Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ایک کمرہ

وکٹر ہیوگو

ایک کمرہ

وکٹر ہیوگو

MORE BYوکٹر ہیوگو

    فرحیہ متعلقہ المیہ

    (A Comedy apropos of tragedy)

    افراد

    (1) مادام دی بلنول

    (2) عسکری

    (3) ارگاسطے

    (4) مرثیہ گو

    (5) فلسفی

    (6) مردفربہ

    (7) مرد لاغر

    (8) خاتون

    (9) خادم

    مرثیہ گو شاعر اپنا کلام سنا رہاہے-:

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    دوسرے دن میدان میں نقش پائے یار نظر آیا

    باوفا کتا دریا کے کنارے سراپا انتظار تھا۔

    واپسی پر حسینہ کی آنکھیں نم آلود تھیں

    از منہ قدیم کی یادگار۔۔۔۔۔۔قلعہ سے وہ کسی کو نمناک آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔

    لیکن خوش الحان مطرب کی صدا

    ہاں اسی آتش نفس مغنی کی صدا

    صحرائی فضاؤں میں گم تھی۔۔۔۔۔۔

    جملہ حاضرین۔۔۔۔۔۔سبحان اللہ! کیسے بلند شعر ہیں۔

    مادام دی بلنول۔۔۔۔۔۔مقطع کے شعر میں ناقابل بیان اسرار ہے ۔جو آنکھوں میں بے اختیار آنسو لے آتا ہے۔

    مرثیہ گو۔۔۔۔۔۔اصل واقعہ ابھی پنہاں ہے۔

    عسکری(وجدانی حالت میں) مطرب۔۔۔۔۔۔ اور صدا کیسے رومان انگیز ہیں۔ مرثیہ گو۔۔۔۔۔۔ لیکن رومان کی حد سے متجاوزنہیں۔

    عسکری۔۔۔۔۔۔میں ان رومان آفرین اشعار کوکبھی فراموش نہیں کرسکتا میں ان اشعار کی خاطر دنیا بھرکے رومان آفرین اشعار قربان کرنے کو تیارہوں۔

    عسکری۔۔۔۔۔۔ لیکن چٹیل فرانسیسی لفظ نہیں، ہم کیتل لکھتے ہیں۔

    یکے از حاضرین۔۔۔۔۔۔ دیکھئے جناب ہم فرانسیسی میں چٹیل نہیں لکھتے بلکہ گاتھک مرثیہ گو۔۔۔۔۔۔گاتھک شعر ہیں مستعمل نہیں۔

    یکے از حاضرین۔۔۔۔۔۔آہ! معانی میں اختلاف ہے۔

    مرثیہ گو۔۔۔۔۔۔ جناب میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو فرانسیسی زبان کو اشعار میں لاکر اس کی اصلی صورت کو مسخ کردیتے ہیں۔ اورہمیں روزرڈ اور بری بیوف کے زمانے میں لے جاتے ہیں۔ میں رومان پسند ہوں۔ لیکن درجہ اعتدال تک۔ اسی طرح جذباتی شاعری میں بھی۔

    میں لطیف اور اندوہ آگیں اشعار پسند کرتا ہوں۔ لیکن خونی سفاکانہ اشعار سے مجھے نفرت ہے۔ میں جانتا ہوں کہ دنیا میں ایسے احمق ہیں جو انہیں خیالات کی اشاعت سے۔۔۔۔۔۔ٹھہریئے! کیا آپ نے وہ نیا ناول دیکھا ہے؟

    خواتین۔۔۔۔۔۔کون سی ناول؟

    مرثیہ گو۔۔۔۔۔۔سرگزشت۔۔۔۔۔۔

    مرد فربہ۔۔۔ بس! بس مجھے معلوم ہے کہ آپ کیا کہنے والے ہیں۔ اس کتاب کا رورق ہی مجھے لرزہ براندام کردیتا ہے۔

    مادام دی بلنول۔۔۔۔۔۔بعینہ یہی حال میرا ہے۔ بہت خطرناک کتاب ہے۔وہ! میرے پاس اتفاقاً موجود ہے۔

    خواتین۔۔۔۔۔۔دکھایئے تو!دکھائیے تو!

    (کتاب دست بدست ہر ایک کے پاس پہنچی ہے)

    ان میں سے ایک خاتون۔۔۔(کتاب کا نام پڑھتی ہے)سرگزشت۔۔۔

    مرد فربہ۔۔۔ مادام! خدا کے لئے!!

    مادام دی بلنول۔۔۔۔۔۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ کتاب بہت خوفناک ہے۔ یہ پڑھنے والوں کو بیمار کردیتی ہے۔ اور ان کے خوابوں میں ڈراؤنی صورت میں نمودارہوکران پر نیند حرام کردیتی ہے۔

    ایک خاتون۔۔۔۔۔۔ میں اسے ضرور پڑھوں گی۔

    مرد فربہ۔۔۔۔۔۔ہمیں اس بات کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ تمدن دن بدن روبہ تنزل ہے۔ میرے خدا! ایک مجرم جسے موت کی سزا مل چکی ہو، اس کے آخری لمحات کی کیفیت اور اس کی جسمانی تکالیف کا بیان کس قدر مہمل خیال ہے۔ کیا یہ خیال قابل نفرت نہیں؟معزز خواتین! کیا آپ کو یقین ہے کہ مصنف نے’’ سزائے موت‘‘ پربحیثیت ایک مصلح کے بحث کی ہے؟

    عسکری۔۔۔۔۔۔یہ فی الحقیقت بیہودگی کی بہترین مثال ہے؟

    مادام۔۔۔۔۔۔اس کا مصنف کون ہے؟

    مرد فربہ۔۔۔۔۔۔ کتاب کی پہلی اشاعت میں سرورق پرمصنف کا نام موجود نہ تھا۔

    مرثیہ گو۔۔۔۔۔۔ یہ وہی مصنف ہے جو اس سے قبل دو ناول اور بھی لکھ چکا ہے۔

    میرے ذہن سے ان کے نام محو ہو چکے ہیں۔ ان میں سے ایک کتاب کا آغاز مارن سے ہوا۔ اور انجام تختہ دار پر۔

    کتاب کے ہرباب سے ایسا معلوم ہوتا تھا۔ گویا ایک دیوبچہ کو نگلنے جارہا ہے۔

    مرد فربہ۔۔۔۔۔۔ کیاوہ کتاب آپ کی نظروں سے گزری ہے؟

    مرثیہ گو۔۔۔۔۔۔ ہاں جناب! واقعہ کا محل وقوع برفستان تھا!

    مرد فربہ۔۔۔۔۔۔برفستان۔۔۔۔۔۔ کس قدر خوفناک ہے؟

    مرثیہ گو۔۔۔۔۔۔ دوسری کتاب میں قصائید اور رزمیہ اشعار ہیں۔ ان کے علاوہ اور بہت کچھ ہے۔ کتاب میں ان دیووں کا ذکرہے۔ جو انسانی گوشت پر زندہ رہتے ہیں۔

    عسکری(مسکراتے ہوئے) اس کے اشعار وجد آفرین ہوں گے۔

    مرثیہ گو۔۔۔۔۔۔ اس نے ایک تمثیل بھی لکھی ہے۔ وہ اسے تمثیل کہتا ہے جس میں یہ خوبصورت جملہ مندرج ہے-:

    کل پچیس جون ایک ہزار چھ سو ستاون عیسوی۔۔۔۔۔۔

    یکے از حاضرین۔۔۔۔۔۔ واہ!واہ۔ کیا خوبصورت شعرہے!

    کل 25 جون 1657ء۔۔۔۔۔۔

    وہ مسکراتا ہے۔۔۔۔۔۔سب ہنستے ہیں

    عسکری۔۔۔۔۔۔ یہ موجودہ زمانے کی عجیب و غریب شاعری کا نمونہ ہے۔

    مرد فربہ۔۔۔۔۔۔ شعر و شاعری سے اسے کیا نسبت۔۔۔۔۔۔ کیا نام ہے اس کا؟

    مادام۔۔۔۔۔۔ ایک ناپاک انسان

    مرد فربہ۔۔۔۔۔۔ قابل نفرت ہستی

    ایک جوان خاتون۔۔۔۔۔۔ ایک صاحب جو اسے جانتے ہیں انہوں نے مجھ سے کہا

    مرد فربہ۔۔۔۔۔۔ ’’ تم انہیں جانتے ہو۔ جو اسے جانتا ہے؟

    جوان خاتون۔۔۔۔۔۔ جی ہاں! انہوں نے مجھ سے کہا کہ وہ ایک سادہ مزاج اور تنہائی پسند انسان ہے۔ جو اپنا بیشتر وقت اپنے بچوں کے ساتھ کھیلنے میں بسر کرتا ہے۔

    مرثیہ گو۔۔۔۔۔۔ اور آغوش شب میں سیاہ ترین خیالات کی پرورش کرتا ہے۔ مجھے اتفاقیہ ایک شعر کے مطالعہ کا موقع ملا۔ جس میں اس نے انہی تنگ و تار خیالات کا اظہار کیا ہے۔

    مرد فربہ۔۔۔۔۔۔ تم کہتی ہو کہ اس کے بچے ہیں۔ ناممکن! خاتون۔۔۔۔۔۔ جب اس نے ایسی خوفناک کتاب لکھی ہو۔

    یکے از حاضرین۔۔۔۔۔۔ آخر اس کتاب کا مقصد۔

    مرثیہ گو۔۔۔۔۔۔ میں کیوں کر جانوں۔

    فلسفی۔۔۔۔۔۔ کتاب کا مقصد تنسیخ سزائے موت ہے۔

    مرد فربہ۔۔۔۔۔۔ میرے نزدیک اس کا مقصد دہشت آفرینی ہے۔

    عسکری۔۔۔۔۔۔ چہ خوب! گویا جلاد سے مبارزت ہے۔

    مرثیہ گو۔۔۔۔۔۔ اس کے نزدیک تختہ دارہی تمام مصائب کا سرچشمہ ہے۔

    مرد فربہ۔۔۔۔۔۔ ہرگز نہیں! تنسیخ سزائے موت کے مسئلہ پر صرف چند سطور میں بحث کی گئی ہے۔ کتاب کا باقی حصہ جذباتی ہے۔

    فلسفی۔۔۔۔۔۔ اس موضوع پرکتاب لکھتے وقت دلائل اور براہین پیش نظر ہونے چاہئیں۔ منطق کے دامن کوہاتھ سے کبھی نہ کھونا چاہئے۔ میں نے کتاب کا مطالعہ کیا۔ فلسفیانہ نقطہ نگاہ سے کتاب مہمل اور ناقص ہے۔تمثیل یا ناول کے دائرہ سے سزائے موت کی بحث خارج ہے۔

    مرثیہ گو۔۔۔۔۔۔ پلندہ خرافات! کیا یہ فن کاری ہے؟ میں نہیں جانتا کہ مجرم کون ہے۔

    اس نے کیا کیا۔۔۔۔۔۔ میری طرح اور بھی تو کوئی نہیں جانتا۔ شاید وہ بدمعاش ہو۔ کسی انسان کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ میرے لئے اس چیز میں مذاق پیدا کرے۔ جس کا مجھے علم ہی نہیں۔

    مرد فربہ۔۔۔۔۔۔ مصنف کو یہ بھی اختیار نہیں کہ وہ ایک مجرم کی جسمانی تکالیف سے ہمیں خوفزدہ کرے۔ میں کسی المناک حادثہ یا کسی شخص کو اپنے ہاتھوں سے اپنی جان تلف کرتے ہوئے دیکھ کر اتنا متاثر نہیں ہوتا۔ جتنا ایک کتاب پڑھنے سے۔۔۔۔۔۔ ایک ناول کا مطالعہ تمہیں لرزابراندام کرسکتا ہے۔ رات کی نیند تم پر حرام کرسکتا ہے۔ اس کتاب کے مطالعہ کے بعد میں دوروز تک صاحب فراش رہا۔

    فلسفی۔۔۔۔۔۔ فی الحقیقت یہ ایک لغو اور بیہودہ کتاب ہے۔

    مرثیہ گو۔۔۔۔۔۔(طنزاً) کتاب! کتاب!

    فلسفی۔۔۔۔۔۔ جیسا کہ آپ نے پہلے ارشاد فرمایا۔ یہ کتاب کسی اصلیت پر مبنی نہیں۔ میں خشک مضامین کا دلدادہ ہوں۔ لیکن اس کتاب کا کوئی کردار بھی میری طبع کے موافق نہیں۔ طرز تحریر بھی ناقص ہے۔

    کیا آپ میرے ساتھ متفق ہیں۔

    مرثیہ گو۔۔۔۔۔۔ بے شک! بے شک! ۔۔۔۔۔۔ فلسفی۔۔۔۔۔۔ مجرم کا کردار دلچسپی سے خالی ہے۔

    مرثیہ گو۔۔۔۔۔۔ وہ دلچسپ ہو بھی کیسے سکتا ہے؟ اس کا دامن گوناگوں جرائم سے رنگین ہے۔ میں اسے مختلف صورت میں پیش کرتا۔ میں اپنے ’’ مجرم‘‘ کی سرگزشت کو یوں بیان کرتا:

    اعلیٰ خاندان کا چشم و چراغ۔۔۔۔۔۔اعلیٰ تعلیم۔۔۔۔۔۔ محبت۔۔۔۔۔۔ رقابت ۔۔۔۔۔۔ ناکردہ گناہ ۔۔۔۔۔۔ تاسف۔۔۔۔۔۔ چونکہ انسانی قوانین پیچیدہ ہیں۔ اس لئے اسے موت کی سزا دی جاتی۔ تب اور تب میں سزائے موت کے مسئلہ پر بحث کرتا۔

    مادام۔۔۔۔۔۔واہ ! واہ !

    فلسفی۔۔۔۔۔۔ معاف کیجئے۔ آپ کے خیال کے مطابق بھی کتاب بے معنی ہے۔ اک خاص حادثہ سب کو یکساں متاثر نہیں کرسکتا۔

    مرثیہ گو۔۔۔۔۔۔ بہت خوب! بہتر تھا کہ کتاب میں کسی ہیرو کا تذکرہ ہوتا۔ مثلاً مالش اربی۔۔۔۔۔۔ متقی مالش اربی کے آخری لمحات۔ تب مصنف ہمارے سامنے ایک اچھا واقعہ پیش کرنے میں کامیاب ہوسکتا۔

    میں شور مچاتا۔چیخ و پکار کرتا۔۔۔۔۔۔ مالش اربی کے ساتھ خود بھی تختہ دار پرلٹکنے کیلئے تیار ہو جاتا۔

    فلسفی۔۔۔۔۔۔ میں ہرگز تیار نہ ہوتا۔

    عسکری۔۔۔۔۔۔ میں بھی ہرگز نہ ہوتا۔۔۔۔۔۔آپ کا مالش اربی ایک انقلابی تھا۔

    فلسفی۔۔۔۔۔۔ مالش اربی کی موت’’سزائے موت‘‘ کے خلاف کوئی دلیل بہم نہیں پہنچاتی ہے۔

    مرد فربہ۔۔۔۔۔۔ سزائے موت! ہم اس خلجان میں کیوں مبتلا ہوں۔ آپ کا اس نے کیا بگاڑا ہے۔ اس کتاب کا مصنف غیر تربیت یافتہ معلوم ہوتا ہے۔

    مادام۔۔۔۔۔۔ یقیناً وہ سنگ دل ہوگا۔

    مرد فربہ۔۔۔۔۔۔ وہ ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم زندان اور تختہ دار کے مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ یہ ہماری طبیعتوں کے ناموافق ہے۔ ہم جانتے ہیں یہ مقام نہایت غلیظ ہیں۔ لیکن سوسائٹی کو ان سے کیا تعلق ہے؟

    مادام۔۔۔۔۔۔ مقننین طفلان مکتب نہیں۔

    فلسفی۔۔۔۔۔۔ واقعات کو صحیح رنگ میں پیش کرتے ہوئے۔۔۔۔۔۔

    مرد لاغر۔۔۔۔۔۔ جہاں تک صداقت کا تعلق ہے اس میں ذرہ بھر نہیں ۔ ایک شاعر کو حقیقی واقعات سے کیا تعلق۔ کتاب کا مصنف یقیناً سرکاری وکیل ہوگا۔ میں نے ایک اخبار میں وہ تبصرہ دیکھا۔ جو اس کتاب پر لکھا گیا۔ مبصر رقمطراز ہے کہ مجرم سرکٹاتے وقت ایک لفظ بھی زبان پر نہ لایا۔ بہت خوب! لیکن میں نے ایک مجرم دیکھا۔ جو قتل گاہ میں شور مچارہا تھا۔

    فلسفی۔۔۔۔۔۔ مجھے اجازت دیجئے کہ میں بھی کچھ کہوں۔

    مرد لاغر۔۔۔۔۔۔ٹھہریئے! حضرات!! تختہ دار،ا ور زندان دونوں کو رذوقی اور بدمذاقی کی دلیل ہیں۔ کتاب کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مصنف ہمارے مذاق کو خراب اور ہمارے قلب کو صحیح احساسات سے عاری کرنا چاہتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے تئیں ادیب سمجھتے ہیں۔

    میں فرانس کے ادارہ علمیہ کا رکن بننے کیلئے تیارہوں۔ میرے ساتھ ارگاسطے بھی تیارہے۔ کیوں ارگاسطے! سرگزشت اسیر کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے۔

    ارگاسطے۔۔۔۔۔۔ مجھے اپنی عزت کی قسم! میں اسے ہرگز پڑھنے کیلئے تیار نہیں۔ لوگوں کا خیال ہے کہ اس کتاب کے بعض ابواب کلیسا اور ریاست کیخلاف ہیں۔ اگر میں شاہی وکیل ہوتا تو۔۔۔

    عسکری۔۔۔۔۔۔ خوب! شاہی وکیل! کیوں جناب پروانہ آزادی کے متعلق کیا فرماتے ہیں آپ۔ اور کیا خیال ہے کہ آپ کا آزادی مطبع کے بارے میں۔

    اس زمانہ میں ایک شاعر تنسیخ موت پر ایک کتاب لکھتا ہے جس کی ہم سب مخالفت کرتے ہیں۔ آہ! قدیم شخصی حکومت میں ایسی کتاب کیونکر شائع ہوسکتی تسخیر بیسٹائیل کے بعد ہم اس قسم کی کتب لکھ سکتے ہیں۔ کتابیں بہت خوفناک نقصان پہنچاتی ہیں۔

    مرد فربہ۔۔۔۔۔۔ خوفناک! ہم خاموش تھے۔ کسی مسئلہ پر غور نہیں کررہے تھے۔ یہ سچ ہے کہ ہم فرانس میں گاہے بگاہے ایک آدھ سر تن سے جدا کردیتے ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ بغیرکسی شور و غوغا کے ہوتا ہے۔ کوئی شخص بھی اس مسئلہ پرغور نہیں کرتا۔ اس کتاب کی اشاعت سے قبل ہم نے ان معاملات پر کبھی غورو فکر نہیں کی۔ لیکن اس کتاب نے ہمارے لئے درد سر پیدا کردیا ہے۔

    مرد لاغر۔۔۔۔۔۔ اس کتاب کے پڑھنے کے بعد جیوری کے اراکین کی کیا حالت ہوتی ہو گی۔

    ارگاسطے۔۔۔۔۔۔ یہ ان کے ضمیر کو تکلیف دے گی۔

    مادام۔۔۔۔۔۔ آہ! کتابیں! کتابیں!! ناول کا کس نے ذکرکیا تھا۔

    مرثیہ گو۔۔۔۔۔۔ بعض کتابیں ہمارے معاشری نظام کو درہم برہم کردیتی ہیں۔

    مرد لاغر۔۔۔۔۔۔ جس کو پڑھ کررومان پسند بغیر سوچے سمجھے انقلاب پیدا کرنا چاہتے ہیں۔

    مرثیہ گو۔۔۔۔۔۔ ان رومان پسندوں پر غور کیجئے۔

    مرد لاغر۔۔۔۔۔۔ کورذوقی۔۔۔۔۔۔کور ذوقی

    ارگاسطے۔۔۔۔۔۔ بالکل صحیح!

    فلسفی۔۔۔۔۔۔ اس کتاب میں غیر ممکن الامر واقعات کا تذکرہ ہے۔

    ارگاسطے۔۔۔۔۔۔ قابل نفرت۔۔۔۔۔۔ قابل حقارت کتاب

    مادام!۔۔۔۔۔۔ اسے نذر آتش مت کیجئے۔ یہ مستعار لی گئی ہے۔

    عسکری۔۔۔۔۔۔ ان قصوں کو چھوڑیئے۔ عادت و رسوم سب خراب ہو چکے ہیں۔

    مادام!۔۔۔۔۔۔ آپ کو ہمارے وقتوں کی یاد باقی ہے کیا؟

    عاشق مزاج! ہم عیش پرست تھے۔ ہمارا کام شعر و شراب سے تھا۔ ایم دی لاہا آپ سے بہترین ترانہ کس کا ہوسکتا ہے۔ جو اس نے ایک ناچ سے متاثر ہو کرلکھا۔۔۔۔۔۔

    مرد فربہ۔۔۔۔۔۔ آہ! مسرت بخش ایام !! اب عادات تبدیل ہوچکی ہیں۔ کتابیں ملتی ہیں تو اس قسم کی ۔ بولیو کیا خوب لکھتا ہے۔

    ’’آرٹ کے انحطاط کے ساتھ تہذیب وتمدن کا بھی خاتمہ ہوجاتاہے۔‘‘

    فلسفی۔۔۔۔۔۔ کیا یہاں جام صحت پیا جا سکتا ہے۔

    شاعر۔۔۔۔۔۔ ہاں! آہستہ ۔ آہستہ۔

    مرد لاغر۔۔۔۔۔۔ وہ سزائے موت کی تنسیخ کے خواہاں ہیں۔ اور اسی امر کے لئے’’ سرگزشت اسیر‘‘ ایسی خوفناک کتابیں لکھ کر اپنی کور ذوقی کی مثال پیش کرتے ہیں۔

    مرد فربہ۔۔۔۔۔۔ میرے اچھے دوست! ہم اس خوفناک کتاب کے متعلق مزید گفتگو کرنے کے لئے تیار نہیں۔۔۔۔۔۔ خیر! وہ تو بتائیے کہ اس آدمی کا کیا حشر ہوا جس کی درخواست ہم نے تین ہفتے پیشتر رد کی تھی۔

    مرد لاغر۔۔۔۔۔۔ صبر کیجئے! میں ابھی جاتا ہوں اور واپسی پر اپنے افسر کو لکھوں گا۔۔۔۔۔۔ ’’خادم داخل ہوتا ہے‘‘

    ’’کھانا حاضر ہے‘‘

    *****

    ڈرامہ:وکٹر ہیوگو

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے