aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ادب، گھوڑے سے گفتگو

انتظار حسین

ادب، گھوڑے سے گفتگو

انتظار حسین

MORE BYانتظار حسین

    پاکستان کے بارے میں چیخوف نے ایک افسانہ لکھا ہے۔ اگر کسی دوست کو یہ یاد ہے کہ اس افسانے کا ذکر میں پہلے بھی کر چکا ہوں تو وہ مجھے یہ سوچ کر معاف کر دے کہ اپنے بارے میں جو بات ہوتی ہے، وہ بار بار یاد آتی ہے۔ اس افسانے میں ایک کوچوان کا بیٹا مر گیا ہے۔ وہ دن بھر سواریاں ڈھوتا ہے۔ سواریاں دنیا جہان کی باتیں کرتی ہیں اور کوچوان کو اس میں شریک کرتی ہیں مگر جو کوچوان چاہتا ہے کہ اپنے بیٹے کی موت کا ذکر کرے تو یا تو بیچ میں اس کی بات کٹ جاتی ہے اور کوئی دوسرا ذکر چل نکلتا ہے یا سواری کی منزل آ جاتی ہے اور بات بیچ میں رہ جاتی ہے۔ آخر جب وہ تھک ہار کر شام کو گھر لوٹتا ہے تو گھوڑے کو یہ دکھ سنا کر اپنا جی ہلکا کرتا ہے اور اب مجھے اپنی ۱۹۴۶ء کی ایک کہانی یاد آ رہی ہے۔

    اس کے ذکر کے لئے مجھے معذرت نہیں کرنی چاہیے کیونکہ میری نانی اماں نے یہ پیش گوئی کی تھی کہ چودھویں صدی میں گائے گوبر کھائےگی اور کنواری بر مانگےگی۔ تیسری بات وہ کہنا بھول گئیں۔ وہ میں بیان کرتا ہوں کہ لکھنے والا خود ہی اپنے لکھے کو پڑھےگا اور خود ہی اس کا ذکر کرےگا۔ تو میری کہانی بھی ایک کوچوان ہی سے متعلق ہے مگر وہاں کوچوان دنیا جہان کے قصوں میں سواریوں کا ہم زبان ہے۔ سواریاں اس کی زبان اور وہ سواریوں کی زبان سمجھتا ہے۔ اسے اپنے گھوڑے سے بات کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ اصل میں یہ کہانی اپنے بچپن کی یادوں سے مستعار ہے۔ وہ ایسا زمانہ تھا جب سواریوں اور کوچوان کے درمیان ایک رشتہ موجود تھا۔ کوچوان کا گھوڑا بھی مر جاتا تھا تو سواریوں کو اس کی خبر ہو جاتی تھی اور اگر گھر میں کوئی موت ہو جاتی تو ساری بستی ماتم میں شریک ہوتی تھی۔ وہ زمانہ گزر گیا۔ اب ہم چیخوف کے افسانے کے دور میں رہتے ہیں جہاں کسی کی خبر نہیں ہے اور سواریاں ڈرائیور سے بےتعلق بس اور ٹیکسی میں سفر کرتی ہیں اور کوچوان کا بیٹا مر گیا ہے۔

    دنیا آدمی کے ساتھ لگی ہوئی ہے، لیکن جب آدمی دنیا کے ساتھ لگ جائے اور دنیوی ضروریات معاشرہ کے اعصاب پر سوار ہو جائیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کوئی قدر مر گئی ہے۔ اس واقعہ کی خبر یا تو کسی ولی کو ہوتی ہے یا ادیب کو ہوتی ہے۔ وہ یہ خبر سب کو سنانا چاہتا ہے مگر اس کی بات ہر قدم پر کٹتی ہے اور لوگوں کو شکایت پیدا ہوتی ہے کہ ادب میں جمود ہے، کچھ لکھا نہیں جا رہا ہے۔ لکھنے والا اس قسم کے معاشرہ میں ایسا کوچوان بن کر رہ جاتا ہے جس کا بیٹا مر گیا ہو۔

    کہتے ہیں کہ مولانا حالی نے مسدس لکھ کر مسلمانوں کو بہت رلایا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ۱۸۵۷ء کی شکست کا زخم ابھی تازہ تھا۔ مسلمان میدان جنگ میں پٹ گئے تھے، لیکن ان کا احساس نہیں ہارا تھا۔ اس پر تو اور دھار رکھی گئی تھی۔ لوگ یہ جاننا اور سمجھنا چاہتے تھے کہ ان کے ساتھ یہ آخر کیا واردات گزری ہے اور کیوں گزری ہے۔ ایسے لوگ مدو جزر اسلام لکھنے والے شاعر سے بے تعلق نہیں رہ سکتے تھے۔ علامہ اقبال اسی صورت حال کی ارتقائی کڑی ہیں، مگر جب عصمت اور منٹو نے افسانے لکھنے شروع کیے تو یہی مسلمان بہت برہم ہوئے۔ عصمت پر زیادہ اس لئے کہ نوجوانوں کی نسبت بہو بیٹیوں کے لئے ایسی باتیں لکھنا زیادہ معیوب تھا، لیکن یہ برہمی ایک گہر ے تعلق کی غماز ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ بعض ایسے معاملات تھے جن سے عصمت اور منٹو کی نسل کو اور اس معاشرہ کو جس میں وہ نسل پیدا ہوئی تھی، برابر کی دلچسپی تھی۔ اس معاشرہ نے ان معاملات کے بارے میں کچھ سوچا سمجھا تھا اور ایک خاص رویہ اختیار کیا تھا۔ وہ عصمت اور منٹو کے رویے سے بےاعتنائی نہیں برت سکتے تھے۔

    روزگار کا مسئلہ ہر زمانے میں رہتا ہے۔ اس لئے پیٹ آدمی کے ساتھ لگا ہوا ہے۔ لیکن حالی اور اقبال کے زمانے میں لوگوں کو پیٹ کے علاوہ بھی کچھ فکریں تھیں۔ جب پیٹ کے علاوہ بھی کچھ فکریں ہوں تو خود پیٹ کی فکر کو بھی اجتماعی فکروں کے پس منظر میں رکھ کر دیکھنے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ایسی صورت میں آدمی صرف اپنی نہیں سوچتا بلکہ آس پاس کے لوگوں کے متعلق بھی سوچتا ہے یا یہ کہ اپنے متعلق دوسروں سے غیرمتعلق ہوکر نہیں سوچتا۔ یہیں سے ادب کے لئے کشش پیدا ہوتی ہے۔ آدمی اور آدمی کے درمیان رشتہ نہ رہے یعنی اجتماعی فکریں ختم ہو جائیں اور ہر فرد کو اپنی فکر ہو تو ادب اپنی اپیل کھو بیٹھتا ہے۔

    ادیب بھی آدمی ہوتے ہیں۔ اردگرد کے حالات اس کے طرزِ عمل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ جب ہر شخص کو اپنی فکر ہو تو ادیب کو بھی اپنی فکر پڑتی ہے۔ اپنی فکر کو دوسروں کی فکروں کے رشتہ میں رکھ کر دیکھنے یعنی آپ بیتی کو جگ بیتی بنانے اور جگ بیتی کو آپ بیتی بنانے کا عمل اسے فضول نظر آتا ہے۔ پھر وہ لکھنے کے نئے نئے فائدے دریافت کرتا ہے۔ جس نے فائدے دریافت کر لیے وہ کامیاب ادیب ہے۔ اگر فائدے حسب دل خواہ حاصل نہ ہوں تو اچھا بھلا ادیب نرا میرزا ادیب بن کر رہ جاتا ہے۔

    ہر گنہگار معاشرہ اپنے گناہوں کا بوجھ اپنے عضو ضعیف پر ڈالتا ہے۔ گنہگار معاشرہ میں ادیب کی حیثیت عضو ضعیف کی ہوتی ہے۔ وہ پہلے ادیبوں کو کبھی بہلا پھسلاکر، کبھی عرصہ حیات تنگ کرکے اپنی راہ پر لاتا ہے اور بعد میں خود ہی ادیبوں کی روش پر نکتہ چیں ہوتا ہے اور کبھی ادبی جمود کی، کبھی ادیبوں میں قومی احساس کے فقدان کی شکایت کرتا ہے۔ اس طرح وہ اپنے اندر کے جمود اور اپنے قومی احساس کے فقدان پر پردہ ڈالتا ہے۔

    معاشرہ کا اپنے ادیب سے تعلق کبھی عقیدت کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے، کبھی غصہ کی صورت میں۔ دونوں صورتوں میں لکھنے کے ایک معنی ہوتے ہیں اور عرض ہنر کی بہت قیمت ہوتی ہے۔ لیکن اس وقت یہ دونوں صورتیں نہیں ہیں۔ شعر و افسانہ پر داد نہ ملتی، بیداد تو ملتی مگر وہ بھی نہیں ہے،

    دیوانہ بہ راہے رود و طفل بہ راہے

    یاراں مگر ایں شہر شما سنگ ندارد

    ہمارے معاشرہ کو ادب کی تو آج بھی ضرورت ہے، اس لئے کہ کرکٹ کے میچ سال بھر متواتر نہیں ہوتے۔ آخر ایک میچ اور دوسرے میچ کے درمیانی عرصے میں کیا کیا جائے۔ غزل اور افسانہ ہی پڑھا جائےگا۔ مگر غزل اور افسانے میں کرکٹ میچ کی کمنٹری والا لطف نہیں آتا۔ اس لئے ادبی جمود کی شکایت برمحل ہے۔ خیر افسانہ پڑھنے والوں کو تو جاسوسی اور اسلامی تاریخی ناول میں مکتی مل گئی ہے۔ شعر کی تلافی کیسے کی گئی ہے اس کا مجھے علم نہیں ہے۔ اس قسم کے قارئین سے حالی اور اقبال کو پالا پڑا تھا نہ عصمت اور منٹو کو، اور اگر میرے ساتھ کے لکھنے والوں کو یاد ہو تو پاکستان کے ابتدائی سالوں میں ہمارے قارئین کا رویہ بھی مختلف تھا۔ اس وقت ادب ان کی دل لگی کا سامان نہیں تھا بلکہ ایک دردِ مشترک تھا جو ہمارے اور ان کے درمیان تعلق پیدا کرتا تھا۔ مگر دیکھتے دیکھتے زیر آسمان ترقی کی نئی راہیں نکل آئیں۔ کچھ نئی راہیں ادیبوں نے بھی دریافت کیں۔ ترقی کی رفتار تیز ہے اور لکھنا ایک سست رو مشغلہ ہے۔ اس کا اندازہ یوں لگا ئیے کہ جتنے عرصے میں ابن انشا نے یورپ اور ایشیا کا چکر لگایا اتنے عرصے میں میں نے صرف ایک افسانہ لکھا۔

    ایسے عالم میں جو لکھنے والا لکھتا رہ گیا ہے اور عرض ِ ہنر کو سب سے بڑی قدر جانتا ہے، وہ معاشرہ کا بچھڑا ہوا فراد ہے۔ یہاں مجھے مولانا حالی سے ذرا پہلے کا زمانہ یاد آ رہا ہے۔ ۱۸۵۷ء میں جب مجاہدین ہارے تو بہت سے مر کٹ گئے۔ بہت سوں نے مفاہمت کر لی، بہت سے روپوش ہو گئے۔ مگر چند کا عالم یہ تھا کہ مورچا ہارتے تھے تو بھاگ کر دوسرا مورچا سنبھالتے تھے اور لڑتے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ میدان ہاتھ سے نکل چکا ہے، ان کی شمشیر زنی کا کوئی حاصل نہیں اور زمانہ اتنا بدل چکا ہے کہ وہ مارے گئے تو وہ ہیرو اور شہید بھی نہیں بنیں گے۔ یہ سب کچھ جاننے کے باوجود وہ لڑ رہے تھے۔ ہمارے معاشرہ نے لکھنے والوں کا وہ حال کیا جو انگریزوں نے ۱۸۵۷ء کے مجاہدوں کا حال کیا تھا۔ ۱۸۵۸ء کے نئے ہندوستان کو یہ علم نہیں تھا کہ ابھی تانتیا ٹوپے اور شہزادہ فیروز شاہ زندہ ہیں اور جنگل جنگل چھپتے پھرتے اور انگریز پر شب خون مارتے پھرتے ہیں۔ شاید تانتیا ٹوپے اور شہزادہ فیروز شاہ کو بھی یہ آرزو نہیں رہی تھی کہ ہندستان اس واقعہ کو جانے۔

    ہم میں سے جو لوگ لکھتے رہ گئے ہیں، ان میں ابھی کمزوری یہ ہے کہ وہ اپنی اس آرزو پر قابو نہیں پا سکے ہیں کہ معاشرہ یہ جانے کہ کچھ ہنرمند آج بھی عرضِ ہنر ہی کو فائدہ جانتے ہیں۔ میری کمزوری یہ ہے کہ میں اپنے ۱۹۴۹ء کے افسانے کی دنیا کو نہیں بھولا ہوں اور چاہتا ہوں کہ سواریوں کی زبان کوچوان اور کوچوان کی زبان سواریاں سمجھیں۔ لیکن اگر میرے دل میں کوئی کھوٹ نہیں ہے اور میں واقعی افسانہ لکھنا چاہتا ہوں تو میری فلاح اس میں ہے کہ میں اپنے لکھے ہوئے افسانے کو بھول کر چیخوف کے افسانے کے معنی کو سمجھوں۔ افسانہ اب میرے لئے اپنی ذات کو محسوس کرنے اور قائم رکھنے کا وسیلہ ہے اور یہ کام میں گھوڑے کو کہانی سناکر بھی کر سکتا ہوں۔

    جو معاشرہ اپنے آپ کو جاننا نہیں چاہتا وہ ادیب کو کیسے جانےگا۔ جنہیں اپنے ضمیر کی آواز سنائی نہیں دیتی انہیں ادیب کی آواز بھی سنائی نہیں دے سکتی۔ ایسے معاشرہ میں لکھنے کا ان معنوں میں کوئی فائدہ نہیں ہوتا کہ تحریر کے معنی پوری طرح نہیں ابھرتے۔ آخر ادب یک طرفہ معاملہ تو نہیں ہے۔ اس میں لکھنے والے اور قاری دونوں کی تخلیقی کاوش شامل ہوتی ہے۔ تحریر میں کچھ معنی لکھنے والا پیدا کرتا ہے، کچھ اس میں قاری شامل کرتا ہے۔ اس طرح ادب معاشرہ میں ایک فعال طاقت بنتا ہے اور ادیب کی شخصیت تکمیل حاصل کرتی ہے لیکن اگر معاشرہ ادیب سے قطع تعلق کر لے تو ادیب کے لئے اپنے آپ کو قائم رکھنے کی یہی صورت ہے کہ وہ اپنی ہی ذات میں اپنی تکمیل تلاش کرے۔

    دلی اور لکھنؤ کے زوال کے بعد فیروز شاہ کے لڑنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا، لیکن ایسے عالم میں جب پورا ہندستان اپنی جگہ سے ہل گیا تھا وہ بے فائدہ شمشیر زنی کرکے اپنے آپ کو قائم رکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ لکھنے والا ایک سرد مہر معاشرہ میں یہی کرتا ہے۔ اس کی تحریر اپنی ذات کو برقرار رکھنے کا ذریعہ ہوتی ہے۔ اس وقت اس کا یہی فائدہ ہوتا ہے۔ ہم نے ابھی بات شاید پوری طرح نہیں سمجھی ہے اور اس لئے ہم معاشرہ کی شکایت کرتے ہیں۔

    مأخذ:

    علامتوں کا زوال (Pg. 64)

    • مصنف: انتظار حسین
      • ناشر: ڈائرکٹر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2011

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے