Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آغاز آفرینش میں باغ عالم کا کیا رنگ تھا اور رفتہ رفتہ کیا ہو گیا

محمد حسین آزاد

آغاز آفرینش میں باغ عالم کا کیا رنگ تھا اور رفتہ رفتہ کیا ہو گیا

محمد حسین آزاد

MORE BYمحمد حسین آزاد

     

    سیر کرنے والے گلشنِ حال کے اور دوربین لگانے والے ماضی و استقبال کے، روایت کرتے ہیں کہ جب زمانہ کے پیراہن پر گناہ کا داغ نہ لگا تھا اور دنیا کا دامن بدی کے غبار سے پاک تھا تو تمام اولاد آدم مسرت عام اور بے فکری مدام کے عالم میں بسر کرتے تھے۔ ملک ملک فراغ تھا اور خسرو آرام رحم دل فرشتہ مقام گویا ان کا بادشاہ تھا۔ وہ نہ رعیت سے خدمت چاہتا تھا، نہ کسی سے خراج باج مانگتا تھا۔ اس کی اطاعت و فرمانبرداری اس میں ہوا ہوجاتی تھی کہ آرام کے بندے قدرتی گلزاروں میں گلگشت کرتے تھے۔ ہری ہری سبزہ کی کیاریوں میں لوٹتے تھے، آب حیات کے دریاؤں میں نہاتے تھے۔ ہمیشہ وقت صبح کا اورسدا موسم بہار کا رہتا تھا۔ نہ گرمی میں تہہ خانے سجانے پڑتے، نہ سردی میں آتش خانے روشن کرتے، قدرتی سامان اور اپنے جسموں کی قوتیں ایسی موافق پڑی تھیں کہ جاڑے کی سختی ہو یا ہوا کی گرمی، معلوم ہی نہ ہوتی تھی۔ 

    ٹھنڈے اور میٹھے پانی نہروں میں بہتے تھے۔ چشمے پر لوگ جھکتے اور منہ لگا کر پانی پیتے تھے۔ وہ شربت سے سوا مزا اور دودھ سے زیادہ قوت دیتے تھے۔ جسمانی طاقت قوت ہاضمہ کے ساتھ رفیق تھی۔ بھوک نے ان کی اپنی ہی زبان میں ذائقہ پیدا کیا تھا کہ سیدھے سادے کھانے اور جنگلوں کی پیداواریں رنگارنگ نعمتوں کے مزے دیتے تھے۔ آب وہوا قدرتی غذائیں تیار کرکے زمین کے دسترخوان پر چن دیتی تھی۔ وہ ہزار مقوی اور مفرح کھانوں کے کام دیتی تھی۔ صبا و نسیم کی شمیم میں ہوائی خوشبوؤں کے عطر مہک رہے تھے۔ بلبلوں کے چہچہے، خوش آواز جانوروں کے زمزمے سنتے تھے، خوبصورت خوبصورت چرند پرند آس پاس کلیل کرتے پھرتے تھے۔ جا بجا درختوں کے جھرمٹ تھے، انہی کے سایہ میں سب چین سے زندگی بسر کرتے تھے۔ یہ عیش آرام کے قدرتی سامان اس بہتات سے تھے کہ ایک شخص کی فراوانی سے دوسرے کے لئے کمی نہ ہوتی تھی اور کسی طرح ایک سے دوسرے کو رنج نہ پہنچتا تھا، سب کی طبیعتیں خوشی سے مالا مال اور دل فارغ البال تھے۔ 

    دیکھو اب انسان کی نیت میں فرق آتا ہے اور کیا جلد اس کی سزا پاتا ہے۔ اتفاقا ًایک میدان وسیع میں تختہ پھولوں کا کھلا کہ اس سے عالم مہک گیا، مگر بو اس کی گرم اور تیز تھی۔ تاثیر یہ ہوئی کہ لوگوں کی طبیعتیں بدل گئیں، اور ہر ایک کے دل میں خود بخود یہ کھٹک پیدا ہوئی کہ سامان عیش وآرام کا جو کچھ ہے میرے ہی کام آئے اور کے پاس نہ جائے۔ اس غرض سے اس گلزار میں گلگشت کے بہانے کبھی تو فریب کے جاسوس اور کبھی سینہ زوری کے شیاطین آکر چالاکیاں دکھانے لگے۔ پھر تو چندروز کے بعد کھلم کھلا ان کی ذریات یعنی غارت، تاراج، لوٹ مار آن پہنچی اور ڈاکے مارنے لگی۔ جب راحت و آرام کے سامان یوں پیدا ہونے لگے تو رفتہ رفتہ غرور، خودپسندی، حسد نے اس باغ میں آکر قیام کر دیا۔ ان کے اثر صحبت سے لوگ بہت خراب ہو گئے کیونکہ وہ اپنے ساتھ دولت کا پیمانہ لائے۔ 

    پہلے تو خدائی کے کارخانے فارغ البالی کے آئین اور آزادی کے قانون کے بموجب کھلے ہوئے تھے یعنی عیش وافر اور سامان فراواں جو کچھ درکار ہو، موجود تھا۔ اوراسی بے احتیاجی کو لوگ تو نگری کہتے تھے۔ پھریہ سمجھنے لگے کہ اگر ہمارے پاس ہرشئے ضرورت سے زیادہ ہو، اور ہمیں اس کی حاجت بھی ہو یا نہ ہو، لیکن تو نگر ہم جبھی ہوں گے جب کہ ہمسایہ ہمارا محتاج ہو۔ ہرچند اس بے چارے ضرورت کے مارے کو خرچوں کے کثرت اور ضرورتوں کی شدت سے زیادہ سامان لینا پڑا ہو۔ مگر انہیں جب ہمسایے خوشحال نظر آتے تھے تو جل جاتے تھے اور اپنے تئیں محتاج خیال کرتے تھے۔ جہاں لوٹ مار اورغارت و تاراج کا قدم آئے، وہاں احتیاج و افلاس نہ ہو تو کیا ہو۔ 

    اس بدنیتی کی سزایہ ہوئی کہ احتیاج اور افلاس نے بزرگانہ لباس پہنا اور ایک پیرزادے بن کر آئے۔ حضرت انسان کہ طمع خام کے خمیر تھے، خسرو آرام کی عقیدت کو چھوڑ کر ان کی طرف رجوع ہوئے۔ چنانچہ سب ان کے مرید اور معتقد ہو گئے اور ہر شخص اپنے تئیں حاجت مند ظاہر کرکے فخر کرنے لگا۔ مقام افسوس یہ ہے کہ اس بدنیت نحس قدم کے آنے سے ملک فراغ کا رنگ بالکل بدل گیا، یعنی انواع و اقسام کی حاجتوں نے لوگوں کو آن گھیرا۔ سال میں چار موسم ہو گئے۔ زمین بنجر ہو گئی، میوے کم ہونے لگے، ساگ پات اور موٹی قسم کے نباتات پر گزران ٹھہری۔ خزاں کے موسم میں کچھ برے بھلے اناج بھی پیدا ہونے لگے لیکن جاڑے نے بالکل لاچار کر دیا، کبھی کبھی قحط سالی کا ٹڈی دل چڑھ آتا۔ اسی لشکر میں وبا اور امراض غول کے غول بیماریاں اپنے ساتھ لے کر آتے اور تمام ملک میں پھیل جاتے۔ غرض عالم میں ایسا تہلکہ پڑا کہ اگر ملک فراغ کے انتظام میں نئی اصلاح نہ کی جاتی تو ایک قلم برباد ہو جاتا۔ سب دکھ تو سہہ سکتے تھے، مگر قحط کی مصیبت غضب تھی۔ چوں کہ یہ ساری نحوستیں احتیاج اور افلاس کی نحوست سے نصیب ہوئی تھیں۔ اس لئے سب اپنے کئے پر پچھتائے۔ 

    اب پچھتانے سے کیا حاصل ہے، ہاں ہمت کرو اورمحنت پر کمر باندھو۔ عالم کا رنگ بے رنگ دیکھ کر تدبیر اور مشورہ دو۔ تجربہ کار دنیا سے کنارہ کش ہو گئے تھے، اور ایک سیب کے درخت میں جھولا ڈالے الگ باغ میں جھولا کرتے تھے، البتہ جوصاحب ضرورت ان کے پاس جاتا، اسے صلاح مناسب بتا دیا کرتے تھے۔ یہ سب مل کر ان کے پاس گئے کہ برائے خدا کوئی ایسی راہ نکالئے جس سے احتیاج و افلاس کی بلا سے بندگان خدا کو نجات ہو۔ وہ بہت خفا ہوئے اور کہا کہ اپنے کئے کا علاج نہیں۔ خسرو آرام ایک فرشتہ سیرت بادشاہ تھا۔ تم نے اس کا حق شکر نہ ادا کیا اور اس آفت کو اپنے ہاتھوں سر پر لیا۔ یہ افلاس ایسی بری بلا ہے کہ انسان کو بے کس اور بے بس کر دیتی ہے۔ مانگے تانگے کے سوا خود اس کا کچھ پیشہ نہیں۔ دیکھو، اسی نے ملک فراغ کو کیسا تباہ کر دیا ہے کہ دلوں کے باغ ہرے بھرے ویران ہوئے جاتے ہیں۔ 

    اب اس کے نکلنے کی کوئی صورت سمجھ میں نہیں آتی۔ مگر یہ کہ ہم نے سنا ہے، احتیاج و افلاس کا ایک بیٹا بھی ہے جس کا نام محنت پسند خردمند ہے۔ اس کا رنگ ڈھنگ کچھ اور ہے کیونکہ اس نے امید کا دودھ پیا ہے۔ ہنرمندی نے اسے پالا ہے۔ کمال کا شاگرد ہے۔ ہو سکے تو جاکر اس کی خدمت کرو۔ اگرچہ اسی کا فرزند رہے لیکن اول تو سلطنت کا مقدمہ درمیان ہے۔ دوسرے ماں کے دودھ کا زور اس کے بازوؤں میں ہے۔ استاد کی پھرتی اور چالاکی طبیعت میں ہے۔ شاید کچھ کر گزرے۔ تدبیر اور مشورہ کا سب نے شکریہ ادا کیا اور سیدھے محنت پسند خردمند کے سراغ پر آئے۔ دامن کوہ میں دیکھا کہ ایک جوان قوی ہیکل کھڑا ہے۔ چہرہ اس کا ہوا سے جھریا ہوا، دھوپ سے تمتمایا ہوا، مشقت کی ریاضت سے بدن اینٹھا ہوا، پسلیاں ابھری ہوئی، ایک ہاتھ میں کچھ کھیتی کا سامان، ایک ہاتھ میں معماری کے اوزار لئے ہانپ رہا ہے اور ایسا معلوم ہوا کہ ابھی ایک برج کی عمارت کی بنیاد ڈالی ہے۔ سب نے جھک کر سلام کیا اور ساری داستان اپنی مصیبت کی سنائی۔ 1

    وہ انہیں دیکھتے ہی ہنسا اور ایک قہقہہ مار کر پکارا کہ آؤ انسانو، نادانو! آرام کے بندو! عیش کے پابندو! آؤ آؤ، آج سے تم ہمارے سپرد ہوئے۔ اب تمہاری خوشی کی امیداور بچاؤ کی راہ اگر ہے تو ہمارے ہاتھ ہے۔ خسرو آرام ایک کمزور، کام چور، بے ہمت، کم حوصلہ، بھول ابھالا، سب کے منہ کانوالہ تھا۔ نہ تمہیں سنبھال سکا، نہ مصیبت سے نکال سکا۔ بیماری اور قحط سالی کاایک ریلا بھی نہ ٹال سکا۔ پہلے ہی حملے میں تمہیں چھوڑ دیا اور ایسا بھاگا کہ پھر مڑکر نہ دیکھا۔ سلطنت کو ہاتھ سے کھویا اور تم کو منجدھار میں ڈبویا۔ آج سے تم ہماری خدمت میں حاضر رہو۔ ہماری آواز پر آیا کرو، ہم تمہیں ایسی ایسی تدبیریں سکھائیں گے کہ جس سے یہ شوریت زمین کی دور ہوجائےگی۔ ہوا کی شدت اعتدال پائے گی۔ گرمی سے سردی کی خوراک نکل آئے گی۔

    ہم تمہارے لئے پانی سے مچھلیاں، ہوا سے پرندے، جنگل سے چرندے نکالیں گے۔ زمین کا پیٹ چاک کر ڈالیں گے اور پہاڑوں کی انتڑیاں تک نکالیں گے۔ ایسے ایسے دھات اور جواہرات دیں گے کہ تمہارے خزانوں کے لئے دولت ہو، ہاتھوں میں طاقت ہو، اور بدن کی حفاظت ہو۔ زبردست حیوانوں کے شکار کروگے اور ان کے آزاروں سے محفوظ رہوگے۔ جنگل کے جنگل کاٹ ڈالوگے۔ پہاڑ کے پہاڑ اکھاڑوگے۔ تم دیکھنا میں زمانہ کو وابستہ تدبیر اور تمام عالم کواپنے ڈھب پر تسخیر کرلوں گا۔ غرض ان باتوں سے سب کے دلوں کو لبھا لیا۔ وہ بھی سمجھے کہ محنت پسند خردمند بنی آدم کا خیر خواہ ہمارا دلی دوست ہے۔ ہاتھ جوڑ جوڑاس کے پاؤں پر گرے۔ ہمت اورتحمل اس کے پہلو میں کھڑے تھے، اسی وقت انہیں جماعت مذکور پر افسر کر دیا۔ اے حضرت انسان! قدرتی گلزاروں کی بہار تو دیکھ چکے اب اپنی دستکاریوں کی گل کاری دیکھو۔ 

    الغرض ہمت اورتحمل ان سب کو جنگلوں اور پہاڑوں میں لے گئے۔ کانوں کا کھودنا، اتار چڑھاؤ ہموار کرنا، تالابوں سے پانی سینچنا، دریاؤں کی دھاروں کارخ پھیرنا، سب سکھایا۔ لوگوں کے دلوں پر اس کی بات کا ایسا اثر ہواتھا کہ سب دفعتاً کمریں باندھ، آنکھیں بند کر، دیمک کی طرح روئے زمین کو لپٹ گئے۔ عالم صورت چند روز میں رنگ نکال لایا، مگر نئے ڈھنگ سے یعنی ساری زمین شہر، قصبوں اور گاؤں سے بھر گئی۔ کھیت اناج سے اور باغ میوؤں سے مالا مال ہو گئے۔ شہروں میں بازار لگ گئے، عمارتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں، گھر آباد ہوگئے۔ جدھر دیکھو، ڈالیوں اور گلزاریوں میں میوے دھرے، دسترخوان گھروں میں سجے، ذخیرے غلوں سے بھرے، کیا گھر، کیا باہر، اس کے سوا کچھ نظر ہی نہ آتا تھا۔ غرض محبت پسند خردمند نے اس فرماں بردار رعیت کی بدولت یہ کامیابیاں اور فتوحات نمایاں حاصل کرکے سلطان محنت پسند کا لقب حاصل کیا اور جابجا ملک اور شہر قائم کرکے اپنی سلطنت جمائی۔ 

    اے محنت کشو! محنت کی بھی ایک مدت ہے۔ آخر ایسا تھکوگے کہ گر پڑوگے۔ سلطان محنت پسند اپنے ملک میں ہمیشہ دورہ کرتا رہتا تھا۔ اتفاقاً اس کی سواری ایک کوہستان میں گزری، وہاں میوؤں کی بہتات، پانی کے چشمے جیسے آب حیات، ہرے ہرے سبزے، درختوں کے سایے، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں، خوبصورت خوبصورت جانور کلیل کر رہے تھے۔ یہ جگہ بہت بھائی۔ چاہا کہ کوئی دم ٹھہرے اور دم لے۔ اتفاقاً وہاں ایسی ایک قوم سے سامنا ہو گیا، جن کی کثرت وانبوہ کا کچھ ٹھکانا نہ تھا، مگر سب کے سب ضعف و ناطاقتی سے زمین میں بچھے جاتے تھے۔ ان میں تھکن اور سستی کی وبا پھیلی ہوئی تھی اور ناتوانی پر سردار تھی۔ صورت اس کی یہ کہ آنکھیں بیٹھی ہوئی، چہرہ مرجھایا ہوا، رنگ زرد، منہ پر جھریاں پڑی، کمر جھکی، گوشت بدن کا خشک، ہڈیاں نکلی ہوئی۔ غرض دیکھا کہ سب ہانپتے کانپتے، روتے بسورتے، آہ آہ کرتے چلے آتے ہیں، ان کی آوازیں ہی سن سن کر، لوگوں کے دل مردہ اور جی افسردہ ہوئے جاتے تھے۔ 

    تحمل اورہمت کو جوں ہی ان کی صورت نظر آئی، دفعتاً غش کھاکر گر پڑے۔ اس جنگل کی ہوا میں عجیب تاثیر تھی کہ بھلے چنگے آدمیوں کے جی چھوٹ جاتے تھے اور حوصلے پست ہوئے جاتے تھے۔ سب کے ہتھیار اور اوزار ہاتھوں سے چھٹ پڑے۔ بہتیرا دلوں کو سنبھالتے تھے، مگر دل قابومیں نہ آتے تھے۔ اس حال کو دیکھ کر سب کی عقلیں جاتی رہیں اور پھر نئے سرے سے اپنے حال پر افسوس کرنے لگے کہ ملک فراغ کو کیوں چھوڑا اور خسرو آرام کی طاعت سے کیوں منہ موڑا۔ آپس میں صلاح کی کہ ا ب کیا کرنا چاہئے۔ آخر مصلحت یہ ٹھہری کہ چلو پھر اپنے قدیمی بادشاہ خسرو آرام کی خدمت میں چل کر سلام کرو اور باقی زندگی جس طرح ہو اس کی اطاعت میں بسر کر دو۔ 

    جو آسائش کے قدرتی سامان تھے، وہ اپنے ہاتھوں کھوئے، اب محنت کے بنائے ہوئے سامانوں سے آرام چاہتے ہو۔ نہ ہوگا! نہ ہوگا! خسروآرام بھی دنیا کے پردے سے اٹھ نہ گیا تھا۔ ایک پل میں اس کے پاس جاپہنچے۔ عذر تقصیرمیں عرض کیا کہ جو کچھ ہم نے محنت کی مدد سے حاصل کیاہے، وہ سب نذر ہے۔ ہمیں حضور اطاعت میں قبول فرمائیں۔ یہاں خسرو آرام نے بھی اب دربار کا آئین کچھ اور کر دیا تھا۔ تکلف، آرائش، بناؤ سنگار، عیش، آرام بہت سے لوگ رکن دربار ہو گئے تھے۔ قدرتی سبزہ زار اور خدائی مرغزاروں کو چھوڑ کر محلوں میں جا بیٹھا تھا۔ بالاخانوں اور دیوان خانوں میں رہتا تھا۔ خانہ باغوں کی روشوں پر گلگشت کرتا تھا۔ جاڑوں میں نرم نرم بستروں اور گرم گرم مکانوں میں سوتا تھا۔ گرمیوں میں تکلف کے تہہ خانوں میں بیٹھتا اور بناوٹ کے فوارے سامنے چھٹکا کرتے۔ باوجود اس کے کوئی نعمت مزانہ دیتی تھی اور کوئی غذا انگ نہ لگتی تھی۔ سب کچھ موجود تھا مگر خاطرخواہ خوشی ایک بات سے بھی حاصل نہ ہوتی تھی۔ غرض ملک فراغ میں جو اس کے انتظام اور آزادی کالطف تھا، وہ نہ رہا تھا کیونکہ سلطان محنت پسند کے زیرحکم رہ کرلوگ خالی بیٹھنے سے بھی گھبراتے تھے اور جسے خوشحالی اورفارغ البالی کہتے ہیں، وہ کسی طرح حاصل نہ ہوتی تھی۔ 

    آرام کے بندو! دیکھو، بہت آرام بہت سی خرابیاں پیدا کرتا ہے۔ آرام شاہ کے وزیراعظم عیش اور نشاط دو شخص ہوئے تھے، مگر عیش نے دغاکی، کیوں کہ مرض ایک بڑا غنیم سلطنت کا تھا۔ وہ مدت سے ملک آرام کے درپے تھا۔ چنانچہ مرض نے عیش سے سازش کی اور ایک رات یکایک قلعہ جسم پر کمند ڈال کر شبستان شاہی میں آن پہنچا۔ جب مرض آیا تو آرام کجا۔ آرام نے دشمن کو بلائے ناگہانی کی طرح سر پر دیکھا، گھبرا گیا اور ناچار ہو کر بھاگنا پڑا۔ 

    ان دونوں نمک حراموں نے سلطنت پر قبضہ کر لیا اورعیش و نشاط کی بدولت تمام عالم اجسام امراض اور بیماریوں میں مبتلا ہو گیا۔ مرض کے سوا کئی اندرونی مفسد اور بھی سلطنت کے بدخواہ تھے۔ چنانچہ ایک سیری 2 تھی اور دوسرے اکتاہٹ، وہ بھی ملک کے دعوے سے ملکہ بننا چاہتی تھیں، دیکھنے کو بڑا سا پیٹ بہت پھولا تھا، لیکن حقیقت میں کچھ نہیں، فقط پھوس کا پولا تھا۔ انہیں کوئی چیز مزاہی نہ دیتی تھی اور ہمیشہ ہر چیز سے دل بے زار اور دل بھرا رہتا تھا۔ ان کی مصاحب ایک بد دماغی، دوسری بےزاری تھی کہ آٹھ پہر منہ بنائے، تیوری چڑھائے، الگ کرسی پر بیٹھی رہتی تھیں۔ جو نعمت انہیں ملتی، شکریہ کا حق خفگی اور بد مزاجی کے ہاتھوں ادا ہوتا۔ ملکہ مذکور کی نگاہ میں یہ تاثیر تھی کہ ایک نظر میں ساری دنیا کی نعمتیں خاک میں مل جاتی تھیں۔ کیسی ہی سہاؤنی خوشبوئیں، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں، ہرے ہرے سبزہ زار بہار پر ہوتے، مگر جب اس کے سامنے آتے سب مٹی ہو جاتے۔ اس سے آرام کا لطف زندگی بالکل نہ رہا اور اس کے سبب سے رعایا کا بھی جی بے زار ہونا شروع ہوا۔ 

    رفتہ رفتہ سب ہمراہی آرام شاہ سے کنارہ کش ہو گئے۔ بعض بے مروت تو عیش سے گھل مل گئے۔ اورعیش نے بھی وعدہ کیا کہ میرے پاس دو حکیم ہیں، جن کی پانی کی بوند، تیزاب اور خاک کی چٹکی اکسیر ہے۔ سیری کی خاک اڑ جائےگی۔ ہر ایک چیز مزا دینے لگے گی۔ اور ہر ایک بات کا لطف آئےگا۔ ان حکیموں کا نام حرص اور ہوس ہے۔ یہ سن کر بہت لوگ توعیش کے پھسلاوے میں آ کر حرص کے پیچ میں پھنس گئے اور جو عاقبت اندیش داناتھے وہ پھر تدبیر اور مشورہ کے پاس پہنچے۔ سارے دکھ سنائے اور جو جو مصیبتیں گزری تھیں، سب داستان بیان کی۔ انہوں نے بہت افسوس کیا اور کہا کہ خسرو آرام کی بدولت تم نے بہت آرام کئے۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ کسی کام کے نہ رہے۔ محنت سے اس کا تدارک کیا، اس کی تمہیں برداشت نہ ہوئی اور ضعف وناتوانی سے فریاد کرنے لگے۔ عیش و نشاط سے تفریح کا بندوست کیا۔ اس سے بہت لطف اٹھائے۔ مگر انہوں نے یہ سلوک کیا کہ امراض کے حوالے کر دیا اور آپ الگ ہو گئے، جس سے سب کی زندگی کا مزا جاتا رہا۔ ہم تمہارے معاملہ میں حیران ہیں کہ کیا کریں۔ سب نے بہت منت اور التجا کی۔ آخر ان دونوں کو ساتھ لے کر پھر سلطان محنت پسند کے پاس گئے اور خسرو آرام کی طرف سے پیغام سلام دوستانہ پہنچا کر صلع کی تدبیر کی۔ 

    محنت کش ہزارہمت کرےگی مگر کوئی نہ کوئی دشمن اس کے پیچھے لگا ہوا ہے۔ جس طرح خسروآرام سیری کے ہاتھ سے عاجزآ گیاتھا اسی طرح سلطان محنت پسندکاہلی کے ہاتھ سے تنگ تھے۔ کیونکہ وہ ہمیشہ ان کی سرحد پر گھات لگائے بیٹھی رہتی تھی۔ چنانچہ دونوں نے مصلحت اسی میں دیکھی کہ باہم اتفاق کر لیں۔ حق یہ ہے کہ آرام کا بھی محنت بغیر نہیں۔ اب ذرا محنت کالطف دیکھو۔ غرض تدبیر اور مشورہ کی صلاح سے دونوں نے متفق ہوکر ملک فراغ اور کشور راحت کو باہم تقسیم کر لیا۔ محنت پسند خردمند کو دن کی سلطنت ملی، اور خسرو آرام کو رات کی۔ دونوں سلطنتوں میں عہدنامہ ہوکر بنیادِ محنت کے استحکام کے لئے بندوبست ہونے لگے۔ 

    چند روز بعد مشورہ کی وکالت سے یہ تجویز ٹھہری کہ خسرو آرام کی شادی سلطان محنت پسند کے خاندان میں ہو جائے۔ محنت پسند نے کہا کہ آپ کے اہل دربار میں بعض اشخاص سلطنت کے خلاف مصلحت ہیں۔ اس واسطے جب تک آپ انہیں خارج نہ کریں گے مجھے یہ امر منظور نہیں۔ خسرو آرام نے کہا کہ جس کوتم کہو، اسی وقت جلا وطن کر دوں۔ چنانچہ مشورہ وغیرہ مشیروں کی صلاح سے راحت، تکلف، بناؤ سنگار وغیرہ سب نکالے گئے۔ ایک دن رسم شادی کہ وہ بھی سیدھی سادی تھی، سرانجام ہو گئی اور دونوں سرکاروں کا انتظام ایک ہو گیا۔ 

    جب آرام محنت دونوں اعتدال سے ہوں توکیوں صحت حاصل نہ ہو۔ اتفاق کو خدا نے بڑی برکت دی ہے۔ چند روز کے بعد خسرو آرام کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام صحت شاہ رکھا گیا۔ بڑی خوشیاں ہوئیں۔ دونوں طرف رسوم مبارک بادی کی ادا ہوئیں۔ گہنگاران سلطنت یعنی نشاط اور عیش کی خطائیں بھی اس خداداد خوشی کے شکرانہ میں معاف ہوئیں، مگر اس شرط پر کہ بے طلب سامنے نہ آنے پائیں، نہ بے تقریب بلائے جائیں۔ غرض صحت شہزادہ بی بی سلامت خاتون کا دودھ پیتا تھا۔ خواجہ پرہیزاسے پرورش کرتے تھے۔ ان ہی کی تعلیم و تربیت میں بڑا ہوا۔ چونکہ دوگھروں میں ایک چراغ تھا، خسرو آرام اور سلطان محنت پسند دونوں آنکھوں کا نور سمجھتے تھے۔ صحت شہزادہ بھی دونوں بزرگوں کی برابر اطاعت اور دونوں سلطنتوں کی برابر رعایت کرتا تھا۔ اتفاق کی برکت سے خدا نے دونوں گھر روشن اورسلطنت آباد کی اور خدا کے بندوں کو بھی آئے دن کی مصیبت سے نجات دی۔ 


    حاشیے
    (۱) کیسی ہی نعمت ہو، جب برابر ملے جائے تو آخر دل سیر ہو جاتا ہے۔ 
    (۲) اس عمارت سے گویا وہی کاروبار مراد ہیں۔ انہی میں آئندہ یہ لوگ گزران کرکے اپنی قسمت کا لکھا پورا کریں گے۔

    مأخذ:

    نیرنگ خیال (Pg. 30)

    • مصنف: محمد حسین آزاد
      • ناشر: مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 1970

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے