Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سودیشی ریل

شوکت تھانوی

سودیشی ریل

شوکت تھانوی

MORE BYشوکت تھانوی

    دن بھر کے تھکے ماندے بھی تھے اور رات کو سفر بھی درپیش تھا مگر ’’بندے ماترم‘‘ کے نعروں پر کان کھڑے کرلینا ہماری ہمیشہ کی عادت ہے اور ان نعروں کو بھی ضد ہے کہ ہمارا چاہے جو حال بھی ہو بیمار ہوں، کسی ضروری کام سے باہر جارہے ہوں یا اور کوئی مجبوری ہو مگر یہ کچھ نہیں دیکھتے اور اپنی طرف ہم کو کشاں کشاں کھینچ کر چھوڑتے ہیں۔

    چنانچہ آج بھی یہی ہوا کہ حقہ کا نیچا اور صراحیاں ایک دکان پر یہ کہہ کر رکھ دیں کہ ’’بھائی ابھی آتے ہیں‘‘ اور سیدھے پنڈال میں گھس گئے جہاں ایک صاحب جو صورت سے لیڈر معلوم ہوتے تھے یعنی سر پر گاڑھے کی گاندھی کیپ، داڑھی مونچ سے فارغ البال، ایک لمبا سا کھدر کا کرتہ، ٹانگوں میں وہی کھدر کی دھوتی اور چپل پہنے ہوئے تھے، ایک ہاتھ کو اپنی پشت پر رکھے ہوئے اور دوسرے ہاتھ کو مجمع کی طرف اٹھائے ہوئے اس طرح حرکت دے رہے تھے جیسے ہیڈ ماسٹر اپنے بید کو حرکت دیتا ہے۔ وہ کچھ کہہ بھی رہے تھے مگر معلوم نہیں کیا،

    اس لیے کہ کبھی تو کہتے کہتے مشرق کی طرف گھوم جاتے تھے کبھی مغرب کی طرف اور کبھی کبھی ایک دم سے پیچھے بھی مڑجاتے تھے۔ بہرحال یہ فیصلہ کرنا کہ ہم ان کی پشت کی طرف ہیں یا سامنے۔ اس لیے مشکل تھا کہ ان کو خود قرار نہیں تھا۔ وہ تخت جس پر کھڑے ہوئے وہ گھوم رہے تھے مجمع کے وسط میں تھا اور تمام مجمع کا رخ تخت کی طرف۔ کبھی کسی کی طرف منہ کبھی کسی کی طرف پشت ہوجانے کا سلسلہ جاری تھا اور اسی طرح ان کے الفاظ کبھی نہایت صاف کبھی دور کی آواز کی طرح اور کبھی بالکل نہیں، ہمارے کانوں میں پہنچ رہے تھے۔

    ہاں ایک بات یہ تھی کہ ہماری طرف کے لوگ غل مچانے میں اتّر، دکھن اور پچھم کے لوگوں سے زیادہ ماہر معلوم ہوتے تھے۔ اس لیے ہم تقریر سننے کے معاملہ میں ذرا گھاٹے میں تھے۔ پھر بھی جو کچھ سنا وہ بہت کافی تھا۔ اس لیے کہ شروع سے آخر تک الفاظ بدل بدل کر کبھی انگریزی میں، کبھی اردو میں، کبھی نثر میں، کبھی نظم میں، کبھی ہنس کر، کبھی چیخ کر، کبھی ادھر مڑ کر کبھی ادھر گھوم کر وہی الفاظ کہے جارہے تھے جو ہم نے سن لیے تھے،

    ’’بھائیو! اب وہ وقت نہیں ہے کہ ریزولیوشن پاس ہوں اور رہ جائیں۔ تجاویز منظور ہوں اور شرمندۂ عمل نہ بنیں۔ سرگرمیاں۔۔۔ اب تیار ہوجاؤ۔ ہوشیار رہو کہ تم کو ۳۱/دسمبر ۱۹۲۹ء کے بعد اپنا کام اپنے ہاتھوں انجام دینا ہے۔ اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہے۔ دوسری طرف گھوم گئے۔ خوابِ غفلت سے بیداری کا وقت یہ ہے۔ اور وہاں تم۔۔۔ برٹش گورنمنٹ، سوراج سودیشی، چرخہ، کھدر۔۔۔‘‘ (چیرز کے بعد تقریر ختم)

    دو گھنٹے میں ہم نے صرف یہی سنااور سمجھ لیا کہ ۳۱/دسمبر ۱۹۲۹ء کے بعد سوراج ضرور مل جائے گا۔ غالباً اس سے زیادہ انھوں نے کچھ کہا بھی نہیں ہوگا اور اگر کہا بھی ہو تو ہم کیا کریں ہمارے لیے یہی بہت تھا کہ ۳۱دسمبر کو سوراج ملے گا۔ ہم اسی خیال میں غرق مجمع کو دھکیلتے خود دھکے کھانے کسی نہ کسی طرح باہر نکل آئے۔ دکان پر سے حقے کا نیچا لیا۔ صراحیاں اکّے پر لادیں اور گھر پہنچ گئے۔ اسباب باندھا، کھانا کھایا، حقہ بھرا، آرام کرسی پر لیٹ کر شوق فرمانے لگے۔ گاڑی کےوقت میں ابھی پورے دو گھنٹے تھے اس لیے اطمینان بھی نصیب تھا مگر احتیاطاً شیروانی نہیں اتاری تھی کہ جیسے ہی ڈیرھ گھنٹہ باقی رہ جائے گا اسٹیشن روانہ ہوجائیں گے۔

    لکچر کا خیال اور ۳۱ دسمبر کے بعد سوراج کا مل جانا دماغ میں چکر لگا رہا تھا مگر ہماری سمجھ میں کسی طرح یہ بات نہیں آتی تھی کہ آخر سوراج کے لیے ۳۱ دسمبر کیوں مقرر کی گئی ہے۔ اگر آج ۳۱ دسمبر ہوتی تو ہم اپنی ریل پر سفر کرتے۔ نہ بدیشی گارڈ ہوتا، نہ فارن ڈرائیور، نہ اینگلو انڈین کا علیحدہ درجہ ہوتا۔ ہم خود ہی ریل کے مالک ہوتے چاہے تھرڈ میں بیٹھتے چاہے فرسٹ میں، ہم سے کوئی پوچھنے والا نہ ہوتا۔ ہم خود فرسٹ میں بیٹھتے اور انگریزوں کو تھرڈ میں بٹھاکر خوش ہوتے ہوئے سفر کرتے۔

    ہم یہ سوچ رہے تھے کہ ایک دم سے کان میں پھر وہی ’’بندے ماترم‘‘ کی آواز آئی اور ہم ایک دم سے کھڑے ہوگئے۔ گھر سے باہر نکلے دیکھتے کیا ہیں کہ ایک بڑا جلوس جھنڈوں، جھنڈیوں اور گیسوں سے سجا ہوا ’’بندے ماترم‘‘ کے نعروں سے آسمان اور زمین کو ٹکڑاتا ہوا ہمارے مکان کے سامنے سے گذر رہا ہے۔ ہم نے لوگوں سے پوچھا کہ ’’بھائی یہ کیا ہے؟‘‘ جواب ملا کہ ’’کیا سو رہے تھے؟ خبر نہیں کہ سوراج مل گیا؟‘‘ ہم نے پھر بڑا سا منہ کھول کر کہا۔ ’’سوراج؟‘‘ جواب ملا۔ ’’ہاںسوراج سوراج!‘‘ ہم نے اپنے دل میں کہا کہ ’’واہ بھئی واہ دعا تو قبول ہوئی ہماری اور سوراج مل گیا ان لوگوں کو، ارے ہم کو ملتا تو ایک بات بھی تھی۔‘‘ پھر سوچا کہ ہم اوریہ لوگ کچھ غیر تھوڑی ہیں، ان کو ملایا ہم کو ایک ہی بات ہے مگر اللہ کمال ہوا کہ سوراج مل گیا۔ دل کو کسی طرح یقین نہیں آتا تھا کہ سوراج مل گیا ہوگا۔ حالانکہ ابھی تک جلوس نظروں سے اوجھل نہیں ہوا تھا۔ جب جلوس کی طرف نظریں جاتیں تو یقین ہوجاتا کہ سوراج مل گیا اور جب سوراج ملنے پر غور کرنا شروع کرتے تو دل کہتا کہ ابھی نہیں ملا ہے۔ لیکن آخر جب ہر شخص نے سوراج ملنے کی خوشخبری سنائی تو شک دور ہوا اور ایک آزادانہ و خودمختارانہ سانس لے کر ہم نے پہلی مرتبہ اپنے آپ کو آزاد سمجھا۔ ابھی ہم اپنے آپ کو آزاد سمجھ ہی رہے تھے کہ گھنٹہ نے ٹن ٹن کرکے دس بجادیے یعنی ہم کو خود اسٹیشن چلے جانے کا حکم دیا۔

    ہمارے ایسے آدمی کے لیے سفر شروع کرنے کا یقین لوگوں کو اس وقت ہوتا ہے جب ہم ٹکٹ خریدلیں اور ہم نے بھی اپنی یہ عادت ڈال رکھی ہے کہ سفر کرنے سے پہلے ٹکٹ ضرور خریدلیتے ہیں۔ چنانچہ ہم کو جو سب سے پہلا مرحلہ اسٹیشن پہنچ کر درپیش ہوتا ہے وہ بکنگ آفس کی کھڑکی میں جھانک کر ٹکٹ خریدنے کی درخواست پیش کرنا ہے۔ آج بھی ہم نے بالکل اسی پروگرام پر عمل کیا اور بکنگ آفس کی کھڑکی میں ہاتھ ڈال کر کہا،

    ’’بابوجی! کانپور کا سیکنڈ کلاس کا ٹکٹ دے دیجیے۔‘‘

    بابوجی نے بجائے اس کے کہ ٹکٹ دے دیتے پہلے تو ہم کو گھورا پھر نہایت اطمینان سے فرمانے لگے۔ ’’ایک بات کہہ دیں یا مول تول؟‘‘

    میں سمجھا بابوجی مذاق کر رہے ہیں اور میں ہنس دیا۔ میرے ہنسنے پر بابوجی نے پھر کہا ’’جناب سنیے تین روپے ہوئے۔ لائیے روپے اور ٹکٹ لے لیجیے۔‘‘

    اب تو مجھے اور زیادہ تعجب ہوا اور میں نے کہا،

    ’’جناب تین روپے کیسے ہوئے ایک روپیہ تیرہ آنہ تو کرایہ ہے، آپ کہتے ہیں تین روپے۔ مجھے کانپور کا ٹکٹ چاہیے ہے، کانپور کا سیکنڈ کلاس۔‘‘

    بابوجی نے ذرا ترش ہوکر جواب دیا،

    ’’جناب والا! میں بہرہ نہیں ہوں۔ سن لیا ہے کہ آپ کو کانپور کا سیکنڈ کلاس ٹکٹ چاہیے مگر اسی کے تین روپے ہوئے۔ کوڑی کم نہ لوں گا۔ جی چاہے لیجیے ورنہ جانےدیجیے۔‘‘

    میں، ’’مگر بابو صاحب ابھی پرسوں تک تو ایک روپیہ تیرہ آنہ کرایہ تھا، آج کیا ہوگیا کہ ایک دم بڑھ گیا؟‘‘

    بابو، ’’کل کی بات کل کے ساتھ، آج دیش ہمارا ہے۔ ہم کو سوراج مل گیا ہے۔‘‘

    میں، ’’یہ کہیے کہ سوراج ریل کو بھی ملا۔ اچھا خیر ٹکٹ دیجیے نہیں تو گاڑی چھوٹ جائے گی۔‘‘

    بابو، لائیے روپے۔ اچھا نہ آپ کی بات نہ ہماری بات ڈھائی روپے دے دیجیے اور ٹکٹ لے لیجیے۔‘‘

    بابو صاحب کی ان تمام باتوں پر کچھ تو ہنسی آرہی تھی اور کچھ غصہ آرہا تھا کہ فضول ان باتوں میں وقت ضائع ہو رہاہے۔ گاڑی چھوٹ گئی تو اورمصیبت آئے گی۔ ٹکٹ وکٹ سب دھرا رہ جائے گا۔ آخرکار میں نے طے کرلیا کہ میں بغیر ٹکٹ کے سفر کروں گااور یہ سوچ کر میں بکنگ آفس سے چلنےلگا۔ مجھ کو جاتا ہوا دیکھ کر بابو صاحب نے پھر آواز دی،

    ’’سنیے تو جناب، ٹھہریے توجناب، دیکھے تو جناب، اچھا دو روپے دے دیجیے، آئیے وہی ایک روپیہ تیرہ آنہ دیجیے۔ اب وہ بھی نہ دیجیے گا؟ اچھاآپ بھی کیا کہیں گے، لائیے ڈیڑھ روپیہ۔ اب اس سےزیادہ ہم کم نہیں کرسکتے، ہمارانقصان ہو رہاہے۔‘‘

    جب ہم نےٹکٹ کے بازارکا بھاؤ اس طرح گرتے ہوئے دیکھاتو اور اکڑ گئے اور ناک بھوں چڑھاکر ذرا گردن ترچھی کرکے وہیں سےکہہ دیا ’’ایک روپیہ دیں گے، ایک روپیہ کو دینا ہو تو دے دو۔‘‘

    ہم سمجھے تھے کہ بابو صاحب اس پر راضی نہ ہوں گے مگر واللہ کمال کیا انھوں نے کہ گردن لٹکاکر ذرا دھیمی آواز میں کہنےلگے۔ ’’لائیے صاحب لائیے، بوہنی کا وقت ہے۔ آپ ہی کے ہاتھوں بوہنی کرنا ہے۔‘‘

    ٹکٹ تو ہم نے لے لیا لیکن وہ ٹکٹ ریل کا معلوم نہیں ہوتا تھا۔ نہ اس پر تاریخ پڑی ہوئی تھی اور نہ اس پر کچھ چھپا ہوا تھا۔ بابو صاحب نے ایک کاغذ کے ٹکڑے پر ’’درجہ دوم کانپور‘‘ لکھ کر ایک ٹیڑھی سی لکیر کھینچ دی تھی جو غالباً ان کے دستخط تھے۔ ہم نےٹکٹ کو ادھر سے دیکھا ادھر سے دیکھااور تین مرتبہ غور سے الٹ پلٹ کر دیکھنےکے بعد بابو صاحب کا منہ دیکھنےلگے۔ بابو صاحب بھی ذرا قیافہ شناس تھے۔ ہماری اس حرکت سے وہ ہمارا مطلب سمجھ گئے اور متبسم ہوکر کہنے لگے،

    ’’جناب والا رات کو سوراجیہ ملی ہے ابھی نئے ٹکٹ نہیں چھپے ہیں، وہ دو تین دن میں چھپ جائیں گے۔ آپ کو ٹکٹ سے کیا طلب، آپ تو سفر کیجیے۔ اب آپ سےکوئی کچھ نہ پوچھے گا۔ آپ اطمینان رکھیے۔‘‘

    بابو صاحب نے تسلی تو دے دی مگر ہم دیکھ رہے تھے کہ ٹکٹ پر نہ تاریخ ہے نہ کرایہ نہ فاصلہ اور فاصلہ ہوتا تو کہاں سے انھوں نے تویہ بھی نہ لکھا کہ ہم سفر آخر کانں سے کر رہے ہیں۔ بہرحال یہ سمجھ کر کہ یا تو یہ روپیہ گیا یا ہم تیرہ آنہ کے نفع میں رہے، اسٹیشن میں داخل ہوگئے۔

    اسٹیشن میں حالانکہ سب کچھ وہی تھا جو آج سے قبل ہم دیکھ چکے تھے مگر اس سب کچھ کے باوجود بالکل یہ معلوم ہوتا تھا گویا کسی نے اسٹیشن کو قلابازی کھلادی ہے یا الٹا باندھ کر ٹانگ دیا ہے۔ وہی گھڑی تھی وہی گھڑیال مگر دس بجنے میں ہنوز پچیس منٹ باقی تھے۔ حالانکہ اب گیارہ کا قت تھا۔ اسباب کے ٹھیلے پر پان والا اپنی دکان لگائے بیٹھا تھا۔ قلیوں کا کہیں پتہ نہ تھا۔ ہماری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اسباب کس طرح ریل میں پہنچائیں۔ بمشکل تمام ایک قلی ملا لیکن جیسے ہی اس سے ہم نے اسباب اٹھانے کو کہا اس نے چیں بہ جبیں ہوکر جواب دیا،

    ’’اندھے ہوگئے ہو دکھائی نہیں دیتا کہ ہم قلی ہیں یا اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر؟‘‘

    ہم ’’معاف کیجیے کا غلطی ہوگئی‘‘ کہہ کر پورے ایک گز پیچھے ہٹ گئے۔ اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر صاحب کو سر سے پیر تک بغور دیکھ کر سوچنے لگے کہ ’’یا اللہ یہ کیا انقلاب ہے، پہلے تو اس صورت کے قلی ہوا کرتے تھے اب اگر اس صورت کے اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر ہونے لگے ہیں تو قلی کس صورت کا ہوگا؟‘‘ مجبوراً ہم نے اپنا اسباب خود اٹھایا اور دو مرتبہ کرکے سیکنڈ کلاس کے ڈبہ میں رکھاجہاں پہلے سے ایک جنٹلمین بیٹھے چلم پی رہے تھے۔ اسباب قرینہ سے رکھ کر جب ذرا اطمینان ہوا تو ہم نے سوچا کہ یہ تحقیقات کرلینا چاہیے کہ یہی گاڑی کانپور جائے گی یا کوئی اور؟ سب سے پہلے تو ہم نے انہی حضرت سے پوچھا جو ہمارے ڈبہ میں تشریف فرما تھے۔ لیکن انھوں نے صرف یہ جواب دیا کہ ’’بانی بھیا ہمکا ناہیں مالوم۔‘‘ یہ خالص سودیشی ریل کے سیکنڈ کلاس کے معزز پیسنجر تھے۔ ان سے بھلا کیا معلوم ہوسکتا تھا۔ مجبوراً ہم پلیٹ فارم پر آئے اور دو ایک آدمیوں سے پوچھنے کے بعد یہ معلوم ہوا کہ ’’اگر مسافر کانپور کے زیادہ ہوئے تو وہاں جائے گی ورنہ جہاں کے مسافروں کی تعداد زیادہ ہوگی وہاں چلی جائے گی۔ اسی لیے اب تک انجن نہیں لگایا گیا ہے کہ خدا معلوم ٹرین کومشرق کی طرف جانا پڑے یا مغرب کی طرف۔‘‘ ہم نے گھبراکر پوچھا،

    ’’لیکن یہ فیصلہ کب ہوگا؟‘‘

    جواب ملا کہ ’’جب گاڑی بھرجائے گی اس وقت فیصلہ ہوسکتا ہے۔‘‘

    ہم نے پھر پوچھا۔ ’’لیکن گاڑی کا وقت تو ہوچکا۔‘‘

    جواب ملا کہ ہوجایا کرے جب تک ریل نہ بھرجائے کس طرح چھوڑی جاسکتی ہے، کیا خالی ریل چھوڑ دی جائے؟

    اب ہم بالکل راضی بہ رضا ہوکر خاموش ہوگئے۔ اس انتظام کو بُرا اس لیے نہیں کہہ سکتے تھے کہ ہماری ہی دعا تھی، اچھا اس لیے نہیں کہہ سکتے تھے کہ آج ہی کانپور پہنچنا تھا جس کی اب کوئی امید بظاہر نہیں معلوم ہوتی تھی۔ غرض یہ کہ کبھی اپنے ڈبہ میں بیٹھ کر کبھی لوٹے میں پانی لاکر، کبھی انجن کو مشرق اور مغرب کی سمت حدِّنظر تک ڈھونڈ کر کبھی مسافروں کی تعداد کا اندازہ لگاکر وقت کاٹنے لگے۔ گیارہ سے بارہ، بارہ سے ایک، ایک سے دو بجے مگر نہ گھڑی کی سوئی ہٹی نہ ٹرین اپنی جگہ سےہلی، صرف ہم ٹہلتے رہے۔ خدا خدا کرکے ایک آدمی نے بہ آواز بلند چیخنا شروع کیا’’بیٹھنے والے مسافر بیٹھو گاڑی چھوٹتی ہے۔‘‘

    ہم نے جلدی سے پہلے مشرق کی طرف انجن کو ڈھونڈا پھر مغرب کی طرف مگر دونوں طرف انجن غائب تھا اور ہماری بالکل سمجھ میں نہ آیا کہ بغیر انجن کے گاڑی کس طرح چھوٹ سکتی ہے اور ان الفاظ پر شک کرنا اس لیے کفر سمجھتے تھے کہ ان کا کہنے والا کوئی غیر ذمہ دار شخص نہ تھا بلکہ وہی اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر صاحب تھے جن کو ہم قلی سمجھتے تھے۔ بہرحال بغیر کچھ سوچے سمجھے ہم اپنے ڈبہ میں بیٹھ گئے۔ ہمارے بیٹھتے ہی دو تین درجن لٹھ بند گنوار ہمارے درجہ میں گھس آئے، ان سے ہم نے لاکھ کہا کہ ’’ارے سیکنڈ کلاس ہے، اماں سیکنڈ کلاس ہے، بھائی سیکنڈ کلاس ہے۔‘‘ مگر انھوں نے ایک نہ سنی اور یہی کہتے رہے ’’ہم ہو جانت ہے ڈیوڑھا ہے، ہم ٹکس لیا ہے۔‘‘ خیر صاحب ہم چپ ہو رہے اور پلیٹ فارم پر اس غرض سے آئے کہ کسی سےکہہ دیں مگر گارڈ وارڈ نظر نہ آیا مجبوراً انہی اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر سے عرض کردیا جس کا جواب انھوں نے اپنی سودیشی شان سے صرف یہ دیا۔

    ’’بیٹھیے جناب سب ہندوستانی برابر ہیں، سب بھائی ہیں، سب بھارت ماتا کے سپوت ہیں، کوئی کسی سے بڑا یا چھوٹا نہیں ہے۔ اب سیکنڈ کلاس اور تھرڈ کلاس کے فرق کو بھول جائیے۔ سب کو برابر کا سمجھیے، جائیے تشریف رکھیے نہیں تو تھرڈ کلاس میں بھی جگہ نہ ملے گی۔‘‘

    ہم یہ کھرا جواب سن کر منہ لٹکائے ہوئے اپنے درجہ میں آگئے جہاں ہماری جگہ پر قبضہ ہوچکا تھا اور ہم کو یہ طے کرنا پڑا کہ کھڑے کھڑے سفر ہوگا یا غسل خانہ میں جگہ ملے گی۔ مجبوراً اپنا ٹرنک گھسیٹ کر اس پر بیٹھ گئے اور گاڑی چھوٹنے کا انتظار کرنے لگے۔

    ہم کو بیٹھے بیٹھے بھی ایک گھنٹہ کے قریب ہوگیا۔ گاڑی بدستور کھڑی رہی۔ گھبراکر ہم پلیٹ فارم پر آئے تو دیکھا کہ انجن گاڑی میں لگایا جارہا ہے اور خدا کا شکر ہے کہ کانپور ہی کی طرف لگایا جارہا ہے۔ لیکن انجن لگنےکے بعد بھی گاڑی جب دیر تک نہ چھوٹی تو ہم نے اس تاخیر کا سبب دریافت کیا۔ معلوم ہوا کہ ابھی سیکریٹری صاحب ٹاؤن کانگریس کمیٹی کا انتظار ہے۔ وہ کانپور جائیں گے۔ انھوں نے کہلا بھیجا تھا کہ بارہ بجے آجائیں گے لیکن ابھی تک نہیں آئے۔ آدمی لانے کے لیے گیا ہوا ہے۔

    پہ پہلا موقع تھا کہ ہمارے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا کہ ہم کانپور جائیں یا ایک روپیہ سے صبر کرکے ارادہ ملتوی کردیں۔ کام اشد ضروری تھااس لیے جانا ضروری تھا، گاڑی چھوٹتی نہ تھی۔ اس لیے سفر ملتوی کرنے کا ارادہ تھا۔ عجیب کشمکش میں جان تھی۔ معلوم نہیں وہ کون سا وقت تھا جب ہمارے منہ سے یہ دعا نکلی تھی۔ اب تو اس کو واپس کرنا بھی مشکل تھا اس لیے کہ کفرانِ نعمت کا الزام بھی تو ہم پرلگادیا جاتا۔ ہم اسی غور و فکر میں اپنےٹرنک پر گردن جھکائے بیٹھے تھے کہ ایک دم سے ’’بندے ماترم‘‘ کے فلک شگاف نعروں سےاچھل پڑے۔ معلوم ہوا کہ سیکرٹری صاحب ٹاؤن کانگریس کمیٹی تشریف لے آئے۔ ہم نے بھی کھڑکی میں سے جھانک کر دیکھا تو ایک مجمع میں وہی لیڈر صاحب دکھائی دیے جنھوں نے رات کو تقریر کرکے سوراج دلوایا تھا، اور اب ہم کو معلوم ہوا کہ یہی سیکرٹری ٹاؤن کانگریس کمیٹی ہیں۔

    غرض ان کے تشریف لانےکے بعد ہر شخص اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ گیا اور انجن بھی سن سن کرنے لگا۔ ایک کھدر پوش زیرپا بزرگوار لال اور سبز کاڑھے کی جھنڈیاں لیے ہوئے بھی نمودار ہوئے اور ہم نے اپنی جگہ پرسمجھ لیا کہ یہ گارڈ ہیں۔ ان گارڈ صاحب نے کرتے کی جیب سے ایک سیٹی نکال کر بجائی اور پہلے سرخ پھر جلدی سے سبز جھنڈی اس طرح ہلانے لگے گویا پہلے غلطی سے سرخ جھنڈی ہلادی تھی۔ دو تین مرتبہ سیٹی بجاکر اور جھنڈی ہلاکر آخر غصہ میں انجن کی طرف جھپٹے اور ڈرائیور کو ڈانٹا شروع کردیا۔ گھنٹہ بھر سے سیٹی بجارہا ہوں مگر تمھارے کان میں آواز نہیں آتی اور آنکھیں بھی پھوٹ گئی ہیں کہ جھنڈا بھی نہیں دیکھتے۔

    ڈرائیور نے بھی ان کے بے جا غصہ کا جواب کڑک کر دیا۔ ’’جناب آپ آنکھیں مجھ پر کیوں نکال رہے ہیں۔ میراکیا قصور ہےدوگھنٹہ سے للو فائرمین کوئلہ لینے گیا ہوا ہے۔ کہہ دیا تھاکہ لپک کر جلدی سے لے آ۔ ابھی تک غائب ہے معلوم نہیں کہاں گیا۔ پتہ بھی بتادیا تھا کہ رکاب گنج کے چوراہے سے یا عیش باغ کے پھاٹک سے لے آنا۔ دو چار پیسے کم زیادہ کا خیال نہ کرنا مگر وہ جاکر مر رہا۔ اب بتائیے میرا کیا قصور ہے۔‘‘

    گارڈ صاحب بھی ڈرائیور کو بے قصور سمجھ کر چپ ہوگئے اور کوئلہ کے انتظار میں گاڑی روکنے پر مجبور ہوگئے۔ انجن میں یہ بڑی بری بات ہے کہ وہ بغیر کوئلہ کے چل ہی نہیں سکتا۔ جس طرح گھوڑے کے لیے دانہ گھاس ضروری ہے بالکل اسی طرح جب تک کوئلہ بھر نہ دیا جائے انجن چلنے کا نام نہیں لیتا۔ گھوڑا بیچارہ تو تھوڑی دیر بھوکا بھی چل سکتا ہے مگر یہ اتنا بھی کام نہیں دے سکتا۔ اب بتائیے کہ ریل بھی تھی، انجن بھی، مسافر بھی تھے، گارڈ بھی، سیکرٹری صاحب ٹاؤن کانفریس کمیٹی بھی آگئے تھے اورڈرائیور بھی تھامگر ایک کوئلہ کے نہ ہونے کے سبب کا ہونا نہ ہونا یکساں تھا۔ کامل ڈیڑھ گھنٹہ بعد للّو فائرمین کوئلہ کی گٹھڑی لیے کہ کہتا ہوا آپہنچا،

    ’’آدھی رات کو کوئلہ منگانے چلے ہیں۔ تمام دکانیں بند ہوچکی تھیں۔ ایک دکان پر اتنا سا کوئلہ تھا وہ بھی بمشکل تمام ایک روپیہ نو آنہ میں ملا ہے۔ بھاگتا ہوا آرہا ہوں، راستہ میں گر بھی پڑا تھا۔ تمام گھٹنےچھل گئے کوئلہ وغیرہ دن سے منگالیا کرو۔‘‘

    ڈرائیور نے جلدی سے کوئلہ ڈالا اور سیٹی بجاکر گاڑی چھوڑدی، گاڑی چلی ہی تھی کہ ایک شور مچ گیا۔ ’’روکو۔ روکو، گارڈ صاحب رہ گئے۔‘‘ گاڑی رکی اورگارڈ صاحب کو سوار کرکے چلی۔ ابھی دو فرلانگ بھی مشکل سے چلی ہوگی کہ گاڑی پھر رکی اور گارڈ صاحب نے ڈرائیور سے چلا چلا کر پوچھنا شروع کیا، ’’ارے لائن کلیر بھی لے لیا تھا۔ لائن کلیر۔‘‘ ڈرائیور نے بھی چلاکر جواب دیا۔ ’’لے لیا تھا۔ لے لیا تھا۔‘‘ گارڈ صاحب نے جب اس طرف سے بھی اطمینان کرلیا تو پھر فرمایا۔ ’’اچھا توچھوڑو گاڑی میں سیٹی بجاتاہوں۔‘‘ گاڑی پھر چلی۔

    اب گاڑی کی رفتار کے متعلق ہم نے سوچنا شروع کیا کہ یہ میل ہے یا ایکسپریس، اس لیے کہ اس سے زیادہ تیز شاید ہم خود چل لیتے اور اگر ابھی شرط بد کردوڑیں تو اس گاڑی سے پہلے کانپور پہنچنےکا وعدہ کرتے ہیں۔ ہم سے آخر نہ رہا گیا اور اپنے شریک سفر سے پوچھا۔ ’’کیوں صاحب یہ میل ہے یا ایکسپریس۔‘‘ وہ پہلے ہی کچھ خفا بیٹھے تھے۔ غالباً گاڑی پر ہوں گے، غصہ ہم پر اتارا، اور جھڑک کر فرمانے لگے۔ ’’میاں خدا کا شکر کرو کہ یہ گاڑی ہی ہے، تم میل ایکسپریس لیے پھر رہے ہو۔‘‘ ان کا جواب سن کر ہم نے کھڑکی میں گردن ڈال کر جنگل کی سیر کرنا شروع کردی مگر سیر سے زیادہ دلچسپ منظر یہ تھا کہ راستہ کے نئے مسافر چلتی گاڑی پر سوار ہوتے جاتے تھے اور گاڑی چھک چھک چل رہی تھی۔ اسی رفتار سے چل کر گاڑی اموسی کے اسٹیشن پر رکی۔ اب وہاں ایک نیا جھگڑایہ شروع ہوگیا کہ اسٹیشن ماسٹر اموسی نے ڈرائیور پر خفا ہونا شروع کیا کہ،

    ’’جب تک میں نے سگنل نہیں دیا تم کو اسٹیشن میں گاڑی لانے کا حق کون سا تھا؟‘‘

    ڈرائیور، ’’جب آپ نے گاڑی آتے دیکھ لی تھی تو سگنل کیوں نہیں دیا؟‘‘

    اسٹیشن ماسٹر، ’’ایک تو گاڑی لے آیا اوپر سے زبان لڑاتا ہے۔ ابھی نکلوادوں گااور دوسرا ڈرائیور رکھ لوں گا جو مجھ سے گستاخی کی۔ اگر گاڑی لڑجاتی تو تمھارا کیا جاتا، آئی گئی سب ہم پر آتی۔‘‘

    ڈرائیور، دیکھیے زبان سنبھال کر کسی شریف آدمی سےباتیں کیا کیجیے، نوکری کی ہے عزت نہیں بیچی ہے۔ بڑے آئے وہاں سے نکالنے والے، جیسے ہم ان ہی کے تو نوکر ہیں۔ اچھاکیا گاڑی لائے، خوب کیا گاڑی لائے۔ اب اس ضد پر تو ہزار مرتبہ لائیں گے، دیکھیں ہمارا کوئی کیا کرتا ہے۔‘‘

    اسٹیشن ماسٹر، ’’دیکھیے گارڈ صاحب منع کرلیجیے اس کو، کیسی کمینہ پن کی باتیں کر رہا ہے۔ افسری ماتحتی کا کچھ خیال نہیں۔ میں چھاتی پر چڑھ کر خون پی لیتا ہوں۔‘‘

    گارڈ، ’’جانے بھی دو، اماں جانے بھی دو، ہائیں ہائیں یہ کیا کرتے ہو، اماں تم ہی ہٹ جاؤ، بھائی تم ہی ہٹ جاؤ۔ ارے، ارے چھوڑو بھی، ہٹو بھی، سنو تو سہی، ارے یار سنو تو۔‘‘

    اسٹیشن ماسٹر نے ڈرائیور کو اور ڈرائیور نے اسٹیشن ماسٹر کو گھونسے لاتیں، تھپر، جوتے رسید کرنا شروع کردیے اور تمام مسافر یہ جھگڑا دیکھنےکھڑے ہوگئے۔ بمشکل تمام گارڈ نے بیچ بچاؤ کیا اور سمجھا بجھا کر دونوں کو ٹھنڈا کیا۔ ابھی بیچارہ سمجھا ہی رہا تھا کہ کسی نے آکر نہایت گھبرائی ہوئی آواز میں کہنا شروع کیا،

    ’’گارڈ صاحب اے گارڈ صاحب! اجی وہ مال گاڑی سامنے سے آرہی ہے اور اسی پٹڑی پر آرہی ہے، غضب ہوگیا۔‘‘

    گارڈ بھی یہ سنتے ہی بدحواس ہوگیا اور چیخنا شروع کردیا،

    ’’مسافرو جلدی اترو جلدی اترو، گاڑی لڑتی ہے، گاڑی لڑتی ہے، جلدی اترو۔‘‘

    سب مسافر گربڑا کر اپنا اسباب کچھ لے کر کچھ چھوڑ کر گاڑی سے نکل آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے مال گاڑی جس کا ڈرائیور سوگیا تھا اس گاڑی سے اس بری طرح ٹکرائی کہ کھڑکی کا شیشہ ٹوٹ کر میرے منہ پر آپڑا۔ میں ایک دم سے چونک پڑا۔ حقہ کی نَے میرے منہ پر آکر گری تھی۔ حقہ جل چکا تھا، آرام کرسی بھی شبنم سے تر ہوگئی تھی اور گھڑی میں بیپ دو بجنے کے قریب تھے۔ میں کرسی سے اٹھ کر چارپائی پر لیٹ گیا۔ اس لیے کہ اب گاڑی تو سونےکی وجہ سے چھوٹ چکی تھی۔ اب ہو ہی کیا سکتا تھا سوائے آرام سے سونے کے۔

    مأخذ:

    (Pg. 567)

      • ناشر: محمد طفیل
      • سن اشاعت: 1959

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے