Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

زار اور اس کے وزراء کے نام کھلی چٹھی

لیو ٹالسٹائی

زار اور اس کے وزراء کے نام کھلی چٹھی

لیو ٹالسٹائی

MORE BYلیو ٹالسٹائی

    ’’پھر وہی قتل کی وارداتیں، پھر وہی بدامنیاں پردۂ ظہور پر آئیں گی۔ بازاروں میں پھر وہی کشت و خون ہوگا۔ ایک جانب مقدمے، خوف و ہراس، جھوٹے الزامات، دھمکیاں اور غصہ ہوگا۔ دوسری طرف انتقام کی پیاس، نفرت اور قربانیوں کے لیے جدوجہد ہوگئی۔ اب پھر روسی قوم دو حصوں میں منقسم ہو کر عظیم سے عظیم جرائم کا ارتکاب کرنے پر آمادہ ہے۔

    بہت ممکن ہے کہ یہ بدامنیاں جو اب رونما ہوئی ہیں، تشدد سے دب سکیں۔ مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی ممکن ہے کہ پولیس اور سپاہیوں کے وہ دستے جن پر حکومت کو اتنا اعتماد ہے، یہ محسوس کرتے ہوئے کہ وہ برادر کشی ایسے بھیانک جرم کا ارتکاب کرنے پر آمادہ کیے جارہے ہیں، حکم کی تعمیل کرنے سے یکسر انکار کردیں۔

    اگر موجودہ بدامنی دبا دی جائے توبھی شورش کی آگ مکمل طور پر ہرگز بجھ نہیں سکتی۔ وہ انداز ہی اندر بھڑکتی رہے گی اور جلد یا بہ دیر پوری قوت سے باہر نکل کر پہلے سے کہیں زیادہ مصائب کا باعث ہوگی۔

    یہ بدامنی کیوں پیدا ہوئی ہے؟

    ایسی چیزیں کیوں رونما ہوں۔ جب ان کا بڑی آسانی سے انسداد کیا جاسکتا ہے؟ ہم آج، تم ان سب سے مخاطب ہیں جن کے ہاتھ میں اختیار ہے۔ زار کونسل آف سٹیٹ اور وزراء سے بلکہ ان کے رشتہ داروں تک سے، ان کے چچوں سے، بھائیوں سے، زار اور اس کے ان رفقا سے جو اس پر اثر ڈ ال سکتے ہیں، التجا کرسکتے ہیں۔ دشمنوں سے نہیں بلکہ ان بھائیوں سے ملتجی ہیں جورضا مندانہ یا غیر رضامندانہ طور پر ہم سے ایک ناقابل انقطاع رشتہ رکھتے ہیں اور اس طرح، وہ مصائب جن سے ہم دو چار ہوتے ہیں ان پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ کاش تم یہ محسوس کرو کہ تم یہ مصائب دورکرنے کی قدرت رکھتے ہوئے بھی ایسا کرنے میں متامل رہے ہو اور اس کا مضر اثر ہم سے کہیں زیادہ تم پر ہوگا۔ ہم درخواست کرتے ہیں کہ ایسا طرز عمل اختیار کرو جس سے موجودہ رفتارِ واقعات رُک جائے۔

    یہ تمہار ایاتم میں سے اکثر افراد کا خیال ہے کہ یہ شورش صرف اس لئے وقوع پذیر ہوئی کہ زندگی کی عمومی رو میں چند ایسے شورش پسند وغیر مطمئن لوگ موجود ہیں جو اس نظام میں خلل ڈالنا چاہتے ہیں اور یہ کہ اس غلطی کے صرف عوام ذمہ دار ہیں۔ اس لیے ان شورش پسند وغیر مطمئن لوگوں کو دبا دینا چاہئے۔ پھر سب باتیں درست ہو جائیں گی اور کسی خاص تبدیلی کی ضرورت محسوس نہ ہوگی۔ اگر واقعی یہ بدامنی شریر اور تکلیف دہ لوگوں ہی کی پیدا کردہ ہے توپھر ضرورت اس امر کی ہے کہ ان لوگوں کو پکڑ پکڑ کر قید خانوں میں ڈال دیا جائے اور انہیں عبرت ناک سزائیں دی جائیں۔ اس طرح ان اصحاب کے نقظ ء نظر کے مطابق بدامنی دور ہو جائے گی۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ تیس سال سے کچھ زائد عرصے کے دوران میں ایسے ہزاروں لوگ پکڑے گئے ہیں۔ سپردِ زنداں کیے گئے ہیں، انہیں سزائیں دی گئی ہیں، جلا وطن کردیا گیا ہے، مگر پھر بھی ان کی تعداد برابر بڑھ رہی ہے اور اضطراب موجودہ حالات کے اندر نہ صرف پیدا ہورہا ہے بلکہ یہ بڑھ رہا ہے حتیٰ کہ یہ مزدور جماعت کے ہر فرد کے سینے تک جا پہنچا ہے۔ دوسرے الفاظ میں قوم کی سب سے زیادہ تعداد رکھنے والی جماعت مضطرب ہو چکی ہے۔

    ظاہر ہے کہ یہ بدامنی شر پسند لوگوں کی پیدا کردہ نہیں بلکہ اس کی وجہ کچھ اور ہی ہے۔ تمہیں۔۔۔۔۔۔ حکومت کے اربابِ حل و عقد کوMinisters of the Interior کے اس تازہ اعلان سے کہ پولیس کو امن قائم رکھنے کے لیے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے گولی چلانی چاہیے قطع نظر کرکے موجودہ مسئلہ پر پورا غور کرنا چاہیے۔اگر تم ایک لمحے کے لئے بھی غور کرو تو تم پر واضح ہو جائے گا کہ لوگوں میں اضطراب پیدا کرنے والی وہ کیا چیز ہے جو ان تمام بدامنیوں کا جو روس کے طول و عرض میں رونما ہورہی ہے سرچشمہ ہے؟ بات یہ ہے کہ چونکہ بدقسمتی سے ایک زار جس نے غلاموں کو آزاد کردیا تھا ایک ایسی جماعت کے چند افراد کے ہاتھوں قتل ہوگیا تھا جو اسی کو قوم کی بہترین خدمت تصور کرتے تھے۔ اس لیے حکومت نے مطلق العنانی کو ترک کرکے لیے نے کے بجائے اسی جابرانہ رویے کو برقرار رکھا۔ اس خیال سے کہ حفظ امن کا راز محض جبر و تشدد میں مضمر ہے۔ حکومت بیس سال سے عوام اور ان کے مطالبات سے دور دور رہنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔

    یہ بات ظاہر ہے کہ اس بدامنی کا باعث شورش پسند لوگ نہیں بلکہ تم خود ہو۔۔۔ تم حکام جو صرف اپنے انفرادی امن کے خواہاں ہو۔ اس وقت اس بات کی ضرورت نہیں کہ تم ان دشمنوں سے بچنے کی تدابیر عمل میں لاؤ جو تمہیں گزند پہنچانا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔۔ تمہیں کوئی گزند پہنچانا نہیں چاہتا، مطمئن رہو۔۔۔۔۔۔ بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ تم اس عام اضطراب کی اہمیت محسوس کرکے اسے دور کرنے کی کوشش کرو۔ انسان، دشمنی اور منافقت کا کبھی خواہش مند نہیں ہوسکتا۔ وہ اپنے ہم جنس افراد کے ساتھ خلوص و محبت کی زندگی بسر کرنا زیادہ پسند کرتا ہے۔

    اگر وہ اب غیر مطمئن ہیں اور تمہیں گزند پہنچانے کے خواہاں معلوم ہوتے ہیں تو اس کی صرف یہی وجہ ہے کہ ان کی نظروں میں کیا تم ایسے لوگ ہو جو نہ صرف ان سے بلکہ ان کے کروڑوں بھائیوں سے آزادی عمل اور آزادی فکر ایسی بڑی نعمتیں چھین رہے ہو۔

    ان لوگوں کا اضطراب رفع کرنے کے لیے ایک معمولی چیز کی ضرورت ہے اور یہ معمولی چیز دے ڈالنا تمہیں لازم ہے کیونکہ اس کے عطا کرنے پر تمہیں سکون حاصل ہوسکتا ہے۔ ہمیں سخت تعجب ہوگا اگر تم اس کے عطا کرنے میں پس و پیش کرو۔

    جن باتوں پر فی الفور عمل کرنے کی ضرورت ہے ان کا شمار بالکل مختصر ہے یعنی-:

    اولاً کا شتکا روں کو دوسر ے شہریوں کی ساتھ مساویانہ حقوق عطا کر دیے جائیں۔بناء علیہ

    الف :’’ زمسکی نشالنکس‘‘ کا احمقانہ ثالثی ادارہ (Arbitary Institution) ختم کردیا جائے۔

    ب: مزدوروں اور آجروں کے تعلقات کی نگرانی سے تعلق رکھنے والے ضوابط خصوصی منسوخ کردیئے جائیں۔

    ج: کاشتکار ایک مقام سے دوسرے مقام تک جانے کے لیے پروانہ راہداری حاصل کرنے کی تکلیف دہ مجبوری سے آزاد کردیئے جائیں۔ سرکاری عہدہ داروں کے لئے جائے قیام اور گھوڑے بہم پہنچانے کی ذمہ داری اور پولیس کی ملازمت کے لئے آدمی مہیا کرنے کی پابندی سے وہ آزاد قرار دے دیے جائیں۔

    د: انہیں اس غیر منصفانہ قانون کے شکنجے سے رہائی دلائی جائے جو انہیں دوسرے کاشتکاروں کے قرضوں کے مشترکہ طور پر ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ نیز انہیں اراضی زیر کاشت کے زرِ نذرانہ سے بھی نجات دلوا دی جائے کیونکہ جس وقت انھوں نے کاشت کے لیے زمین کا قبضہ حاصل کیا تھا اس وقت سے لے کر آج تک وہ اس سلسلے میں اس قدر روپیہ ادا کر چکے ہیں جو زمین کی مالیت سے کہیں زیادہ ہے۔

    بالخصوص سزائے تازیانہ کے لغو، قطعاً غیر ضروری اور شرمناک رواج کو ختم کردیا جائے۔ یہ ظلم انسانی آبادی کے صرف اس طبقے پر روا رکھا گیا ہے جو سب سے زیادہ محنت کش، بااخلاق اور تعداد کے لحاظ سے حدِ شمار سے باہر ہے۔ زراعت پیشہ طبقے کے حقوق کو( جسے ملک کی انسانی آبادی میں نمایاں اکثریت حاصل ہے) دوسرے طبقوں کے حقوق کے برابر کردینا خاص طور پر ضروری ہے کیونکہ دنیا کا کوئی ایسا قانونِ معاشرت دیرپا اور مستحکم نہیں ہوسکتا، جس کی موجودگی میں اکثریت کو مساویانہ حقوق سے بہرہ اندوز کرنے کی بجائے پست ترین حیثیت میں رکھا گیا ہو اور ساتھ ہی استثنائی قوانین کے شکنجے میں جکڑ دیا گیا ہو۔ سوسائٹی کا محکم اور قابلِ قبول ضابطہ صرف یہ ہے کہ مزدوری پیشہ اکثریت کو وہی حقوق حاصل ہوں جو دیگر شہریوں کو حاصل ہیں اور یہ کہ غریب مزدور شرمناک پابندیوں سے آزاد رکھے جائیں۔

    ثانیاً (The Statute of Incresed Protection) جو ملک کے تمام مروجہ قوانین کو منسوخ قرار دے کر عوام کو ان سرکاری عہدہ داروں کے حوالے کردیتا ہے جو عام طور پر بداخلاق، بیوقوف اور بے رحم ہوتے ہیں۔ اس کو فوراً منسوخ کردیا جائے۔ اس قانون کا تعطل خاص اہمیت رکھتا ہے کیونکہ قانون عامہ کی حرکت کو روک دینے سے خفیہ ریشہ دوانیوں اور جاسوسیوں کارواج ترقی پذیر ہو جاتا ہے۔ عام تشدد اور دہشت زدگی کے لیے شہ مل جاتی ہے۔ جس کا خمیازہ ان مزدوروں کو کھینچنا پڑتا ہے جو اپنے کارخانہ داروں یا زمینداروں سے اختلاف رکھتے ہیں( یہ مظالم ان علاقوں کے سوا جہاں یہ ضابطہ خصوصی جاری کردیا گیا ہے اور کہیں معرضِ ظہور میں نہیں آتے۔) ان امور سے قطع نظر اس ضابطے کی تنسیخ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اسی اور صرف اسی ہولناک طریق کار کی برکت سے سزائے موت۱ یہاں رائج ہوئی اور زیادہ سے زیادہ فروغ حاصل کرتی گئی۔ یقیناً یہ سزا انسانوں کو گنہگار بناتی ہے اور اہل روس کے مسیحی جذبات کے قطعاً مخالف ہے۔ ازمنہ ء ماضیہ میں روس کا ضابطہ تعزیرات اس سے بالکل خالی تھا۔ یہ سزا بذاتِ خود عظیم ترین جرم ہے جسے خدا اور ضمیر نے ممنوع قرار دیا ہے۔

    ثالثاً۔ تعلیم، معارف اور علوم کے راستوں میں جو رکاوٹیں حائل کردی گئی ہیں وہ قطعاً اٹھاوی جائیں۔ یہ لازم ہے کہ -:

    (الف) کوئی ایسا امتیاز روا نہ رکھا جائے جو عوام کے کسی طبقے کے لئے حصول تعلیم کے معاملے میں سدِ راہ ہو۔ ان تمام پابندیوں کا خاتمہ کردیا جائے جن کا نشانہ خاص طور پرزراعت پیشہ طبقوں کو بننا پڑتا ہے۔(عام پسند منشورات، مدارس اور کتب کے خلاف یہ کہہ کر امتناعی احکام جاری کردینا کہ یہ عامیوں کے لئے مضر ہیں، ناجائز ہے)

    (ب) جملہ مدارس کے دروازے ہر مذہب اور ہر ملت کے افراد کے لیے کھلے رہیں( یہودیوں کے لیے کوئی استثنا روا نہ رکھا جائے۔انہیں نامعلوم وجوہ کی بنا پر اس حق سے محروم رکھا جاتاہے۔

    (ج) معلمین کو اس زبان کے استعمال کی اجازت نہیں جو سکول میں حاضر ہونے والے بچے بولتے ہیں۔اس پابندی کو دور کردیا جائے۔

    (د) سب سے بڑھ کر یہ کہ ہر قسم کے پرائیویٹ مدارس و مکاتب کے اجرا و قیام کی اجازت ہر اس۲ شخص کو دی جائے جو اپنے تیءں ترقی تعلیم کے لئے وقف کرنا چاہے۔

    تعلیم اور معارف کو ان تمام پابندیوں سے جو آج کل عائد ہیں آزاد رکھنا ضروری ہے۔ اس لیے کہ یہی محنت پیشہ لوگوں کو اس ناواقفیت کی قید سے آزاد نہیں ہونے دیتیں جو آج کسانوں پر پابندیاں عائد کرنے کے لیے حکومت کوعذر یا حربہ کا کام دے رہی ہیں۔ تعلیم کے معاملے میں محنت کش طبقوں کو حکومت کی حائل کردہ رکاوٹوں سے آزاد کردینا، ان تمام علوم کی تحصیل کا سہل ترین اور تیز ترین ذریعہ ہوگا جن کی عوام کو ضرورت ہے اور جو اس علم کا نعم البدل ہیں، جسے حاصل کرنے پر وہ آج مجبور کیے جاتے ہیں۔

    درسگاہوں میں اصحاب اقتدار کی غیر تسلی بخش روش کے باعث آج طلبہ کے درمیان جو ہنگامے رونما ہورہے ہیں، وہ پرائیویٹ سکولوں کے اجراء اور پرائیویٹ اشخاص کو ان کا نظم و نسق قائم رکھنے کی آزادی مل جانے کے بعد ختم ہو جائیں گے۔ اگر پرائیویٹ سکولوں اور کالجوں کے اجراء کی راہ میں رکاوٹیں حائل نہ ہوتیں تو وہ نوجوان جو سرکاری درسگاہوں کے نظم و نسق سے غیر مطمئن ہیں ہنگامہ آراء ہونے کی بجائے اس پرائیویٹ مکتب میں جا داخل ہوتے جو ان کی ضروریات کے لحاظ سے مناسب ہوتا۔ چوتھی اور آخری چیز جو ان سب سے ضروری ہے یہ ہے کہ مذہبی معاملات کو تمام قیود سے آزاد کردیا جائے۔ یہ ضروری ہے کہ:

    (الف) وہ تمام قوانین منسوخ کردیئے جائیں جو حکومت کے قائم کردہ کلیسا سے علیحدگی اختیار کرنے والوں کو مجرموں کی طرح مستوجب سزا قرار دیتے ہیں۔

    (ب) ہر قسم کے عقائد رکھنے والوں کو اس امر کی اجازت ہو کہ وہ گرجے، معبد اور عبادت کے مرکز کھول سکیں اور انہیں قائم رکھ سکیں۔

    (ج) مذہبی جلسوں کے انعقاد اور مذہبی عقائد کی تبلیغ کی اجازت عام ہو۔

    (د) مختلف عقائد کے پیروؤں کے راستے میں ایسی کوئی رکاوٹ نہ ہو جس کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کو دینی تعلیم نہ دلا سکیں۔

    اس بات کی اہمیت ظاہر ہے۔ تاریخ اور سائنس کی روشنی میں یہ حقیقت واضح ہوچکی ہے اور ویسے بھی یہ امر مسلم ہے کہ مذہبی تشدد مفید ثابت نہیں ہوا کرتا بلکہ اس کا الٹا اثر یہ ہوتا ہے کہ جس چیز کا مٹانا مقصود ہو وہ اور مستحکم ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی حقیقت ہے کہ مذہب کے معاملے میں حکومت کے ایجا دو اختراع ان مضر ترین اور مکروہ ترین ریاکاریوں کا سرچشمہ بن کر رہتے ہیں جن کی حضرت مسیح نے سخت مذمت کی ہے۔ ان تمام حقائق سے قطع نظر معتقدات میں حکومت کا دخل ہر اس شخصی اور اجتماعی کوشش کو جو اتحادِ باہمی کے مبارک اور بلند مقصد کی راہ میں کی جاتی ہے، روک دیتا ہے۔ واضح رہے کہ اتحاد کی غرض و غایت اس سے پوری نہیں ہوسکتی کہ تمام انسانوں کو جبراً اور نااممکن طور پر ایک ہی خارجی عہد کا پابند کردیا جائے اور ساتھ ہی ان کے دماغ میں یہ چیز گھسیڑ دی جائے کہ یہی ایک عقیدہ ہے جو خامیوں سے پاک ہے بلکہ اس مقصد کے حصول کا طریقہ صرف یہ ہے کہ تمام عالم انسانی صداقت کی طرف ترقی کرے کیونکہ صرف صداقت ہی فی الواقع بنی نوع انسان کو متحد کرسکتی ہے۔

    ہمارا یقین ہے کہ یہی وہ جائز اور آسانی کے ساتھ دائرہ احساس میں آجانے والی خواہشیں ہیں جو اہل روس کی نمایاں اکثریت کے دل میں ہیں۔ لاریب ان تجاویز کو جامہ عمل پہنا دینے سے عوام کا اضطراب مبّدل بہ سکون ہو جائے گا اور انہیں ان ہولناک شدائد سے( نہیں بلکہ ان سے بھی بدتر جرائم سے) نجات مل جائے گی جو لامحالہ جانبین سے سرزد ہو کر رہیں گے۔

    اگر حکومت اپنے تیءں صرف ہنگامے فرو کرنے میں مصروف رکھے اور ان ہنگاموں کے اسباب و علل کو نظر انداز کردے تو اس کا یہ طرز عمل کسی طرح قرینِ دانش نہ ہوگا۔

    ہم آپ سب سے، زار سے، وزراء سے، کونسل آف سٹیٹ اور پریوی کونسل کے ارکان سے، ان تمام حضرات سے جو زار کی مصاحبت میں ہیں اور عمومی حیثیت میں ان سب سے جو برسر اقتدار ہیں، اپیل کرتے ہیں کہ وہ قوم کو اطمینان کی زندگی سے بہرہ مند کرانے اور اسے شدائد جرائم کی لعنتوں سے آزاد رکھنے میں ہمارا ہاتھ بٹائیں۔

    ہم آپ کو ایک جماعتِ اعدا سمجھ کر یہ اپیل نہیں کررہے ہیں بلکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ بالآخر زمانہ آپ کو ہمارا ہم آہنگ ہوجانے پر مجبور کردے گا اور ہمارا موجودہ مفروضہ بعد میں صحیح ثابت ہوگا کہ آپ ہمارے رفیق کار اور بھائی ہیں۔

    یہ تو ہو نہیں سکتا کہ انسانوں کی کسی سوسائٹی یا انجمن میں باہمی مفاہمت سے کوئی ایسی قرارداد منظور ہو جائے تو جو ایک فریق کے لئے تو باعث مسرت ہو اور دوسرے کے لیے موجبِ زحمت۔ بالخصوص یہ تو قطعاً امکان سے باہر ہے کہ باہمی مفاہمت کی قرارداد کے باعث زحمت میں مبتلا ہوجانے والا گروہ اکثریت پر مشتمل ہو ایسی مفاہمت مقبول اور ہمہ گیر صرف اسی صورت میں ہو سکتی ہے کہ یہ سب سے زیادہ جفاکش اور سب سے زیادہ محنتی عنصر کے لئے موجب خیر ہو کیونکہ یہی عنصر ساری سوسائٹی کی جان ہے۔

    پس آپ اس اکثریت کا درجہ بلند کرنے کی غرض کے پیش نظر ہمارا ہاتھ بٹائیے اور اس امر میں جو قوم کی اکثریت کی آزادی اور ذہنی ترقی کا ضامن ہے، ہمیں مدد دے کر خود اپنی حیثیت کے محفوظ و مستحکم رکھنے کا بندوبست کیجیئے

    یہ لیوطالسطائی کا نوشتہ ہے جس نے اسے قلم بند کرتے ہوئے نہ صرف ذاتی خیالات کے اظہار کی کوشش کی ہے بلکہ اس میں بہترین، مخیر ترین، قطعاً بے غرض اور غیر معمولی عقل کے انسانوں کی آرا و افکار کا خلاصہ پیش کردیا ہے۔ یہ تمام حضرات ان باتوں کے خواہشمند ہیں۔‘‘

    ۱۵مارچ ۹۰۱ ۱ ؁ ء

    *****

    حواشی

    ۱۔ فرانسیسی انشا پرداز وکٹر ہیوگو بھی سزائے موت کے فتوے کو عدل و انصاف کی رو سے غداری بتاتا ہے۔ تنسیخ سزائے موت کے معاشری و مجلسی اسباب

    کے لیے ہیوگو کی تصنیف’’سرگزشت اسیر ملاحظہ فرمائیں جس کا راقم الحروف ترجمہ کرچکا ہے۔

    ۲۔ طالسطائی خود ایک سکول کی بنیاد رکھنا چاہتا تھا، جسے اس نے بعد ازاں پرائیویٹ طور پر جاری کیا۔(مترجم)

    *****

    کہانی:طالستائی

    مأخذ:

    Manto Ke Ghair Mudavvan Tarajim (Pg. منٹو کے غیر مدون تراجم)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے