aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

زندان سزائے موت

وکٹر ہیوگو

زندان سزائے موت

وکٹر ہیوگو

MORE BYوکٹر ہیوگو

    زندان کی چار دیواری میں متواتر پانچ ہفتوں سے یہی ہولناک حقیقت میرے لئے سوہان

    روح رہی ہے۔ اسی وحشت ناک خبر نے مجھے تنہا بے یارومددگار کو دبا رکھا ہے۔

    کبھی وہ بھی دن تھا۔ جب کہ میں بھی آپ ہی کی طرح تھا۔ میرا دل جس میں ہر طرح کے ولولے کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے مناظر فطرت کا متلاشی تھا۔ جب کہ ہرساعت میرے لئے مژدہ لاتی اور ننھی ننھی دو شیزگان کی یاد میرے دل میں چٹکیاں لیتیں۔ جبکہ میں ان حسن کی دیویوں کے ساتھ چھٹکی ہوئی چاندنی میں شاہ بلوط کے گھنے درختوں کی اوٹ میں گلگشت کرتا۔۔۔۔۔۔ جبکہ میں آزاد تھا۔

    مگر اب قید وبند میں ہوں۔ آہنی زنجیروں سے جکڑا ہوا تنگ و تار کوٹھڑی، میں بے بال و پرپرند کی طرح اسیر کیا گیا ہوں۔ یہ تو ہے جسمانی قید۔ مگر میرے خیالات بھی اسی طرح مقید ہیں۔ صرف ایک۔۔۔۔۔۔ اورصرف ایک خیال۔۔۔۔۔۔ ہیبت ناک، مہیب اور ناقابل برداشت خیال مجھ پر پوری طرح مسلط ہے جس کی خوفناک یاد ایک گھڑی یا پل کیلئے بھی میرے دل سے محو نہیں ہوتی ،جس کی صحت کا مجھے کامل یقین ہے یعنی سزائے موت۔۔۔۔۔۔ آہ! اس کا نام لیتے ہی میری رگوں میں خون منجمد ہو جاتا ہے۔

    میں ہزار اپنا دل بہلاؤں۔ اس کے بہلانے کیلئے اپنی آنکھیں بند کرلوں۔ مگر اس خیال۔۔۔۔۔۔ اس حقیقت نفس الامری کے دو برف ایسے ہاتھ مجھ پر اسی وحشت ناک حالت میں لے آتے ہیں۔ یہ میرے پیچھے کسی بدروح یا بھوت کی طرح پڑا ہوا ہے۔ اگر خوش قسمتی سے کسی دن آنکھ لگ جاتی ہے تو یہ کمبخت ڈراؤنی اور خون سرد کردینے والے خوابوں میں خنجر کی صورت میں نمودارہوتا ہے۔

    میں ابھی ابھی ایک وحشت خیز خواب دیکھ کر بیدا رہوا ہوں۔ میں نے اپنے دل کو ڈھارس دیتے ہوئے کہا: حوصلہ رکھو! یہ تو محض خواب تھا۔

    لیکن میری خواب آلودہ آنکھوں کے سامنے خوفناک حقیقت میرا منہ چڑا رہی ہے مجھے اپنی قسمت کا فیصلہ آنکھوں کے سامنے نظر آرہاہے۔ قید خانے کی زرد اور مرطوب دیواریں۔ اندھی سی لال ٹین کی مدھم شعاعیں۔۔۔۔۔۔ لوہے کے بھاری بھر کم دروازے۔۔۔۔۔۔ جیل کے سنتری کی خوفناک صورت۔۔۔۔۔۔ میرے کپڑوں کی ہئیت کذائی۔ کیا اس گھناؤنی حقیقت کی پرزور تائید نہیں کررہی ہے۔

    مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی آواز میرے کانوں میں گونج رہی ہے۔ جو مجھے سزائے موت ایسا لرزہ خیز پیغام دے رہی ہے۔

    (2)

    اگست قریب الاختتام تھا۔ موسم سہانا اور خوشگوار

    میرا مقدمہ تین یوم تک عدالت میں پیش ہوتا رہا ہرروز کمرہ عدالت تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرا ہوتا تھا۔ جیسے کسی کی مرگ پرلوگ ماتم پرسی کرنے آئے ہوں۔ ان تین ایام میں۔ منصف، وکیل ، گواہ اور افسر ہر روز میری مصیبت زدہ آنکھوں کے سامنے گزرے۔ میرے دھندلی اور نحیف آنکھیں اس نظارہ کی تاب نہ لاسکیں۔ خوف وہراس کے مارے میں نے دو مکمل راتیں آنکھوں میں کاٹیں۔ مگر آخر انسان تھا۔ تین دن کی متواتر ذہنی کوفت اور ماندگی نے مجھے مردہ سا کردیا تھا۔ لہٰذا نیند نے اس نیند نے جو مجھے ہفتوں سے نصیب نہ ہوئی تھی سلا دیا۔

    میں ابھی اس غفلت کی نیند سے بیدار نہ ہوا تھا کہ سپرنٹنڈنگ جیل نے مجھے بلا بھیجا۔ خفیف سی خفیف آہٹ آج سے پہلے مجھے گہرے خیالات سے چوکنا کردیتی تھی۔ مگر آج محافظ کے لوہے کے بوٹ کی بھاری آواز۔۔۔۔۔۔ آہنی کنجیوں کی لرزہ خیز جھنجناہٹ۔ بھاری بھر کم دروازے کی خوفناک رگڑ مجھے اس بے ہوشی سے خبردار نہ کرسکی۔ اچانک میں نے اپنے کندھوں پر کوئی سخت سا ہاتھ محسوس کیا۔ اور کانوں میں کسی شخص کو درشت لہجہ میں یہ پکارتے ہوئے سنا-:

    ’’اٹھو! تمہیں بلایا ہے۔ انہوں نے۔‘‘

    میں نے اپنی آنکھیں کھولیں اور تنکوں کے بسترے پر اٹھ کر بیٹھ گیا۔ جیل کے محافظ کی ڈراؤنی شکل میرے سامنے تھی۔

    سامنے والی کھڑکی سے میں نے باہر دھندلی سی روشنی دیکھی۔ دن چڑھ گیا تھا۔ اور یہ روشنی سورج کی تھی۔ آہ مجھے پھر ایک دفعہ دن کی روشنی دیکھنے کی کتنی تمنا ہے!!

    ’’موسم خوب سہانا ہے۔‘‘ میں نے محافظ سے کہا۔

    اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ بلکہ خاموش رہا۔ شاید اس لئے کہ وہ مجھ بدبخت کی خاطر اپنی زبان سے لفظ نکالنا اس کو بے فائدہ ضائع کرنا سمجھتا تھا۔ لیکن تھوڑے عرصے کے بعد ایسے کہ جیسے اس کے ضمیر نے ملامت کی ہو۔ وہ بولا-:

    ’’ بہت خوشگوار ہے۔‘‘

    میں بے حس و حرکت سورج کی ان مدھم شعاعوں کی طرف حریصانہ نظروں سے دیکھ رہا تھا جو میرے قفس کی چھت پر آزادانہ کھیل رہی تھیں۔

    ’’کیا پیارا دن ہے۔‘‘ میں نے پھرمحافظ سے کہا۔

    ’’درست ہے، مگر وہ تمہیں بلا رہے ہیں۔‘‘

    ان الفاظ نے مجھے میری اصلی حالت سے خبردار کرکے خوف وہراس کے اسی تنگ و تاریک اورعمیق گڑھے میں پھینک دیا۔۔۔۔۔۔ تب میں نے اپنے دماغ میں عدالت کی کرسیوں پر ججوں کو شاہانہ لباس پہنے ہوئے دیکھا۔ وہ میری طرف گھور رہے تھے ۔ یہ جیوری کے ارکان تھے جن کے ہاتھوں میری قسمت کا فیصلہ تھا۔ جب میں سو رہا تھا، وہ میری قسمت کا فیصلہ مرتب کرنے میں مصروف تھے۔

    میں اٹھا۔ مگر میری ٹانگیں جواب دے رہی تھیں۔ جسم کا ہر عضو ارتعاش پذیر تھا۔ گرتے گرتے بچا۔ مگر قہر درویش برجان درویش۔ محافظ جیل کے ساتھ ہو لیا۔ دروازے کے باہر دو اور سپاہی کھڑے تھے ان سب کی معیت میں عدالت کی طرف روانہ ہوا۔ آسمان نکھرا ہوا تھا۔ سورج کی شعاعیں بلند دود کشوں سے چھن چھن کر مختلف سمتوں پر پڑ کر اس منظر میں عجیب دلفریبی پیدا کررہی تھیں۔۔۔۔۔۔ خوب پیارا دن تھا۔

    ہم کمرہ عدالت میں داخل ہوئے۔ میری آمد پرہال عجیب و غریب آوازوں سے گونج اٹھا۔ تمام لوگوں کی توجہ کا مرکز صرف میں ہی بدنصیب تھا۔ ہر طرف سے میری جانب انگلیاں اٹھ رہی تھیں۔ یہ نظارہ میرے دل و دماغ پر نشتر کا کام دے رہا تھا۔

    میں اپنی جگہ پربیٹھ گیا توہال پر پوری خاموشی چھا گئی۔یہ دیکھ کر میرے دل کو بھی قدرے تسکین ہوئی۔ اس وقت تک میں نے یہ بھی نہ سوچا کہ میں یہاں اپنی قسمت کا فیصلہ سننے آیا ہوں۔۔۔۔۔۔ اگر خیال آیا بھی تو میں اس سے خوفزدہ نہ ہوا۔ کھڑکیاں کھلی تھیں۔ تازہ ہوا آزادانہ ہال میں پھرر ہی تھی۔ ساتھ کے بازار سے لوگوں کے چلنے پھرنے کی آواز۔۔۔۔۔۔ خوشی کے قہقہے اچھی طرح سے سنے جاتے تھے۔ سامنے جیوری کے اراکین بیٹھے تھے، مگر ان کے بشرے سے تو ایسا معلوم نہ ہوتا تھا کہ وہ کسی کی موت کا فیصلہ سنانے والے ہیں۔

    جبکہ میرے اردگرد ایسا تسلی بخش ماحول تھا تو پھر میں کسی ہولناک خیال سے کیوں ڈرتا۔

    اگر میرے دل میں اس وقت کوئی خواہش تھی تو صرف ایک۔۔۔۔۔۔ آزادی کی۔

    امید کی آخری کرن اب میرے دل میں نمودار ہو چکی تھی۔ اور میں اپنے فیصلہ کا ایک لفظ سننے کیلئے تیار تھا۔ اب مجھ میں ایک مقابلہ کی طاقت بدرجہ اتم موجود تھی۔

    اسی اثناء میں میرا وکیل جس کی غیر حاضری سے ابھی تک کارروائی رکی ہوئی تھی نمودار ہوا۔ اور میرے قریب کی ایک کرسی پر بیٹھ کروہ میری طرف جھکا اور مسکراتے ہوئے کہنے لگا-: ’’ کچھ فکر نہ کرو مجھے امید ہے کہ خدا بہتر کرے گا۔‘‘

    میں نے بھی اسے اسی انداز میں جواب دیا۔’’یقیناً‘‘

    ’’مجھے ابھی تک ان کے فیصلہ کے متعلق کچھ علم نہیں، تاہم میں یہ وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ سزائے موت نہیں دیں گے۔ اب صرف حبس دوام کی بات ہے۔‘‘

    ’’آپ کا کیا مطلب جناب؟ میں تو موت کو ایسی ذلیل زندگی پر ترجیح دوں گا۔‘‘ میں نے وکیل سے طیش میں آکر کہا۔

    موت! ہاں موت! مجھے یہ کہنے میں کوئی خوف محسوس نہیں ہوتا۔ سزائے موت تو آدھی رات کے وقت خوفناک ہال میں جس میں کہ گندی شمعیں جل رہی ہوں اور موسلا دھار بارش ہورہی ہو۔ سنائی جاسکتی ہے۔ مگر اس خوبصورت ہال میں، اگست کے پُر کیف مہینے میں۔ آج ایسے خوشگوار اور سہانے دن۔۔۔۔۔۔ اور ایسی شریف جیوری کے ہوتے ہوئے کیا سزائے موت سنائی جائے گی؟ نہیں! ہرگز نہیں۔ یہ خیال کرتے وقت میری آنکھیں سورج کی منور صورت دیکھنے کو ترس رہی تھیں۔

    اتنے میں ریڈر نے کھڑے ہوکر میرا فیصلہ جوکہ جیوری نے میرے سوتے وقت مرتب کیا تھا، سنانا شروع کیا۔ میرے تمام جسم میں خوف و ہراس کی سرد لہر دوڑ گئی۔ میں نے دیوار کا سہارا لے لیا تاکہ زمین پر نہ گر پڑوں، کیونکہ اب میری طاقت جواب دے چکی تھی۔

    ’’ کیا آپ کو اس بارے میں کچھ کہنا ہے کہ کیوں نہ یہ سزا ملزم کو دی جائے۔ صاحب صدر نے میرے وکیل سے دریافت کیا۔

    مجھے بہت کچھ کہنا تھا مگر۔مگر میری زبان تالو سے چمٹ گئی۔ میں ایک حرف بھی زبان سے نہ نکال سکا۔

    میرا وکیل کچھ کہنے کیلئے اٹھا۔ غالباً وہ میری سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرانے کی ناکام سعی کررہا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ اس کوروک دوں اور بھری عدالت میں پکار کرکہہ دوں’’ مجھے ہزار بار موت پسند ہے۔ میں عمر قید کیلئے جبہ سائی کرنا نہیں چاہتا۔‘‘ مگریہ الفاظ میری زبان پر آکررہ گئے۔ میں اپنے وکیل کا بازو پکڑ کر نحیف آواز میں صرف اتنا کہہ سکا’’ جانے دیجئے۔‘‘

    جیوری نے میرے وکیل کی سفارش پر کوئی کان نہ د ھرا۔ بلکہ دوسرے کمرے میں تھوڑی دیر ٹھہر کر پھر واپس آئے اور میری موت کا فتویٰ سنا دیا

    ’’سزائے موت‘‘! ہجوم نے چلا کرکہا۔

    میں نیم بے ہوشی کی حالت میں ہجوم سے نکل کر باہر آیا۔ میرے اندر ہنگامہ سا برپا ہوگیا تھا۔ سزائے موت کا حکم سنائے جانے سے پیشتر میں اوروں کی طرح ہوش و حواس میں تھا۔ مگر مجھے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مجھ میں اور دنیا میں اب ایک وسیع خلیج حائل ہے۔

    وہی دھلا ہوا آسمان، وہی اونچے اونچے دودکش، وہی خوبصورت روشنی جو اس سے چند ساعت پیشتر میرے لئے موجب فرحت تھی، اب باعث اذیت ہے۔ وہی دل خوش کن سماں بھیانک، زرد اور خوفناک۔۔۔۔۔۔

    جو آدمی میرے پاس سے گزر رہے تھے۔ غول بیاباں معلوم ہوتے تھے۔۔۔۔۔۔ سیڑھیوں کے نیچے قید خانہ کی مہیب اور ڈراؤنی گاڑی میرا انتظار کررہی تھی۔ دو نو عمر لڑکیاں میری طرف غور سے دیکھ رہی تھیں۔ ان میں سے ایک نے خوشی سے تالی بجاتے ہوئے کہا’’ باجی! اس آدمی کو چھ ہفتہ کے بعد پھانسی دی جائے گی۔ ہم بھی دیکھیں ۔ خوب تماشہ ہوگا۔

    (3)

    سزائے موت!! کیا ہوا؟ کیا دنیا فانی نہیں؟ کیاہر شخص کے لیے موت یقینی امر نہیں؟ تو پھر خوفزدہ ہونا کیا معنی؟

    میری موت کا حکم سنانے سے اب تک کیا ان اشخاص کی اموات نہیں ہو چکیں جو زندگی کو عزیز جانتے تھے؟

    کیا نوجوان، تندرست اور آزاد انسان نہیں مر چکے جو میرا سرقلم ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتے تھے؟

    کیا اور شخص موت کے شکار نہ ہوں گے، جوکہ اب تازہ ہوا میں آزادانہ چلتے پھرتے ہیں؟

    تو پھر زندہ رہنے سے مجھے کیا مل جائے گا جو میں اپنی موت پر اظہار افسوس کروں۔ اگر زندہ رہوں تو سوائے اس کے کہ محافظ کا ہر روز منحوس چہرہ دیکھوں۔ ریت ملی ہوئی روٹی کو پانی ایسے شور بے سے زہر مارکروں۔ جیل کے افسروں سے دھتکارا جاؤں۔ کسی ایسے شخص سے نہ مل سکوں جس کے دل میں مجھ بد بخت کا تھوڑا سا درد بھی ہوتا کہ کہیں اس سے میں اپنا دکھ نہ بٹالوں اور کیا ہوسکتا ہے؟

    ایسی زندگی سے۔۔۔۔۔۔ ذلیل اور ناپاک زندگی سے موت ہزار درجہ بہتر ہے۔ آہ !! یہ زندگی ناقابل برداشت اور ہولناک ہے۔

    (4)

    قید خانے کی سیاہ ماتمی اور منحوس گاڑی مجھے اس زندان میں لے آئی جس میں کہ اب اپنی زندگی کے قلیل ایام بسر کررہا ہوں۔

    دور سے اگر دیکھو تویہ ایک عالی شان اور شاہی عمارت معلوم ہوتی ہے لیکن جوں جوں آپ نزدیک آتے جائیں گے آپ کو افسوسناک حقیقت معلو م ہوتی جائے گی اور شاہی عمارت ایک بدنما کھنڈر میں تبدیل ہو جائے گی جس میں کھڑکیوں میں شیشے کی بجائے آپ کو لوہے کی موٹی موٹی سلاخیں جڑی ہوئی نظر آئیں گی۔ جن کے پیچھے آپ کومجرموں کے بھیانک اور مردار چہرے نظر آئیں گے۔

    یہ زندگی ہے۔۔۔۔۔۔زندگی۔۔۔۔۔۔ جو موت کا بھیس بدل کر پھررہی ہے۔

    (5)

    اس جیل میں منتقل ہوتے ہی مجھ پربہت سی پابندیاں عائد کردی گئیں۔ کھانے کے ساتھ چھری اور کانٹے آنے بند ہوگئے۔ پہلا لباس اتروا کر چھوٹی قمیض پہننے کیلئے دی گئی۔ صرف اسی خیال سے کہ میں خود کشی نہ کرلوں۔ جیل کے محافظ اب میری زندگی کے ذمہ دار ہیں۔ کیونکہ میرا سر قلم کرنے کیلئے میری صحت اور زندگی لازمی ہے۔

    پہلے دو تین دنوں میں انہوں نے ہر طرح میرے آرام و آسائش کا خیال کیا۔ میرے ساتھ تہذیب یافتہ شخص ایسا سلوک کرتے۔ مگر مجھے یہ ظاہر داریاں بہت بری معلوم ہورہی تھیں۔ میں خوب جانتا تھا کہ یہ سب کچھ میرے سر کو کٹتے وقت تک محفوظ رکھنے کی خاطر کیا جارہا ہے ورنہ پھانسی کی کوٹھڑی کا محافظ دوسرے معنوں میں جلاد اور ایسی نرمیاں؟

    خوش قسمتی سے ان دنوں میں ایسی چاپلوسی سے مانوس ہوگیا ہوں۔ اور جیل کے پادری نے مجھے ہفتہ میں ایک بار دوسرے قیدیوں کی معیت میں باہر جانے کی اجازت بھی دے دی ہے۔ لکھنے کا متعلقہ سامان بھی بڑی سوچ بچار کے بعد اب مہیا کردیا گیا ہے۔ہر اتوار کو میں دوسرے قیدیوں کے ساتھ جیل کے صحن میں ٹہلتا ہوں۔

    وہ بد بخت بہت اچھے آدمی ہیں مجھے اپنی اپنی کہانیاں سناتے ہیں۔ مگر ان کی سرگزشت میرے لئے بھلا کیا دلچسپی رکھ سکتی ہے۔ میرے لئے جس کی موت تھوڑے عرصہ بعد واقع ہونی ہو۔ میرے لئے جس کے سر کو تھوڑے دنوں بعد دوسروں کو کھلونا بننا ہو۔

    وہ گاتے ہیں۔ راگ الاپتے ہیں۔ راگ! غلیظ راگ۔ جس کو سُن کر میری ایسی حالت ہوتی ہے جیسے کوئی گردوغبار سے اٹا ہوا قالین میری ناک کے قریب جھاڑ رہا ہو۔ لیکن باایں ہمہ وہ مجھے رحم کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔

    مجھے محافظ اور وارڈر سے بغض و عناد نہیں۔ لیکن پھر بھی وہ میری طرف آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے ہیں۔ ہنستے ہیں۔ گویا میں ان کے لیے نئی چیز ہوں۔ چڑیا گھر کا عجیب وغریب جانور۔

    (6)

    جب تحریر کے تمام ذرائع مجھے میسر ہیں۔ توکیا وجہ ہے کہ میں اپنے افکار و حوادث کو صفحہ قرطاس پر نہ لاؤں۔ لیکن مجھے کس موضوع پر قلم اٹھانا چاہئے!

    جبکہ جیل کی چار دیواری کے اندر مقید میری حد نظر دیوارسے اس پار نہیں جاسکتی۔ میری نگاہیں نیلگوں آسمان کا تماشا نہیں کرسکتیں میرے ذہن میں ہمیشہ اور ہر وقت ایک ہی خیال موجزن ہے۔ موت کا خیال۔ جب صورت حال یہ ہے تومجھے کیا لکھنا چاہئے۔ مجھے اس دنیا سے کوئی سروکار نہیں۔ میں اذیت رساں ذہن اور احساسات کو صفحہ قرطاس پر کیوں کر لا سکوں گا!

    کیوں نہیں؟ اگر میرا ماحول پرسکون اور خاموش ہے۔ تو کیا؟

    میرے دل میں درد ہے، میرے ذہن میں ہیجان ہے، میری روح بیتاب ہے۔ میں جیتی جاگتی المناک داستان ہوں۔ کیا یہی ایک خیال مجھے میرے داستان حیات بیان کرنے میں محرک نہیں ہوسکتا۔ یہ خیال تو مقررہ وقت کو قریب سے قریب تر آتے دیکھ کر مزید تقویت پکڑتا ہے۔

    یقیناً تمام سامان مہیا ہے۔ میری زندگی مختصر سہی، تاہم وہ ایک انسان کی پراز حسرت داستان کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے ناکافی نہیں۔ مصائب و نوائب میں صرف اسی صورت میں نمایاں کمی واقع ہو سکتی ہے کہ میں اپنے زخم پنہاں کوہویدا کروں۔ میں اپنی ذہنی ہیجان کی تصویر کو انسانیت کے سامنے پیش کروں شاید ایسا کرنے سے میری تکالیف کی رفتار سست ہو جائے۔ مجھے یقین ہے کہ میں جو لکھوں گا وہ بے سود نہ ہوگا۔ میں اپنی مشکلات کی تکلیف دہ داستان اپنی زندگی کے آخری لمحہ تک مکمل کرنے کی کوشش کروں گا اگر یہ غیر مکمل بھی رہ گئی تو کیا خونی حکایت سبق آموز ثابت نہ ہوگی؟

    اس شخص کی ذہنی کیفیت۔ روحانی اذیت جسے موت کی سزا کا حکم سنایا جا چکا ہو، ان افراد کیلئے بھی جنہوں نے سزائے موت کا فتویٰ صادر کیا سبق نہ ہوگا؟ شاید اس حکایت کے تاثرات سے وہ مجرموں کی جانچ پڑتال نام نہاد ترازوئے عدل میں صحیح طور پرکرسکیں۔ شاید وہ بتدریج ارتقائے مصائب کا بغور مطالعہ نہیں کرتے۔ جب وہ اپنی عدالت سے کسی مجرم کے خلاف موت کا حکم نافذ کرتے ہیں، جب وہ کسی مجرم کو سزا دیتے ہیں تو اس وقت وہ اس حقیقت سے بالکل بے خبر ہوتے ہیں کہ وہ جس شخص کی زندگی کا خاتمہ کرنے والے ہیں اس کے اندرغیر فانی روح موجود ہے جو موت کی دسترس سے بالاتر ہے۔ اس کے پیش نظر سوائے عدل و انصاف کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ وہ مجرم کی اندرونی و بیرونی کیفیت سے بے پروا رہتے ہیں۔

    یہ کاغذات انہیں اس حقیقت سے آگاہ کردیں گے۔ شائع ہونے کے بعد میرے خیالات ان کے دماغوں کی عنان توجہ اپنی طرف منعطف کرائیں گے۔ وہ انسانی جسم کو خاک میں ملا کر اپنی کامرانی کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ذہنی پستی کی عیاں مثال۔ جسمانی اذیت ذہنی تکلیف کے مقابلہ پر کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔

    وہ دن آنے والا ہے جب میرے سوانح حیات لوگوں کو۔۔۔ اگر میری زندگی کے بعد تیز ہوا ان کاغذات کو عدالت میں نہ لے اڑی۔ یا یہ کاغذات محافظ جیل کے کمرہ کی بدنما کھڑکیوں پر چسپاں ہو کر ابروباراں سے ضائع نہ ہوگئے۔

    (7)

    فرض کرلیا جائے کہ میری داستان زندان ایک روز دوسروں کیلئے مفید ثابت ہو۔۔۔۔۔۔ ججوں کوسزائے موت کا فتویٰ دیتے وقت کپکپی پیدا کردے۔۔۔۔۔۔ مجرموں اور بے گناہوں دونوں کو اس مصیبت سے جس میں کہ میں ان دنوں گرفتار ہوں بچا لے، تو مجھے اس سے کیا فائدہ؟ جب کہ میرا سر تیز دھار چھرے سے کاٹا جا چکا ہوگا۔ میں کسی خاموش قبرستان میں منوں مٹی تلے سو رہا ہوں گا۔ تو پھرمجھے کیا؟ میری طرف سے وہ ہزاروں کی جانیں لیں۔ لاکھوں کے سر قلم کریں۔ میں تو اس وقت اپنی زندگی کے دن پورے کر چکا ہوں گا۔ کیا میں نے مقتل کی اس جگہ کو جس جگہ کہ میرے جسم کا خون بہے گا الٹنے کی ناکام سعی کا خیال کیا ہے؟ جبکہ سورج کی زندگی بخش روشنی، بہار کا سہانا موسم، ہرے بھرے کھیت، پرندوں کا چہچہانا، نیلگوں آسمان، لانبے لانبے درخت، برسات کی کالی کالی گھٹائیں، قدرت کی نیرنگیاں، زندگی اور موت میرے لئے نہ ہوگی۔ نہیں! نہیں یہ سب کچھ میرے لئے ہے۔ میں زندہ رہوں گا۔ زندہ رہنے کی کوشش کروں گا۔ کیا یہ سچ ہے کہ میں ضرور موت کے گھاٹ اتارا جاؤں گا؟ آہ! میرے پروردگار !! اس خیال کے آتے ہی دیوار سے سر پھوڑنے کو جی چاہتا ہے۔

    (8)

    اب مجھے یہ سوچنا چاہئے کہ میری زندگی اور موت کے درمیان کے روز باقی ہیں۔ تین دن سزائے موت کے حکم کے بعد ملزم کو رحم کی درخواست کیلئے ملتے ہیں۔ ایک ہفتہ کاغذات کی جانچ پڑتال کیلئے دو ہفتہ وہ کاغذات وزیر کی میز پر فضول پڑے رہتے ہیں۔ وہ یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ کاغذ ہیں کس بارے میں؟ حالانکہ مقدمہ کی تمام کارروائی اس کے پاس اس لئے بھیجی جاتی ہے کہ وہ اس کا مطالعہ کرکے ان پر اپنی طرف سے رائے لکھ کر بادشاہ کے پاس بھیج دے۔۔۔۔۔۔

    دوہفتہ اس حکم کی نظرثانی کرنے میں صرف ہوتے ہیں تاکہ کہیں کسی سے بے انصافی نہ ہو جائے۔۔۔۔۔۔

    اس کے بعد شاہی عدالت کا اجلاس منعقد ہوتا ہے جس میں وہ عموماً ان تمام درخواستوں کو رد کردیتے ہیں جو ان کی خدمت میں رحم کیلئے گزاری گئیں۔۔۔۔۔۔ وہ ان ردی کاغذات کو وزیر کے پاس واپس بھیج دیتے ہیں جو فوری عمل درآمد کیلئے انہیں جلاد کے سپرد کردیتا ہے۔

    اب صرف تین دن باقی رہ گئے۔۔۔۔۔۔ چوتھے دن سرکاری وکیل اپنے دل میں کہتا ہے’’ اس معاملہ کا جلد خاتمہ ہونا چاہئے۔ چنانچہ اس کے حکم سے اسی صبح بازار کے چوک میں پھانسی دینے کا چبوترہ تیار ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ راہ گزاروں کیلئے خونیں چبوترہ بہت دلچسپی پیدا کردیتا ہے۔۔۔۔۔۔ اس کے بنتے وقت بہت سے تماشائی اس کے اردگرد جمع ہو جاتے ہیں۔

    کل چھ ہفتہ ہوئے! زندگی اور موت کے درمیان صرف چھ ہفتہ! اس بھولی لڑکی کا اندازہ بالکل درست تھا۔

    (9)

    میں نے آج اپنی وصیت مرتب کرلی ہے۔ فضول ہے! میری تمام جائیداد تو وکیل کے اخراجات بھی پورا نہ کرسکے گی۔ پھانسی۔پھانسی بھی کتنی گراں ہے۔ میرے پسماندگان میں صرف ماں، بیوی اور بچہ ہوگا۔

    ایک ننھی سی لڑکی تین سال کی معصوم بچی۔ جب میں نے اسے چھوڑا تھا تو وہ ابھی دوسال اور ایک ماہ کی تھی۔

    چنانچہ میری موت کے بعد والدہ اپنا لڑکا، بیوی اپنا خاوند اور لڑکی اپنا باپ کھو بیٹھے گی۔ تین عورتیں مختلف شکلوں میں یتیم ہو جائیں گی۔

    مجھے اپنی والدہ کا اتنا غم نہیں، وہ بیچاری عمر رسیدہ ہے۔ اس دردناک واقعہ کی تاب نہ لا سکے گی، مر جائے گی۔ غم و اندوہ کی پردرد تکالیف سے نجات پالے گی۔ نہ مجھے اپنی بیوی کا ہی فکر ہے۔ وہ پہلے ہی سے صاحب فراش ہے۔ یہ واقعہ اس کے عقل و ہوش کو چھین لے گا۔ میری یاد پھر اسے نہ ستا سکے گی۔

    اگر فکر ہے تو اپنی ننھی معصوم بچی کا ! اس بھولی بھالی میری کا جو اس وقت بھی اس ہونے والے حادثہ جانکاہ سے بے خبر گھر میں کھیل رہی ہوگی، جس کے کان برائی کے لفظوں سے ناآشنا ہیں، آہ صرف اسی کی یاد مجھے بزدل بنائے دیتی ہے۔

    آہ! صرف اسی کی یاد مجھے بزدل بنائے دیتی ہے۔

    (10)

    میری تنگ و تاریک کوٹھڑی کا نقشہ بھی لگے ہاتھ ملاحظہ ہو۔ یہ جگہ آٹھ مربع فٹ ہے۔ اس کی دیواریں سیمنٹ اور بجری سے کوٹی ہوئی ہیں۔ ایک کونے میں تھوڑا سا گھاس پڑا ہوا ہے۔ یہ بدنصیب قیدی کے سونے کی جگہ ہے۔ خواہ کڑا کے کی سردی ہو یا جنوں انگیز گرمی۔ قیدی کو اسی جگہ بغیر کسی اوڑھنی کے سونا پڑتا ہے۔ میرے سر کے اوپر پتھر کی بنی ہوئی چھت ہے۔ اور بجائے پردوں کے اس میں مکڑیوں کے جالے لٹک رہے ہیں۔

    کھڑکیوں اور روشندانوں سے یہ کمرہ محروم ہے۔ سامنے بڑا سا آہنی دروازہ ہے جس کی شکل دیکھتے ہی بدن پرکپکپی سی طاری ہو جاتی ہے۔

    نہیں! نہیں۔ میں غلطی پر ہوں۔ دروازے کے اوپر ایک چھوٹا سا سوراخ ہے۔ رات کے وقت یہ بھی احتیاطاً بند کرلیا جاتا ہے۔

    یہ ان غاروں یعنی کمروں کی تفصیل ہے جن میں میرے ایسے بدنصیب جنہیں سزائے موت کا حکم مل چکا ہو مقید ہیں۔

    دن ہو یا رات میرے کمرے کے باہر ہر وقت سنتری پہرہ دیتا ہے۔ جب کبھی بھی اس طرف نگاہیں اٹھتی ہیں، اسی سنتری کا منحوس چہرہ نظر آتا ہے۔ جب دیکھو مجھے بڑی بڑی آنکھیں نکالے گھوررہا ہے۔

    (11)

    رات کی سیاہی نے میری کوٹھری میں اور اندھیرا کردیا تھا۔ آہ ! مجھے دن کی روشنی کتنی پسند ہے۔

    بیٹھے بیٹھے یہی خیال آیا کہ کیوں نہ اپنی کوٹھڑی کی دیواروں کا جائزہ لوں؟ اب وہی منحوس محافظ مجھے اندھی سی لال ٹین دے گیا تھا۔

    لال ٹین لے کر اٹھا۔ تو دور ہی سے دیواروں پربہت سی عبارتیں لکھی ہوئی معلوم ہوئیں۔ ان کے لکھنے میں کوئلہ،پنسل اور کھریا مٹی استعمال کی گئی تھی۔ معلوم ہوتا تھا کہ ہر اس بدنصیب شخص نے جو اس کوٹھڑی میں چند دن رہ کرگیا تھا۔ اپنی یادگار ان لفظوں میں چھوڑنی چاہی تھی۔

    میرے بستر کے اوپر دو آتشیں دل بنے ہوئے ہیں جن میں ایک تیر پیوست ہے۔ ان کے نیچے ’’ او! بدنصیب! تیری زندگی کے دن بہت تھوڑے ہیں۔‘‘ لکھا ہوا ہے۔

    اوربہت سے دہکتے ہوئے دل۔ بہت سی غم ناک اور درد ناک عبارتیں۔ سامنے دیوار پر ایک آزادی کا جھنڈا بناہوا ہے جس کے نیچے ملک کے ایک جاں نثار کا نام کھدا ہوا ہے۔

    آہ ! میرے اللہ! میں نے تو سچ مچ خون بہایا تھا۔ قتل کیا تھا۔ مگر اس شخص کو جس نے قوم اور وطن کی فلاح کیلئے قدم اٹھایا، پھانسی دے دی گئی۔ اس کیلئے بھی وہی خوفناک سزا تجویز کی گئی۔۔۔۔۔۔یہ ظلم ہے۔۔۔۔۔۔ سراسرظلم ہے۔

    مجھ سے اب کچھ نہیں دیکھا جاسکتا۔ کیونکہ میں نے ابھی ابھی اسی دیوار پر پھانسی کے چبوترے کی شکل بنی ہوئی دیکھی ہے۔ کیسی ہیبت ناک، ڈراؤنی اور مہیب شکل ہے۔ اسی چبوترہ کی شکل جو میرے لئے بھی اس وقت تیار ہورہا ہوگا۔ ٹانگیں کانپ رہی ہیں۔ طاقت جواب دے چکی ہے۔ آہ! آہ ! لال ٹین میرے ہاتھ سے گررہی ہے۔ تھامنا! خدا کیلئے ذرا مجھے تھامنا!

    (12)

    تنکوں کے بسترے پر گھٹنوں میں سر دے کر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد میرا خوف و ہراس دور ہوگیا۔ اور نامعلوم طاقت مجھے پھر دیواروں کی طرف لے گئی۔ میں نے پھر انہی خوفناک عبارتوں کا مطالعہ کرنا شروع کردیا۔ دیوار کے کونے میں مکڑیوں کے جالے تلے مجھ کچھ لکھا ہوا سا نظر آیا۔ میں نے اس جالے کوہاتھ سے پونچھ دیا ۔ اس کے نیچے مجھے پانچ نام نظر آئے۔ میں ان کے لکھنے والوں کو اچھی طرح جانتا ہوں۔

    ان میں پہلا شخص وہ تھا جس نے اپنے بھائی کوٹکڑے ٹکڑے کر کے اس کا سر نالی میں اور باقی کا دھڑ دریا میں پھینک دیا تھا۔

    دوسرا قیدی ایک حکیم تھا جس نے اپنے دوست کو زہر دے دیا تھا اور اس کا علاج کرتے وقت دوا دینے کی بجائے اسے اور زہر پلا دی تھی۔

    تیسرا ایک دیوانہ تھا۔ خوفناک دیوانہ جو چھوٹے چھوٹے بچوں کو چاقوں کی ایک ضرب سے ہی ہلاک کردیا کرتا تھا۔

    جب یہ خیال آیا کہ وہ سب کسی زمانے میں اسی کوٹھڑی میں موجود تھے تو میں سرسے پاؤں تک کانپ گیا۔

    لیکن اب تووہ جیل کے ملحقہ قبرستان میں خاموشی سے سو رہے تھے۔ مجھے بھی ان کے ساتھ تھوڑے دنوں بعد جا ملنا تھا۔ میں توہمات کا قائل نہیں ہوں۔ لیکن پھر بھی ان اشخاص کے حالات نے مجھ پر عجب کیفیت طاری کردی، میرے جسم کی حرارت تیز ہوگئی۔

    میں ابھی ان پر قیاس آرائی ہی کررہا تھا۔ کہ ایسا معلوم ہوا کہ وہ نام جو اس سے تھوڑی دیر پیشتر پنسل کے لکھے ہوئے تھے، آگ کی طرح دہک رہے تھے۔ ہر ایک لفظ ایک شعلہ معلوم ہوتا تھا جو میری طرف بڑھتا چلا آرہا تھا۔ میرے کانوں میں عجیب عجیب آوازیں آنی شروع ہوئیں۔ جوکہ تیزی کے ساتھ شوروغل میں بدل گئیں۔آنکھوں میں سے چنگاریاں نکلتی ہوئی محسوس ہوئیں۔

    اب مجھے ایسا معلوم ہوا کہ میرا کمرہ آدمیوں سے بھرا ہوا ہے۔ بالکل ناآشنا ہستیوں سے۔ ہر ایک اپنا سر ہاتھ میں پکڑے ہوئے ہے جس میں سے لہو کی بوندیں ٹپک رہی ہیں۔ اب مجھ سے زیادہ نہ دیکھا جاسکا۔ آنکھیں بند کرلیں۔ مگر ایسا کرنے سے وہ ہیبت ناک نظارہ اور بھی صاف دکھائی دینے لگا۔

    خواب۔واہمہ۔ حقیقت جو کچھ بھی ہو۔ مگر اس وقت تو وہ مجھے پاگل بنارہی تھی۔ میں گرنے کے قریب تھا کہ میں نے کسی ٹھنڈی سی چیز کو اپنے پاؤں پر سرکتے دیکھا۔ یہ مکڑی تھی جو کہ اس جالے سے گرپڑی تھی۔ اس واقعہ نے ان خیالات کا سلسلہ منقطع کردیا۔ میرے آوارہ اوسان پھر مجتمع ہوگئے۔

    ’’معدوم۔معدوم۔ بڑی حفاظت سے اب زمین میں مدفون! ۔۔۔۔۔۔ مرقد ۔۔۔۔۔۔ درودیوار سے بے نیاز جیل۔ یہ کہہ کر میں نے اپنے تئیں تسلی دی۔

    طلوع آفتاب کے ساتھ جیل میں بھی ہنگامہ شروع ہوا۔ مجھے بھاری بھر کم آہنی دروازوں کے بند اور کھلنے کی آواز آئی۔ قیدی ایک دوسرے سے ہمکلام تھے۔ میرے ہمسائے قیدی بھی غیر معمولی طور پر مسرور تھے۔ جیل میں بہت زیادہ رونق تھی۔ ہر طرف خوشی ہی خوشی نظر آتی تھی۔ تمام قیدیوں کے چہروں پر انبساط کے جذبات ہویدا تھے۔ صرف میں خاموش تھا۔ میں اپنے خیالات میں غلطاں اور پیچاں سکوت سے اس تماشا کو دیکھ رہا تھا۔

    محافظ جیل میرے پاس سے گزرا۔ میں نے جرات سے دریافت کیا۔’’ کیا جیل میں کسی جشن کی تیاری ہورہی ہے؟

    ’’ جشن؟ ہاں! اگر تم اسے یہ نام دے سکو۔ آج کے دن عمر قیدیوں کو طوق و سلاسل میں جکڑا جائے گا۔ کیونکہ انہیں کل طولون جانا ہے۔ کیا تم انہیں دیکھنا چاہتے ہو۔؟ یہ نظارہ میرے خیال میں تمہارے لئے باعث راحت ہوگا۔‘‘ محافظ نے جواب دیا۔

    ایک تباہ شدہ اور واژگوں بخت انسان جسے تنہائی میں مقید رکھا ہو، اس کے نزدیک بدترین قسم کا اجتماع بھی قابل دید ہوتا ہے۔ میں نے محافظ کی دعوت کو قبول کرلیا۔

    محافظ مجھے باحتیاط تمام ایک خالی کمرے میں لے گیا۔ کمرہ میں صرف ایک کھڑکی تھی۔ اس کھڑکی سے انسان بیرونی حالات و واقعات کا بہ آسانی مطالعہ کرسکتا ہے۔ محافظ نے مجھے اس کمرے میں بیٹھ کر قیدیوں کا تماشا کرنے کیلئے کہا۔

    ’’ تم یہاں اکیلے بادشاہ کی مانند مزے لو۔‘‘

    یہ کہتے ہوئے وہ کمرے سے باہر چلا گیا۔ اور باہر سے قفل لگا دیا۔

    کھڑکی کے سامنے ایک بلند عمارت ہے جس کی چار دیواری سے رنج و الم ٹپک رہا ہے۔

    انسان اسے دیکھتے ہی خائف وہراساں ہو جاتا ہے، اس سے زیادہ تکلیف دہ منظر انسانی چشم نہیں دیکھ سکتی۔ اس عمارت میں انسانی روحیں مقید کررکھی ہیں۔

    آج کے دن کے تمام قیدی اپنے قیدی بھائیوں کا تماشا کرنے کیلئے باہر آئے ہوئے ہیں۔۔۔۔۔۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مجروح روحوں نے دوزخ کی طرف ٹکٹکی لگا رکھی ہے۔!!

    قیدی خاموشی سے ایک دوسرے کی طرف تک رہے تھے۔ ان میں سے ایک دو کی چشم ہائے شعلہ بار ان کی اندرونی کیفیات کو ظاہر کررہی تھیں۔ بارہ بجے سب سے بڑا دروازہ کھلا۔ ایک بہت بڑی گاڑی اندر داخل ہوئی جس پر مسلح سپاہی بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ گاڑی عمر قیدیوں کیلئے تھی۔

    اسی اثناء میں طولون جانے والے قیدی فوجی ضبط میں قطار در قطار نظر آئے۔ ان کے دیکھتے ہی دوسرے قیدیوں نے شور مچانا شروع کیا۔

    محافظوں نے اپنا کام شروع کردیا۔ تمام قیدیوں کو بیڑیاں پہنائی گئیں۔ قیدیوں نے ان آہنی زنجیروں کو بخوشی قبول کیا اور کوئی پس و پیش نہ کی ہر دلعزلز قیدیوں کو رخصت کے وقت ادب سے سلام کیا گیا جس کا جواب وہ نہایت متانت اور خندہ پیشانی سے دیتے رہے۔

    اسی اثناء میں طبی معائنہ کیلئے ڈاکٹر آدھمکے۔ ان کی آمد پر قیدیوں نے آخری مرتبہ ناکام سعی کی کہ وہ طولون نہ جاسکیں۔ بعض نے خرابی صحت کا بہانہ تراشا۔ اور بعض نے آنکھ پیٹ یا ٹانگ میں درد کا عذر پیش کیا۔ لیکن ڈاکٹروں کے سامنے ان کی ایک پیش نہ چل سکی۔ قہر درویش برجان درویش قیدیوں کو ان کے آہنی حکم کے آگے سرجھکا دینا پڑا۔

    اب قیدیوں کو نیم برہنہ کردیا گیا تاکہ طولون کیلئے انہیں مخصوص لباس پہنا دیا جائے۔ قیدیوں کے اجسام کا برہنہ ہونا تھا کہ سرد ہوا زور سے چلنی شروع ہوئی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سرد ہوا بھی آمادۂ انتقام ہے۔ بارش بھی خوب زور سے برسنی شروع ہوگئی۔

    غریب قیدی کانپ رہے تھے۔ لیکن ان کی تکلیف کی کوئی پروا نہ کی گئی ان کو مخصوص لباس پہنا دیا گیا۔ اور گردنوں میں آہنی کالر لٹکا دیئے گئے۔

    کاروان جرائم روانہ ہو چکا تھا۔ میں تنہا کھڑکی میں بیٹھا یہ منظر دیکھ رہا تھا کہ ان کی نگاہوں نے میری طرف رخ کیا۔

    ’’ مجرم۔قاتل مستحق موت‘‘ سب نے یک زبان ہوکرکہا۔ میں حیران و سراسیمہ تھا۔ کیا وہ میری طرف مخاطب ہوکرکہہ رہے تھے؟

    ’’الوداع۔شب بخیر۔‘‘ کہتے ہوئے سب آگے نکل گئے۔ ایک نوجوان قیدی نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:

    یہ خوش قسمت ہے، کیونکہ عنقریب اس کا خاتمہ ہونیوالا ہے۔’’ شب بخیر رفیق من۔‘‘ میں کھڑکی میں بے حس و حرکت پڑا ہوا تھا۔ طولون جانے والے قیدیوں کا پانچواں گروہ میری کھڑکی کے سامنے سے گزر رہا تھا۔

    آہنی زنجیروں کی آواز سے میرا قلب لرز رہا تھا۔ مجھے ایسا معلوم ہوتا تھا ۔کہ فوج شیاطین میری طرف بڑھتی آرہی ہے۔ میں زور سے چیخا۔

    اب مجھے ایسا معلوم ہوا کہ میں انسانی کھوپڑیوں میں گھرا ہوا ہوں۔ اس خیال کی دہشت نے میرے قلب کے اندر ایک عجیب کیفیت پیدا کردی۔ میں نے ایک چیخ ماری اور

    بے ہوش ہوگیا۔

    (14)

    جب میں نے ہوش سنبھالا تو اپنے تئیں ایک بسترے پر لیٹا ہوا پایا۔ سقفی لیمپ کی مدھم روشنی میں میں نے بستروں کو قطار در قطار دیکھا۔ تو اندازہ لگایا کہ میں دارالشفا میں ہوں۔ میں چند لمحات تک جاگتا رہا۔ میں غورو فکر سے معراتھا۔ یقیناً چند ایام پیشتر زنداں کا یہی دارالشفا میرے لئے مہالک اور مخاطر کا سرچشمہ ثابت ہوتا۔

    بسترہ اس قدر گندہ تھا کہ تعفن سے دماغ پھٹا جاتا تھا۔ بہت معمولی قسم کے کمبل تھے تاہم میں نے محسوس کیا کہ میرے اعضا کے درد میں کمی واقع ہورہی ہے۔ میں پھر سو گیا۔

    اگلے روز بہت بڑے شور وغوغا نے مجھے خواب سے بیدار کیا۔ چونکہ میرا بسترا کھڑکی کے قریب تھا۔ اس لئے چیخ و پکار کا سبب تلاش کرنے میں کوئی دشواری نہ ہوئی۔ کھڑکی کے پاس بیٹھ گیا۔ یہاں سے تقریباً تمام جیل کا نظارہ کیا جاسکتا تھا۔ طولون جانے والے قیدیوں کو چھکڑوں میں سوار کیا جارہا تھا۔ بارش کی وجہ سے ان کے کپڑے تربتر ہورہے تھے اور وہ سردی کے مارے اپنے گھٹنوں کو اندر کی طرف کئے ہوئے تھے۔ ان کی بڑی بڑی داڑھیاں بارش سے تر ہو چکی تھیں۔ حسرت و یاس کا مرقع بنے ہوئے کانپ رہے تھے۔ جولائی کے لباس میں دسمبر کی سردی کا تقابل کررہے تھے۔

    محافظ اپنے عصا کے آزادانہ استعمال سے ضبط و نظم کو قائم کئے ہوئے تھے۔ بے کس و لاچار قیدی۔۔۔۔۔۔ ان کی آنکھوں میں آتش انتقام کی چنگاریاں بھڑک رہی تھیں۔ یہ تھی ان کی ابتدا !

    میرے وکیل نے مجھے کیسی رائے دی تھی ؟ اف میرے اللہ !!

    موت ہزار بار بہترہے اس زندگی سے۔۔۔۔۔۔ عمر بھر اسیری سے۔۔۔۔۔۔ جہنمی زندگی سے، موت اعلیٰ و ارفع ہے آہ!!

    (15)

    بدقسمتی سے میں اب تندرست تھا۔ اس لئے مجبوراً مجھے اسپتال کو خیرباد کہنا پڑا۔ اب وہی منحوس کوٹھڑی تھی اور اس کی مرطوب دیواریں۔

    تندرست ہوں! یقیناً تندرست ہوں۔ اس لئے کہ نوجوان ہوں۔ مضبوط ہوں۔ خون میری رگوں میں آزادانہ گردش کرتا ہے۔ میرے طاقتور بازو میری اطاعت کرتے ہیں۔ میرا جسم زیادہ عمر تک جینے کیلئے بنا ہوا ہے۔ آہ! لیکن وہ نہیں جانتے کہ یہ سب کچھ ہوتے ہوئے مجھے ایک روگ ہے۔ بیماری ہے جو مجھے روز بروز دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ یہ بیماری مجھے میرے بالمقابل کمرہ کے بام پر لابٹھائے۔

    میری دعا قبول ہوگئی۔ جونہی میری زبان سے یہ الفاظ نکلے میں نے اپنی کھڑکی کے نیچے کسی کی صدائے ہو شربا سنی۔ یہ نغمہ کسی طائر کا نہ تھا بلکہ کسی آتش نفس مغنی کا راگ تھا جو درد ناک ترنم میں اس کو گارہی تھی۔

    میں نے اپنے سر کو اٹھایا تاکہ گا ناسن سکوں۔ راگ فضا کو حسرت و الم کے جذبات سے لبریز کررہا تھا:

    میں نے بلند شاہ بلوط کو کاٹا

    مجھے شعلوں پر لوٹنے کے لئے کہا گیا

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    میں نے انسانی زندگی کا خاتمہ کیا

    مجھے زنداں میں پھینک دیا گیا

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    میری رفیق حیات نے التجا کی

    شاہ نے اسے نا منظور کردیا

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    مجھے ایسے کمروں میں ناچ کرنا ہے

    جودرودیوار سقف و فرش سے عاری ہو

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    مجھے تختۂ دار پرلٹکنا ہے

    میں اب کچھ نہ سن سکا۔

    زندان ! آہ زندان۔ بدترین مسکن، ذلیل ترین جائے پناہ۔

    جیل اپنی حد نظر تک کی تمام اشیا کو زہر آلود بنا دیتی ہے۔ یہاں ہر خوبصورت چیز اپنی اصلیت اور حقیقت زائل کرلیتی ہے۔ یہاں تک کہ ایک حسین کا آتشیں نغمہ بھی۔ اگر زندان میں تمہاری نظر کسی پرندے پر پڑے تووہ بھی پروبال بریدہ ہوگا۔ اگر تم کسی خوشبودار پھول کو سونگھو تو اس میں تمہیں زہر کی خاصیتیں نظر آئیں گی۔

    (16)

    اگر میں یہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہو جاؤں تو کس طرح میں ہرے بھرے اپنے بھائیوں سے عطا ہوئی۔

    جس دن ہسپتال سے خارج ہوکر اس منحوس چار دیواری میں آیا ہوں۔ ایک خیال ہر وقت ستاتا ہے۔ خیال جو مجھے دیوانہ بنائے دیتا ہے، وہ یہ ہے کہ اگر میں کچھ دن اوروہاں قیام کرتا تو شاید۔۔۔۔۔۔شاید فرارہونے میں کامیاب ہو جاتا!!

    ان حکیموں، تیمار داروں اور نوکروں کی نظروں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ میری جوانی کو رحم کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ ان کی سرد آہیں، ان کا ازراہ شفقت میرا ہاتھ دبانا کیا اس پر دال نہیں ہے۔

    کتنا تعجب ہے کہ وہ لوگ انسان کو بخار کی تکلیف سے تو بچا سکتے ہیں، لیکن پھانسی کے حکم سے نہیں بچا سکتے جب کہ ان کیلئے ایسا کرنا بالکل آسان ہے۔ صرف دروازہ کھولنے سے ایک بدقسمت انسان کی جان بچ سکتی ہے۔ صرف ایک دروازہ کھولنے سے!! اب میرے لئے تمام دروازے بند ہیں۔ موت سے بچنے کیلئے کوئی تدبیر سمجھ میں نہیںآتی۔ اگر رحم کی درخواست گزاروں تو وہ مسترد کردی جائے گی۔ کیونکہ فیصلہ بالکل درست تھا، میرے خلاف پختہ ثبوت موجود تھے۔ گواہوں کے بیان سچ پر مبنی تھے۔ ایسا کرنا سراسر بے وقوفی ہے۔ حماقت ہے!!

    کاش میں رحم کی درخواست منظور کرانے میں کامیاب ہو جاؤں۔ مگر کس سے؟ کس بنا پر؟ اور کن ذرائع سے؟

    جب یہ سوچتا ہوں تو ان سب کے جواب میں مجھے پھانسی کے چبوترے کا نقشہ آنکھوں کے سامنے نظر آجاتا ہے۔

    اب میرے لئے صرف دو چیزیں باقی ہیں -:

    اس منحوس کوٹھڑی میں چند روزہ قیام۔۔۔۔۔۔ گلا کاٹنے کا چبوترہ۔

    (17)

    میں نے دار الشفا کا تمام وقت کھڑکی میں بیٹھ کرگزار دیا۔ موسم تبدیل ہو چکا تھا۔ آفتاب کی جان بخش شعاعیں میرے لئے کسی حد تک لطف اندوز ثابت ہورہی تھیں۔ اپنا بھاری سر ہاتھوں میں لئے کہنیوں کو گھٹنوں پر ٹیکے پاؤں کو کرسی کے بازؤں پر رکھے حسرت و یاس کی جیتی جاگتی تصویر نظر آرہا تھا۔ زندان کا خیال مجھے رہ رہ کرستا رہا تھا۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا۔ گویا میرے اعضا میں طاقت ہے ہی نہیں۔ کانوں میں ابھی تک ان قیدیوں کی زنجیروں کی آواز گونج رہی تھی۔

    اس وقت میری انتہائی خواہش یہ تھی کہ ریاض ہستی کا باغبان کسی خوش الحان طائر کو کھیتوں میں دوڑتا پھروں گا۔

    نہیں نہیں ! مجھے دوڑنا نہیں چاہئے۔ اس طرح تو لوگ مجھ پر شک کریں گے۔ جیل سے بھاگا ہوا قیدی سمجھیں گے۔ میں آہستہ آہستہ سر جھکا کرچلوں گا۔ ساتھ ساتھ ہلکی ہلکی سیٹی بھی بجاتا جاؤں گا۔ اس طرح مجھے کوئی نہ پہچان سکے گا۔

    جیل سے نکلتے ہی میں جھیل کے کنارے درختوں کے جھنڈ میں رات ہونے تک پناہ لوں گا، وہ جگہ بہت محفوظ ہے، کسی زمانے میں اپنے دوستوں کے ساتھ یہاں مینڈک پکڑنے آیا کرتا تھا۔

    جب پوری طرح تاریکی مسلط ہوجائے گی تو میں وہاں سے نکل کر سیدھا انگلستان کی راہ لوں گا۔

    ایک سپاہی مرے پاس سے گزررہا ہے۔ اس نے مجھ سے پروانہ راہداری طلب کیا ہے۔ آہ! میرے پروردگار !! میں تباہ ہوگیا۔

    او۔ہوا میں قلعہ بنانے والے۔ پہلے اپنی منحوس کوٹھڑی کی تین فٹ چوڑی پتھر کی دیوار کو توڑ۔۔۔۔۔۔ آہ! ناامیدی!! موت!!! بھیانک موت !!! مجھے یاد ہے کہ میں اس وقت ایک کم عمر بچہ تھا ۔ جب میرا والد مجھے جیل کی دیوار دکھانے لایا تھا۔ مگر کسے معلوم تھا کہ میں اسی لوہے ایسی چار دیواری میں اس بے سروسامانی کی حالت میں قید کردیا جاؤں گا۔ آہ!!!

    (18)

    میں ابھی یہ لکھ رہا تھا کہ میری لا ٹین کی روشنی مدھم پڑ گئی۔ دن کی روشنی اس روشنی پر غالب آگئی تھی۔ گرجا گھر کی گھڑی کی مدھم آواز چھ بجنے کا پتہ دے رہی تھی۔

    دروازہ کھلا۔ محافظ جیل اندر داخل ہوا۔ ٹوپی اتار کرسلام کرتے ہوئے اس نے میرے تخلیہ میں مخل ہونے کی معافی چاہی۔ وہ ہرروز میرا ناشتہ لے کر آتا مگر آج اس کے بشرے سے کچھ اور ہی ہویدا تھا۔

    اپنی کرخت آواز کو ملائم بناتے ہوئے اس نے مجھ سے پوچھا کہ میں کیا چیز کھانا پسند کروں گا۔اس کا کہنا تھاکہ میرے جسم میں سرد لہر دوڑ گئی۔۔۔۔۔۔ کیا وہ۔۔۔۔۔۔ وہ خوفناک واقع کل پیش آنے والا ہے؟

    (19)

    ایسا نرم سلوک صرف ایک دن کیلئے ہے۔

    جیل کا گورنر خود مجھے ملنے آیا۔ اس نے میرے آرام و آسائش کے لئے محافظ جیل کو کچھ ہدایات دیں۔ اس نے مجھ سے یہ بھی دریافت کیا کہ میں اس سے ناراض تو نہ تھا۔ یا مجھے اس سے کوئی شکایت تو نہ تھی۔

    شکایت اور مجھے؟۔۔۔۔۔۔ مجھے جس کی زندگی اور موت کے درمیان صرف چند گھنٹوں کا فاصلہ ہے۔ قریب المرگ انسان کو کسی سے کیا شکایت ہو سکتی ہے۔ واپس جاتے ہوئے اس نے بڑے ادب سے’’ جناب‘‘ کہا۔

    میں اچھی طرح جانتا تھا کہ ایسا نرم سلوک صرف ایک دن کیلئے ہے۔

    (20)

    محافظ جیل خیال کرتا ہے کہ مجھے اس سے اور اس کے ہم پیشہ لوگوں سے کوئی شکایت نہیں۔ وہ درست خیال کرتا ہے۔

    ان کے بارے میں کچھ شکایت کرنی سراسر بے وقوفی ہے۔ کیونکہ انہوں نے تواپنا فرض ادا کیا ہے۔

    وہ میری جان کی حفاظت کرتے رہے۔ کیا مجھے ان کا شکر گزار نہ ہونا چاہئے؟ لیکن محافظ ہنس مکھ، نرم الفاظ اور خوشامدانہ لہجہ رکھتے ہوئے بھی میری نظروں میں جیل کی کوٹھڑی سے کم نہیں۔

    میرے گردونواح کی سب چیزیں مختلف اشکال میں زنداں ہیں۔ یہ دیوار پتھر کا قید خانہ ہے۔ یہ دروازہ لکڑی کا جیل۔ قید خانہ! انسان اور چونے پتھر کی عمارت کا مرکب ہے۔ میں اس کا شکار ہوں۔ اس نے مجھے اپنی دیواروں میں قید کرلیا ہے اس کے قفل مجھے فرار ہونے نہیں دیتے اور یہ محافظ کی تیزبین نگاہوں سے میری حفاظت کرتا ہے۔

    آہ! میں بدنصیب تو پہلے ہی سے ہوں۔ الٰہی ! میرا کیا حشر ہوگا۔ وہ میرے ساتھ کیا سلوک کریں گے!!

    (21)

    اب مجھے کامل سکون حاصل ہوگیا ہے۔ تمام امیدوں کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ آج سے پہلے میرے دل میں امید کی آخری کرن باقی تھی۔ سو وہ بھی چلی گئی۔ خدا کا شکر ہے۔ ہزار بار شکر ہے کہ امید کا وہ موہوم خیال جو میرے لئے سوہان روح ہورہا تھا، اب باعث تکلیف نہ ہوگا۔ ساڑھے چھ بجے! نہیں! نہیں! پونے سات بجے میرے کمرے کا دروازے کھلا اور ایک معمر شخص اندر داخل ہوا۔ وہ بڑا سا لبادہ پہنے ہوئے تھا۔ میں نے اس کے لباس سے اندازہ لگایا کہ وہ کوئی پادری ہوگا۔

    وہ میرے مقابل چارپائی پر بیٹھ گیا۔ مسکراہٹ اس کے لبوں پر کھیل رہی تھی۔ اپنی آنکھیں چھت کی طرف اٹھاتے ہوئے اس نے کہا’’ میرے بچے! کیا تم تیار ہو!

    ’’ میں بالکل تیار ہوں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے میری آنکھوں میں اندھیرا سا چھا گیا۔ ایک سرد لہر میرے جسم میں سرعت سے دوڑ گئی۔ میری کنپٹیوں کی رگیں پھول گئیں اور کانوں میں عجب سا شور برپا ہونے لگا۔

    مجھے ایسا معلوم ہوا کہ پادری کچھ کہہ رہا تھا، کیونکہ اس کے لب جنبش کررہے تھے اوروہ ہاتھوں سے کچھ اشارے کررہا تھا۔

    کوٹھڑی کا دروازہ پھر کھلا۔ دو آدمی اور داخل ہوئے۔ ان کے آنے سے میرے پراگندہ اور آوارہ خیالات پھر جمع ہونے شروع ہوگئے۔ میں اب دیکھ اور سن سکتا تھا۔

    ان میں سے ایک جو ہاتھ میں بڑا سا کاغذ پکڑے ہوئے تھا، میری طرف آیا اور جھک کر سلام کرتے ہوئے کہنے لگا’’ جناب میں شاہی دربار کا نقیب ہوں، اور حضور کے واسطے سرکاری وکیل کی جانب سے ایک پیغام لایا ہوں۔‘‘

    میری بیہوشی اب بالکل دورہوگئی تھی۔’’پیغام لائے ہو؟ خیر! اسے میرا سر ابھی ابھی درکار ہے کیا؟ مجھے امید ہے کہ میری مرگ سے اسے بہت خوشی حاصل ہوگی۔ کیوں نہ ہو۔ بیچارے نے اس کی خاطر تھوڑی تکلیف اٹھائی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر میں نے آواز کو اور مضبوط بنایا۔ اور کہا’’ جناب اس پیغام کو پڑھ کر سنائیے۔

    اس پر اس نے وہ کاغذ پڑھنا شروع کیا جو شروع سے آخر تک بڑے بڑے لفظوں سے پُرتھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ میری درخواست رحم شاہی دربار نے مسترد کردی ہے۔ اور پھانسی اسی دن عمل میں لائی جائے گی۔

    ’’آپ میرے ساتھ ساڑھے سات بجے تشریف لے جائیں گے کیا؟‘‘ اس نے حکم کو پڑھنے کے بعد مودبانہ لہجے میں کہا۔

    کچھ دیر تک تو میں اس کو بالکل نہ سن سکا، کیونکہ جس وقت اس کی آنکھیں کاغذپڑھنے میں مصروف تھیں، اس وقت میں نیم وا دروازے کی طرف پُر امید نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ لیکن آہ! بدقسمتی!! ایک نہیں چار سنتری کمرے کے باہر پہرہ دے رہے تھے۔

    شاہی ہرکارہ نے پھر وہی سوال دہرایا، تو میں نے آہستگی سے جواب دیا’’ جیسے آپ کی مرضی ہو میں ہر وقت تیارہوں۔‘‘

    ’’ تو پھر میں نصف گھنٹہ کے بعد آپ کی خدمت میں حاضر ہوں گا۔ تیاررہئے آپ۔‘‘

    ہر کارے نے دروازے کی طرف مڑتے ہوئے کہا۔

    وہ سب مجھے تنہا اس منحوس کوٹھڑی میں چھوڑ کر چلے گئے۔

    کاش! میں فرار ہونے میں کامیاب ہو جاؤں۔ میرے پروردگار! کوئی ذریعہ مہیا کردے کہ میں یہاں سے بھاگ نکلوں۔

    مجھے فراری کا کوئی نہ کوئی ذریعہ ضرور پیدا کرنا چاہئے۔ وہ دروازے سے ہو یا چھت سے۔ کھڑکیوں سے ہویا زمین سے۔ مگر مجھے یہاں سے بھاگ نکلنا چاہئے۔ خواہ ایسا کرنے میں مجھے اپنا گوشت ہی قربان کیوں نہ کرنا پڑے۔

    ایسا خیال کرنا سراسر بے وقوفی ہے۔ جہالت ہے۔ بہترین ہتھیاروں کی مدد سے بھی اگر اس دیوار کو توڑنے لگیں تو بھی تین ماہ کے عرصہ سے کیا کم وقت خرچ ہوگا۔ مگر مجھے جس کے پاس ایک کیل تک نہیں، ایک مکمل گھنٹہ تک وقت نہیں۔ آہ! ظالم شیطانو!! سفاکو!!! میں پاگل ہورہا ہوں!!!!

    (22)

    اب اس جگہ منتقل کردیا گیا ہوں۔ اب صرف ایک، اورصرف ایک چیز باقی ہے۔ یعنی گلا کاٹنے کی مشین۔ دوران انتقال میں جو سفر طے کیا، وہ اس قابل ہے کہ صفحہ قرطاس پر لایا جائے-:

    پورے ساڑھے سات بجے سرکاری ہرکارہ بلائے بے درماں کی طرح نازل ہوکر یوں گویا ہوا-:

    ’’ جناب میں حضور کا انتظار کررہا ہوں۔‘‘

    میں اٹھا اور دروازے کی جانب بڑھا۔مگرمجھے ایسا معلوم ہوا۔ جیسے میری طاقت بالکل سلب ہو چکی ہے۔ سرمیں شدت کا درد ہورہا تھا۔ جسم کے تمام اعضا بالکل مردوں ایسے تھے۔ دوسرا قدم اٹھانا مشکل ہورہا تھا۔

    مگر میں نے بڑی جرات سے کام لے کر اپنی زائل شدہ طاقت پر فتح پانے کی کوشش کرتے ہوئے دروازہ کی جانب بڑھنا شروع کیا۔

    اس منحوس کوٹھڑی کو ہمیشہ کیلئے خیر باد کہنے سے پیشتر میں نے اس پر آخری نگاہ ڈالی۔ جس میں میری زندگی کا قلیل مگر اہم حضہ گزرا تھا۔وہ اب بالکل سنسان معلوم ہورہی تھی۔۔۔۔۔۔ زندان کی کوٹھڑی کیلئے خالی رہنا بھی تعجب سے کم نہ تھا۔ غلام گردش کے اختتام پر ہمیں جیل کا پادری ملا اور ہمارے ساتھ ہولیا۔

    زندان کے درمیانی دروازہ پر ڈائرکٹرمجھے بہت محبت و شفقت سے ملا۔ اور خاص میری حفاظت کیلئے چار آدمی متعین کردیئے۔ دروازے سے گزرتے ہوئے ایک بوڑھا قیدی اپنے پنجرے سے بولا’’ آئندہ ملاقات تک خدا حافظ‘‘ کتنی مضحکہ خیز الوداع تھی۔ شاید وہ بوڑھا نہیں جانتا کہ یہ سفرجو میں اب اختیار کررہا ہوں، میرا آخری سفر ہے۔ آئندہ ملاقات عالم بالا میں ہی ہو سکتی ہے۔ اب ہم صحن میں پہنچ گئے جہاں کہ میں آزادانہ طور پر کھلی فضا میں سانس لے سکتا تھا۔ لیکن میں اس فضا سے بہت دیرتک لفظ اندوز نہ ہوسکا کیونکہ دروازے کے باہر وہی منحوس گاڑی انتظار کررہی تھی جس سے ایک دفعہ پہلے بھی میرا واسطہ پڑچکا تھا۔ اس متحرک قبر میں داخل ہونے سے پہلے میں نے صحن پر نگاہ ڈالی۔۔۔۔۔۔ وہ نگاہ جو کسی اچانک شعبدہ کی طالب تھی۔۔۔۔۔۔ میری روانگی پر تماشائیوں کا اچھا خاصا گروہ گاڑی کو حلقہ بنائے ہوئے تھے۔ ہلکی ہلکی بوندا باندی ہورہی ہے۔جو موسم کو اور تند اور سرد بنا رہی ہے۔ ہم سب گاڑی میں بیٹھ گئے ۔ہر کارہ اور ایک محافظ سامنے والی نشست پر۔میں پادری اور دوسرا محافظ اس کے مخالف تختے پر۔ اس کے علاوہ چا ر اور محافظ گاڑی کے پائیدان پر کھڑے تھے۔کوچوان کو شمار نہ کرتے ہوئے ایک کے مقابلہ میں آٹھ تھے۔ گاڑی خوفناک گڑگڑاہٹ سے متحرک ہوئی اور زندان کے بھاری بھر کم دروازے بند ہوگئے۔

    میں اس آدمی کی طرح تھا جو بیہوشی کے عالم میں ہی زندر درگور کیا جارہا ہو۔ جو سن سکتا ہو۔ مگر طاقت گویائی نہ رکھتا ہو۔

    گھوڑوں کی گھنٹیوں کی آواز، کوچوان کی چابک کی شٹرشٹر اور گاڑی کی گڑگڑاہٹ مجھے اس خوفناک منظر کی طرف تیزی سے لے جارہی تھی۔ میں خدا جانے کن خیالات میں غرق تھا کہ اچانک گاڑی نے رخ بدلا۔ آہنی سلاخوں والی کھڑکی میں سے باہر کی طرف جھانکا تو نوترے دیم کے بلند مینار نظرپڑے جوکہ پیرس کی دھند میں ملبوس مدھم مدھم سے نظر آرہے تھے۔

    اس منظر کو دیکھ کر میرے خیالات یکلخت نوترے دیم کی طرف پلٹ پڑے۔ ’’ جو لوگ اس مینار پر موجود ہوں گے ۔وہ میری گردن اترنے کا منظر بخوبی دیکھ سکیں گے۔‘‘ میں نے مجنونانہ ہنسی ہنستے ہوئے اپنے آپ سے کہا۔

    اسی وقت پادری نے بھی مجھ سے کچھ کہا۔ میں نے اسے اطمینان سے بولنے دیا۔ کیونکہ میرے کان تو پہلے ہی سے گاڑی کے پہیوں، کوچوان کی چابک اور گھوڑوں کی متواتر آوازوں سے پُر تھے۔ اس لئے پادری کی آواز میرے لئے ان شوروں میں سے ایک شور تھی۔

    میں خاموشی سے اس کا رٹا ہوا وعظ سنتا رہا جو میرے احساسات قلب کو مردہ کررہی تھی۔۔۔۔۔۔اس کا وعظ اس ندی کے شور کے مشابہ تھا۔ جوکسی ویران جنگل میں بہہ رہی ہو۔ میں نے اس کے الفاظ کو سنا۔ مگر آہ! وہی الفاظ، وہی عبارت۔ صنوبر کے ٹیڑھے اور مڑے ہوئے درختوں کی طرح میرے لئے نئے نہ تھے۔ میں انہیں کئی مرتبہ سن چکا تھا۔ بجائے اثر کرنے کے وہ میرے خیالات کو اور مجروح پریشان اور آوارہ کررہے تھے۔

    یکایک سرکاری ہرکارہ کی درشت آواز نے مجھے اپنے گہرے خیالات سے چونکا دیا۔وہ پادری سے مخاطب ہونا چاہتا تھا۔

    موسیوے ایبی۔ آج کی تازہ خبر؟ اس نے متجسّانہ لہجہ سے کہا۔ پادری جو کہ میرے ساتھ وعظ و نصیحت میں مصروف تھا، اس کو نہ سن سکا، لہٰذا ہر کارہ نے پھر ایک دفعہ اس سے مخاطب ہوکرکہا:

    ’’مقدس باپ! کیا آپ کو اس تازہ خبر کا علم ہے جس نے آج پیرس بھر کو اپنی طرف متوجہ کیا ہوا ہے۔

    میں سر سے پیر تک کانپ گیا۔کیا اس خبر کا میرے ساتھ تعلق تھا۔۔۔۔۔۔ مجھے بھی تو آج۔۔۔۔۔۔

    ’’نہیں تو؟ مجھے صبح کے اخبار دیکھنے کا وقت نہیں ملا۔ شام کو سارے اخبار ایک بار ہی دیکھ لوں گا۔ پادری نے آخر کار جواب دیا۔’’ چہ خوش! میں کچھ اور عرض کررہا ہوں جناب۔ آج کی تازہ خبر۔ وہ خبر جس نے پیرس بھر کی توجہ اپنی طرف مبذول کرالی ہے،ہر کارہ نے اسی انداز سے کہا۔’’ میرا خیال ہے مجھے اس کا علم ہے۔‘‘ میں نے ہر کارہ کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔’’ تمہیں؟ کیا واقعی؟ ہاں تو اس معاملہ کی بابت تمہاری کیا رائے ہے؟‘‘

    ’’ معاف کیجئے میں کچھ اور سمجھا تھا۔‘‘ میں نے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا۔ کیونکہ اس خبر کا میرے وجود کے ساتھ کوئی تعلق نہ تھا۔

    ’’لیکن تم تو ابھی کہہ رہے تھے کہ تمہیں کسی خبر کا علم ہے۔ آخروہ کیا ہے؟’’ ہرکارے نے مجھ سے دریافت کیا۔‘‘

    میں نے اس کا کوئی جواب نہ دیا۔ بلکہ اپنے کاندھوں کوہلکی سی جنبش دے کر پھر اپنے خیالات میں غوطہ زن ہوگیا۔

    ابھی چند منٹ نہ گزرنے پائے تھے کہ ہر کارہ پھر ایک دفعہ مخاطب ہوا اور کہنے لگا۔’’ کیا سوچ رہے ہو تم؟‘‘

    ’’اپنی قسمت کے فیصلہ کے متعلق۔یہی سوچ رہا تھا کہ آج شام کے بعد میں کچھ سوچ نہ سکوں گا۔‘‘

    ’’ یہ بات؟ چھوڑو۔ چھوڑو۔ ان خیالات کو موقوف کردو۔ تم تو بہت غمگین ہورہے ہو۔ نوجوان آدمی! بہادر بنو۔ اور اس کا مردانہ وار مقابلہ کرو۔۔۔۔۔۔

    ’’نوجوان؟ میں اور نوجوان؟ بھول رہے ہیں آپ۔ میری عمر آپ سے کہیں زیادہ ہے۔ ایک ایک منٹ میری عمر میں سال بھر کا اضافہ کررہا ہے۔‘‘’’ دیکھو! تم مذاق کررہے ہو۔ میں تمہارے د ادا کی عمر کے برابر ہوں۔‘‘

    ’’میں حقیقت عرض کررہا ہوں۔ مجھے آپ سے مذاق کرنے کی کوئی خواہش نہ تھی۔‘‘

    ’’جناب! خفا مت ہوںآپ! رنجش کو تھوک ڈالئے۔ اس نے میری سنجیدگی سے متاثر ہوکرکہا۔

    ’’ وہ رنجش دیر تک قائم نہ رہے گی۔ خاطر جمع رکھیں۔‘‘ میں نے جواب دیا۔

    ہماری گفتگو گاڑی کے اچانک ٹھہر جانے سے بند ہوگئی ۔ گاڑی محکمہ چونگی کے دفتر کے سامنے کھڑی ہوئی تھی۔ ایک انسپکٹر آیا اور اس کا معائنہ کرکے چلا گیا۔ اگر گاڑی میں ہمارے بجائے قربانی کی گائے ہوتی تو وہ یقیناً محصول لیتے۔ مگر انسانی سرجس کو اسی مقصد کیلئے لے جایا جارہا ہو۔ محصول کی دستبرد سے محفوظ تھا!۔۔۔۔۔۔ گاڑی چل پڑی۔گرجا گھر کا گجر ساڑھے آٹھ بجارہا تھا کہ ہم منزل مقصود پرپہنچ گئے۔ عدالت کی عمارت ہی میری روح قبض کرنے کیلئے کافی تھی۔ مگر غیر معمولی جسارت سے کام لیتے ہوئے گاڑی سے اترا اور سپاہیوں کی دورویہ قطار سے گزرتا ہوا اس عمارت میں داخل ہوگیا۔

    (23)

    شاہی ہرکارے کی معیت میں گیلری سے گزرتا ہوا ڈائرکٹر کے کمرے میں پہنچا۔ یہ وہ گیلری ہے جس سے صرف وہی اشخاص گزرتے ہیں جن کو سزائے موت ایسا لرزہ خیز حکم سنایا جا چکاہو۔ دوسرے الفاظ میں جن کا گلا تھوڑے عرصے کے بعد برید کیا جاتا ہے۔ ہرکارہ بحفاظت تمام مجھے ڈائرکٹر کی نگرانی میں چھوڑ گیا جس نے مجھے اپنے ملحقہ کمرے میں بند کردیا۔ اور باہر سے کمرے کو مقفل کردیا۔

    میں خدا جانے کن خیالات میں مستغرق تھا۔ نامعلوم اس کمرے میں کتنے عرصہ سے موجود تھا کہ یکا یک کسی انسانی قہقہ نے مجھے اس وارفتگی سے چونکا دیا۔

    میں نے فوراً ہی اپنی نگاہیں اٹھائیں تو اس حقیقت سے آشنا ہوگیا کہ میں کمرہ میں اکیلا نہ تھا بلکہ میرے سامنے پچاس ایک برس کا متوسط قد آدمی کھڑا میری طرف تیز اور چمکتی ہوئی نگاہوں سے گھُور رہا تھا۔

    اس کا لباس تار تار ہورہا تھا۔ جسم بے حد کثیف اور گندہ۔ اس کی موجودہ ہیئت کذائی عجیب گھناؤنا منظر پیش کررہی تھی۔

    معلوم ہوتا ہے کہ میری بے خودی کے عالم میں یہ بدنصیب شخص اس کمرہ میں ٹھونسا گیا تھا۔۔۔۔۔۔ کاش موت کا فرشتہ ہی اس کی جگہ آگیا ہوتا!!

    ہم تھوڑی تھوڑی دیر کیلئے ایک دوسرے کو غورسے دیکھتے رہے۔ مگر میرا تعجب اور خوف لحظہ بہ لحظہ بڑھتا گیا، کیونکہ وہ اس دوران میں پہلے سے زیادہ خوفناک اور شیطانی قہقہے لگارہا تھا۔

    ’’تم کون ہو۔‘‘ بالآخرمیں نے اس سے دریافت کیا۔

    ’’میں؟ میں وہ شخص ہوں جس کے سر نے آج سے ٹھیک چھ ہفتوں بعد دوسروں کا کھلونا بننا ہے۔ اپنی طرح ہی سمجھو۔ فرق اتنا ہے کہ تمہارا سر چھ گھنٹہ کے بعد قلم ہوگا اور میرا چھ ہفتہ کے بعد‘‘ اس بڈھے نے شیطانی قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔

    میرے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ سرد لہر تمام جسم میں بجلی ایسی سرعت سے دوڑ گئی۔ تویہ میرا وارث تھا۔۔۔۔۔۔ میری چھوڑی ہوئی کوٹھری کا وارث۔

    ’’کوئی فکرمت کرو۔ اپنا تعارف کرائے دیتا ہوں۔ یہ کہہ کر اس نے اپنے سوانح حیات سنانے شروع کئے۔

    میں ایک مشہور چور کا بیٹا ہوں۔ بدقسمتی سے ایک دن میرے باپ کو جلاد سے واسطہ پڑ گیا جس نے اس کی گردن کو پھانسی کے پھندے میں دے دیا۔ یہ اس زمانہ کا ذکرہے جبکہ خدا کے فضل سے پھانسی کی سزا رائج تھی۔

    چھ سال کی عمر میں میں نے اپنے آپ کو بالکل خانماں برباد پایا۔ والد تو اس طرح مرگیا ۔ والدہ بھی اس کے پیچھے چل پڑی۔ متواتر تین سال تک سڑکوں پر بھیک مانگتا رہا۔ مجھے اس غرض کیلئے ننگے پاؤں بیسیوں میل سفرکرنا پڑتا۔ اورکیچڑ میں گھٹنوں تک گھسنا پڑتا۔ میرے بدن پر صرف چیتھڑے ہی چیتھڑے تھے۔ میری کمزور ٹانگیں پتلون سے بخوبی نظر آسکتی تھیں۔ سردیوں کے دنوں میں اپنا یخ شدہ جسم لوگوں کو دکھلاتا۔۔۔۔۔۔ لیکن افسوس اس طرح کچھ حاصل نہ ہوا۔

    نو سال کی عمر میں یعنی تین سال کے بعد اس پیشہ سے تنگ آکر اٹھائی گیری شروع کی۔ لوگوں کی جیبیں خالی کیں۔ شروع شروع میں بٹوہ چرایا۔ ایک سال کے بعدمیں پورا جیب کترا بن گیا۔

    تب میں نے اپنی واقفیت بڑھانی شروع کی حتیٰ کہ میں سترہ برس کی عمر میں ایک ڈاکو بن گیا۔ اسی زمانہ میں ایک قفل توڑتے وقت گرفتار ہوگیا۔ اور قید خانہ میں سزا کے ایام بھگتنے لگا۔

    کس قدر ذلیل زندگی ہے جیل خانہ کی۔ خالی تختوں پر سونا۔ ریت ملی ہوئی روٹی زہر مار کرنا۔ اور محافظوں کی چابکیں ننگے بدن پر کھانا۔ ان تکالیف کا وہی اندازہ لگا سکتا ہے جسے اس منحوس جگہ کے دیکھنے کا اتفاق ہوا ہو۔

    خیر! قہر درویش برجان درویش میں نے اپنی سزا کے پندرہ برس۔۔۔۔۔۔ اس کا خیال کرتے ہی کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ اس گھناؤنی جگہ بسر کئے۔

    قید خانہ کو خیرباد کہنے سے پیشتر انہوں نے میری سہولت کیلئے ایک نقشہ اور پروانہ راہداری دیا۔ اس کے علاوہ مجھے چھیاسٹھ فرانگ بھی دیئے گئے جو میری پندرہ سال محنت اور مزدوری کا معاوضہ تھے۔ سولہ گھنٹہ فی دن تیس دن فی مہینہ اور بارہ ماہ فی سال عرق ریزی کا معاوضہ!!!

    اس منحوس جگہ سے نکلتے ہی میں نے ارادہ کرلیا کہ اب نیک زندگی بسر کروں گا۔ اس قلیل رقم پرہی اکتفا کروں گا۔ اس وقت ان چیتھڑوں میں ملبوس میرے پہلومیں ایسا دل تھا جو آپ کسی پادری کے لمبے اور شاندار چغے میں نہیں پاسکتے۔ مگر وائے حسرتا-:

    اس زرد رنگ پاسپورٹ کا ستیاناس ہو اس پر’’ رہا شدہ مجرم‘‘ ایسے خوفناک الفاظ جلی قلم سے لکھے ہوئے تھے۔ جہاں کہیں بھی جاتا یہ منحوس کاغذ میرے نامہ اعمال کی طرح ہر شخص پر میری شخصیت کوواضح کردیتا۔ اپنی نوعیت کی ایک سفارش تھی۔۔۔۔۔۔’’ رہا شدہ مجرم۔‘‘ یہ الفاظ ہی لوگوں کو مجھ سے متنفر کرنے کیلئے کافی تھے۔ وہی ہوا جس کی مجھے امید تھی۔ میری شکل سے ہی لوگ خوفزدہ ہونے لگے۔ مجھے دیکھتے ہی بچے ڈر کے مارے بھاگ جاتے لوگ مجھے دیکھتے ہی اپنے دروازے بند کرلیتے۔ یہ حال تھا تو ملازمت کی توقع رکھنا سراسر بے وقوفی تھی۔ وہ قلیل رقم اب بالکل خرچ ہوچکی تھی۔ ہر ایک کو اپنے مضبوط اعضا مزدوری کی توقع پر دکھلائے۔ مگر انہوں نے آنکھیں بند کرلیں۔

    میں نے دن بھر کی مزدوری پندرہ ٹکے۔ دس پیسے۔ پانچ پیسے پرکرنی قبول کی۔ مگر انہوں نے میری فریاد پر کان نہ دھرا۔ اب مرتا کیا نہ کرتا۔ آخر پیٹ پوجا بھی تو ضروری تھی۔

    تین روز کی فاقہ کشی سے تنگ آکر آخر ایک روز نانبائی کی دوکان پر روٹی چرانی چاہی۔ مگر نانبائی نے مجھے پکڑ لیا اور پولیس کے حوالے کردیا۔

    کھانا تو درکنار میں نے روٹی کو چھوا تک بھی نہ تھا۔ مگر عمر بھر کیلئے اسیر کردیاگیا اور تین حرف میرے کاندھوں پر داغ دیئے گئے۔چاہوتو دکھاؤں؟

    اس اسیری کی صعوبتیں اٹھانے کی طاقت نہ تھی ۔اس لئے یہاں سے بھاگ نکلنے کا تہیہ کرلیا۔ میر پیش نظر صرف تین دیواریں اور دو آہنی زنجیریں تھیں۔ میرے پاس صرف ایک کیل تھا۔ مگر میں اپنے مقصد میں کامیاب ہوگیا۔وہاں سے بھاگ نکلا۔

    اب کی دفعہ اس زرد پروانہ راہداری کی لعنت تو نہ تھی۔ مگر پیسہ نام تک کو نہ تھا۔ راستہ میں مجھے چند دوست مل گئے جو سب میری طرح ہی تھے۔ یعنی فرار شدہ اس گروہ کے سردار نے مجھے دعوت شمولیت دی جسے میں نے قبول کرلیا۔

    عرصہ تک ہم لوگوں کے جان و مال پر اپنی شکم پری کیلئے ڈاکہ ڈالتے رہے۔ لیکن اب میں بوڑھا ہوچکا تھا۔ میری گرفتاری کے وارنٹ جاری ہوچکے تھے۔میری تلاش میں سپاہی مصروف عمل تھے۔ میں جھاڑیوں میں چھپ چھپ کر اپنی جان بچاتا۔ مگر پھر بھی آزاد تھا۔ اپنا آقا آپ تھا۔ اس ذلت آمیز زندگی سے یہ ہنگامی زندگی ہزار درجہ بہتر تھی۔

    آخر ہر ایک چیز فانی ہے ۔وہ دور عرصہ تک قائم نہ رہ سکا۔ ایک دن بوڑھا اور نحیف ہونے کے سبب بھاگ نہ سکا، پکڑا گیا اور اب اس جگہ لایا گیا ہوں۔‘‘

    اس بوڑھے کی کہانی سن کر میں بہت ہراساں اور پریشان ہوگیا۔ وہ اب ہنس رہا ہے۔ نہیں نہیں زور سے قہقہہ لگا رہا ہے۔

    اسی اثناء میں وہ میری طرف ہاتھ ملانے کیلئے بڑھا۔ مگر میں ایک کونے کی طرف ہٹ گیا۔

    دوست! تم تو مجھ سے خوفزدہ ہورہے ہو۔ کہیں ایسا اس چبوترہ پر نہ کرنا۔ کاش ! میں بھی تمہارے ساتھ ہی چلتا۔ خیر ایک ہی بات ہے۔ آج نہیں تو کل سہی۔ لیکن تم میرے دوست نہ بنو گے کیا؟

    ’’جناب! یہ آپ کی عنایت ہے۔‘‘ میں نے ڈرتے ہوئے جواب دیا۔

    ’’آخاہ! آپ تو کوئی مارکوئیس معلوم ہوتے ہیں۔ اس شیطان نے میرے جواب پر قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔

    ’’میرے دوست! مجھے اپنے حال پر ہی چھوڑ دو۔ میں خدا جانے کن خیالات میں غرق ہوں۔‘‘ میں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔

    میری سنجیدہ گفتگو نے اس پر کچھ اثر کیا۔ اوروہ کچھ عرصہ تک اپنے گنجے سرکوکھجلاتا رہا۔ لیکن تھوڑے عرصہ کے بعد پھرگویا ہوا۔

    ’’جناب آپ امیر آدمی ہیں۔ آپ کے پاس جو یہ بڑا کوٹ ہے آپ کے کسی مطلب کا نہیں۔ اگرمجھے عنایت کردیں تو میں اسے تمباکو خریدنے کیلئے بیچ دوں گا۔‘‘

    میں نے اپنا کوٹ اتارا اور اسے دے دیا۔ اس پر وہ بچوں کی طرح ناچنے لگا۔ فرط انبساط سے زور زور سے تالیاں بجانے لگا۔مگر اچانک میری طرف دیکھ کر بولا:

    ’’ جناب آپ تو کانپ رہے ہیں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے اپنی بھدی اونی جیکٹ اتارکرمجھے پہنا دی۔ جوکچھ بھی ہوا، سب بے خودی کے عالم میں۔ میں دیوار کا سہارا لے کر کھڑا ہوگیا اور اس کی حر کات و سکنات کا بغور معائنہ کرنے لگا۔ وہ میرے کوٹ کو الٹ پلٹ کر دیکھتا رہا۔ اور ہر ساعت کے بعد خوشی کا نعرہ مارتا۔

    ’’جیبیں بالکل نئی ہیں کالر بدستور ویسا ہی ہے۔ اسے فروخت کرنے سے کم از کم پندرہ فرانک حاصل ہوں گے۔ کتنا خوش نصیب ہوں۔ چھ ہفتہ تک تمباکو پینے کیلئے! یقین نہیں آتا۔‘‘

    دروازہ پھر کھلا۔وہ اب اس لئے آئے تھے کہ مجھے اس کمرہ میں پہنچا دیں۔ جہاں کہ مجرم اپنی زندگی کے چند آخری لمحات گزارتا ہے۔ اور اس بوڑھے کو اس جگہ پہنچائیں جسے میں خیرباد کہہ آیا تھا۔

    (24)

    وہ بوڑھا بدمعاش مجھ سے بڑا کوٹ چھین کر لے گیا ہے۔ چھین کر اس لئے کہ میں نے اسے وہ برضا و رغبت نہ دیا تھا۔ اس کی بجائے یہ بدنما اور بدبودار چیتھڑا دے گیا ہے جس کی شکل سے ہی مجھے نفرت ہے۔ اس ہئیت کذائی میں لوگ مجھے کیا سمجھیں گے۔ میں نے وہ کوٹ خیرات کے طور پر نہ دیا تھا۔ صرف اس لئے کہ وہ مجھ سے طاقتور تھا۔ مجھ سے کہیں زور آور تھا۔ اگر میں کوٹ دینے میں کوئی پس و پیش کرتا تو وہ یقیناً مجھے کاٹتا، میری بوٹیاں نوچ ڈالتا۔

    یہ ہے ناتواں اور طاقتور میں فرق۔ آج اسے ایک موقع مل گیا اور اس نے اس سے فائدہ اٹھا لیا۔ شاید وہ اس سے خوش ہوگیا ہو۔

    مگر!مگر! وہ کچھ بھی ہو، میں حیران ہوں کہ آخر یہ ذلت میں نے برداشت کس طرح کی۔ اگروہ اب میرے سامنے آئے تومیں اسے پاؤں تلے روند ڈالوں۔ کھا جاؤں! ظالم! سفاک! کمینہ! میرے دل میں غصہ و انتقام کی لہر دوڑ رہی ہے۔

    جیل خانہ خصوصاً سزائے موت ایسا ہیبت ناک خیال آدمی کو چڑچڑا اور غصیل بنا دیتا ہے۔

    (25)

    مجھے انہوں نے اس بدنما کوٹھڑی میں دھکیل دیا ہے جس کے اندر مجھے سوائے چار مرطوب دیواروں یا لوہے کی بڑی بڑی سلاخوں کے اور کچھ نظر نہیں آتا۔

    میں نے کرسی و میز اور لکھنے کا سامان مانگا۔ وہ مجھے دے دیا گیا۔ مگر جب میں نے بسترہ کیلئے درخواست کی تو وہ حیران ہوگئے۔ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگے۔ مگر بہت غور و خوض کے بعد وہ بسترہ اور چارپائی لے آئے۔ مگر کیا دیکھتا ہوں کہ بسترے کے ساتھ ہی اور شخص بھی چلا آرہا ہے۔ یہ میری جان کا محافظ ہے۔ انہیں ڈر ہے کہ کہیں میں بسترے کی چادرسے اپنا گلا نہ گھونٹ لوں!

    (26)

    اب دس کا عمل ہے

    آہ! میری پیاری بچی۔ صرف چھ گھنٹے کا قلیل عرصہ باقی ہے۔ اس کے بعد میں مر جاؤں گا۔ بالکل بے ہوش اور غافل ہوں گا۔ میرا جسم کسی ہسپتال کی ٹھنڈی میز پرپڑا ہوگا۔

    ایک فریق کے پاس میرا سر ہوگا اور دوسرے کے پاس میرا دھڑ جس پر بہت بے رحمی سے عمل جراحی کیا جائے گا۔اور جب وہ کسی کام کا نہ رہے گا تو کسی گڑھے کے سپرد کردیا جائے گا۔

    تیرے والد کے ساتھ یہ حالت ہوگی۔میرؔ ی! کیا سنتی ہو۔ تیرے پیارے والد کے ساتھ ایسا بے رحمانہ سلوک کیا جائے گا۔ ان اشخاص کے ہاتھوں سے یہ چیزیں عمل میں آئیں گی جو مجھے رحم کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں جن کی میرے ساتھ کوئی عداوت نہیں۔ جو مجھے موت سے بچا سکتے ہیں۔ وہی اب موت کے گھاٹ اتاررہے ہیں۔ سر قلم کررہے ہیں۔ صرف اس خاطر کہ دوسروں کیلئے نظریہ عبرت ہو۔ آہ! میرے خدا !! بھولی لڑکی! تیرا باپ جو تجھے جان سے زیادہ عزیز سمجھتا جو تیری ننھی سی سپید گردن کو ہر زور بوسہ دیا کرتا۔ جو بڑے شوق سے تیرے گھنگریالے بالوں میں انگلیوں سے کنگھی کیا کرتا اور جو تجھے اپنی گھٹنوں پربٹھلا کرتیرے ساتھ پہروں کھیلا کرتا، آج کچھ عرصہ کے بعد بے جان ہوگا۔ تو اسے ہمیشہ کیلئے کھو دے گی۔ اس کی گود سے محروم کردی جائے گی۔ پھر تیرے لئے یہ سب کچھ کون کرے گا؟ تیرے ہم عمر بچوں کے باپ ہوں گے۔ مگر تو یتیم ہو جائے گی۔ تجھے کرسمس کے تحفے اور خوش نما کھلونے کون لا کر دے گا؟ ہونے والی یتیم لڑکی! تو بغیر باپ کے کس طرح جی سکے گی۔

    آہ! اگر تجھے جیوری کے ارکان ایک دفعہ دیکھ لیتے تو’’میرے جگر کے ٹکڑے وہ تیرے ساتھ کبھی اتنا ظلم نہ کرتے۔ وہ سمجھ لیتے کہ تین سالہ معصوم بچی کے باپ کو مارنا واقعی ظلم ہے۔

    جب میرؔ ی بڑی ہو جائے گی تو اس کا کیا حال ہوگا؟

    اس کے باپ کا نام بچہ بچہ کی زبان پر ہوگا۔ لوگ اسے قاتل اور مجرم کے نام سے پکاریں گے۔جب وہ میری نسبت ایسے دل شکن الفاظ سنے گی تو لازماً شرمائے گی۔سوسائٹی اسے حقارت کی نظروں سے دیکھے گی۔ صرف میری خاطر۔ اس باپ کی جو اسے جان سے زیادہ عزیز جانتا تھا۔ اسے اتنی ذلت برداشت کرنی پڑے گی۔ آہ! میری پیاری میرؔ ی! کیا یہ سچ ہے کہ تو میرے نام سے نفرت کریگی۔۔۔۔۔۔۔ میرا نام لیتے وقت شرم محسوس کرے گی۔

    اف! کیا یہ سچ ہے کہ مجھے آج شام مرنا ہے۔

    کیا وہ بدنصیب شخص میں ہی ہوں؟ کیا یہ شوروغوغا جو اس وقت میرے کانوں کو سنائی دے رہا ہے۔ ان تماشائیوں کا ہے جو میرا سر قلم ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں؟

    کیا میں نے۔۔۔۔۔۔ میں نے جو اس وقت اچھا بھلا کرسی پر بیٹھا ہے۔ آزادانہ سانس لے رہا ہے۔۔۔۔۔۔ جس کے کپڑے سامنے لٹک رہے ہیں، آج شام کو مرجانا ہے؟

    (27)

    مجھے معلوم نہیں کہ یہ چبوترہ کس طرح تیار کیا جاتا ہے اور کس طرح ایک انسان کو اس پر موت کے گھاٹ اتارا جاتا ہے۔ آہ! وہ منظر کتنا خوفناک ہوگا؟

    اس کا خیال کرتے ہی میری رگوں میں خون منجمد ہو جاتا ہے۔ میں حیران ہوں کہ میں نے اس کا نام زبان سے کس طرح نکالا۔ جب کہ اس خونی چیز کا نام لیتے ہی جان ہوا ہو جاتی ہو۔ اور اس کے الفاظ اس کی ظاہراً شکل ہی انسان کو پاگل بنا دیتی ہو۔ میں اس کی بابت ایک سوال کرنے کی جرات بھی نہیں رکھتا۔ لیکن یہ سب سے زیادہ خوفناک ہے کہ مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ اس تختہ پر میرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔ سوائے اس کے مجھے اورکچھ علم نہیں کہ میرے ایسے بد قسمت انسانوں کو پیٹ کے بل اس تختہ پر لٹادیا جاتا ہے۔ اور ایک تیز دھار چھرا ان کے سر کو۔۔۔

    آہ!! اس سے پہلے کہ میرا سر تن سے جدا ہو۔ میرے بال سفید ہو جائیں گے۔

    (28)

    مجھے اس ہولناک تختہ دار کو دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ایک روز میری گاڑی اس چوک سے گزررہی تھی کہ یکلخت ٹھہر گئی۔ میں نے کھڑکی سے باہر جھانکا تو مجھے بہت سے آدمیوں کا گروہ نظر پڑا۔ اس کے درمیان دو شخص ایک بڑا چبوترہ بنانے میں مصروف تھے۔ کیونکہ اسی روز ایک مجرم کا گلا کاٹا جانے والا تھا۔

    میں نے دوسری طرف دیکھنے کیلئے منہ پھیرا۔ ایک عورت کو اپنے بچے سے مصروف گفتگو پایا۔’’دیکھو۔۔۔۔۔۔ یہ چھرا ٹھیک کام نہیں کرتا۔ اس لئے اب وہ اسے تیل دے رہے ہیں تاکہ اس کے گرنے میں کوئی رکاوٹ نہ پیدا ہوجائے۔‘‘

    وہ اس وقت اس چھرے کو تیل دے رہے ہوں گے کیوں کہ اب گیارہ بج چکے ہیں۔اور وقت قریب آرہا ہے۔

    آہ !بدنصیب شحص تو اس چھڑے کی ضرب سے اپنا سر نہیں بچا سکتا!!

    (29)

    آہ! معافی!!

    شاید وہ مجھے معاف کردیں۔ بادشاہ کو میرے خلاف کوئی بغض و عناد نہیں۔ میرے وکیل کو تلاش کرو! خدا کیلئے جلدی تلاش کرو!! اس کا مشورہ حق و صداقت پر مبنی تھا۔ مجھے عمر قید کی سزا کو قبول کرلینا چاہیے۔وہ پانچ سال کیلئے ہو یا بیس سال کیلئے۔ اگر عمر بھر کیلئے بھیج دیا جاؤں تو کیا خوب ہو ۔ میری زندگی۔ آہ! میری زندگی مجھے واپس دے دو!!

    ’’عمر قیدی‘‘ چل سکتا ہے، گفتگو کرسکتا ہے، آفتاب کی جاں بخش شعاعوں کو دیکھ سکتا ہے۔

    (30)

    پادری میرے کمرے کی طرف آرہا ہے۔ وہ بہت متین صورت اور نیک شخص ہے۔ ابھی تک صبح کا ہی ذکر ہے کہ میں نے اسے قیدیوں کو خیرات دیتے ہوئے دیکھا۔ مگر کیا وجہ ہے کہ اس کا وعظ میرے دل پر کوئی اثر نہیں کرتا۔ کیا وجہ ہے کہ اس کے الفاظ موثر نہیں ہوتے۔ اس کے وعظ کا ایک ایک لفظ بھی میرے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ جس طرح قید خانہ کے باہر کی کھڑکیوں پربارش کے قطرے گر کر خشک زمین میں ہمیشہ کیلئے فنا ہو جاتے، اسی طرح اس کے الفاظ میرے کانوں کے پردوں پر ٹکرا کر اس منحوس چار دیواری میں صدا بصحرا ثابت ہوتے۔ میں حسب معمول اس وارفتگی کی حالت میں تھا۔ میرے خیالات طیور آوارہ کی طرح فضا کی بلندیوں میں پرواز کررہے تھے کہ وہ آیا اور میرے بستر کے قریب بیٹھ کر یوں گویا ہوا۔’’ میرے بیٹے۔‘‘ ان دو لفظوں نے میرے گم شدہ اور آوارہ خیالات کو یکجا کردیا۔ میں اب اس کے ہر لفظ کو ہمہ تن گوش ہو کر سننے کیلئے تیار تھا۔

    ’’ میرے بیٹے! کیا تم خدا پر ایمان رکھتے ہو؟‘‘ پادری نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا۔

    ’’ مقدس باپ! کیوں نہیں۔‘‘

    ’’ کیا تم کیتھولک، ایپوسٹل اور رومن گرجاؤں پر ایمان لاتے ہوئے؟‘‘

    ’’یقیناً! میں ان مقدس جگہوں کا بہت احترام کرتا ہوں۔‘‘

    ’’ کہیں جبراً ایسا تو نہیں کہہ رہے؟‘‘

    یہ کہتے ہی اس نے ایک لمبی تقریر کرنی شروع کردی۔۔۔۔۔۔ وہ عرصہ تک بولتا رہا۔۔۔۔۔۔ اپنے اس بیان میں جوکچھ بھی کہا وہ پند و نصائح سے پُر تھا۔

    اس وعظ کو ختم کرکے اس نے پہلی مرتبہ میری طرف نگاہیں اٹھائیں۔ اور کہا۔

    ’’تواب‘‘

    اس کے وعظ کو اولاً میں نے ہمہ تن گوش ہوکر سنا۔ ثانیاً میں نے اپنے دل و دماغ کے تمام دروازے کھول دیئے تاکہ ایک لفظ بھی سننے سے نہ رہ جائے۔

    میں اٹھا اور ادب سے جواب دیا۔’’ مقدس باپ مجھے کچھ عرصہ کیلئے تنہائی میں ر ہنے دیجئے۔ میں اس کیلئے جناب سے معذرت چاہتا ہوں۔‘‘

    ’’ تو پھر میں کب واپس آؤں؟‘‘ اس نے دریافت کیا۔

    ’’ میں آپ کو اس وقت مطلع کردوں گا۔‘‘

    اس پروہ خاموشی کے ساتھ سپید سرہلاتاہوا باہر چلا گیا۔ غالباً وہ اس وقت اپنے دل میںیہی کہہ رہا ہوگا۔’’ کافر ہے‘‘۔

    گو میں اس ذلت آمیز حالت میں زندگی بسر کررہا ہوں۔۔۔۔۔۔ لوگوں کی نظر میں حقیر ہوں۔ مگر میرا خدا گواہ ہے کہ مجھے اس کی بزرگ ہستی پر ایمان ہے۔ مگر آہ! اس بوڑھے آدمی نے میرے ساتھ کس پیرا یہ میں وعظ و نصیحت کی؟

    اس وعظ و نصیحت میں جس میں نام تک کو اثر نہ تھا۔۔۔۔۔۔ جو میری آنکھوں سے ایک قطرۂ اشک نہ لاسکی۔۔۔۔۔۔ جس کے کسی لفظ نے میرے دل میں جگہ نہ پکڑی۔ ساون بھادوں کی بارش تھی جو صحرا کی تپتی ہوئی ریت پر چند منٹ پانی برسا کر اس کو ویسے ہی پیاسا چھوڑ گئی۔۔۔۔۔۔ رٹی ہوئی عبارت جسے وہ ایک ہی سانس میں کہہ گیا۔ حالانکہ اس کے برعکس اس کا وعظ موثر اور پُر مغز ہونا چاہئے تھا جو سخت سے سخت دل آدمی خوفناک سے خوفناک قاتل کے دل میں فوراً جگہ کرلیتا ہے جو اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کا تانتا باندھ دیتا۔۔۔۔۔۔ مگر وہ ایک رٹا ہوا سبق تھا۔ جو اس سے قبل ہزار مرتبہ سنایا جا چکا تھا۔ اس کی آنکھوں، اس کی آواز، اس کے حرکات و سکنات سے وہ چیز ہویدا نہ تھی جس کا میں متوقع تھا۔ اس کا وعظ موثرہوتو کیوں کر۔ وہ جیل کا پادری ہے جسے ہرروز وہی سبق قیدیوں کو سنانا پڑتا ہے۔ وہ اس طرح بسر اوقات کررہاہے۔ قید خانہ زنداں کی تاریک اور مرطوب کوٹھڑیاں اس کی روزمرہ کی گزرگاہیں ہیں۔ عمر قیدی۔ سزائے موت یافتہ مجرم اس کیلئے دو متضاد چیزیں نہیں۔ کاش وہ میری خاطر ایک ایسے پادری کو لائیں جس کے دل میں مجھ بدنصیب کا درد ہووہ اس کے پاس بغیر کسی اطلاع دیئے جائیں اور کہیں پادری صاحب چلئے آپ کی ایک گنہگار کیلئے ضرورت ہے۔ جو اپنے گناہ بخشوانا چاہتا ہے۔ آپ کو اس وقت موجود ہونا ہوگا جس وقت وہ اس کے ہاتھ رسیوں سے باندھیں گے۔ اس خونی منظر میں بھی آپ کی موجودگی ضروری ہے۔ جب اس کو گلا کاٹنے والے چبوترہ پرلٹکایا جائے گا۔ آپ کو اس کا سرقلم ہونے سے پیشتر اس کے ساتھ بغل گیر بھی ہوناہوگا۔‘‘

    یہ کہہ کروہ اگر اسے میرے پاس لائیں ۔اس حالت میں کہ اس کا دل فرط غم سے دھڑک رہا ہو، سرسے پاؤں تک کانپ رہا ہوتو میں اس کے مقدس بازوؤں میں اپنے آپ کو گرا دوں۔ گھٹنوں پر کھڑا ہو جاؤں حتیٰ کہ اپنا سر اس کے قدموں پر رکھ دوں۔ وہ میری حالت پر آنسو بہائے، زارو زار روئے۔ میں بھی اشک بہاؤں۔ ہم دونوں مل کر خوب جی بھر کر روئیں۔۔۔۔۔۔ اس طرح میرے تمام گناہ آنکھوں کے راستے بہہ نکلیں گے۔ مجھے وہ اطمینان قلب جس کی مجھے عرصہ سے آرزوہے نصیب ہو جائے گا۔

    میں نے غلطی کی ہے کہ اگر میں نے پادری کی شان میں کوئی گستاخانہ کلمہ استعمال کیا، اس حالت میں جبکہ وہ پاک اور نیک ہو، اور میں۔۔۔۔۔۔ گنہگار۔۔۔۔۔۔ ایک انسان کا قاتل، جوکچھ بھی پادری کے متعلق کہہ چکا ہوں۔ اس کا ذمہ دار بھی مجھے گردانئے۔ موت خصوصاً ایسی وحشت ناک موت انسان کو ایسا کرنے پر مجبور کردیتی ہے۔

    وہ ابھی میرا کھانا لائے ہیں۔ بہت ہلکی اور زود ہضم اشیاء ہیں، میں نے انہیں کھانا چاہا ۔مگر پہلا لقمہ اٹھاتے ہی مجھے ایسا معلوم ہوا جیسے میں زہر کھا رہا ہوں۔۔۔۔۔۔ میں نے کھانے سے ہاتھ اٹھا لیا۔

    (31)

    ایک آدمی ابھی ابھی میرے کمرہ کے اندر آیا اور دیوار کے پتھروں کو ناپنا شروع کردیا۔ جب میں نے اپنے محافظ سے دریافت کیا کہ وہ شخص کون ہے تو معلوم ہوا کہ وہ جیل کا معمار ہے۔

    وہ اپنے کام میں مشغول تھا۔ اسے ہماری موجودگی کا بالکل علم نہیں۔ اس کا غیر معمولی انہماک میرے لئے ایک قسم کی دلچسپی پیدا کررہا ہے۔

    اپنے کام کے دوران میں اس نے ایک دفعہ اپنے سر کوہلکی سی جنبش دیتے ہوئے مری طرف نگاہیں اٹھائیں مگر فوراً ہی کچھ بڑبڑاتے ہوئے ماپنے میں مشغول ہوگیا۔

    اپنے کام سے فراغت پا کروہ میری طرف آیا اور بلند آواز میں کہنے لگا’’ میرے اچھے دوست! چھ ماہ کے بعد اس قید خانہ کی حالت درست ہو جائے گی۔ مگر افسوس ہے کہ آپ اس تبدیلی کو نہ دیکھ سکیں گے۔‘‘

    میرے بوڑھے محافظ نے اس کا جواب یوں دیا۔’’جناب! کیا آپ کو معلوم نہیں کہ پھانسی کی کوٹھڑی میں بلند آواز سے گفتگو کرنا منع ہے۔‘‘

    معمار چلا گیا اور میں۔۔۔۔۔۔

    میں ان بے جان پتھروں میں سے ایک پتھر کی طرح جن کی وہ پیمائش کررہا تھا، پڑا رہا۔

    (32)

    وہ آئے اور اس بوڑھے محافظ کی جگہ ایک اور آدمی متعین کرگئے۔ میں اپنے خیالات میں اس قدر کھویا ہوا تھا کہ اسے الوداع کہنا بھول گیا۔

    اس پیر مرد کے قائم مقام کے بشرہ سے جہالت اور حماقت کے آثار نمایاں ہیں۔ میں اس کے بارے میں صرف یہی رائے قائم کرسکا، کیونکہ اب پھرانہی ہولناک خیالات میں محوہوگیا ہوں۔ اور سر کو ہاتھوں میں پکڑے ہوئے کرسی پر بے جان موت کی طرح بیٹھا آنے والے حادثہ کے متعلق سوچ رہا ہوں۔

    اچانک کاندھے پر کسی کے ہاتھ کو محسوس کیا۔ مڑ کر دیکھا تو اپنے محافظ کو کھڑا پایا۔’’مجرم! کیا تمہارے پہلومیں حساس دل ہے۔‘‘ اس نے مجھے مجرم کے نام سے پکارتے ہوئے کہا۔

    ’’نہیں۔‘‘

    اسے اس نوعیت کے جواب نے جس کا وہ کسی حالت میں بھی متوقع نہ تھا، چونکا دیا۔ اس لئے ہچکچاتے ہوئے کہنے لگا’’ انسان اس قدر بے رحم نہیں ہوتا جتنا وہ اپنے آپ ظاہر کرتا ہے۔

    ’’کیوں نہیں؟ اگر تمہیں اسی قسم کی گفتگو کرنی ہے تو میں کہوں گا کہ مجھے تنہائی میں ہی رہنے دو۔’’ آخر اس گفتگو کا مطلب؟‘‘

    مجرم! دولت اور خوشی۔ یہ دونوں چیزیں میری غلام ہو سکتی ہیں، مگر تمہارے ذریعے سے۔ دیکھو میں ایک غریب محافظ ہوں، تنخواہ اتنی قلیل ہے کہ میرا گزاران مشکل سے ہوتا ہے۔ اسی خاظر میں نے کئی دفعہ لاٹری کی ٹکٹیں خریدکر اپنی قسمت آزمائی کی مگر بے سود۔ اگر23 نمبر کی ٹکٹ خریدتا تو24 نمبر انعام حاصل کرلیتا۔ اس سے رہی سہی پونجی بھی تباہ ہوگئی۔ اب صرف ایک ذریعہ باقی ہے جس کا تمام تر انحصار تمہاری مہربانی پر موقوف ہے۔

    تمہیں آج تختہ دار پر لٹکنا ہے۔ یہ ایک مسلمہ امرہے کہ جو شخص بھی اس طرح جان دیتا ہے اسے مرنے کے بعد لاٹری کے ان ٹکٹوں کے نمبر جن نے انعام پانا ہوتا ہے معلوم ہو جاتے ہیں۔ مجھ سے وعدہ کرو کہ کل شب تمہاری روح مجھے ان ٹکٹوں کے نمبر بتا دے گی۔ یہ معمولی سی بات ہے جبکہ میں بھوتوں سے خائف نہیں ہوں۔ میرا پتہ بھی بطور یادداشت رکھ لو۔ ویسے بھی تم مجھے پہچان سکو گے۔کیا نہیں؟

    اس خرافات کا جواب میں نے کچھ اور ہی دیا ہوتا۔ مگر اسی وقت میرے دل میں امید کی ایک موہوم سی کرن پیدا ہوگئی۔۔۔۔۔۔ موجودہ حالت میں ایسی امیدوں کا پیدا ہوناباعث تعجب نہ تھا۔

    ’’سنو! میں تمہیں اس سے زیادہ امیر و کبیر بنا سکتا ہوں۔ مگرصرف ایک شرط پر۔ٖٖٖٖٖٖٖٖ میں نے اس سے کہا۔

    اس پر اس کی آنکھیوں فرط حیرت سے کھلی کی کھلی رہ گئیں۔’’ کیا؟کیا؟ وہ شرط کیا ہے۔‘‘ اس نے چلاتے ہوئے کہا۔

    ’’ میرا کوٹ تم پہن لو اور اپنا کوٹ مجھے دے دو۔‘‘

    ’’صرف اتنی سی بات؟‘‘ اس نے کوٹ کے بٹن اتارتے ہوئے کہا۔ میں کرسی سے اٹھا اور اس کی حرکات کا دھڑکتے ہوئے دل سے مطالعہ کرنے لگا۔ میں نے ابھی سے یہ تصور باندھ لیا کہ جب میں نے اس محافظ کی وردی پہنی ہوگی تو جیل کے تمام دروازے میرے لئے کھلے ہوں گے اور پھر میں اس منحوس جگہ سے کوسوں دور ہوں گا۔ لیکن وائے حسرتا! وہ اچانک میری طرف مڑا اور کہنے لگا-:

    لیکن! کیا یہ کوٹ اس جگہ سے فرار ہونے کیلئے تو نہیں چاہتے؟‘‘ اس کا کہنا ہی تھا کہ میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ امید کا وہ موہوم خیال نیست و نابود ہوگیا۔۔۔۔۔۔ مگر بے وقوفوں کی طرح آخری کوشش کی اور کہا’’ مگر تمہیں دولت بھی تو مل جائے گی۔‘‘

    ’’نہیں!نہیں! میں ایسی دولت نہیں چاہتا۔ تمہیں ضرور مرنا چاہئے۔۔۔۔۔۔ اس نے قطع کلامی کرتے ہوئے کہا۔

    میں۔۔۔۔۔۔ شکست امید۔۔۔۔۔۔ بد نصیب۔ پھر انہی خیالات میں غرق ہوگیا۔

    (33)

    میں نے آنکھیں بند کرلیں۔ چہرے کوہاتھوں سے ڈھانپ لیا۔ اور حال کو مستقبل میں محو کرنا چاہا۔

    عہد طفولیت اور جوانی کے گزرے ہوئے پیارے ایام کا تصور میرے مجروح دماغ میں ان شگفتہ، تروتازہ غنچوں سے لدے ہوئے جزیروں کی طرح ہے جو کسی سیاہ سمندر سے گھرے ہوئے ہوں۔۔۔۔۔۔کتاب طفولیت کی ورق گردانی کررہا ہوں۔ جب کم سنی میں ہرے بھرے کھیتوں میں قلابازیاں لگاتا، ہنستا، دوڑتا، رنج و فکر سے آزاد کھیل کود میں مصروف ہوتا۔

    چار سال کے بعد بھی وہی بھولا اور معصوم بچہ تھا۔ مگر فرق اتنا کہ کسی خوبصورت باغ میں میرے پاس ایک رفیق تنہائی بھی تھا۔۔۔۔۔۔ ایک نو عمر لڑکی بڑی بڑی آنکھوں اور شب دیجور ایسی سیاہ بالوں کی مالکہ، چودہ کاسن، غضب کا جوبن، لب لعلیں اور سرخ رخسار جس کی نزاکت اور خوبصورتی گلاب کو شرمندہ کررہی تھی۔

    ہماری مائیں ہمیں سیر کرنے کیلئے بھیجتیں۔ لیکن ہم سیر کی بجائے خلوت میں باتیں کرتے۔۔۔۔۔۔ باتیں۔۔۔۔۔۔ میٹھی میٹھی باتیں۔ میرا اور اس کا جھگڑا ہر روز ایک نکمے سیب پر ہوتا۔ وہ رو پڑتی اور اپنی ماں کے پاس شکایت کرنے چلی جاتی۔ مگر ایک سال بعد وہ میرے بازو کا سہارا لئے کھڑی تھی اور میں پر فخر آدمی کی طرح اپنے دل میں جذبات اور محبت کا ہجوم لئے ہوئے اس کی شوخ نظروں کی طرف دیکھ رہا تھا۔ ہم آہستہ آہستہ ٹہلتے، آہستہ بولتے۔ میں اس کیلئے پھول اکٹھے کرتا۔ اور جب ہم ملتے تو فرط محبت سے ہمارے ہاتھ کانپتے۔ وہ میرے ساتھ پرندوں۔ نیلے آسمان اور قدرت کی دیگر نیرنگیوں کی بابت سیمیں آواز میں گفتگو کرتی! ہم دنیا سے بے خبر اپنی دھن میں محو ہوتے۔ معصومانہ گفتگو کرتے، مگر وہ اچانک شرما جاتی۔۔۔۔۔۔ کل کی بھولی بھولی بچی اب جوان ہوگئی تھی۔

    بازو میں بازو ڈالے ہم شاہ بلوط کے بلند اور تناور درختوں کی اوٹ میں گلگشت کرتے کہ وہ اچانک چپ سی ہو جاتی۔ میرے بازوؤں سے اپنے بازو کوہٹا لیتی اور کہنے لگتی’’ آؤ ہم دوڑیں۔‘‘

    اس کی تصویر اب بھی آنکھوں کے سامنے پھر رہی ہے۔ اس کے دماغ میں بچوں جیسا خیال آگیا تھا، اور کہا تھا’’ چلو ذرا دوڑیں۔‘‘

    وہ میرے آگے آگے دوڑنا شروع کرتی۔ ایسا کرتے وقت اس کی نازک کمر سانپ کی طرح بل کھا رہی ہوتی۔ کبھی کبھی باد نسیم کے جھونکے گستاخانہ انداز میں اس کے مرمریں جسم کو برہنہ کردیتے۔

    آخر کار میں اسے پکڑ لیتا۔ اور بیدار بخت فاتح کی طرح اس کو بنچ پر بٹھا دیتا۔ سرتاپا تبسم۔ ہانپتی ہوئی میری طرف دیکھ کر کہنے لگتی: ابھی تو دن کی روشنی باقی ہے۔ آؤ کچھ پڑھیں۔’’

    میں اس کے پہلو میں بیٹھ جاتا، اور ہم کتاب کھول کر پڑھنے لگتے۔ ورق کو الٹنے سے پیشتر اسے میرا انتظار کرنا پڑتا، وہ مجھ سے کہیں زود خواں تھی۔

    ’’ صفحہ ختم کرلیا؟‘‘ وہ مجھ سے کہتی۔ حالانکہ میں نے ابھی پڑھنا ہی شروع کیا ہوتا۔ تب ہمارے سر آپس میں مل جاتے۔ ہمارے بال آپس میں آنکھ مچولی کھیلنا شروع کردیتے۔ ہمارا سانس ایک دوسرے سے مل جاتا۔ ہمارے ہونٹ آپس میں پیوست ہو جاتے۔۔۔۔۔۔ اور جب ہم اس نشہ کے خمار سے ہوش میں آتے تو آسمان جگمگاتے ہوئے تاروں سے مزین ہوتا۔

    ’’اوہ!امی۔ اگر تمہیں معلوم ہو کہ ہم نے آج کی سیر سے کس قدر لطف اٹھایا ہے۔!‘‘ وہ واپسی پر اپنی ماں سے کہتی۔

    ’’ مگر تم چپ چپ سے ہو۔‘‘ میری والدہ کہتی۔ ایسے کیا معلوم تھا کہ میرے دل میں اس وقت جنت آباد ہوتی۔ میرے ایسا اور کوئی شخص اس وقت روئے زمین پر نہ ہوتا۔

    یہ ان پیاری شاموں سے ایک شام ہے جس کی یاد میرے دل سے کبھی محو نہیں ہوسکتی۔۔۔۔۔۔ جسے میں تمام عمر نہ بھولوں گا۔

    (34)

    گھڑی کچھ بجارہی ہے مجھے معلوم نہیں کیا؟

    مجھے اس وقت سنائی نہیں دیتا، کیونکہ کانوں میں عجب شو ربرپا ہے جیسے تمام گرجا گھروں کے گھڑیال ایک ساتھ بج رہے ہوں۔ اس کی وجہ خیالات کی پریشانی اور موت کا خوف ہے۔ اس وقت جبکہ میں اپنی زندگی کے گم شدہ اوراق کی ورق گردانی کررہا ہوں۔ ان دلچسپ اور لطیف ابواب کا مطالعہ کررہا ہوں۔ میرے دل میں یکایک اس خون کا خیال آیا جس سے میں نے اپنے ہاتھ رنگے تھے۔ اف! اس کا خیال کرتے ہی کانپ جاتا ہوں۔ میں اپنے کئے پر نادم ہوں، مگر اس ندامت سے مجھے ابھی تک پوری تشفی حاصل نہیں ہوئی۔ اس سے دوگنی عمر بھی اگر بحر ندامت میں ڈوبا رہوں، توبہ کروں،خدا کے حضور میں گڑگڑاؤں تو بھی ناکافی ہے۔

    مگر موجودہ حالت میں گناہوں کے اعتراف کا کیا موقع؟ جبکہ میری زندگی اور موت کے درمیان صرف چند گھنٹوں کا فاصلہ باقی ہو۔۔۔

    اب بھی یہی خواہش ہے کہ جی بھر کے اشک ندامت بہاؤں۔ اپنے گناہوں کی تلافی کیلئے ہر ممکن کوشش کروں۔ مگر، مگر، اپنی زندگی کے خاتمہ کو نزدیک آتے دیکھ کر گناہوں کی تلافی تو درکنار اوسان ہوا ہوئے جاتے ہیں۔

    اس لطیف زمانہ اور اس ذلیل زندگی میں ایک خون کی۔۔۔۔۔۔ میرے اور مقتول کے خون کی ندی حائل ہے۔ ایک زمانہ کے بعد جن اشخاص کو اس سوانح کے پڑھنے کا اتفاق ہوگا۔ وہ کبھی بھی باور نہ کریں گے کہ ان کا آغاز جرم سے شروع ہوا اور انجام گلا کاٹنے والے چبوترہ پر۔ آہ! کچھ دیر کے بعد مرنے کا خیال خصوصاً اس وقت جبکہ وہی بدقسمت انسان اس سے ایک سال قبل معصوم اور آزاد ہو، موسم بہار میں باغوں کی سیر کرتا ہو، درختوں کے جھنڈ تلے اس حادثہ جاں کاہ سے بے خبر راگ الاپ رہا ہو۔ اف!! ناقابل برداشت خیال!!!

    (35)

    یہ خیال کرتے ہوئے کہ لوگ گلی کوچوں میں محو خرام، محو تکلم، خندیدہ نظر آتے ہوں گے۔ اخبارات کے مطالعہ میں مصروف ہوں گے۔ دکاندار خرید و فروخت میں مشغول۔ نوجوان لڑکیاں ناچ کیلئے نیا لباس پہن رہی ہوں گی اور مائیں اپنے بچوں کے ساتھ کھیل میں مصروف۔ اور میں۔۔۔۔۔۔ میں اس منحوس جگہ میں مقید۔ آہ!

    (36)

    مجھے یاد ہے کہ بچپن میں ایک دفعہ میں(نوترے دیم) گرجا کا گھنٹہ گھر دیکھنے گیا تھا۔ میں آہستہ آہستہ تاریک سیڑھیوں کے ذریعے گھڑیال تک جا پہنچا۔۔۔۔۔۔ تمام پیرس میرے قدموں میں تھا۔ اچانک گھڑیال بجنا شروع ہوا۔ اس کے شور سے ایسا معلوم ہونے لگا کہ دیواریں ہل رہی ہیں۔ میں خوفزدہ ہو کر دیوار کے ساتھ لگ گیا۔ میرے کان شور سے پھٹے جاتے تھے۔ یہی معلوم ہورہا تھا کہ اب گرا، اب گرا۔

    آج بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اسی گھنٹہ گھر میں ہوں۔ میرے ہوش و حواس جواب دے رہے ہیں۔ میں اس جگہ سے محروم کردیا گیا ہوں جہاں دیگر انسان آزادانہ پھررہے ہیں۔

    (37)

    سامنے والی عمارت ایک ہوٹل ہے جس کی ڈھلوان چھت۔ لاتعداد کھڑکیاں۔ مسلسل دیواریں۔بھدی سیڑھیاں۔ شکستہ محرابیں۔ عجب گھناؤنا اور خوفناک منظر پیش کررہی ہیں۔ اس قدر سیاہ عمارت کہ دن کی روشنی میں بھی اس کی سیاہی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں سزائے موت یافتہ مجرم اپنی زندگی کے چند لمحات گزارتا ہے۔۔۔۔۔۔ جہاں محافظ اور دیگر ارکان جیل رہتے ہیں۔

    اس خونی دن جب مجرم کی گلوبریدی ہوتی ہے۔ یہ منحوس عمارت ان محافظوں کی آنکھوں سے اس منظر کا تماشا کرتی ہے۔

    اس کے باہر رات کو روشنی کرنے کا کوئی انتظام نہیں۔۔۔۔۔۔ اگر کوئی روشنی ہے تو اس چراغ کی جو گھڑی کے ڈائیل کے پیچھے جلتا ہے تاکہ لوگ وقت دیکھ سکیں۔

    (38)

    ایک کا وقت ہے۔

    میں اس وقت مندرجہ ذیل ذہنی اور جسمانی تکالیف سہ رہا ہوں۔ میرے سر میں شدت کا درد ہورہا ہے۔ میرے جسم کا رواں رواں درد کررہا ہے۔ میری پیشانی آگ کی طرح تپ رہی ہے۔ اٹھتے بیٹھتے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے دماغ پھٹ رہا ہو۔کنپٹیوں پر خون کی گردش اس قدر تیز ہے کہ کانوں میں عجب عجب آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ میرے ہاتھ پاؤں کانپ رہے ہیں۔ لکھتے وقت قلم ہاتھ سے گر گرپڑتا ہے۔ آنکھوں میں سے چنگاریاں نکل رہی ہیں۔ بازو جواب دے رہے ہیں۔ صرف دو گھنٹے اور باقی ہیں۔ اس کے بعد ان تمام تکالیف کا خاتمہ ہو جائے گا۔

    (39)

    ان کا خیال ہے کہ اس نوعیت کی سزا کوئی تکلیف دہ نہیں۔ یعنی گلوبریدی مجرم کیلئے زیادہ اذیت رساں نہیں ہوتی۔

    آہ! مگر وہ خدارا یہ تو بتلائیں کہ وہ ان چھ ہفتوں کے دکھ کو جن میں عمر بھر کے رنج و آلام یکجا کردیئے ہوئے ہیں۔۔۔۔۔۔ اس یوم کی روح فرسایاد کو جس کا خیال کرتے ہی بال سفید ہو جاتے ہیں کیا نام دیتے ہیں؟۔۔۔۔۔۔ غم و اندوہ کی سیڑھی کو جس کا خاتمہ اچانک موت کے چبوترے پر ہوتا ہے۔ کیا پکارتے ہیں؟

    جسم کو خون کے آخری قطرہ سے محروم کردینا اور ذہن کو آہستہ آہستہ خیالات سے عاری کردینا دو متضاد چیزیں نہیں۔ جسمانی موت۔۔۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔۔ ذہنی موت مگر وہ پھر بھی مصر ہیں کہ یہ سزا تکلیف دہ نہیں۔ مگر وہ یہ تو بتلائیں کہ آخر انہیں یہ کیونکر معلوم ہوا۔

    کیا یہ انہیں مجرم کے کٹے ہوئے سر سے معلوم ہوا؟ یا موت کے بعد مجرم ان کا شکریہ ادا کرنے آئے۔ اور کہا’’ جناب یہ سزا بالکل تکلیف دہ نہیں۔ خوب اختراع ہے۔ آپ اس پر بھروسہ رکھیں۔ بس ایک ہی لمحہ میں کام تمام ہو جاتا ہے۔ اس سے کیا یہ ایجاد روبسپیری کی ہے یا لوئی پانزدہم کی؟

    کچھ بھی ہو۔ ہے خوب! بس ایک منٹ میں ہی اپنا خونیں کام کر جاتی ہے۔ ان میں سے آج تک کسی نے بھی اس شخص کی تکالیف کا بغور مشاہدہ نہیں کیا۔ جو اس چبوترہ پر لیٹا چھرے کی بھاری ضرب کا متظر ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ اس تیز چھری کی ضرب کا جو ایک لمحہ میں اس کی گردن کی نسیں چیرتی ہوئی حلقوم تک جاپہنچے گی ۔اور گردن کو تن سے جدا کردے گی۔

    سچ ہے تکلیف واقعی نہیں ہوتی!!

    درد موت کے ہولناک خیال سے مغلوب ہوکر اپنا اثرزائل کردیتا ہے۔

    (40)

    میرا ذہن بار بار پادشاہت کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ میں اپنے ہر فعل میں بادشاہ کے وجود کو متصور پاتا ہوں۔ میرے قلب کی عمیق ترین گہرائیوں سے یہ صدا اٹھ رہی ہے:

    ’’ اسی قریہ میں اسی ساعت اسی جگہ کے قریب محل میں ایک اور ہستی ہے جس کے دروازوں پر محافظ پہرہ دے رہے ہیں۔ اس میں اور تم میں اتنا فرق ہے کہ وہ جس قدر بلند ہے تم اسی قدر پست ہو۔

    اس کی محفل حیات سے مزین ہے۔ شوکت سے سطوت اور احترام سے۔ اس کے سامنے بڑے بڑے شوریدہ سر اپنے سروں کو جھکا دیتے ہیں۔ اس کا ماحول زریں اور سیمیں ہے۔ اس وقت وہ اپنے وزراء سے کسی مشاورت میں مشغول ہوگا۔ جہاں اس کی رائے سب کی رائے ہوگی۔ یا وہ فردا کے پیام عیش و سرور کا منتظر ہو۔ وہ دوسروں کی تکالیف سے اپنی راحت حاصل کرسکتا ہے۔

    اس انسان کی تخلیق بھی اسی آب و گل سے ہے جس سے تو بنایا گیا ہے۔وہ میری موت کے احکام کو اپنے نام کے ساتھ حروف سے مبدل بہ حیات کرسکتا ہے۔ وہ اچھا ہے اور میں بُرا۔

    (41)

    آئیے! موت کا خیال کیجئے۔ یہ کیا ہے؟ کس کی تلاش میں ہے؟ اس مسئلہ کے اعماق کا اندازہ لگائیے۔ مرقد کی طرف دیکھئے۔

    ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد میری روح منور فضاؤ ں میں پرواز کرے گی۔ آسمان بجائے نیلگوں ہونے کے سنہری ہوگا۔ اور ستارے اس سنہری پردہ پر سیاہ داغ ہوں گے۔ یا میں کسی تاریک غار میں دھکیل دیا جاؤں گا۔ ہو سکتا ہے میرا سر تن سے جدا ہونے کے بعد ایک میدان کا رخ کرے۔ جہاں اسی قسم کے دوسرے سر موجود ہوں۔ جب کبھی میری آنکھیں کھلیں گی ۔تو سوائے سیاہ آسمان کے انہیں کچھ نظر نہ آئے گا۔ انہیں رات کے وقت سرخ ذرات بھی نظر آئیں گے۔ مگر مجھ تک پہنچتے ہی وہ آتشی طیور بن جائیں گے۔ تواتر و تسلسل غیر مختتم ہو گا۔

    کبھی کبھی ایسا بھی ہوگا کہ سزائے موت کے تمام مجرم مجتمع ہو کر ایک جماعت کی صورت اختیار کریں گے۔ وہاں تختہ دار بھی ہوگا اور جلاد بھی۔ شیطان اسی تختہ دار پر اسی جلاد کو لٹکائے گا۔ جس کے ہاتھوں ہم مرے ہوں گے۔۔۔۔۔۔ اور ہم سب اس کے گردا گرد اس منظر کا تماشا کرتے ہوں گے۔ یہ سب کچھ چار بجے صبح ہوگا۔

    اگر مردوں کو دوبارہ زندگی بخشی جائے تو وہ کس صورت میں ہوگی۔ جسم کے علیحدہ علیحدہ حصوں کو کون یکجا کرے گا؟

    آہ! موت ہماری روح کے ساتھ کیا کرتی ہے؟

    کیا’’موت‘‘ نے کبھی اپنے مکان زمین کے شکاروں پر آنسو بہائے ہیں؟

    آہ! پادری۔۔۔۔۔۔ ایک پادری جو یہ سب کچھ جانتا ہو۔ پادری اور صلیب میرے خدا!!

    (42)

    میں نے سونا چاہا۔ اس لئے بستر پر لیٹ گیا۔ خون کے دوران کی تیزی۔ وارفتگی اور پریشان خیالات نے مجھے تھپکی دیتے ہوئے سلا دیا۔ نہیں بیہوش کردیا۔ یہ بیہوشی میری آخری نیند ہے۔ اسی بے خودی میں ایک خواب دیکھا کہ رات ہے اور میں دو تین دوستوں کے ساتھ اپنے کمرے میں بیٹھا باتیں کررہا ہوں۔ باتیں جو ہولناک اور روح فرسا ہیں۔

    اچانک میں نے دوسرے کمرے میں کچھ آواز سنی۔ آواز جو کسی دروازے کی چٹخنی کھولنے سے پیدا ہوتی ہے۔ اس خوفناک آہٹ نے ہم سب کے اوسان خطا کردیئے۔ ہمارے خون کو رگوں میں منجمد کردیا۔ ہم نے یہی خیال کیا کہ چور گھر میں گھس آئے ہیں۔ اس لئے ہم اس کی جستجو کیلئے اٹھے۔ میں شمع ہاتھ میں لئے سب کی پیش قدمی کررہا تھا۔

    ہم کمرہ شب خوابی سے گزرے۔۔۔۔۔۔ وہاں میری بیوی اپنی بچی کو پہلو میں لٹائے سو رہی تھی۔ اس سے گزرتے ہوئے ہم بڑے کمرہ میں پہنچے مگروہاں بھی اسرار کا سراغ ہاتھ نہ لگا۔ خیال آیا کہ شاید کمرہ طعام میں ہی سے گوہر مقصود حاصل ہو جائے۔ لہٰذا اس طرف قدم بڑھائے۔

    کانپتے ہاتھوں سے میں نے دروازہ کو آہستہ آہستہ واکیا، حیرت کی کوئی انتہائی نہ رہی جب ایک معمر عورت کو فوق الفطرت حالت میں دیوار کے ساتھ کھڑا پایا۔ بے جان تصویر کی طرح بے حس و حرکت دیوار سے چسپاں۔

    اس کی موجودہ ہیئت کذائی اس قدر وحشت خیز تھی کہ اس کا خیال کرتے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

    ’’ کیا کررہی ہو تم۔‘‘ میں نے بالآخر جرات سے کام لیتے ہوئے کہا۔ وہ خاموش رہی۔

    ’’ تم کون ہو؟‘‘ میں نے چلاتے ہوئے کہا۔

    مگر وہ پھر نہ بولی، اور آنکھیں بند کئے ویسے ہی جمی رہی۔ میں نے اس سے دوبارہ سہ بارہ سوال کیا مگر بے سود۔

    ایک نے تنگ آکر اسے دھکا دے دیا۔ اسے دھکیلنا ہی تھا کہ وہ بے جان گھڑی کی طرح زمین پر آرہی۔

    اس حادثہ نے ہمارے رہے سہے حواس گم کردیئے۔ وہ کیا مُردہ تھی؟‘‘

    ’’ اس کی ٹھوڑی کو ذرا شمع کی لو تو دکھلاؤ۔؟‘‘ مجھے ایک دوست نے رائے دی۔ میں نے اس کے کہے پرعمل کرتے ہوئے اس معمر عورت کی ٹھوڑی کے نیچے شمع رکھ دی۔ اس پر اس نے ایک آنکھ کھولی۔ آنکھ۔۔۔۔۔۔وہ خوفناک آنکھ جو بینائی سے محروم تھی۔

    ’’ تم کون ہو؟ شیطان کی خالہ۔‘‘ میں نے اس سے دریافت کیا۔ مگر یہ کہنا ہی تھا کہ اس نے آنکھ بند کرلی۔

    ’’ پھر اس عمل کو دہراؤ۔‘‘ میرے دوستوں نے کہا۔ جو اس معمہ کو حل کرنے کیلئے بہت بے چین تھے۔

    میں نے پھر شمع اس کی ٹھوڑی کے نیچے رکھ دی۔ اس دفعہ اس نے دونوں آنکھیں کھول دیں۔ مگر برق ایسی تیزی سے آگے بڑھی اور شمع کو گل کردیا۔

    قیامت کی تاریکی چھا گئی۔۔۔۔۔۔ اسی وقت میرے بازو میں کسی کے تین دانت پیوست ہوگئے۔۔۔۔۔۔ فرط خوف سے میں بیدار ہوگیا۔

    پادری میرے سرہانے بیٹھا دعا پڑھ رہا تھا۔

    ’’ میں زیادہ سویا ہوں کیا؟‘‘

    ’’ میرے بیٹے! تم نے صرف ایک گھنٹہ نیند کی ہے۔ ماما تمہاری لڑکی کو ملحقہ کمرے میں لئے تمہارا انتظار کررہی ہے۔‘‘

    آہ! میری لڑکیٖ! میرے جگر کا ٹکڑا کیا؟ خدا کیلئے اسے جلد میرے پاس لاؤ۔‘‘

    (43)

    نازک کلی۔۔۔۔۔۔ معصومیت کی تصویر۔۔۔۔۔۔ میرا لخت جگر۔۔۔۔۔۔ میری بھولی بچی۔

    میرؔ ی اپنی ماما کے ساتھ میرے کمرے میں آئی۔

    تتلی ایسے خوبصورت لباس میں کیسی بھلی معلوم ہورہی ہے۔ میں نے اسے گود میں اٹھا کر اس کے بالوں کو چومنا شروع کردیا۔ کبھی اسے چھاتی سے لگاتا۔ نازک رخساروں کا بوسہ لیتا۔ بھینچ لیتا۔ میرؔ ی ان حر کات سے حیران اپنی ماما کی طرف دیکھ رہی ہے ۔ جو کونے میں اس منظر سے متاثر کھڑی آنسو بہا رہی ہے۔

    ’’ میرؔ ی! میری پیاری میرؔ ی۔‘‘یہ کہہ کر میں نے اسے اپنے رنج و الم سے پُرچھاتی سے زور کے ساتھ بھینچ لیا۔

    ’’آہ!جناب! آپ مجھے تکلیف دے رہے ہیں۔‘‘ میرؔ ی نے ہلکی سی چیخ مارتے ہوئے کہا۔

    جناب؟ آہ!بلند آسمان! اسے مجھ سے جدا ہوئے قریباً ایک سال کا عرصہ ہوگیا ہے۔ وہ مجھے بھول گئی۔ اس کے ذہن سے باپ کی شکل و شباہت اور آواز محو ہوگئی۔ اس کے علاوہ مجھے اس ہئیت کذائی میں پہچاننا بھی تو دشوار تھا۔ لمبی سی داڑھی۔ یہ ذلیل لباس۔ اف!! کیا میری تصویر اس کے ذہن سے اتر گئی ہے؟ جس میں مَیں اسے منقش کرنا چاہتا تھا۔

    کیامیں اپنی بیٹی سے اسی پیارے اور شیریں لہجہ میں باپ کہتے ہوئے نہ سنوں گا اف! دماغ پھٹا جاتا ہے۔ دل ٹکڑے ہوا جاتا ہے۔ جناب؟ اف!! یا میرے خدایا!!

    آہ! میں اپنی چالیس سالہ زندگی کے بدلے صرف ایک چیز کا خواہش مند ہوں۔۔۔۔۔۔ اپنی موت کے عوض صرف ایک کلمہ سننا چاہتا ہوں۔ اپنی پیاری بیٹی کے منہ سے صرف باپ کا لفظ!

    ’’دیکھو میرؔ ی! کیاتم مجھے جانتی ہو؟‘‘ میں نے اس کے ننھے اور سپید ہاتھ آپس میں جوڑتے ہوئے کہا۔

    میری طرف چمکتی ہوئی نگاہوں سے دیکھ کر بولی’’ جی نہیں‘‘

    ’’میری غور سے دیکھو تو میں کون ہوں‘‘

    ’’شریف آدمی۔‘‘ اس نے بھولے پن سے جواب دیا۔

    آہٖ! جس ذات سے میری تمام خواہشیں اور مسرتیں وابستہ ہیں۔ جو میری محبت کا مرکز ہے۔ میرے سامنے بیٹھی باتیں کررہی ہے۔ مگر مجھے نہیں پہنچانتی۔ اپنے تیرہ بخت باپ کی صورت سے ناآشنا ہے۔ میں اس سے تسکین قلب کا خواہاں ہوں۔ مگروہ اس سے بے خبر ہے۔ نہیں جانتی کہ اس کے والد کو جس کی موت میں صرف چندگھنٹے باقی ہیں۔ اس کے منہ سے صرف ایک کلمہ سننے کی خواہش ہے۔

    ’’ میرؔ ی! کیا تمہارا باپ ہے؟‘‘

    ’’جی ہاں‘‘

    ’’ تو پھر وہ کہاں ہے۔‘‘

    وہ اس کا جواب دینے سے قاصر رہی۔

    ’’ تمہیں معلوم نہیں کہ وہ مر گیا ہے۔‘‘ یہ کہنا ہی تھا کہ رونے لگ پڑی۔

    ’’ مرگیا ہے؟ میری کیا تمہیں معلوم ہے کہ مرنا کسے کہتے ہیں؟‘‘

    ’’جی ہاں! وہ آسمان پر ہیں۔ میں ان کیلئے اپنی امی کے ساتھ ہر روز دعا مانگاکرتی ہوں۔‘‘

    اس نے جواب دیا۔

    ’’ میرؔ ی! وہ دعا تو سناؤ۔‘‘

    ’’نہیں جناب دعا تو رات کے وقت مانگی جاتی ہے نہ کہ دوپہر کے وقت۔ اگر آپ کو سننی ہو تو کسی دن رات کو میرے گھر آئیے۔

    بس!بس! یہ لفظ میرے مجروح دل کی نمک پاشی کیلئے کافی ہیں۔ میں اور کچھ سننا نہیں چاہتا۔

    ’’میری! میں تمہارا باپ ہوں‘‘ میں نے گفتگو کا رخ بدلتے ہوئے کہا۔

    ’’ہاں؟‘‘ میرؔ ی نے حیرت سے کہا۔

    ’’کیا میں تمہیں پسند نہیں؟‘‘

    ’’ نہیں جناب! میرا باپ تو بہت خوبصورت تھا۔‘‘

    میں نے اس کے چہرے کو اپنے آنسوؤں اور لگاتار بوسوں سے تر کردیا۔ وہ گھبرائی اور چیختے ہونے کہنے لگی۔

    آپ تو میری گالیں اپنی داڑھی سے چھیل رہے ہیں۔‘‘

    میں نے اسے اپنے گھٹنوں پر بٹھلا لیا اور کہا’’ میرؔ ی کیا تم پڑھ سکتی ہو؟‘‘

    ’’ میں پڑھ سکتی ہوں۔ امی مجھے ہر روز پڑھایا کرتی ہیں۔‘‘

    ’’ اچھا تو یہ پڑھو۔‘‘ میں نے اس کے ہاتھ سے ایک چھپا ہوا کاغذ لیتے ہوئے کہا جس سے وہ غالباً کھیل رہی تھی۔ اس نے کاغذت کو کھولا اور ننھی سی انگلی رکھتے ہوئے لفظوں کے ہجے کرنے لگی۔ف،ت،فت۔ و،ی، وی۔ م، و، ہو۔ت، موت۔ فتویٰ موت۔ میں نے اس کے ہاتھ سے کاغذ چھین لیا ۔وہ میری سزائے موت کا فتویٰ پڑھ رہی تھی۔ جو بازار میں ایک پیسہ کو بک رہا تھا۔ اس نے اسے غالباً اپنی ماما سے لیا ہوگا۔

    اس وقت میرے دل کی جو حالت ہوئی وہ احاطہ تحریر سے باہر ہے۔

    ’’مجھے میرا کاغذ دے دو۔‘‘ میری چلا کرکہنے لگی۔

    خدا کے لئے لے جاؤ اسے۔‘‘ یہ کہہ کر میں کرسی پر گر پڑا۔ اب مجھے کسی کا خوف نہیں۔ جبکہ میرے بربط دل کا آخری تار بھی ٹوٹ گیا ہے۔ میں موت کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہوں۔

    (44)

    پادری اور محافظ دونوں بے رحم دل ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ جس وقت میں نے اپنی لڑکی کوواپس بھیجا تو پادری کی آنکھیں نمناک تھیں۔

    خیر! یہ توسب کچھ ہوا۔ مگر مجھے اب تختہ دار اور جلاد کیلئے گردن اورتماشائیوں کے لئے دل کو مضبوط کرلینا چاہئے۔

    میرے پاس ان چیزوں پر غور کرنے کیلئے ابھی ایک گھنٹہ باقی ہے۔

    (45)

    اس خونیں منظر کو دیکھنے کیلئے بہت سے لوگ جمع ہوں گے، گلے کاٹنے کا چبوترہ ان کیلئے موجب فرحت و انبساط ہوگا۔ مگر وہ اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ ان تماشا کرنے والوں میں سے جو اس وقت آزادانہ طور پر چل پھر رہے ہیں،کئی ایسے بدقسمت شخص ہوں گے جو میری طرح اس تنگ وتاریک کوٹھڑی میں قید کردیئے جائیں گے جن کا سر میری طرح اسی خونیں چبوترہ پر قلم کیا جائے گا۔بیہوش! غافل!!

    (46)

    ننھی میری اب گاڑی میں گرجا جا رہی ہوگی۔ وہ کھڑکی سے اس گروہ کا تماشہ دیکھے گی تو اس’’ شریف آدمی‘‘۔۔۔۔۔۔ آہ! مجھ بدبخت باپ کو بالکل بھول جائے گی۔

    اگر مجھے وقت ملا تو میں؂ اس کیلئے ضرور کچھ نہ کچھ قلم بند کردوں گا؂۔ شاید وہ تحریر آج نہیں سال بعد اس کو خون کے آنسو رلائے۔

    جب وہ میری سوانح حیات پڑھے گی۔ توخود بخود سمجھ لے گی کہ اس کے حقارت سے دیکھے جانے کا سبب کیا ہے۔ بھولی لڑکی۔ کاش وہ اپنے والد کی گود میں کچھ دیر اور کھیلتی!!

    (48)

    ہوٹل دی ویل کا ایک کمرہ۔

    ہوٹل دی ویل! میں یہاں ہوں۔ پُراز مصائب سفر ختم ہو چکا ہے۔ قتل گاہ میرے سامنے ہے۔ کھڑکی کے نیچے تماشائیوں کا انبوہ کھڑا ہے۔ جو میری صورت دیکھنے کا بے حدمنتظر ہے۔

    جب میں نے تختہ دار کو دیکھا۔ تو میرے اوسان خطا ہوگئے۔ میں نے آخری گفتگو کرنی چاہی۔ انہوں نے اس مطلب کیلئے ایک وکیل کو بلا بھیجا ہے۔ اس کا منتظرہوں۔

    تین بجے انہوں نے مجھے اطلاع دی کہ وقت قریب ہے۔ میں کانپ اٹھا۔ مجھ پر غیر متوقع تاثرات نے قبضہ جمارکھا ہے۔

    وہ مجھے ایک اور کمرہ میں لے گئے جو کہ بہت تنگ تھا۔ سورج کی روشنی وہاں تک بمشکل پہنچ سکتی تھی۔

    کچھ لوگ دروازے کے قریب کھڑے ہیں۔ ان میں سے ایک لانبا مضبوط اور معمر انسان ہے۔۔۔۔۔۔ یہی جلاد ہے۔

    باقی کے دو ملازم ہیں۔ جب میں بیٹھا ہوا تھا۔ تو وہ دونوں آہستہ آہستہ سے میری طرف آئے اور میرے سر کے بالوں کو جو میرے شانوں پر پڑے ہوئے تھے کاٹنا شروع کیا۔ اس وقت کمرے میں ہر شخص آہستہ گفتگو کرتا مگر کمرے کے باہر عوام ہنس رہے تھے۔۔۔۔۔۔ ان کے شیطانی قہقہوں کی آواز مجھ تک پہنچ رہی تھی۔

    کھڑکی کے قریب ایک نوجوان پنسل سے کچھ لکھ رہا تھا۔ لکھتے وقت اس نے ملازم سے اس رسم کے متعلق دریافت کیا۔۔۔۔۔۔ میرے بال کاٹنے کے عمل کا نام پوچھا۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    ملحقہ اوراق باوجود بسیار دستیاب نہ ہوسکے۔شاید اسیر اپنی سوانح حیات نہ لکھ سکا ہو۔ جیسا کہ آئندہ باب سے واضح ہوتا ہے۔اسے اس امر کا دیر بعد خیال آیا ہوگا(ناشر)

    ’’مجرم کا سنگار ‘‘ حجاموں نے جواب دیا۔

    اس سے میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ وہ شخص نامہ نگار ہے، اور جو کچھ بھی یہاں ہورہا ہے وہ کل کے اخبارات میں شائع ہو جائے گا۔

    زاں بعد ایک ملازم نے میرے کپڑے اتارنے شروع کئے۔ جب وہ قینچی سے میرا کالر کاٹ رہا تھا تو گردن پر سرد لوہے کو محسوس کرتے ہی میرے جسم میں کپکپی طاری ہوگئی۔

    ’’ کیا آپ کو تکلیف تو نہیں ہوئی۔ معاف کردیجئے گا۔‘‘ جلاد نے کہا۔

    ’’آہ! یہ جلاد بھی اپنی قسم کے رحم دل ہوتے ہیں۔

    تب دوسرے آدمی نے میری کلائیوں کے گرد ایک ہلکا سا دھاگا لپیٹ دیا۔ اب ہر چیز پایہ تکمیل کو پہنح چکی تھی۔ پادری صلیب کے نزدیک آیا اور بولا’’ آؤ میرے بیٹے آؤ۔‘‘

    کمرہ میں موجود لوگوں نے مجھے بازوؤں سے پکڑ کر اٹھایا۔ میں بمشکل دو چار قدم چل سکا۔ میرے پاؤں بہت وزنی ہوچکے تھے۔

    خیر بعض تنگ و تاریک کمروں سے گزر کرہم ایک دروازے تک آئے جس کے دائیں جانب محافظ سواروں کا ایک دستہ تھا۔بائیں طرف ایک گاڑی تھی۔ زندان کی کوٹھڑی کی دوسری بہن۔

    ’’ ہے۔۔۔ وہ۔ آخر کاروہ آگیا۔‘‘ انبوہ سے آواز آئی۔ بعض لوگوں نے تالیاں بجائیں۔ گویا ان کے نزدیک اس سے مسرت بخش سماں کوئی نہ ہو سکتا تھا۔ طویل القامت جلاد سب سے پہلے گاڑی میں داخل ہوا۔ اسکے بعد اس کا ایک نوکر داخل ہوا۔

    اب میری باری تھی۔ میں دل کو قوی کرتے ہوئے گاڑی پر سوارہوا۔’’ اس کے ہوش و حواس قائم ہیں۔‘‘ ایک خاتون گروہ سے بولی۔

    میں نے اپنے گرد و پیش نظر دوڑائی۔ آگے محاف٭۔۔۔۔۔۔ پیچھے محاف٭۔۔۔۔۔۔ انبوہ۔۔۔۔۔۔انبوہ۔۔۔۔۔۔ بازار میں انسانی سروں کا سمندر۔ گاڑی کے چلتے ہی تمام’’ جلوس نے‘‘ بھی حرکت شروع کی۔

    ’’ٹوپیاں اتار دو۔‘‘ ہزار ہا لوگوں نے کہا۔

    گویا وہ کسی بادشاہ کا استقبال کررہے تھے۔ میں مسکرایا اور پادری سے یوں کہا’’ وہ اپنی ٹوپیاں اتاریں۔۔۔۔۔۔ اور میں اپنا سر۔۔۔‘‘

    سامنے کھڑکیوں میں ہزار ہا تماشائی بیٹھے ہوئے ہیں۔۔۔۔۔۔ عورتوں کی تعداد مردوں سے زیادہ ہے۔

    بعض ظالموں نے میزوں اور کرسیوں سے جگہ آراستہ کررکھی تھی۔ اور وہ پکار پکار کر کہہ رہے تھے:

    ’’ کسی کو جگہ چاہئے!‘‘

    جی میں آئی کہ کھڑا ہو کر ان سے دریافت کروں۔’’میری جگہ کسے چاہئے؟‘‘ مگر چپ رہا۔

    گاڑی آہستہ آہستہ آگے بڑھی۔ قدم قدم پر گاڑی کورکنا پڑتا۔ کیونکہ ہجوم میری گاڑی کے آگے کھڑا ہو جاتا۔۔۔۔۔۔ وہ مجھے بار بار دیکھنا چاہتے تھے۔ میرے خیالات بہت پراگندہ ہوگئے تھے۔ اس لئے میں نے چاہا کہ ہر قسم کے شور سے لاپروا صرف پادری کی طرف متوجہ رہوں۔ میں نے صلیب کو اٹھایا اور اسے بوسہ دیا۔

    ’’میرے خدا! مجھ پر رحم کر۔‘‘ میں نے گاڑی کی سیاہ چھت کی طرف تکتے ہوئے کہا۔ مینہ برس رہا ہے جس نے میرے کپڑوں کو ترکر رکھا ہے۔ غضب کی سردی ہے۔ اکڑا جارہا ہوں۔

    ’’ میرے بیٹے کیا تم سردی سے کانپ رہے ہو؟‘‘ پادری نے دریافت کیا۔

    ’’ مقدس باپ؟ صرف سردی سے نہیں!‘‘

    پل کے اس پار چند عورتیں میری حالت اور جوانی سے متاثر میری موت پر اظہار افسوس کررہی تھیں۔

    آخر کار منزل مقصود آپہنچی۔ چاروں طرف لوگوں کا ہجوم ہے۔ ان میں سے ہر ایک میرا واقف ہے۔ میرا نام بچے بچے کے ورد زبان ہے۔ اس قدر لوگوں کی نگاہوں کے بار سے دبا جارہا ہوں۔ اس منظر کی زیادہ دیر تک تاب نہ لاسکا۔ بے ہوش سا ہوگیا۔ اب اپنے گردوپیش کے حالات سے بے خبر ہوں۔ معلوم نہیں لوگ اظہار انبساط کررہے ہیں یا اظہار تاسف۔

    میرے بائیں جانب نوترے دیم کا گرجا ہے۔

    گاڑی آگے بڑھی اور تماشائیوں کے گروہ سے گزر گئی۔ میں خاموش پڑا رہا۔ اچانک گاڑی رک گئی۔

    ’’ میرے بچے! ہمت کرو۔‘‘ پادری نے کہا۔

    گاڑی کے ساتھ ایک سیڑھی لگا دی گئی۔ روشنی میں مجھے کچھ نظر پڑا۔ آہ! وہ حقیقت ہے

    ’’ مجھے آخری خواہش کا اظہارکرنا ہے۔‘‘ میں نے ان سے التجا کی۔ انہوں نے میرے ہاتھ کھول دیئے۔ مگررسی موجود ہے۔آخری خواہش لکھ چکنے کے بعد پھر وہی رسی ہوگی اور میری کلائیاں۔آہ!

    (49)

    منصف!کمشنر!مجسٹریٹ! خدا معلوم کون۔۔۔۔۔۔ آیا۔

    میں نے اس سے اپنے معافی نامہ کیلئے استدعا کی۔ ہاتھ جوڑے ہوئے سفارش کے لئے کہا۔زانو پر کھڑا ہو کرگڑگڑا کر التجا کی۔ مگر اس پتھر ایسے دل پر کوئی اثر نہ ہوا۔ جواب دیا تو یہ ۔’’کیا یہی کچھ کہنا ہے تمہیں؟‘‘

    معافی۔۔۔۔۔۔ معافی نامہ حاصل کرنے کیلئے صرف پانچ منٹ کا قلیل عرصہ۔۔۔۔۔۔ میری خاطر نہیں تو خدارا رحم کی خاطر۔ کسے خبر ہے کہ اس عرصہ میں میری رحم کی درخواست منظور ہو جائے۔ آہ!! اس عمر میں خصوصاً ایسی موت مرنا کس قدر ہولناک ہے۔ جناب! اگر وہ مجھ بدقسمت پر رحم نہیں کریں گے تو کس پر کریں گے۔ کیا میں اس کا مستحق نہیں؟ میں ملتجی ہوا۔

    مگر پیشتر اس کے وہ کوئی جواب دے، جلاد کمرے میں داخل ہوا اور مجسٹریٹ سے کہنے لگا’’ چونکہ مقررہ وقت قریب آرہا ہے اس لئے آپ کی موجودگی وہاں ضروری ہے۔

    ’’ خدا کیلئے تھوڑی دیر انتظار کرو۔۔۔۔۔۔ تمہیں رحم کا واسطہ ایک لمحہ تو ٹھہرو۔ شاید معافی نامہ تو آجائے۔ اگر ایسا نہ کرو گے تو بخدا میں تمہیں کاٹوں گا۔ اپنی جان بچانے کیلئے ہر ممکن کوشش کروں گا۔

    مجسٹریٹ اور جلاد کچھ کہے بغیر چلے گئے۔۔۔۔۔۔ میں اب اکیلا ہوں۔۔۔۔۔۔ اکیلا دو محافظوں کے درمیان۔

    اف! میں پاگل ہورہا ہوں۔ مگر اب بھی میرے دل میں امید کی آخری کرن باقی ہے۔

    ۔۔۔۔۔۔معافی۔۔۔۔۔۔ شاید میں اس ہولناک موت سے بچ جاؤں۔۔۔۔۔۔ ناممکن وہ میری درخواست رحم کورد کردیں گے۔۔۔۔۔۔ ظالم! سفاک!! کوئی میرے کمرے کی طرف آرہا ہے۔ میرے اللہ! جلاد!!۔۔۔۔۔۔

    بس۔۔۔۔۔۔ خاتمہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    چار کا وقت

    *****

    کہانی:وکٹر ہیوگو

    مأخذ:

    Sarguzisht-e-Aseer

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے