Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ادبی ڈائری

فراق گورکھپوری

ادبی ڈائری

فراق گورکھپوری

MORE BYفراق گورکھپوری

    جس بولی کو کچھ لوگ ہندی، کچھ لوگ اردو اور کچھ لوگ ہندوستانی کہتے ہیں، اسے ہمارے ملک کے کم سے کم پندرہ کروڑ آدمی بولتے ہیں۔ اب پچیس تیس برس گزرنے سے پہلے ان صوبوں کے لوگ بھی یہ بولی سیکھ لیں گے جہاں دوسری بولیاں بولی جاتی ہیں اور اس صدی کے ختم ہوتے ہوتے یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اس بولی کے جاننے والوں کی تعداد پچیس کروڑ ہو جائے گی۔

    اس بولی کی وہ شکل جسے پچھمی ہندی یا اردو یا کھڑی بولی یا مستند ہندی کہتے ہیں، اسے صحیح طورپر بے پڑھے لکھے یا دیہات کے لوگ نہیں بولتے، لیکن پچیس تیس برس تک تعلیم عام ہونے کے بعد چھوٹے بڑے دیہاتی اور شہری مقامی ہندی کے بدلے پچھمی ہندی یا اردو بولنے لگیں گے۔

    اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک مدت سے جو اردو اور ہندی کی بحث بلکہ لڑائی چھڑی ہوئی ہے، اس میں جیت کس کی ہوتی؟ یہ امر یقینی ہے کہ اب سے پچیس تیس برس بعد ہندی یا ناگری رسم الخط کا پرچار عام ہوچکے گا لیکن موجودہ تمدن کے مطالبے ایسے ہیں کہ ہمیں رومن رسم الخط کو اپنانا پڑے گا۔ ہماری بولی کی مستقل شکل کیا ہوگی، یہ اس بات پر منحصر نہیں ہے کہ عام رسم الخط ناگری ہے یا فارسی یا رومن، ہماری بولی کے اٹھان اور اُگاو میں عالموں، پنڈتوں اور مولویوں کا کوئی ہاتھ نہیں ہوگا۔ اب سے پچیس تیس برس آگے کے مزدور اور کسان اور کاریگر، پڑھے لکھے مزدور، کسان اور کاریگر ہوں گے۔ اور یہ بات ایسی ہے جو ہماری بولی ہمارے ادب میں انقلاب پیدا کردے گی۔

    تھوڑی دیر کے لیے اردو کے شاعروں اور نثر نگاروں اور ہندی کے شاعروں اور نثر نگاروں کی سب تصنیفوں کو ناگری میں چھپا ہوا تصور کیجئے یا یوں کہیے کہ اردو والے بھی ہندی والوں کی طرح ناگری میں اپنا ادب چھاپ کر بازار میں لے آئیں۔ کروڑوں پڑھنے والے یعنی عوام جن میں نوے فی صد مزدور، کسان اور کاریگر ہوں گے، کس کی کتابیں خریدیں گے، اردو والوں کی یا ہندی والوں کی؟ جس کی زبان زیادہ سہل ہوگی، زیادہ بامحاورہ ہوگی، زیادہ ٹکسالی ہوگی، عوام کی بول چال سے زیادہ قریب ہوگی، اسی کی کتابیں کروڑوں آدمی خریدیں گے۔

    اگر کوئی یہ کہے کہ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے ذریعہ سے ہم عوام میں ہزارہا مشکل سنسکرت الفاظ رائج کریں گے اور اس طرح عوام سنسکرت الفاظ سے بھری ہوئی ہندی کتابیں خریدیں گے اور پڑھیں گے تو میں یہی کہوں گا کہ،

    ایں خیالست و محالست و جنوں

    ہماری بولی ایک جیتی جاگتی چیز ہے۔ اگر اس میں سنسکرت کے وہ لفظ بھرے جائیں گے جو کوئی بولتا نہیں تو یہ گاڑی آگے نہیں بڑھے گی۔ نرم اور سہل زبان کی کتابیں کروڑوں کی تعداد میں بکیں گی۔ میں اتنا ہی کہہ کر چپ ہو جاؤں گا۔ اب ہندی اور اردو والے خود فیصلہ کریں کہ اگر ہندی اردو کی لڑائی میں جیت سہل زبان کی ہوگی تو جیت اردو کی ہوگی یا ہندی کی؟

    کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ بڑا ادب، بلند ادب، خوبصورت ادب، جاندار ادب عوام کی بولی ٹھولی سے نہیں بنا کرتا، ایسے ادب کی زبان مشکل اور عالمانہ ہوتی ہے۔ سنسکرت ادب کی عظمت اور خوبیوں سے کسی کو انکار نہیں۔ لیکن ادب کے سامنے یہ سوال ہی نہیں تھا کہ کروڑوں آدمی یا عوام سنسکرت کی کتابیں خاص کر ادبی کتابیں خریدیں۔ جمہوری ادب کے لیے خریداروں کا سوال زندگی اور موت کا سوال ہے۔ یونانی رزم ناموں اور ناٹکوں، یورپ کی موجودہ زبانوں کے ادب، عربی اور فارسی ادب اور ہندوستان کی زبانوں کا ادب، ان سب کے لیے ضرورت تھی اور ہے کہ انھیں کروڑوں آدمی سمجھیں اور آج اس کی بھی ضرورت ہے کہ کروڑوں آدمی انھیں خریدیں۔ اسی لیے ان زبانوں کے بلند ترین ادب میں سہل اور ٹکسالی زبان کا استعمال کیا گیا ہے۔ مشکل الفاظ ان زبانوں کے ادب میں بہت کم آئے ہیں۔ ان زبانوں کے بڑے ادیبوں نے عوام کی بولی ٹھولی میں بلند ترین ادب پیدا کرکے دکھا دیا ہے۔ رٹے ہوئے لفظوں سے بڑا ادب نہیں بنا کرتا۔

    عوام میں اور بڑے ادیب میں یہ فرق نہیں ہوتا کہ عوام کم لفظ جانتے ہوں اور ادیب زیادہ لفظ جانتا ہے۔ ان دونوں میں فرق یہ ہوتا ہے کہ عوام کو اپنے لفظ ہر موقعے پر یاد نہیں آتے۔ عوام اپنے لفظوں کو حیرت انگیز طورپر ملا کر فقرے نہیں بناسکتے، انہیں زور دار طریقے پر استعمال نہیں کرسکتے لیکن ادیب عوام ہی کے الفاظ سے یہ سب کچھ کر کے دکھا دیتا ہے اور عوام ادیب کا کارنامہ دیکھ کر کہہ اٹھتے ہیں کہ،

    آواز آ رہی ہے یہ کب کی سنی ہوئی

    ادبی زبان کیا ہے؟ عوام کی بولی کا چمک جانا، نہ کہ کسی تصنیف کے ہر چوتھے یا پانچویں لفظ کے یاد کرو ’’ہجے اور معنی۔‘‘ ہاں تو اب سے پچاس برس بعد میرا خیال نہیں بلکہ میرا یقین ہے کہ ہماری زبان رومن رسم الخط مستقل طورپر اختیار کر لے گی اور ہندی اور اردو کا قدیم وجدید تمام ادب رومن رسم الخط میں دیدہ دزیب شکل میں نہایت سستے داموں ملنے لگے گا۔

    جہاں تک لغت اور اسلوب بیان کا سوال ہے، ادب کی زبان بہت بے لاگ، بہت صاف، بہت سلجھی ہوئی اور بہت جلد اور بہت تیز اثر کرنے والی زبان ہوگی۔ ہزارہا سنسکرت الفاظ جو نرم اور سہل ہیں اردو میں گھل مل جائیں گے اور عربی، فارسی کے وہ الفاظ جو سب ہی سمجھتے ہیں، ہندی ادب میں استعمال ہونے لگیں گے۔ ہندی اور اردو کے اسلوب بیان اور لغت میں برائے نام فرق رہ جائے گا اور سو ڈیڑھ سو برس کے اندر مطلق فرق نہیں رہے گا۔ اردو اور ہندی مل کر ایک زبان بن جائیں گی جس کی روح اور کلچر ایک ہوگی۔ اردو اور ہندی میں نہ کسی کی ہار ہوگی نہ جیت، زندگی کی جیت ہوگی اور ہندو مسلم سماج کو زندگی اور لطافت وقوت دینے والے ادب کی جیت ہوگی۔ اردو اور ہندی کی متصادم قوتیں ایک متحد وقوت بن جائیں گی۔ نہ رسم الخط کا جھگڑا رہے گا نہ لغت کا نہ اسلوب بیان کا۔

    (۲)

    سب سے بڑی ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کے جن اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اردو اور ہندی کے الگ الگ شعبے اور درجے یا کلاس ہیں انہیں توڑ کر ایک کردیا جائے۔ چونکہ ابھی فضا رومن رسم الخط کے موافق نہیں ہے۔ اس لیے اردو، ہندی زبان وادب کا مشترکہ اور متحدہ نصاب یعنی کورس ناگری حروف میں چھاپا جائے اور ناگری حروف میں ہی اردو ہندی زبان وادب کی تعلیم ہو۔ اردو زبان اور ہندی زبان دونوں میں بچوں کے لئے نثر ونظم کا ادب موجود ہے اور بنتا جا رہا ہے۔ کورس یا نصاب میں ہندی، اردو دونوں سے ایسی چیزیں لے کر شامل کر لینا چاہئے۔

    اونچے درجوں کے طلباء کے لئے بھی ہندی، اردو ادب موجود ہے اور بنتا جا رہا ہے۔ ہم کبیر اور دوسرے سنتوں کا کلام، خانخاناں، رحیم، رس کھان، جائسی، سورداس، تلسی داس، بہاری، برا، متی رام، دیو، رتناکر اور تمام قدیم ہندی شاعری سے انتخاب اور ہریش چندر، میتھلی شرن، سمترانندن پنت، پرساد، مہادیوی، بچن، رام کمار اور تمام نئے ہندی شاعروں سے انتخاب اسی نصاب میں داخل کریں گے جس میں ولیؔ دکنی، سراج اورنگ آبادی، میرؔ، سودا، ؔ دردؔ، غالبؔ، ذوقؔ، داغ، مصحفیؔ، انشا، ؔ ناسخؔ، انیسؔ، دبیرؔ، نظیرؔ، حالیؔ، چکبستؔ، سرورؔ، اکبرؔ، اقبالؔ، جوشؔ اور اردو کے پرانے نئے تمام اچھے شاعروں سے بھی انتخاب درج ہوں گے اور ہوں گے یہ سب ناگری رسم الخط میں۔ یہی کریں گے ہم ہندی اور اردو نثر کے ساتھ بھی۔

    کچھاعتراض ہو سکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس طرح نصاب یا کورس بہت بھاری اور مشکل ہو جائے گا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ انگریزی ادب، اردو ہندی دونوں ادبوں سے کہیں زیادہ لمبا چوڑا ہے اور ہمارے طلباء کے لئے مشکل بھی زیادہ ہے۔ پھر انگریزی کورس چاسر سےلے کر آج تک کے انگریزی ادیبوں تک کی کتابوں کو شامل کر کے ہم پڑھا لیتے ہیں تو اردو، ہندی کا مشترکہ ومتحدہ کورس ہم کیوں نہ خوشگوار بنا دیں گے۔ اگر ہندی یا اردو ادب جتنا بڑا ہے اس سے پچاس گنا زیادہ بڑا ہوتا تو کیا ہم اردو یا ہندی ادب نہ پڑھاتے؟

    دوسرا اعتراض یہ ہو سکتا ہے کہ اردو، ہندی زبان و ادب ناگری حروف میں پڑھنے سے ہمارے طلباء کی زبان آدھا تیترآدھار بٹیر ہوکر رہ جائے گی، اس طرح نہ انھیں اردو آئے گی، نہ ہندی۔ سبحان اللہ کیا اعتراض ہے۔ خسروؔ، رحیمؔ، جائسی، ہریش چندرؔ، لالہ بھگوان دینؔ، پریم چند، بال مکند گپت، دیوی پرساد پورنٹر، مہابیر پرساد دویدی، خود میری ہندی یا اردو اور درجنوں دوسرے ہندو مسلمانوں کی زبانیں جب دو زبانوں میں لکھنے پڑھنے سے نہیں بگڑیں تو ہم اپنے طلباء کو اتنا بے انکل کیوں سمجھیں کہ ان کی زبان اردو، ہندی دونوں زبان وادب جاننے سے بگڑ جائے گی۔ بگڑنے کے عوض دونوں کی بولیاں سنور جائیں گی اور اٹھیں گی اور قوت اظہار کو پر لگ جائیں گے۔

    تیسرا اعتراض یہ ہوسکتا ہے کہ جو معلم فارسی رسم الخط میں اردو پڑھاتے ہیں، ان کی روزی چلی جائے گی۔ ایسا نہیں ہوگا۔ ہم ادھیڑ عمر کے اردو معلموں کو ہندی ادب سیکھنے پر محبور نہیں کریں گے۔ ناگری رسم الخط چٹکی بجاتے آجاتی ہے۔ بس ناگری رسم الخط سیکھ کر وہ نثر ونظم کا وہ حصہ پڑھائیں گے جو اردو زبان وادب سے لیا گیا ہے۔ دوسرا حصہ جو ہندی زبان وادب سے لیا گیا ہے وہ لوگ پڑھائیں گے جو ہندی پڑھا رہے ہیں۔ بیس پچیس برس بعد یہ دقت بھی مٹ جائے گی۔ روٹیاں کسی کی نہیں چھنیں گی۔

    چوتھا اعتراض یہ ہو سکتا ہے کہ ہماری حکومت فرقہ پرست نہیں ہے، پھر اردو زبان ادب کو قائم رکھ کر فارسی رسم الخط کو پڑھانے کا انتظام نہ کرنا کیا معنی؟ اردو رسم الخط کو چھٹے ساتویں درجے سے دسویں درجے تک خود اختیاری مضمون (Optional Subject) بنا دیا جائے، اور اس طرح اردو رسم الخط بھی اچھی طرح ہمارے طلباء سیکھ سکیں گے۔ اس طرح اردو یا فارسی رسم الخط کی پوری حفاظت ہو جائے گی۔ لیکن ہمیں اردو ہندی دونوں ادب جب سب کو پڑھانا ہے تو یہ لازمی ہے کہ یہ دونوں ادب ناگری حروف میں سب کو پڑھائے جائیں۔

    پانچواں اعتراض بہت دلچسپ ہے، ہندی سے محبت رکھنے والوں میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اردو سے ڈرے ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اردو میں وہ لوچ اور چٹ پٹا پن ہے کہ ہندی پڑھنے والوں کو اچھی طرح اردو سکھادی جائے تو ہندی ان کی نظروں سے گر جائے گی اور وہ ہندی کو چھوڑ بیٹھیں گے۔ اردو زبان لغت، اردو اسلوب بیان اور صرف اردو ادب کو ہندی والے اپنالیں گے۔ کہئے ہے نا اعتراض دلچسپ اور گدگدی پیدا کرنے والا۔ لیکن کیا حماقت ہے۔ آخر کیا مطلب ہے؟ قدیم ہندی شاعری میں تو زبان کا حسن سولہوں سنگار کے ساتھ نمایاں ہے۔

    جدید ہندی شاعری میں بھی بیس پچیس شعراء ایسے ضرور ہیں کہ ان کی سب یا زیادہ تر نظموں کی زبان رچی ہوئی نہ سہی، لیکن سلیقے سے انتخاب کیا جائے تو چار پانچ سو صفحات کا ایسا مجموعہ تیار ہو سکتا ہے جس میں زبان کو چارچاند لگے ہوئے ہیں، اور اس حصے کے حسن بیان اور نغمگی کا اردو پرستوں کو بھی قائل ہوناپڑے گا۔ ہندی سے محبت رکھنے والے سمجھ دار لوگوں کو اس بات سے بالکل نہیں ڈرنا ہے کہ ہندی پڑھنے والا اگر اردو شاعری کے شہ پاروں کو پڑھ لے گا تو ہندی اسے بے مزہ یا بدمزہ معلوم ہونے لگے گی۔ وہ دن آجائے گا کہ ہندو طالب علم انیسؔ کو سب سے بڑا شاعر بتائے اور مسلمان طالب علم تلسی داس کو انیسؔ سے دس گنا بڑا ٹھہرا ئے۔ ہندو طالب علم اردو غزلوں پر جان دے اور مسلمان طالب علم مہادیوی کے نرم رسیلے اور دل میں اترجانے والے نغموں کی قسم کھائے۔

    اب اعتراضوں کو طاق پر رکھیے۔ میری تجویز پر اگر تمام اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں عمل ہوا تو ہماری قومی تعلیم اور قومی زندگی اور قومی کلچر میں انقلاب پیدا ہو جائے گا۔ آج اردو اور ہندی پڑھنے والوں کے دل اور دماغ جزیرے بن کر رہ گئے ہیں۔ ایک خطرناک دوغلاپن پیدا ہوگیا ہے۔ کہاوتوں، محاوروں، بولی ٹھولی کا عام ورثہ نہیں رہ گیا ہے، اردو ہندی والوں کے عام شاعر ومصنف نہیں رہ گئے ہیں۔ عام ادبی حوالے، ادبی روایتیں، ادبی واقفیتیں نہیں رہ گئی ہیں۔ بھیانک اجنبیت اور مغائرت و بے تعلقی پیدا ہوچکی ہے۔ دونوں کی سانسیں، نبضیں، دل کی دھڑکنیں، خون کی گردشیں، روحوں کے ارتعاش، دونوں کی داخلی اور وجدانی زندگیاں الگ ہوچکی ہیں۔ یہ حالت دشمنی اور بھڑکتے ہوئے تعصب سے زیادہ مہلک ہے۔

    اس موت نما حالت کو مٹانے کا یہ علاج نہیں کہ ہم اس پر ضد کریں کہ اردو یا ہندی میں صرف ایک ادب سے نئی نسلوں کی واقفیت ہونے دیں۔ جو ہندی کا عالم اردو نہیں جانتا (ناگری حروف کے ذریعے سے) اسے ہندی نہیں آتی۔ جو اردو عالم ہندی کے جواہر پاروں سے بے بہرہ ہے، اسے اردو نہیں آتی۔ پھر سوال محض ہندی آنے یا اردو آنے کا نہیں ہے، ادب صرف زبان یا لغت یا اسلوب بیان یا صنائع بدائع نہیں سکھاتا بلکہ سب سے بڑی خدمت اور زندگی بخش خدمت ادب کی یہ ہے کہ،

    آدمی آدمی کو پہچانے

    یا

    زندگی زندگی کو پہچانے

    ہندو مسلمان یا اردو والے اور ہندی والے ایک دسرے کے دل میں دل ڈال سکیں، باہم قرب اور باہم قدر پیدا ہو سکے اور اس طرح اردو کلچر اور ہندی کلچر سے مل کر دونوں کی زندگیاں سج اٹھیں اور ایک زبردست متحدہ کلچر کی برکتوں سے دونوں مالامال ہو سکیں۔ اس کی بڑی ضرورت ہے۔ اردو کو مٹا دینا ہندی کے لئے اچھا نہیں ہے۔ ہندی کو مٹا دینا اردو کے لئے اچھا نہیں ہے۔ نہ ہندی سے منھ پھیرے رہنا اردو والوں کے لئے اچھا ہے، نہ اردو سے آنکھیں پھیر لینا ہندی والوں کے لئے اچھا ہے۔ ہندوستان کے مزاج کی ایک جھلک ہندی ہے، ہندی اور اردو دونوں ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں۔ دونوں ہندوستانی فطرت اور مزاج کے دو تقاضوں کو پورا کرتی ہیں۔ ہندوستان کا، ہندی کا، اور اردو کا اس سے کوئی نقصان نہیں ہوا کہ یہاں حالیؔ کے ساتھ ہریش چندر، اقبالؔ کے ساتھ نرالا، میتھلی شرن گپت اور جے شنکر پرشاد یا جگرؔ کے ساتھ سمترانندن پنت پیدا ہوئے۔ سوچئے تو ہمارے آکاش میں اردو اور ہندی دونوں کے نغمے گونجے، تھرتھرائے اور جگمگائے۔ اتنے چاندوں سے امرت کی برکھا ہوئی تو کیا اس سے ہماری زندگی اور چمک اٹھی یا اور دھندلی ہوگئی؟

    جو شخص یا جو جماعت یہ کہے کہ صرف ہندی ادب نے ہمارے کلچر کی سیوا کی اور اردو نے ہمارے کلچر کو نقصان پہنچایا یا صرف اردو نے ہمارے کلچر کی سیوا کی اور ہندی نے ہمارے کلچر کو نقصان پہنچایا، اس شخص اور جماعت کو کلچر کے متعلق رائے دینے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ادبی خدمت کا پاک جذبہ اور ایسا پاک کام جس پر دیوتا اور فرشتے پھول برساتے ہیں، خواہ وہ خدمت اردو زبان کے ذریعے سے ہو یا ہندی زبان کے ذریعے ہو، اس خدمت، اس جذبے، اس کام کو برا کہنا، اس کی توہین کرنا، اس کی بے قدری کرنا، اس سے منہ پھیر لینا صرف ایک جاہل قابل لعنت کٹر پن کے سوا اور کچھ نہیں۔

    کتنا کامیاب ہوا ہے انگریز ہماری زندگی برباد کردینے میں، ہمارے بھرے پُرے سماج کے ٹکڑے ٹکڑے کردینے میں۔ جدید ہندی ادب کے جنم داتا ہریش چندر کے گھر اگر حالیؔ جاتے تو بھارتیندو (یہ ہریش چندر کا وہ لقب ہے جسے محبت اوراحترام سے ہندی خواں طبقہ نے انھیں دیا) خوشی سے پاگل ہو جاتے۔ اگر ہریش چندر کسی اردو مشاعرے میں میں جاتے تو اردو اشعار سن کر جھوم جھوم اٹھتے۔ یہی حال رائے دیوی پرشاد کا تھا، بال مکند گپت کا تھا، پریم چند کا تھا۔ مہرشی سوامی دیانند سرسوتی ہمیشہ سرسید احمد کے مہمان ہوتے تھے لیکن آج؟ جوشؔ ملیح آبادی، جگرؔ اور دوسرے اردو شاعرو ں کی بات چیت یا شاعری پنت، میتھلی، شرن گپت اور کئی ہندی شعراء نہ سنیں گے نہ سمجھیں گے۔ خانخاناں، رحیم ہندی کے ایک دوہے پر راج لٹا دیتے تھے، رس کھان نے اپنے کلیجے کے خون سے ہندی کو سینچا۔

    کل کی بات ہے کہ پدم سنگھ شرما نے مولانا محمد حسین آزاد کے قدموں پر عقیدت کے پھول چڑھائے، لیکن آج دل اچٹ گئے ہیں۔ ادبی پاکستان قائم ہوچکا ہے اور ایک دوسرے کو پہچاننا ناممکن ہوگیا ہے۔ شاعر اعظم ٹیگورؔ شاعر اعظم اقبالؔ کو خط لکھتے ہیں کہ ہم دونوں ایک ہی دیوی کی پوجا کررہے ہیں۔ ہم دونوں زندگی کے بلند اور پاکیزہ مقصدوں کی خدمت کررہے ہیں اور ہماری درس گاہیں ہیں کہ جہاں اقبالؔ کو پڑھنے والے ہندی شاعروں کا نام نہیں جانتے اور نئی پرانی ہندی پڑھنے والے اقبالؔ سے بے خبر ہیں اور اس پر بڑا ناز ہے دونوں کو یعنی سمپوجی اور منے خاں کو۔ ہائے ہائے!

    کتنا کامیاب ہوا ہے انگریز ہمارے گھر کو بگاڑنے میں! آج سے سو برس پہلے انشا نے لکھا تھا،

    بھلا گردش فلک کی چین دیتی ہے کسے انشاؔ

    غنیمت ہے کہ ہم صورت یہاں دو چار بیٹھے ہیں

    لیکن آج کسی ادبی جلسے میں یا کسی ایسی صحبت میں جہاں ادب کا چرچا ہو، ہندو اور مسلمان ساتھ بیٹھے نظر نہیں آتے۔

    آج ۹ فروری ۱۹۴۹ء کو انگلستان سے آئے ہوئے تین انگریز طالب علم الہ آباد یونیورسٹی یونین کے ایک مباحثے (ڈبیٹ) میں شریک ہوئے۔ ان میں سے ایک نے ہماری بولی میں تقریر کی۔ ایسا کرنا شرافت اور تہذیب کا ثبوت دینا تھا۔ لیکن اس غریب کو ہماری بولی بہت کم آتی تھی۔ وہ کہنا چاہتا تھا کہ کوئی لڑکی مباحثے میں حصہ کیوں نہیں لے رہی ہے۔ لیکن اس نے کہا کیا؟ یہ کہا،

    ’’ہم کو بڑا افسوس ہے کہ آج کوئی زنانہ آدمی نہیں بولا۔’‘

    لیکن اردو تو کوئی جانتا نہ تھا۔ سب سننے والے مشرف بہ ہندی تھے، ہندی ہی جانتے تھے، ہندی ہی پڑھی تھی۔ کسی کو ہنسی نہیں آئی، کوئی یہ نہیں سمجھا کہ زنانہ آدمی کا مطلب زنخا ہے۔ اس جملے کا مطلب یہ ہوا کہ ہم کو بڑا افسوس ہے کہ کوئی زنخا کیوں نہیں ڈبیٹ میں بولا۔ یقین جانئے کہ اگر ہندی کے ادیب بھی وہاں جمع ہوتے تو شاید ہی کوئی غیرارادی طورپر کہے ہوئے اس لطیف جملے کا مطلب سمجھتا؟ یہ کردیا ہے اردو اور ہندی کے بٹوارے اور باہمی بے تعلق نے۔ مگر یار لوگ ہیں کہ گھامڑ بنا دیے گئے اور ہیں بہت خوش! ہمیشہ رہے نا م انگریز کا!

    انگریز چلا گیا لیکن اس کی شیطانی چال کی یادگار ہر مدرسے، ہر کالج، ہر یونیورسٹی میں اب بھی نظر آتی ہے۔ الگ الگ ہندی اور اردو کلاسوں اور شعبوں کی شکل میں۔ تعلیمی کمیشنیں، یونیورسٹیوں کا کمیشن اور نہ جانے ماہرین تعلیم کے کون کون کمیشن بیٹھے ہوئے ہیں۔ لیکن جو مسئلہ یا جو سوال میں نے آپ کے سامنے رکھا ہے یعنی اردو اور ہندی ڈیپارٹمنٹوں کو توڑ کر ناگری حروف کے ذریعے دونوں ڈیپارٹمنٹوں کو ایک ڈیپارٹمنٹ بنانا، اس کی طرف کسی کا دھیان نہیں جاتا۔ خواہ اس شعبے یا ڈیپارٹمنٹ یا کلاس کا نام ہندی ہی کیوں نہ رکھا جائے۔ قوم اور قومی زندگی مٹ رہی ہے اور ہم ہیں کہ ہندی ہندی اور اردو اردو کیے جا رہے ہیں۔ اردو والا اور ہندی والا یہ کہہ کر خوش ہورہا ہے کہ،

    میں اپنی داد خود دے لوں کہ میں بھی کیا قیامت ہوں

    مأخذ:

    (Pg. 49)

    • مصنف: فراق گورکھپوری
      • ناشر: ایم۔ آر۔ پبلیکیشنز، نئی دہلی

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے