Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ٹاپ لیس بکنی

ابراہیم جلیس

ٹاپ لیس بکنی

ابراہیم جلیس

MORE BYابراہیم جلیس

    انگریزی زبان میں عورت کو مرد کا ’’بیٹر ہاف‘‘ (Betterhalf) یعنی ’’نصف بہتر‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔

    عورت کی اس تعریف بلکہ تعارف سے ہم اس وقت واقف تھے جب انگریزی زبان کچھ کچھ ہماری سمجھ میں آنے لگی تھی۔ لیکن یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آئی تھی کہ،

    ’’عورت کو نصف بہتر کیوں کہتے ہیں؟‘‘

    ہم نے اپنے کئی استادوں اور بڑوں سے یہ سوال بار بار پوچھا لیکن سارے استاد اور سارے بڑے بس اس طرح ’’یعنی یعنی‘‘ کرتے رہ گئے کہ

    ’’نصف بہتر یعنی آدھی اچھی یعنی مرد پورا اچھا تو عورت آدھی اچھی یعنی۔۔۔‘‘

    یعنی بڑے سے بڑا استاد اور بڑے سے بڑا۔ بڑا بھی ہمیں سمجھا نہ سکا تھا کہ

    ’’عورت کو نصف بہتر کیوں کہتے ہیں‘‘

    اگر فرانس کے ایک لیڈیز فیشن ٹیلر اینڈ ڈیزائنر نے ’’مونوکنی‘‘ المعردف بہ ’’ٹاپ لیس بکنی‘‘ نہ ایجاد کی ہوتی تو شاید ہم بھی ’’نصف بہتر‘‘ کے معنی کے بارے میں ’’یعنی یعنی‘‘ ہی کرتے رہ جاتے۔

    جس دن ہمارے پاس یورپ اور امریکہ سے ’’ٹاپ لیس بکنی‘‘ میں ملبوس ماڈل لڑکیوں کی تصاویر موصول ہوئی اور ہم نے انھیں غور سے دیکھا تو ہمیں جیسے اپنے برسوں پرانے سوال کا جواب فٹافٹ مل گیا کہ،

    ’’عورت کو نصف بہتر کیوں کہتے ہیں؟‘‘

    ظاہر ہے کہ مرد کے جسم کا نصف تو ایسا بہتر ہرگز نہیں ہوسکتا۔

    مگر جس طرح مونوکنی یا ٹاپ لیس بکنی پہنی ہوئی عورت مکمل طور پر عریاں نہیں ہوتی یا جزوی (بلکہ عضوی طور) پر ملبوس ہوتی ہے۔ اس طرح ہمارے سوال کا جواب نامکمل یا جزوی طور پر ملا ہے۔

    اس سوال کا جواب تو سمجھ میں آگیا کہ

    ’’عورت کو نصف بہتر کیوں کہتے ہیں؟‘‘

    لیکن مکمل سوال یہ تھا کہ

    ’’عورت کو مرد کا نصف بہتر کیوں کہتے ہیں؟‘‘

    اس سوال کے جواب کے لیے ہم نے عورت اور مرد کا بارہا مقابلہ کیا لیکن یہ سوال ’’توصیفی مفہوم‘‘ میں بھی ’’لاجواب‘‘ رہا اور ’’لغوی مفہوم‘‘ میں بھی لاجواب۔ عورت اور مرد کے تصوراتی یا خیالی مقابلوں سے تو اس سوال کا جواب ملنا واقعی ناممکن تھا۔ البتہ اب عورت اور مرد کے ایک ’’حقیقی مقابلے‘‘ سے ہمیں اس سوال کاجواب بھی مل گیا ہے۔

    آپ نے بھی اخباروں میں یہ دلچسپ خبریں پڑھیں ہوں گی کہ آج کل امریکا یورپ اور آسٹریلیا کے بڑے بڑے شہروں میں کپڑے کے تاجروں اور ٹیلر ماسٹروں یا ڈریس ڈیزائنروں نے اپنی اپنی دوکانوں کے شوکیس یا شاپ ونڈوز (Show Cases of Shop windows) میں خوبصورت بلکہ ’’خوب جسم‘‘ لڑکیوں کو ٹاپ لیس بکنی میں ملبوس کرکے اس ’’مختصر قابل دید‘‘ لباس کی تشہیر شروع کردی ہے۔

    کہا جاتا ہے کہہ ننگی عورتوں کے اس ’’ننگِ نسوانیت‘‘ لباس کے خلاف غم و غصہ، نفرت اور احتجاج کے مظاہر ے بھی شروع ہوگئے ہیں۔

    چنانچہ اخباروں میں نیوزی لینڈ کے یونیورسٹی ٹاؤن ’’ڈونی ڈن‘‘ کی ایک بڑی دلچسپ اور عبرتناک خبر شائع ہوئی کہ

    ’’ڈونی ڈن یونیورسٹی کے پندرہ طالب علموں نے اس ’’ٹاپ لیس بکنی‘‘ کے مقابلے میں مردوں کا باٹم لیس لباس ایجاد کیا ہے۔‘‘ اخباروں کی خبر یہ ہے کہ،

    یہاں جب ایک کپڑے کی دوکان کی شاپ ونڈو میں ایک ’’خوب جسم‘‘ لڑکی کھڑی ’’ٹاپ لیس بکنی‘‘ کا مظاہرہ کر رہی تھی تو ڈونی ڈن یونیورسٹی کے پندرہ طالب علموں کا ایک جتھا، بغیر پتلون کے صرف قمیض بہن کر اس دوکان کے آگے عین اس لڑکی کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ پبلک اور پولیس نے جب انھیں وہاں سے پٹانا چاہا تو انہوں نے پوچھا۔

    ’’جب عورتوں کو ٹاپ لیس لباس پہننے کی اجازت ہے تو مردوں کو ’’باٹم لیس‘‘ لباس پہننے کی اجازت کیوں نہیں؟‘‘

    یہ استدلال کچھ ایسا معقول تھا کہ پولیس بھی ان نوجوانوں کو اس عجیب و غریب مظاہرے سے باز نہ رکھ سکی اور وہ لنچ کے سارے وقفے کے دوران اس ’’ٹاپ لیس بکنی‘‘ ملبوس لڑکی کے سامنے اپنا ’’باٹم لیس‘‘ لباس پہنے ڈٹے رہے۔

    مردوں کا یہ لباس فیشن ایبل ہے یا حزبِ اخلاق؟ ہمیں اس سے بحث نہیں لیکن ان باٹم لیس والے مردوں کا اس ٹاپ لیس بکنی میں ملبوس لڑکی سے مقابلہ کیا جائے تو پھر اس سوال کا جواب بھی آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے کہ

    عورت کو مرد کا نصف بہتر کیوں کہا جاتا ہے؟

    ظاہر ہے کہ اس باٹم لیس لباس کو ’’نصف بدتر‘‘ کے سوائے اور کہا ہی کیا جاسکتا ہے۔

    عورتوں کے ٹاپ لیس اور مردوں کے باٹم لیس لباسوں کے بعد اس دن کا انتظار ہے جب کہ

    ’’ٹاپ رہے گا نہ باٹم۔‘‘

    اور وہ دن یقیناً زیادہ دور نہیں ہے۔

    یہاں ایک لطیفہ یاد آتا ہے۔ آپ نے اخباروں میں پڑھا ہوگا کہ حال ہی میں ہندوستان نے زرِ مبادلہ کمانے کے لیے اپنے بندر امریکہ بھیجے ہیں۔ ہندوستان کے یہ بندر جنہوں نے مردوں کو ہمیشہ دھوتی کرتے اور عورتوں کو ساڑھی چولی میں ملبوس دیکھا تھا۔ اب جو امریکہ کے ساحل پر عورتوں اور مردوں کو ایک مادر زاد برہنہ دیکھا تو بندریا نے گھبراکر اپنے دیوتا بندر سے پوچھا۔

    ’’سوای۔۔۔ دنیا کہیں پھر سے تو نہیں شروع ہوئی ہے؟‘‘

    ہمیں تو اب یقین ہوتا جا رہا ہے کہ یہ سارے آثار قیامت کے آثار ہیں اور قیامت بہتر قریب آگئی ہے۔ چنانچہ اب ہم یہ پیش گوئی کرتے ہیں کہ

    جو دنیا مادرزاد ننگے آدم و حوا سے شروع ہوئی تھی۔ وہ دنیا بالآخر مادر زاد ننگے آدم و حوا ہی پر ختم ہوگی۔

    انا للہ و انا الیہ راجعون

    مأخذ:

    (Pg. 11)

    • مصنف: ابراہیم جلیس
      • ناشر: آہلو والیہ بک ڈپو، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 1982

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے