aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سوویٹ کا سندباد جہازی

سعادت حسن منٹو

سوویٹ کا سندباد جہازی

سعادت حسن منٹو

MORE BYسعادت حسن منٹو

    دلچسپ معلومات

    الیاالف اور ایفگنی پطروف

    (ماسکو کے ایک اڈیٹر کی جدت طرازی کی داستان)

    ماہانہ'' ایڈوینچر'' کے عملہ ادارت میں کچھ عرصے سے یہ چیز بہت محسوس کی جارہی تھی کہ مارکیٹ میں ایسا آرٹ بالکل مفقود ہے جو نوجوان قاری کی توجہ اپنی طرف منعطف کراسکے۔

    مختلف قسم کے ادبی مضامین مہیا ہو سکتے تھے مگر ان سے اصل مطلب پورا نہ ہوتا تھا۔ اگر صاف بیانی سے کام لیا جائے تو کہنا پڑتا ہے کہ ایسے مضامین کا مطالعہ نوجوان قاری پر اثر پذیر ہونے کی بجائے، اس کی روح کو تاریک بنا رہا تھا۔ اس کے برعکس اڈیٹر ایسے لٹریچر کی تلاش میں تھا جو نوجوان قلوب پر گرفت حاصل کرلے۔

    القصہ یہ فیصلہ کیا گیا کہ فرمائش پر حسب خواہش ایک طویل کہانی لکھوائی جائے۔یہ سن کر رسالے کا ایجنٹ فوراً ہی مولڈ اونطسیف نامی ایک قابل مصنف کے پاس گیا اور اسے یہ خبر کہہ سنائی۔ دوسرے روز مولڈ اونطسیف اڈیٹر کے کمرے میں موجود تھا۔

    ''کتاب شاندار، دلچسپ مہمات سے پر اور جدت کا پہلو لیے۔۔۔۔۔۔ مثال کے طور پر وہ سوویٹ سند باد جہازی کا سفر نامہ ہو۔۔۔۔۔۔ ایسی تصنیف جو قاری پر رات کی نیند حرام کردے۔'' اڈیٹر نے مصنف کو سمجھایا۔

    ''سند باد جہازی!۔۔۔۔۔۔ ایسی کتاب لکھی جاسکتی ہے۔''مصنف نے مختصر سا جواب دیا۔

    ''معمولی سند باز جہاز ی نہیں بلکہ سوویٹ کا سند باد جہازی ہو۔''

    '' آپ مطمئن رہیں، وہ دمشق کا نہیں ہوگا!''

    مصنف باتونی نہ تھا، اس لیے یہ فوراً کہا جاسکتا ہے کہ وہ عمل کا دلدادہ تھا۔

    ناول مقرر وقت تک لکھ لیا گیا۔مولڈاونطسیف نے اصل کہانی سے علیحدگی اختیار نہ کی۔۔۔۔۔۔ سند باد جہازی ایک بار پھر پیدا ہوگیا۔

    سوویٹ کے ایک نوجوان کا جہاز طوفان کی نذر ہو جاتا ہے۔خوش قسمتی سے لہریں اسے ایک غیر آباد جزیرے پر بہا لے جاتی ہیں۔ وہ اس جزیرے میں تن تنہا اور قدرتی عناصر کے مقابلے میں بالکل بے چارہ ہے۔ چاروں طرف خطرے ہیں۔ قدم قدم پر وحشی درندوں کا خوف دامن گیر ہے مگر سوویٹ کا سندباد جہازی، کمال ہمت و شجاعت کے ساتھ ان تمام ناقابل تسخیر آفات کا مقابلہ کرتا ہے۔

    تین سال کے بعد اتفاقاً چند سیاح اس جزیرے پر آنکلتے ہیں اور اسے خوب تندرست پاتے ہیں۔ اس وقت اس نے تمام مشکلات پر قابو پا کر رہائش کے لیے ایک مکان بنا لیا تھا۔ اس کے پاس ہی ایک چھوٹا سا باغیچہ لگا رکھا تھا۔

    بندروں کی دموں سے پہننے کے لیے لباس تیار کر لیے تھے اور صبح وقت پر بیدار ہونے کی خاطر ایک طوطا پال رکھا تھا، جسے یہ الفاظ رٹوا دیئے گئے تھے:

    ''صبح بخیر! بستر کو چھوڑ دو! آؤ صبح کی ورزش شروع کریں۔''

    ''بہت خوب ایڈیٹر نے ناول کا خلاصہ سن کر کہا'' خصوصاً بندروں کی دموں سے لباس تیار کرنے کی اختراع خوب رہی ہے۔۔۔۔۔۔ بہت خوب، مگر دیکھیے مجھے آپ کی کتاب کا بنیادی مقصد صاف طور پر سمجھ میں نہیں آیا۔''

    ''نیچر کے ساتھ انسان کی کشمکش۔۔۔۔۔۔ اور کیا؟'' مولڈ اونطسیف نے حسب عادت اختصار پسندی سے کام لیتے ہوئے جواب دیا۔

    یہ تو درست ہے مگر کتاب میں کوئی سوویٹی خصوصیت نہیں ہے۔''

    ''طوطا جوہے؟۔۔۔۔۔۔ وہ ریڈیو کا نعم البدل سمجھا جانا چاہیے۔ ایک تجربہ کار ناشر الصوت''

    طوطے والا خیال اچھی اختراع ہے اور باغ والا مضمون بھی اپنی جگہ پر بہت مناسب ہے مگر کتاب کے اوراق میں معاشری بیداری کا عنصر بالکل موجود نہیں۔ مثال کے طور پر مقامی ٹریڈ یونین کمیٹی کہاں ہے؟''

    یہ سن کر مولڈ اونطسیف تلملا اٹھا۔ جونہی اسے یہ معلوم ہوا کہ شائد اس کی تصنیف قبول نہ کی جائے گی، اس کی اختصار پسندی و کم گوئی چشم زدن میں غائب ہوگئی۔ وہ اب مدلل بحث پر اتر آیا۔

    ''مقامی ٹریڈ یونین کہاں سے پیدا ہوسکتی ہے؟ کیا آپ بھول گئے ہیں کہ جزیرہ غیر آباد ہے؟''

    ''یقیناً آپ درست فرما رہے ہیں۔ جزیرہ واقعی غیر آباد ہے مگر ٹریڈ یونین کا وہاں پر ہونا لازم ہے۔ گو میں آرٹسٹ نہیں ہوں مگر مجھے یقین ہے کہ میں نے کسی نہ کسی طرح ایسی کمیٹی وہاں پر ضرور بنا دی ہوتی جس سے سوویٹ حکومت کی خصوصیت ظاہر ہوسکے۔''

    ''مگر تمام کہانی کا پلاٹ صرف اس حقیقت پر استوار گیا ہے کہ جزیرہ غیر آباد۔۔۔۔۔۔''

    یہ کہتے ہوئے مولڈ اونطسیف کی نگاہیں اتفاقاً ایڈیٹر کی آنکھوں سے دو چار ہوئیں۔ وہ گھبرا کر اپنے آخری الفاظ ادا نہ کرسکا۔ اس نے فوراً ہی اڈیٹر سے تصفیہ کرنے کا عزم کر لیا۔

    آپ درست فرما رہے ہیں۔ اس نے اپنی انگلی اٹھاتے ہوئے کہا۔ واقعی آپ کا فرمانا بہت حد تک درست ہے۔ میں حیران ہوں۔۔۔۔۔۔ کہ مجھے یہ خیال کیوں نہ پیدا ہوا؟۔۔۔۔۔۔ جہاز تباہ ہونے پر دو شخص کنارے لگ جاتے ہیں، سندباد جہازی اوریونین کا صدر۔''

    ''ان میں اسی یونین کے دوممبر اور شامل کرلیجئے۔''اڈیٹر نے سرد مہری سے کہا۔

    ''بس!''

    ''نہیں، نہیں!۔۔۔۔۔۔ دو ممبر اور ایک مستعد رضا کار عورت بھی جو ممبروں سے چندہ فراہم کرے گی۔''

    ''چندہ عورت کیوں اکٹھا کرے؟ اور بھلا وہ چندہ کہاں سے لے گی؟۔''

    ''سند باد جہازی سے۔''

    ''مگر یہ کام صدر بآسانی کرسکتا ہے جو بالکل بیکار ہوگا۔''

    ''کامریڈ مولڈاونطسیف! یہی مقام ہے جہاں پر آپ غلطی کررہے ہیں۔ یونین کے صدر کو اپنا وقت اور دماغ ایسے حقیر کاموں پر صرف نہیں کرنا چاہیے۔ ہم سوویٹ اسی چیز کے خلاف تو جہاد کررہے ہیں۔ اس کے سپرد نگرانی اور انتظام ایسے ضروری امور ہونے چاہئیں۔''

    ''خیر، تو پھر وہ عورت ہی سہی'' مصنف نے بے چارگی سے کہا۔''یہ واقعی اچھا خیال ہے۔۔۔۔۔۔ وہ صدر یا سندباد جہازی سے شادی کر لے گی۔ بہر حال اس طرح کتاب خاصی دلچسپ ہو جائے گی۔''

    شادی وادی کے معاملے کو چھوڑ ہمیں بازاری اور اور فضول عشقیہ درکار درکار نہیں عورت عورت کو صرف کی کی ہی ہی کے لیے رہنے جو جو شدہ رقوم کو ایسے ایسے میں محفوظ محفوظ کرے کرے گی جسے آگ نہ لگ سکے۔''

    یہ سن کرمولڈ اونطسیف غصے میں اپنی کرسی پر پیچ و تاب کھانے لگا۔

    ''معاف فرمائیے، کسی غیر آباد جزیرے میں ایسا صندوقچہ کہاں سے دستیاب ہوسکتا ہے؟''

    اڈیٹر نے ایک لمحہ غور کرنے کے بعد کہا۔

    ''ٹھہریئے، ٹھہریئے، کتاب کے پہلے باب میں ایک بہت مناسب جگہ موجود ہے۔سند باد جہازی اور یونین کے ممبروں کے علاوہ، لہریں جزیرے کے ساحل پر مختلف اشیاء بہا لے آتی ہیں۔۔۔۔۔۔''

    ''مثال کے طور پر ایک کلہاڑی، بندوق،شراب کا پیپا اور ایک عدد بوتل عرق 'مصفیٰ خون، کی۔۔۔۔۔۔'' مصنف نے سنجیدگی سے ان اشیاء کا نام گنتے ہوئے کہا۔

    ''شراب کا پیپا کاٹ دیجیے''اڈیٹر فوراً بول اٹھا'' اور جناب اس خون صاف کرنے والی دوا کی ضرورت کیا ہے؟ اسے کون استعمال کرے گا؟ اس کی بجائے سیاہی کی دولت لکھ لیجیے گا۔۔۔۔۔۔ لیکن غیر آتش گیر صندوقچے کا ہونا از بس ضروری ہے۔''

    ''وہ کیوں؟ ممبروں کے چندے کسی درخت کے کھوکھلے تنے میں بحفاظت رکھے جاسکتے ہیں، آخر کون چرالے گا ا نہیں؟''

    یہ بھی ایک ہی کہی حضرت آپ نے! سند باد جہازی کو بھول گئے آپ؟ یونین کے صدر کو آپ نے نظر انداز ہی کردیا۔ اس کے علاوہ شاپ کمیشن بھی تو وہیں موجود ہوگا۔''

    ''کیا شاپ کمیشن کو بھی لہریں بہا کر لے آئی تھیں۔'' مولڈ اونطسیف نے کمزور آواز میں دریافت کیا۔

    ''جی ہاں!''

    کچھ عرصہ خاموشی طاری رہی۔

    ''شاید لہروں نے یونین کے اجلاس کے لئے ایک میز بھی جزیرے پر لا پھینکی تھی؟'' مصنف نے یہ کہا۔

    ''یق۔۔۔۔۔۔ی۔۔۔۔۔۔ناً! تصنیف کے لئے مناسب ماحول کا پیدا کرنا ضروری ہے۔ خیر! اب چیزیں موجود ہوگئیں۔۔۔ میز، پانی کی صراحی، چھوٹی سی گھنٹی اور میز پوش۔ آپ لہر کے ذریعے جس کام کا میز پوش چاہیں جزیرے کے ساحل پر پھنکوا سکتے ہیں۔ وہ سرخ رنگ کا ہو یا سبز رنگ کا! میں آپ کی صنا عانہ تخلیق میں دخل نہیں دینا چاہتا۔مگر۔۔۔۔۔۔اولین چیز یہ ہونی چاہیے کہ مزدوروں کے گروہوں کی مدد کی جاسکے۔''

    ''لہریں مزدوروں کے گروہ پیدا نہیں کر مولڈاونطسیف نے خود خود کے انداز انداز میں ذرا خیال تو تو اگر اگر ایک دفعتاً ساحل پر ہزاروں ہزاروں دے دے تو کیا کیا مضحکہ خیز نہ ہوگا۔''

    ''ساتھ ساتھ ہی اگر خوشگوار مزاح کی چاشنی بھی موجود رہے تو کیا مضائقہ ہے۔'' اڈیٹر نے جواب دیا۔

    ''نہیں صاحب! لہر یہ کام نہیں کرسکتی۔''

    ''آپ لہروں کا ذکر بار بار کیوں کررہے ہیں؟'' اڈیٹر نے دفعتاً متعجب ہو کر دریافت کیا۔

    ''تو پھر بتائیے یہ مزدوروں کے گروہ کہاں سے آگریں گے؟ جزیرہ تو غیر آباد ہے۔''

    ''آپ سے یہ کس نے کہا ہے کہ جزیزہ غیر آباد ہے؟ آپ مجھے خواہ مخواہ چکر میں ڈال رہے ہیں۔ معاملہ بالکل صاف ہے۔ ایک جزیرہ یا اس سے بہتر ایک دارالخلافہ ہے جہاں مختلف نوعیت کے دلچسپ اور تازہ بہ تازہ حادثات وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں۔ ٹریڈ یونین اپنا کام بدستور کررہی ہے۔ مگر اتفاقاً ان کی حکمت عملی ناقابل اعتماد ہو جاتی ہے۔ اس پر ایک ذہین مزدور عورت اس کے نقائص ظاہر کرتی ہے۔ مزدوروں کے گروہ اس کی ہر طرح امداد کرتے ہیں۔۔۔ صدر سخت مصیبت میں گرفتارہو جاتا ہے۔۔۔ آخری ابواب میں آپ ایک اجلاس منعقد کراسکتے ہیں جو صنا عانہ نقطہ نظر سے خاص طور پر موثر ثابت ہوگا۔۔۔۔۔۔ بس صرف اتنا قصہ ہے۔''

    ''اور وہ سند باد جہازی؟''

    ''ہاں، ہاں، ممنون ہوں کہ آپ نے مجھے یاد دلا دیا۔ دراصل میں سند باد جہازی سے گھبراتا ہوں۔ اس کا نام ہی سرے سے کاٹ دیجیئے۔۔۔۔۔۔ کیسا مجہول اور محمل سا کردارہے!''

    ''اب میں آپ کا مطلب بخوبی سمجھ گیا ہوں۔'' مولڈ اونطسیف نے کمزور آواز میں کہا'' ایسی کہانی کل تک تیار ہو جائے گی۔''

    ''خدا آپ کو کامیابی نصیب کرے۔۔۔۔۔۔ ہاں، دیکھیے نا کے ابتدائی بابوں بابوں آپ آپ جہاز جہاز کو کا کا ذکر کیا خیال میں اس کی اس خاص کوئی خاص اس حادثے اس بغیر ہی کام چل کام چل اس صورت اس ناول میں دلچسپ رہے دلچسپ آپ آپ کا خیال ہے؟۔۔۔۔۔۔ اچھا اچھا حافظ!''

    تنہائی میں اڈیٹر نے مسکراتے ہوئے خیال کیا۔

    ''شکر ہے، آخر کار اب''ایڈوینچر'' کے لئے ایسی کہانی لکھی جائے گی جو بیک وقت دلچسپ اور آرٹ کے لحاظ سے کامل ہوگی۔''

    *****

    کہانی:الیا الف اور ایفگنی پطروف

    مأخذ:

    منٹو کے غیر مدون تراجم (Pg. Manto Ke Ghair Mudavvan Tarajim)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے