتا تو خون بھی نہیں بنتا۔ جب خون نہیں بنتا تو تندرست کیسے رہ سکتا ہے۔

    تندرست آدمی کو بھوک بہت لگتی ہے۔ ایک تندرست آدمی بیک وقت دو آدمیوں کی غذا کھا سکتاہے لیکن تنگ دستی کے باعث وہ ایک آدمی کی بھی پیٹ بھرغذا نہیں کھاسکتا تو دُبلا ہونے لگتا ہے۔ ہڈے موترے نکالنے لگتا ہے۔

    تنگ دست آدمی کو چوبیس گھنٹے روپے اور روٹی کی فکر لگی رہتی ہے یا لگا رہتا ہے۔

    فکر مذکر ہے یا مونٔث؟

    فکر کو بعض لوگ مذکر کہتے ہیں اور بعض لوگ مونث۔ لیکن میری رائے میں اگر فکر زیادہ ہو تو ’’فکر‘‘ مذکر ہے یعنی آدمی کو فکر لگا رہتاہے مگر اگر فکر کم ہے تو مونث ہے یعنی آدمی کو فکر لگی رہتی ہے۔

    خیر بہرحال اگر آدمی کو پیٹ بھر روٹی بھی ملتی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ فکر لگی ہوئی یا لگا ہوا ہے تو آدمی اسی طرح دبلا ہونے لگتا ہے جس طرح سائیکل کے ٹیوب یا فٹ بال کے بلیڈر میں بڑا ننّھا سا پنکچر ہوجائے اور آہستہ آہستہ ہوانکلنے لگے۔

    تندرست آدمی فکرمند اور تنگدست ہوجائے تو دیکھے ہی دیکھتے اس کا گوشت اندر اور ہڈیاں باہر نکل آتی ہیں اور لوگ باگ مذاق اڑاتے ہیں۔

    وہ دیکھو مچھّر پہلوان

    وہ دیکھو پّدی پہلوان

    میرا ذاتی تجربہ تو کہتا ہے کہ تندرستی نہ ورزش میں ہے نہ آب وہوا میں، تندرستی اگر ہے تو صرف پیسے میں ہے۔ صرف پیسہ ہو تو آدمی اب وہوا خرید سکتاہے یعنی کراچی کو چھوڑکر راولپنڈی میں آباد ہوسکتاہے، سوئٹزر لینڈ میں رہ سکتا ہے۔ بھینس خرید سکتا ہے، خالص دودھ پی سکتا ہے، خالص گھی کھاسکتا ہے، مرغی کا سوپ پی سکتاہے۔ شوربہ پی سکتا ہے۔ ، انڈے کھا سکتاہے، ہار لکس اور ا وولٹین پی سکتا ہے جب چاہے وٹامن کی گولیاں پھانک سکتا ہے، روٹی کے بعد فروٹ کھا سکتا ہے۔ بیمار ہو تو فوراً علاج کرواکر فوراً تندرست ہوسکتاہے، اِسی لئے تو سالکؔ نے کہا،

    تنگ دستی اگر نہ ہو سالکؔ

    تندرستی ہزار نعمت ہے

    لیکن اس کے برعکس آدمی تنگ دست ہو اور وہ تندرست ہونے کے لئے خوب ڈنڈ پیلے اور بیٹھکیں نکالے تو اس کا جسم کچھ عرصے کے لئے بن جائے گا لیکن ڈنڈ بیٹھکوں کی وجہ سے اسے خوب کھُل کر بھوک لگے گی اور کھانے میں اسے سُوکھی روٹی اور مسور کی دال ملے گی تو چند دنوں میں ڈنڈ پیلتے پیلتے یا بیٹھکیں نکالتے نکالتے یا تو بے ہوش ہوجائے گا یا پھر عفر لہا ہوجائےگا اور لوگ عربی میں بولیں گے؛

    انا للہ وانا لیہ راجعون

    تنگ دستی کے ساتھ ساتھ تندرستی کے اور بھی بڑے نقصانات ہیں۔ تندرست آدمی کو نیند بڑی گہری آتی ہے اور چور اس کی گہری نیند سے جائز ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں اور اس کا گھر لوٹ کر لے جاتے ہیں۔ چور تنگدست کے گھر اس لئے چوری کرتے ہیں کہ تنگدست کے گھر دولت مند آدمی کے گھر کی طرح پہرے پر نہ چوکیدار ہوتا ہے اور نہ کُتّا۔

    تنگ دست تندرست جب کسی بس یا ٹرام یا ریل میں اپنی سیٹ پر آرام سے بیٹھتا ہے تو لوگ اسے ڈانٹتے ہیں۔

    ’’کمبخت ہٹا کٹا آدمی اس طرح آرام سے بیٹھا ہے اور بوڑھے، ضعیف، دُبلے، بیمار یوں کھڑے ہیں، اٹھ اپنی سیٹ سے۔‘‘

    تنگ دست تندرست تنگدستی کے باعث اچھے کپڑے نہیں پہن سکتاتو پولیس یہ سمجھتی ہے۔

    ’’تنگ دستی میں یہ آدمی اتنا موٹا تازہ کیسے ہے؟ یہ ضرور کوئی غنڈہ ہے۔‘‘

    چنانچہ پولیس تنگ دست کو غنڈہ ایکٹ میں پکڑلیتی ہے اور اگر شومئی قسمت سے بیچارے کی والدہ بیوہ ہو تو دنیا والے الگ انگلی اٹھاتے ہیں۔

    ’’وہ دیکھو۔ رانڈ کا بیٹا سانڈ۔‘‘

    تنگ دست تندرست کا مالک اس کا جتنا کام لیتا ہے، اتنا دوسرے مریل ملازمین سے نہیں لیتا۔ وہ ہمیشہ تنگ دست تندرست سے یہی کہے گا۔

    ’’ماشاء اللہ اتنے ہٹّے کٹّے ہو، چلو تم ہی یہ کام کردو، وہ دوسرا تو مریل ٹٹّوہے۔‘‘

    سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ تندرست تنگدست بڑا کثیرالعیال ہوتاہے۔

    غیرملکی باشندوں کو عام طورپر یہ شکایت ہے کہ پاکستان کے باشندے تندرست نہیں ہوتے۔

    پاکستانی باشندے بھلا تندرست کیسے ہوسکتے ہیں؟

    ۱۔ راشن کارڈ پر روٹی کھاتے ہیں۔

    ۲۔ پانی ملا دودھ یا دودھ ملا پانی پیتے ہیں۔

    ۳۔ پنجاب کا خالص گھی کھانے کے بجائے خالص پنجاب کا گھی کھاتے ہیں یعنی پنجاب کا نام تو خالص ہوتا ہے مگر گھی خالص نہیں ہوتا۔

    ۴۔ کسی دعوت میں فروٹ کھائیں تو کھائیں لیکن اپنے پلّے سے کبھی فروٹ نہیں کھا سکتے۔

    ۵۔ وہ چاہے پیٹ بھر کر بھی کھانا کھالیں لیکن تفکّرات انہیں کھاتے رہتے ہیں۔

    آدمی تندرست اسی وقت ہوسکتا ہے جب کہ وہ ’’دھن درست‘‘ ہو۔

    ’’دھن درست‘‘ ہو تو آدمی بھی تندرست‘‘ ورنہ پھر

    تنگ دستی بھی ساتھ ہو سالک

    تندرستی ہزار نعمت ہے۔

    مأخذ:

    ہنسے اور پھنسے (Pg. 106)

    • مصنف: ابراہیم جلیس
      • ناشر: راجیو پرکاشن، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 1978

    یہ متن درج ذیل زمرے میں بھی شامل ہے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے