Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ہم بھی صاحب جائیداد ہوگئے

شفیقہ فرحت

ہم بھی صاحب جائیداد ہوگئے

شفیقہ فرحت

MORE BYشفیقہ فرحت

    قرض کی مے تو نہیں البتہ چائے ضرور پیتے تھے (کیوں کہ غالب سےازلی اورابدی رشتہ ہے!) اور جانتے تھےکہ ایک دن یہ فاقہ مستی، جس میں سےاب مستی بھی غائب ہوتی جا رہی ہے، ضرور رنگ لائے گی۔

    توصاحب وہ رنگ لائی اورایساچوکھا کہ ہماری عینک زدہ آنکھیں بھی چکا چوند ہوگئیں۔ واقعہ کسی سال کے کسی مہینے کی کسی تاریخ کا ہے کہ ہماری ایک دوست نے شیطانِ اعظم کا رول ادا کیا۔ یعنی ہمیں ورغلا کر اپنے گھر لے گئیں۔ ابھی تصوراتی اطمینان کا روایتی سانس بھی نہیں لیا تھا کہ اطلاع ملی ہمارے کبوتر خانےکا، جسےعرف خاص میں دولت خانہ (اگرچہ دولت سرے سے مفقود ہے) کہا جاتا ہے، تالا توڑ دیا گیا ہے۔

    گھر پہنچتے پہنچتے پوری ایک قوم تعزیت کرنےاور پس ماندگان کو صبرکی تلقین کرنےجمع ہوگئی۔ ان سب کو ہم نے اطمینان دلایا کہ اول تو ہمارا تالا ازل ہی سے ٹوٹا ہوا تھا۔ یہ ہمارے ہاتھ کی صفائی تھی جس سےاس کا بھرم قائم تھا۔ یعنی اسے ہم اس فنکارانہ خوبی سے چپکا دیتےتھےکہ وہ بند معلوم ہونے لگتا تھا، اس لیے اس واردات کو ’تالا توڑنے‘ کا نام نہیں دیا جاسکتا۔

    اوردوسرے یہ کہ دن کواس طرح لٹنےسےرات کو چوری کا خدشہ نہ رہا۔

    اور پھر گھر کی یہ حالت کہ جب جب کوئی آتا ہمیں نہایت ہی فلسفیانہ اور راہبانہ انداز میں پوز بنا کرکہنا پڑتا، ’’آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا۔ ‘‘

    لے دے کے جوتے کے پرانے ڈبے سے مشابہ ایک ریڈیو تھا جس میں ہر وہ اسٹیشن لگ جاتا جسے آپ نہ لگانا چاہتےہوں۔ اورجس میں بیک وقت آدھے پون درجن اسٹیشن سنے جاسکتے تھے۔ ریڈیو سیلون کے بیوپاروبھاگ سے فلم ’پریم کی بلبل‘ کی کہانی، آکاش وانی کے پنچ رنگی پروگرام وودھ بھارتی سےفلمی گانے، ریڈیو پاکستان سےعربی فارسی میں خبریں، بمبئی سےڈرامہ، مدراس سے تامل میں آ۔ آ اور جالندھر سے بلے۔ بلے۔ اورجب یہ نقطۂ عروج پر ہوتےتوایسا معلوم ہوتا کسی میدانِ جنگ سے بمباری کا آنکھوں دیکھا اور کانوں سنا حال سنا یا جا رہا ہو۔ اورایک گھڑی تھی جو ممکن ہےکسی زمانےمیں گھڑی رہی ہو۔ لیکن اب اس میں اس قسم کے کوئی جراثیم نہیں پائے جاتے تھے۔

    توصاحب جب منقولہ اورغیرمنقولہ جائیداد کی زبوں حالی کا یہ عالم ہو تو چوری کا کیا غم!غم تھا تو صرف اس بات کا کہ غریب نے گھر کی ایک ایک چیز الٹنے پلٹنے میں کتنی محنت کی اوراسے واپسی کےلیےبس کا کرایہ تک نہ مل سکا۔ بھلا وہ اپنےدل میں کیا سوچتا ہوگا۔ اس سےزیادہ بےعزتی کی بات اورکیا ہوسکتی ہے۔۔۔؟ کہیں کل کلاں کو وہ الٹا ہمیں ہی منی آرڈر نہ بھیج دے! یا اکھل بھارتیہ چورسبھا بنا کرہم جیسے لوگوں کی فلاح و بہبود کےذرائع نہ سوچنےلگے۔

    خیر جو ہوا سو ہوا۔ مگر اب ایسےآڑے وقتوں کےلیے کہ جب گھر کی عزت پر بن جائے ہمیں کچھ نہ کچھ بچائےرکھنا چاہئے۔ ہماری آمدنی اورخرچ کا حساب کچھ ایسا ترقی پسندانہ تھا کہ ہزاراکاؤنٹنٹ رکھےجانےاورسیکڑوں کمیشن بٹھائےجاتے تب بھی ان کی ایک دوسرے سےدوستی نہ ہوتی۔ اس لیے حساب کتاب کرنا یا بجٹ بنانا ایسا ہی تھا جیسے یو۔ این۔ او میں کشمیرکا مسئلہ اٹھانا۔۔۔ اس جھنجھٹ میں پڑنےکےبجائےہم نےاپنے VETO پاور سے کام لیتے ہوئے نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ، نہ آگانہ پیچھا جھٹ سو روپے اٹھا کے ایسی جگہ رکھوا دیے جہاں وہ ہمارے لیے بھی اجنبی بن گئے۔

    چار، پانچ روزبخیروخوبی گزرگئے اور ہمیں اپنےسوروپوں کی جدائی کا قطعی احساس نہ ہوا۔ بلکہ ہم خاصا فخرمحسوس کررہے تھے کہ ہم بھی صاحبِ جائیداد ہوگئے۔ گردن میں ایک خاص تناؤاورچال میں رعونت پیداہوگئی۔۔۔ اورراوی تویہاں تک کہتا ہےکہ لب ولہجہ میں بھی انقلاب آگیا۔۔۔ ہم جو پہلے ہروقت اپنےجیسےپھکڑلوگوں کےساتھ گپیں ہانکا کرتے تھے اور وہ قہقہے لگاتے تھے جوگزوں اور میلوں تک سنے جا سکتے تھے۔ اب صرف زیرِلب تبسم (کہ جس میں تبسم کم اورمتانت زیادہ ہوتی ہے) سے کام چلایا کرتے۔ اوراس پھکڑ قوم کےساتھ بیٹھنا اور گپیں ہانکنا تواب عہدِ پارینہ کی داستان بن چکا تھا۔ گواس تبدیلی کا ہم پر یہ اثرہواکہ کئی دنوں تک گردن، زبان، جبڑے، ہونٹ اورپیٹ میں شدت کا درد ہوتا رہا۔ طبیعت گری گری رہی۔ کسی کام میں دل نہ لگتا تھا کیا کرتےمجبورتھےکہ صاحبِ جائیداد طبقے کا شیوہ یہی ہے۔

    چھٹے روز ناگہانی طور پر بازار سے گزر ہوا۔ ایک حسین ساڑھی دکان میں لہرارہی تھی۔ ہم نے پہلے اسے دیکھا پھراپنی ڈھائی جگہ سےسلی ساڑھی کو۔ اورایک عاشقانہ سی آہ بھر کے آگے بڑھ گئے۔ کیوں کہ سو روپے بچانے کے لیےلازمی تھا کہ ہم ڈھائی نہیں بلکہ سواتین اورساڑھے چارجگہ سے پھٹی ساڑھی پہنے گھومیں۔

    دو قدم چلنےکےبعد سال بھرپرانی چپل بھی ٹاٹا۔۔۔ بائی، بائی کہنےلگی۔ پھردل پرسوکا نوٹ کہ جو پتھر سے بھی بھاری تھا رکھا اور چپل میں پن اٹکالی۔

    رفتہ رفتہ ہم بکھرے سوکھےبال، سونی آنکھیں، پھیکے ہونٹ اورروکھا ویران چہرہ لیےکالج پہنچنے لگے۔ عوام اورخواص نےسوچا کہ شاید ہمارے کسی عزیزکا انتقال ہوگیا ہے۔ اس لیےہم اتنے سوگوار ہیں۔ یا شاید ہم نے پھرایک نیا عشق شروع کردیا ہے اورجو شد و مد کےلحاظ سے پچھلے تمام ریکارڈ توڑدے گا۔ اس لیےایک طرف توتعزیتی جلسے کا انتظام ہونےلگا تودوسری طرف بڑے رازدارانہ انداز میں مشورے دیےجانےلگے۔ اورتب ہم نےاعلان کیا کہ اس سوگواری میں نہ کسی موت کا ہاتھ ہے نہ رومان کا۔۔۔ سب مایا کا جال اور ہماری چال ہے۔ یعنی ہم نے مبلغ سو روپےبچائےہیں۔ نتیجے کے طور پر ہم اس قابل نہیں رہے کہ لپ اسٹک، پوڈر، کا جل، کریم، تیل کی LUXURIES کو برداشت کرسکیں۔ اگرآپ لوگوں کو یہ خوف ہےکہ آپ کی طبعِ نازک ہماری اس ویران صورت کو برداشت نہ کرسکے گی اورعین ممکن ہے کہ اسی صدمےسے ایک آدھ کا ہارٹ فیل ہوجائے توبخوشی (یا بہ رنج) ہمارے سولہ نہ سہی آٹھ سنگھار کا انتظام کردیجئے ہمیں قطعی اعتراض نہ ہوگا۔

    خیرصاحب صورت پر ڈالیے خاک، کہ یہ خاک سے بنی ہے اور خاک میں ملے گی۔ اورسیرت پر نظر ڈالیے کہ یہ نہ کسی سےبنی ہے نہ کسی میں ملے گی۔ مگر وائے تقدیرکہ یہ سیرت بھی سوروپے یعنی دس ہزارنئے پیسوں کی چمکتی دیوارمیں، زندہ چنی جارہی ہے اور کسی مائی کے لال (افسوس کہ لالی یعنی بیٹی کو قابلِ التفات ہی نہیں سمجھا گیا۔) میں ہمت نہیں کہ اسے کھینچ کےنکال سکے۔

    ہاں وہ قصۂ حاتم طائی یوں ہے کہ حسبِ معمول چند ایسی لڑکیوں نےجن کےچہرےغریب و افلاس کی دھول سے اٹے رہتے ہیں۔ جن کی آنکھیں حسرت ومایوسی کے بوجھ سےجھکی رہتی ہیں۔ جو اپنے آپ کو اس درجہ مجرم سمجھتی ہیں کہ نہ کبھی ہنستی ہیں، نہ مسکراتی ہیں، نہ اچھلتی کودتی ہیں۔ بلکہ ہمیشہ جھکی جھکی رہتی ہیں اوران کا بس چلے تو شاید زمین میں زندہ دفن ہو جائیں۔۔۔ تو ایسی ہی دو لڑکیوں نےداخلے کی فیس کےلیے روپےمانگے۔ کیونکہ انہوں نےسن رکھا تھا کہ حاتم کی قبرپرلات مارنے والی (دھیرے سے ہی سہی) ہستی موجود ہے۔

    لیکن حضور!وہ زمانےتو ہوا ہوگئے۔۔۔ سوروپےنےاس حاتم کی ٹانگیں یوں کس کےپکڑ رکھی تھیں کہ ہلکی سی جنبش بھی ممکن نہ تھی۔ ہاتھ بھی جکڑے ہوئےتھے۔ پتہ نہیں کیسےسو روپوں کی یہ دیواراتنی اونچی نہ ہوپائی تھی کہ آنکھوں کوڈھک لیتی۔ توآپ کی یہ حاتم طائی سو روپےکی اس جھلملاتی دیوارکی آڑمیں کھڑی بے بسی سےان جھکےہوئےسروں، جھکی ہوئی آنکھوں اورگڑے ہوئے قدموں کو دیکھتی رہی۔

    ظاہر ہے جائیداد یوں لٹائی نہیں جاتی۔۔۔

    مہینےکے پندرہ دن گزرگئے۔ پکچرہم نے دیکھی نہیں۔ کینٹین میں چائے پینی (اپنے پیسے سے) چھوڑدی۔ لوگوں کےگھرآنا جانا بند کردیا کہ بس اور ٹیکسی پر پیسے نہ اٹھیں۔ لیکن پیسےہیں کہ جو اٹھتے ہیں تو بس اٹھتےہی چلے جاتے ہیں۔ بڑے اور چھوٹےغلام علی کی تانوں کی طرح اوراب توتان اس نقطے پر پہنچ گئی ہے کہ چائےکی پتی رخصتی کی تیاری کررہی ہےتو شکر الوداعی گیت گارہی ہے۔ اور آٹا دال چاول تیل گھی وہ زور و شور سےکوچ کے نقارے بجارہے ہیں کہ ہمارے ہوش و حواس تو خیرگم ہو ہی رہے ہیں مگر وہ سو کا نوٹ اسی ما ڈرن مجنوں کی طرح جان بچاتا پھررہا ہےجس کے پیچھے لیلی بیگم کے ڈیڈی اپنی کشمیری چھڑی لیے پھررہے ہوں۔۔۔

    مگرجناب یہ جان اورآن کی فری اسٹائل کشتی ہے۔ اورآپ جانتے ہی ہیں کہ جیت اسی کی ہوتی ہےجسےریفری جتانا چاہےسوآپ کا یہ ریفری حالات کی نزاکت کودیکھتے ہوئے ’آن‘ کےحق میں ہے (کہ اس ترکیب سے ’جان‘ بھی محفوظ رہے گی) تو چاہے جان چلی جائے (ذرا دیرکے لیےفرض کر ہی لیجئے) مگر سو روپےخرچ نہ کیے جائیں گے۔ اورجان کوبچانا بھی ان سوروپوں کی حفاظت کےلیےضروری ہےاس لیے ہم پندرہ دن تک روز چائے ناشتہ اورکھانا باری باری سےدوستوں کے یہاں کھاتےرہیں گے۔ اور حالات سازگار ہوئےتو کپڑے بھی دوسروں ہی کےاستعمال کیےجائیں گے۔ بلکہ کوشش تویہ ہوگی کہ کسی طرح مکان کا کرایہ، بجلی کا بل وغیرہ بھی چندہ کر کے ادا کردیا جائے کہ سو روپے جمع کرنے اور صاحبِ جائیداد کہلانے کا یہی وحدہٗ لاشریک نسخہ ہے۔

    مأخذ:

    لو آج ہم بھی (Pg. 33)

    • مصنف: شفیقہ فرحت
      • ناشر: مدھیہ پردیش اردو اکیڈمی، بھوپال
      • سن اشاعت: 1981

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے