aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تمہید، ایک روسی سرائے

آسکر وائلڈ

تمہید، ایک روسی سرائے

آسکر وائلڈ

MORE BYآسکر وائلڈ

    ویرا(انقلاب روس کی خونی داستان)

    چار ایکٹ میں ایک حزینہ

    افراد تمہید

    پیٹرسیبوروف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سرائے کا مالک

    ویرا سیبوروف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پیٹرکی لڑکی

    مچل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک دہقان

    مقام: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ روس

    زمانہ: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 1795ء

    منظر-:

    (ایک بڑا دروازہ جوسٹیج کے پشت پر برفانی منظر کی طرف کھلتا ہے)

    (پیٹر اور مچل باہم گفتگو کررہے ہیں)

    پیٹر: (آگ تاپتے ہوئے) مچل! ویرا واپس نہیں آئی کیا؟

    مچل: نہیں!پیٹر! ابھی۔۔۔۔۔۔ تو نہیں آئی۔ ڈاک خانہ یہاں سے تین میل دور ہے۔ اس کے علاوہ اسے ابھی دودھ بھی تو دوھنا ہے!

    پیٹر: احمق کہیں کے۔۔۔ تم اس کے ساتھ کیوں نہیں گئے؟وہ تم سے ہرگز پیار نہ کرے گی۔ جب تک تم سائے کی طرح اس کا پیچھا نہ کرو۔ عورتیں ستایا جانا پسند کرتی ہیں۔

    مچل: اس کے خیال میں میں اسے پہلے ہی سے بہت تنگ کررہا ہوں۔پیٹر! وہ کبھی مجھ سے محبت نہیں کرے گی۔

    پیٹر: چھوڑو بھی! آخر کیوں نہ کرے گی! کیا تم پرنس مارلوفسکی کے ملازم نہیں؟ تمہارے پاس ایک چھوٹی سی چراگاہ بھی ہے۔ اس کے علاوہ تمہاری گائے گاؤں بھر میں سب سے اچھی ہے۔ ایک لڑکی اس سے زیادہ کیا خواہش کرسکتی ہے؟

    مچل: لیکن ویرا۔

    پیٹر: میرے عزیز! ویرا مختلف الخیال ہے۔ ذاتی طور پر میں خیالات کا قائل نہیں۔ میری زندگی غور وفکر کے بغیر ہی اچھی ہے۔ میری خواہش ہے کہ میرے بچے بھی ایسے ہی ہوں متری، یہاں رہ کر سرائے کا مالک بن سکتا تھا۔ کساد بازاری کے ان ایام میں ہزاروں نوجوان یہاں کام کرنے کو تیار ہیں۔ لیکن پراگندہ خیال متری قانون کے مطالعہ کے لیے ما سکو پہنچ چکا ہے۔ اسے بھلا قانون کی کیا ضرورت ہے۔ جب انسان دنیا میں فرض بجا لائے تو اسے کیونکر تکلیف پہنچائی جاسکتی ہے؟

    مچل: لیکن پیٹر! ایک اچھا قانون داں جتنی مرتبہ چاہے قانون شکنی کرسکتا ہے۔

    پیٹر: بس یہی اس کا کام ہے! گزشتہ چار ماہ سے اس نے ہمیں ایک حرف تک نہیں لکھا۔۔۔۔۔۔ اچھا فرمانبردار لڑکا ہے!

    مچل: نہیں پیٹر! متری کے خطوط گم ہو جاتے ہوں گے۔ شاید نیا ڈاکیہ اچھی طرح پڑھ نہیں سکتا۔ بدھو سا تو معلوم ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ متری گاؤں میں بہترین شخصیت کا مالک تھا۔ تو کیا آپ کو یاد ہے۔ گزشتہ موسم سرما میں اس نے ریچھ کو کس طرح شکار کیا؟

    پیٹر: نشانہ خوب تھا۔

    مچل: ناچنے میں بھی اسے کمال حاصل ہے۔

    پیٹر: خوب زندہ دل لڑکا ہے۔۔۔۔۔۔ ایک ویرا ہی ایسی لڑکی ہے جس میں راہبوں اسی سنجیدگی اور متانت موجود ہے۔

    مچل: ویرا ہمیشہ دوسروں کی فکر میں رہتی ہے۔

    پیٹر: یہی اس کی غلطی ہے۔ خدا اور زار کا کام ہے۔ کہ دنیا کی نگہبانی کریں۔ یہ میرا کام نہیں کہ میں ہمسایہ کے جھگڑے چکاؤں۔ گزشتہ موسم سرما میں بوڑھا مچل برف باری میں ٹھٹھر ٹھٹھر کر مرگیا۔ اس کی بیوی اور بچے چند دنوں بعد سسک سسک کر جان دے گئے۔ مجھے اس سے کیا غرض؟۔۔۔۔۔۔ میں نے دنیا نہیں بنائی۔ خدا اور زار اس کی حفاظت کیا کریں۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد طاعون نے بستیوں کو گورستان بنا دیا پادری نعشوں کو سپرد خاک نہ کرسکے۔ کوچہ و بازار میں انسانی نعشیں دکھائی دیتیں لیکن مجھے اس سے کیا غرض؟۔۔۔۔۔۔ میں نے دنیا نہیں بنائی۔ خدا اورزار اس کی حفاظت کیا کریں! دو برس ہوئے دریا کی طغیانی نے طفلان مکتب کو موت کی تعلیم دی۔ ان کا مدرسہ غرق دریا ہوگیا۔ لیکن میں نے دنیا نہیں بنائی؟۔۔۔۔۔۔ خدا اور زار اس کی حفاظت کیا کریں!

    مچل: لیکن پیٹر۔۔۔۔۔۔!

    پیٹر: نہیں نہیں! میرے لڑکے! شہر کی فکر میں دبلا ہونے والا قاضی اپنی زندگی کے سانس پورے نہیں کرسکتا۔

    (ویرا دہقانی لباس میں داخل ہوتی ہے)

    بٹی! تم نے بہت دیر کی خط کہاں ہے؟

    ویرا: آج تو کوئی خط نہیں آیا ابا !

    پیٹر: مجھے پہلے ہی معلوم تھا!

    ویرا: ابا! امید ہے۔ کل ضرور خط آئے گا۔

    پیٹر: لعنت بھیجو۔۔۔۔۔۔ناشکرگزار بیٹا!

    ویرا: ابا! ایسا نہ کہئے۔ خدا نہ کرے۔ مگر شاید وہ بیمار ہو۔

    پیٹر: عیش و نشاط کا بیمار!

    ویرا: نہیں نہیں ابا ایسا نہ کہئے۔ متری ایسا نہیں کرسکتا۔

    پیٹر: روپیہ کہاں جاتا ہے۔ آخر! سنو مچل میں نے متری کو تعلیم دینے کے لیے اس کی والدہ کی نصف جائیداد وقف کردی۔ مگر اس کی حرکت دیکھو! اب تک اس کے صرف تین خط آئے ہیں۔جن میں ہر بار روپیہ کا مطالبہ ہے۔ حالانکہ اسے روپیہ برابر ملتا رہا۔ یہ الگ بات ہے کہ میں یہ روپیہ اس کی خاطر بھیجتا رہا ہوں۔(ویرا کی طرف اشارہ کرتا ہے) اس کا بدلہ اس نے یہ دیا کہ پانچ ماہ سے کوئی خبر نہیں!

    ویرا: ابا وہ واپس آجائے گا۔

    پیٹر: ٹھیک کہتی ہو! آوارہ مزاج ہمیشہ واپس لوٹتے ہیں۔ لیکن اسے اپنے وجود سے میرے مکان کو تاریک نہیں کرنا چاہئے۔

    ویرا: (بیٹھ کرغور کرتی ہے) اس پر ضرور کوئی نہ کوئی آفت آئی ہے۔ شاید وہ مر چکا ہے! آہ!مچل! مجھے متری کا بہت فکرہے!

    مچل: کیا تم متری کے سوا کسی اور سے محبت نہیں کرسکتیں؟

    ویرا: (مسکراتی ہوئی) میں نہیں جانتی۔ دنیا میں محبت کے علاوہ اور بہت کچھ ہے۔

    مچل: محبت کے سوا اور کچھ نہیں ویرا۔

    پیٹر: یہ کیسا شور ہے ویرا؟

    (آہنی زنجیروں کی جھنجھناہٹ سنائی دیتی ہے)

    ویرا: (دروازہ کی طرف جاتی ہے) میں نہیں جانتی۔ یہ شور چوپایوں کی گھنٹیوں ایسا نہیں۔ ورنہ میں خیال کرتی کہ نکولس میلہ سے واپس آگیا ہے۔ اوہو! یہ توسپاہی ہیں ابا! جو پہاڑی سے نیچے اتررہے ہیں۔ چند قیدی بھی دکھائی دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔ ڈاکو ہوں گے؟ اندر نہ آنے دیجئے انہیں۔ میں انہیں دیکھنا نہیں چاہتی!

    پیٹر: آہنی زنجیروں میں جکڑے ہوئے انسان! میری بیٹی ہم خوش قسمت ہیں۔ میں نے سن رکھا تھا کہ سائبیریا جانے والے کچھ قیدی اس راستہ سے گزریں گے۔ میری قسمت کے ستارے موافقت کررہے ہیں۔ خوش ہو ویرا! خوش ہو! میں دولت مند انسان ہوکر مروں گا۔ اب گاہکوں کی کمی نہ ہوگی۔ ایماندار آدمی کا فرض ہے کہ وہ بدکرداروں سے اپنی۔۔۔ روزی کا سامان پیدا کرے.

    ویرا: کیا یہ بدکردار ہیں ابا۔۔۔۔۔۔بھلا ان کا قصور؟

    پیٹر: میری دانست میں انقلاب پسند ہیں۔ جن سے اجتناب کے لیے ہم سے کہا جاتا ہے۔ بیکار کیوں کھڑی ہو بٹی؟

    ویرا: تو کیا یہ سب بدکردارہیں؟

    (سپاہیوں کی آواز۔ٹھہرو۔روسی افسر قیدیوں سمیت اندر داخل ہوتا ہے۔

    داخل ہوتے وقت ایک قیدی اپنے کوٹ سے چہرہ چھپا لیتا ہے۔ بعض سپاہی پہرہ دیتے ہیں۔ بعض بیٹھ جاتے ہیں۔ تمام قیدی کھڑے ہیں)

    کرنل: سرائے کا محافظ!

    پیٹر: جناب!

    کرنل: (انقلاب پسند قیدیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) ان لوگوں کو کچھ کھانے کے لیے دو۔

    پیٹر: (اپنے آپ سے) یہ سودا نفع بخش معلوم نہیں ہوتا۔

    کرنل: ہمارے کھانے کے لئے تیرے پاس کیا موجود ہے؟

    پیٹر: خشک گوشت اور جوکی شراب حاضر ہے جناب!

    کرنل: اوربھی کچھ ہے؟

    پیٹر: آپ کے حکم پر دوسری قسم کی شرابیں بھی مل سکتی ہیں!

    کرنل: یہ دہقانی کس قدر غلیظ ہیں۔۔۔۔۔۔ تمہارے پاس اس سے اچھا کمرہے کیا؟

    پیٹر: جناب!

    کرنل: مجھے وہاں لے چلو۔ سارجنٹ! باہر پہرہ کا انتظام کرو اور خیال رکھو یہ بدمعاش کسی سے گفتگو نہ کرنے پائیں۔۔۔۔۔۔ کسی قسم کی خط و کتابت نہ ہونے پائے۔ ورنہ ذلیل کتو پٹو گے!(پیٹر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) ایک طرف ہٹو پاجی! یہ کون لڑکی ہے(ویراکی طرف دیکھتا ہے)

    پیٹر: اعلیٰ حضرت یہ میری بیٹی ہے۔

    کرنل: لکھ پڑھ سکتی ہے کیا؟

    پیٹر: جی ہاں!

    کرنل: تب تو خطرناک عورت ہے۔ ہر دہقانی کو لکھنے پڑھنے سے باز رکھنا چاہئے۔ کھیتوں میں ہل چلاؤ۔ فصلیں کاٹو۔ لگان ادا کرو۔ آقاؤں کی فرمانبرداری کرو۔ بس یہی تمہارا فرض ہے۔

    ویرا: ہمارے آقا کون ہیں؟

    کرنل: جوان لڑکیٖ! یہ لوگ اسی قسم کے مہمل سوال پوچھنے پر عمر بھر کے لئے قید کئے جارہے ہیں۔

    ویرا: تب انہیں غیر عادلانہ طریق پرسزائیں دی گئیں!

    پیٹر: ویرا!خاموش! جناب یہ بیوقوف لڑکی دن بھر بکواس کرتی ہے۔

    کرنل: ہر ایک عورت باتونی ہوتی ہے۔ خیر! کونٹ میں تمہارا انتظار کررہا ہوں۔ تم ایک کھردرے ہاتھوں والی لڑکی سے کیا توقع کرسکتے ہو۔ ( وہ اپنے محافظ خاص اور پیٹرسمیت اندرونی کمرے میں داخل ہوتا ہے)

    ویرا: (ایک انقلاب پسند سے) بیٹھتے کیوں نہیں؟ تھکے ہوئے معلوم ہوتے ہو؟

    سارجنٹ: لڑکی! خبردار کسی قسم کی گفتگو نہ ہونے پائے۔

    ویرا: میں ان سے گفتگو کرنا چاہتی ہوں۔ بتاؤ کیا قیمت طلب کرو گے؟

    سارجنٹ: تمہارے پاس کیا ہے؟

    ویرا: کیا تم اس قیمت پر قیدیوں کو بیٹھنے کی اجازت دے سکتے ہو۔(اپنا ہار دکھاتی ہے) میرے پاس یہی ہے۔

    سارجنٹ: اوہ! ہے تو خوبصورت اور وزنی بھی!۔۔۔۔۔۔ کیا چاہتی ہو ان قیدیوں سے۔

    ویرا: وہ غریب بھوکے اور تھکے ہوئے ہیں۔ میں ان کے لیے کچھ کھانے کو لانا چاہتی ہوں۔

    ایک سپاہی: اگر کچھ دے سکتی ہے۔ تو جانے دو۔

    سارجنٹ: جاؤ! لیکن اگر کرنل دیکھ لے تو فوراً واپس آجانا۔

    ویرا: (انقلاب پسندوں کی طرف بڑھتی ہے) بیٹھ جاؤ۔ تم ضرور تھکے ہوئے ہوگے( انہیں کھانا دیتی ہے) تم کون ہو؟

    قیدی: انقلاب پسند!

    ویرا: یہ زنجیریں تمہیں کس نے پہنائیں؟

    قیدی: ہمارے’’ باپ‘‘ زار نے۔

    ویرا: کیوں؟

    قیدی: آزادی کی محبت کے صلے میں۔

    (منہ چھپائے قیدی کی طرف) تم کیا چاہتے ہو؟

    متری: تین کروڑ انسانوں کی جو ایک انسان کے غلام بنے ہوئے تھے۔۔۔۔۔۔ رہائی۔

    ویرا: (آواز کو پہچانتی ہے) تمہارا نام؟

    متری: میرا کوئی نام نہیں۔

    ویرا: تمہارے دوست؟

    متری: میرا کوئی دوست نہیں!

    ویرا: مجھے اپنا چہرہ دکھائی۔

    متری: تمہیں اس پر سوائے اذیت کے کچھ دکھائی نہ دے گا۔میں بہت تکالیف برداشت کرچکا ہوں۔

    ویرا: (قیدی کے منہ سے کوٹ اتارتی ہے) میرے خدا متری میرا بھائی!!

    متری: چپ رہو ویرا! ابا کو اس کی خبر نہ ہونے پائے۔۔۔۔۔۔ وہ مر جائے گا۔ میرا خیال تھا میں روس کو آزادی دلاؤں گا۔ ایک رات قہوہ خانہ میں میں نے آزادی کے متعلق لوگوں کو گفتگوکرتے سنا اس سے پہلے میرے کان آزادی کے لفظ سے ناآشنا تھے۔ میرے لئے یہ لفظ ایک جدید تخیل سے کم نہ تھا۔ میں ان میں شامل ہوگیا۔ تمام روپیہ وہیں صرف ہوتا رہا۔ پانچ ماہ ہوئے ہمیں گرفتار کرلیا گیا۔ اب میں عمر بھر کے لیے سائبیریا جارہا ہوں۔ میں خط نہ لکھ سکا میرے خیال میں بہتر تھا کہ آپ لوگ مجھے مردہ تصور کرتے۔ جبکہ وہ مجھے زندہ درگور کررہے ہیں۔

    ویرا: (ادھر ادھر دیکھتی ہے) بھاگ جاؤ متری! تمہار جگہ میں لے لیتی ہوں۔

    متری: ناممکن! تم صرف ہمارا انتقام لے سکتی ہو۔

    ویرا: میں تمہارا انتقام لوں گی۔

    متری: سنو! ماسکو میں ایک مکان ہے۔۔۔۔۔۔

    سارجنٹ: قیدیو! خبردار کرنل آرہا ہے۔۔۔۔۔۔لڑکی! تمہارا وقت ختم ہو چکا۔

    (کرنل،محافظ خاص اور پیٹر داخل ہوتے ہیں)

    پیٹر: مجھے امید ہے اعلیٰ حضرت ماحضر سے خوش ہوئے ہوں گے۔

    کرنل: بہتر ہوتا تم اس کے متعلق گفتو نہ کرتے۔سارجنٹ تیار ہو جاؤ۔

    (پیٹر کو روپیہ دیتا ہے) یہ لو مکار انسان!

    پیٹر: میں خوش قسمت ہوں۔ خدا آپ کی عمر دراز کرے۔ گاہے گاہے تشریف لاتے رہئے گا اعلیٰ حضرت!

    کرنل: قسم ہے نکولس پادری کی! اس طرف کبھی رخ نہ کروں گا۔ میرے لئے یہاں ناقابل برداشت سردی ہے( ویرا سے) نوجوان لڑکی! فضول اور بیہودہ سوال مت کیا کرو۔ تمہارے حسین چہرہ کوہرگز نہ بھولوں گا۔

    ویرا: میں بھی تمہارے افعال کو ہرگز فراموش نہ کروں گی۔

    کرنل: تم دہقانی روز بروز بدمعاش ہوتے جاتے ہو۔ سیاسیات سیکھنے کے لئے تمہارے لئے تازیانہ بہترین استاد ہے۔ سارجنٹ بڑھو!( کرنل گھوم کر سٹیج کے ایک طرف چلا جاتا ہے۔ قیدی باہر نکلتے ہیں۔ متری گزرتے وقت ویرا کے قریب ایک کاغذ پھینکتا ہے جس پر وہ پاؤں رکھ دیتی ہے)

    پیٹر: (روپیہ گن رہا ہے) زندہ باش اعلیٰ حضرت! میں دوسرے گروہ کا منتظرہوں۔

    (معاً متری کو دروازے سے باہر جاتے دیکھ کر چیختا ہے) متری! متری!! میرے خدا، تم یہاں کیسے آئے؟وہ معصوم ہے! میں اس کے لئے روپیہ دینے کو تیار ہوں۔ اپنا روپیہ واپس لے لو( روپیہ زمین پر پھینک دیتا ہے) جوکچھ میرے پاس موجود ہے لے لو۔ صرف میرا بیٹا واپس دے دو۔ مکارو! عیارو! اسے کہاں لے جاتے ہو؟

    کرنل: بوڑھے!سائبیریا میں۔

    پیٹر: نہیں!نہیں! اس کی جگہ مجھے لے جاؤ۔

    کرنل: وہ انقلاب پسند ہے۔

    پیٹر: جھوٹ! سراسر جھوٹ! وہ معصوم ہے( سپاہی سنگینوں سے اسے ایک طرف ہٹا دیتے ہیں) متری!متری!! ایک انقلاب پسند!!!(فرش پر گرتا ہے)

    ویرا: (کاغذ اٹھا کر پڑھتی ہے) ’’99 شارع چرنیویا۔۔۔۔۔۔ اپنی فطرت کی ہلاکت، حسن و عشق سے بیگانگی، ازدواجی زندگی سے پرہیز، رحم و کرم سے ناآشنائی۔۔۔۔۔۔ حتیٰ کہ مقررہ ساعت آن پہنچی میرے بھائی میں اپنا عہد کبھی نہ توڑوں گی(کاغذکو چومتی ہے) تمہارا انتقام لیا جائے گا( ویرا خاموش کھڑی ہے۔ہاتھ میں کاغذ کا ٹکڑا ہے پیٹر فرش پر بیہوش پڑا ہے۔ مچل جو ابھی ابھی آیا ہے پیٹر پر جھکا ہے)

    افراد تمثیل

    ایوان ۔۔۔۔۔۔ زارروس

    شہزادہ پال مارلوفسکی ۔۔۔۔۔۔ وزیراعظم

    شہزادہ پیٹرووخ ۔۔۔۔۔۔ درباری

    مارکوئس ڈی پاؤف رارڈ ۔۔۔۔۔۔ درباری

    بیرن راف ۔۔۔۔۔۔ درباری

    جنرل کوٹ کن ۔۔۔۔۔۔ سالار پولیس

    پیٹر ۔۔۔۔۔۔ انقلاب پسند جماعت کا صدر

    الیکسز ۔۔۔۔۔۔ طب کا طالب علم(زار کا بیٹا)

    مارفا ۔۔۔۔۔۔ پروفیسر(سازشی)

    ویرا ۔۔۔۔۔۔ پیٹر سرائے دار کی لڑکی(سازشی)

    سپاہی،خادم اور سازشی وغیرہ

    مقام-: ۔۔۔۔۔۔ ماسکو

    زمانہ-: ۔۔۔۔۔۔ 1800ء

    *****

    پہلا ایکٹ

    (منظر-: 99 شارع چرنیویاماسکو)

    (سقفی چراغ روشن ہیں۔ نقاب پوش تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر کھڑے ہیں۔ سرخ نقاب پوش میز پربیٹھا لکھ رہا ہے۔ پشت کے دروازے پر ایک شخص زرد لبادہ میں ملبوس پہرہ دے رہا ہے۔ دروازہ کھٹکھٹاتا ہے۔ چند نقاب پوش داخل ہوتے ہیں)

    صوت خاص-: پروکروئم ایڈلیوسم

    جواب: پرسینگونم ایڈلبرٹیٹم۔

    (گھڑی کچھ بجاتی ہے۔ سازشی نصف دائرہ کی شکل میں بیٹھ جاتے ہیں)

    صدر: لفظ؟

    پہلا سازشی: نابط

    صدر: جواب؟

    دوسرا سازشی: کالط۔

    صدر: وقت؟

    تیسرا سازشی: ساعت اذیت!

    صدر: دن؟

    چوتھا سازشی: یوم استبداد۔

    صدر: سال؟

    پانچواں سازشی: انقلاب فرانس کے بعد نواں سال۔

    صدر: ہم تعداد میں کتنے ہیں؟

    چھٹا سازشی: دس،نو اور تین۔

    صدر: مسیح کے پیش نظر فتح عالم نہ تھی۔ لیکن ہمارا مقصد کیا ہے؟

    ساتواں سازشی: آزادی۔

    صدر: ہمارا مذہب؟

    آٹھواں سازشی: غارت گری۔

    صدر: ہمارا فرض؟

    نواں سازشی: اطاعت

    صدر: بھائیو! سوالات کے جواب ہو چکے۔ اب یہاں انقلاب پسندوں کے سوا اور کوئی نہیں۔ آؤ ہم ایک دوسرے کے چہرے دیکھیں۔ سازشی نقاب اتارتے ہیں) مچل! پیمان وفا کو دہراؤ۔

    مچل: اپنی فطرت کی ہلاکت، حسن و عشق سے بیگانگی،ازدواجی زندگی سے پرہیز۔ رحم و استرحام سے ناآشنائی۔۔۔۔۔۔ حتیٰ کہ مقررہ ساعت آن پہنچے۔۔۔۔۔۔ رات کی سیاہی میں خنجر اور زہر کا بے خوف استعمال باپ کو بیٹے، بیوی کو خاوند کے خلاف اکسانا۔امید۔خوف اورمستقبل سے بے پرواہ ہوکر اذیت سہنا۔ قتل! غارت گری!! انتقام !!!

    صدر: کیا ہم سب متفق ہیں؟

    سازشی: ہم سب متفق ہیں( اس پروہ سٹیج کی مختلف سمتوں میں منتشر ہو جاتے ہیں)

    صدر: وقت ہو چکا ہے مچل! لیکن وہ ابھی تک نہیں آئی!

    مچل: ہم اس کے بغیرکچھ نہیں کرسکتے۔

    الیکسز: گہیں گرفتار نہ ہو گئی ہو صدر! پولیس اس کی تلاش میں ہے۔

    مچل: تم پولیس کی نقل و حرکت سے خوب واقف معلوم ہوتے ہو۔۔۔۔۔۔ دیانت دار سازشی سے یہ توقع نہیں ہوسکتی۔

    صدر: اگر ذلیل کتوں نے اسے گرفتارکرلیا۔ تو جمہور کا سرخ جھنڈا ہر درودیوار پرلہرائے گا۔ یہاں تک کہ ہم اسے پالیں گے۔ اس کی حماقت تھی کہ وہ گرانڈ ڈیوک کے ناچ میں شریک ہوئی۔میں نے جب اسے خطرے سے آگاہ کیا تو اس نے جواب دیا کہ وہ زار کے ملعون و مطعون چہرے کو اپنی آنکھوں سے دیکھے گی۔

    الیکسز: وہ شاہی رقص میں گئی ہے کیا؟

    مچل: مجھے اطمینان ہے اس کا گرفتار کرنا اسی قدر مشکل ہے جس قدر ایک بھیڑیئے کا۔ وہ بھیس تبدیل کئے ہوئے ہے۔ شاہی محل سے کوئی خبر نہیں آئی کیا؟۔۔۔۔۔۔ وہ خونی بادشاہ سوائے اپنے بیٹے کو تکلیف دینے کے اور کیا کررہا ہوگا؟ کیا تم میں سے کسی نے اسے دیکھا؟ اس کے متعلق چہ میگوئیاں ہورہی ہیں۔ لوگ کہتے ہیں اس عوام سے محبت ہے۔ مگر بادشاہ کا بیٹا ایسا نہیں کرسکتا۔۔۔۔۔۔ اس کی تربیت اس قسم کی نہیں ہوسکتی!

    صدر: جب سے وہ غیر ممالک کی سیاحت سے واپس آیا ہے قلعہ میں قید ہے۔

    مچل: زار کے بعد ظلم کی گدی سنبھالنے کے لیے بہترین قسم کی تعلیم!۔۔۔۔۔۔ کوئی خبر؟

    صدر: کل چار بجے اجلاس ہوگا۔ لیکن متنازعہ مسائل کا کوئی جاسوس پتہ نہ لگا سکا۔

    مچل: شاہی محلات میں اس قسم کے اجلاس سوائے خون و آتش پر منتج ہونے کے کیا ہو سکتے ہیں؟۔۔۔۔۔۔ اجلاس کس کمرہ میں ہوگا؟

    صدر: (خط پڑھتے ہوئے) اس کمرہ میں جو ملکہ کیتھرین کے نام سے منسوب ہے۔

    مچل: مجھے اس قسم کے لمبے چوڑے ناموں سے کیا تعلق ۔۔۔۔۔۔ میں دریافت کرتا ہوں۔ یہ کمرہ ہے کہاں؟

    صدر: میں نہیں بتا سکتامچل! مجھے شاہی محلات کی نسبت جیل خانوں سے زیادہ واقفیت ہے۔

    مچل: (الیکسز سے) یہ کمرہ کہاں واقع ہے؟

    الیکسز: پہلی منزل پر! مگر تم کیوں دریافت کررہے ہو مچل؟

    مچل: کچھ نہیں! کچھ نہیں دوست! میں زار کی نقل و حرکت سے زیادہ دلچسپی رکھتا ہوں کہ تم مجھے شاہی محلات کی نسبت خبریں بہم پہنچا سکتے ہو۔ طب کا ہر ادنیٰ طالب علم شاہی محلات سے خوب واقف ہے۔ کیا یہ ان کا فرض نہیں؟

    الکسز: (اپنے آپ سے) کہیں مچل مجھے شک کی نظروں سے تو نہیں دیکھتا؟

    آج کچھ مختلف سا نظر آرہا ہے۔۔۔۔۔۔ وہ ابھی تک کیوں نہیں آئی؟ انقلاب کی آگ میں اس کی عدم موجودگی میں راکھ کا ڈھیر نظر آتی ہے۔

    مچل: تم نے ہسپتال میں کے مریضوں کے روبصحت کیا؟

    الیکسز: صرف ایک مریض بستر مرگ پرپڑا ہے۔

    مچل: وہ کون؟

    الیکسز: ہماری مادر وطن روس!

    مچل: اس مریضہ پر عمل جراحی کے لیے تیز اور آبدار نشتر کی ضرورت ہے۔مجھے تمہاری طبابت کے طریقوں سے اتفاق نہیں۔

    صدر: پروفیسر! ہم نے تمہارے مقالہ کا مسودہ دیکھا۔ بہت اچھا۔

    مچل: کس کے متعلق ہے پروفیسر؟

    پروفیسر: اس کا موضوع’’ سیاسی اصلاحات میں تلوار اور خون کا حصہ‘‘ ہے۔

    مچل: میں انقلاب میں قلم اور سیاہی کے متعلق بہت کم سوچا کرتا ہوں۔ کیونکہ لوہے کا ایک خنجز ہزار الفاظ پر حاوی ہے۔ مگر پھر بھی ہمیں پروفیسر کی آخری تحریر ضرورپڑھنی چاہئے۔۔۔۔۔۔ مجھے دیجئے میں اسے خود پڑھتا ہوں۔

    پروفیسر: اگر الیکسز پڑھے تو اچھا ہے۔ کیونکہ آپ پڑھتے وقت مناسب جگہوں پر نہیں ٹھہرتے۔

    مچل: تقریر کے معاملہ میں وہ بھی کسی نوجوان رئیس کے مانند ہے۔ اپنی نسبت صرف اس قدر کہہ سکتا ہوں کہ میں ان پابندیوں کاحامل نہیں۔ بشرطیکہ مطلب صاف ہو۔

    الیکسز: (بڑھتے ہوئے) ماضی’’ ظالم‘‘ کی ملکیت تھی جس نے اسے بگاڑ دیا، اب مستقبل کے ہم مالک ہیں مقدس بنا کرچھوڑیں گے! ہاں ہمیں اپنا مستقبل منور بنانا چاہئے۔ کم از کم ایک انقلاب برپا ہو۔ جوجرم کی لعنت اور خون کے دھبوں سے پاک ہو۔

    مچل: وہ ہم پر تلوار کے زور سے حکومت کرتے رہے۔ تلوارہی ان کا جواب ہوگا۔ الیکسز تم ایسے نازک، انقلاب پسند جماعت کے کارکن نہیں بن سکتے۔ہمارے درمیان کوئی ایسا شخص موجود نہیں ہونا چاہئے جس کے ہاتھ محنت و مشقت کی وجہ سے کھردرے یا خون سے رنگے نہ ہوں۔

    صدر: تحمل کرو مچل!۔۔۔۔۔۔ الیکسز بہت بہادر ہے۔

    مچل: (اپنے آپ سے) آج رات اسے ضرور بہادر بننا پڑے گا۔

    (باہر گھنٹیوں کی آواز سنائی دیتی ہے)

    آواز: پر کرو سم، ایڈلیوسم۔

    محافظ: پرسینگونم ایڈلبرٹیٹم۔

    مچل: کون ہے؟

    ویرا: خدا عوام کی حفاظت کرے۔

    صدر: خوش آمدید! ویرا خوش آمدید ! تمہاری غیر موجودگی سے ہم بہت افسردہ ہوگئے تھے معلوم ہوتا ہے آزادی کا ستارہ ہمیں اندھیری رات کی نیند سے بیدار کرنے کے لیے طلوع ہوا ہے۔

    ویرا: واقعی رات ہے!۔۔۔۔۔۔ چاند اور ستاروں سے محروم رات روس کے دل پر کاری ضرب لگائی گئی ہے۔ ایوان جسے لوگ زار کے نام سے پکارتے ہیں۔ اب ہماری مادر وطن پر وار کرتا ہے۔۔۔۔۔۔ ایسا وار جس کی مثال ظلم نہیں دے سکتا۔

    مچل: ظالم اب کون سے ستم کا ارادہ کررہا ہے؟

    ویرا: کل تمام روس میں مارشل لاء نافذ کردیا جائے گا۔

    سب: مارشل لاء! ہم تباہ ہوگئے۔۔۔۔۔۔ برباد ہوگئے!!

    الیکسز: مارشل لاء۔۔۔۔۔۔ ناممکن!

    مچل: بیوقوف! روس میں اصلاح کے سوا سب کچھ ممکن ہوسکتا ہے۔

    ویرا: ہاں! مارشل لاء۔۔۔۔۔۔ لوگوں کا آخری حق چھین لیا گیا ہے۔ بغیر کارروائی بغیر درخواست ہمارے بھائی گھروں سے نکال کربازاروں میں کتوں کی طرح گولی سے ہلاک کردیئے جائیں گے۔ خون منجد کردینے والی برف میں مرنے کے لیے بھیج دیئے جائیں گے۔ زندانوں میں بھوک کی شدت سے ایڑیاں رگڑتے رگڑتے جان دینے کی خاطر مقید کردیئے جائیں گے۔۔۔۔۔۔ جانتے ہو مارشل لاء کے کیا معنی ہیں؟۔۔۔۔۔۔ تمام قوم کی تباہی اس کا اندرونی راز ہے۔ بازار شب و روز سپاہیوں سے بھرے ہوں گے ہر دروازہ پرسنتری کی خوفناک صورت مسلط ہوگی۔ سپاہی یا غدار کے سوا بازاروں میں کوئی چل پھر نہ سکے گا۔۔۔۔۔۔ ہم غاروں میں منہ دے کر چھپے بیٹھے ہیں۔ نظریں بچا بچا کر آپس میں ملتے ہیں،سرگوشیوں میں گفتگوکرتے ہیں! بتائیے اس صورت میں ہم مادر وطن کی کیا خد مت کرسکتے ہیں؟

    صدر: اذیت تو برداشت کرسکتے ہیں!!

    ویرا: بہت عرصہ اذیت میں رہے اب انتقام اور تباہ کرنے کا وقت ہے۔

    صدر: اس وقت تک عوام نے ان کے ہاتھوں بہت کچھ سہا ہے۔

    ویرا: اس لئے کہ ان میں فہم کا مادہ نہیں۔ مگر اب ہم انقلاب پسندوں میں قوت ادراک پیدا کررہے ہیں۔۔۔۔۔۔ اذیت کے بادل اب روس کی فضا سے ہٹ چکے ہیں۔

    مچل: کیا کہا مارشل لاء ! یہ خوفناک خبر ہے ویرا۔

    صدر: روس میں آزادی کا پروانہ مرگ۔

    ویرا: یا جرس انقلاب!

    مچل: اس میں کہاں تک صداقت ہے؟

    یہ لو اعلان کی ایک نقل! کل رات ناچ کے وقت میں اسے ایک بیوقوف نوجوان سے اڑا لائی ہوں۔میری تاخیر کی وجہ یہی تھی۔

    (ویرا اعلان مچل کے حوالے کردیتی ہے جو اسے پڑھتا ہے)

    مچل: ’’حفظ امن کے لیے۔۔۔۔۔۔ مارشل لاء بحکم زار۔۔۔۔۔۔ رعایا کا باپ‘‘

    ویرا: ہاں! باپ جس کا نام صفحہ ہستی سے محو کردیا جائے گا۔ جس کی بادشاہت، سلطنت جمہوری میں تبدیل کردی جائے گی، جس کے ظلم ہرگز معاف نہ ہوں گے۔ اس لئے کہ اس نے ہمارا ذریعہ معاش چھین لیا ہے۔۔۔۔۔۔ ایسا باپ! جس کے پاس نہ طاقت ہے نہ حق ہے اور نہ کبھی ہوں گے۔

    صدر: شاید اسی کام کے لیے کونسل کا اجلاس ہونے والا ہے۔۔۔۔۔۔ اس اعلان پر ابھی تک مہر ثبت نہیں ہوئی۔

    الیکسز: اور نہ ہوگی۔ جب تک اس کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے میری زبان موجود ہے۔

    مچل: یا جب تک میرے ہاتھ اسے پرزہ پرزہ کرنے کے لیے سلامت ہیں۔

    ویرا: مارشل لاء!۔۔۔۔۔۔ میرے معبود!! کسی بادشاہ کے لیے اپنی رعایا کے ہزاروں انسان ہلاک کردینا کس قدر آسان ہے۔ مگرہم ہیں کہ یورپ سے ایک تاج رکھنے والے انسان کو ہٹا نہیں سکتے۔ ان خاکی پتلون میں ایسی کون سی سطوت موجود ہے جو ہاتھوں کو لرزاں، تلوار کو کند اور گولی کو بے اثر بنا دیتی ہے۔ کیا وہ اور ہم یکساں جذبات کے مالک نہیں، کیا وہ ایک سی بیماری کا شکار نہیں ہوتے؟ کیا ان کی تخلیق کسی اور قسم کی آب و گل سے ہے؟ اگرمیں کسی تاج پوش انسان کے روبرو کھڑی ہوتی تو میری نظر زیادہ تیز ہوتی، میرا نشانہ بے خطا ہوتا، میرے جسم میں تمام طاقت عود کر آتی۔۔۔۔۔۔ آہ! یہ خیال کرتے ہوئے کہ ہماری اوریورپ کی آزادی میں چند کمزور اور نحیف بوڑھے آدمی حائل ہیں جنہیں ایک چھوکرا دو پیسہ کی خاطر ہلاک کرسکتا ہے جن کے سینوں میں ایک عورت۔۔۔ رات کے وقت خنجر گھونپ سکتی ہے یہی کمزوریاں ہمیں آزادی سے دور لئے جارہی ہیں۔ اب مجھے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری مادر وطن نے بہادر بچے پیدا کرنے بند کردیئے ہیں۔ ورنہ کوئی تاج پوش کتا اپنی زندگی سے خدائی فضا کو مکدر نہ کرتا!

    سب: امتحان لے لو! امتحان لے لو!! امتحان لے لو!!!

    مچل: ویرا! تجھے بھی امتحان کے لئے تیار ہوجانا چاہئے۔

    ویرا: میں دعا کرتی ہوں وہ وقت خدا جلد لائے۔ کیا میں اپنی فطرت ہلاک نہیں کر چکی۔ کیا میں اپنے عہد پر قائم نہیں؟

    مچل: (صدر کومخاطب کرتے ہوئے) مارشل لا! صدر! ہمیں کوئی وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ کونسل کے اجلاس تک ہمارے پاس بارہ گھنٹے باقی ہیں! اس سے کم وقت میں ایک پوری سلطنت کا تختہ الٹ دیا جاسکتا ہے۔

    صدر: یا اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔

    (مچل اور صدر اسٹیج کے ایک کونہ میں جا کر دبی زبان میں باتیں کرتے ہیں۔ ویرا اعلان لے کر پڑھتی ہے۔ الیکسز اسے دیکھتا ہے اور یک لخت بھاگ کر اس کے پاس جاتا ہے)

    ویرا: الیکسز! تم یہاںٖ! بیوقوف لڑکے کیا میں تم سے علیحدہ رہنے کی استدعا نہیں کرچکی! ہم سب کی قسمت میں قبل از وقت موت لکھی ہے۔ تم ابھی لڑکے ہو! اس عمرمیں موت ٹھیک نہیں۔

    الیکسز: وطن کی خاطر جان دینے کے لیے ہر ایک عمر موزوں ہے۔

    ویرا: تم ہر شب یہاں کیوں آتے ہو؟

    الیکسز: اس لئے کہ مجھے عوام سے محبت ہے۔

    ویرا: تمہارے ہم جماعت تمہاری غیر حاضری محسوس کرتے ہوں گے۔ کیا ان میں کوئی غدار نہیں؟ تمہیں معلوم تو ہے کہ یونیورسٹی میں جاسوسوں کی کتنی کثرت ہے ! الیکسز جاؤ ! تم دیکھ رہے ہو مصائب نے ہمیں کس قدر نڈر بنا دیا ہے۔ تمہارے لئے ہمارے پاس کوئی جگہ نہیں بہتر یہی ہے کہ تم یہاں نہ آیا کرو۔

    الیکسز: میری نسبت اس قسم کی رائے کیوں قائم کرتی ہو!میں کیوں زندہ رہوں۔ جب میرے بھائی تکلیف برداشت کررہے ہیں؟

    ویرا: تم نے ایک مرتبہ ذکر کیا تھا کہ تمہیں اپنی والدہ سے محبت ہے۔۔۔۔۔۔ اسی کا خیال کرو۔

    الیکسز: اب روس کے سوا میری کوئی ماں نہیں، میری زندگی اسی کے ہاتھوں میں ہے۔ مگر آج میں صرف تمہیں دیکھنے آیا ہوں۔مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم تو وگوروڈ جارہی ہو۔

    ویرا: ہاں! وہاں کے لوگوں کے دل کمزور ہوتے جارہے ہیں۔ میں آتش انقلاب کو ہوا دوں گی اور اسے بھڑکتے ہوئے شعلوں میں تبدیل کردوں گی جو یورپ کے تمام بادشاہوں کی آنکھوں کو خیرہ کردیں گے۔ اگر مارشل لاء نافذ ہو گیا تو میری ضرورت اور بھی اشد ہے۔ فرد واحد کے ظلم کی کوئی انتہا نہیں۔ مگر عوام کی تکالیف کی کوئی نہ کوئی انتہا ضرور ہونی چاہئے۔

    الیکسز: خدا جانتا ہے میں تمہارے ساتھ ہوں، مگر تمہیں وہاں نہیں جانا چاہئے۔ پولیس کی نگاہیں تمہاری صورت کے لئے ہر ٹرین کو دیکھ رہی ہیں۔ تمہاری گرفتاری پر تمہیں ایک تنگ و تاریک زندان میں قید کردیئے جانے کا حکم ہے۔ یہ سب کچھ مجھے کسی نہ کسی طریق سے معلوم ہوا ہے۔ آہ! ذرا خیال تو کرو کہ تمہاری غیر موجودگی میں ہمارا آفتاب حیات غروب ہوا جاتا ہے۔ لوگ اپنا رہنما اور شمع آزادی اپنا پروانہ کھو دے گی۔۔۔۔۔۔ ویرا تمہیں نہیں جانا چاہئے!

    ویرا: اگر تمہاری یہی خواہش ہے تو نہیں جاؤں گی۔ حصول آزادی کے لئے کچھ اور عرصہ تک زندہ رہوں گی۔

    الیکسز: تمہاری موت پر روس واقعی تباہ ہو جائے گا، میری تمام امیدوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔۔۔۔۔۔ تمام۔۔۔۔۔۔ ویرا مارشل لاء کی خبر بہت خوفناک ہے۔۔۔۔۔۔ مارشل لاء! مارشل لاء!! کس قدر ہیبت ناک ہے۔ مجھے اس کے متعلق کچھ علم نہ تھا! اپنی جان کی قسم! کچھ معلوم نہ تھا!

    ویرا: تمہیں معلوم ہوتا بھی کس طرح؟ ایک اچھی خاصی سازش تھی۔ یہ بڑا سپیازار جس کے ہاتھ مقتول انسانوں کے خون سے سرخ ہیں جس کی روح اس کے ظلم و تشدد کی وجہ سے سیاہ ہو چکی ہے سب سے زیادہ چالاک سازشی ہے۔ آہ الیکسز تمہارے اور اس کے دل میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔

    الیکسز: ویرا! بادشاہ کا رویہ ہمیشہ سے ایسا نہیں۔ ایک زمانہ تھا جب بادشاہ کو لوگوں سے الفت تھی۔ ملعون شہزادہ پال مارلوفسکی نے اسے ایسا بنا رکھا ہے۔ کل میں شہنشاہ کے سامنے جمہور کی وکالت کروں گا!

    ویرا: وکالت اور زار کے سامنے! زار کو صرف وہی دیکھتے ہیں۔ جنہیں سزائے موت کا حکم مل چکا ہو۔ اسے کسی انسان کی کیا پروا! ایک بہادر قوم کی آہ و فریاد اس سنگدل کو موم نہ کرسکی۔

    الیکسز: تاہم مجھے وکالت ضرور کرنی چاہئے۔ خواہ جان ہی سے ہاتھ کیوں نہ دھونے پڑیں۔

    پروفیسر: یہ ہیں اعلانات۔۔۔۔۔۔ کیا کافی ہیں؟

    ویرا: میں انہیں پڑھتی ہوں۔۔۔۔۔۔ کیسا حسین معلوم ہوتا ہے۔ آج اس کے چہرہ سے شرافت اور تعزّز ٹپک رہا ہے۔ آزادی کی دیوی خوش قسمت ہے کہ اس کے چاہنے والے ایسے ہیں۔

    الیکسز: جناب صدر آپ کس فکر میں ہیں؟

    مچل: ہم وحشی درندوں کا شکار کرنے کی فکرمیں ہیں(صدر سے باتیں کرتا ہے اور اسے علیحدہ لے جاتا ہے)

    پروفیسر: (ویرا سے) پیرس اور برلن کے خطوط کا کیا جواب دیں؟

    ویرا: (خط پکڑ لیتی ہے) (اپنے آپ سے) اگر میں نے اپنی فطرت تباہ نہ کی ہوئی ہوتی حسن و عشق سے بیگانگی کا اقرار نہ کیا ہوا ہوتا تو ضرور اس سے محبت کرتی۔۔۔۔۔۔ آہ! میں بیوقوف ہوں۔۔۔۔۔۔ نہیں!غدار۔۔۔۔۔۔ مگر وہ اپنے حسین چہرے اور آتش انقلاب سے معمور سینے کو لئے ہوئے ہم میں کیوں شامل ہوا۔ جمہوریت کی دلدادہ ہوتے ہوئے بھی مجھے کیوں بار بار خیال آتا ہے کہ وہ میرا بادشاہ ہوگا۔۔۔۔۔۔ آہ! حماقت! پیمان وفا کی شکست، باد نسیم سے زیادہ کمزور ویرا! بھولو مت! تم انقلاب پسند ہو۔

    صدر: (مچل سے) تمہاری گرفتاری یقینی ہے!

    مچل: ایسا نہیں ہوگا۔ میں شاہی محافظ کا لباس پہن لوں گا۔پہرہ والا کرنل ہماری جماعت ہی سے ہے۔ اجلاس پہلی منزل میں ہوگا۔ اس لئے میرا نشانہ خطا نہ جائے گا۔

    صدر: کیا بھائیوں کو مطلع کردوں؟

    مچل: ہرگز نہیں! ہم میں ایک غدار موجود ہے!

    ویرا: سنو! کیا یہی اعلانات ہیں؟ ہاں یہ کافی ہے۔کیو۔اوڈیسا اور نوگوڑود میں پانچ سو اور اسی قدر وارسا میں اور ان سے دو چند جنوبی صویحات میں تقسیم کردو۔ اگرچہ سست روسی کسان ہمارے اعلانات اور ملک کی خدمت کرنے والے شہیدوں کی بہت کم پروا کرتے ہیں لیکن حملہ جب بھی ہو دیہات کی طرف سے ہو نہ کہ شہر کی طرف سے

    مچل: تیغ زنی سے نہ کہ خامہ فرسائی سے۔

    ویرا: پولینڈ والے خطوط کہاں ہیں؟

    پروفیسر: یہ ہیں!

    ویرا: بدبخت پولینڈ! روسی عقاب مدتوں وہاں اپنا شکار حاصل کرتے رہے! ہمیں مظلوم پولش بھائیوں کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔

    صدر: مچل کیا یہ سچ ہے؟

    مچل: ہاں! اس کی صحت پر جان کی بازی لگاتا ہوں۔

    صدر: تو پھر دروازوں پر قفل لگا دو۔ الیکسز ہماری جماعت میں بحیثیت ایک طالب علم داخل ہوا۔ جو طبیہ سکول میں تعلیم پاتا رہا تھا مگر اس نے ہمیں مارشل لاء کی خونی سکیم سے آگاہ کیوں نہ کیا؟

    الیکسز: میں نے؟

    مچل: ہاں تم! تمہیں اس کا بخوبی علم تھا۔ اس قسم کے خونی ہتھیار ایک ہی روز میں تیز نہیں ہوا کرتے۔ تم نے ہمیں اس سے مطلع کیوں نہ کیا؟ آج سے ایک ہفتہ قبل زندانوں کو مسمار کیا جاسکتا تھا، آزادی کے لئے کم از کم ایک ضرب لگائی جاسکتی تھی۔ مگر اب وقت گزر چکا ہے۔ دیر ہوگئی!۔۔۔۔۔۔ میں پوچھتا ہوں یہ راز تم نے کیوں چھپائے رکھا؟

    الیکسز: دست حریت کی قسم! مچل تم مجھے غلط سمجھے رہے ہو۔مجھے اس گھناؤنے قانون کا کوئی علم نہ تھا۔ قسم ہے اپنی روح کی مجھے خبر تک نہ تھی۔۔۔۔۔۔ مجھے پتہ بھی چلتا کیونکر؟

    مچل: اس لئے کہ تم غدار ہو۔ گزشتہ شب اجلاس برخاست ہونے پر تم کہاں گئے؟

    الیکسز: اپنے گھر۔

    مچل: کاذب میں تمہارا پیچھا کرتا رہا تھا۔ نصف شب بعد تم یہاں سے رخصت ہوئے۔ ایک لمبا چغہ اوڑھے تم نے کشتی میں دریا کو عبور کیا اور ملاح کو ایک اشرفی دی۔۔۔۔۔۔ تم جو طب کے ایک ادنیٰ طالب علم ہو۔ اس کے بعد دو دفعہ واپس لوٹے اور دیر تک محراب میں چھپے رہے۔ شکاری ہوتے ہوئے میں نے تمہیں خنجرسے ہلاک کردینے کا عزم کرلیا تھا۔ مگر۔۔۔۔۔۔ تم اپنی دانست میں تعاقب کرنے والوں سے بچ نکلے احمق! میں اس شکاری کتے کی مانند ہوں جسے شکار کی بو کبھی دھوکہ نہیں دے سکتی۔ کوچہ بہ کوچہ سائے کی طرح تمہارے ساتھ رہا۔ آخرکار تم سینٹ ایزاک کے محل میں داخل ہوئے دربانوں کو صورت خاص بتاتے ہوئے ایک خاص دروازہ سے اندر داخل ہوگئے۔

    سازشی: محل میں!!!

    ویرا: الیکسز!

    مچل: تمہارے غدار سر کو تن سے جدا کرنے کے لئے شب بھر انتظار کرتا رہا۔ مگر تم محل سے باہر نہ نکلے۔۔۔۔۔۔ آفتاب کی خونیں کرنیں تاریک بستی پر نمودار ہوئیں، روس کی کتاب حیات میں ظلم وجور کے نئے باب کا اضافہ ہوا لیکن تم باہر نہ نکلے۔ محلات میں زندگی بسر کرنے والے؟ تمہیں شاہی محافظوں کی صوت خاص کا علم ہے، خاص دروازوں کی چابی تمہارے قبضے میں رہتی ہے۔ آہ! تم جاسوس ہو!۔۔۔۔۔۔ جاسوس! تمہارے سفید ہاتھ خوبصورت چہرہ اور گھنگھریالے بال میرا اعتماد حاصل نہ کرسکے۔ تمہاری صورت اذیت کے نشانوں سے خالی ہے۔۔۔۔۔۔ تمہیں عوام سے کیا تعلق۔۔۔۔۔۔ تم جاسوس ہو۔۔۔۔۔۔ جاسوس! غدار !!

    سازشی: قتل کردو! قتل کردو اسے !!( سب اپنا اپنا خنجر نکالتے ہیں)

    ویرا: (الیکسز کے سامنے کھڑی ہو جاتی ہے۔ خبردار مچل! ہاتھ مت بڑھانا وہ غدار نہیں!

    سازشی: قتل کردو یہ جاسوس ہے۔

    ویرا: اگر تم میں سے کسی نے انگلی تک بھی اٹھائی تو یاد رکھو مجھے ہمیشہ کے لئے کھو دو گے!

    صدر: ویرا! تم نے مچل کے الفاظ نہیں سنے؟۔۔۔۔۔۔ زار کے محلات میں راتیں بسر کرنے والا سوائے جاسوس کے اور کون ہو سکتا ہے؟

    ویرا: نہیں! میں مچل پر یقین نہیں کرتی۔ یہ جھوٹ ہے، سراسر جھوٹ۔ الیکسز کیوں نہیں کہتے کہ یہ جھوٹ ہے؟

    الیکسز: یہ سچ ہے! مچل کی آنکھوں نے جوکچھ دیکھا بیان کردیا۔ میں نے وہ رات ضرور شاہی محل میں بسرکی۔۔۔۔۔۔ مچل سچ کہتا ہے۔

    ویرا: پیچھے ہٹو! پیچھے ہٹو! الیکسز مجھے تم پر اعتماد ہے۔ دولت کے عوض تم وطن فروشی نہیں کرسکتے۔ تم ایماندار ہو۔ کہتے کیوں نہیں۔

    الیکسز: جاسوس! تم جانتے ہو۔ میں جاسوس نہیں۔ بھائیو میں تادم مرگ تمہارے ساتھ ہوں۔

    مچل: ہاں! صرف اپنی موت تک۔

    الیکسز: ویرا! تم جانتی ہو میں مخلص ہوں۔

    ویرا: مجھے علم ہے۔

    صدر: غدار! تم نے یہاں آنے کی کیونکر جرات کی؟

    الیکسز: اس لئے کہ مجھے عوام سے محبت ہے!

    مچل: توپھرانہی کے لئے جان دو۔

    ویرا: اسے ہاتھ لگانے سے قبل مجھے ہلاک کردو۔

    صدر: مچل! ہم ویرا کوجدا نہیں کرسکتے۔ اس کی خواہش ہے کہ یہ لڑکا زندہ رہے۔ ہم اسے آج کے لئے اپنے ساتھ رکھ لیتے ہیں۔ اس وقت تک تو اس نے اپنی غداری کا ثبوت نہیں دیا۔

    (سپاہی دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں)

    آواز: شہنشاہ کے نام پر دروازہ کھولو!

    مچل: دیکھا اس نے دھوکہ دے دیا! جاسوس یہ تیرا کام ہے!

    صدر: ٹھہرو مچل! یہ وقت باہم دست وگریبان ہونے کا نہیں!

    آواز: شہنشاہ کے نام پر دروازہ کھولو!

    صدر: بھائیو! نقاب پہن لو مچل! دروازہ کھول دو۔ اب اس کے سوا اور چارہ ہی کیا ہے۔

    (جنرل کوٹ کن اور سپاہی اندر داخل ہوتے ہیں)

    جنرل: تمام شہری نصف شب کے بعد اپنے اپنے گھروں میں ہونے چاہئیں۔ پانچ سے زیادہ شخص ایک جگہ اکٹھے نہیں ہوسکتے۔ تم نے اعلان نہیں سنا کیا؟

    مچل: سنا! وہی اعلان جس نے ماسکو کی ہر دیوار کو بدنما بنا دیا ہے۔

    ویرا: چپ مچل چپ!۔۔۔۔۔۔ جناب ہمیں اس کی کوئی خبر نہیں۔ ہم تھیٹر کے معمولی ایکٹر ہیں۔ سمارا سے لے کرماسکو تک آئے ہیں کہ اعلیٰ حضرت زار کو محظوظ کریں۔

    جنرل: لیکن داخل ہونے سے قبل تم نے بہت شور مچا رکھا تھا۔

    ویرا: ہم ایک نئے کھیل کی مشق کررہے تھے۔

    جنرل: تمہارے جوابات صحیح معلوم ہوتے ہیں۔ مگر مجھے اپنا چہرہ دکھاؤ۔۔۔۔۔۔ اس نقاب کو الٹ دو۔ سینٹ نکولس کی قسم! اگر تمہارا چہرہ تمہارے قد وقامت کے مطابق ہے تو یقیناً حسین ہوگا۔ سب سے پہلے تمہارا چہرہ دیکھنا چاہتا ہوں۔

    صدر: یا اللہ اگر اسے معلوم ہوگیا کہ یہ ویرا ہے تو ہم سب تباہ ہو جائیں گے۔

    جنرل: غمزہ و ادا کیسی؟ نقاب الٹو۔۔۔۔۔۔ کیا سپاہیوں کو حکم دوں پھر؟

    الیکسز: پیچھے رہو جنرل کوٹ کن۔

    جنرل: تم کون ہو جس کی زبان افسروں کے ساتھ اس طرح گفتگو کرتی ہے۔

    (الیکسز نقاب الٹ دیتا ہے) اعلیٰ حضرت زاروچ۔

    سازشی: ولی عہد! بس خاتمہ!!

    صدر: وہ اب ہم سب کو سپاہیوں کے حوالے کردے گا۔

    مچل: (ویرا سے) تم نے مجھے اسے قتل کیوں نہ کرنے دیا؟ آؤ اب اپنی موت سے کھیل جائیں۔

    ویرا: خاموش! وہ ہمیں ہرگز دھوکا نہ دے گا!

    الیکسز: جنرل! آپ جانتے ہیں میرے باپ نے مجھے دنیا سے علیحدہ رکھنے کے لیے سپرد زنداں کررکھا ہے۔ اگر میں رات کے وقت بھیس بدل کر آزادانہ گشت نہ لگاؤں تو مجھے خطرہ ہے۔ میں اپنی جان کھو دوں گا۔ مجھے ان ایماندار لوگوں سے ملے ابھی صرف چھ گھنٹے ہوئے ہیں۔

    جنرل: لیکن اعلیٰ حضرت!

    الیکسز: میں تمہیں یقین دلاتا ہوں۔ یہ بہترین ایکٹر ہیں۔ اگر کچھ عرصہ پہلے آتے تو تمہیں ایک دلچسپ تماشا دیکھنے کا موقع مل جاتا۔

    جنرل: کیا یہ ایکٹر ہیں شہزادے؟

    الیکسز: ہاں ! ایکٹر جو صرف بادشاہوں کے سامنے کھیلنا پسند کرتے ہیں۔

    جنرل: مجھے یقین ہے اعلیٰ حضرت! میں پہلے سمجھا کہ مجھے انقلاب پسندوں کا سراغ مل گیا۔

    الیکسز: تمہارے ہوتے ہوئے روس میں انقلاب پسند؟ جنرل یہ ناممکن ہے۔

    جنرل: یہی میں کئی بار زاراعظم سے کہہ چکا ہوں۔ مگر آج اجلاس میں معلوم ہوا کہ انقلاب پسندوں کی سرغنہ ویرا شہر میں دیکھی گئی ہے۔ اس پر شہنشاہ کا رنگ برف کے گالے کی مانند سفید ہوگیا۔ میراخیال ہے اس سے زیادہ خوف میں نے آج تک کسی چہرے پرچھائے ہوئے نہیں دیکھا!

    الیکسز: پھر تو یہ خطرناک عورت! ہے!

    جنرل: یورپ بھر میں اپنی قسم کی واحد خطرناک!

    الیکسز: جنرل! تم نے اسے دیکھا کبھی؟

    جنرل: جی ہاں! آج سے پانچ سال قبل جبکہ میں صرف کرنل تھا میں نے اسے ایک سرائے میں خادمہ کی حیثیت سے دیکھا۔ اگر مجھے اس وقت معلوم ہوتا کہ یہی عورت کسی روز اس عظیم فتنے کا موجب ہوگی تو مارے کوڑوں کے وہیں ہلاک کردیتا۔ عورت نہیں شیطان ہے! پورے اٹھارہ مہینوں سے اس کا تعاقب کررہا ہوں۔ مگر اس عرصے میں اس سے صرف ایک بار سامنا ہوا۔

    الیکسز: مگر وہ تم سے بچ کر نکل گئی؟

    جنرل: میں اس کا تعاقب کررہا تھا۔ لیکن اس نے میرے گھوڑے کو گولی سے ہلاک کردیا۔ مگر اب کی دفعہ وہ مجھ سے بچ کر نہیں نکل سکتی۔شہنشاہ نے اس کے سر کے لئے بیس ہزار پوند انعام مقرر کررکھا ہے۔

    الیکسز: مجھے امید ہے یہ انعام تمہارا ہی ہوگا۔۔۔۔۔۔ مگر تم ان بھولے شخصوں کو خوفزدہ کررہے ہو جنرل! شب بخیر!!

    جنرل: جی ہاں! مگر میں ان کے چہرے دیکھنا چاہتا ہوں۔

    الیکسز: یہ نہیں ہو سکتا!تمہیں معلوم نہیں اس قسم کے لوگ اپنا چہرہ دکھانا پسند نہیں کرتے

    جنرل: مگر۔۔۔۔۔۔ اعلیٰ حضرت۔۔۔۔۔۔

    الیکسز: (وقار سے) جنرل! یہ لوگ میرے دوست ہیں۔ بس یہی چیز کافی ہونی چاہئے۔ ہاں! کیا میں امید کرسکتا ہوں کہ اس معاملے کی دوسرے کان تک خبر نہ ہوگی!

    جنرل: شہزادے! مجھ پر بروسہ رکھئے!۔۔۔۔۔۔ آپ کب تک محل میں تشریف لائیں گے۔ شاہی ناچ قریب الاختتام ہے اور ہرگھڑی آپ کا انتظار کیا جارہا ہے۔

    الیکسز: میں تنہا آؤں گا۔۔۔۔۔۔ خیال رہے میرے دوستوں کے متعلق کسی قسم کی گفتگو نہ ہو۔

    جنرل: یعنی آپ کی حسین خاتون کے متعلق! شہزادے کاش میں اس عورت کا چہرہ دیکھ سکتا۔ جس کی آنکھیں نقاب میں سے چمک رہی ہیں!! ۔۔۔۔۔۔ شب بخیر اعلیٰ حضرت۔شب بخیر۔

    الیکسز: شب بخیر جنرل!

    (سپاہی اور جنرل چلے جاتے ہیں)

    ویرا: (نقاب اتارتے ہوئے) تم نے ہمیں بچا لیا!

    الیکسز: (ویرا کا ہاتھ دباتے ہوئے) بھائیو! کیا اب تمہیں مجھ پر اعتماد ہے؟

    (پردہ گرتا ہے)

    *****

    دوسرا ایکٹ

    منظر: شہنشاہ کے محل میں اجلاس کا کمرہ۔۔۔۔۔۔ دیواروں پر بھاری پردے آویزاں ہیں۔ میز کے پاس زار کی شاہی کرسی رکھی ہے۔ پشت پر ایک کھڑکی ہے جو بالکونی کی طرف کھلتی ہے۔

    حاضرین: پرنس مارلوفسکی،پرنس پیٹرووخ، کونٹ رووالوف۔ بیرن راف، کونٹ پٹیخوف۔

    پرنس پیٹر ووخ: کیا ہمارے پریشان خیال زار وچ کومعاف کردیا گیا؟ وہ آج اجلاس میں شامل ہونے والا ہے؟

    پرنس پال: ہاں! اگر اس کے معنی مزید سزا کے ہو سکتے ہیں۔ اپنے متعلق صرف اتنا کہہ سکتاہوں کہ کونسلوں کے یہ اجلاس بہت تکلیف دہ ہیں۔

    پرنس پیٹرووخ: قدرتی طور پر اس لئے کہ آپ بولتے بہت ہیں۔

    پرنس پال: آپ غلطی پر ہیں۔ اس لئے کہ بعض اوقات مجھے بہت کچھ سننا پڑتا ہے۔

    کاؤنٹ رووالوف: مگر پھر بھی اس قسم کی تکالیف قید خانہ سے کہیں بہتر ہیں۔ جس طرح ولی عہد کی آنکھیں دنیا کی رنگینیوں کا مطالعہ کرنے کیلئے بند کردی گئی تھیں۔

    پرنس پال: حضرات! اس قسم کے رومان پسندوؤں کیلئے دنیا دور ہی سے بھلی معلوم دیتی ہے اور قید خانہ جس میں حکم پر بہترین طعام مہیا ہو سکتا ہے بری جگہ نہیں ہوسکتی(زاروچ داخل ہوتا ہے۔ حاضرین دربار تعظیم کیلئے اٹھتے ہیں)

    صبح بخیر شہزادہ! اعلیٰ حضرت کا رنگ کچھ زرد سا معلوم دیتا ہے!

    زاروچ: (تھوڑے توقف کے بعد) مجھے تبدیل آب وہوا کی ضرورت ہے۔

    پرنس پال: (مسکراتے ہوئے) بہت انقلابی خیال ہے زاراعظم روس میں۔ آلہ مقیاس الحرارت سے اصلاحات جاری فرمانا پسند نہیں کرتے۔

    زاروچ: (ترش کلامی سے) میرے باپ نے اس زنداں نما محل میں مجھے عرصہ چھ ماہ سے قید کررکھا ہے۔آج صبح انہوں نے چند انقلاب پسندوں کو پھانسی لگتے دیکھنے کیلئے بیدار کیا۔۔۔۔۔۔ اس منظر نے مجھے بیمار کردیا۔ خونی قصاب! گو ان لوگوں کوبہادری سے جان دیتے دیکھنا کچھ پُر لطف تھا۔

    پرنس پال: جب آپ میری عمر کو پہنچیں گے تو معلوم ہو جائے گا کہ دنیا میں بری زندگی بسر کرنا اور اچھی موت مرنا کوئی مشکل کام نہیں۔

    زاروچ: اچھی موت اور آسان! یہ سبق تجربہ سے اخذ کیا ہوا معلوم نہیں ہوتا۔

    پرنس پال: (شانوں کو جنبش دے کر) تجربہ زندگی کی غلط کاریوں کا دوسرا نام ہے۔جن سے میں بے نیاز ہوں۔

    زاروچ: درست! جرائم تم سے زیادہ متعلق ہیں۔

    پرنس پیٹرووخ: (زاروچ کو مخاطب کرتے ہوئے) شہزادے کل رات آپ کا ناچ پر تاخیر سے آنا شہنشاہ کے لئے ایک عظیم تشویش کا موجب بن رہا تھا۔

    کاؤنٹ رووالوف: (ہنس کر) میرے خیال میں انہیں شبہ تھا کہ کہیں انقلاب پسند آپ کو اٹھا کر نہ لے گئے ہوں۔

    بیرن: اس حالت میں شہزادہ ایک دلکش ناچ سے محروم ہو جاتا۔

    پرنس پال: اور ایک بہترین طعام سے بھی۔۔۔۔۔۔ باورچی نے شوربہ خوب تیار کیا تھا!۔۔۔۔۔۔ آپ ہنستے ہیں بیرن! اچھا شوربہ تیار کرنا مالیہ کی جانچ پڑتال سے کہیں مشکل ہے۔ اچھا شوربہ بنانے والا صحیح معنوں میں ایک سمجھدار سپاہی کے مترادف ہے۔ کہتا ہے یہ خیال رکھنا کہ سرکے میں کس قدر تیل ڈالنا چاہئے کچھ معنی رکھتا ہے۔

    بیرن راف: خوب تو آپ کے نزدیک باورچی اور سپاہی متوازی ہوئے۔ اگر میں کسی بیوقوف لڑکے کا باپ ہوتا تو اسے ان دونوں میں سے کسی ایک کی تعلیم ضرور دلواتا۔

    پرنس پال: آپ کے والد بزرگوار کا تو یہ خیال تھا۔ یقین جانئے آپ خواہ مخواہ طعام کے فن کو برا کہہ رہے ہیں۔ میرا اپنا ارادہ ایک بہترین قسم کی چٹنی تیار کرنے کا ہے۔ گو اس کے متعلق کبھی غور و فکر کا موقع نہیں ملا۔مگر پھر بھی مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میرے اندر اس ایجاد کا مادہ ضرور موجود ہے۔

    زاروچ: تو پھر آپ اپنے اصل منصب سے محروم کردیئے گئے ہیں۔ پرنس! اس جسم پر شاہی باورچی کا لباس سنہری تمغے سے زیادہ زیب دیتا مگر آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ آپ باورچی کا لباس اچھی طرح پہن نہیں سکتے۔آپ اسے جلد خراب کردیں گے۔ اس لئے کہ آپ کے ہاتھ صاف نہیں۔

    پرنس پال: (جھکتے ہوئے) مجھے آپ کے معزز باپ کی خدمت بجا لانے کا فخر حاصل ہے۔

    زاروچ: دوسرے الفاظ میں تم شاہی معاملات کو غلط طور پر انجام دیتے ہو۔ اس کے جسم کے ناپاک ہمزاد ہو۔ تم سے پہلے اس میں محبت اور الفت کے جذبات موجود تھے۔ مگر اب تم نے ہی اسے چڑچڑا اور سڑی بنا رکھا ہے۔ اس کی سماعت تمہارے مسموم مشوروں سے ہی اپنی قوت کھو چکی ہے۔ اسے عوام میں غیر مقبول بنانے کے ذمہ دار تم ہی ہو۔تم ہی نے اسے ظالم بنا رکھاہے۔(درباری ایک دوسرے کی طرف بڑی اہمیت سے دیکھتے ہیں)

    پرنس پال: (آہستگی سے) معلوم ہوتا ہے اعلیٰ حضرت کو تبدیلی آب و ہوا کی ضرورت ہے۔ میں خود اپنے باپ کا سب سے بڑا بیٹا ہوں( سگریٹ سلگا کر) باپ کی ناراضگی سے پیدا شدہ نتائج سے خوب آگاہ ہوں(زاروچ سٹیج کے ایک طرف جاتا ہے اور کھڑکی سے باہر کی طرف دیکھتا ہے)

    پرنس پیٹرووخ: (بیرن راف سے) اگر یہ بیوقوف لڑکا محتاط نہ ہوا تو اسے جلا وطن ہونا پڑے گا۔

    بیرن راف: ہاں! مخلص ہونا بہت بڑا جرم ہے۔

    پرنس پیٹرووخ: صرف یہی جرم ہے جس کے آپ مرتکب نہیں ہوتے۔

    بیرن راف: ہر شخص کا جداگانہ مطمح نظرہے پرنس!

    پرنس پال: آپ کا زاویہ نگاہ آپ سے کوئی نہیں چھین سکتا۔۔۔۔۔۔ مطمئن رہیں۔

    (نسوار کی ڈبیاں نکال کر پرنس پیٹرووخ کو پیش کرتا ہے)

    پرنس پیٹرووخ: شکریہ!۔۔۔۔۔۔ پرنس شکریہ۔

    پرنس پال: کیسی نفیس نسوار ہے۔خاص پیرس کی ہے۔ مگر اب اس بیہودہ جمہوریت کے عہد میں ہر چیز روبہ انحطاط ہے۔فرانس اپنی نفاست بہت حد تک کھو چکا ہے۔

    (مارکوئس ڈی۔ پاؤف رارڈ داخل ہوتا ہے)

    آہا مارکوئس! مادام مارکوئس تو بخیریت ہیں؟

    مارکوئس ڈی۔پی: آپ زیادہ علم رکھتے ہیں پرنس پال!۔۔۔۔۔۔ مجھ سے زیادہ آپ کی ان سے ملاقات ہے۔

    پرنس پال: (جھکتے ہوئے) ہاں اکثر ملاقات ہوتی ہے! مادام مارکوئس بہت سنجیدہ خاتون ہیں۔ جب بھی ملتی ہیں ہمیشہ آپ کا ذکر کیا کرتی ہیں۔

    پرنس پیٹرووخ: (کلاک کی طرف دیکھتے ہوئے) جہاں پناہ ابھی تک تشریف نہیں لائے۔

    پرنس پال: پیٹرووخ! کیا بات ہے؟آپ کی طبیعت آج کچھ اکھڑی اکھڑی سی معلوم ہوتی ہے۔ باورچی سے جھگڑا تو نہیں ہوا کہیں؟ اس صورت میں یہ حقیقت کس قدر المناک ہوگی کہ آپ اپنے بہترین دوست کو کھو بیٹیھیں گے۔

    پرنس پیٹرووخ: میں اس قدر خوش بخت نہیں۔ مگر تاہم آپ بھول رہے ہیں۔ روپیہ میرا بہترین رفیق ہے۔ اور آپ کا یہ خیال بھی غلط ہے کہ میں اپنے باورچی سے ناراض ہوں۔

    پرنس پال: تو پھر یہ ہوسکتا ہے کہ مادام ویرا یا قرض خواہوں نے خط و کتابت سے آپ پر عرصہ حیات تنگ کررکھا ہے۔۔۔۔۔۔ مگر آپ کو خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے۔ اس پارٹی کی طرف سے موصول شدہ دھمکیاں جو اپنے آپ کو انقلاب پسند جماعت سے منسوب کرتی ہے، میرے گھر میں بکھری پڑی ہیں، میں نے انہیں ایک نظر بھی اٹھا کر نہیں دیکھا۔۔۔۔۔۔ ان کے الفاظ عموماً غیر مربو ط ہوتے ہیں۔

    پرنس پیٹرووخ: آپ پھر غلطی پر ہیں پرنس! اگر یہ انقلاب پسند جماعت مجھ پر ہاتھ نہیں ڈال رہی تو اس میں بھی کوئی راز 58ہے۔

    پرنس پال: (ایک طرف ہو کر) سچ ہے! میں بھول گیا۔ بے اعتنائی انتقام ہے جو دنیا معمولی اشخاص سے لیتی ہے۔

    پرنس پیٹرووخ: میں زندگی سے تنگ آگیا ہوں پرنس! جب سے تھیٹر کے کھیل بند ہوئے میں اپنے آپ کو مردہ تصور کررہا ہوں۔

    پرنس پال: آپ کو کیسی دلچسپی کی ضرورت ہے۔پرنس! ٹھہریئے۔ آپ کے مرتبہ شادی کرچکے ہیں۔۔۔۔۔۔ دو دفعہ۔۔۔۔۔۔ کیوں نہ تیسری بار کسی کے دام الفت میں گرفتار ہوجائیں؟

    بیرن راف پرنس! میں بھی مدت سے یہی سوچ رہا تھا۔۔۔۔۔۔

    پرنس پال: (بات کاٹتے ہوئے) آپ مجھے تعجب میں ڈال رہے ہیں بیرن!

    بیرن راف: میں آپ کی فطرت کا مطالعہ کرنے سے قاصرہوں۔

    پرنس پال: اگر میری فطرت کی تخلیق آپ کے خیال کے مطابق ہوتی تو اندیشہ تھا کہ مجھ دنیا میں ایک ممتاز شخصیت نصیب نہ ہوتی۔

    کاؤنٹ رووالوف: زندگی کے متعلق کوئی بھی ایسی چیز نہیں جس کا آپ نے مضحکہ نہ اڑایا ہو۔

    پرنس پال: آہ! میرے عزیز دوست زندگی اس قدر اہم موضوع ہے کہ اس پر متانت سے گفتگو نہیں ہوسکتی۔

    زاروچ: (کھڑکی سے واپس آتے ہوئے) میرے خیال میں پرنس پال کی فطرت کوئی پراسرار نہیں وہ اپنی دلچسپی کا سامان پیدا کرنے کیلئے بہترین دوست کے سینے میں خنجر بھونک سکتا ہے۔

    پرنس پال: میں اپنے بدترین دشمن کوبہترین دوست پر ترجیح دے سکتا ہوں۔ دولت پیدا کرنے کیلئے اچھی خصلت کی ضرورت ہے۔مگر جب انسان کا کوئی دشمن نہ ہو تو سمجھ لینا چاہئے کہ اس میں کمینہ پن کی جھلک ضرورہے۔

    زاروچ: (ترش کلامی سے) اگر دشمنوں کی تعداد ہی آپ کے نزدیک بڑائی کا معیار ہے تو اس میں کوئی شک نہیں آپ بڑے آدمی ہیں۔

    پرنس پال: ہاں مجھے معلوم ہے کہ تمام روس مجھے نفرت کی نگاہوں سے دیکھتا ہے۔ مگر آپ کے باپ سے کچھ کم شہزادے! گووہ اس حقارت کو پسند نہیں کرتے مگر یقین جانئے مجھے پسند ہے( ترش کلامی سے) بازاروں میں چکر لگاتے وقت لوگوں کے چہرے پر نفرت و حقارت کے جذبات دیکھ کر مجھے ایک گونہ خوشی حاصل ہوتی ہے۔ اس نوعیت کے واقعات مجھ پر یہ حقیقت واضح کردیتے ہیں کہ میں روس میں ایک عظیم طاقت کا مالک ہوں۔۔۔۔۔۔ فرد واحد۔۔۔۔۔۔ لاکھوں انسانوں کے مقابلے میں۔ میں وہ ہر دلعزیز بننا نہیں چاہتا۔ جس کی گردن ایک سال تو پھولوں سے لدی ہو۔ مگر دوسرے سال پتھروں سے کچل دی جائے۔ میں اپنے بستر پر جان دینے کو اس قسم کی موت پرترجیح دیتا ہوں۔

    زاروچ: مگر موت کے بعد؟

    پرنس پال: (شانوں کو جنبش دیتے ہوئے) آسمان پر فرد واحد کی حکومت ہے۔ اس لئے مجھے وہاں ہر طرح کا آرام مل سکتا ہے۔

    زاروچ: آپ عوام اور ان کے حقوق کی پرواہ نہیں کرتے؟

    پرنس پال: عوام اور ان کے حقوق میرے لئے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ میں ان دونوں سے تنگ آگیا ہوں۔ فی زمانہ جاہل عیار اور تعلیم سے بے بہرہ لوگوں کے حقوق کے لئے مطالبہ کس قدر مضحکہ خیز ہے۔ یقین فرمائیے ایک اچھی جمہوری حکومت میں ہر شخص اپنے حقوق کا مطالبہ کرسکتا ہے۔ مگرروس کے یہ لوگ جو ہمیں باہر نکالنا چاہتے ہیں جنگل کے حیوانوں سے بدتر ہیں جنہیں گولی کا نشانہ بنا دینا چاہئے۔

    زاروچ: (جوش سے) اگر وہ شکاری جانوروں سے زیادہ قیمت نہیں رکھتے تو خدارا یہ تو بتائیے اس چیز کا کون ذمہ دارہے؟

    (محافظ خاص داخل ہوتا ہے)

    محافظ خاص: جہاں پناہ تشریف لارہے ہیں( پرنس پال زاروچ کی طرف دیکھ کر مسکراتا ہے)

    (زار اپنے محافظوں کی معیت میں داخل ہوتا ہے)

    زاروچ: (استقبال کیلئے آگے بڑھتا ہے) جہاں پناہ!

    زار: نزدیک نہ آؤ! میں پھر تمہیں کہہ رہا ہوں نزدیک نہ آؤ۔ تاج پوش اور ولی عہد کے درمیان فاصلہ ہونا چاہئے۔۔۔۔۔۔ مگر وہ کونے میں کون کھڑا ہے؟ میں اسے نہیں جانتا، کیا کررہا ہے آخر؟۔۔۔۔۔۔ سازشی تو نہیں اس کی جامہ تلاشی لی جائے؟ کل کا دن اعتراف جرم کیلئے دے کر پھانسی پر لٹکا دو۔۔۔۔۔۔ پھانسی پر!

    پرنس پال: جہاں پناہ! یہ کاؤنٹ پیٹوخوف برلن کے نئے سفیر ہیں جو رخصت ہوتے وقت آپ کے دست مبارک پر بوسہ دینا چاہتے ہیں۔

    زار: بوسہ؟ اس میں بھی کوئی سازش ہے۔ وہ مجھے زہر دینا چاہتا ہے۔ جاؤ! میرے لڑکے کا ہاتھ چوم لو۔

    (پرنس پال کونٹ پیٹو خوف کو کمرہ چھوڑنے کیلئے اشارہ کرتا ہے۔ پیٹو خوف چلا جاتا ہے۔زار کرسی پربیٹھ جاتا ہے۔درباری خاموش ہیں)

    پرنس پال: جہاں پناہ! کیا آپ۔۔۔۔۔۔

    زار: مجھے اس طرح کیوں خوفزدہ کررہے ہو؟ نہیں میں کچھ نہیں کروں گا( درباریوں کو سہمی ہوئی نظروں سے دیکھتا ہے) جناب آپ تلوار کو اس طرح کیوں کھڑکھڑا رہے ہیں(کونٹ رووالوف کو مخاطب کرتے ہوئے) تلوار کواتار دیجئے۔ میں اپنی موجودگی میں کسی شخص کو تلوار رکھنے نہ دوں گا۔(زاروچ کی طرف دیکھتا ہے) نہ اپنے لڑکے کو( پرنس پال کو مخاطب کرتے ہوئے) خفا تو نہیں ہو پرنس؟ ساتھ تو نہیں چھوڑ جاؤ گے۔ ایک بار کہہ دو کہ نہیں! تمہیں کس چیز کی ضرورت ہے؟ دنیا کی ہر نعمت تمہارے لئے مہیا ہو سکتی ہے۔ ہر ایک نعمت!

    پرنس پال: (جھکتے ہوئے) جہاں پناہ کا اعتماد حاصل کرنا ہی میرے لئے دنیا کی بہترین نعمت کے مترادف ہے( اپنے آپ سے) میں تو سمجھا تھا آج کسی مصیبت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

    زار: (اپنی کرسی کی طرف جاتے ہوئے) خیر! معزز اصحاب!

    مارکوئس ڈی۔پی: غلام آرک اینگل کی وفادار رعایا کا ایڈریس پیش کرنے کا فخر حاصل کرتا ہے۔ جس میں جہاں پناہ پر جو آخری حملہ ہوا تھا اس پر اظہار نفرت کیا گیا ہے۔

    پرنس پال: دوحملوں کے علاوہ مارکوئس! کیا آپ کو معلوم نہیں کہ یہ حملہ آج سے تین ہفتے قبل کا ہے۔

    زار: آرک اینگل کی رعایا بہت نیک اور وفادار ہے۔وہاں کے لوگ مجھے محبت کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔ وہاں ایک نیا پادری بھیج دو۔ اس پر کون سا خرچ ہوتا ہے۔ہاں! الیکسز( زاروچ کی طرف مڑتے ہوئے) آج صبح کے غدار پھانسی دیئے گئے؟

    زاروچ: تین شخص پھانسی پرلٹکائے گئے تھے جہاں پناہ!

    زار: تین ہزار ہونے چاہئے تھے۔آہ! اگر ان تمام لوگوں کی ایک گردن ہوتی تو میں ایک ہی جھٹکے میں ان سے نجات پا جاتا!!۔۔۔۔۔۔ ہاں! تو وہ کچھ بولے؟ اعتراف جرم کیا؟ کسی اور سازشی کا نام لیا؟

    زاروچ: نہیں! جہاں پناہ۔

    زار: تو پھر انہیں سزا کیوں نہ دی گئی۔۔۔۔۔۔ کیا میں اسی طرح تاریکی میں رکھا جاؤں گا؟ کیا مجھے اس جڑ کا پتہ نہ چلے گا جس سے یہ سازشی پھوٹتے ہیں؟

    زاروچ: عوام کی بے چینی کی وجہ حکام کے ظلم و جور کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے۔

    زار: کیا کہہ رہے ہو لڑکے؟ ظلم؟ جور؟ میں ظالم ہوں کیا؟ ہرگز نہیں۔ مجھے عوام سے محبت ہے۔ میں ان کا باپ ہوں۔ سرکاری اعلانات میں مجھے اسی نام سے پکارا جاتا ہے۔ محتاط رہو لڑکے! معلوم ہوتاہے ابھی تک تیری بیوقوف زبان ٹھیک نہیں ہوئی(پرنس پال کی طرف جا کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتا ہے) پرنس پال! مجھے بتاؤ سازشیوں کو پھانسی دیتے وقت کتنے شخص جمع تھے۔

    پرنس پال: پھانسی ان دنوں آج سے چار سال پہلے کی نسبت دلچسپ نہیں رہی۔ یہ جہاں پناہ کو معلوم ہی ہے کہ لوگ اپنی بہترین دلچسپیوں سے کس قدر جلد سیر ہو جایا کرتے ہیں۔ لیکن پھر بھی چوک اور گھروں کے چھجے کافی تماشائیوں سے بھرے ہوئے تھے۔ کیا آپ کو معلوم ہے شہزادے؟(زاروچ کو مخاطب کرتے ہوئے جو اس کی بات پر کان نہیں دھرتا)

    زار: ٹھیک ہے! ہروفادار شہری کی وہاں پر موجودگی از بس ضروری ہے۔ ایسے منظر ان کیلئے عبرت کا سامان مہیا کرسکتے ہیں۔ اس گروہ میں سے کوئی گرفتار ہوا!

    پرنس پال: ایک عورت جو جہاں پناہ کو برا بھلا کہہ رہی تھی( یہ سن کر زار وچ چونک اٹھتا ہے) یہ عورت دو مجرموں کی ماں ہے۔

    زار: (زاروچ کی طرف دیکھتے ہوئے) اولاد کی زحمت سے رہائی پانے کیلئے اسے شکر گزار ہونا چاہئے تھا۔۔۔۔۔۔ سپرد زنداں کردو اسے!

    زاروچ: جہاں پناہ! روس کے جیل خانے پہلے ہی سے پُر ہیں۔ اب ان میں مزید قیدی نہیں سما سکتے۔

    زار: تو اس کا یہ مطلب ہے کہ ان کی موت جلد واقع نہیں ہوتی۔ انہیں ایک ہی کوٹھری میں کیوں نہیں ٹھونس دیتے۔ میرا خیال ہے تم لوگ انہیں بہت عرصہ تک مکانوں میں نہیں رکھتے۔ ورنہ ان کی موت یقینی ہوتی۔ تم سب رحم دل ہو۔میں خود رحم دل ہوں!۔۔۔۔۔۔ اس عورت کو سائبیریا بھیج دو۔راستہ میں ہی مر جائے گی( محافظ خاص داخل ہوتا ہے) یہ کون ہے؟ یہ کون ہے؟

    محافظ خاص: جہاں پناہ کے لئے ایک خط حاضرکرنا چاہتا ہوں۔

    زار: (پرنس پال کو مخاطب کرتے ہوئے) میں اسے نہ کھولوں گا۔ شاید اس میں کوئی چیز موجود ہو۔

    پرنس پال: اگر نہ ہو تو خط بہت حوصلہ شکن ہوگا جہاں پناہ!(خط لے کر پڑھتا ہے)

    پرنس پیٹرووخ: خط میں ضرور کوئی بری خبر درج ہے۔۔۔۔۔۔ میں پال کی مسکراہٹ خوب سمجھتا ہوں۔

    پرنس پال: جہاں پناہ! یہ عریضہ آرک اینگل کے سالار پولیس کی طرف سے ہے۔’’ آج صبح صوبے کے گورنر کو جبکہ وہ اپنے گھر کے صحن میں داخل ہورہے تھے ایک عورت نے گولی کا نشانہ بنا دیا۔ قاتلہ حراست میں ہے۔‘‘

    زار: مجھے آرک اینگل کے لوگوں پر کبھی اعتماد نہ تھا۔ یہ جگہ سازشیوں اور انقلاب پسندوں کا مسکن ہے۔ یہاں سے پادری واپس منگا لو وہ اس قابل نہیں۔

    پرنس پال: جہاں پناہ اجازت فرمائیے کہ میں مارکوئس ڈی پاؤف رارڈ کا نام آرک اینگل کے نئے گورنر کے لئے پیش کرسکوں۔

    مارکوئس ڈی۔پی: (جلدی سے) جہاں پناہ! خادم اس اعزاز کے قابل نہیں۔

    پرنس پال: یہ کسر نفسی ہے آپ کی۔ یقین مانئے روس بھر میں اس اعزاز کے لئے مجھے سوائے آپ کے اور کوئی مناسب شخص نہیں ملتا( زار کے کان میں کچھ کہتا ہے)

    زار: بالکل درست پرنس پال! تم ہمیشہ راستی پر ہوا کرتے ہو۔ دیکھو مارکوئس کے کاغذات کا جلد انتظام ہوجائے۔

    پرنس پال: جہاں پناہ! انہیں آج رخصت ہو جانا چاہئے۔ مارکوئس! میں آپ کی غیر موجودگی کو بہت محسوس کروں گا۔ آپ کا شراب اور عورت کے متعلق انتخاب مجھے ہمیشہ پسند رہا ہے۔

    مارکوئس ڈی۔پی: آج ہی کیا؟ جہاں پناہ!(پرنس پال زار کے کان میں کچھ کہتا ہے)

    زار: ہاںٖ! مارکوئس آج ہی تمہیں چلا جانا چاہئے۔

    پرنس پال: میں آپ کی غیر موجودگی میں مادام مارکوئس کو افسردہ نہ ہونے دوں گا۔۔۔۔۔۔ مطمئن رہئے۔

    مارکوئس ڈی ۔پی: مجھے تو اپنی فکر لاحق ہے۔

    زار: آرک اینگل کا گورنر اپنے مکان پر گولی کا نشانہ بن گیا۔ میں یہاں محفوظ نہیں! ماسکو میں اس انقلاب کی جڑ ویرا کے ہوتے ہوئے میرے لئے کوئی جگہ بھی محفوظ نہیں۔ پرنس پال! کیا یہ عورت یہیں ہے آج کل؟

    پرنس پال: سنا گیا ہے وہ کل رات گرانڈڈیوک کے ناچ میں موجود تھی۔ مگر میں باور نہیں کرا سکتا۔ البتہ اتنا ضرور معلوم تھا کہ وہ نوووگو روڈ جانے والی تھی۔ پولیس نے ہر ٹرین میں اس کی تلاش کی مگر بے سود۔ اس نے کسی نامعلوم وجہ سے وہاں جانے سے ارادہ ملتوی کردیا۔ کسی غدار نے خطرے سے ضرور مطلع کردیا ہوگا اسے!۔۔۔۔۔۔ پھرکیا ہوا؟ وہ میرے ہاتھوں سے اب بھی بچ نہیں سکتی۔ ایک حسین عورت کا تعاقب ہمیشہ دلچسپ ہواکرتا ہے جہاں پناہ!

    زار: تمہیں شکاری کتوں سے اس کی تلاش کرنی چاہئے اور جب گرفتار ہو جائے تو اسے درمیان سے چیر ڈالوں گا۔ ٹکٹکی پر کسوا دوں گا۔ حتیٰ کہ اس کا سپید جسم جلے ہوئے کاغذ کی طرح مڑ جائے۔

    پرنس پال: جہاں پناہ! آپ متفکر نہ ہوں۔ ہم جلدی اس کا تعاقب شروع کردیں گے۔ مجھے امید ہے شاہزادہ الیکسز ہمیں ضرور مدد دیں گے۔

    زاروچ: ایک عورت کو تباہ کرنے کیلئے تم کبھی کسی مدد کے خواہاں نہیں ہوئے پرنس پال!

    زار: ویرا،انقلاب پسند ماسکو میں! میرے خدا کیا موجودہ زندگی سے کتوں ایسی موت بہتر نہیں جو وہ میرے لئے تیار کررہے ہیں! نیند نصیب نہیں اور اگر خوش قسمتی سے آنکھ لگ جائے تو اس قسم کے بھیانک خواب جس کے مقابلے میں دوزخ پاسنگ بھی نہیں، ہر مسکراہٹ پر غداری کا شبہ کھانے کی ہر پلیٹ میں زہر کا گمان، ہر ہاتھ میں خنجر کی جھلک۔ شب بھرکروٹیں، چھپے ہوئے قاتل کے رینگنے پرکان۔۔۔۔۔۔ سب جاسوس ہو۔۔۔۔۔۔ سب جاسوس ہو۔ تم! لڑکے، میرے اپنے لڑکے!سب سے بدترین جاسوس۔ وہ کون ہے جو یہ خونیں اشتہار میرے تکئے اور میز کے نیچے چھپا آتا ہے؟ تم سب میں سے وہ کون غدار ہے۔ جو مجھے دھوکا دے رہا ہے؟ آہ!میرے خدا !! میرے خدا !!! انگلستان سے نبرد آزمائی کا زمانہ بھی کوئی وقت تھا جب مجھے کوئی چیز خوفزدہ نہ کر سکتی تھی۔(ذرا جوش سے) میدان جنگ کی خونی ندیوں میں نہاتا ہوا اپنا’’ عقاب‘‘ واپس لایا جو دشمن چھین کر لے گئے تھے۔اس وقت لوگوں نے کہا میں بہادر ہوں میرے باپ نے جوانمردی کا تمغہ عنایت کیا۔ آہ اگر وہ اب مجھے اس طرح بزدل و ارزاں دیکھے تو کیا کہے( کرسی پر بیٹھ جاتا ہے) لڑکپن میں محبت کے لفظ سے ناآشنا تھا۔ جب میں نے خود خوف کے عالم میں پرورش پائی تو بتائیے میں کس قسم کی حکومت کرسکتا ہوں؟( اٹھ کھڑا ہوتا ہے) میں انتقام لوں گا! رات کی ہر اس ساعت کیلئے جو میں نے خنجر اور پھندے کے انتظار میں کروٹیں لے لے کر بسر کی انہیں سائبیریا کے یخ بستہ میدانوں میں سالہا سال گزارنے پڑیں گے۔ صدیوں تک کانوں میں گلتے رہنا ہوگا۔ ہاں یہی میرا انتقام ہوگا۔

    زاروچ: ابا! لوگوں پررحم کرو۔ جو مانگتے ہیں بخش دو۔

    پرنس پال: تو جہاں پناہ کو اپنا سر تیار رکھنا چاہئے۔ وہ یہی طلب کرتے ہیں۔

    زار: عوام! عوام! پنجرہ سے نکلے ہوئے بھیڑیئے جو مجھ پر حملہ آور ہورہے ہیں۔ مگر میں ان کا مقابلہ آخری سانس تک کروں گا۔ اب رحم سے کنارہ کشی کر چکا ہوں۔ ان انقلاب پسندوں کو ایک ہی ضرب میں پیس ڈالوں گا۔ روس میں اس جماعت کا کوئی مرد نہ بچے گا۔ نہ کوئی عورت زندہ رہنے پائے گی۔ میں کس کام کا شہنشاہ ہوں۔ اگر ایک نکمی عورت مجھے اتنے عرصے تک دبائے رکھے۔ اس ہفتہ کے اندر ویرا میری گرفت میں ہوگی۔ خواہ اس کے لئے مجھے اپنا تمام شہر شعلوں ہی میں تبدیل کیوں نہ کرنا پڑے۔ اس کے جسم پر درے لگائے جائیں گے۔ قلعہ میں دم گھنٹے کیلئے مقید کردی جائے گی۔ چوک میں پھانسی کیلئے لٹکا دی جائے گی۔

    زاروچ: آہ! میرے خدا!!

    زار: دو سال سے اس کے ہاتھ میری گردن دبا رہے ہیں، اتنے عرصہ سے اس نے میری زندگی کو دوزخ بنا رکھا ہے۔ مارشل لاء! پرنس مارشل لاء! سلطنت بھر میں مارشل لاء نافذ ہو۔ یہی میرے انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کرسکتا ہے۔ یہی بہترین صورت ہے پرنس! یہی بہترین طریق ہے۔

    پرنس پال: اور کم خرچ بھی! اس طرح صرف چھ ماہ میں آپ زائد آبادی سے نجات حاصل کرلیں گے۔ عدالت کے اخراجات کا زیر بار بھی نہ ہونا پڑے گا۔

    زار: درست! روس میں لوگوں کی بہت افراط ہے۔ ان پربہت روپیہ صرف ہورہاہے۔ عدالت کے اخراجات بڑھ رہے ہیں۔ میں ان پر قفل لگا دوں گا۔

    زار وچ: جہاں پناہ! کچھ کرنے سے پہلے سوچ لیجئے۔۔۔۔۔۔

    زار: پرنس پال! اعلانات کب تک تیار ہو سکتے ہیں؟

    پرنس پال: آج سے چھ ماہ پہلے کے تیار ہیں۔ مجھے علم تھا جہاں پناہ کو ان کی ضرورت محسوس ہوگی۔

    زار: خوب! بہت خوبٖٖ!! تو پھر کام فوراً شروع ہو جانا چاہئے۔۔۔۔۔۔ اگر یورپ کے ہر بادشاہ کے پاس تم ایسا وزیر ہوتا۔۔۔۔۔۔

    زاروچ: تو بادشاہوں کی تعداد میں ضرور کمی واقع ہو جاتی۔

    زار: (پرنس پال کے کان میں ڈرتے ہوئے) اس لڑکے کا مدعا کیا ہے؟

    تم اس پر بھروسہ کرتے ہو کیا؟ معلوم ہوتا ہے قید خانہ نے اس کی ابھی تک اصلاح نہیں کی۔ جلا وطن کردوں؟۔۔۔۔۔۔یا (بالکل آہستہ) شہنشاہ پال نے بھی یہی کچھ کیا تھا۔ اور ملکہ کیتھرائن(دیوار پر تصویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) نے بھی۔:

    پرنس پال: جہاں پناہ! ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔ شہزادہ نہایت ذہین نوجوان ہے۔ وہ بظاہر عوام کا گرویدہ ہے۔ اور شاہی محلوں میں رہتا ہے۔ اشتراکیت کا واعظ ہے اور اس قدر ماہانہ خرچ لیتا ہے جو ایک صوبہ کے محاصل کے برابر ہے۔ ایک نہ ایک دن اسے معلوم ہو جائے گا کہ جنون جمہوریت کا بہترین علاج شاہی تاج ہے۔

    زار: تمہارا خیال صحیح ہے۔ میرا بیٹا ہو کر وہ عوام کا گرویدہ نہیں ہوسکتا۔

    پرنس پال: اگر لوگوں کے ساتھ دو ہفتہ بھی بسر کرے تو ان کے بدمزہ کھانے جلد اس کے دماغ سے جمہوری خیالات نکال دیں گے۔۔۔۔۔۔ جہاں پناہ ہمیں اپنا کام شروع کردینا چاہئے۔

    زار: فوراً اعلان پڑھ کرسناؤ۔۔۔۔۔۔ حضرات! تشریف رکھئے۔ الیکسز! الیکسز!! آؤ اور اعلان سنو! یہ تمہارے لئے عملی سبق ثابت ہوگا۔ تمہیں بھی تو آخر ایک دن یہی کام کرنا ہے۔

    زاروچ: ایسے اعلان اس سے پیشتر بہت سن چکا ہوں(میز کے پاس بیٹھ جاتا ہے۔ کاؤنٹ رووالوف اس کے کان میں کچھ کہتا ہے)

    زار: کاؤنٹ! کیا سرگوشیاں ہورہی ہیں؟

    کاؤنٹ رووالوف: جہاں پناہ! میں شہزادہ عالم کوکچھ نصیحت کررہا ہوں۔

    پرنس پال: جہاں پناہ! کاؤنٹ رووالوف اسراف کا ایک نمونہ ہے جس چیز کی اسے زیادہ ضرورت ہو وہی لوگوں کو بخشتا ہے(کاغذات زار کے حضور میز پر رکھتا ہے) مجھے امید ہے جہاں پناہ انہیں پسند فرمائیں گے۔۔۔۔۔۔’’ عوام الناس سے محت‘‘’’ عوام کا شفیق باپ‘‘’’ مارشل لاء‘‘ اور حسب دستور اللہ تعالیٰ کی نسبت آخری سطور اب تو صرف اعلیٰ حضرت کے دستخط ہونے باقی ہیں۔

    زاروچ: جہاں پناہ! ۔۔۔۔۔۔

    پرنس پال: (جلدی سے) اگر جہاں پناہ اس اعلان پر دستخط فرما دیں تو میں اعلیٰ حضرت سے وعدہ کرتا ہوں کہ چھ ماہ کے اندر اندر ہر ایک انقلاب پسند کو پیس کررکھ دوں گا۔

    زار: ذرا پھر کہنا! روس میں ہر ایک انقلاب پسند کو! ہر ایک!! اس عورت کوبھی جو ان کی سرغنہ ہے۔ جو میرے ہی ملک میں میرے خلاف بغاوت کا جھنڈا بلند کررہی ہے۔ پرنس پال! میں تمہیں مارشل لاء کے نفاذ کیلئے مملکت روس کا سالار اعظم مقرر کرتا ہوں۔ اعلان مجھے دو۔ میں ابھی دستخط کرتا ہوں۔

    پرنس پال: (کاغذ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) جہاں پناہ اس مقام پر۔ زار وچ( کھڑا ہو جاتا ہے اور کاغذ پرہاتھ رکھ دیتا ہے) ٹھہریئے! میں کہتا ہوں ذرا ٹھہریئے! پادریوں نے تو لوگوں سے آسمانی جنت چھین لی۔ آپ انہیں گھر بار سے محروم کررہے ہیں۔

    پرنس پال: شہزادہ! وقت ہاتھ سے جا رہا ہے۔ یہ لڑکا تو بنا بنایا کھیل بگاڑ دے گا۔ جہاں پناہ! قلم اٹھائیے۔

    زاروچ: کیا! ایک قوم کی قوم کا گلا گھونٹنا مملکت کا قتل عام، سلطنت کی تباہی تمہارے نزدیک ایک معمولی کھیل ہے۔ ہم کون ہیں جولوگوں کو اس طرح خوفزدہ کرنے کی جرأت کریں کیا وہ ہم سے بڑھ کربدکردار ہیں کہ ان کے اعمال کا فیصلہ کرنے بیٹھیں۔

    پرنس پال: یہ شہزادہ کتنا بڑا اشتراکی ہے کہ مالی مساوات کی طرح گناہوں کو بھی برابر تقسیم کرنا چاہتا ہے۔

    زاروچ: ایک ہی سورج کی شعاعوں میں پرورش پانے والے ایک ہی فضا میں سانس لینے والے ایک ہی آب و گل کی تخلیق۔۔۔۔۔۔ وہ کس بات میں ہم سے مختلف ہیں۔ یہی ناکہ وہ فاقوں مررے ہیں اورہم شکم سیر۔ وہ محنت و مشقت میں مصروف ہیں اور ہم سست اور کاہل۔ وہ بیمار ہیں اور ہم انہیں زہر پیش کررہے ہیں، وہ پہلے سے نیم جان ہیں اور ہم ان کا گلا گھونٹ رہے ہیں۔

    زار: یہ جرأت!۔۔۔۔۔۔

    زاروچ: میں عوام کے لئے ہرچیز کی جرات کروں گا۔ مگر آپ ہیں کہ ان کے جائز حقوق ضبط کررہے ہیں۔

    زار: عوام کے کوئی حقوق نہیں۔

    زاروچ: تو پھر ان کے پاس آپ کی ہوئی غلطیاں جمع ہیں۔ ابا! ان ہی لوگوں نے آپ کیلئے جنگ کے میدانوں کو جیتا۔ بحیرۂ بالٹک کے گھنے جنگلوں سے لے کر ہندوستان کے درختوں تک آپ کے نام کا ڈنکا بجایا۔ جہاں گئے فتح و نصرت پاؤں چومتی رہی۔ گو عمر میں زیادہ نہیں۔ مگر ان آنکھوں نے میدان جنگ میں لاکھوں انسانوں کو جام فنا پیتے دیکھا۔ ہاں اور وہ یہی لوگ تھے جو جان جوکھوں میں ڈال کر میزان جنگ کے پلڑے سے فتح چھین لائے۔ جبکہ’’ ہلال احمر‘‘ ہمارے ’’ عقابوں‘‘ پر چھا رہا تھا۔

    زار: (قدرے متاثر ہوکر) وہ لوگ مر گئے۔ اب مجھے ان سے کیاغرض؟

    زاروچ: کچھ بھی نہیں! وہ اب محفوظ ہیں۔ آپ انہیں تکلیف نہیں پہنچا سکتے وہ ابدی نیند سورہے ہیں۔ کچھ ترکستان کے گہرے سمندر میں کچھ نوردے اور وین کی بلندیوں پر۔ مگر ان کی زندہ نسلوں، ہمارے بھائیوں کے ساتھ آپ نے کون سا اچھا سلوک کیا؟ انہوں نے روٹی کے لئے ہاتھ پھیلائے تو آپ نے پتھر پیش کئے۔ آزادی طلب کی تو زہریلے بچھوؤں میں دھکیل دیئے گئے۔ اس انقلاب کے بیچ آپ نے خود اپنے ہاتھوں بوئے ہیں۔

    پرنس پال: اور کیا ہم فصل نہیں کاٹ رہے؟

    زاروچ: آہ!بھائیو! لوہے کی بارش اور چیختے ہوئے تباہ حال لوگ۔ کاش کہ وہ ہمیشہ کیلئے فنا ہو جاتے۔ تو اس جہنم جیسی زندگی سے ہزار درجہ بہتر ہوتا۔ جنگل کے درندے جائے پناہ رکھتے ہیں۔ آوارہ وحشیوں کیلئے غار ہیں۔ مگر روس کے باشندوں، دنیا کی فاتح قوم کے سر چھپانے کیلئے کوئی جگہ نہیں۔

    پرنس پال: پھانسی کا پھندہ موجود ہے۔

    زاروچ: پھانسی کا پھندہ! اپنی واحد مسرت کے لئے تم ان کی حسیات مٹا چکے۔ اب جسم مردہ کرنا چاہتے ہو۔

    زار: بدلگام لڑکے! کیا بھول گئے ہو شہنشاہ روس کون ہے؟

    زاروچ: نہیں!خدا کے فضل و کرم سے اب عوام حکومت کرنے والے ہیں آپ کو گلہ کا گڈریا ہونا چاہئے تھا۔ مگر آپ ڈرپوک ہونے کی وجہ سے بھاگ گئے اور انہیں بھیڑیوں کے حوالہ کردیا۔

    زار: لے جاؤ اسے! پرنس پال ! لے جاؤ!

    زاروچ: خدا نے ان لوگوں کو فریاد کیلئے ز بان بخشی ہے۔لیکن آپ اس زبان کو گدی سے کھینچ لانا چاہتے ہیں کہ وہ مصیبت اور تکلیف کے وقت گونگے بن رہے۔ مگر لڑنے کے لیے خدا نے انہیں ہاتھ دے رکھے ہیں۔ وہ ضرور لڑیں گے! ہاں! اس برگشتہ نصیب اور فاقوں سے نیم مردہ زمین کے بطن سے انقلاب ایک خونی بچہ کی طرح پیدا ہوگا جو آپ کا نام صفحہ ہستی سے نابود کردے گا۔

    زار: شیطان!قاتل! میری موجودگی میں میری داڑھی نوچنے کا مطلب؟

    زاروچ: اس لئے کہ میں انقلاب پسند ہوں۔(وزراء حیرت سے اچھل پڑتے ہیں۔ چند لمحات کیلئے قبر کی خاموشی طاری ہو جاتی ہے)

    زار: انقلاب پسند! انقلاب پسند!! ایک سانپ جسے میں اپنی آستین میں پالتا رہا۔ ایک غدار جسے میں اپنی گود میں کھلاتا رہا۔ کیا یہی تمہاری کرتوت ہے؟ پرنس پال، سالار اعظم سلطنت روس، ولی عہد کو گرفتار کرلو۔

    وزراء: گرفتار کرلو!

    زار: انقلاب پسند! اگر ان کے ساتھ انقلاب کے بیج بونے میں شامل رہے ہوتو انہیں کے ساتھ کاٹو گے۔ اگر ان کے ساتھ گفتگو کی ہے تو انہیں کے ہمراہ سختیاں جھیلوگے۔ اگر ان کے پاس رہے ہو تو انہی کی موت مرو گے۔

    پرنس پیٹرووخ: مرو گے!!

    زار: تمام بیٹوں پر طاعون! روس میں کوئی شادی نہیں ہونا چاہئے اگر مائیں تم ایسے سانپ پیدا کریں۔۔۔۔۔۔ میں کہہ رہا ہوں زاروچ کو گرفتار کرلو۔

    پرنس پال: زاروچ! شہنشاہ کے حکم سے تمہار ی تلوار چاہتا ہوں(زاروچ تلوار دیتا ہے۔ جسے پرنس پال میز پر رکھ دیتا ہے) بیوقوف لڑکے! تم سازشی بننے کے قابل نہیں ہو۔ شاہی محل میں اس قسم کی جرات؟

    زار: (کرسی پر بیٹھتے ہوئے) آہ! میرے خدا !!

    زاروچ: اگر عوام کے لئے میری جان جائے تو حاضر ہے۔۔۔۔۔۔ صرف ایک انقلاب پسند کی کمی و بیشی میں کون سا فرق آجائے گا؟

    پرنس پال: (ایک طرف ہوکر) صرف تمہیں اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔

    زاروچ: وہ عظیم برادری جس سے میں تعلق رکھتا ہوں مجھ ایسے ہزاروں افراد پر مشتمل ہے، لاکھوں، بلکہ کروڑوں(یہ سن کر زار فرط حیرت سے اچھل پڑتا ہے) آزادی کا ستارہ طلوع ہوچکا ہے۔ اب مجھے دور سے جمہوریت کی لہر ان ذلیل ساحلوں سے ٹکراتی ہوئی نظر آتی ہے۔

    پرنس پال: (پرنس پیٹرووخ سے) اس صورت میں ہم دونوں کو تیرنا سیکھ لینا چاہئے۔

    زاروچ: ابا! شہنشاہ!! آقا !!! میں اپنی ذات کیلئے درخواست نہیں کررہا۔ بلکہ اپنے بھائی۔۔۔۔۔۔ عوام کی جان بخشی کیلئے التجا کررہاہوں۔

    پرنس پال: (ترش کلامی سے) تمہارے بھائی، عوام اپنی جانوں کی سلامتی پر قانع نہیں، وہ ہمیشہ ہمسایہ کی جان پر بھی آنکھ رکھتے ہیں۔

    زار: (کھڑے ہوکر) پراز خوف زندگی سے تنگ آگیا ہوں۔ اب خوف کو طاق پررکھ دیا ہے، آج سے میں لوگوں کیخلاف اعلان جنگ کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔ جنگ جو ان کی تباہی کا باعث ہوگی۔ جس طرح وہ مجھ سے پیش آئے اسی طرح ان سے پیش آؤں گا۔ ان کی ہڈیوں کا سرمہ بنا کرہوا میں اڑا دوں گا۔ ہر گھر میں میرا جاسوس ہوگا۔ہر انگیٹھی میں غدار جھلستا ہوگا۔ ہر گاؤں میں جلاد اور ہر چوک میں ٹکٹکی ہوگی۔ میرے قہر سے طاعون، جذام اور وبا کم غارتگرہوں گے۔ ملک کا ہر کونہ قبرستان۔ شہر کا چپہ چپہ ماتم کدہ ہوگا۔ مریض تلوار سے شفا پائیں گے۔ روس میں امن ہوگا۔ خواہ وہ وادی خموشاں ہی کا امن کیوں نہ ہو۔ کون کہتا ہے میں بزدل ہوں؟ کون کہتا ہے میں خوفزدہ ہوں؟ دیکھو! اس طرح ان لوگوں کو اپنے پاؤں کے نیچے روند ڈالوں گا۔(زار وچ کی تلوار پاؤں تلے روندتا ہے)

    زاروچ: ابا! دیکھئے کہیں یہی تلوار زمین سے اچھل کر آپ کو زخمی نہ کردے عوام بہت عرصہ تک تکالیف برداشت کرتے رہے ہیں۔ مگر ایک نہ ایک دن انتقام کا وقت آیا چاہتا ہے۔۔۔۔۔۔ خون میں رنگنے کے لئے ہاتھ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔

    پرنس پال: ہوں! تمہارے بھائی نشانے میں ماہر نہیں۔ ان کی گولی ہمیشہ خالی جاتی ہے۔

    زاروچ: وہ وقت نہیں بھولنا چاہئے جب لوگ خدا کی لاٹھی بن جاتے ہیں۔

    زار: ہاں!اور وہ وقت بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے جب بادشاہ لوگوں کے جسموں کیلئے کوڑا ہوا کرتے ہیں۔ آہ! میرا اپنا لڑکا! میرے اپنے گھر میں، میرے ہی خون کی تخلیق میرے خلاف!! لے جاؤ اسے! نظروں سے دور لے جا ؤ! محافظوں کوبلاؤ( محافظ خاص داخل ہوتا ہے۔ زار ولی عہد کی طرف اشارہ کرتا ہے جو سٹیج کے کونہ میں خاموش کھڑا ہے) ماسکو کے تاریک ترین زندان میں اس کا منحوس چہرہ پھر نہ دیکھنے پاؤں( محافظ زاروچ کو باہر لے جانے لگتے ہیں) ٹھہرو، ٹھہرو!! چھوڑ دو مجھے محافظوں پر اعتبار نہیں، وہ سب انقلاب پسند ہیں۔ وہ اسے چھوڑ دیں گے اور وہ مجھے مار دے گا۔۔۔۔۔۔ قتل کردے گا۔ نہیں! نہیں! میں خود اسے اپنے ہاتھوں سے مقفل کروں گا۔ میں اور تم دونوں اسے زنداں میں لے جائیں گے( پرنس پال سے) مجھے تم پر اعتماد ہے اس لئے کہ تم رحم سے نا آشنا ہو۔ میں بھی رحم کو کام میں نہ لاؤں گا۔ آہ! میرا اپنا لڑکا۔ مجھ سے برسر پیکار! فضا میں کس قدر حبس ہے، سانس مشکل سے چل رہا ہے۔بیہوش ہورہا ہوں۔ معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی چیز گلے میں اٹک رہی ہے۔ کھڑکیاں کھول دو! نظروں سے غائب ہو جاؤ!!۔۔۔۔۔۔ نظروں سے غائب ہو جاؤ!! میں ان آنکھوں کی تاب نہیں لاسکتا۔ ٹھہرو! ٹھہرو! میں خود کھڑکیاں کھولتا ہوں۔(کھڑکیاں کھول دیتا ہے۔ اور بالکونی پر چلاتا ہے)

    پرنس پال: (گھڑی دیکھتے ہوئے) کھانا ٹھنڈا ہو جائے گا۔۔۔۔۔۔ سیاسیات اور ولی عہد کس قدر تنگ کرنے والی چیزیں ہیں۔

    آواز: (بازار میں) خدا عوام کی حفاظت کرے( زار کو گولی لگتی ہے اور وہ لڑکھڑا کر کمرے میں گر پڑتا ہے)

    زاروچ: (محافظوں کی گرفت سے نکل دوڑتا ہے) ابا!

    زار: قاتل! خونی!! یہ تمہارا کام ہے( مر جاتا ہے)

    (پردہ گرتا ہے)

    *****

    تیسرا ایکٹ

    وہی منظر، وہی کام جیسا کہ پہلے ایکٹ میں تھا۔ زرد لبادے میں ملبوس ایک شخص ننگی تلوار کھینچے دروازہ پر پہرہ دے رہا ہے۔

    صورت خاص: لعنت ہو ظلم پر

    جواب: لعنت ہو فاتح پر(تین دفعہ)

    (سازشی داخل ہوتے ہیں اور نصف دائرہ کی شکل میں بیٹھ جاتے ہیں)

    صدر: کون سی ساعت ہے!

    پہلا سازشی: ساعت، انقلاب۔

    صدر: دن؟

    دوسرا سازشی: یوم الخطر۔

    صدر: مہینہ؟

    تیسرا سازشی: ماہ آزادی۔

    صدر: ہمارا فرض؟

    چوتھا سازشی: اطاعت۔

    صدر: مقصد؟

    پانچواں سازی: حضرت صدر! مجھے معلوم نہ تھا کہ آپ کا کوئی مقصد بھی ہے۔

    سازشی: جاسوس! جاسوس!! نقاب الٹ دو جاسوس کا!

    صدر: دروازے بند کردو۔ اس کے سوا باقی سب انقلاب پسند ہیں۔

    سازشی: نقاب اتار دو! قتل کردو! قتل کردوٖٖ!!(نقاب پوش سازشی نقاب اتارتا ہے)

    ویرا: شیطان! شیروں کے کچھار میں داخل ہونے کیلئے تمہیں کس نے ترغیب دی؟

    سازشی: ہلاک کردو! ہلاک کردو!

    پرنس پال: حضرات! تحمل سے کام لیجئے۔ یہ کوئی مہمان نوازی نہیں؟

    ویرا: مہمان نوازی! خنجر اور پھانسی کے علاوہ تمہارا کس چیز سے استقبال کیا جاسکتا ہے؟

    پرنس پال: مجھے علم نہ تھا کہ انقلاب پسند اس قسم کے واقع ہوئے ہیں۔ یقین مانئے اگر میں اعلیٰ ترین سوسائٹی اور بدترین جاسوسوں کی مجلس میں داخل نہ ہو سکتا تو روس کا وزیراعظم ہرگز نہ ہوتا۔

    ویرا: بھیڑیا اپنی فطرت نہیں بدل سکتا۔ سانپ ڈسنا نہیں چھوڑ سکتا۔ مگر بتاؤ تو سہی تمہارے دل میں عوام کی محبت پیدا ہوگئی کیا؟

    پرنس پال: میرے خدا! ہرگز نہیں مادام! قید خانے کی اندھیری کوٹھڑی سے کمرۂ طعام کی لڑائی بہت بہتر ہے۔علاوہ بریں مجھے عوام سے سخت نفرت ہے۔ جن سے سخت تعفن آتا ہے، جن کے کپڑے بو میں بسے ہوئے ہوتے ہیں۔ جو علی الصباح بیدار ہوکرایک ہی برتن میں کھانا کھاتے ہیں۔

    صدر: تو پھر تمہیں ایسے انقلاب سے فائدہ؟

    پرنس پال: میرے دوست! میرے پاس پھوٹی کوڑی تک بھی نہیں اس پریشان دماغ لڑکے ۔۔۔۔۔۔ نئے زار نے مجھے نکال دیا ہے۔

    ویرا: سائبیریا۔

    پرنس پال: نہیں۔ پیرس بھیج رہا ہے۔ میری تمام جائیداد ضبط کرلی ہے۔ عہدے اور باورچی سے بھی محروم کردیا ہے۔ اب میرے پاس صرف لباس ہی لباس ہے۔ میں یہاں انتقام کی خاطر آیا ہوں۔

    صدر: اس حالت میں تجھے ہم میں شامل ہونے کا حق حاصل ہے۔ ہم بھی انتقام ہی کی خاطر ہر روز جمع ہوتے ہیں۔

    پرنس پال: آپ کو روپیہ کی ضرورت توہوگی۔ اس قسم کی جماعتوں کو اکثر روپے کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔یہ لو(کچھ نقدی میز پر رکھ دیتا ہے) آپ لوگوں نے اس قدر جاسوس چھوڑ رکھے ہیں معلوم ہوتا ہے آپ کو واقعی صحیح معلومات کی تلاش ہے۔ مجھ سے بہتر باخبر انسان آپ کو ڈھونڈھے بھی نہیں ملے گا۔ روس کا ہر قانون میرا ہی مرتب کیا ہواہے۔

    ویرا: صدر! مجھے اس شخص پر اعتبار نہیں۔ یہ روس میں بہت ستم ڈھا چکا ہے۔

    پرنس پال: مادام! آپ غلطی پر ہیں۔ یقین جانئے میں آپ کی جماعت میں ایک قابل قدر اضافہ ثابت ہوں گا۔۔۔۔۔۔ حضرت صدر! اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ آپ میرے لئے مفید ہوں گے تو میں ہرگز اپنی جان کو اس خطرہ میں نہ ڈ التا!

    صدر: ہاں! اگر اس کو جاسوسی ہی کرنی تھی توویرا وہ خود چل کر یہاں نہ آتا؟

    پرنس پال: اس صورت میں میں اپنے بہترین دوست کو بھیج دیتا۔

    صدر: اس کے علاوہ اس معاملہ کے متعلق جو ہم آج رات طے کرنے والے ہیں یہی ایک شخص ہے جو ہمیں اچھی طرح اطلاعات بہم پہنچا سکتا ہے۔

    ویرا: جیسے آپ کی مرضی:۔

    بھائیو! کیا آپ کی خواہش ہے کہ پرنس پال کو حلف دلوا کر اپنی جماعت میں داخل کرلیا جائے؟

    سازشی: کرلیا جائے۔

    صدر: (ہاتھ میں کاغذ اور خنجر پکڑ کر) پرنس پال حلف یا خنجر؟

    پرنس پال: (زہر خند سے) میں دوسروں کی غارت گری کو اپنی موت پر ترجیح دیتا ہوں۔(کاغذ پکڑ لیتا ہے)

    صدر: اگر تم نے ہمیں دھوکا دیا تو یاد رکھو جب تک سرزمین روس میں زہر اور فولاد دستیاب ہو سکتا ہے! جب تک مرد وار کرسکتے ہیں۔ اور جب تک عورت دغا دے سکتی ہے تم ہمارے انتقام سے بچ نہیں سکتے۔ انقلاب پسند اپنے دوستوں کو بھولا نہیں کرتے اور نہ اپنے دشمنوں کو معاف کیا کرتے ہیں!

    پانس پال: مجھے معلوم نہ تھا آپ لوگ اس قدر مہذب ہیں۔

    ویرا: (کمرے میں ادھر ادھر ٹہلتے ہوئے) وہ ابھی تک کیوں نہ آیا؟ وہ تاج شاہی کو ہرگز پسند نہ کرے گا۔۔۔۔۔۔ میں اسے خوب جانتی ہوں۔

    صدر: دستخط کرو(پرنس پال دستخط کرتا ہے) تم کہہ رہے تھے ہمارا کوئی مقصد نہیں۔ اب اسے پڑھو۔

    ویرا: صدر! تم بہت خطرناک کھیل کھیل رہے ہو۔۔۔۔۔۔ آخر ہمیں اس شخص سے فائدہ؟

    صدر: ہم اس سے کام لے سکتے ہیں۔

    ویرا: پھر؟

    صدر: پھانسی!

    پرنس پال: (پڑھتا ہے)’’ حقوق انسانی‘‘ پرانے زمانے میں لوگوں کو اپنے حقوق ہی سے غرض تھی۔ مگر اب ہر نوزائیدہ منہ میں اپنے سے کچھ بڑا اشتراکی حقوق کا انگوٹھا لئے پیدا ہوتا ہے۔ قدرت ایک وسیع کارخانہ ہے۔ مندر نہیں۔ اس لئے ہم محنت و مشقت کے لئے جائز حقوق طلب کرتے ہیں۔‘‘ اس صورت میں تو میں اپنے حقوق سے باز آیا۔

    ویرا: (کچھ دور ٹہل رہی ہے) آہ! وہ پھر نہیں آئے گا کیا؟۔۔۔۔۔۔کبھی نہیں؟

    پرنس پال: وہ خاندان کا خاندان جو جماعتوں کے معاشری و ملی الحاق کے خلاف ہو کچل دیا جائے۔ صدر! میں اس سے سو فیصدی متفق ہوں۔ خاندان بہت تکلیف دہ ہوا کرتا ہے۔ خاص کر اس وقت جب آدمی شادی شدہ نہ ہو۔

    (دروازہ پر تین دفعہ دستک)

    ویرا: آخر کار الیکسز آگیا!

    صورت خاص: لعنت ہو ظلم پر۔

    جواب: لعنت ہو فاتح پر۔

    (مچل داخل ہوتا ہے)

    صدر: مچل! قاتل شہنشاہ!! بھائیو! ہمیں اس شخص کا احترام کرنا چاہئے۔ جس کے ہاتھوں نے ایک شہنشاہ کو کم کردیا ہے۔

    ویرا: (اپنے آپ سے) ابھی وقت ہے وہ ضرور آئے گا!

    صدر: مچل! تو نے روس کو بچا لیا۔

    مچل: ہاں! ظالم کی موت کے بعد روس صرف چند لمحات آزادی کے سانس لے سکا۔ مگر اب آفتاب آزادی صبح کاذب کی فریب دہ روشنی کی طرح پھر غروب ہوگیا ہے۔

    صدر: ظلم کی اندھیری رات ابھی روس سے نہیں گئی۔

    مچل: (خنجر نکالتے ہوئے)صرف ایک ضرب اور۔۔۔۔۔۔ پھر آزادی یقینی ہے۔

    ویرا: (اپنے آپ سے) ایک ضرب اور؟کیا کہہ رہا ہے؟ آہ! ناممکن! دیگر وہ ہمارے درمیان کیوں موجود نہیں؟ الیکسز! الیکسز!! تم کیوں نہیں آئے؟

    صدر: مچل! تم کس طرح بچ نکلے! افواہ تو یہ تھی کہ تمہیں گرفتارکرلیا گیا ہے۔

    مچل: میں شاہی محافظ کے بھیس میں تھا۔ پہرہ دار کرنل نے جو ہماری جماعت سے ہے مجھے اندر داخل ہو جانے دیا۔ اور اس سے پیشتر کہ محلات کے دروازے بند ہو جائیں۔ گھوڑے پر سوارہوکر منزل مقصود پر پہنچ گیا۔

    صدر: اس کا بالکونی پر آنا بھی خوب اتفاق تھا۔

    مچل: اتفاق! کیسی مہمل چیز ہے۔یہ خدا کا اشارہ تھا جو اسے وہاں پر کشاں کشاں لے آیا۔

    صدر: مگر اتنے روز کہاں رہے؟

    مچل: پادری نکولس کے ہاں چھپا رہا۔

    صدر: نکولس ایماندار شخص ہے۔

    مچل: ایک پادری ہوکر ایماندار۔۔۔۔۔۔ میں اب یہاں ایک غدار کو موت کے گھاٹ اتارنے آیا ہوں۔

    ویرا: (اپنے آپ سے) آہ! میرے خدا کیا وہ کبھی نہ آئے گا؟ الیکسز کیوں نہیں آئے؟ تم غدار نہیں بن سکتے!!

    مچل: (پرنس پال کو دیکھ کر) پرنس پال یہاں؟ اپنے خون کی قسم خوب شکار پھانسا! یہ گرفتاری ضرور ویرا ہی کے ہاتھوں عمل میں آئی ہے زہریلے سانپ کو پکڑنا اسی کا کام ہے۔

    صدر: پرنس پال نے ابھی ابھی حلف اٹھایا ہے۔

    ویرا: الیکسز۔۔۔۔۔۔ زار نے اسے جلا وطن کردیا ہے۔

    مچل: صریحاً دھوکہ! خیر پرنس پال کے لئے ہم اپنی خوفناک حکومت میں کوئی نہ کوئی ملازمت تلاش کرلیں گے۔ اس عرصہ تک خونیں کاموں میں اس نے اچھی خاصی مہارت حاصل کرلی ہے۔

    پرنس پال: (مچل کے پاس جا کر) نشانہ خوب تھا۔ میرے رفیق!

    مچل: بچپن ہی سے اعلیٰ حضرت کے وحشی ریچھوں پر نشانہ کی مشق کرتا رہا ہوں۔

    پرنس پال: کیا میرے شکا ر گا ہوں کے محافظ بے وقوف تھے۔سو ئے رہتے تھے؟

    مچل: نہیں پرنس! میں بھی انہیں محافظوں میں سے ایک ہوں۔ مگر آپ کی طرح ہر اس چیزپر، جو میری نگرانی میں چھوڑی جائے ڈاکہ مار لیا کرتا ہوں۔

    صدر: یہاں کی فضا تمہارے لئے بالکل نئی ہے پرنس! یہاں ہر شخص راست گوئی سے کام لیتا ہے۔

    پرنس پال: اس قسم کی را ست گوئی عموماً اصل مطلب سے دور لے جایا کرتی ہے۔ یہاں توخیالات کا عجیب انتشار ہے صدر!۔۔۔۔۔۔ ایک قسم کی خود نمائی ہے میرے خیال میں!

    صدر: مگر مجھے امید ہے کہ تم نے یہاں اپنے دوستوں کو پہچان لیا ہوگا۔

    پرنس پال: کسی حد تک(وزارت گوئی میں دماغ کی بہت کم ضرورت محسوس ہوا کرتی ہے)

    صدر: پھر تم یہاں کس لئے آئے۔

    پرنس پال: میں؟۔۔۔۔۔۔ جب وزارت حاصل کرنے کی کوئی امید نہیں تو انقلاب پسند بننے کے علاوہ اور چارہ ہی کیا ہے۔

    ویرا: اللہ! کیا وہ کبھی نہ آئے گا؟ وقت گزر چکا ہے۔مگروہ ابھی تک نہیں آیا۔

    مچل: (علیحدہ ہوکر) صدر آپ کومعلوم ہے ہمیں کیا کرنا ہے؟ وہ ایک اناڑی شکاری ہوگا جو بھیڑیئے کو ہلاک کرنے کے بعد اس کے بچے کو انتقام لینے کے لئے زندہ رہنے دے۔ بتائیے اب اس چھوکرے کا کیا کیا جائے۔ فیصلہ آج ہی کی رات ہونا چاہئے۔ وہ کل تک عوام کو اصلاحات کا کھلونا دے کر رام کرلے گا۔ اور اس طرح ہماری جمہوری حکومت دھری کی دھری رہ جائے گی۔

    پرنس پال: بالکل درست! اچھے بادشاہ ہمیشہ جمہوری حکومت کے دشمن ہوتے ہیں اور جب اس نے میری جلا وطنی سے پہل شروع کی ہے تو آپ کو سمجھ لینا چاہئے وہ عوام کی نظروں میں ہمدرد بننا چاہتا ہے۔

    مچل: مجھے ہمدرد بادشاہ ایک آنکھ نہیں بھاتے۔۔۔۔۔۔روس کو اگر ضرورت ہے توجمہوری حکومت کی۔

    پرنس پال: حضرات! میں اپنے ساتھ دو کاغذات لایا ہوں۔ شاید وہ آپ کے لئے دلچسپ ہوں۔ ان میں سے ایک وہ اعلان ہے جو موجودہ زار صبح شائع کرنے والا ہے۔ دوسرا اس محل کا نقشہ ہے جس میں وہ آج رات سوئے گا(کاغذ دیتا ہے)

    ویرا: (اپنے آپ سے) میں ان کی گفتگو میں حصہ لینے کی جرات نہیں کرسکتی۔ آہ! کاش الیکسز آگیا ہوتا۔

    صدر: پرنس! یہ بہت مفید اطلاعات ہیں۔ مچل! تم درست کہہ رہے تھے۔ فیصلہ آج ہی کی رات ہونا چاہئے۔۔۔۔۔۔ پڑھو تو انہیں؟

    مچل: آہ! گرسنہ قوم کیلئے روٹی کا ایک پھینکا ہوا ٹکڑا، لوگوں کو دھوکا دینے کیلئے جھوٹ!(کاغذ پھاڑ دیتا ہے) فیصلہ آج ہی رات ہوگا! مجھے اس پر اعتبار نہیں۔ اگر اسے عوام سے محبت ہوتی تو اس کا سر یہ تاج ہرگز قبول نہ کرتا۔۔۔۔۔۔ مگر بتائیے تو اس تک رسائی کیونکر ہو۔

    پرنس پال: بازار والے خفیہ دروازے کی چابی!(چابی دے دیتا ہے)

    صدر: ہم تمہارے ممنون احسان ہیں پرنس!

    پرنس پال: (مسکرا کر)انقلاب پسند ہمیشہ مقروض وممنون رہے ہیں۔

    مچل: ہاں! مگر اب ہم قرض معہ سود ادا تو کررہے ہیں۔ دو شہنشاہ ایک ہفتہ میں! اب ترازو کے پلڑے مساوی ہو جائیں گے۔ میں نے وزیراعظم کو بھی تول دیا ہوتا۔ اگر تم ہم میں شامل نہ ہوتے۔

    پرنس پال: آہ! آپ کے ایسا کہنے سے میری ملاقات کی رنگینیاں کافور ہوئی جارہی ہیں۔ میں تو اپنے خیال میں سر ہتھیلی پر رکھ کر آیا تھا۔ مگر آپ فرما رہے ہیں کہ میرا سر محفوظ ہے۔۔۔۔۔۔ موجودہ صورت میں رومان کے خواب دیکھنا فضول ہیں!

    مچل: سرکو تن سے جدا ہوتے دیکھنا کوئی رومان نہیں پرنس پال!

    پرنس پال: مگر بعض اوقات اسے پاس رکھنا بھی گراں معلوم ہوتا ہے۔ کیا یہی چیز کبھی آپ کو محسوس نہیں ہوئی۔(گھڑی کچھ بجاتی ہے)

    ویرا: (کرسی پرگرتے ہوئے) آہ! وقت گزر چکا۔۔۔۔۔۔ وقت گزر چکا!!

    مچل: (صدر سے) کل تک بہت دیر ہو جائے گی۔

    صدر: بھائیو! مقررہ ساعت ختم ہو چکی۔ ہم میں سے کون غیر حاضر ہے؟

    سازشی: الیکسز! الیکسز!!

    صدر: مچل! ساتواں قانون پڑھو۔

    مچل: ’’ جب کوئی بھائی اطلاع پہنچنے پر حاضر نہ ہو تو صدر دریافت کرے گا کہ آیا اس شخص کیخلاف کوئی الزام تو نہیں۔‘‘

    صدر: ہمارے بھائی الیکسز کیخلاف کوئی الزام؟

    سازشی: وہ تاج پوش ہے۔

    صدر: مچل!(مچل کو ایک سرخ جلد والی کتاب دیتے ہوئے) آئین انقلاب کی دفعہ سات دیکھو۔

    مچل: ’’ہر اس شخص کے لئے جو اپنے سر پرتاج پہنے۔سزائے موت ہے!‘‘

    صدر: بھائیو! بتاو کیا الیکسز مجرم ہے یا نہیں؟

    سب سازشی: مجرم ہے!

    صدر: اس کی سزا؟

    سب سازشی: موت!

    صدر: قرعہ کیلئے پرچیاں تیار کراؤ۔۔۔۔۔۔یہ فیصلہ آج ہی کی رات ہوگا۔

    پرنس پال: یہ تو بہت دلچسپ ہے۔ میں تو سمجھتا تھا کہ سازشیں بھی عدالت کی طرح بے جان ہوتی ہیں۔

    پروفیسر مارفا: نشانہ لگانے کی نسبت مجھے پرچیاں لکھنے سے زیادہ انس ہے مگر۔۔۔ پھر بھی بادشاہ کے قاتل کو تاریخ میں نمایاں جگہ حاصل ہوا کرتی ہے۔

    مچل: اگر تمہارا پستول تمہارے قلم ہی کی طرح بے ضرر ہے تو اس نوجوان ظالم کی عمر بہت لمبی ہوگی۔

    پرنس پال: پروفیسر! آپ کو یہ بھی خیال رکھنا چاہئے کہ اگر آپ گرفتارکرلئے گئے(جو یقینی امر ہے) اور آپ کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا(جس میں کوئی شک نہیں) تو آپ کے مقالے پڑھنے کیلئے کوئی شخص موجود نہ ہوگا۔

    صدر: بھائیو! کیا سب تیار ہو؟

    ویرا: (کھڑی ہو کر) ابھی نہیںٖ! ابھی نہیں!! مجھے کچھ کہنا ہے۔

    مچل: (ایک طرف ہوکر) طاعون ہو اس پر! مجھے پہلے ہی علم تھا کہ یہ نوبت ضرور آئے گی۔

    ویرا: یہ لڑکا ہمارا بھائی رہا ہے! یہاں آنے کی خاطر ہر روز اپنی جان خطرے میں ڈ التا رہا۔۔۔۔۔۔ ہرروز جبکہ شہر کے گلی کوچے جاسوسوں سے بھرے پڑے تھے، کوئی گھرغدار سے خالی نہ تھا۔ آپکو خیال کرنا چاہئے کہ شاہی گود میں پلے ہوئے بچے نے ہمارے ساتھ اتنے روز بسر کئے ہیں۔

    صدر: ہاں! ایک غلط نام بتلا کروہ شروع ہی سے ہمارے ساتھ جھوٹ بولتا رہا اور اب بھی بول رہا ہے۔

    ویرا: میں حلفیہ کہتی ہوں وہ راست گو ہے۔ یہاں کون ایسا شخص موجود ہے جس کی زندگی اس کی شرمندہ احسان نہیں۔ جب اس رات شکاری کتے ہماری بو سونگھ رہے تھے توہمیں، گرفتاری، اذیت۔ٹکٹکی اور موت کے منہ سے کس نے بچایا؟۔۔۔۔۔۔ اس نے جس کی ہلاکت کے منصوبے تم باندھ رہے ہو۔

    مچل: ظالموں کو موت کے گھاٹ اتارنا ہمارا فرض ہے۔

    ویرا: ظالم نہیں۔ میں اسے خوب جانتی ہوں۔ وہ عوام سے محبت کرتا ہے۔

    صدر: ہم بھی اسے جانتے ہیں۔۔۔۔۔۔ وہ غدار ہے۔

    ویرا: غدار! آج سے تین روز پہلے وہ تم سب کو دھوکہ دے سکتا تھا۔ اس وقت پھانسی کا پھندہ تمہارا انجام ہوتا۔ مگر اس نے تم سب کو تمہاری زندگیاں واپس بخش دیں۔ تھوڑا عرصہ صبر کرو!۔۔۔۔۔۔ ایک ہفتہ۔۔۔۔۔۔ ایک مہینہ چند روز ابھی کوئی فیصلہ مرتب نہ کرو۔ آہ میرے خدا۔ ابھی نہیں؟

    سازشی: (خنجرہلاتے ہوئے) آج رات ہی! آج رات ہی!

    ویرا: خاموش!آستین کے سانپو! خاموش!!

    مچل: کیا ہم غارتگر نہیں؟ کیا ہم اپنے حلف پر قائم نہ رہیں؟

    ویرا: تمہارا حلف! تمہارا حلف!! ہوس کے غلامو! تم میں سے ہر ایک کا ہاتھ اپنے ہمسائے کی دولت پر بڑھ رہا ہے۔ ہر ایک کا دل غارت گری اور تباہ کاری پر تلا ہوا ہے۔ تم میں سے وہ کون ہے جس کے سر پر اگر تاج رکھ دیا جائے اور وہ اپنی سلطنت لوگوں کے قدموں پر پھینک دے۔اہل روس ابھی جمہوری حکومت کے قابل نہیں۔

    صدر: ہر ایک قوم جمہوری حکومت کی اہل ہے۔

    مچل: یہ لڑکا ظالم ہے۔

    ویرا: ظالم! کیا اس نے اپنے بدکردار مشیروں کو باہر نہیں نکال دیا؟یہ۔۔۔۔۔۔(پرنس پال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے)اس کے باپ کے دربار کا منحوس کوا اپنے پر اور پنجے کتروا کر اب انتقام کیلئے ہمارے پاس کائیں کائیں کرتا آتا ہے۔۔۔۔۔۔ آہ! رحم کرو!! اسے صرف ایک ہفتہ اور زندہ رہنے کی مہلت دو!!

    صدر: ویرا اور بادشاہ کی سفارش کرے؟

    ویرا: (فخرسے) میں بادشاہ کیلئے نہیں بلکہ ایک بھائی کیلئے التجا کررہی ہوں۔

    مچل: اپنے حلف سے پھر جانے والے غدار کے لئے، ایک بزدل کیلئے جسے چاہئے تھا کہ وہ تاج شاہی ٹھکرا دیتا۔ نہیں! ویرا! ویرا نہیں! مردوں میں ابھی شجاعت مردہ نہیں ہوئی اور نہ اس بدنما زمیں نے بہادر بچے پیدا کرنے بند کردیئے ہیں، روس میں کوئی تاج پوش کتا اپنی زندگی سے خدائی فضا کو مکدر نہ کرے گا۔

    صدر: تم نے ایک دفعہ ہمیں امتحان کیلئے کہا تھا۔ مگر اب تم اس امتحان میں پوری نہیں اتریں۔

    مچل: ویرا! میں اندھا نہیں۔ مجھے تمہارا راز معلوم ہے۔ تمہیں اس لڑکے سے محبت ہے۔۔۔۔۔۔ اس خوبصورت چہرہ۔گھنگھریالے بال اور نازک ہاتھوں والے نوجوان شہزادہ سے۔بیوقوف! دروغ گو کی شکار! کیا تجھے معلوم ہے وہ تجھ سے کیا سلوک کرتا۔وہی جس کی نسبت تو سمجھ رہی ہے کہ وہ تجھ سے محبت کرتا ہے وہ تجھے اپنی ملکہ بنا لیتا، اپنی خواہش کے مطابق تیرے جسم سے حظ اٹھا لیتا، مگر جب اس کا جی تجھ سے اکتا جاتا تو تجھے پرے پھینک دیتا۔۔۔۔۔۔ تجھے۔۔۔۔۔۔ آزادی کی پجارن آتش انقلاب مشعل حریت۔ تجھے!

    ویرا: میرے ساتھ وہ کچھ سلوک کرتا، مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں۔مگر کم از کم عوام کیلئے وہ ضرور صدق دل ثابت ہوگا۔۔۔۔۔۔وہ ان سے محبت کرتا ہے۔۔۔۔۔۔ کم از کم آزادی کا پرستار ضرور ہے۔

    صدر: تو آزادی کا یہ پرستار اس وقت سر پر تاج رکھے گا، جب ہم فاقوں مررہے ہوں گے؟ اپنی شیریں زبان سے پرچائے گا، باپ کی طرح وعدہ وعید سے دھوکہ دے گا؟ جھوٹ بولے گا، جیسے اس کے آباؤ اجداد بولتے رہے؟

    مچل: اور تم جس کے نام نے ہر ایک بادشاہ کو عمر بھر لرزاں رکھا۔ تم ویرا۔ تم آزادی سے ایک محبت کرنے والے کی خاطر ناآشنا ہو جاؤ گی۔ایک نکمے عاشق کے لئے عوام کو چھوڑ دو گی!!

    سا ز شی: غدار! قرعہ ا ندازی ہوقرعہ ا ندازی!

    ویرا: مچل! تم غلط کہہ رہے ہو۔ میں اس سے محبت نہیں کرتی۔ وہ مجھ سے محبت نہیں کرتا۔

    مچل: تو اس سے محبت نہیں کرتی تو پھر کیا اسے موت کے گھاٹ نہیں اتارنا چاہئے؟

    ویرا: (مٹھیاں بھینچتے ہوئے کچھ کوشش سے) ہاں! یہ درست ہے۔ اسے ضرور مرنا چاہئے۔ وہ حلف توڑنے کا مرتکب ہوا ہے۔ یورپ میں کوئی تاج پوش انسان نہ رہنے پائے گا۔ کیا میں اس کی قسم نہیں لے چکی؟ ہماری نئی جمہوری کو مضبوط بننے کیلئے بادشاہوں کے خون کی ضرورت ہے۔ وہ اپنا عہد توڑ چکا ہے۔ اسے باپ ہی کی موت مرنا چاہئے۔ مگر آج رات نہیں! روس جو صدیوں تکالیف سہتا رہا آزادی کیلئے ایک اور انتظار کرسکتا ہے۔ اسے صرف ایک ہفتہ کی مہلت دو۔

    صدر: ہم تمہاری بات سننے کو تیار نہیں۔ جاؤ۔ اس لڑکے کے پاس چلی جاؤ جس سے تم محبت کررہی ہو۔

    مچل: وہ مجھے تمہاری آغوش ہی میں کیوں نہ ملے مگرمیں اس کے قتل کرنے سے پھر بھی باز نہ رہوں گا۔

    سازشی: آج رات! آج ہی رات!!

    مچل: (ہاتھ اٹھا کر) ٹھہریئے! مجھے کچھ کہنا ہے(ویرا کے پاس جا کر بہت آہستہ گفتگو کرتا ہے) ویرا کیا تم اپنے بھائی کو بھول گئی ہو؟(اس کا اثر دیکھنے کیلئے کچھ دیر ٹھہرتا ہے۔ ویرا چونک پڑتی ہے) کیا تم وہ فاقہ زدہ چہرہ، پے در پے اذیتوں سے مڑے ہوئے نازک اعضاء طوق و سلاسل جن میں وہ ان دنوں جکڑا ہوا ہے۔ بھول گئی ہو؟۔۔۔۔۔۔ انہوں نے کبھی اسے آزادی کی فضا میں سانس لینے دیا؟ ایک روز بھی اس کے ساتھ نرمی سے پیش آئے؟( ویرا کرسی پر گر پڑتی ہے) آہ! وہ وقت بھی تھا جب تو آزادی اور انتقام کے متعلق پورے جوش کا اظہار کیا کرتی تھی۔ جب تو نے ماسکو آنے کا ارادہ کیا تو تیرے باپ نے اپنی تنہائی اور بے بسی کا واسطہ دے کرتجھے وہاں جانے سے روکا۔ اس کی دلخراش چیخ اب بھی میرے کانوں میں گونج رہی ہے۔ مگر کسی ٹھوس چٹان کی طرح تجھ پر اس آہ و بکاکا کوئی اثر نہ ہوا۔تو اپنے باپ سے اسی رات جدا ہو گئی۔ اور وہ تیری جدائی کی تاب نہ لا کرتین ہفتہ بعد گھل گھل کر مرگیا۔ تو نے مجھے ماسکو آنے کیلئے کہا۔ میں آگیا۔ اس لئے کہ میں تیری محبت میں گرفتار تھا۔ مگر تو نے جلدی ہی مجھے اس سے آزاد کردیا۔ انسانیت، احساسات، رحم، غرض جو بھی نازک جذبات میرے دل میں موجود تھے۔ فصلوں کو چاٹنے والے کیڑے کی طرح فنا کردیئے۔ غارت گر طاعون کی طرح تباہ کردیئے۔ میرے سینے سے محبت کو اس طرح نکال کر تو نے میرے ہاتھوں کو لوہے اور دل کو پتھر سے آشنا کرایا۔ آزادی اور انتقام کی تعلیم دی۔۔۔۔۔۔ میں نے یہ سب کچھ کیا مگر تم۔۔۔۔۔۔ ہاں بتاؤ تم نے کیا کیا؟

    ویرا: قرعہ اندازی ہو( سازشی نعرہ ہائے تحسین بلند کرتے ہیں)

    پرنس پال: (اپنے آپ سے) گرانڈ ڈیوک کی تخت نشینی میں اب کوئی شک و شبہ نہیں۔ میری زیر ہدایت وہ اچھا بادشاہ بن سکتا ہے۔

    مچل: ویرا! اب تو ہوش میں ہو؟

    ویرا: (درمیان میں کھڑی ہوکر) قرعہ اندازی! کہہ رہی ہوں قرعہ اندازی۔ اب مجھ میں عورت کا دل نہیں۔ لہو کے ہر قطرہ میں جذبہ انتقام جاگ رہا ہے۔ دل فولاد کی مانند سرد ہے۔ ہاتھ پہلے سے کچھ زیادہ خطرناک ہیں۔صحراؤں اور زندہ قبرستانوں سے اسیر بھائیوں کی صدا مجھے آزادی کیلئے آخری ضرب کا پیغام دے رہی ہے۔۔۔۔۔۔ قرعہ اندازی ہو! ابھی قرعہ اندازی ہو!!

    صدر: سب تیار ہو؟ مچل بادشاہ کا قاتل ہونے کی حیثیت سے پہلا کاغذ تمہیں کو اٹھانا چاہئے۔

    ویرا: مجھے دو! مجھے دو!!(سب سازشی ایک انسانی کھوپڑی کے بنے ہوئے پیالے سے کاغذ اٹھاتے ہیں)

    صدر: اپنا اپنا کاغذ کھول دو۔

    ویرا: (کاغذ کھولتے ہوئے) قرعہ میرے نام ہے۔ خونیں نشان اسی کاغذ پر ثبت ہے۔ متری! میرے بھائی تمہارا انتقام اب لیا جائے گا!

    صدر: بادشاہ کا قتل اب تمہارے سپرد ہے۔۔۔۔۔۔بولو خنجر یا زہر(خنجر اور زہر کی شیشی پیش کرتا ہے)

    ویرا: میرے ہاتھ خنجر کے لئے زیادہ موزوں ہیں۔۔۔۔۔۔ یہ کبھی دھوکہ نہیں دیتے( خنجر پکڑ لیتی ہے) یہ خنجر اس کے دل میں گھونپ دوں گی۔ اس لئے کہ اس نے میرا دل زخمی کیا۔غدار! جو ایک رو پہلی چھیتھڑے، بھڑکیلی پوشاک اور نکمی چیز کیلئے ہمیں دھوکہ دیا گیا! مچل درست کہتا ہے وہ مجھ سے محبت کرتا ہے اور نہ عوام سے۔ اگر میرے بطن سے ایسا لڑکا پیدا ہوتا تو میں اپنی چھاتیوں کو مسموم کردیتی کہ وہ غدار اور بادشاہ نہ بننے پائے۔(پرنس پال صدر سے سرگوشی میں بات کرتا ہے)

    پرنس پال: یہ سب سے بہترین طریق ہے۔ ویرا زار آج رات اپنے کمرے میں سوئے گا۔ جو محل کے مشرقی حصہ میں واقع ہے۔ یہ لو بازار والے خفیہ دروازے کی چابی۔ محافظوں کی صورت خاص تمہیں بتلا دی جائے گی۔ اس کے خاص ملازموں کو زہر پلا دیں گے بس! تمہارے لئے میدان صاف ہوگا۔

    ویرا: خوب! میراوار خطا نہ جائے گا۔

    صدر: شاہی محل کے باہر ہم تمہارا انتظار کریں گے۔ جونہی گرجا گھڑی بارہ بجائے ہمیں معلوم ہوجانا چاہئے کہ وہ کتا مر چکا ہے۔

    ویرا: آپ لوگوں کو کس طرح معلوم ہو۔

    صدر: خون آلود خنجر کھڑکی سے باہر پھینک دینا۔

    مچل: غدار کے خون میں شرابور!

    صدر: اگر ہمیں یہ نشان نہ ملا تو ہم سمجھ لیں گے کہ تم گرفتار کرلی گئی ہو۔ تب ہم دروازہ توڑ کر اندر داخل ہو جائیں گے اور تمہیں محافظوں کی گرفت سے چھڑا لائیں گے۔

    مچل: اور اسے وہیں قتل کردیں گے۔

    صدر: مچل! کیا تم ہماری رہنمائی کرو گے؟

    مچل: کیوں نہیں! ویرا دیکھنا کہیں ہاتھ نہ لرز جائے!

    ویرا: بیوقوف اپنے دشمن کوہلاک کرنا بھی کوئی مشکل بات ہے؟

    پرنس پال: (ایک طرف ہوکر) یہ نویں سازش ہے جس میں شریک ہورہا ہوں ان میں عام طورپرسازشیوں کوسائبیریا اور مجھے کوئی نیا اعزاز ملتا رہا۔

    مچل: یہ تمہاری آخری سازش ہوگی۔

    صدر: تو پھر ہم بارہ بجے خونی خنجرکے منتظرہوں گے!

    ویرا: ہاں! کاذب کے خون میں رنگا ہوا۔۔۔۔۔۔ میں اپنے وعدہ کو نہ بھولوں گی۔

    (سٹیج کے درمیان کھڑی ہو کر) اپنی فطرت کی ہلاکت حسن و عشق سے بیگانگی اور ازدواجی زندگی سے پرہیز، رحم وعفوسے ناآشنائی یہی حلف ہے۔۔۔۔۔۔ اسی حلف پر عمل ہوگا۔ معلوم ہوتا ہے آج میرے جسم میں خوفناک قاتلہ کی روح حلول کر گئی ہے۔ میں لوح دنیا پر اپنا نام کھود کردنیا کی بہادر عورتوں کی فہرست میں داخل ہو جاؤں گی۔ہاں جذبہ انتقام میری رگ رگ میں کروٹیں لے رہا ہے۔ جس نے عورت کے نازک ہاتھوں کو قوی بنا دیا ہے۔ خواہ تبسم اس کے ہونٹوں پر کھیل رہا ہو میرا ہاتھ ہرگز نہ کانپے گا۔ خواہ وہ محو خواب ہی کیوں نہ ہومیرا وار خطا نہ جائے گا۔ میرے بھائی زندان کی چار دیواری میں خوشی کے قہقہے بلند کرو کہ آج رات یہ نیا نویلا زار رنگے ہوئے جسم سے دوزخ میں داخل ہو کر اپنے باپ سے ہمکنار ہو جائے گا۔ہاں یہ زار غدار، کاذب، پیمان وفا سے منحرف، مجھ سے دھوکہ کرنے والا۔ انسان، سرپر تاج رکھنے والا محب وطن رو پہلی سکوں کی خاطر ہمیں بیچ دینے والا مکار ساتھی( اور جوش میں آکر) تیرا لباس ان شخصوں کے خون سے رنگا ہے، جو تیرا گیت گاتے ہوئے اس جہان سے رخصت ہوگئے۔ عوام کی شکستہ قبریں تیرا تخت۔ کانٹوں سے بنا ہوا تاج تیرے سر کی زینت ہے۔ مادر مصلوب! تیرے داہنے ہاتھ میں ظالم اور بائیں ہاتھ میں قاہر نے کیل ٹھونک رکھے تھے۔ تیرے پاؤں آہنی ہتھوڑوں سے کچلے جارہے ہیں۔ جب تو نے پیاس بجھانے کیلئے پادریوں سے پانی طلب کیا تو تجھے زہر آلود پیالہ پیش کیا گیا۔ تیرے پہلومیں تلوار گھونپ دی گئی۔ وہ تیرے غیر ختم، غم پرقہقہہ لگاتے رہے۔ اب اے آزادی! میں تیری قربان گاہ پر اپنے آپ کو خدمت کیلئے پیش کررہی ہوں( خنجرلہراتے ہوئے) اب وقت قریب ہے، تیرے مقدس ز خموں کی قسم! روس ضرور آزاد ہوگا۔

    (پردہ گرتا ہے)

    *****

    چوتھا ایکٹ

    منظر: زار کا خاص کمرہ۔ پشت پر ایک بڑی کھڑکی جس پر پردے لٹک رہے ہیں۔

    حاضرین: پرنس پیٹرووخ،بیرنراف، مارکوئس ڈی پاؤف رارڈ، کاؤنٹ رووالوف

    ّّّّّّّّّّّّ َََََََََََََََََََََََ

    پرنس پیٹر ووخ: نوجوان زار کی ابتداء خوب معلوم ہوتی ہے۔

    بیرن راف: (شانے ہلاک کر) تمام جوان زاروں کی اسی طرح ابتدا ہوا کرتی ہے۔

    کاؤنٹ رووالوف: اور انجام بدتر!

    مارکوئس ڈی۔پی: مجھے کوئی شکایت نہیں اس نے مجھ پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔

    پیٹرووخ: شاید آپ کو آرک اینگل نہیں بھیجا جارہا۔

    مارکوئس: جی ہاں! میری زندگی ایک لمحہ کیلئے بھی محفوظ نہ ہوتی۔

    (جنرل کو طمکن داخل ہوتا ہے)

    بیرن راف: جنرل ہمارے رومان پسند شہنشاہ کے متعلق کوئی خبر؟

    جنرل کوطمکن: لاریب وہ رومان پسند ہے۔ سات روز پہلے میں نے اسے ایکٹروں کی جماعت میں مصروف تماشا دیکھا اور آج اس فکر میں ہے کہ سائبیریا کے تمام قیدی جنہیں وہ سیاسی قیدی تصور کئے ہوئے ہے رہا کردیئے جائیں۔

    پیٹرووخ: سیاسی قیدی؟ ان میں سے نصف تو قاتلوں سے کچھ کم نہیں۔

    کاؤنٹ رووالوف: مگر ان کی رومان پسندی حد سے تجاوز کرگئی ہے۔ کل مجھ سے کہنے لگے کہ نمک کی اجارہ د اری ترک کردینی چاہئے۔ کیونکہ عوام کے لئے سستا نمک مہیا کرنا ہمارا فرض ہے۔

    مارکوئس ڈی۔پی: یہ کچھ بھی نہیں۔ آپ نے تو شاہی دعوتیں اس لئے ترک کردی ہیں کہ جنوبی صوبہ جات قحط کے شکار ہورہے ہیں۔

    (زار چپکے سے داخل ہوتا ہے اور ان کی گفتگو سنتا ہے)

    پیٹرووخ: عوام میں جس قدر زیادہ افلاس ہوگا اسی قدر بہتر ہے۔ افلاس نفس کشی کے لئے بہترین سبق خیال کیا گیا ہے۔

    بیرن راف: مجھے علم ہے۔

    جنرل کوطمکن: ان دنوں وہ پارلیمنٹ بنانے کی فکر میں ہے جس میں عوام کے مندوبین شامل ہوا کریں گے۔

    بیرن راف: گویا اس سے قبل بازاروں میں کافی شور نہ تھا۔ خیر ہم ان لوگوں کو ایک علیحدہ کمرہ دیں گے۔ حضرات! مگر ابھی اس سے بدحالات کا امکان ہے۔ وہ دولت عامہ کے شعبے میں مکمل تبدیلی کا خواہاں ہے۔ اس کے خیال میں عوام پر محاصب کا ناقابل برداشت بوجھ ہے۔

    مارکوئس ڈی۔پی: وہ ایسا نہیں کرسکتا۔آخر عوام ہیں کس لئے۔ اگر ان سے روپیہ نہ حاصل کیا جائے؟ ٹیکسوں کے ذریعے سے مجھے دفعتاً خیال آگیا کہ میری بیوی ہیرے کا نیا کنگن خریدنا چاہتی ہے۔ اس لئے کیا ہی اچھا ہو اگر آپ چالیس ہزار روبل کا کل تک بندوبست کردیں۔

    کاؤنٹ رووالوف: (بیرن راف کے کان میں) اسی قسم کا کنگن جو پچھلے ہفتے پرنس پال نے اسے دیا تھا۔

    پرنس پیٹرووخ: مجھے بھی ساٹھ ہزار روبل کی اشد ضرورت ہے۔ میرا لڑکا آج کل بہت مقروض ہے۔

    بیرن راف: باپ کے نقش قدم پر چلنے والا بیٹا!

    جنرل کا طمکن: آپ کو تو روپیہ ملتا ہی رہتا ہے۔ اگر مجھے مقررہ رقم سے ایک کوڑی زیادہ نہیں ملتی۔ کس قدر مصیبت ہے! میرے بھتیجے کی عنقریب شادی ہونے والی ہے اور مجھے شادی کے جملہ اخراجات کا انتظام کرنا ہے۔

    پرنس پیٹرووخ: تمہارا لڑکا تو مکمل ترک ہے۔

    جنرل کو طمکن: خیر کچھ بھی ہو شادی کے اخراجات ضرور بہم پہنچنے چاہئیں۔

    کاؤنٹ روولاف: میں شہری زندگی سے تنگ آگیا ہوں اور اب خیال ہے کہ گاؤں میں مکان مل جائے۔

    مارکوئس۔ڈی پی: میں دیہاتی زندگی سے اکتا گیا ہوں۔ چاہتا ہوں کہ شہر کی سکونت اختیار کی جائے۔

    بیرن راف: حضرات! ایسے خیالات بالکل مہمل ہیں۔

    پرنس پیٹرووخ: مگر میرے بیٹے کا قرض؟

    جنرل کوطمکن: میرے بھتیجے کی شادی؟

    مارکوئس ڈی۔پی: شہر میں رہائش کا ارادہ؟

    کاؤنٹ روولاف: دیہات میں مکان تعمیر کرنے کی تجویز؟

    بیرن راف: حضرات! ناممکن۔ روس سے وہ زمانہ گزر گیا۔ اس عہد کا تابوت آج اٹھنے والا ہے۔

    کاؤنٹ روولاف: تو پھر مجھے روز قیامت کا انتظار کرنا چاہئے۔

    پرنس پیٹرووخ: خراب بتائیے کیا تدبیر عمل میں لائی جائے۔

    بیرن راف: روس میں جب کبھی زار کے سرپر اصلاحات کا بھوت سوار ہوا تو ہم نے کیا کیا؟۔۔۔۔۔۔ کچھ بھی نہیں۔ آپ کو معلوم نہیں ہم بساط سلطنت کے سیاسی مہرے ہیں۔ خرد مند انسان عملی کاموں سے کوئی سروکار نہیں رکھا کرتے۔روس میں اصلاحات المناک صورت لئے اٹھا کرتی ہیں۔ مگر نتیجہ ہمیشہ مضحکہ خیز ہوتا ہے۔

    کاؤنٹ روولاف: کاش پرنس پال یہاں ہوتے! میرے خیال میں یہ لڑکا بہت ناشکرگزار ہے۔ اگر وہ چالاک وزیر بغیر اس کی رضا مندی کے اس کی تخت نشینی کا اعلان نہ کرتا۔ تو مجھے یقین ہے۔ اس نے اپنا تاج کسی کفش دوز کے سر پر رکھ دیا ہوتا۔

    پرنس پیٹرووخ: بیرن! کیا پرنس پال واقعی جلا وطن کردیا گیا؟

    بیرن راف: واقعی۔

    پرنس پیٹرووخ: مگر اس نے شہر چھوڑ دیا کیا؟

    بیرن راف: میرا تو یہی خیال ہے۔ باتوں باتوں میں اس نے ذکرکیا تھا کہ وہ پیرس جارہا ہے۔

    کاؤنٹ روولاف: تو پھر وہ رخصت ہوگیا نا!

    زار: (سامنے آکر) پرنس پال پیرس کیا کئی شہروں کی خاک چھانے گا۔

    بیرن راف: شیطان!

    زار: شیطان نہیں یہ خود زار ہے۔غدارو! دنیا میں کوئی بادشاہ ظالم نہ ہوتا اگر تم ایسے غداروں کا وجود صفحہ ہستی سے نابود ہوتا۔ سلطنتیں تم ایسی ٹھوس چٹانوں سے ٹکرا کر تباہ ہو جایا کرتی ہیں۔ ہماری مادر وطن روس کو اس قسم کے غیر فطری انسانوں کی ضرورت نہیں۔ اب تم اپنے کئے کی تلافی نہیں کرسکتے۔ وقت گزر چکا ہے۔ قبریں تمہارے ہاتھوں مرے ہوئے انسانوں کو اگل نہیں سکتیں۔ نہ پھانسی تمہارے ہلاک کردہ شہیدوں کو دوبارہ زندہ کرسکتی ہے۔ میری لعنت یہی ہوگی کہ تم زندہ رہو۔ لیکن اگر تم میں سے کوئی شخص ماسکو دیکھا گیا تو یاد رکھو سر تن سے جدا کردیا جائے گا۔

    بیرن راف: جہاں پناہ اس وقت اپنے باپ کی روایات کو زندہ کررہے ہیں۔

    زار: میں نے تمہیں جلا وطن کردیا ہے، تمہاری جائیدادیں عوام کے حق میں ضبط کرلی ہیں۔ جاؤ! اپنے اعزاز کو ساتھ لئے پھرو۔ بیرن! کیوں روس میں اصلاحات کا انجام ہمیشہ مضحکہ خیز ہوا کرتا ہے نا؟ پرنس پیٹر ووخ!تمہیں نفس کشی کے لئے ایک عمدہ موقع مل جائے گا۔ اور بیرن کیا کہہ رہے تھے کہ پارلیمنٹ محض گفتار کا مرکز ہوگی۔۔۔۔۔۔ خیر! ہر اجلاس کی روئیداد تم تک پہنچتی رہے گی۔

    بیرن راف: جہاں پناہ! یہ جلا وطنی کی تکلیف کو اور بھی بڑھا دے گی۔

    زار: ان اوراق کے مطالعہ کے لئے تمہارے پاس کافی وقت ہوگا۔ کیا بھول گئے تم چالاک سیاست دان ہو اور خرد مند انسان عملی کاموں سے سروکار نہیں رکھا کرتے۔

    پرنس پیٹرووخ: جہاں پناہ! یہ سب کچھ مذاق تھا۔

    زار: تو میں انہی بھونڈے مذاقوں کے لئے تمہیں جلا وطن کرتا ہوں۔ جاؤ راستہ پکڑو! اگر تمہیں زندگی درکار ہے توپہلی گاڑی سے ہی پیرس روانہ ہو جاؤ( وہ کمرے سے چلے جاتے ہیں) شکر ہے روس ان لوگوں کے دام فریب سے آزاد ہوا۔ ان گیدڑوں سے جو شیروں کی صورت اختیار کئے ہوئے ہیں۔ ان میں شجاعت نام تک کو بھی نہیں۔ مگر پیش نظر عوام کی تباہی وبربادی ہے۔ اگر روس پرنس پال اور ایسے اشخاص کے وجود سے پاک ہوتا تو میرا باپ ایک اچھا بادشاہ ہوتا اور اس طرح موت کے گھاٹ نہ اتارا جاتا آہ! یہ کس قدر حیرت افزا بات ہے کہ انسانی زندگی کا سب سے بڑا پہلو محض خواب ہوتا ہے۔ کونسل کا اجلاس عوام کی تباہی کیلئے مارشل لاء، گرفتاری، صحن میں چیخ، گولی کا نشانہ، میرے خون آلود ہاتھ اور پھر تاج و تخت بعض اوقات انسان زندگی کی حقیقی روح کے بغیر برسوں زندہ رہتا ہے۔ مگر دفعتاً زندگی کی تمام قوتیں بیدار ہو جاتی ہیں۔ میں ابھی سوچنے بھی نہ پایا تھا۔ میرے باپ کی دل خراش چیخیں ابھی میرے کانوں ہی میں تھیں کہ میں نے سر پر تاج اور بدن پر شاہی لباس محسوس کیا اور لوگوں کو اپنے تئیں بادشاہ کہتے پایا۔ اس وقت میں ان سب کو ٹھکرا سکتا تھا۔وہ سب میرے لئے مہمل اور بیہودہ تھیں۔ مگر اب کیا میں انہیں چھوڑ سکتا ہوں؟۔۔۔۔۔۔ آئیے کرنل آئیے( محافظ کرنل داخل ہوتا ہے)

    کرنل: جہاں پناہ! آج رات کیا صوت خاص مقرر فرماتے ہیں؟

    زار: صوت خاص؟

    کرنل: شاہی محلات کا پہرہ دینے والے محافظ سپاہیوں کیلئے جہاں پناہ!

    زار: جاؤ! انہیں رخصت کردو۔ مجھے ان کی کوئی ضرورت نہیں(کرنل چلا جاتا ہے)

    (زار میز پر پڑے ہوئے تاج کی طرف جاتا ہے) اس نمائشی کھلونے میں ایسی کون سی قوت موجود ہے جو اس کے پہننے والے کو مافوق البشر بنا دیتی ہے؟ ہاتھوں سے دلکش سلطنت کی باگ ڈور تھامنا، بازوؤں کو زمین کی انتہائی وسعتوں تک پھیلانا بے پایاں سمندر کو مسخر کرنا یہ ہے تاج پوشی۔ یہ ہے تاج کا پہننا، روس کا حقیر ترین غلام جو عوام سے خراج الفت وصول کرے مجھ ایسے تاج پوش سے بدر جہا بہتر ہے۔ تسخیر محبت کی ایک ادنیٰ مثال! اس زریں دنیا کی وسیع سلطنت محبت کے سامنے کچھ ہستی نہیں رکھتی آہ! اس محل میں مقید جاسوسوں کے نرغے میں مجھے ویرا کی کوئی خبر نہیں ہے۔ آج سے تین روز پہلے اس خوفناک حادثہ کے بعد جب میں نے اپنے تیءں اس وسیع خرابہ کا مالک پایا میں اس کی شکل تک نہیں دیکھ سکا آہ! اگر اسے ایک لمحہ کیلئے دیکھ سکوں تو اسے اپنی زندگی کا وہ پوشیدہ راز بتاؤں جس نے مجھے باوجود اس عہد کے کہ میں تاج پوشوں کیخلاف ایک طویل جنگ جاری رکھوں گا۔ جس نے مجھے یہ تاج قبول کرنے پر آمادہ کیا۔ آج رات وہاں اجلاس ہونے والا تھا جس کی اطلاع مجھے بھی کسی نامعلوم طریق سے کردی گئی تھی۔ مگر میں کیونکر جاتا؟۔۔۔۔۔۔ میں جو پیمان وفا سے منحرف ہوں(خادم آتا ہے)

    خادم: (چھوٹی عمر کا لڑکا) جہاں پناہ گیارہ بج چکے ہیں کیا آپ کی خواب گاہ میں پہلا پہرہ میرا ہوگا۔

    زار: خواب گاہ پر پہرہ کی ضرورت؟ ستارے میرے محافظ ہیں لڑکے۔

    خادم: جہاں پناہ کے مرحوم باپ کا حکم تھا کہ سوتے وقت ان کی حفاظت کی جائے۔

    زار: میرا باپ کا بوس کا شکار تھا۔ جاؤ! آرام کرو۔ نصف شب گزرچکی ہے۔ شب بیداری تمہارے سرخ رخساروں کو زرد کردے گی!( خادم زار کے ہاتھ پر بوسہ دینا چاہتا ہے) نہیں! نہیں ہمارے ایام طفولیت ایک ہی بازیگاہ میں بسر ہوتے ہیں دوست!۔۔۔۔۔۔ آہ! ایک ہی فضا میں سانس لینا مگر اس سے دور۔ شمع حیات گل ہوا چاہتی ہے۔ افق ایام سے سورج غروب ہوچکا ہے۔

    خادم: جہاں پناہ۔۔۔۔۔۔الیکسز۔۔۔۔۔۔ مجھے آج رات یہیں ٹھہرنے دیں۔ میں سمجھتا ہوں آپ کی جان خطرے میں ہے۔

    زار: خطرہ کیسا! جب میں نے اپنے دشمنوں کوروس سے باہر نکال دیا ہے؟۔۔۔۔۔۔ اپنی قسم آج بہت سردی ہے۔ ذرا انگیٹھی قریب لے آؤ۔ میں تھوڑی تاپونگا۔۔۔۔۔۔ اب جاؤ! مجھے آج رات بہت کچھ سوچنا ہے( سٹیج کے ایک طرف جاتا ہے اور پردہ اٹھا کرچاندنی رات میں ماسکو کا نظارہ کرتا ہے) سر شام کی برفباری میں ملبوس اور مہتاب کی زرد شعاعوں میں ملفوف، میرا شہر کس قدر سرد اور سفید دکھائی دے رہا ہے۔ مگر یخ بستہ روس کی کہر اور برف باری کے پہلومیں کیسے آتشیں دل پنہاں ہیں! آہ! اگر وہ مجھے ایک لمحہ کے لئے مل جائے تو اسے بتادوں کہ میں نے یہ تاج و تخت کیوں قبول کیا؟ کہیں وہ مجھ سے بدگمان تو نہیں؟۔۔۔۔۔۔ نہیں وہ کہہ رہی تھی کہ اسے مجھ پر اعتماد ہے۔ گو میں اپنے پیمان وفا کو توڑ چکا ہوں۔ تاہم وہ مجھے غدار خیال نہیں کرسکتی آج سخت سردی ہے۔ لاؤ میرا فرفل کہاں ہے) تھوڑی دیر آرام کرلوں۔ پھر ویرا کی تلاش میں جاؤں گا۔ خواہ مجھے جان ہی سے ہاتھ کیوں نہ دھونے پڑیں۔۔۔۔۔۔ لڑکے کیا میں تمہیں رخصت ہونے کو نہیں کہہ چکا؟ یا پھر میں ابھی سے اپنے اختیارات کام میں لاؤں جن سے مجھے سخت نفرت ہے؟ جاؤ جاؤ!۔۔۔۔۔۔ میں اسے دیکھے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ ایک گھنٹے تک گاڑی تیارہوگی۔ یعنی ہجر ووصال کے درمیان صرف ایک ساعت!۔۔۔۔۔۔ کوئلے جلنے کی کس قدر بو آرہی ہے!!(خادم چلا جاتا ہے اور زار انگیٹھی کے قریب ایک صوفے پر لیٹ جاتا ہے)

    (ویرا ایک سیاہ لباس میں ملبوس کمرے میں داخل ہوتی ہے)

    ویرا: محو خواب!۔۔۔۔۔۔خدا کارساز ہے۔ اب میرے ہاتھوں اسے کون بچا سکتا ہے۔ اس جمہوریت پسند انسان کو جس نے بادشاہی قبول کرلی۔ عوام کے دلدادہ کو جس نے سر پر تاج رکھ لیا۔ غدار کو جس نے ہمارے ساتھ اس طرح دغا کی؟ مچل درست کہتا تھا۔ اسے نہ عوام سے محبت ہے نہ مجھ سے(زار پر جھکتی ہے) آہ! ان شیریں لبوں میں اس قسم کا زہرہلا ہل کیوں ہے؟۔۔۔۔۔۔ کیا بال کم سنہری تھے جو طلائی تاج کی ضرورت محسوس ہوئی؟۔۔۔۔۔۔ خیر! اب وقت انتقام ہے عوام کی آزادی کی ساعت آن پہنچی ہے۔ میرے بھائی تیرا بدلہ لینے میں اب کچھ دیر باقی نہیں۔ گو میں اپنی فطرت کوہلاک کرچکی ہوں۔ مگر مجھے معلوم نہ تھا کہ ہلاک کرنا اس قدر سہل ہے۔ ایک ضرب۔۔۔۔۔۔ اور بس خاتمہ! اس کے بعد میں نہایت اطمینان سے اپنے رنگے ہوئے ہاتھ دھو سکتی ہوں(وار کیلئے خنجر اٹھاتی ہے)

    زار: (خواب سے بیدار ہوکرویرا کے دونوں ہاتھ پکڑ لیتا ہے) ویرا تو یہاں؟ میرا خواب بے بنیاد نہ تھا۔۔۔۔۔۔ مگر بتا تو سہی تین روز کیلئے مجھے تنہا کیوں چھوڑ گئی تھی؟ آہ! تجھے خیال ہے، میں غدار کاذب اور سلطنت کا مالک ہوں۔۔۔۔۔۔ یہ سب کچھ ہوں مگر تیری محبت کیلئے! ویرا! یہ صرف تیرے لئے تھا کہ میں نے پیمان وفا توڑ کر باپ کا تاج قبول کرلیا۔ یہ روس جس سے ہم دونوں محبت کر چکے ہیں تیرے قدموں پر رکھ دوں گا۔ زمین کے اس خطے کو تیرا پاانداز بنا دوں گا۔ یہ تاج تیرے سر کی زینت ہوگا۔ عوام ہمیں پیار کی نظروں سے دیکھیں گے ہم بھی ان پر محبت سے ہی حکومت کریں گے۔۔۔۔۔۔ محبت جو باپ کو بچوں سے ہوا کرتی ہے روس میں ہر شخص کو آزادی خیال اور آزادی گفتار حاصل ہوگی۔ میں نے ان بھیڑیوں کا خاتمہ کردیا ہے۔ جو ایک عرصے سے ہمیں گھیرے ہوئے تھے۔ سائبیریا سے تیرے بھائی کو واپس بلالیا ہے۔ اس کے علاوہ تمام غاروں اور قید خانوں کے سیاہ جبڑوں کو کھول دیا ہے۔ شاہی ہر کارہ ابھی راستے میں ہی ہوگا۔ ایک ہفتہ سے کم عرصہ تک تیرا بھائی اور اس کے ہمرا ہی قیدی اپنے اپنے گھر پہنچ جائیں گے۔ لوگ آزاد ہوں گے۔۔۔۔۔۔ اور اب بھی آزاد ہیں۔ میں اور تم اس عظیم سلطنت کے بادشاہ اور ملکہ اپنے دلوں میں عوام کی محبت لئے ان میں کھلے بندوں پھریں گے۔ جب انہوں نے مجھے یہ تاج پیش کیا تو میں نے اسے ٹکرا دیا ہوتا اگر مجھے تیری محبت کا خیال نہ ہوتا۔۔۔۔۔۔ ویرا تیری محبت کا! روس میں لوگوں کا رواج ہے کہ وہ اپنے محبوبوں کی خدمت میں تحائف پیش کر تے ہیں ۔میں نے بھی خیال کیا کہ اپنی حسینہ کی خدمت میں ایک وسیع مملکت ایک دنیا کا حقیرتحفہ پیش کروں۔ ویرا! یہ تیرے لئے۔۔۔۔۔۔ صرف تیرے لئے تھا کہ میں نے یہ تاج پہننا قبول کیا۔ بادشاہ بھی بنا تو صرف تیرے لئے۔ آہ! میں نے اپنے حلف سے بڑھ کر تجھ سے محبت کی۔۔۔۔۔۔ مگر تو خاموش کیوں ہے! تجھے مجھ سے محبت نہیں!۔۔۔۔۔۔ آہ! تجھے مجھ سے محبت نہیں! تو مجھے ضرور کسی سازش سے خبردار کرنے آئی ہے۔۔۔۔۔۔ مگر تیرے بغیر زندگی کا کیا لطف(سازشی باہر بازار میں کچھ گنگناتے ہیں)

    ویرا: آہ! تباہی!بربادی!!

    زار: نہیں! ویرا تو یہاں محفوظ ہے۔ صبح ہونے میں صرف پانچ گھنٹے باقی ہیں۔ پھر کل میں تجھے عوام کے روبرو لے چلوں گا۔۔۔۔۔۔

    ویرا: کل۔۔۔۔۔۔!

    زار: تیری تاج پوشی کی رسم خود اپنے ہاتھوں سے اس کلیسا میں ادا کروں گا جسے میرے آباؤ اجداد نے تعمیر کرایا تھا۔

    ویرا: (زار سے زبردسی ہاتھ چھڑا کر) میں انقلاب پسند ہوں۔ تاج نہیں پہن سکتی۔

    زار: (ویرا کے قدموں پر گر کر) میں بادشاہ نہیں، محض ایک لڑکا ہوں جو اپنے حلف اور عزت سے بڑھ کرتجھے پیار کرتا ہے۔ عوام کا دلدادہ ہونے سے محب وطن بن سکتا تھا۔ مگر تیری محبت ہی کی وجہ سے غدار ہوں۔۔۔۔۔۔ آؤ! یہاں سے چلے جائیں اور عوام میں سکونت اختیار کرلیں۔ میں تاج پوش نہیں! کسی دہقان اور غلام کی طرح تیرے لئے محنت مشقت کروں گا! آہ! خدا کے لئے تو بھی مجھ سے تھوڑی سی محبت کر!!

    (سازشی بازار میں بول رہے ہیں)

    یہ صرف ہوا اور بارش کا شور تھا۔۔۔۔۔۔ رات بہت طوفانی ہے۔(سازشی باہر بازار میں بولتے ہیں)

    ویرا: ایسا ہی ہوگا! آہ مگر تمہارے محافظ کہاں ہیں؟۔۔۔۔۔۔ تمہارے محافظ کہاں ہیں؟

    زار: کیوں؟ اپنے اپنے ٹھکانوں پر ہوں گے۔۔۔۔۔۔ میں تلوار میں گھرا ہوا نہیں رہ سکتا۔

    عوام کی محبت بادشاہ کی بہترین محافظ ہے۔

    ویرا: عوام کی محبت!

    زار: پیاری تم یہاں محفوظ ہو۔ یہاں پر تمہیں کوئی گزند نہیں پہنچا سکتا۔ آہ! مجھے معلوم تھا کہ تمہیں مجھ پر اعتماد ہے۔۔۔۔۔۔ یہی تم نے ایک دفعہ کہا تھا۔

    ویرا: مجھے اعتماد ضرور تھا۔۔۔۔۔۔ آہ پیارے! ماضی دھندلے خواب کی طرح معلوم ہوتا ہے جس سے ہماری روحیں بیدار ہوئی ہیں۔۔۔۔۔۔ آخر کار صحیح زندگی مل گئی۔

    زار: ہاں! حقیقی زندگی؟

    ویرا: ہماری سہاگ کی رات! آہ مجھے آج کی رات حسین جام الفت پی لینے دو۔ نہیں! پیارے ابھی نہیں، ابھی نہیں کس قدر جلد ہے۔ لیکن مجھے معلوم ہوتا ہے کہ فضا راگنیوں سے معمور ہے۔۔۔۔۔۔ یہ نغمہ کسی آتش نفس بلبل کا ہے جو اپنا آشیانہ چھوڑ کر ہم محبت کرنے والوں کے پاس چلی آئی ہے۔۔۔۔۔۔ یہ صدا بلبل کی ہے۔۔۔۔۔۔ کیا تم نہیں سن رہے؟

    زار: آہ پیاری! میرے کان بجز تیری نقرئی آواز کے دنیا کی تمام شیریں آوازوں کے لئے بہرے ہیں۔ اور میری آنکھیں تیرے علاوہ تمام حسین چیزوں کے لئے اندھی ہیں ۔۔۔۔۔۔ ورنہ میں اس بلبل کا نغمہ نہ سنتا اور طلائی کرنوں والے آفتاب کو مشرق سے حسد کے مارے چھپ چھپ کر طلوع ہوتے نہ دیکھتا۔ اس لئے کہ تو اس سے کہیں حسین ہے۔

    ویرا: مگر کاش تم نے اس بلبل کو سنا ہوتا۔۔۔۔۔۔ میرے خیال میں وہ پھر کبھی نہیں گائے گی۔

    زار: یہ بلبل نہیں بلکہ خود محبت انتہائے مسرت میں راگ الاپ رہی ہے۔ کہ تو اس کے پرستش کرنے والوں میں داخل ہوگئی ہے(گھڑی بارہ بجانا شروع کرتی ہے) پیاری سنو! یہ محبت کرنے والوں کی ساعت ہے۔ آؤ! باہر چل کر میناروں کو نصف شب کا پیغام دہراتے سنیں۔ ہماری شب عروسی!۔۔۔۔۔۔ یہ کیا؟۔۔۔۔۔۔ یہ کیا؟

    (سازشی بازار میں باآواز بلند پکارتے ہیں)

    ویرا: (اس کے پہلو سے نکل کر سٹیج کی طرف بھاگتی ہے) براتی ابھی سے یہاں آگئے ہیں!۔۔۔۔۔۔ہاں! تمہیں خونیں نشان ضرور ملے گا(اپنے سینے میں خنجر بھونک لیتی ہے) تمہیں نشان ضرور ملے گا(کھڑکی کی طرف بھاگتی ہے)

    زار: (کھڑکی اور ویرا کے درمیان کھڑا ہو جاتا ہے۔ اور اس کے ہاتھ سے خنجر چھین لیتا ہے)ویرا!

    ویرا: (زار سے چمٹتے ہوئے) مجھے خنجر واپس دے دو! مجھے خنجر واپس دے دو! بازار میں ایسے شخص موجود ہیں۔ جو تمہاری جان کے طالب ہیں! تمہارے محافظ تمہیں دھوکہ دے گئے ہیں!۔۔۔۔۔۔ یہ خونی خنجر نشان ہے کہ تم مر گئے ہو۔(بازار میں سازشی شور کرنا شروع کردیتے ہیں) آہ! ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرنا چاہئے! خنجر کو باہر پھینک دو! باہر پھینک دو! اب مجھے کوئی چیز نہیں بچا سکتی۔ خنجر زہر میں بجھا ہوا تھا۔ موت ابھی سے میرے دل میں کروٹیں لے رہی ہیں۔

    زار: (خنجر کو ویرا کی گرفت سے دور کرتے ہوئے)موت میرے دل میں بھی سرایت کرچکی ہے۔۔۔۔۔۔ہم اکٹھے مریں گے۔

    ویرا: آہ پیارے! پیارے۔۔۔۔۔۔مجھ پر رحم کرو۔ بھیڑیئے تمہارے تاک میں ہیں۔ تمہیں آزادی۔۔۔ روس۔۔۔ میرے لئے زندہ رہنا چاہئے! آہ! تم مجھ سے محبت نہیں کرتے۔ تم نے ایک دفعہ مجھے سلطنت پیش کی تھی۔ اب یہ خنجرمجھے دے دو۔ ۔۔۔۔۔۔ میری موت تمہاری زندگی کی خاطر۔۔۔۔۔۔یہ کون سی بڑی بات ہے۔

    زار: موت کی تلخی میرے لئے اب کچھ اثر نہیں رکھتی۔

    ویرا: آہ! وہ دروازہ توڑ کر اندر داخل ہورہے ہیں! دیکھو تمہارے پیچھے یہ کون خونی آدمی کھڑا ہے۔(زار ایک لمحہ کے لئے پیچھے مڑ کر دیکھتا ہے) آہ!

    (ویرا خنجر چھین کر پھینک دیتی ہے)

    سازشی: (بازار میں) زندہ باد عوام۔۔۔۔۔۔

    زار: یہ تم نے کیا کیا!

    ویرا: روس کو بچا لیا

    (مرجاتی ہے)

    (پردہ گرتا ہے)

    ڈرامہ:آسکر وائیلڈ

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے