Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کرکٹ میچ

شوکت تھانوی

کرکٹ میچ

شوکت تھانوی

MORE BYشوکت تھانوی

    بعض دوستوں نے سیالکوٹ چلنے کو کہا تو ہم فوراً تیار ہوگئے مگر جب یہ معلوم ہوا کہ اس سفر کا مقصد کرکٹ میچ ہے تو یکایک سانپ سونگھ گیا۔ سفر کا تمام ولولہ ایک بیتی ہوئی یاد کی نظر ہوکر رہ گیا۔ اب لاکھ لاکھ سب پوچھتے ہیں کہ چکر آگیا ہے۔ فالج گرا ہے۔ قلب کی حرکت بند ہو رہی ہے۔ آخر واقعہ کیا ہے مگر کسی کو کچھ نہ بتا سکتے اس لیے کہ کوئی معمولی بات نہ تھی کہ سرسری طور پر بتادی جاتی۔ اس لیے کہ جس تفصیل کی ضرورت ہے وہ اس وقت میسر نہ تھی۔ اب میسر ہونے کا امکان ہے تو عرض کیے دیتے ہیں۔

    آپ گھبرائیے گا نہیں اور نہ اس کو بدحواسی سمجھیے گا یہ کرکٹ کا قصہ ہے اور ہاکی سے شروع ہو رہا ہے۔ ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم کو ہاکی اور کرکٹ کی فرق معلوم ہے۔ مثلاً ہاکی کا گیند سفید ہوتا ہے اور کرکٹ کا کالا اور مثلاً۔۔۔ مثلاً۔۔۔ یہ۔ مطلب یہ کہ مثال کے طور پر سینکڑوں فرق عرض کیے جاسکتے ہیں۔ خوب یاد آیا مثلاً کرکٹ میں رَن بنائے جاتے ہیں اور ہاکی میں گول۔ ہاکی میں گول کیپر ہوتا ہے اور کرکٹ میں وکٹ کیپر۔ مطلب عرض کرنے کا یہ ہے کہ زمین آسمان کا فرق ہے ان دونوں کھیلوں میں۔ اور ہم کرکٹ کی داستان جو ہاکی سے شروع کر رہے ہیں اس کا بخدا یہ مطلب نہیں ہے کہ اب ہم اتنے ہی گویا گاؤدی ہیں کہ ہاکی کو کرکٹ یا کرکٹ کو ہاکی سمجھتے ہیں۔ بلکہ کرکٹ کی داستان ہاکی سے شروع کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا قصہ اصل میں ہاکی ہی سے شروع ہوتا ہے۔

    اسکول کے زمانے میں ہم ہاکی کھیلاکرتے تھے اور کچھ اچھا ہی کھیلتے تھے کہ ہم کو اسکول کی اس ٹیم میں لے لیا گیا تھا جو ٹورنامنٹ کھیلنے والی تھی۔ چنانچہ ہم ٹورنامنٹ کے میچوں میں کھیلے اور خوش قسمتی سے ہماری ٹیم فائنل میں بھی پہنچ گئی۔ پہنچ کیا گئی، بلکہ جیت ہی جاتی اگر ہماری نظریں عین اس وقت جب کہ ہم آسانی سے گول بچا سکتے تھے تماشائیوں میں والد صاحب پر نہ پڑجاتیں جو آئے تو تھے میچ دیکھنےمگر آنکھیں بند کیے کچھ بڑبڑا رہے تھے اور کچھ عجیب رقت انگیز چہرہ بنا ہواتھا ان کا۔ ہم نے ان کو دل ہی دل میں کہا کہ آج کہاں آگئے اور وہاں شور ہوا گول ہوجانے کا۔ اس شور سے ہم بھی چونکے اور والد صاحب نے بھی آنکھیں کھول دیں اور کچھ ایسی قہر آلود نگاہوں سے دیکھا کہ ہم کو ہاکی سے طبیعت اچاٹ کرکے رکھ دی۔ اب ہماری ٹیم لاکھ لاکھ زور لگاتی ہے گول اتارنے کے لیے مگر معلوم ہوتا ہے کہ اس طرف کی ٹیم کے کسی کھلاڑی کے والد صاحب تماشائیوں میں تھے ہی نہیں۔ نتیجہ یہ کھیل ختم ہوگیا اور ہماری ٹیم ہار گئی۔ اب جس کو دیکھیے وہ ہم ہی کو اس کاذمہ دار ٹھہرا رہا ہے۔

    ’’بھئی یہ ہوا کیا تھا۔ سو گئے تھے کیا؟‘‘

    ’’کمال کردی تم نے گیند ٹہلاتا ہوا تمہارے سامنے سے گول میں چلا گیا اور تم منھ اٹھائے کھڑے رہے۔ حد کردی تم نے بھی۔‘‘

    ’’ہارنے کا افسوس نہیں ہے۔ مگر یہ تو مفت کی ہار ہوئی۔‘‘

    تماشائیوں میں سے ایک صاحب کہتے ہوئے نکل گئے۔ ’’رشوت میں افیم ملی تھی کھانے کو، گولی کھاکر گول کرا لیا۔‘‘

    اب کسی کو ہم کیا بتاتے کہ ہم پر کیا قیامت گزر رہی تھی اس وقت۔ لعنتیں برستی رہیں ہم پر اور ہم سر جھکائے سب کچھ سنا کئے اس لیے کہ واقعی قصور اپنا ہی تھا۔ دوسری اس لعنت ملامت کی پرواہ کس کو تھی۔ دل تو اس وقت کے تصور سے دھڑک رہا تھا جب گھر پہنچ کر والد صاحب کے سامنے پیشی ہوگی۔ بمشکل تمام اس مجمع سے جان بچا کر تھکے ہارے گھر جو پہنچے تو ڈیوڑھی میں قدم رکھتے ہی والد صاحب کی گرجدار آواز سنائی دی۔

    ’’مگر میں پوچھتا ہوں کہ مجھے آج تک کیوں نہ معلوم ہوا کہ صاحبزادے کو خودکشی کا یہ شوق بھی ہے، تم تو یہ کہہ کر چھٹی پاگئیں کہ یہی ہوتا ہے کھیل کود کا زمانہ۔‘‘

    والدہ صاحبہ نے فرمایا ’’تو کیا غلط کہا میں نے کس کے بچے نہیں کھیلتے۔‘‘

    والد صاحب نے میز پر گھونسہ مارتے ہوئے فرمایا۔ ’’پھر وہی کھیل اے جناب یہ موت کا کھیل ہوتا ہے موت کا۔ گولیوں کی بوچھاڑ ہوتی ہے ہر طرف اور خدا ہی کھیلنے والوں کو بچاتا ہے۔ میراصغر علی کا نوجوان لڑکا ہائے کیا تندرستی تھی اس کی۔ اس کھیل کی نذر ہوگیا۔ کلیجہ پر پتھر کا پتھر گیند لگا سانس بھی نہ لی اور جان دے دی۔ باپ نے بڑھ کر پیشانی کو بوسہ دیا اور آج تک کلیجہ پکڑے پھرتے ہیں۔ اگر کچھ ہوجائے اس کے دشمنوں کو تو تمہارا کیا جائے گا۔ میں تو ہائے کرکے رہ جاؤں گا دونوں ہاتھ مل کر۔‘‘

    والدہ صاحبہ نے کہا ’’اللہ نہ کرے ایسے کلمے زبان سے بھی نہ نکالو آئے گا تو سمجھادوں گی کہ یہ جان جوکھوں کا کھیل نہ کھیلا کرے۔‘‘

    والد صاحب نے کہا۔ ’’بخدا جتنی دیر کھڑا میچ دیکھتا رہا گڑگڑا کر دعائیں مانگتا رہا کہ پروردگار تو ہی اس کا حافظ و ناصر ہے۔ اختلاج کے دورے پر دورے پڑ رہے تھے کہ دیکھیے قسمت کیا دکھاتی ہے آج۔ ارےبھئی کھیلنے کو میں منع نہیں کرتا۔ شطرنج کھیلے، پچیسی کھیلے، پروں کے گیند سےایک کھیل کھیلا جاتا ہے، بھلا سا نام ہے اس کا وہ کھیلے، ٹینس تک غنیمت ہے۔ مگر یہ تو ایسا نامراد کھیل ہے کہ میر اصغر علی کلیجہ پکڑ کر رہ گئے تھے۔‘‘

    والدہ صاحبہ نے وہم میں مبتلا ہوکر کہا۔ دور پار مدعی۔ اب بار بار میر اصغر علی موئے کا ذکر کیوں کر رہے ہو، کہہ تو چکی ہوں کہ سمجھا دوں گی۔‘‘

    والد صاحب نےفیصلہ کن انداز سے کہا، ’’میں طے کر رہا تھا کہ علی گڑھ بھیج دوں گا اس کو۔ مگر اب تو جب تک مجھے پوری طرح یقین نہ ہو جائے کہ صاحبزادے کا ان خطرناک مشاغل سے کوئی تعلق نہیں ہے اس وقت تک ناممکن ہے میرے لیے ان کو علی گڑھ بھیج دینا۔‘‘

    ہم نے دل ہی دل میں کہا یہ تو غضب ہوگیا۔ یہاں اسی امید پر جی رہے ہیں کہ اب علی گڑھ جائیں گے۔ ہوسٹل میں رہیں گے۔ کالج میں پڑھیں گے اور صحیح طالب علمانہ زندگی کا لطف تو اب آئے گا۔ اور وہاں اس ہاکی سے خدا سمجھے، اس نامراد نے اس امید پر پانی پھیر کر رکھ دیا۔ اب ڈیوڑھی میں کھڑا رہنا ناممکن بن گیا۔ ہمت کرکے قدم اٹھایا اور اس طرح والد صاحب کے سامنے آگئے گویا کوئی بات ہی نہیں ہے۔ والد صاحب تو انتظار میں بیٹھے ہی تھے، دیکھتے ہیں مخاطب کیا۔

    ’’میاں ذرا بات تو سنو۔ یہ ہاکی کب سے شروع کی ہے۔‘‘

    عرض کیا، ’’جی ہاکی؟ ہاکی سے تو دل کھٹا ہوگیا آج۔ اب کبھی جو کھیلوں میں یہ خطرناک کھیل۔ امی جان مجھے بھلا کیا معلوم تھاکہ ایسا خطرناک ہوتاہے یہ کھیل۔ میں نے تو آج سے کان پکڑلیے بلکہ آج تو یہاں تک ہوا کہ ایک مرتبہ گیند خودبخود میرے قریب آگیا کہ تم میرے پاس نہیں آتے تو میں تمہارے پاس آرہا ہوں مگر میں نے اس کو ڈر کے مارے چھوا تک نہیں کہ نہ جانے کیا واردات ہو۔۔۔‘‘

    والد صاحب نے اطمینان کا سانس لیتے ہوئے کہا۔ ’’میں تو خود حیران تھا کہ یہ تم کو ہاکی کھیلنے کی کیا سوجھی۔‘‘

    عرض کیا، ’’بیوقوفی تھی میری۔ کھیل کی وردی پہننے اور ٹیم کے ساتھ جانے کا شوق تھا۔ مگر اللہ بچائے میرا تو خون خشک ہو کر رہ گیا۔‘‘

    امی جان نے کہا۔ ’’تم سے زیادہ تمہارے ابا جان اپنا خون خشک کرکے آئے ہیں۔ یہ بھی گئے تھے دیکھنے۔‘‘

    ہم نے بڑی معصومیت سے کہا۔ ’’اچھا۔ آپ بھی گئے تھے۔ میں نے نہیں دیکھا۔ مگرمیں تو باز آیا ایسے کھیل سے جن کو جان دینا ہواپنی وہ کھیلے یہ کھیل۔‘‘

    والد صاحب کو سولہ آنے یقین ہوگیا کہ برخوردار ذاتی طور پر ویسے ہی بزدل واقع ہوئے ہیں جیسا وہ چاہتے ہیں اور حسبِ معمول علی گڑھ جانے کا پروگرام بنتا رہا۔ جہاں تک ہاکی سے تائب ہونے کا قصہ ہے وہ بھی جھوٹ نہ تھا۔ ایک تو رعایتی حیثیت سے اس اسکول کی پہلی ٹیم میں لیے گئے تھے۔ دوسرے فائنل میچ میں مخالف سمت سے آنے والے گیند کےساتھ جو اخلاق برت چکے تھے۔ اس کے بعد یہ سوال ہی نہ پیدا ہوتا تھا کہ پھر بھی ہم کو ٹیم میں رہنے دیا جائے گا۔ لہٰذا یہ تائب ہونے والی بات بھی منجانب اللہ کچھ سچ مچ ہی ثابت ہوئی اور ہاکی سے واقعی نجات مل گئی۔ اسکول میں کچھ دن فائنل ہارنےکا یہ قصہ لطیفہ اور ہم اس لطیفے کے ہیرو بنے رہے مگر اس کے بعد بات آئی گئی ہوگئی۔ اور امتحان میں کامیاب ہونے کے بعد تو ہاکی سے کیا اسکول ہی سے کوئی واسطہ نہ رہا۔

    علی گڑھ میں داخلہ لینے کے بعد اس قسم کے جان جوکھم کھیلوں کے علاوہ اور بھی بیشمار تفریحی مشاغل کہ کالج کے باہر کی زندگی بے رونق سی محسوس ہونے لگی۔ اور کچھ ایسا دل لگا کہ حساب جو لگایا تو یہ صرف چار سال کی بہار تھی۔ حالانکہ دل یہ چاہتا تھا کہ یہ جنت اتنی بےثبات تو ثابت نہ ہو۔ چنانچہ اس کا خود ہی انتظام کرنا پڑا۔ کہ اب ایسی بھی کیا جلدی کہ ہر سال پاس ہی ہوتے چلے جائیں۔ اگر ہر جماعت میں صرف ایک ایک سال فیل ہوتے رہیں تو آسانی سےیہ نعمت دوگنی ہوسکتی۔ اور آٹھ سال تک ان دلچسپیوں کے مزے لوٹ سکتے۔ اسی پروگرام کے ماتحت ذرا اطمینان سے پڑھتے رہے۔ بعض سفر ایسے دلچسپ ہوتے ہیں اور راستے کی فضائیں مسافر کو ایسا موہ لیتی ہیں کہ وہ میل ٹرین کے سفر کےبجائے پسنجر میں سفر کرنا چاہتا ہے۔ کچھ اس قسم کی پسنجر ٹرین سے ہم نے کالج، کالج کا سفر طے کرنا شروع کیا کہ ہر اسٹیشن پر ٹھہر ٹھہر کر سفر کر رہے ہیں۔ اسکے متعدد فائدے بیچ پہنچے۔ ایک تو یہ کہ وہ جو خامکاری مسلسل اور متواتر پاس ہونے میں عام طور پر پائی جاتی ہے۔ اور جس کی بدولت حصول تعلیم کا مقصد رفتہ رفتہ فوت ہو جاتا ہے۔ الحمد للہ کہ وہ خامکاری پیدا نہ ہوئے اور پختگی کے علاوہ ایک عجیب ٹھوس قسم کی تجربہ کاری خود بخود پیدا ہوتی رہی۔ اس کے علاوہ کالج کی زندگی کے وہ گوشے بھی دریافت ہوتے رہے جو پاس ہونےوالے طالب علموں کو پاس ہونے کی خود غرضانہ جلدبازی کے بدولت نظر ہی نہیں آتے۔ پھر سب سے بڑی بات یہ کہ جو پاس ہونے والے طالب علم ہوتے ہیں۔ ان کاکام سوائے پڑھنے کے اور کچھ نہیں ہوتا۔

    یہی وجہ ہے کہ عملی زندگی میں جب قدم رکھتے ہیں تو نہایت نامعقول ثابت ہوتے ہیں۔ ملازمت تو خیر مل جاتی ہے، مگر اجلاس کے کٹہرے میں اس طرح بیٹھتے ہیں جیسے طوطا اپنے پنجرے میں چنے کی دال کی کلیا پر بیٹھاکھا رہاہو، نہ ان میں اختراع اور حدّت کی صلاحیت ہوتی ہے، نہ کسی قسم کی اپچ۔ بس لکیر کے فقیر ہوتے ہیں اور صورت سے یتیمی برستی ہے۔

    برعکس ان کے وہ طالب علم جو کالج میں صرف پڑھتے ہی نہیں اور بھی بہت کچھ کرتے ہیں۔ خواہ پڑھے لکھے ثابت نہ ہوں لیکن بہت کچھ ضرور ثابت ہوتے ہیں۔ عجیب مصروف زندگی ہوتی ہے۔ ان مرنجانِ مرنج طالب علموں کی۔ کہیں ٹیم جارہی ہے۔ اور وہ بھی ساتھ ہیں۔ راستہ میں شرارتیں ہو رہی ہیں۔ جس شہر میں ٹیم گئی ہے۔ وہاں کی سیر، دعوتیں، پھر میچ کا معرکہ، کالج میں ہیں تو آج یونین کے انتخابات کی سیاست کے لیڈر بنے ہوئے ہیں۔ کل بھی مشاعرے کی مجلس انتظامیہ کےرکن ہیں۔ پرسوں یونیورسٹی پارلیمنٹ کی حزب مخالف کے رکن رکین ہیں۔ اگر کافی فیل ہوئے تو طالب علموں کے علاوہ پروفیسروں کے بھی دوست ہیں۔ جونیئر قسم کے طالب علموں کے والدین بنے ہوئے ہیں۔ مختصر یہ کہ عجیب ہنگامہ خیز مصروفیت ہوتی ہے اور زندگی تجربوں سے مالا مال ہوتی رہتی ہے۔

    کچھ اسی قسم کی زندگی کالج میں اختیار کر رکھی تھی اور یہ طے تھا کہ جلدی کا کام شیطان کا۔ ہم تو اطمینان سے ذرا سیر کرتے ہوئے کالج سے نکلیں گے اور طالب علم جو نصاب سال بھر میں گھاس کاٹنے کی طرح ختم کردیا کرتے تھے۔ اس کو ہم دل لگا کر دو سال میں ختم کر رہے تھے کہ پہاڑ سر پہ یہ ٹوٹا کہ والد صاحب کی عمر دغا دے گئی اور ہم کو کالج چھوڑنا ہی پڑا۔ مگر اتنے دنوں تک کالج میں رہنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ اپنےشہر میں ایک قسم کی دھاک سی بیٹھ گئی۔ احباب و اعزہ کو جب کالج کے قصے سنانے بیٹھ جاتے تو بڑا اثر ہوتا سب پر۔ ان ہی قصوں میں ایک قصہ کرکٹ کے متعلق بھی تھا کہ کالج چھوڑنے سے ہم کو صرف یہ نقصان پہنچا ہے کہ تعلیم ادھوری رہ گئی مگر خود کالج کو یہ نقصان پہنچا ہے کہ اب مدت تک اس کو کرکٹ کا کپتان نہ ملے گا۔ اتفاق سے یہ قصہ مقامی کرکٹ ٹیم کے کپتان صاحب کو سنا رہے تھے جن کو یہ خبر نہ تھی کہ کرکٹ ٹیم کے ساتھ خود اپنے خرچ سےاِدھر ادھر جانےکا اتفاق تو ضرور ہواتھا مگر آج تک کرکٹ کا بلا چھونے کی نوبت نہ آئی تھی۔ مگر سوال تو یہ تھا کہ وہ ٹھہرے مقامی کرکٹ ٹیم کے کپتان، ان سے آخر ہم بات کرتے تو کیا کرتے۔ اور اتنے دنوں تک علی گڑھ میں رہنے کا رعب جماتے تو کیسے جماتے۔ ان کے نزدیک علی گڑھ کالج میں سوائے کرکٹ کھلانے کے اور کچھ گویا سکھایا ہی نہ جاتا تھا۔ دھوم تھی علی گڑھ کرکٹ ٹیم کی۔ لہٰذا اگر وہ ہمارے قائل ہوسکتے تھے تو صر ف اس طرح کہ ہم اپنے کو اسی مشہور و معروف ٹیم کا کپتان ثابت کریں۔

    مقامی ٹیم کے کپتان صاحب نے کہا۔ کیا بات ہے۔ صاحب علی گڑھ کی ٹیم کی۔ تو گویا آپ کپتان تھے اس کے۔

    عرض کیا، ’’زندگی عذاب تھی صاحب آج بمبئی جارہی ہے ٹیم تو کل دہلی اور پرسوں کلکتے۔ دومرتبہ تو ولایت جانے کے لیے بھی اصرار ہوا بمشکل جان چھڑائی۔ اپنی بات یہ بھی کہ ایک مرتبہ بمبئی میں ایک معرکہ کامیچ ہوا اتفاق سے سب سے پہلے میں ہی کھیلنےگیا۔ اب جناب ہوا یہ کہ میرے علاوہ دس کے دس کھلاڑی آؤٹ ہوگئے اور میں سات سو رن بناکر ناٹ آؤٹ واپس آیا۔‘‘

    کپتان صاحب نے گویا آؤٹ ہوتے ہوئے کہا، ’’جی کیا کہا، سات سو رن ناٹ آؤٹ۔‘‘

    نہایت انکسار سے عرض کیا، ’’ناٹ آؤٹ تو خیر اکثر رہاہوں البتہ رن سب سے زیادہ ملیں، یہی سات سو بنائے۔ اس کے بعد کلکتہ میں بنائے تھے پانچ سو چھیاسی رن۔‘‘

    وہ اور بھی حیرت سے بولے۔ ’’پانچ سو چھیاسی حیرت ہے صاحب۔‘‘

    اور وہ اسی حیرت میں غرق چلے گئے ہم کو کیا معلوم تھا کہ یہ معصوم قسم کا وقتی جھوٹ رنگ لاکر رہے گا، چنانچہ ایک ہفتہ کے بعد وہ چار پانچ کرکٹ کے کھلاڑیوں کا ایک وفد لے کر تشریف لے آئے۔ سب سےاس خاکسار کاتعارف کرایا گیا۔ گویا محض ہمارے بھروسے پر ٹیم ٹورنامنٹ میں داخل کردی ہے اور طے یہ کیا ہےکہ کپتان آپ ہی رہیں گے۔ لاکھ انکار کیا، بہت کچھ سمجھایا کہ کرکٹ چھوڑے مدت ہوچکی ہے۔ مگرتوبہ کیجیے یقین کون کرتا تھا۔ وہاں حساب لگائے بیٹھے تھے کہ ہاتھی لاکھ لٹے گا۔ پھر بھی سوا لاکھ کا۔ سات سو اور پانچ سو چھیاسی رن نہ سہی، دو ڈھائی سو تو مشق چھوٹنے پر بھی بنا ہی لیں گے۔ مختصر یہ کہ کوئی عذر مسموع نہ ہوا اور آخر سرِ تسلیم خم کرناہی پڑا۔

    شامتِ اعمال پہلا ہی میچ ان انگریزوں سے پڑاجو سچ پوچھئے تو اس کھیل کے موجد ہیں اور ان کے بولر ایسے ظالم کہ گیند کیا پھینکتے تھے گویا توپ کاگولہ پھینک رہے ہیں۔ ٹاس میں ہم لوگ جیت چکے تھے اور ہماری ٹیم کھیل رہی تھی۔ کھیل کیا رہی تھی چاند ماری بنی ہوئی تھی۔ چار کھلاڑی آؤٹ ہوچکے تھےاور رن کل آٹھ بنے تھے۔ یہاں یہ حال کہ ایک تو اختلاج کا مرض یوں ہی ہے دوسرے نہ بھی ہوتا تو ظاہر ہے کہ علاوہ عزّت و آبرو کے یہ تو کچھ موت اور زندگی کا سوال بنتا جارہاتھا۔ اگر ان ظالموں کا گیند ذرا بھی ادھر ادھر ہوگیا تو والد صاحب کی روح سےجب عالمِ بالامیں ملاقات ہوگی تو وہ کیا کہیں گے کہ کیوں بیٹا یہی وعدہ تھاتمہارا۔ مگر سوال تو یہ تھا کہ اب کر ہی کیا سکتے تھے۔

    چھٹے کھلاڑی کےآؤٹ ہوتے ہی اب ہم کو جانا تھا۔ کلمۂ شہادت پڑھ کر لگ گارڈ بندھائے جس طرح دوسروں نے بیٹ سنبھالا تھا ہم نےبھی بیٹ سنبھالا اور اب جو اپنے کھلاڑی کے ساتھ روانہ ہوئے تو مجمع نے ’’کیپٹن ان‘‘ کانعرہ بلند کیا اور تالیوں سے فضا گونج اٹھی۔ ان تالیوں سے طائر روح اور بھی مائل پرواز ہوگیا۔ بالکل یہ معلوم ہو رہا تھا کہ جیسے کسی قتل کے مجرم کو پھانسی کے تختے کی طرف لے جارہے ہیں۔ دل میں طرح طرح کے خیال آرہے تھے کہ جدِ اعلیٰ ایک جہاد میں گھوڑے کی پیٹھ پر لڑتے ہوئے شہید ہوئے تھے۔ ایک بزرگ محبت میں ناکام رہ کر دریا میں ڈوبے تھے۔ باقی تمام افرادِ خاندان بستر مرگ پر موت کی کروٹ لے کر اس جہان سے، اس جہان کو سدھارے تھے۔ مگر ہماری قسمت میں کرکٹ کی موت لکھی تھی۔ بہرحال دل کو یہ اطمینان ضرور تھا کہ موت برحق تو ہے ہی اگر کرکٹ کی راہ میں فنا ہوگئے تو اتنے تماشائی نمازِ جنازہ کے لیے مل جائیں گے۔ لوگ تالیاں بجا بجا کر آسمان سر پر اٹھائے ہوئے تھے اور کپتان صاحب کاقلب باؤنڈریاں مار رہا تھا۔ بمشکل تمام وکٹ تک پہنچے اور جس طرح دوسروں نے سینٹر لیا تھا ہم نے بھی اس رسم کو پورا کیا حالانکہ ہمارے ایسے کھلاڑی کے لیے اس کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ سنٹر لے چکنے کے بعد اس دلچسپ دنیا کو ایک مرتبہ پھر حسرت بھری نظر سے دیکھا۔ دل نے کہا،

    چرچے یہی رہیں گے افوس ہم نہ ہوں گے

    اب جو اس گیند پھینکنے والے ملک الموت کو دیکھتے ہیں تو جی چاہا کہ چکرا کر گر پڑیں۔ معلوم ہوتا تھا کہ ایک عظیم الشان چقندر سامنےکھڑا ہے۔ وہ اس وقت کوہِ آتش فشاں نظر آ رہا تھا۔ دل نےکہا کہ اگر اس کے گیند سے واصل بحق ہوگئے تو جنت تک رن بناتےچلے جائیں گے۔ ہمت کرکے بیٹ پر جھکے، ادھر وہ گیند لےکر بڑھا ہی تھا کہ ہم پھر کھڑے ہوگئے اور موت کچھ دیر کے لیے التوا میں پڑگئی۔ مگر بکرے کی ماں آخر کب تک خیرمنائے گی۔ کھیلنےکے لیے تیار ہونا ہی پڑا اور بیٹ پر جھک کر آنکھیں بند کرلیں، دوسرے ہی لمحے محسوس یہ ہوا کہ جیسے ان ہاتھوں میں جن سے بیٹ تھامے ہوئے تھے ایک برقی لہر سی دوڑ گئی اور مجمع نے تحسین و آفرین کا شور بلند کیا۔ معلوم ہوا کہ گیند آیا اور بیٹ سے چھوکر کچھ ایسے زاویہ سے نکل گیا کہ لوگوں کو غلط فہمی پیدا ہوئی کہ یہ کٹ ہماری استادی کا نتیجہ ہے۔ دو رَن خواہ مخواہ بن گئے۔ کاش ایک ہی رن بنا ہوتا اور ہم اس خوفناک بولر کی زد سے بچ گئے ہوتے۔

    نتیجہ یہ کہ پھر کھیلنے کے لیے تیار ہونا پڑا اور جی کڑا کرکے اب کی مرتبہ طے کرلیا کہ ایسی بھی کیا بزدلی، مرنا ہی ہے تو نام کرکے مریں گے۔ اب کی مرتبہ ہٹ لگائیں گے۔ چنانچہ بجائے جماکے بیٹ رکھنےکے بیٹ تان کر کھڑے ہوگئے۔ مجمع نے شور مچایا۔ ساتھیوں نے پریشان ہونا شروع کر دیا۔ خود مخالف کھیلنے والوں کو حیرت ہوئی مگر ہم اپنے ارادے سےباز نہ آئے۔ چنانچہ اب جو گیند آتا ہے اور ہم ہٹ لگاتے ہیں تو سارا مجمع فیلڈ میں ٹوپیاں اچھالتا ہوا چلا آیا۔ قہقہوں سے فضا گونج اٹھی اور ہوش میں آنے کے بعد پتہ چلا کہ کیچ کرنے والے نے بجائے گیند کے بلےّ کا کیچ کیا تھا اور گیند خود ہمارے لیگ گارڈ میں محفوظ تھا۔ مخالف ٹیم اس کو اپنی تذلیل سمجھ رہی تھی کہ یہ کھیل نہیں ہو رہا ہے بلکہ اس کا مذاق اڑایا جارہا ہے۔ بمشکل تمام ان لوگوں کو سمجھایا گیا کہ مشق چھوٹی ہوئی ہے ورنہ علی گڑھ کی ٹیم کے وہ کپتان ہیں جو سات سو رن بنایا کرتے تھے۔ ایمپائر نے تعصب سے کام لے کر ہم کو آؤٹ قرار دیا اور ہم اسی حالت میں اسی وقت گھر پہنچا دیے گئے۔ اس لیے اب تک کرکٹ کا نام سن کر غش آ جاتا ہے۔

    مأخذ:

    (Pg. 166)

    • مصنف: شوکت تھانوی
      • ناشر: آہلو والیہ بک ڈپو، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 1982

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے