Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ذرا دھوم سے نکلے

شفیقہ فرحت

ذرا دھوم سے نکلے

شفیقہ فرحت

MORE BYشفیقہ فرحت

    اب تک یہی سنتےچلےآئےہیں کہ ’’شامتِ اعمالِ ما صورتِ غالب گرفت‘‘ وہ بزم ہو یا تنہائی۔۔۔ کلاس روم ہویاامتحان کا پرچہ،یا کوئی انٹرویو بورڈ،غالب نے ہرباہوش کو بےہوش بنا رکھا تھا۔ ایک سےایک نامورادبی پہلوان میدان میں آئےاورغالب کےایک شعر نےوہ چومکھی گُھمائی کہ چاروں شانے چت۔ اڑھائی تین درجن شرحوں کو اوڑھنا بچھونا بنائیے۔ دامِ شنیدن کے ساتھ لاکر دامِ فہمیدن و سنجیدن بچھائیے۔ نتیجہ وہی۔۔۔ میاں عنقا سلمہا ہیں کہ چاروں طرف پرپھڑ پھڑا کرمنڈلا رہے ہیں۔۔۔

    اور اب بھاری بھرکم زمانے نےکروٹ جولی تو اس کے نیچے چچا غالب (جنہیں اب دادا جان کےعہدے پر پرموٹ کردینا چاہیے) دبے پڑے آہیں بھر رہے ہیں اور ان کی ماری ہوئی، ستائی ہوئی مخلوق چیونٹیوں کی طرح بلوں سےنکل نکل کر بدلےلےرہی ہے ایک جشن کی صورت میں۔۔۔ کیوں نہ ہو،

    غالب کا جنازہ ہے ذرادھوم سےنکلے

    وہی عالم آب و گل۔ وہی دنیا، جہاں سےآپ خواص وعوام کی ناقدری کے ہاتھوں بظاہر گردن اکڑائےمگردرِپردہ روتے ہوئےرخصت ہوئے تھے۔ وہی ہند، بہ زبانِ ہندی آپ کی صدسالہ برسی کا جشن منارہا ہے۔ بالکل اسی زورشور سے جیسا کہ آپ کے زمانے میں شہرِ دلی میں حضور بادشاہ کا جشن ِتاج پوشی منایا جاتا ہے۔۔۔

    آپ کے اشعار کےقتل کے بعد اب زمانےنےآپ پرجفائےتوبہ کرلی ہے۔ (کاش غالب کسی روزنِ زندانِ باغ ارم سےجھانک کران زود پشیمانوں کے پشیمان ہونےکا جانفزامنظر دیکھ رہے ہوں) تب توانہیں چاہیےکہ اپنے کسی اسٹینڈرڈ دیوان سے ایسےتمام اشعار پبلشرسےمل کے چپکے سے نکلوادیں، جن میں انہوں نےزمانےکی کج فہمی اور نافہمی کی شکایت کی ہے۔ یونکہ اب ہمشیرہ لتا منگیشکراوربرادرم طلعت محمودکےصدقےآپ کی غزل کا ایک ایک شعرنہ صرف ملک کے بچے بچے کی زبان پر ہےبلکہ اسے اوورسیز بھی جانےکا شرف حاصل ہوچکا ہے۔۔۔

    بہرحال! ملاحظہ فرمائیے۔عقیدت کےکیسےکیسےتیرہیں جواس مبارک موقع پر برسائے جا رہے ہیں۔ ملک کےاس سرےسےاس سرے تک چپہ چپہ پر نازک کاغذ کے سروقد پوسٹر یوں نزاکت سےچپکے ہیں کہ ہاتھ لگائےنہ بنے۔۔۔ اوراس کی عبارت۔۔۔

    کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہےتو بتائےنہ بنے

    آپ بھی دیکھیے۔۔۔

    ’’پراچین بھارت کےمہا کوی مرجاگالب کی سوّیں مرتیو شتابدی کے اویلکشن میں بھارت کے کونے کونے میں بھن بھن پرکار کے ساہتک، سانسکرت ایوم ساماجک کاریکرموں کا آیوجن کیا جارہا ہے۔۔۔‘‘

    غالب نے یقیناً ایک آہِ گرم (کہ جنت میں ٹھنڈک ویسے ہی ضرورت سے کچھ زیادہ ہے) بھر کے خود اپنے ہی شعر میں فی البدیہہ یہ ترمیم کرلی ہوگی،

    دے اور دل مجھ کو جو نہ دے ان کو زباں اور

    دلّی سے لےکر کنیا کماری تک، آسام سے گجرات، کاٹھیاواڑ،راجستھان،پونا، بمبئی، پنجاب حتی کہ ناگالینڈ میں بھی سخن فہم اور غالب کے طرفدار پیدا ہوگئے ہیں۔ ہر شہر کے ہر محلے اور ہرگلی میں غالب کمیٹیاں بن گئی ہیں اور اب بھی رات دن آٹھویں پہر برابر بنتی چلی جارہی ہیں۔۔۔

    ایک ہنگامہ خیزشہرکےوسط میں ایک عظیم الشان فلک بوس عمارت کے آگے جم غفیر وکثیرجمع تھا۔ خیال ہوا کہ یہ ایمپلائمنٹ ایکسچینج کا دفتر ہےاور یہ بیکاروں کی بھیڑ ہے۔ مگر پوچھنے پر پتہ چلا کہ کافی ہاؤس ہے اور یہاں غالب کمیٹی کی میٹنگ ہے۔۔۔ روزن سے غالب نے آہِ دوم بھری۔۔۔ اور طوہاً وکرہاً بلکہ مجبوراً مومن کا یہ مصرع پڑھا،

    اٹھ جائیں کاش ہم بھی جہاں سے حیا کے ساتھ

    ’’میں نجم الدولہ، دبیر الملک اسد اللہ خان بہادر نظام جنگ المتخلص غالب، جس نے ساری عمر گلی کوچے میں کھڑے ہوکر کسی سے بات نہیں کی اس کے جشن کی تیاری ایک چانڈوخانے میں۔۔۔‘‘

    گھستے گھساتے دھکے کھاتے اندر پہنچے۔ ہال انواع واقسام کے جانداروں سے لبریزتھا اور کچھ ایسا شور بلند تھا کہ شہر ِدلّی کا غدر یاد آیا۔ خاصی محنت دریافت کے بعد سرشتۂ مطلب ہاتھ آیا کہ یہ نہ شورِ قیامت ہے نہ آثارِغدر بلکہ محض پرسکون اوردوستانہ بحث و مباحثہ ہےاس بات پر کہ ’غالب کمیٹی‘ کتنے افراد پر مشتمل ہو۔۔۔

    ایک صاحب کا خیال تھا کہ جشنِ صد سالہ ہے اس لیے کمیٹی بھی صدافرادہ ہونی چاہئے۔

    دوسرے کو اس ’تنک بخشی‘ اور تنگ دامانی پرسخت اعتراض تھا۔ ان کا مشورہ (بہ اندازحکم) یہ تھا کہ جملہ حاضرین (اوران کےعزیز واقارب) اوربیشترغائبین کواس میں شامل کیا جائے۔ ورنہ بھلا جشن کیا۔۔۔ اور جب اخباروں میں نام نہ آئے تو میٹنگ میں شرکت سے فائدہ۔۔۔

    دست وگریباں کی پیہم یکجائی وجدائی کےبعد یہی تجویز منظور ہوئی اوراس کےساتھ ہی سڑک پر کھڑے تماشبین اور ہوٹل کےبیرے اورباورچیوں، سب نے ہال پر یلغار کردیا اور چارسو بیاسی نام اپنے جلووں کی تابانی سے نگاہوں کو خیرہ کرنے لگے۔۔۔

    چار سو بیاسی نام۔۔۔ اگر آپ کےجواہرِاندیشہ میں کچھ گرمی باقی ہو تو تصور کا عالم کیا ہوگا۔ ان چارسو بیاسی ناموں کی فہرست تیارکرنا کانگریس آئی کےٹکٹ پرالیکشن لڑنےسےکم نہیں۔۔۔

    فہرست تیار ہوئی۔۔۔

    بہ لحاظ عمر۔۔۔ روایتی۔ ذاتی اورکاروباری

    بہ لحاظ شہرت۔۔۔ عمومی۔ سرکاری اورادبی

    بہ لحاظ دولت۔۔۔ منقولہ اور غیرمنقولہ

    واضح ہو کہ دولتِ غیرمنقولہ وہ روپیہ ہے جسےرنگا رنگ ٹیکسوں کے خوف سے پردہ نشین بنادیا جاتا ہے اور جو علی الاعلان ایک جگہ سے دوسری جگہ اورایک نام سےدوسرے نام پرمنتقل نہ کی جاسکے۔۔۔ کسی گمنام گوشے سےآوازیں بلند ہورہی تھیں کہ سرفہرست ان کا اسم گرامی ہو، جو خود ننانوے کے پھیر میں ہیں اورجنہوں نےجیتےجی خود اپنا صدسالہ جشن منانے کا تہیہ کرلیا ہےاوراس سلسلےمیں اپنے بیٹوں، پوتوں اور پڑپوتوں کے ساتھ مل کر باقاعدہ پروگرام بھی مرتب کرلیا ہے۔۔۔

    دوسری طرف سےاس خوبصورت شارٹ کو یوں واپس کیا گیا کہ ’بزرگی بہ عقل است‘ لہٰذا اوّلیت کا مستحق وہ طالب علم ہے جو اس سال گیارہویں میں اوّل آیا ہے۔۔۔

    چار تنقیدی اور بائیس افسانوی مجموعوں کےمصنف کے ہونہار وفاشعار شاگرد نےحقِ شاگردی ادا کرتےہوئے اپنےاستاد کا نام پیش کیا تو ماسٹر نتھولال پیارے لال دلارے رام کو نمک خواردوست نے ماسٹر نتھولال پیارے لال اینڈکمپنی کی مرتب کی ہوئی فلمی گانوں اورفلمی کہانیوں کی ترسٹھ غیر مطبوعہ کتابیں تھیلےسےنکال کرمیزپرپٹک دیں۔۔۔

    غرض وہ ہاؤ ہو مچی کہ بغیر بے تارِ برقی کے سارے شہر میں پروگرام کی رننگ کمنٹری براڈکاسٹ ہوگئی اور اس فہرست کو بناتے بناتے صاحبِ قلم کی انگلیاں فگار اور خامہ خونچگاں ہوگیا اور اس کام میں اتنا طول طویل زمانہ گذر گیا کہ اگر غالب وہاں ہوتے تو یقیناً کہتے،

    کب سے ہوں کیا بتاؤں جہانِ خراب میں

    شب ہائے لسٹ کو بھی رکھوں گر حساب میں

    اس مرحلۂ دارورسن (بہ الفاظ دیگر اور بہ لحاظ مرحلۂ گندم و شکر) سے بصد خرابی گذرنے کے بعد نئے فتنوں میں چرخِ کہن کی آزمائش شروع ہوئی۔ جس کا سلیس اردو میں ترجمہ ہوا صدر وسکریٹری کا انتخاب! اور یہ ادبی دنیا کا پہلا مجموعہ بلکہ معجزہ تھا کہ یہ انتخاب بغیر مخالفت، بحث و مباحثہ گالی گلوچ اور ہاتھاپائی کے ہوگیا۔ حد یہ کہ مقابلےکے ریفری کے لب پہ مکرر مکرریہ صدا تھی۔۔۔ کہ

    کون ہوتا ہے حریف ِمے مردا فگنِ عشق

    مگرکون ہوتا۔۔۔ اور کیا پی کےہوتا۔ (کہ آج کی دنیا میں انسان کےمعیارکو ناپنےکا پیمانہ پیالہ ہے۔ خواہ وہ شراب کا ہو، کافی کا ہو یا پانی کا)

    تو عرض یہ ہےکہ حاضرین وغائبین کےمنجملہ چار سو بیاسی افراد میں آپ کا ثانی کوئی نہیں۔ بلکہ یوں سمجھ لیجئے کہ شہر بھر بلکہ صوبے بھرمیں آپ صیغۂ واحد ہیں۔۔۔ کہ آپ مالک ومختار ہیں ایک موٹرکےکارخانےکے۔ چار کپڑے کے کارخانوں کے۔ تین شکر کے۔ چھ کھلونوں کے۔ دو پنسلوں کے۔ دو آٹے کے اور دو گتے کے۔ اورغالب کوساری دنیا سےروشناس کروانےکی ٹوپی (کہ بیالیس برس کی چھوٹی سی عمرمیں اکیس مرتبہ سہرا باندھتےباندھتے آپ کو اس لفظ سےنفرت ہوگئی ہے) بھی آپ ہی کےسرہے۔ وہ یوں کہ دنیا کےہوائی سفر پرآپ اپنےساتھ دیوان غالب کا ایک نسخہ لے گئے تھے۔

    ویسے یہ راز بظاہران کے وفادار پی۔ اے کےسوا کوئی نہیں جانتا کہ عین وقت پر دیوان غالب کھوجانے کی وجہ سے اس نے ’سنہری حسینہ عرف چلتا پھرتا ایٹم بم‘ پر سنہری کاغذ چڑھا کر بقلم خود ’دیوان غالب‘ لکھ دیا تھا۔

    رہے سکریٹری۔۔۔ سو ہمارا تمہارا خدا بادشاہ۔۔۔ جوان کےسکریٹری وہ سب کےسکریٹری۔۔۔ انتخابات کے بعد تجاویز پیش ہوئیں جو جدت اور ندرت کے لحاظ سےکلام غالب سےکسی طرح کم نہیں۔ ان میں سے چند کی جھلکیاں آپ بھی دیکھئے۔

    فلم مرزا غالب، شہر شہر، گلی گلی، گھر گھر مفت دکھلائی جائے اور ایک سے زیادہ بار دیکھنے والوں کے لیے خاطر خواہ انعام بھی مقرر کیا جائے۔

    ہمیشہ لتا منگیشکر اور برادرم طلعت محمود کو ان کے گرانقدر کارناموں کے صلے میں حکومت سے پدم شری دلوائی جائے۔

    غالب کی مختلف قدِ آدم تصاویر کا جلوس نکالا جائے اور ساتھ میں ریکارڈنگ بھی ہو۔

    غالب کی وفات سے ایک دن پہلے اور ایک دن بعد۔ یعنی کل تین دن ان کا عرس منایا جائےاوران کےمزارپرچادریں چڑھائی جائیں۔ دیگیں پکیں اورقوال ان کی غزلیں گائیں اورچونکہ ان کی محبوبہ ایک ڈومنی تھی۔ اس لیےان تین دنوں میں سےکسی ایک دن شہرکی تمام ڈومینوں کی خدمت میں سپاسنامہ پیش کیا جائے۔ ان کےاعزازمیں دعوتیں ہوں۔ رہا کلام۔ تو وہ تو بلا فرمائش خود ہی مطرب بہ رہزنِ ہوش، کا رول ادا کریں گی۔۔۔

    مرزا غالب کا صرف ایک ہے اور پرستار ہزار بلکہ شہر میں ہزارہا۔ ان عقیدتمندوں کےجذبات اوران کی سہولت کی خاطر ہرشہر میں ایک ایک مزار بنادیا جائے جس میں دیوانِ غالب اوراس کی شرح کا کم سے کم ایک نسخہ دفن ہو۔

    ان کے اشعار کے پیچھے جو حالات چھپے ہیں ان میں تحقیق کی جائے اور ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں دی جائیں۔ مثال کے طور پر

    کس کےگھرجائےگا سیلاب بلا میرے بعد

    اس شعرکے سلسلے میں پوری چھان بین کی جائےکہ غالب کے مرنے کے بعد ’سیلاب بلا‘ یعنی ان کی محبوبہ نےکس سےعشق کیا اورکس گھرکو تباہ کیا۔

    آم غالب کو بےحد پسند تھے۔ اس لیےآموں کا ایک باغ ’غالب باغ‘ کے نام سے لگوایا جائےاورتخمی آموں کی کسی خاص قسم کا نام بھی ’غالب آم‘ رکھ دیا جائےآموں کےموسم میں عقیدتمند باغ میں جائیں جشن ِآم منائیں۔

    مگر۔۔۔ اک عمر چاہیے آم کو پھل دینے تک

    اور۔۔۔ کون جیتا ہے اس پیڑ کے بڑھنے تک

    تواس صورت میں اس تجویزپر فوری عمل ہوسکتا ہے کہ آموں کےکسی ٹھیلےوالےکے ’ذوقِ ادبی‘ اور ’شوقِ غالبی‘ کو بیدار کرکے اس سے درخواست کی جائے کہ وہ اپنے ٹھیلے کا نام ’غالب آم اسٹال‘ رکھ لے! (اس کے نتیجہ میں آمدنی میں جو اضافہ ہواس میں ففٹی ففٹی کا کانٹریکٹ کرنا نہ بھولیے) اور زیادہ مناسب تو یہ ہوگا کہ ’غالبی‘ (غالب سےعقیدت رکھنے والے حضرت و خواتین) خود ہی ایک ٹھیلہ خرید کریاکرایہ پر لے کر آموں کا بزنس شروع کردیں۔ اس سے کوئی ایک پنتھ ہویا نہ ہو دو تین کاج ضرور ہوجائیں گے۔ یعنی آم کے آم۔ نام کے نام اور دام کے دام۔۔۔

    شراب سے بھی غالب کو عشق رہا ہے۔ لہٰذا اس جذبۂ صادق کی قدر کرتے ہوئے کسی شراب کو ان کے نام سے منسوب کیا جائے اور چونکہ وہ خود ہی فرما چکے ہیں کہ ’’اک گونہ بیخودی مجھے دن رات چاہئے‘‘ اس لیے ایک بار جس میں چوبیس گھنٹے شراب ملا کرے، کھول کر اسے ’خم خانۂ غالب‘ کا نام دیا جائے۔ ہماری عظیم الشان مفلسی کے باعث اگراعلی درجہ کا باراوراعلی درجہ کی شراب ممکن نہ ہو تو ’غالب مارکہ ٹھرّا‘ اور ’غالب چانڈوخانہ‘ بھی کام دے جائے گا۔۔۔

    غالب نےجیل کی سیر بھی کی تھی۔ لہٰذا کسی ایک جیل خانہ یا اس کی ایک کوٹھری کا نام ’زندانِ غالب‘ رکھ دیا جائےاور ہندوستان کی تمام جیلوں میں دودو چارچار نئےقیدی داخل کرکے یوم ِغالب منایا جائے۔

    10۔ صحرا نوردی اور آوارہ گردی کےغالب اس حد تک دیوانےتھے کہ اسی حسرت میں مرنے کے بعد بھی کفن کےاندر پیر ہلتے رہے۔ اس حسرت کو پورا کرنےکی خاطرغالب کے صحت مند اورتوانا اورقوی پرستارسال بھرتک (کہ جشن کےسال بھرتک منائےجانےکی افواہ ہے) روزانہ آدھی رات کے بعد دس کلومیٹرکی پد یاترا کریں۔

    11۔ وہ نہ صرف گھومنے کے شوقین تھے بلکہ ایسی راہوں کو پسند کرتے تھے جو پرخار اور آڑی ٹیڑھی ہوں۔ لہٰذا کسی کچی دھول میں اٹی، اوبڑ کھابڑ، نکیلے پتھروں سے بھری سڑک کا نام ’غالب روڈ‘ یا ’کوئے غالب‘ رکھ دیا جائےاوراس راستےکے دونوں طرف ببول اور دیگر تمام کانٹے داردرخت کثرت سےلگائےجائیں تاکہ ان کےکانٹےسڑک پربکھرےرہیں اورغالب کا جی انہیں دیکھ دیکھ کرخوش ہوتا رہے،

    جی خوش ہوا ہے راہ کو پرخار دیکھ کر

    12۔ غالب کےبعض اشعارسےاس حقیقت کا انکشاف بھی ہوتا ہے کہ وہ اکثرصحراؤں کی طرف نکل جاتے تھے،

    ہوتا ہےنہاں گرد میں صحرا مرے آگے

    لہٰذا راجستھان کے ریگستان کو ’صحرائے غالب‘ کا نام دیا جاسکتا ہے۔

    13۔ رونےدھونےسےغالب کوخاص شغف رہا ہے۔ کبھی ان کےآنسوؤں سے گھر تباہ ہوگیا۔ کبھی آنسوؤں کےسیلاب میں تکیہ کی روئی اورآسمان پھین بن بن کر تیرتے رہے۔ آنسوؤں سےاس والہانہ عشق کی صورت میں کسی واٹرورکس، تالاب یا دریا کو بھی غالب سے وابستہ کیا جانا چاہئے۔

    ایسےوقتی کام تو ان گنت ہوسکتےہیں۔ لیکن سب سےاہم اور ابدی کام اورنیکی یہ ہوگی کہ غالب کے اشعارنصاب سے ہٹا دیے جائیں کہ ان کا سمجھنا بھی مشکل اورسمجھانا بھی۔۔۔ اورغالب نےاپنی زندگی میں کسی کوحتی المکان تکلیف نہیں پہنچائی۔ اب مسلسل ہزاروں لاکھوں متنفسوں کویوں عالم کرب وسکرات میں مبتلا دیکھ کراوراپنے کلام کی شہادت کو محسوس کر کے وہ تڑپ جاتے ہیں۔۔۔

    خدارا انہیں برسوں کی اس تڑپ سے نجات دلوائیے کہ یہ جشن ہے۔۔۔

    مأخذ:

    لو آج ہم بھی (Pg. 58)

    • مصنف: شفیقہ فرحت
      • ناشر: مدھیہ پردیش اردو اکیڈمی، بھوپال
      • سن اشاعت: 1981

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے