Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

انتساب

یوسف ناظم

انتساب

یوسف ناظم

MORE BYیوسف ناظم

    ادب میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کی نوعیت غیر قانونی نہ سہی، مشتبہ ضرور ہے۔ انھیں میں سے ایک انتساب ہے۔ انتساب نہ تو کوئی صنف ادب ہے نہ ادب کی کوئی شاخ (شاخسانہ ضرور ہے) اردو میں انتساب کو آئے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ یہ دورِ مغلیہ کے بعد کی چیز معلوم ہوتی ہے۔ بہت زیادہ قدیم ہوتی تو اب تک متروک ہو جاتی۔ متروک نہ ہوتی تو مکروہات میں ضرور شمار ہونے لگتی۔ آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں۔ جنہوں نے اچھے دن دیکھے تھے۔ ان دنوں انتساب نہیں ہواکرتا تھا۔ لوگ خوشی خوشی کتابیں پڑھا کرتے تھے (اس زمانے میں کتابیں تھیں بھی کم) انتساب کی تحریک، پڑھے لکھے لوگوں کی اجازت بلکہ ان کے علم و اطلاع کے بغیراچانک شروع ہوئی اور جب یہ شروع ہوئی اس وقت کسی کے ذہن میں یہ خیال بھی نہیں آیا کہ آگے چل کر یہ اتنی خطرناک صورت اختیار کرے گی کہ صرف انتساب کی خاطر کتابیں لکھی جانے لگیں گی اور ان کے شائع کیے جانے کے لیے متعلقہ لوگ جان کی بازی لگا دیں گے۔

    انتساب کو ادب میں اب وہی مقام حاصل ہے جو سترھویں صدی میں شہنشاہ اکبر کے دربار میں بیربل اور راجا ٹوڈرمل کو حاصل تھا۔ بیربل اور ٹو ڈر مل کے فرائض ِمنصبی ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھے اور مزاجاً بھی ان دونوں میں کوئی چیز مشترک نہیں تھی۔ اسی لیے ان دونوں کا نام ایک ساتھ لیا گیا۔ انتساب بھی اپنے صفات کے اعتبار سے اتنے ہی مختلف اور متضاد ہوتے ہیں۔

    ادب کے نصاب میں انتساب اگرچہ اختیاری مضمون ہے لیکن بے انتساب کتاب اس موسیقار کی طرح ہوتی ہے جو سر میں نہ ہو۔ آج بھی اکثر کتابیں یوں ہی چھپ جاتی ہیں یوں ہی سے مراد ایسی جن میں صفحۂ انتساب نہیں ہوتا۔ یہ بھی کوئی بات ہوئی۔ صفحۂ انتساب موجود نہ ہو تو قاری کے ذہن میں پہلی بات یہ آتی ہے کہ مصنف میں قوتِ فیصلہ کا فقدان ہے۔ یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ اپنی تصنیفِ لطیف کو کسی کے نام معنون نہ کر کے مصنف نے کسی کا حق غصب کیا ہےلیکن اسے تساہل تو کہا ہی جاسکتا ہے۔ ایک ادیب میں قوتِ فیصلہ ہونی ہی چاہئے۔ بہت سے ادیب تو اپنے انتسابوں کی وجہ سے پہچانے جاتے اور ترقی کرتے ہیں۔ (انتساب کا کچھ نہ کچھ نتیجہ تو نکلتا ہی ہے) مشکل یہ بھی ہوگئی ہے کہ اگرکتاب میں صفحۂ انتساب نہ ہو تو اسے بداخلاقی بلکہ بدنیتی سمجھا جانے لگا ہے۔ (مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی)

    انتساب ہر کسی کے استعمال کی چیز نہیں ہے۔ اس کے لیے ذرا ترقی کرنی پڑتی ہے۔ مضمون، افسانے، غزل یارباعی کا انتساب نہیں ہوا کرتا۔ تہنیتی اور تعزیتی قطعات جن کے آخری مصرعے سے کسی واقعے یا سانحے کی تاریخ نکلتی ہو (صحیح یا غلط)، انتساب کی تعریف میں نہیں آتے۔ خود قصیدہ بھی جو کافی طویل اور سوائے ممدوح کے دوسروں کے لیے صبرآزما ہوتا ہے۔

    انتساب تو ایک نازک چیز ہوتی ہے اوراہم بھی۔ اس کے لیے پوری ایک کتاب لکھنی پڑتی ہے۔ اس میں ضخامت کی کوئی قید نہیں۔ اگر وہ کتاب نہیں صرف کتابچہ ہے تب بھی اس کا انتساب جائز ہے۔ صندوق اورصندوقچے میں کیا فرق ہے کوئی فرق نہیں۔ بلکہ صندوقچہ زیادہ قیمتی چیزوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

    انتساب اورنذرمیں بڑافرق ہے۔ نذربظاہرانتساب سےملتی جلتی چیز معلوم ہوتی ہے لیکن اسے زیادہ سے زیادہ انتساب کی طرف پہلا قدم سمجھا جاسکتا ہے کچھ شاعراپنی ایک مختصرسی غزل جس میں پورے7شعر بھی نہیں ہوتے کسی پرچےمیں چھپواتےوقت اسے اپنے سے ایک سینئر شاعر کے نام نذر کردیتے ہیں، یہ نجی طور پر توجائز ہے، لیکن اس کی ادبی حیثیت صفر سے بھی کچھ کم ہوتی ہے۔ شاعرتومشاعروں میں اپنا کلام سنانے کے دوران بھی اپنے اشعار(ظاہر ہے انھیں کے ہوتے ہوں گے) مختلف سامعین (جنھیں وہ اپنی دانست میں معززین سمجھتے ہیں) کی نذر کرتے رہتے ہیں اور کسی دوسرے مشاعرے میں وہی نذر شدہ اشعار بانیان مشاعرہ میں سے کسی اور کی خدمت میں پیش کیے جاتے ہیں۔ اسے انتساب سےکیا تعلق ہوسکتا ہے۔ اسے نذر کہنا بھی خوش اخلاقی ہے۔ یہ صرف ایک عادت ہے جو مصالحِ انتطامی کی بنا پر اختیار کی جاتی ہے اور یہ رفتہ رفتہ اتنی جڑ پکڑ لیتی ہےکہ شاعر سے صرف اسی وقت چھوٹتی ہے جب اس کا مشاعروں میں آنا جانا موقوف ہوجاتا ہے۔

    اس کے برخلاف انتساب یوں جگہ جگہ استعمال کرنے کی چیز نہیں ہے بلکہ اس کی ایک مستقل اور دائم حیثیت ہے، یعنی اگراتفاق سے (جسے حسنِ اتفاق نہیں کہا جاسکتا) کسی کتاب کے دوسرے اڈیشن کے چھپنے کی نوبت آئے تو اس اڈیشن میں بھی، سابقہ انتساب حسبِ حال برقرار رہے گا چاہے ممدوح کی وفات ہی کیوں نہ واقع ہو چکی ہو۔ اپنا بیان مع اندازِ بیان اوراپنا کلام مع زورِ کلام کسی حد تک واپس لیا جاسکتا ہے لیکن ایک مرتبہ کے کیے ہوئے انتساب پر ہاتھ نہیں ڈالا جاسکتا، یہ کمان سے نکلے ہوئے تیر کی طرح ہوتا ہے۔

    انتساب کی کئی قسمیں ہوتی ہیں۔ جتنی تصنیفات اتنی ہی قسمیں، لیکن سہولت کی خاطرانھیں چند قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ تقسیم کا عمل ان دنوں بہت ضروری ہےاوراسے مجلسِ اقوام متحدہ کی تائید حاصل ہے۔

    انتساب کی موٹی موٹی قسمیں یہ ہیں۔

    حروف تہجی کے نام۔ اس انتساب میں قارئین کو پتا نہیں چلتا کہ اس تصنیف کا اشارہ کس کی طرف ہے۔ اس کا فیض مصنف اور ممدوح کی حد تک محدود رہتا ہے ان دونوں کے قریبی دوستوں اور چند مخصوص سہیلیوں کوالبتہ اس بات کی اطلاع ہوتی ہے کہ اس حروف تہجی کے پردہ نگاری کے پیچھے کون چھپا ہوا ہے۔ یہ بات آہستہ آہستہ کوٹھوں چڑھتی ہے۔ (اب تو لفٹ کی بھی سہولت موجود ہے)

    ایسی کوئی کتاب جس کا انتساب حرف الف کے نام کیا گیا ہو ہماری نظر سے نہیں گزری، لیکن کہیں نہ کہیں کوئی ضرور۔ ’ب‘ کا انتساب ہم نے ضروردیکھاہے۔ غالباً یہ کوئی مجموعۂ کلام تھا۔ اسی طرح سب تو نہیں لیکن کئی حروف تہجی انتساب میں کار آمد ثابت ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پرسلام بن رزاق کی کتاب’ع‘ کے نام ہے۔ اب یہ ’ع‘ ظاہر ہے عبدالسلام یا عبیداللہ نہیں ہوسکتے۔ ان دونوں میں سے کوئی ہوتے تو علی الاعلان سامنے آتے۔ حروف تہجی کے انتساب ہمیں بہرحال پسند ہیں۔ ہندستان میں تھوڑا بہت پردہ ابھی باقی ہے۔

    بے نام کے انتساب۔ اس قسم کے انتساب بھی مقبول ہیں اور ان میں مصنف ذرا سی محنت کرے تو بڑی نزاکتیں پیداکرسکتا ہے۔ اکثر مصنفین اس میں بہت کامیاب ہوئے ہیں۔ بشر نواز نے جب اپنا مجموعۂ کلام ’رائیگاں‘ شائع کیا تو اس کا انتساب اس طرح کیا،

    ’’نام پر

    اس حسین کے، جس کا نام

    نیلگوں آسمان کے صفحے پر

    روشنی کے قلم نے لکھا ہے۔ ’’

    یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ یہ انتساب رائیگاں نہیں کیا ہوگا۔

    بےنام کےانتساب کا اشارہ کئی لوگوں کی طرف بھی ہوسکتا ہے جن کی شناخت ایک مسئلہ بن سکتی ہے۔ شمس الرحمن فاروقی نے جب اپنی کتاب ’نئے افسانہ نگاروں کے نام‘ معنون کی تو کئی افسانہ نگار جو کافی پرانے تھے اس انتساب کی خاطر نئے بن گئے (حالانکہ ادب میں دل بدلی ہوتی نہیں ہے) ایک نوجوان نے تو ہر کسی سے پوچھنا شروع کردیا کہ کیا آپ نے فاروقی صاحب کی وہ کتاب ’افسانے کی حمایت میں‘ پرھی ہے جس کا انتساب میرے نام ہے۔ ایک اورنوجوان چارقدم اورآگے نکل گئے اورفرمایا کہ اب جب کہ میرے نام یہ کتاب معنون ہی کردی گئی ہے تو میں بھی افسانے لکھنے پر مجبور ہوگیا ہوں۔ کسی دن لکھ ڈالوں گا کیوں کہ پلاٹ کی ضرورت تو ہے ہی نہیں۔

    اسی طرح بلراج کو مل نے اپنی ’نژاد سنگ‘ بچھڑے ہوئے دوستوں کے نام معنون کی ہے اور آج کل بچھڑے ہوئےدوستوں کی تعداد ’جاریہ‘ دوستوں سےکچھ زیادہ ہی ہے۔ شناخت دونوں کی مشکل ہے۔ یوں بھی اب دوست ایک ہی جگہ رہتے ہیں لیکن بچھڑے رہتے ہیں۔ یہ خاموش ادبی معرکہ ہوتا ہے۔

    غلام ربانی تاباں نے ’ذوقِ سفر‘ کا انتساب اس طرح کیا ہے، ’’میرے وہ دوست جنھیں میری شاعری پسند ہے اب اس بوجھ کو سنبھال لیں۔ انھیں کے نام یہ کتاب معنون کرتا ہوں۔‘‘ اس انتساب میں بھی شناخت مشکل ہے۔ کوئی آگے بڑھ کرنہیں کہتا کہ یہ کتاب میرے نام ہے۔

    کرنل محمد خاں نے ’بجنگ آمد‘ کے انتساب میں نہ صرف یہ کہ اپنی وردی سے اپنی بے پناہ محبت کا مظاہرہ کیا ہے بلکہ عملۂ فوج کے بھی ایک مخصوص طبقےسےاپنی دلچسپی کا اعلان کیا ہے۔ وہ اپنے انتساب میں کہتے ہیں، ’’ان تمام لفٹینٹوں کےنام جو ابھی تھے آج ہیں یا آئندہ ہوں گے۔‘‘ مصنف کی ذہانت اورطباعی نے اپنے انتسابیوں کی تعداد کو لامحدود کر دیا ہے، ان کا تواثرہمیشہ برقرار رہے گا۔ کرنل محمد خاں جیسے ذہین شخص کو فوج میں جانے کی کیا ضرورت تھی وہ تو کسی معقول جگہ بھی جاسکتے تھے۔

    تجریدی انتساب بھی دیکھنے میں آتے ہیں۔ یہ خال خال ہیں لیکن ہیں ضرور۔ سب سے پہلا تجریدی انتساب غالباً 1968ء میں کیا گیا تھا جب سریندر پرکاش کی کتاب ’دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم‘ شائع ہوئی تھی۔ یہ انتساب تھا ان تصویروں کے نام جواظہار کےڈرائنگ روم میں آویزاں ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہاں ’اظہار‘ کسی شخص کا نام نہیں ہے۔ شخص کا نام ہوتا تو جلی حروف میں لکھا جاتا اور ایک فٹ نوٹ کے ذریعے وضاحت کی جاتی ہے کہ یہ کون صاحب ہیں۔ یہ بھولا بسرا انتساب اصل میں یوں یاد آگیا کہ 1980ء میں غیاث متین نے اپنے مجموعۂ کلام ’زینہ زینہ راکھ‘ کا انتساب بھی ’جدید اظہار‘ کے نام کیا ہے۔ اوّل الذکر انتساب یقیناً بہتر ہے کیونکہ زیادہ پیچیدہ ہے۔

    کرارنوری کےمجموعۂ کلام ’میری غزل‘ کا انتساب ’انسانی ارتقا‘ کے نام کیا گیا ہے، لیکن اسے زیادہ سے زیادہ نیم تجریدی انتساب کا نام دیا جاسکتا ہے۔ اس میں ابہام کم ہے۔ اس انتساب سے یہ بات ضرور سامنے آئی ہے کہ غزل کا انسانی ارتقا سے قریبی تعلق ہے۔

    کرشن چند نے اپنی ایک تصنیف کا انتساب اس کتے کے نام کیا ہے، جس نے انھیں متھرا میں کاٹ کھایا تھا یہ انتساب تجریدی تو نہیں لیکن تفریحی ضرور ہے اورکہانہیں جاسکتا کہ اس انتساب سے کتنے لوگوں کی حق تلفی ہوئی ہے وہ کتا تو بہرحال بے حد سنجیدہ ہوگیا ہوگا۔ شوکت تھانوی کے بھی ایک انتساب کو تفریحی انتساب کا نام دیاجاسکتا ہے کیونکہ یہ انتساب خود مصنف کے اپنے نام ہے، ’’اقربا پردری کے اس دور میں اپنے نام۔‘‘ تفریح کا عنصرتواس انتساب میں ہے ہی لیکن سچ بات یہ ہے کہ کتاب کسی اورکے نام معنون کی بھی نہیں جاسکتی تھی۔ کتاب ہے ’بیگم صاحبہ۔‘

    فکرتونسوی کے بھی ایک انتساب پرتفریحی انتساب کا اطلاق ہوسکتا ہے لیکن گمان غالب یہ ہے کہ فکر تونسوی نے سچ کہا ہوگا۔ وہ مزاح نگار ہیں اس لیے لوگ اسے تفریحی انتساب سمجھے۔ انتساب ہے، ’’خدا کے نام جو مجھے دنیا میں بھیج کر شرمندہ ہے۔‘‘ کتاب کا نام بھی انہوں نے رکھا تو رکھا ’بدنام کتاب‘ سچ کہنے کی کوئی حد ہے یا نہیں۔

    باقی کے انتساب جو تعداد میں زیادہ ہیں، خالص شخصی نوعیت کے ہیں۔ یہ والدین کے نام ہیں یا بیٹے بیٹیوں، بھائی بہنوں اور دوسرے عزیز واقارب کے نام۔ لیکن ان میں اکثریت بیویوں کے نام انتسابوں کی ہے اور ہونی بھی چاہئے۔ اوّل خویش کی بنا پر نہیں۔ بلکہ اس لیے کے ادب کی تخلیق میں جو بھی وقت صرف ہوتا ہے وہ چرایا ہوا وقت ہوتا ہے اور اگر اس چوری پر بیویاں تحدید عائد کردیں تو آدھی سے زیادہ کتابیں چھپنی بند ہوجائیں۔ انگریزی کی ایک کتاب کا انتساب البتہ کچھ اس طرح کا تھا، ’’اپنی بیوی کے نام جو اس کتاب کی اشاعت میں اگر میرا ہاتھ نہ بٹاتیں تو یہ کتاب آج سے 5 سال پہلے چھپ جاتی۔‘‘

    بیویوں کےنام ایک سےایک خوبصورت انتساب ہم نے دیکھے ہیں۔ اس انتساب کے ساتھ کوئی خوب صورت فقرہ لکھا ہوتا ہے یا کوئی بولتا ہوا مصرع جس میں ایجاب و قبول کی مہک کے علاوہ اور بہت سی ناقابل بیان چیزیں ہوتی ہیں۔ جمیل الدین عالی نے اپنے سفر نامے کا انتساب اس طرح کیا ہے،

    ’’اپنی گھر والی۔۔۔ طیّبہ بانو کے نام‘‘

    عالی تیرا بھید کیاہے، ہر دوہے پہ بل کھائے

    میں جانوں تیرے پاپی من کوگھروالی یاد آئے

    قیاس کہتا ہے اور بآوازِبلند کہتا ہے کہ پاپی من، اس سے پہلےاردو میں صرف ڈاکٹراقبال کے ہاں استعمال ہوا ہے۔ جمیل الدین عالی کا یہ انتساب، انتساب نگاری کی اچھی مثال ہے اور وہ اس لیے کہ شاعر نےخاص انتساب کے لیےایک تازہ شعرکہا ورنہ اکثرشعراکو اپنا پہلےکا کہا ہوا شعریا مصرع نذر کرتے ہوئےدیکھا گیا ہے۔ شریکِ حیات (خواتین) یقیناً تازہ شعر کی مستحق ہوتی ہیں۔ یہ سفرنامہ دوحصوں میں ہے لیکن اس کا دوسرا نصف بھی، نصفِ بہتر ہی کے نام ہے۔

    ’’پھراپنی گھروالی کےنام۔ کم تنخواہ اور پانچ چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ انہوں نے وہ روزوشب اکیلے گزارے جو میں نے سیروتفریح میں خرچ کیے۔ اگر وہ ایسی نہ ہوتیں تو میں بھی ایسا نہ ہوتا۔‘‘ اس آخری فقرے کا مطلب ہرگز ہرگز یہ نہیں ہوسکتا کہ ’’اگروہ ایسی نہ ہوتیں تو میں کبھی اتنے لمبے سفر پر نہ جاتا۔‘‘ ہم سوچتے ہیں ایسا خیال ہمارے ذہن میں آیا کیسے۔

    انتساب میں شعراور مصرعے موقع ومحل کی چیز معلوم ہوتے ہیں (یہاں محل سےمراد وہی ہے جس کےنام کتاب معنون کی جاتی ہے) انتساب کرسی نشینی ہے تو شعر گل پوشی۔

    قیصرالجعفری نے اپنے مجموعۂ کلام ’سنگ آشنا‘ کے انتساب میں بھی خود اپنا شعر استعمال کیا ہے۔ اپنی ’جنت‘ کے نام،

    جو خواب میں دیکھوں گا تجھ کو بھی دکھاؤں گا

    اب تیرا مقدر ہے سچے ہوں کہ جھوٹے ہوں

    انتساب کے لیے خاص طور پر شعر کہنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ شاعرکے کلام میں ایک شعر کا اضافہ ہوجاتا ہے۔

    شریکِ حیات کے نام انتساب کرتے وقت بعض صورتوں میں احترام بھی ملحوظ رکھنا پڑتا ہے۔ اس معاملے میں مشتاق یوسفی سب سے بازی لے گئے اور وہ یوں کہ ان کی کتاب کا نام ہی خاکم بدہن ہے۔ اس لیے ان کے انتساب کا ذکر بس اسی طرح کیا جاسکتا ہے کہ ’خاکم بدہن اور یس فاطمہ کے نام۔۔۔‘ میرے نظریے کی تصدیق کہ ظرافت اور شرافت توام، بہنیں ہیں، ان کے ایک اور انتساب سے ہوتی ہے،

    ’’فضل حسین اور مسرت علی صدیقی کے نام۔

    اچھا ہوں یا برا ہوں پر یار ہوں تمہارا۔‘‘ (زرگزشت)

    پتا نہیں یہ مصرع کس شاعر کا ہے لیکن شعرا کے کچھ مصرعے اور اشعار انتساب کے لیے بہت موزوں اور کاگرثابت ہوتے ہیں اور انتساب میں کچھ اس طرح چسپاں ہوتے ہیں گویا اسی غرض کے لیے کہے گئے ہوں۔ برس ہا برس گزرنے پر بھی ان کی چمک دمک میں کوئی فرق نہیں آتا بلکہ رنگ کھلتا جائے ہے جتنا کہ اڑتا جائے ہے۔ بیدل نے خود اپنےدیوان کا انتساب کیا ہو یا نہ کیا ہولیکن ان کا ایک مصرع بہرحال انتساب کے لیے کافی مقبول ہوا ہے۔ سردار جعفری نے ’ایک خواب اور‘ کے انتساب میں انہی کے مصرعے سے اپنے انتساب کو مکمل کیا ہے،

    کہ گل بدست توازشاخِ تازہ تر ماند

    اور ضربِ کلیم کے انتساب میں ڈاکٹر اقبال نے بھی یہی مصرع بلکہ بیدل کے تین شعر لکھے ہیں جن میں یہ شعر بھی ہے،

    بگیر ایں ہمہ سر مایۂ بہار ازمن

    کہ گل بدست تواز شاخ ِتازہ تر ماند

    فضیل جعفری نے’رنگِ شکستہ‘ کے انتساب کی منزل خسرو کے شعر کی مدد سے طے کی ہے۔ اس کی ایک وجہ شاید یہی ہے کہ ان کا مجموعۂ کلام 1980 میں چھپا تھا۔ جب ہندستان میں خسرو شناسی کا دور دورہ تھا (خسرو کو اس سے پہلے کبھی اتنا نہیں سمجھا گیا) شعر یہ ہے،

    بخدا کہ رشکم آید بدوچشم روشنِ خود

    کہ نظرِ دریغ باشد بچناں لطیف روے

    واقعہ یہ ہے کہ بعض شعر، بوقتِ انتساب ناگہانی طور پر’عطیہ غیبی‘ کی شکل میں مل جاتے ہیں۔ یہ شعر بھی انھیں میں سے ایک ہے۔ (اسے عطیۂ حاضر بھی کہا جاسکتا ہے)

    اردو کے کچھ شعر بھی انتساب کے لیے موزوں قرار پائے ہیں اور مصنف کا حافظہ اگر ساتھ دے تو ایک سے ایک حسبِ حال شعر ہاتھ آسکتا ہے۔ عزیز قیسی نے’آئینہ در آئینہ‘ کا انتساب ’مختارِ من‘ کے نام کیا ہے اور میر کے ایک شعر کا انتخاب کیا ہے،

    آنکھ ہو تو آئینہ خانہ ہے دہر

    منہ نظر آتے ہیں دیواروں کے بیچ

    آئینہ خانہ کے لفظ سے انتساب میں کوئی صنعتِ شعری بھی آگئی ہے جس کا نام اس وقت یاد نہیں آرہا ہے۔ البتہ’مختار من‘ کے نام سے میر کا وہی مصرع ذہن میں آرہا ہے جس میں کہا گیا ہے،

    ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختار کی

    اگر کوئی مصنف اپنی تصنیف کسی شاعر کے نام معنون کرتا ہے تو ایسے موقعوں پر کسی دوسرے شاعر کے مصرعوں کے استعمال کرنے سے بہتر یہ ہوتا ہے کہ خودصاحبِ انتساب کے کسی شعر یا مصرعے سے استفادہ کیا جائے۔ راجندر سنگھ بیدی نے ایک ’چادر میلی سی‘ کے انتساب میں اس نقطے کو پیشِ نظر رکھا ہے اور مجروح سلطان پوری کے نام کتاب معنون کرتے وقت انھیں کا ایک مصرع رقم کیا ہے (رقم بمعنی کوٹ)

    اپنا لہو بھی سرخی شام و سحر میں ہے

    اس انتساب میں قربت اور سہولت دونوں عناصر موجود ہیں۔ غالب کے الفاظ میں اسے تکرارِ دوست کہا جاتا ہے لیکن وہ تکرار نہیں جو بحث و تکرار کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔

    ’انتخاب وجد‘ کے انتساب میں اقبال کا مصرع ’’دلبری باقاہری پیغمبری است‘‘ یہ انتساب حسین کے نام ہے اور حسین مصور ہیں۔ اب انتساب میں کوئی تصویر تو نہیں رکھی جاسکتی شاعر نے اپنا کوئی شعریہاں اس لیے نہیں لکھا کہ حسین کےنام توایک پوری نظم اسی انتخاب میں موجود ہے۔ اسے تاکیدی انتساب کہا جاسکتا ہے۔ اسے پینا ہی پڑتا ہے۔

    انتساب کے لیے کسی ذی روح فرد کی موجودگی یعنی وجود ضروری نہیں ہے۔ جیسے جیسے دن گزرتےجارہے ہیں۔ انتساب میں سہولتیں پیدا ہوتی جارہی ہیں اورانتساب کی اصلی خوبی یہی ہے کہ اسے جس طرح چاہے برتا جائے۔ عتیق صدیقی نے اپنی کتاب ’یادوں کے سائے‘ کا انتساب ان دنوں کے نام کیا ہے جو قاہرہ میں گزرے۔ اس لیے انتساب کسی اہلِ کمال یا کسی خوش خصال یا اہل و عیال ہی کے نام نہیں ماہ و سال کے نام بھی ہوسکتا ہے۔ اس میں کسی کو اعتراض یا شکایت کی گنجائش نہیں ہے۔ بعض انتساب تو وصیت نامے معلوم ہوتے ہیں۔ ایسے انتساب میں ہر کسی کا حصہ ہوتا ہے۔

    مضمون کا انتساب ہوتا نہیں ہے، ورنہ اس مضمون کا انتساب صرف اسی شخص کے نام ہوسکتا تھا جس نے انتساب نگاری کا سنگِ بنیاد رکھا۔ اس وقت چونکہ ادب میں کئی کارآمد بحثیں چھڑی ہوئی ہیں اس لیے ایسے کرائسس کے موقعےپرکوئی نئی بحث چھیڑنا مناسب نہیں معلوم ہوتا۔ فی الحال اس شخص کا نام (جو صرف ایک حرفِ تہجی کی شکل میں ہے) اپنی ہی حد تک رکھنا چاہئے۔

    پس نوشت۔ کچھ کتابیں ایسی بھی ہیں جو خاتون ادیباؤں نے شوہروں کے نام معنون کی ہیں لیکن ان کی تعداد کم ہے۔ یعنی کتابوں کی تعداد نہ کہ شوہروں کی۔ اس طرح کے انتساب سے ایک شریف الطبع اور اچھا خاصا شوہر افسانے اور شعر وغیرہ پڑھنے کی عادت میں مبتلا ہو کر چند دنوں بعد گھر سے اوراس کے بعد اس عالمِ فانی سے دل برداشتہ ہوجاتا ہےاوراس کی زبان پربس یہی مصرع رہتا ہے،

    اکتا گیا ہوں یارب دنیاکی محفلوں سے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے