Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

فلم ایکٹرس کی ڈاک

حاجی لق لق

فلم ایکٹرس کی ڈاک

حاجی لق لق

MORE BYحاجی لق لق

     

    دراصل سب سے زیادہ ڈاک تو اس سرکاری افسر کی ہوتی ہے، جس نے کلرکی کی اسامی کے لئے اشتہار دے رکھا ہو۔ اوراس سے دوسرے درجے پر اس شخص کی ڈاک ہوتی ہے جس نے امساک کی گولیاں بطور نمونہ مفت کا اعلان کر رکھا ہو۔ لیکن دلچسپ ترین ڈاک صرف دو شخصیتوں ہی کی ہوتی ہے۔ ایڈیٹر کی ڈاک اور فلم ایکٹرس کی ڈاک۔ 

    جس قسم کے خطوط ایکٹرس کو روزانہ موصول ہوتے رہتے ہیں اس کے چند نمونے ہم ذیل میں درج کرتے ہیں۔ پڑھئے اور لطف اٹھائیے۔ 

    فلمی ایڈیٹر کا خط
    محترمہ، تسلیم!

    ’’فلم کی بات‘‘ تازہ پرچہ ارسال خدمت ہے، سرورق پر اپنی سہ رنگی تصویر ملاحظہ فرمائیے اور یاد رہے کہ اس ہفتہ غازی مصطفی کمال پاشا کی تصویر شائع کرنا ضروری تھا کیونکہ رسالہ کے اندر اس کی وہ تقریر درج ہے جو اس نے فلموں کی حمایت میں کی۔ لیکن میری قربانی دیکھئے کہ میں نے اس حقیقت کو جانتے ہوئے آپ کی تصویر شائع کی کہ اگر میں غازی موصوف کی تصویر شائع کرتا تو ان کی فلمی تقریر کے علاوہ انٹریو کانفرنس کی مناسبت سے یہ پرچہ سیکڑوں کی تعداد میں فروخت ہوجاتا۔ لیکن میں نے اس کی پرواہ نہیں کی اور آپ کی تصویر کی مناسبت سے اس تازہ فلم ’’تیرکی نوک‘‘ پر بھی بسیط تبصرہ کر دیا ہے۔ 

    جس میں آپ نے ہیروئن کا پارٹ ادا کیا ہے۔ آپ اس تبصرے کوغورسے پڑھئے اور دیکھئے کہ پارٹ کے اندر جہاں جہاں آپ نے لغزشیں کی ہیں۔ میں نے ان لغزشوں کو آپ کی بہترین خوبیاں ثابت کیا ہے۔ دوست مجھے طعنہ دیتے ہیں کہ تم نے مس۔۔۔ کو دنی بھر کی ایکٹرسوں سے بڑھا دیاہے۔ لیکن میں ان سے کہتا ہوں کہ محترمہ فی الحقیقت دنیا بھر کی ایکٹر سوںکی سرتاج ہیں اور عنقریب بالی وڈ والے آپ کو بلانے والے ہیں۔ 

    پچھلی دفعہ جب میں نے آپ کی ایکٹری پر ایک ہنگامہ خیز مضمون لکھا تھا۔ اس وقت سے آپ کے دشمن میرے رسالے کے خلاف پروپیگنڈا کرنے میں مصروف ہیں اور مجھے بہت نقصان ہو رہا ہے، آپ نے جو دس روپے کا منی آرڈر بھیجا تھا اس سے کاتب کا بل بھی نہ چکایا جا سکا۔ پانچ اور ہوتے تو کم ازکم یہ بلا تو سرسے ٹل جاتی۔ 

    بہرحال آپ میرا خیال رکھیں نہ رکھیں، مجھے تو آپ کی ترقی کا ہر وقت خیال رہتا ہے اور خواہ میرے رسالے کی اشاعت کتنی ہی کیوں نہ گھٹ جائے، میں حق گوئی سے باز نہیں رہ سکتا تھا۔ 

    اور سچ پوچھو تویہ آپ پر کوئی احسان بھی نہیں کیونکہ آپ کے فنی اوصاف پر مضامین لکھنا فن کی خدمت کرنا ہے۔ اور حاضری حسن کی تصریف پر خامہ خرسائی کرنا مصور فطرت کے شاہکار کا اعتراف۔ ساٹھویں سالگرہ مبارک!

    نیاز مند ایڈیٹر


    بیرسٹر کا خط
    مس صاحبہ!

    آداب عرض، 

    اگر آپ اخبارات میں عدالتی کالموں کا مطالعہ کرتی ہیں تو ضروری بات ہے کہ آپ میرے نام سے واقف ہوں، کیونکہ میں نوجوان ہونے کے باوجود نہ صرف اپنے شہر کا ایک کامیاب ترین قانون داں ہوں بلکہ ملک کے ہر حصے میں بلایا جاتا ہوں۔ 

    باعث تحریر آنکہ میں نے ایک مقامی رسالہ ’’داستان فلم‘‘ میں آپ کے خلاف ایک مضمون پڑھا ہے، جو تعزیرات فلم کی دفعہ ۹۹ کی زد میں آتا ہے۔ اور ایڈیٹر پر ’’ازالہ کی حیثیت فلمی‘‘ کا دعوا دائر کیا جاسکتا ہے، رسالہ ایک بڑے سرمایہ دارکی ملکیت ہے اور اس سے بہت بڑی رقم حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس لئے اگر آپ میری مؤکل بننا چاہیں تو میری قانونی خدمات حاضر ہیں اور پانچ ہزار روپے کی ڈگری مع حرجہ خرچہ کے دلانے کا یقین دلاتا ہوں۔ 

    باقی رہا میرے محنتانہ کا سوال، اس کے متعلق عرض ہے کہ مجھے اپنے نیاز مندوں ہی میں شمار کیجئے اور اس وہم میں نہ پڑجائیے کہ میں نقد معاوضہ کے لالچ میں آکر یہ تجویز پیش کر رہا ہوں۔ خدا نے مجھے بہت کچھ دے رکھا ہے۔ 

    البتہ میرا مطلب یہ ہے کہ زرنقد کی بجائے محنتانہ کی اور صورتیں بھی ہوسکتی ہیں۔ اور اصولاً مجھے اورآپ کو کسی نہ کسی صورت پرمتفق ہوجانا چاہیے۔ تشریح کی ضرورت نہیں، آپ ماشاء اللہ عقلمند ہیں۔ البتہ اس سلسلے میں یہ عرض کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ قانون کی روسے کوئی مؤکل اپنے وکیل سے محنتانہ ادھار نہیں کرسکتا۔ 

    یعنی محنتانہ نقد ہو یا بصورت ’’جنس‘‘ ہر حالت میں پیشگی لینا لازمی ہے۔ ورنہ وکیل پر حکومت مقدمہ چلادیتی ہے۔ میں کنگال بنک کے مشہور مقدمہ غبن کے سلسلے میں کلکتہ آرہا ہوں۔ ارشاد ہوتو قدمبوسی کا فخر حاصل کروں۔ 

    بندہ

    بیرسٹر ایٹ لا، عمر۲۵ سال


    کالجیٹ کا خط
    ڈیرمس!

    سالہا سال ہوئے ہیں ترے پیچھے پھرتے
    جنوری تو ہے تو اے ماہ دسمبر ہوں میں

    گھر بار چھوٹا، اپنے پرائے چھوٹے، کالج چھوٹا، سب سے بڑھ کر یہ کہ کرکٹ بھی گیا اور اب دم بھی چھوٹا جارہا ہے۔ میں اس رات پر ہزار ہزار لعنت بھیجتا ہوں، جبکہ سکرین پر آپ کو دیکھا تھا۔ پھر اس روز کو کوستا ہوں۔ جبکہ ایک کیلنڈر پر آپ کی رنگین پکچر دیکھی تھی۔ غالب نے ٹینی سن کی تتبع میں خوب کہا ہے؛

    ہوگیا فوٹو گرافر کا تمہارے ہارٹ فیل
    آدھی کھینچی تری تصویر آدھی رہ گئی

    میری بریف داستان غم یہ ہے کہ آپ کی پکچر دیکھتے ہی میرے دل پر ایک تیرلگا۔ عرصہ تک ان فلموں کو دیکھنے جاتا رہا جن میں آپ نے پارٹ کیا، اورمدتوں آپ کی رنگین پکچر سینے سے لگائے پھرا۔ آخر تاب جدائی نہ رہی توگھر سے دوسو روپیہ چرایا، اور آپ کے ٹائون میں آگیا۔ 

    ڈاکٹر اقبال فرماتے ہیں، 

    ٹائون میں اپنے یہ لیلیٰ نے پوسٹر لگادیئے
     کوئی پتھر سے نہ مارے میرے دیوانے کو

    جب سے یہاں آیاہوں آپ کی کمپنی میں ملازم ہونے کی کوشش کر رہا ہوں ایکٹری تو کیا دربانی بھی نہیں ملتی۔ آپ کی کمپنی کا دفترریلوے کے دفتر سے بھی بڑھ کر ہے۔ کیونکہ وہاں تو صرف اس وقت امیدواروں میں ہجوم ہوتا ہے جب ڈیپارٹمنٹ والوں نے کسی پوسٹ کا اشتہار دے رکھا ہو۔ مگر سٹوڈیو کے باہر تو روز مجھ جیسے بدنصیبوں کا جمگھٹا لگا رہتا ہے اورمجھے میر کا یہ شعر یاد آتاہے؛

    ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
    ا ن کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے

    میں ہر روز آپ کو موٹر کار میں سٹوڈیو آتے جاتے دیکھتا ہوں لیکن انٹرویو کی جرأت نہیں کرسکتا۔ آپ کا مکان بھی جانتا ہوں لیکن مجال نہیں رکھتا کہ گیٹ کے اند ر قدم رکھ سکوں اورآپ کا کتّا؟ ڈائم اٹ روزوشب گیٹ پر پہرہ دیتا ہے اور ہر اجنبی کو دیکھ کر بھوکنا شروع کر دیتا ہے۔ 

    میں آپ کوبے اعتنائی کا الزام نہیں دے سکتاکیونکہ آپ کو علم ہی نہیں کہ کوئی حرمان نصیب اپنے باپ کی لاکھوں روپے کی دولت پر لات مارکر آپ کے دروازے پر پڑا ہے۔ یہ میرا پہلا مکتوب ہے جسے نوٹس سمجھئے اگر آپ نے دوتین روز تک میری خبر نہ لی تو میری لاش پوسٹ مارٹم روم میں نظر آئے گی۔ 
    پتہ۔۔۔ آپ کا دلدادہ

    نوٹ، یا درہے کہ میرے پاس دوتین روپے باقی رہ گئے ہیں۔ 


    زمیندار کا خط
    جان من!

    بڑی احمق ہو اور بہت بے وفاہو۔ میں نے زمین کے دومربعے بیچ کر اس کی تمام آمدنی تم پر نچھاور کردی۔ لیکن تم نے یہ بیوفائی کی کہ ایک مزاحیہ اخبار میں میرا خاکہ اڑا دیا۔ مجھے تو اسی وقت تمہاری کج آدائی کا یقین ہو جانا چاہیے تھا جبکہ میں نے پہلا مربع بیچا تھا اور دو روز تمہارے ہاں قیام کیا تھا۔ 

    اور جب میرے چلے جانے کے بعد تم نے ٹیلی فون پر آغا حشر مرحوم سے کہا تھا کہ ایک دیہاتی الّو خوب پھنسا۔ جانتی ہو کہ مجھے یہ بات کس نے بتائی؟ تمہارے اسی ایڈیٹر صاحب نے۔ میرے گاؤں پہنچنے پر اس نے مجھے چٹھی لکھی۔ تمہاری شوخ چشمی کی داستان بیان کی اور اخباروں کی امداد کی درخواست کی میں نے اسے سوروپیہ بھجوا دیا۔ اب وہی نمک حرام تمہارے کہنے پر اپنے اخبار میں میری گت بنارہا ہے۔ افسوس کہ اس نے میرا نام نہیں لکھا، ورنہ میں ہتک عزت کا دعویٰ کر دیتا۔ بہرحال اب میں تیسرا مربع فروخت کرنے کے لیے تیار نہیں، تاوقتیکہ تم وفاداری کا دعویٰ نہ کرو۔ فصل کٹ جانے کے بعد آؤں گا۔ 

    چودھری


    شاعر کا خط
    جانِ جہاں!

    خدا جانے وہ کیسا زمانہ تھا، جبکہ شعراء کی قدر تھی، قدردان اُمراء کسی شاعر کے ایک شعر پر خوش ہوکر اسے زروجواہر سے مالا مال کردیتے تھے۔ اب تو زبانی داد بھی بمشکل ملتی ہے۔ بقول حضرت اکبرؔ مرحوم؛

    بوسہ کیا ان سے گلوری بھی نہیں پاتا ہوں
    میں روز انہیں جاکے سنا آتا ہوں
    وہ یہ کہتے ہیں، کہ واہ خوب کہا ہے واللہ
    میں یہ کہتا ہوں کہ آداب بجالاتا ہوں

    میں نے آپ کی شان میں نصف درجے قصیدے لکھ کر فلمی رسالوں میں شائع کرائے ہیں او ر ان کی کاپیاں بھی آپ کی خدمت میں بھجواتا رہا۔ لیکن آپ سے اتنا نہیں ہوسکا کہ شکریئے کی چٹھی ہی ارسال کردیتیں۔ میں نے پچھلے دنوں لکھا تھا کہ اپنے دستخطوں سے اپنی ایک تصویر مرحمت فرمائیے۔ لیکن جواب نہ ملا۔ کیا قدردانی فن اسی کا نام ہے؟

    سنا ہے آپ کی سال گرہ قریب آرہی ہے۔ ارادہ ہے کہ ایک قصیدہ لکھ کر خود حاضر ہوں گا۔ 

    والسلام

    خادم

     

    مأخذ:

    پرواز لق لق (Pg. 50)

    • مصنف: حاجی لق لق
      • ناشر: کتابستان نئ، دہلی

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے