aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بن بیاہیو ں کی کانفرنس

ہاشم عظیم آبادی

بن بیاہیو ں کی کانفرنس

ہاشم عظیم آبادی

MORE BYہاشم عظیم آبادی

    اپنی نوعیت کی یہ پہلی کانفرنس ہے جو انعقاد پذیر ہونے جارہی ہے۔ پوراپنڈال کنواری لڑکیوں سے بھرا ہے۔ نقرئی قہقہے ہر سمت گونج رہے ہیں۔ عطر اور سینٹ کی خشبو سے فضا معطر ہے۔لباس کی رنگا رنگی عجیب دلکش منظر پیش کر رہی ہے۔ بعض لڑکیاں اس قدر اور چست لباس میں ملبوس ہیں کہ ان کا فرش پر بیٹھنا دشوار ہو رہا ہے۔ ساڑی اور غرارے میں ملبوس لڑکیاں انہیں بڑی پسندیدہ نظر سے دیکھ رہی ہیں۔۔۔ یہ ٹیڈی گرلز تہذیبِ نو کی نمائندہ جو ٹھہریں۔۔۔ جب لڑکیوں کے شور و غل اور قہقہے انتہائی عروج کو پہنچ جاتے ہیں تو ایک صاحبزادی مائک پر تشریف لاکر یوں لب کشائی فرماتی ہیں۔

    ’’بہنو! بن بیاہیوں کی کانفرنس کی کاروائی شروع ہونے جارہی ہے اگر چہ خلاف توقع بہنوں کو زحمتِ انتظار اٹھانی پڑی ہے جس کے لئے معذرت خواہ ہوں۔۔۔ میں دیدہ دلیر بہن کا نام اس کانفرنس کی صدارت کے لئے پیش کرتی ہوں۔ آپ کی کرتوتوں سے کون واقف نہیں بھلا۔ آپ وہ مشہور و معروف ٹیڈی گرل ہیں جن پر راہ چلتے انگلیاں اٹھتی ہیں۔ کالج کا کونہ کونہ آپ کی خوش مذاقی کا گواہ ہے۔ آپ کی ہستی اس نقطۂ نگاہ سے بھی باعثِ فخر ہے کہ آپ کو بوائے فرنڈ بنانے میں یدِ طولیٰ حاصل ہے۔ میں امید کرتی ہوں کہ دیدہ دلیر بہن ہماری استدعا کو شرفِ قبولیت بخش کر کانفرنس کی کاروائی جلد شروع کرنے کی زحمت گوارہ فرمائیں گی۔‘‘

    دیدہ دلیر صاحبہ بصد عشوۂ و انداز کرسئ صدارت سنبھالتے ہی فضا میں نغمے بکھیرتی ہیں۔

    ’’میں اس لائق تو نہ تھی کہ صدارت جیسے بارِ گراں کی متحمل ہو سکوں۔ لیکن جب ازراہ ِخلوص اس شرف سے نوازا گیا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ میں اپنے کو اس کا اہل نہ سمجھوں۔۔۔ لیجئے کانفرنس کی کاروائی شروع کئے دیتی ہوں۔۔۔ سب سے پہلے بہن فتنۂ دوراں سے گزارش ہے کہ تشریف لائیں اور اپنے خیالاتِ زریں کا اظہار فرما کر ہمیں اور سامعین کو شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔‘‘

    فتنۂ دوراں کالج کی ہونہار طالبہ ہیں۔ بڑی ذہین و فتین اور تیز و طرار۔ یہ صاحبزادی جمپر اور غرارہ زیب تن کئے ہوئے ہیں۔ مگر دوشِ مر مریں اوڑھنی سے بےنیاز ہے۔ دو بڑی بڑی چونٹیاں دونوں شانوں پر ہیں جن کی لمبائی قد کی لمبائی سے شاید ہی کچھ کم ہو تو ہو۔ موصوفہ سامنے آتے ہی ایک فلمی گیت الاپتی ہیں۔

    تم ہم کو بھول جاؤ اب ہم نہ مل سکیں گے

    جی ہاں، یہ فلمی گیت محض تفریحاً پیش کیا گیا ہے۔ لیکن اس کے زیرِ اثر پنڈال میں پن ڈروپ سائلنس کا ہونا اس امر کی دلیل ہے کہ بہنیں کانفرنس کی کاروائی سننے کے لئے ہمہ تن گوش ہیں۔۔۔

    ’’تو پیاری بہنو! بن بیاہیوں کی کانفرنس کی غرض و غایت پر روشنی ڈالنے کی چنداں ضرورت نہیں کیونکہ اس پلیٹ فارم پر ہم سبھی ایک ہی جذبہ کے تحت اکٹھے ہوئے ہیں۔ یہ غورو خوض کرنے کے لئے کہ ہماری حالت اس قدر ناگفتہ بہ کیوں ہے اور کیا وجہ ہے کہ ہمارا مستقبل تاریک سے تاریک تر ہوتا جا رہا ہے۔ مجھےاس سےانکار نہیں کہ ہمارا یہ سن و سال نافہمی، ناعاقبت اندیشی اور الھڑپن کا ہے۔ ہمارے خیالات میں نہ پختگی ہے اور نہ تجربہ کاری کےعناصر ہی۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہیں۔ یا اچھی اور بری باتوں کی تمیز کا فقدان ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ ہماری بے زبانی سے جو کنوار پنے کا طرۂ امتیاز ہے، بے جا فائدہ اٹھایا جائے۔ سبھی بہنیں واقف ہیں کہ رواجاً اور رسماً شادی بیاہ کے معاملہ میں ہماری پسند اور ہماری مرضی کا کوئی دخل نہیں۔ بلکہ ہمارا زبان ہلانا ہی ہماری دیدہ دلیری اور بے باکی تصور کی جاتی ہے۔ مقام ِحیرت ہے بہنو کہ جس کی شادی ہونےجارہی ہو، اسی کےمنہ پرتالے لگائے جاتے ہیں۔ اشارتاً بھی کچھ کہنے کا حق نہیں ہوتا۔

    یہاں تک کہ مرضی کے خلاف دو بول پڑھوا کر والدین اپنے فرض سے سبکدوش ہو جاتے ہیں چاہےاس سبکدوشی کی جدو جہد میں کالج کی فضا میں پروان چڑھنے والی لڑکیاں کسی ایسےفرسودہ خیال کےپلےکیوں نہ پڑ جائیں جن کی قربت پر جہنم کوترجیح دی جا سکتی ہو۔ لیکن ہماری اس بے بسی اورحرماں نصیبی پرکوئی آنسو بہانے والا نہیں۔ ہمارے حسین اور سنہرے خواب شاذو نادر ہی شرمندۂ تعبیر ہوتے ہیں۔ انتہائے ستم یہ ہے بہنو کہ اگر ہم کالج کے کسی قبول صورت لڑکے کو اپنا بنانا چاہیں تو ہرچہار جانب سے ہم پر انگلیاں اٹھتی ہیں۔ اور ہم اپنے ارادے میں اتفاق ہی سے کامیاب ہوتے ہیں۔ مگر سماج کی دو رنگی ملاحظہ ہو کہ ان چھوکروں کو عام چھوٹ ہے کہ وہ اپنی پسند کی لڑکیوں سےعہد و پیماں باندھتے پھریں۔ والدین پر دباؤ ڈال کر اپنی پسندیدہ لڑکی کو شریکِ زندگی بنائیں۔ لیکن سارے قاعدے اور قوانین ہیں تو ہم بے بس، مجبور اور بے زبان کے لئے۔ گویا لڑکیاں پروان چڑھائی جاتی ہیں صرف اس لئے کہ جوان ہو کر کسی کے گھر کی رونق قرار پائیں۔ اور تا عمر کسی کے حکم کی بجا آوری ہی ان کاحاصل زندگی ہو۔

    بہنو! ہمارا لکھنا پڑھنا اور اعلی تعلیم حاصل کرنا صرف بھاڑ جھونکنے کے لئے ہے۔ کیونکہ ادھر ہم سن ِبلوغ کو پہنچے نہیں کہ باواجان پر ہمارے لئے ایک شوہر خریدنے کا بھوت سوار ہوتا ہے۔ تلاش و تجسس کے دوران کسی نہ کسی قیمت پر ایک الو کا پٹھا مل ہی جاتا ہے۔ ادھر اپنا گھر پھونک کر اس نامعقول کو انہوں نے اپنی فرزندی میں قبول کیا نہیں کہ ہمارے لکھنے پڑھنے پر پانی پھرا۔ ہمیں اپنی ذات پر بھی اپنا اختیار نہیں رہتا۔ ہماری زندگی صورتِ پر کار ایک ہی نقطہ کے گرد گردش کرنے لگتی ہے۔ یعنی چولھا پھونکنا، بچے کھلانا، حکم کی تعمیل اور ناز برداریاں۔۔۔لعنت ہے ہماری زندگی پر۔ تف ہے ہمارے کنوارپن پر۔ اور پھٹکار ہے ہماری روشن خیالی پر۔‘‘

    اب بے باک بانو تشریف لائیں، ’’بہنو! ابھی ابھی فتنۂ دوراں نے جن کئی خیالات کا اظہار فرمایا ہے وہ دراصل ہم سبھی بن بیاہیوں کے حالات اور خیالات کی صحیح ترجمانی ہے۔ ان پر مزید روشنی ڈالنے کی کوشش تضیعِ اوقات کو راہ دینا ہے۔ وقت کی تنگی کے پیش نظر نہ تو اس کی گنجائش ہے اور نہ چنداں ضرورت۔ اس لئےمیں صرف اپنےذاتی اظہارِخیال پراکتفا کروں گی۔۔۔ یعنی یہ مرد نگوڑے جو ہماری کمزوری سے فائدہ اٹھا کر روزِ اول سے ہمارے سرتاج بنتے چلے آرہے ہیں اور ہم ان کےتابعِ فرمان،تو اس کی کہیں انتہا بھی ہے یا یہ چکر قیامت تک یوں ہی چلتا رہے گا۔ زمانہ کہاں سے کہاں نکل گیا۔ لوگ چاند پر پہنچ رہے ہیں۔ مشرق کا سرا مغرب سےملایا جارہا ہے۔ روئے زمین کا نقشہ بدل رہا ہے۔ لیکن ہم ہیں کہ سابق دستور مردوں کا کھلونا۔ بچہ پیدا کرنے کی مشین اور کسی کے اشارے پر ناچنے والی کٹھ پتلی ہیں سو ہیں۔ اور اس فرسودہ ڈھکوسلے سے نجات کی صورت نظر ہی نہیں آتی۔جب کہ دو بول پڑھوا کر ہمیں کسی ایسے اجنبی کےحوالہ کیا جاتا ہے جس سےکبھی کی جان پہچان نہیں۔ اس پر یہ دباؤ کہ اس بھڑوے کو اپنا سرتاج اور خدائے مجازی سمجھیں۔۔۔

    بہنو! ہم اپنے والدین کے ظلم و ستم کا بہت شکار رہ چکے۔ ہم نےاپنی بے زبانی کا خمیازہ بھگت لیا۔ اور بھگت رہے ہیں۔ ہم اپنی رائے اور پسندیدگی کو والدین کی خوشنودی پرقربان کرچکے۔ اب ہمارے صبرکا پیمانہ لبریز ہوکر چھلکنے کو ہے۔ وقت کا تقاضا یہ ہے کہ ساری کنواری لڑکیاں شادی بیاہ کے معاملہ میں دخل اندازہوں کیوں کہ یہ زندگی بھرکا سودا ہے۔ ہم اپنے والدین کو مجبور کریں کہ فرسودہ خیالی کو بالائے طاق رکھ کر ہمیں شادی کےپہلے ’کورٹ شپ‘ کی اجازت دیں۔ (تالیاں اورآوازیں۔۔۔ بہت ہی معقول تجویز ہے۔ صدرصاحبہ اس پوائنٹ کونوٹ کرلیں) اور ہاں اس معاملےمیں ہمیں ناکامیوں سے دوچار ہونےکاچنداں احتمال بھی نہیں کیونکہ ہمارے پاس جائزاورناجائز مطالبات منوانے کا بہترین حربہ ’بھوک ہڑتال‘ ہے (تالیاں) اس کےعلاوہ اس راہ کی ساری کٹھنائیوں کا ہم بن بیاہیوں ’زنانہ وار‘ مقابلہ کرنےکوتیارہیں،

    ’’سربکف جوہواسےجان کا ڈرکیا ہوگا۔‘‘

    ’’اب شرمیلی بی بی تشریف لائیں‘‘، صدر صاحبہ نے پکارا۔

    شرمیلی بی بی کالج کی طالبہ ہونےکےباوجود شرم وحیا کی پتلی ہیں۔ سرپر سلیقہ سےآنچل پڑا ہے۔ چہرہ پرسنجیدگی اور وقارہے۔ آوازمیں بلاکی دلکشی اور معصومیت ہےلڑکیاں انہیں دیکھ کرمسکرارہی ہیں۔ کیونکہ ان میں چلبلاپن اور بے باکی کے انداز نہیں ہیں۔ یہ شرم وحیا کی پیکر ہچکچاتی ہوئی یوں گویا ہوتی ہے۔

    ’’بہنو! بیباک بہن کی تقریر جس میں کورٹ شپ کی تجویز پیش کی گئی ہے سن کر صحیح معنوں میں پانی پانی ہورہی ہوں۔ خیدایا تیری پناہ۔ کیا شرم و حیا نام کی کوئی چیز دنیا میں نہ رہی۔ افسوس ہے بہن صاحبہ کی ناپختہ خیالی پر اور اس الھڑ پن پر جس کا وہ شکار ہونے جارہی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کورٹ شپ سے پیدا ہونے والی برئیوں کو بھی زیرِ بحث لایا جائے۔ یہ ہماری انتہائی حماقت ہے کہ ہم ایسے راستے پر گامژن ہونے کے متمنی ہیں جو ہمیں قعرِ مزلت میں پہنچا کر دم لے۔۔۔ لہٰذا۔۔۔‘‘ (ہر طرف سے آواز۔۔۔ بیٹھ جائیے شرمیلی بی بی۔بیٹھ جائیے۔ ہم یہ بکواس نہیں سن سکتے۔ لعنت ہے اسکا مخالفت پر)

    شرمیلی بی بی گھبرا کر بیٹھ جاتی ہیں۔ اور صدر صاحبہ پکارتی ہیں، ’’اب منہ پھٹ بیگم تشریف لاکر اظہارِ خیال فرمائیں۔‘‘

    ’’بہنو! ہماری اس کانفرنس میں اگردوچارعدد شرمیلی بی بی کے خیال کی نکل آئیں تو ہوچکی ہماری یہ کانفرنس۔ لہٰذا آ ئندہ کانفرنس میں ایسے مولویانہ خیال کی لڑکیوں کے داخلہ پر پابندی عائد کی جائے۔ ساتھ ہی پر زور سفارش کروں گی کہ کورٹ شپ کے متعلق ضرور ریزولیوشن پاس کئے جائیں تا کہ شادی کے بندھن میں بندھنے کے پہلے کورٹ شپ کے ذریعہ ہم کنواریاں یہ اندازہ لگا سکیں کہ میاں صاحبزادے کتنے پانی میں ہیں اور یہ زندگی کی گاڑی صاحبزادےسلمہ کے ساتھ چل سکے گی یا کچھ دور جاکر الٹ جانے (derailment) کاخطرہ ہے۔

    بہر حال اب میں اپنے ذاتی خیالات کا اظہار کرنے جارہی ہوں یعنی ہمیں یہ دیکھ کر سخت صدمہ ہوتا ہے کہ ناجائز مطالبات پورے نہ کئے جائیں۔ آخرایسا کیوں ہوتا ہے۔ کیا اسی دن کےلئےہم جنم لیتے ہیں۔خدا کی قسم اس سے زیادہ ہماری تحقیر اور کیا ہو سکتی ہے۔ لہذا اب اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے لئے ضرورت ہے کہ الٹی گنگا بہائی جائے یعنی ہم سب کنواری لڑکیاں خدا کو حاضر و ناظر جان کر اس وقت تک شادی نہ کرنے کا عہد کرلیں جب تک یہ کارو باری ذہنیت رکھنے والےچھوکرے اپنی حرکاتِ ناشائستہ سے توبہ نہیں کر لیتے۔ خدا کی قسم بہنو۔ دو چار ہی سال کے اندر یہ حرص وہوا کے بندے ہمارے دروازے کی دھول اپنے سروں پر نہ ڈالیں اور ہمارے والدین کے آگے ناگ نہ رگڑیں تو میرا نام منہ پھٹ نہیں۔ جی ہاں۔ اس طریقہ کو اپنانے کے بعد ان خر دماغوں کا حلیہ اس قدر ٹائٹ ہوجائے گا کہ تلک لینے کے بدلے تلک دینے کو تیار ہو جائیں گے۔۔۔‘‘ (تالیاں)

    تقریر کا سلسلہ جاری ہی تھا کہ صدر صاحبہ کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی دیکھ کر گھبرا کر سامعین سے مخاطب ہو کر فر ماتی ہیں، ’’بہنو! کانفرنس کی کاروائی میں ایسا پھنسی کہ مجھے یہ یادہی نہ رہا کہ آج آٹھ بجے شب میں چند بوائے فرینڈ سے میرا appointment ہے۔ کانفرنس کی کاروائی دوسرے روز پر ملتوی کرنے کے قبل رسماً اظہار خیال اپنا فرض سمجھتی ہوں۔۔۔

    مختصراً یہ عرض کروں گی کہ یہ کورٹ شپ والی تجویز بہرحال پاس ہونی چاہئے۔ چاہے ہمارے والدین کی طرف سے کیسی ہی مخالفت کیوں نہ ہو۔ اس کے علاوہ الٹی گنگا بہانے والی تجویز سے بھی مجھے پورا اتفاق ہے۔ بلکہ قدرت کو بھی شاید یہی منظور ہے۔ کیونکہ میں دیکھ رہی ہوں کہ الٹی گنگا بہنے کےآثارخود بخود پیدا ہو رہے ہیں یعنی یہ مرد نگوڑے قریب قریب ہمارا لباس اپنا ہی چکے ہیں۔ خیر سے مردانگی کے آثار بھی ان کے چہرے سے آہستہ آہستہ رخصت ہی ہورہے ہیں تو انہیں چوڑی پہنتے کیا دیر لگے گی۔۔۔ اور ادھر ہم ٹیڈی گرلز مرد بنتے جارہے ہیں۔ اگر چہ فی الحال ہماری ہمنوا لڑکیاں بہت کم ہیں لیکن اب چونکہ ہمیں الٹی گنگا بہانی ہے اس لئے استدعا کروں گی کہ ساری کنواری لڑکیاں ٹیڈی گرل بننے کی کوشش کریں۔ اس طرح ہمارے چہروں پر مردانگی کے آثار ہویدا ہوجائیں گے۔۔۔ یہ ساری، یہ بلوز اور یہ غرارے فرسودہ ہوچکے ہیں۔ کپڑے کا ڈھیلاپن حسن کا ڈھیلاپن ہے (گھڑی دیکھ کر) اب وہ دن قریب ہے کہ ہماری کوششوں سے الٹی گنگا بہے اور یہ مرد نگوڑے اپنا بے داڑھی مونچھ والا چہرہ برقعوں میں چھپائے پھریں۔۔۔ (پھر گھڑی دیکھ کر) اب میں اجازت طلب کرتی ہوں۔ تاخیر ہونے پر ہمارے بوائے فرینڈ اگر ہم سے ناراض ہوگئے تو لعنت ہے بن بیاہیوں کی اس کانفرنس پر۔‘‘

    مأخذ:

    کانفرنسیں (Pg. 74)

    • مصنف: ہاشم عظیم آبادی
      • ناشر: لیتھو پریس، پٹنہ
      • سن اشاعت: 1983

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے