aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

افسانے کی حمایت میں (۲)

شمس الرحمن فاروقی

افسانے کی حمایت میں (۲)

شمس الرحمن فاروقی

MORE BYشمس الرحمن فاروقی

    افسانہ نگار مجھے سب سے بڑی شکایت یہ ہے کہ آپ نے اردو افسانے پر مغربی معیار مسلط کر دیے ہیں۔ ممکن ہے کہ یورپ میں افسانہ غیر ضروری ہو گیا ہو یا اس کو سنجیدگی سے لکھنے اور پڑھنے والے کم ہوں، لیکن آٖپ کو چاہیے تھا کہ اس مسئلے کو ہندوستان اور خاص کر اردو کے تناظر میں دیکھتے۔ یہاں تو یہ عالم ہے کہ ہمارے تمام سربرآوردہ ادیب افسانے کو اپنا مخصوص طرز اظہار مانتے ہیں۔

    نقاد میں نے یہ کب کہا کہ اردو میں افسانہ غیرمعمولی اہمیت کا حامل نہیں ہے؟ میں تو صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ پوری ادبی میراث اور ادب کے مختلف اصناف کی اضافی اہمیتوں کا اندازہ لگاتے ہوئے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ افسانہ ایک معمولی صنف سخن ہے اور علی الخصوص شاعری کے سامنے نہیں ٹھہر سکتا۔ کوئی کھیل محض اس وجہ سے عظیم نہیں ہو جاتا کہ اس کا کھیلنے والا بادشاہ یا وزیر اعظم ہے۔ ایسا کھیل اہمیت تو حاصل کر سکتا ہے لیکن عظمت اور چیز ہے۔ انگلستان کے شاہی خاندان کا پسندیدہ اور خاندانی کھیل گھڑ دوڑ ہے، لیکن اس کی بنا پر آپ گھر دوڑ یا سٹے کو عظیم کھیل نہیں کہہ سکتے۔

    دوسری طرف یہ بھی غور کیجئے کہ آپ نے گلی ڈنڈے میں یدطولیٰ حاصل کر بھی لیا تو کیا ہوا؟ آپ کو کرکٹ کے عالمی کھلاڑیوں کے مقابلے میں تو نہیں رکھا جا سکتا۔ یہ کہنا کہ صاحب پروست (Proust) اور کامیو (Camus) نے بھی تو افسانے لکھے ہیں، ویسا ہی ہے جیسا یہ کہنا کہ صاحب بریڈمین یا سو برس نے گلی ڈنڈا بھی کھیلا ہے۔ پروست اور کامیو کے افسانے یقیناً اعلیٰ معیار کی چیزیں ہیں، لیکن ان کے ناولوں کے سامنے یہ افسانے وہی وقعت رکھتے ہیں جو کرکٹ کے سامنے گلی ڈنڈے کی ہے۔

    افسانہ نگار اسی لئے تو لوگ آپ کو مغرب زدہ کہتے ہیں۔ دیکھئے آپ نے گلی ڈنڈے کو کرکٹ سے کمتر مانا ہے۔ گلی ڈنڈا آخر کیوں حقیر سمجھا جائے؟ انگریزوں کے لئے کرکٹ بہت اہم کھیل ہوگا۔ ہم گلی ڈنڈے یا پتنگ بازی یا کبڈی کو اپنا قومی کھیل مانیں تو اس میں کیا قباحت ہے؟ آخر ہم بھی تو ایک تہذیب ہیں، ایک قومی تشخص رکھتے ہیں۔

    نقاد قباحت کوئی نہیں ہے، سوائے اس کے کہ گلی ڈنڈا، پتنگ بازی، کبڈی وغیرہ ہماری نظروں میں کتنے ہی محترم کیوں نہ ہوں لیکن ان کو کھیلنے میں اس مشق اور مہارت اور محنت اور فن کاری کی ضرورت نہیں ہوتی جو کرکٹ یا ٹینس میں درکار ہے۔ اور اگر آپ کو کرکٹ یا دوسرے مغربی کھیلوں سے کد ہے تو جوڈو (Judo) یا کراٹے (Karate) کہہ لیجئے۔ مشرق بعید کے جوڈو (Judo) یا کراٹے (Karate) اور ہمارے یہاں کی پنجہ کشی میں وہی رشتہ ہے جو شاعری اور افسانے یا کرکٹ اور گلی ڈنڈے میں ہے۔

    استاد میر علی پنجہ کش ہزار تیس مار خاں رہے ہوں، لیکن وہ ایک بہت ہی محدود فن کے دائرے میں بند تھے۔ عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا، لیکن قطرہ خود تو دریا نہیں بن سکتا۔ پنجہ کشی یا گلی ڈنڈے کو آپ کتنی ہی دور کیوں نہ لے جائیں لیکن ان میں وہ پیچیدگی نہیں آ سکتی جو کراٹے یا کرکٹ میں ہے۔ بنیادی بات یہ ہے اگر کراٹے کا کوئی بلیک بیلٹ (Black Belt) خوش فعلی کے لئے پنجہ بھی لڑائے تو یہ پنجہ کشی کا اعزاز ہوا، بلیک بلٹ کا نہیں۔ پروست اور کامیو اگر افسانہ لکھتے ہیں تو یہ افسانے کا اعزاز ہوا، ان کا نہیں۔

    افسانہ نگار مجھے اس بات پر سخت اعتراض ہے کہ آپ مغربی نقادوں کے حوالے سے اپنی بات ثابت کرتے ہیں۔ مغرب کے نقاد مغرب کے لئے ہیں نہ کہ ہمارے لئے۔

    نقاد درست، لیکن ذرا ٹھہر کر دیکھئے۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ تنقید میں مشرق اور مغرب شاید بہت دور تک نہیں چلتا اور افسانے کی تنقید میں تو یقیناً مشرق اور مغرب بہت دور تک نہیں چلتا۔ افسانہ نگاری کا فن اور اس کی تنقید کا طور طریقہ، دونوں ہی آپ نے مغرب سے سیکھے ہیں۔ اگر میں مغربی معیاروں کے حوالے سے کرشن چندر یا منٹو کی تعریف کرتا ہوں تو آپ کو خوشی کیوں ہوتی ہے؟ جب Beachcroft صاحب اپنی کتاب The Modest Art میں فرماتے ہیں کہ ہندوستانی افسانہ چیخوف سے بہت نزدیک ہے تو خوشی سے آپ کا سینہ کیوں پھول جاتا ہے؟ میٹھا میٹھا ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تنقید کا شیوہ نہیں ہے۔

    لیکن یہ بھی تو سوچیے کہ کوئی بات محض اس وجہ سے غلط نہیں ہو جاتی کہ اس کا کہنے والا اردو نہیں بولتا اور کوئی بات محض اس وجہ سے سچ نہیں مانی جا سکتی کہ اس کا کہنے والا اردو کا ڈاکٹر ہے۔ اور آخری بات یہ ہے کہ میں نے پچھلی گفتگو میں افسانے کی وقعت کے بارے میں ایک بات بھی کسی مغربی نقاد کے حوالے سے نہیں کہی۔ آپ ذرا غور سے پڑھیے، دیکھئے میں نے کہیں بھی یہ کہا ہے کہ چونکہ فلاں مغربی نقاد نے بیان دیا ہے کہ افسانہ تھرڈ کلاس صنف سخن ہے اس لئے میں بھی یہی کہتا ہوں؟

    افسانہ نگار آپ نے کسی کا نام تو نہیں لیا ہے لیکن یہ بات واضح ہے کہ آپ کی باتیں سمندر پار کے نقادوں سے مستعار ہیں۔

    نقاد یوں تو ہمارے نکتہ چیں نقادوں کے خیال میں محض شک پر کس کو بھی پھانسی دی جا سکتی ہے، لیکن تحریری ثبوت کی روشنی میں یہ فیصلہ آپ کس طرح کر سکتے ہیں کہ میری تمام باتیں مغربی نقادوں سے مستعار ہیں؟ جب میں نے کسی کا حوالہ نہیں دیا تو۔

    افسانہ نگار حوالہ نہ دیا نہ سہی، لیکن آپ سے پہلے یہ بات اردو میں کسی نے نہیں کہی کہ افسانہ شاعری سے کمتر ہے اور آپ کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ آپ نے انگریزی میں ایم۔ اے۔ کیا ہے۔

    نقاد تو آپ یہ چاہتے ہیں کہ میں صرف وہی باتیں کہوں جو اردو میں پہلے کہی جا چکی ہیں؟ یا آپ کا منشا یہ ہے کہ اگر مغرب کے بجائے مشرق کے نقادوں کی رائیں مستعار لی جائیں تو بہتر ہوگا؟

    افسانہ نگار جی نہیں، میرا مطلب یہ ہے کہ۔

    نقاد تو شاید آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ میں نے اپنے مآخذ جان بوجھ کر چھپائے ہیں۔ جناب اس دنیا میں ایک سے ایک پڑھا لکھا آدمی پڑا ہوا ہے، یہ کیونکر ممکن ہے کہ کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی کو میرے مآخذ کا پتہ نہ ہو۔ یوں تو اکثر نقادوں کے خیالات میں تھوڑی بہت مماثلت پائی جاتی ہے، یہ کوئی جرم بھی نہیں۔

    افسانہ نگار سوال یہ ہے کہ آخر اس پورے لم جھگڑے کا حاصل کیا ہے؟ اس بحث کا مصرف ہی کیا ہے کہ کون سی صنف ادب برتر ہے اور کون سی صنف ادب کم تر ہے؟

    نقاد پہلی بات تو یہ کہ اصناف کی درجہ بندی کی بحث کوئی میری ایجاد نہیں۔ اس کی ابتداارسطو سے ہوتی ہے۔ مشرق میں امیر عنصر المعالی نے اس پر بڑے اعتماد اور عمق سے لکھا ہے۔ نثر اور نظم کے مدارج اور امتیاز پر سنسکرت شعریات میں بھی خوب گفتگو ہوئی ہے اور نزدیک آئیے تو ہیگل (Hegel)، پھر نطشہ، پھر باختن (Bakhtin) نے یہ بحث چھیڑی ہے۔ دوسری بات یہ کہ اصناف کی درجہ بندی ہمیں اصناف کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہے اور اصناف کی تنقید اس معلومات کے بغیر ہو ہی نہیں سکتی۔

    افسانہ نگار خیر، یہ تو فروعی بحث ہے۔ کچھ مغربی ادیبوں نے اگر افسانے کو حقیر ٹھہرایا ہے تو کچھ نے اسے محترم بھی ٹھہرایا ہے۔ بحث اس طرح نہیں طے ہو سکتی۔ لیکن افسانے کی ضمن میں یہ بات تو تقریباً سبھی مانتے ہیں کہ اس کا تاثر نظم سے بہت قریب ہوتا ہے، بلکہ اس میں وہی قوت ہوتی ہے جو نظم یا غزل کے شعر میں ہوتی ہے۔ کیا آپ یہ بھی نہیں مانتے؟

    نقاد اگر میں یہ مان بھی لوں تو اس سے افسانے کا کیا بھلا ہوگا؟ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکےگا کہ افسانہ کچھ نہیں ہے، نظم کی نثری نقل ہے۔

    افسانہ نگار کیوں؟ نثری نقل کیوں؟

    نقاد اس لئے کہ نظم پہلے وجود میں آئی اور افسانہ بعد میں۔ نظم archetype ہے تو افسانہ prototype۔ یہ تو آپ بھی مانیں گے کہ آر کی ٹائپ کا درجہ prototype سے اونچا ہوتا ہے۔ افلاطون والی بحث آپ کو یاد ہوگی۔ افلاطون کے بقول حقیقت صرف ایک ہے، جو ازلی ہے اور عینی ہے۔ دنیا کی تمام اشیا اس کا پرتو یا اس کی نقل ہیں۔ شاعری اس نقل کی نقل ہے۔ اس اعتبار سے افسانہ اس نقل کی نقل کی نقل ہوا۔ ہاں اگر آپ یہ کہتے کہ نظم میں وہی قوت ہوتی ہے جو افسانے میں ہے تو میں مان لیتا کہ افسانہ افضل ہے۔ اچھا اس مسئلے پر یوں غور کیجئے۔ نظم کی خوبی کیا ہے؟

    افسانہ نگار ارتکاز، مرکز جوئی (centripentality) جو اکثر مرکز گریز ندگی (centrifugality) میں بدل جاتی ہے۔

    نقاد بہت خوب، پھر نظم میں یہ خوبی کہاں سے آئی ہے؟

    افسانہ نگار استعارہ، علامت، پیکر، وزن، تفصیلات کا اخراج، مختلف النوع اشیا کو بیک وقت گرفت میں لے آنے کی صلاحیت، اسی وجہ سے اچھی نظم معنی کے اعتبار سے نسبتاً لامحدود ہوتی ہے۔

    نقاد کیا نظم میں منظر نامہ ہوتا ہے؟ اگر ہاں، تو کس طرح کا؟

    افسانہ نگار نظم کا منظر نامہ دوسرے تمام منظر ناموں سے مختلف ہوتا ہے، اس معنی میں کہ اس میں داخل اور خارج مدغم ہو جاتے ہیں۔ شعر سنئے،

    شور جولاں تھا کنار بحر پر کس کا کہ آج
    گرد ساحل ہے بہ زخم موجۂ دریا نمک

    یہاں منظر نامہ حقیقی ہے بھی اور نہیں بھی۔ کنار بحر اصلی اور حقیقی بھی ہو سکتا ہے، خیالی بھی۔ گرد ساحل اور زخم موجہ دریا کا وجود واقعی بھی ہو سکتا ہے، غیر واقعی بھی۔ کولرج (Coleridge) اس کو mental space کہتا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا اسپنسر (Spenser) کی فیری کوئین (Fairie Queene) کے منظرنامے کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتا ہے۔

    نقاد بالکل درست۔ اس وقت افتخار جالب ہوتے تو اچھل پڑتے، کیوں کہ انہیں کولرج سے بہت محبت ہے، آپ کو خیال ہوگا انہوں نے میرے مضامین کے مجموعے ’’لفظ و معنی‘‘ میں سب سے بڑی خوبی یہ ڈھونڈی تھی کہ اس میں جگہ جگہ کولرج اور رچرڈس (I. A. Richards) کے اثرات ہیں۔ اب آپ یہ بتائیے کہ جن باتوں کا ذکر آپ اب تک کرتے رہے ہیں، علی الخصوص منظر نامے کا، کیا ایسا منظر نامہ افسانے میں ممکن ہے؟ یہ بھول جائیے کہ روب گرئیے (Robbe Grillet) تو بہرحال mental space کا سخت مخالف ہے۔ وہ کہتا ہے کہ شئے محض شئے ہے، اصلی اور ٹھوس۔ اچھا چھوڑیے روب گرئیے تو سرپھرا ہے، آپ اردو کے نقادوں سے پوچھ کر آئیے کہ غالب کا شعر افسانہ ہے کہ نہیں؟ یوں تو اس میں پلاٹ بھی ہے۔

    افسانہ نگار کیوں؟ پلاٹ کہاں سے آیا؟

    نقاد آپ پوری بات سن لیجئے پھر بدکیےگا۔ اس میں پلاٹ بھی ہے، کردار بھی اور منظر بھی۔ افسانے میں یہی چیزیں ہوتی ہیں نہ؟ پلاٹ؟ وہ تو اس قدر عمدہ ہے کہ روب گرئیے بھی سردھنتا۔ ایک شخص، بلکہ پراسرار شخص، گھوڑے پر سوار ہوکر دریا کی طرف نکلا۔ اس کے تو سن تیزنے گرد اڑائی، یہ گرد دریا کی موجوں پر پڑی۔ موجیں بھی تیز رفتار تھیں۔ وسط دریا سے ساحل تک وہ بار بار اس تیزی سے آتی اور جاتی تھیں گویا سرپٹک رہی تھیں۔ لیکن تو سن تیز کی رفتار کے سامنے وہ کچھ نہ تھیں۔ وہ رشک و خوف سے بے چین ہو گئیں۔ کون گذرا تھا؟ کون تھا وہ رخشِ بے لگام پر سوار، جس نے یہ تلاطم برپا کر دیا، ایک تلاطم زمین پر ہے، ایک آسمان میں (کیونکہ گرد اڑی ہے اور شور اٹھا ہے) اور ایک تلاطم دریا پر۔ وہ خود شعلے کی سی لپک رکھتا تھا کہ آیا اور گیا۔ آتش و آب و خاک وباد، سب میں وہی وہ تھا۔ وہ کون تھا؟

    افسانہ نگار اس طرح تو ہر شعر میں افسانویت ڈھونڈی جا سکتی ہے۔

    نقاد اس طرح اور اس طرح کی بات نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اس شعر میں بھی افسانہ ہے، لیکن پھر بھی یہ افسانہ نہیں ہے، کیوں؟

    افسانہ نگار شاید اس وجہ سے کہ اس شعر کا منظر نامہ دو رخا ہے، بلکہ کئی رخ رکھتا ہے۔ مگر میرا خیال ہے ایسے افسانے ڈھونڈے جا سکتے ہیں جن کا منظر داخل اور خارج دونوں پر یکساں محیط ہو۔

    نقاد اول تو ایسا ممکن نہیں، کیوں کہ افسانہ کسی واقعی منظر کے حوالے کے بغیر سمجھا ہی نہیں جا سکتا، لیکن اگر یہ ممکن بھی ہوا تو یہ کہاں ثابت ہوا کہ شاعری افسانے کی نقل ہے؟

    افسانہ نگار اچھا مان لیا کہ افسانہ شاعری کی نقل ہے۔ تب بھی یہ ایک قابل قدر صنف سخن ہوا، کیوں کہ یہ شاعری نہ ہوتے ہوئے بھی شاعری کی صورت حال کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

    نقاد اب اگر میں کوے اور ہنس والی مثل کہوں گا تو آپ اور بھی خفا ہوں گے۔ لیکن مذاق برطرف، میرا خیال ہے کہ افسانہ شاعری کی نقل کرہی نہیں سکتا۔ ان میں جو فرق ہے وہ نوع کا ہے، درجے کا نہیں اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ افسانہ بہر حال نثر کا غلام ہے۔ نثر پر شعر کی برتری کا نسبتاً تفصیلی ذکر میں خود کر چکا ہوں، کسی مغربی نقاد کا حوالہ نہیں۔

    افسانہ نگار جی ہاں ’’شعر کا ابلاغ‘‘ اور ’’شعر، غیر شعر اور نثر‘‘ میں۔

    نقاد بجا ہے۔ شعر اس لئے برتر ہے کہ وہ زبان کا بہتر، زیادہ حساس اور نوکیلا استعمال کرتا ہے۔ یہ درست ہے کہ افسانے کی نثر تخلیقی نثر ہوتی ہے، اس لئے وہ شعر کے بہت قریب ہے، لیکن یہ بھی خاطر نشاں رہے کہ تخلیقی نثر میں شعر کے ہتھکنڈے نہ صرف بہت محدود دائرہ کار رکھتے ہیں، بلکہ بعض نقادوں کا یہ بھی خیال ہے کہ جہاں نظم میں بنیادی اکائی لفظ ہے، وہاں افسانے میں بنیادی اکائی لفظ نہیں ہے بلکہ واقعہ ہے۔ رچرڈس کی اصطلاح میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ افسانے کی زبان میں حوالہ جاتی عنصر یعنی referential element خاصا ہوتا ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ اردو کے بعض افسانہ نگار بھی کہتے ہیں کہ افسانے یا ناول میں زبان کی بھلا کیا اہمیت ہے؟ اگر واقعہ یا نفسیاتی تجزیہ یا کردار نگاری زوردار ہے تو افسانہ بھی زودار ہوگا۔ میں یہ بات نہیں مانتا اور بار بار کہتا ہوں کہ زبان کو پوری اہمیت دیے بغیر نہ اچھا افسانہ لکھا جا سکتا ہے اور نہ اس پر اچھی تنقید ہو سکتی ہے۔

    لیکن اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ اعلیٰ شاعری میں کسی ٹھونس ٹھانس، حشو و زوائد برائے بیت یعنی slack کی گنجائش نہیں ہوتی، لیکن اعلیٰ سے اعلیٰ افسانے میں بھی slack نکل آتا ہے۔ بات یہ ہے کہ افسانے کی زبان میں وہ تناؤ نہیں ہو سکتا جو شاعری کا خاصہ ہے۔ اردو میں بعض مثالیں بالکل سامنے کی ہیں۔ مثلاً بیدی اور قرۃ العین حیدر کو دیکھئے۔ ان کے یہاں slack کی کثرت ہے پھر بھی ہم ان کو اہم افسانہ نگاروں کی فہرست میں بہت اونچی جگہ دینے پر مجبور ہیں۔ لیکن غالب، اقبال، میر یا انیس کے بہترین کلام میں slack کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

    خیر ان باتوں کو الگ رکھئے۔ اس کو یوں دیکھئے کہ نظم تجربے کے ترفع یعنی heightening کی جس سطح پر وجود میں آتی ہے، وہ زیادہ تر اس کی زبان کی مرہون منت ہے۔ افسانہ نگار کو مکالمہ، روداد، بیان سے کام لینا پڑتا ہے۔ ان تمام حالات میں ترفع کا مفقود ہو جانا لازمی ہے۔ مثلاً ایک افسانہ ہے، انتہائی سادہ، الف نامی ایک شخص جیم نامی ایک لڑکی سے محبت کرتا ہے، لیکن جیم کو اس سے محبت نہیں ہے۔ اتنا ہی نہیں، جیم جدید زمانے کی promiscuous لڑکی ہے۔ وہ بہتوں پر التفات کی نگاہ رکھتی ہے۔ لیکن الف کی محبت کسی نہ کسی وجہ سے اس کو ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ اس لئے وہ ہر جگہ اس کا مذاق اڑاتی ہے، اس کو رسوا کرتی ہے اور رسوا بھی یوں کرتی ہے کہ اپنے دوسرے عاشقوں کو اعلانیہ بتاتی پھرتی ہے کہ دیکھو الف کتنا احمق ہے کہ مجھ پر عاشق ہونے کا دعویٰ رکھتا ہے۔

    ایک دن وہ آتا ہے کہ الف جیم کے دروازے پر خود کو گولی مار لیتا ہے۔ جیم پر ذرا بھی اثر نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ ایک سفاک تبسم کے ساتھ الف کے خون میں اپنی انگلیاں ڈبوتی ہے اور اپنے دوسرے عاشقوں کے نام اس خون سے دیوار پر لکھتی ہے۔ اب ایک شعر سنیے جس میں یہ افسانہ بیان کیا گیا ہے،

    کس کس طرح سے مجھ کو نہ رسوا کیا گیا
    غیروں کا نام میرے لہو سے لکھا گیا

    اب آپ نے ترفع کی کارفرمائی دیکھی؟ الف جیم پر عاشق ہے۔ یہ بیان شعر سے مفقود ہے۔ جیم کو الف ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ وہ ہر جگہ اس کا مذاق اڑاتی ہے۔ اس کی جگہ صرف ’’کس کس طرح سے نہ‘‘ کہا گیا ہے۔ جیم promiscuous ہے۔ اس کا ذکر نہیں ہے۔ صرف ’’غیروں‘‘ کا لفظ ہے۔ الف کا تذکرہ دوسرے عاشقوں سے ہوتا ہے۔ اس کا کوئی ذکر شعر میں نہیں ہے۔ ’’میرے لہو‘‘ میں کوئی ضروری نہیں کہ الف نے واقعی خودکشی کی ہو، اس کو جیم نے یا کسی دوسرے عاشق نے گولی مار دی ہو۔ افسانے میں اس واقعے کا بہ طور واقعہ تذکرہ ضروری ہے۔ شعر میں الف کی خود کشی یا قتل قطعاً فرضی ہے، لیکن پھر بھی واقعہ قائم ہو گیا ہے۔

     ’’نام لکھا گیا۔‘‘ افسانے میں یہ کہنا ضروری ہے کہ جیم نے واقعی اپنی انگلیاں خون میں ڈبوئیں اور واقعی کئی سچ مچ کی عاشقوں کا نام لکھا۔ شعر میں ایک باقاعدہ بیان ہے لیکن کسی کو یہ دھوکا نہیں ہوتا کہ ایسا واقعی ہوگا۔ واقعہ قائم ہو گیا ہے، لیکن اپنی face value پر نہیں۔ افسانے میں آپ کو نہ صرف یہ واقعہ face value پر قائم کرنا ہوتا ہے بلکہ یہ بھی کہ اس واقعے کو قائم کرنے کے لئے بہت سے معاون واقعات و مناظر بھی قائم کرنے پڑتے ہیں۔ اس دیوار کا، ان لوگوں کا، جیم اور الف کے تعلقات کا، الف کی موت کا، الف اور جیم اور غیروں کا، ان سب کا تذکرہ افسانے میں ضروری ہے۔ آپ کتنا ہی دوڑیں بھاگیں لیکن واقعہ قائم کئے بغیر افسانہ نہیں لکھ سکتے، چاہے واقعہ صرف اتنا ہی کیوں نہ ہو کہ دروازہ کھلا اور بند ہوا۔

    ظاہر ہے کہ اتنی سب تفصیل بیان کرنے کی وجہ سے آپ کی زبان میں وہ نوک، وہ اختصار و ارتکاز رہ ہی نہیں سکتا جو اس شعر میں ہے اور استعارے کی منزل پر دیکھئے تو اس شعر کی کہانی یہ ہے کہ متکلم عاشق کو مسترد کیا گیا تو وہ اسے اپنی موت قرار دیتا ہے، اور اس کی معشوقہ نے اس کو چھوڑ کر اوروں پر التفات کیا تو گویا ان کا نام متکلم عاشق کے خون سے داستان عشق میں لکھا گیا۔

    افسانہ نگار لیکن افسانے کی تفصیلات اور اس میں واقعات کا وفور ہمارے تاثر میں اضافہ تو کرتا ہے۔

    نقاد اضافہ کس طرح مانا جا سکتا ہے؟ اگر آپ اسے اضافہ کہیں گے تو وہ خالص افسانے کا مرہون منت نہ ہوگا، بلکہ فروعات کا ہوگا۔ مثلاً یہ تو ممکن ہے کہ آپ الف کی موت کا ایسا لرزہ خیز بیان لکھیں کہ پڑھنے والے غش کھا جائیں۔ لیکن اس سے بنیادی موضوع کے تاثر میں کیا اضافہ ہوگا؟

    افسانہ نگار بنیادی موضوع کیا ہے؟

    نقاد بنیادی موضوع کچھ بھی ہو لیکن وہ الف کی موت نہیں ہے۔ بنیاد ی موضوع ہے عشق اور انسانی زندگی پر (یا کسی ایک انسان کی زندگی پر) اس کا اثر۔ اجی صاحب ’’شہاب کی سرگذشت‘‘ جیسے سادہ ترین افسانے میں بھی بنیادی موضوع شہاب کی موت نہیں ہے، تو ہمارے افسانے میں کہاں سے ہوگا؟ دوسری بات یہ ہے کہ فرض کیجئے ایک شخص نے پانچ سو بیگہ زمین میں پچاس من گیہوں اگایا اور ایک شخص نے پچاس بیگہ زمین میں چالیس من گیہوں اگایا، تو آپ کس کو زیادہ ہوشیار مانیں گے؟ ظاہر ہے کہ پچاس بیگہ والے کو، کیوں کہ وہ اپنی زمین کے امکانات کو پوری طرح کھنگالتا اور بروے کار لاتا ہے۔

    افسانہ نگار کی مثال اس نوکر کی ہے جسے انجیل کے مطابق اس کے مالک نے ایک تھیلی دی تھی، جس کی اس نے دو تھیلیاں کردیں اور شاعر کی مثال اس نوکر کی ہے جس نے ایک کی تین تھیلیاں بنا ڈالیں۔ زبان ایک دولت ہے۔ شعر اس کو پوری طرح استعمال کرتا ہے، کیونکہ وہ اس سے خوف نہیں کھاتا۔ افسانہ نگار بےچارہ گھبرا جاتا ہے۔ اور زبان کا اسراف بےجا کرنے لگتا ہے، وہ اپنی فطرت سے مجبور ہے۔ میں اسی لئے ناول کو بھی شعر سے کم تر مانتا ہوں، افسانہ تو پھر افسانہ ہے۔

    شعر میں تو ایک وہ منزل آتی ہے جب زبان شاعر کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے اور پھر خود شاعر کو بھی خبر نہیں ہوتی کہ صریر خامہ کو نوائے سروش میں کس نے تبدیل کر دیا۔ ایسے لمحات میں زبان اس طرح بیدار ہوتی ہے جس طرح سینکڑوں برس کا سویا ہوا دیو اچانک جاگ کر اٹھ بیٹھتا ہے اور اس کا سایہ زمین کو تاریک کر دیتا ہے۔ افسانے کو یہ لمحے کہاں نصیب ہو سکتے ہیں؟ ایسے ہی لمحوں میں زبان کا سکہ چھن چھناکر یک سمتی کے بجائے سہ سمتی ہو جاتا ہے۔

    افسانہ نگار ابھی آپ نے کہا کہ ایک سے دو تھیلیاں کرنے والا افسانہ ہے اور ایک سے تین بنانے والا نوکر شعر ہے۔ تو پھر تنقید کیا ہے؟

    نقاد ظاہر ہے کہ ایک تھیلی کو ایک ہی بنائے رکھنے والا نوکر تنقید ہے۔ اسی لئے تو انجیل کے اس نوکر کی طرح نقاد کی تقدیر میں بھی رونا اور دانت پیسنا لکھا ہے۔

    افسانہ نگار (قہقہہ)

    مأخذ:

    افسانے کی حمایت میں (Pg. 24)

    • مصنف: شمس الرحمن فاروقی
      • ناشر: مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2006

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے