aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تعاون

MORE BYسعادت حسن منٹو

    چالیس پچاس لٹھ بند آدمیوں کا ایک گروہ لوٹ مار کے لیے ایک مکان کی طرف بڑھ رہا تھا۔دفعتا اس بھیڑ کوچیر کر ایک دبلا پتلا ادھیڑ عمر کا آدمی باہر نکلا۔ پلٹ کراس نے بلوائیوں کو لیڈرانہ انداز میں مخاطب کیا، ’’بھائیو، اس مکان میں بے اندازہ دولت ہے۔ بےشمار قیمتی سامان ہے۔ آؤ ہم سب مل کر اس پر قابض ہو جائیں اور مالِ غنیمت آپس میں بانٹ لیں۔‘‘

    ہوا میں کئی لاٹھیاں لہرائیں۔ کئی مکے بھنچے اوربلند بانگ نعروں کا ایک فوارہ سا چھوٹ پڑا۔چالیس پچاس لٹھ بند آدمیوں کا گروہ دبلے پتلے ادھیڑ عمر کے آدمی کی قیادت میں اس مکان کی طرف تیزی سے بڑھنے لگا جس میں بے اندازہ دولت اور بے شمار قیمتی سامان تھا۔

    مکان کے صدر دروازے کے پاس رک کر دبلا پتلا آدمی پھر بلوائیوں سے مخاطب ہوا، ’’بھائیو، اس مکان میں جتنا مال بھی ہے۔ سب تمہارا ہے، لیکن دیکھو چھینا جھپٹی نہیں کرنا۔۔۔ آپس میں نہیں لڑنا۔۔۔آؤ۔‘‘

    ایک چلایا، ’’دروازے میں تالا ہے۔‘‘

    دوسرے نے بآواز بلند کہا، ’’توڑ دو۔‘‘

    ’’توڑ دو۔۔۔ توڑ دو۔‘‘

    ہوا میں کئی لاٹھیاں لہرائیں، کئی مکے بھنچے اور بلند بانگ نعروں کا ایک فوارہ سا چھوٹ پڑا۔

    دبلے پتلے آدمی نے ہاتھ کے اشارے سے دروازہ توڑنے والوں کو روکا اور مسکرا کر کہا، ’’بھائیو ٹھیرو۔۔۔ میں اسے چابی سے کھولتا ہوں۔‘‘

    یہ کہہ کر اس نے جیب سے چابیوں کا گچھا نکالا اور ایک چابی منتخب کرکے تالے میں ڈالی اور اسے کھول دیا۔ شیشم کا بھاری بھر کم دروازہ ایک چیخ کے ساتھ وا ہوا تو ہجوم دیوانہ وار اندرداخل ہونے کے لیے آگے بڑھا۔ دبلے پتلے آدمی نے ماتھے کا پسینہ اپنی آستین سے پونچھتے ہوئے کہا، ’’بھائی، آرام آرام سے، جو کچھ اس مکان میں ہے سب تمہارا ہے پھر اس افراتفری کی کیا ضرورت ہے؟‘‘

    فوراً ہی ہجوم میں ضبط پیدا ہوگیا۔ ایک ایک کرکے بلوائی مکان کے اندر داخل ہونے لگے لیکن جونہی چیزوں کی لوٹ شروع ہوئی پھر دھاندلی مچ گئی۔ بڑی بے رحمی سے بلوائی قیمتی چیزوں پر ہاتھ صاف کرنے لگے۔

    دبلے پتلے آدمی نے جب یہ منظر دیکھا تو بڑی دکھ بھری آواز میں لٹیروں سے کہا، ’’بھائیو، آہستہ آہستہ۔۔۔ آپس میں لڑنے جھگڑنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ نوچ کھسوٹ کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ تعاون سے کام لو۔ اگر کسی کے ہاتھ زیادہ قیمتی چیز آگئی ہے تو حاسد مت بنو۔ اتنا بڑا مکان ہے، اپنے لیے کوئی اور چیز ڈھونڈ لو۔ مگر ایسا کرتے ہوئے وحشی نہ بنو۔۔۔ مار دھاڑ کرو گے تو چیزیں ٹوٹ جائیں گی۔ اس میں نقصان تمہارا ہی ہے۔‘‘

    لٹیروں میں ایک بارپھر نظم پیدا ہوگیا۔ بھرا ہوا مکان آہستہ آہستہ خالی ہونے لگا۔

    دبلا پتلا آدمی وقتاً فوقتاً ہدایت دیتا رہا، ’’دیکھو بھیا یہ ریڈیو ہے۔۔۔ آرام سے اٹھاؤ، ایسا نہ ہو ٹوٹ جائے۔۔۔ یہ اس کے تار بھی ساتھ لیتے جاؤ۔‘‘

    ’’تہہ کرلو بھائی۔۔۔ اسے تہہ کرلو۔ اخروٹ کی لکڑی کی تپائی ہے۔۔۔ ہاتھی دانت کی پچی کاری ہے۔بڑی نازک چیز ہے۔۔۔ ہاں اب ٹھیک ہے!‘‘

    ’’نہیں نہیں۔۔۔ یہاں مت پیو۔ بہک جاؤ گے۔۔۔ اسے گھر لے جاؤ۔‘‘

    ’’ٹھہرو ٹھیرو، مجھے مین سوئچ بند کرلینے دو، ایسا نہ ہو کرنٹ کا دھکا لگ جائے۔‘‘

    اتنے میں ایک کونے سے شوربلند ہوا۔ چار بلوائی ریشمی کپڑے کے ایک تھان پر چھینا جھپٹی کررہے تھے ۔ دبلا پتلا آدمی تیزی سے ان کی طرف بڑھا اور ملامت بھرے لہجے میں ان سے کہا، ’’تم کتنے بے سمجھ ہو۔ چندی چندی ہو جائے گی ایسے قیمتی کپڑے کی۔ گھر میں سب چیزیں موجود ہیں۔ گز بھی ہوگا۔ تلاش کرو اور ماپ کر کپڑا آپس میں تقسیم کرلو۔‘‘

    دفعتاً کتے کے بھونکنے کی آواز آئی۔ ’’عف عف، عف‘‘ اور چشم زدن میں ایک بہت بڑا گدی کتا ایک جست کے ساتھ اندر لپکا اور لپکتے ہی اس نے دو تین لٹیروں کو بھنبھوڑ دیا۔ دبلا پتلا آدمی چلایا، ’’ٹائیگر۔ٹائیگر!‘‘

    ٹائیگر جس کے خوف ناک منہ میں ایک لٹیرے کا نام ہوا گریبان تھا، دم ہلاتا ہوا دبلے پتلے آدمی کی طرف نگاہیں نیچی کیے قدم اٹھانے لگا۔ کتے کے آتے ہی سب لٹیرے بھاگ گئے تھے۔ صرف ایک باقی رہ گیا تھا جس کے گریبان کا ٹکڑاٹائیگر کے منہ میں تھا۔ اس نے دبلے پتلے آدمی کی طرف دیکھا اور پوچھا،

    ’’کون ہو تم؟‘‘

    دبلا پتلا آدمی مسکرایا، ’’اس گھر کا مالک۔۔۔ دیکھو دیکھو۔۔۔ تمہارے ہاتھ سے کانچ کا مرتبان گر رہا ہے۔‘‘

    مأخذ:

    آتش پارے اور سیاہ حاشیے (Pg. 140)

    • مصنف: سعادت حسن منٹو
      • ناشر: ساقی بک ڈپو، دہلی
      • سن اشاعت: 1984

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے