aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

افسانے کی حمایت میں (۳)

شمس الرحمن فاروقی

افسانے کی حمایت میں (۳)

شمس الرحمن فاروقی

MORE BYشمس الرحمن فاروقی

     

    نقاد نمبر ایک ایسا لگتا ہے نئے افسانہ نگاروں کے پاس کہنے کے لئے کچھ نہیں ہے۔ وہی چند گھسی پٹی علامتیں جن کامفہوم خود انہیں بھی ٹھیک سے نہیں معلوم، وہی پرتکلف انداز بیان، وہی زندگی سے بیزاری۔ جو برائیاں آج سے پندرہ بیس سال پہلے کے افسانہ نگاروں کا طرہ امتیاز تھیں اور جن کی وجہ سے ان پر لعن طعن ہوتی تھی، آج کے افسانہ نگاروں میں بھی نمایاں ہیں۔ پچھلے افسانہ نگار تو پھر بھی کسی نہ کسی طرح جان بچاکر نکل گئے، لیکن آج کی نسل کا خدا ہی حافظ ہے۔ کہانی مر چکی ہے۔ اب اس کے کفن دفن کا انتظام کرنا چاہیے اور آج کے افسانہ نگاروں کو بھی اس کے ساتھ دفنا دینا چاہیے۔

    نقاد نمبر دو جی نہیں، شاعری کی طرح افسانے میں بھی ایک تیسری آواز پیدا ہو رہی ہے۔

    ایک بے نام شخص جس آواز کو آپ تیسری آواز سمجھ رہے ہیں، وہ صرف آپ کے کانوں میں بج رہی ہے۔ مجھے یاد آتا ہے کہ آپ نے بعض ایسے شاعروں کے یہاں بھی تیسری آواز تلاش کی تھی جو بیس پچیس برس سے مشاعروں میں داد سخن دے رہے ہیں۔ تیسری اور چوتھی آواز کا چکر چلاکر آپ اپنے دوچار حاشیہ نشینوں کو تو خوش کر سکتے ہیں، فن کار یا قاری کو بےوقوف نہیں بنا سکتے۔

    نقاد نمبر دو مارکس نے بھی احساس تنہائی کو ا یک مثبت قدر مانا ہے۔ اگر آج کا افسانہ نگار اپنے ماحول سے بیزار ہے اور اس میں خود کو تنہا محسوس کرتا ہے تو یہ ایک صالح اور صحت مند بات ہے۔

    بے نام شخص آپ مارکس بے چارے کو مفت بدنام کر رہے ہیں۔ تنقید کے مسائل تو ادبی سطح پر طے کئے جاتے ہیں۔ ہاں انکم ٹیکس کے بارے میں کچھ کہنا ہو تو مارکس کا حوالہ ضرور دیں۔ یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ کل تک تو آپ احساس تنہائی اور ماحول سے بیزاری کو بہت برا کہہ رہے تھے اور آج اسے صالح اور مثبت قدر مان رہے ہیں! اور کل تک تو آپ آئیڈیالوجی کے منکر تھے اور آج ہر چیز کو آئیڈیالوجی کی کرسی پر بٹھا رہے ہیں۔ ویسے اگر صالح اور مثبت اقدار کی تلاش ہے تو۔

    نقاد نمبر ایک (بات کاٹ کر) اجی آپ کہاں کا رونا لے بیٹھے۔ میں نئے ا فسانے کے خلاف نہیں ہوں۔ میں تو اس کا بڑا ہمدرد ہوں، لیکن مشکل یہ ہے کہ نئے افسانے میں علامت کا پیچ ایسا پڑ گیا ہے کہ ڈور کو الجھا رہے ہیں اور سرا ملتا نہیں۔ نئے افسانے کے بطن سے۔۔۔ میرا مطلب ہے بطون سے، علامت ظاہر نہیں ہوتی۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ ان افسانہ نگاروں نے علامت کو جبراً یا فیشن کے طور پر اختیار کیا ہے۔ ان میں بےساختگی کی کمی ہے۔ ان کا افسانہ بہت سطحی اور نقلی معلوم ہوتا ہے۔

    نقاد نمبر دو نہیں، اصل بات یہ ہے کہ ان افسانوں میں کہانی پن کا فقدان ہے۔ ان کو پڑھنا بڑا مشکل ہے۔ ان افسانوں میں واقعات کی کمی ہے، بعض افسانوں میں تو بہت معمولی سا واقعہ ہوتا ہے۔

    افسانہ نگار (دھیمی آواز میں) اتنی سی بات تھی جسے افسانہ کر دیا۔

    نقاد نمبر دو جی، کیا کہا؟ اب اتنی سی بات یا اتنی سی بات پر افسانہ نہیں بن سکتا۔ افسانے کو رزم گاہ حیات کا آئینہ دار ہونا چاہیے۔ افسانے میں خیروشر کی آویزش ضروری ہے اور خیر کو شر پر فتح مند بھی ہونا چاہیے۔ اصل زندگی میں چاہے کچھ بھی ہوتا ہو، لیکن افسانے کو چاہیے کہ خیر کے ہاتھ مضبوط کرے اور لوگوں کو یقین دلائے کہ خیر ہمیشہ غالب آتا ہے۔ افسانے کا فرض ہے کہ وہ عوام کی امیدوں کو بیدار رکھے، انہیں ایک روشن مستقبل کی طرف پیہم گامزن دکھائے۔ اگر افسانے میں بھی شر کی فتح ہونے لگے گی تو افسانہ اور اصل زندگی میں فرق کیا رہا؟

    بے نام شخص یعنی آپ افسانے میں واقعیت کے خلاف ہیں؟

    نقاد نمبر دو کون کہتا ہے میں واقعیت کے خلاف ہوں؟ میں تو عینیت پرست ہوں، جو سب سے بڑی واقعیت پرستی ہے۔ عینی حقیقت یہ ہے کہ انسان کا مستقبل روشن اور اس کی تقدیر اچھی ہے۔ آج انسان جبر اور بدی کے خلاف نبرد آزما ہے، اس نبرد میں آج وہ قدم قدم پر پسپا ہو رہا ہے تو کیا ہوا؟ کل وہ ضرور فکر مند ہوگا۔ میں افسانہ نگار سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ کل کی بات کرے۔ آج کی ماتم داری بہت ہو چکی۔

    افسانہ نگار لیکن آپ تو کہانی پن کے بارے میں کچھ کہہ رہے تھے۔ اگر آپ میرے افسانے میں واقعات کی کثرت چاہتے ہیں تو شاید ایسے واقعات بھی درآئیں جن میں آج کی ماتم داری جھلکتی ہو۔

    نقاد نمبر دو واقعات کی کثرت ہوگی تو افسانے میں کہانی پن تو آ جائےگا۔ افسانہ پڑھنے میں آسانی تو ہوگی۔ اس وقت آپ کے افسانے پڑھنا لوہے کے چنے چبانا ہے۔ جب آپ کے یہاں واقعات کی کثرت ہو جائےگی تو میں آپ کو ایسے واقعات منتخب کرنے کا سلیقہ سکھاؤں گا جو عینیت پرست واقعیت کا استحکام کریں۔ ایسی واقعیت کسی کام کی نہیں جو حقائق حیات کے بھیانک پہلوؤں کو سامنے لائے۔

    افسانہ نگار میں بڑی الجھن میں ہوں۔ مجھے عینیت یا واقعیت کچھ نہیں معلوم۔ مجھے تو صرف یہ معلوم ہے کہ میں اپنے گردوپیش کی زندگی سے افسانے چنتا ہوں۔ اب رہے واقعات، تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ ایک ہی دو واقعے سے کام چل جائے تو واقعات کی بھرمارے سے کیا فائدہ؟

    نقاد نمبر ایک اور نمبر دو (بڑے جوش سے) کام چلتا کہاں ہے؟

    بے نام شخص نقاد ان فن صاحبان، کیا آپ یہ بتانے کی زحمت کریں گے کہ ’’بوستان خیال‘‘ اور ’’داستان امیر حمزہ‘‘ میں واقعات کی کثرت ہے یا نہیں؟

    نقاد نمبر ایک اور نمبر دو (یک زبان ہوکر) یقیناً ہے۔

    بے نام شخص تو پھر ان میں کہانی پن بھی ہوگا؟

    دونوں (ہنس کر) یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے؟

    بے نام شخص پھر تو آپ دونوں صاحبان نے یہ دونوں کتابیں از اول تا آخر بار بار پڑھی ہوں گی؟

    نقاد نمبر ایک جی؟ ہاں۔ ن۔ نہیں، میرا مطلب ہے نہیں، ایسا تو نہیں ہے۔

    نقاد نمبر دو (گلا صاف کرتے ہوئے) دیکھئے، بات یہ ہے کہ یہ کتابیں ملتی نہیں ہیں اور اگر مل بھی جائیں تو اتنی طول طویل ہیں کہ ان کا پڑھنا کارے دارد۔ زندگی آج کل اس قدر تیز رفتار ہو گئی ہے۔

    افسانہ نگار آپ صاحبان صاف صاف کیوں نہیں کہتے کہ واقعات کی کثرت کے باوجود آپ کے خیال میں ان داستانوں میں کہانی پن نہیں ہے؟

    نقاد نمبر ایک (کچھ کہنے کے لئے منھ کھولتا ہے لیکن پھر سختی سے بند کر لیتا ہے۔)

    نقاد نمبر دو (نہیں کو کھینچ کر ادا کرتا ہے) نہیں، ایسا تو نہیں ہے مگر۔

    بے نام شخص یہ کیسے کہہ دیں کہ داستانوں میں کہانی پن نہیں ہے؟ اگر یہ کہہ دیں گے تو نئے افسانے کے بارے میں ان جغادریوں کے تمام مفروضات منہدم نہ ہو جائیں گے؟

    نقاد نمبر ایک (بے نام شخص سے) آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟ آپ ہیں کون ہمارے درمیان دخل در معقولات کرنے والے؟

    بے نام شخص میں؟ میں افسانہ ہوں۔

    نقاد نمبر دو لاحول ولا قوۃ۔ افسانے کے ہاتھ پاؤں، آنکھ، ناک، زبان۔

    بے نام شخص افسوس کہ آپ کا ذہن استعارے سے اس قدر ناآشنا ہے کہ آپ یہ بھی نہ سمجھ سکے کہ میں نے ’’افسانہ‘‘ استعاراتی مفہوم میں استعمال کیا ہے۔ حالانکہ سنا ہے کہ آپ شاعری بھی کرتے ہیں۔ خیر جانے دیجئے۔ میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ افسانے میں کہانی پن کا کوئی براہ راست تعلق واقعات کی تکثیر یا تقصیر سے نہیں ہے۔ یہ مسئلہ در اصل اس بات سے متعلق ہے کہ افسانے میں انسانی عنصر کتنا ہے؟ اگر افسانہ ہماری انسانیت کے کسی بھی پہلو کو متوجہ کر سکتا ہے تو اس میں کہانی پن پیدا ہو جاتا ہے۔ واقعہ چاہے چھوٹا ہو یا بڑا۔ حیرت انگیز اور محیرالعقول ہو یا روزمرہ کی عام زندگی سے لیا گیا ہو، اگر وہ انسانی سطح پر ہمیں متاثر کر سکتا ہے تو ہمیں اس میں دلچسپی ہوتی ہے۔

    افسانہ نگار میں نے تو یہ سنا تھا کہ واقعہ ایسا ہونا چاہیے جس میں قاری کو یہ کرید ہو کہ آئندہ کیا ہوگا؟ اسکاٹ جیمس جیسا نقاد بھی یہی کہتا ہے۔

    بے نام شخص (مسکراتا ہے) اسکاٹ جیمس؟ وہ بھی کوئی نقاد ہے؟ وہ تو صحافیوں کو ادب کی شد بد سکھانے کے لئے ایک مکتبی قسم کی پرائمر کا مصنف ہے۔ خیر، جانے دیجئے۔ وہ انگریزی مصنف ہے اس لئے آپ کی نظر میں معتبر تو ہوگا ہی۔ فارسی ہے تو واہ واہ۔ لیکن افسانے میں آئندہ کیا ہوگا، یہ کرید تب ہی تو پیدا ہوگی جب آپ اس میں بیان کردہ واقعے میں انسانی سطح پر ’’مبتلا‘‘ ہوں۔ مثلاً اس معمولی سے واقعے کو لیجئے۔

    ’’درخت سے ایک پتہ گرا اور نیچے نہر میں ڈوب کیا۔‘‘ یہ واقعہ، بلکہ یہ دو واقعے آپ کی انسانیت (یعنی آپ کی انسانی حیثیت) کو متوجہ نہیں کرتے۔ لیکن اگر آپ یہ فرض کر لیں کہ درخت کے معنی ہیں شجر حیات اور پتے کا گرنا اور ڈوب جانا کسی زندگی کے ختم ہو جانے کا حکم رکھتا ہے تو آپ کی انسانی حیثیت ایک حد تک متوجہ ہوئی، لیکن اس حد تک پھر بھی نہیں کہ آپ اس واقعے پر ذاتی طور پر افسوس کریں۔

    یعنی بالکل مجرد استعاراتی انداز بیان کی وجہ سے ایک عام تاثر تو پیدا ہو گیا، لیکن انسانی عنصر پوری طرح سے بروے کار نہ آیا۔ انسانی عنصر اس وقت بروے کار آتا جب درخت، پتہ اور نہر، تینوں میں براہ راست انسانی صفات ہوتیں۔ یعنی آپ انہیں کرداروں کی طرح دیکھ سکتے۔ تجرید میں انسانی عنصر کم ہوتا ہے، اس لئے اگر نام نہاد کردار ہوں بھی تو ہمیں ان کے اچھے بھلے کی اتنی فکر نہیں ہوتی کہ ہم یہ سوچیں کہ اب ان پر کیا گزرنے والی ہے، یا جو کچھ گزر چکی ہے وہ ہمیں کس طرح متاثر کر رہی ہے۔

    افسانہ نگار مجھے تجریداس لئے اچھی لگتی ہے کہ میں اس کے پردے میں جو چاہوں کہہ سکتا ہوں، ایک ہی بات کے ذریعے کئی باتیں کہہ سکتا ہوں۔

    بے نام شخص ٹھیک ہے، لیکن افسانہ صرف بات سے نہیں بنتا۔ افسانہ ایسی بات کا تقاضا کرتا ہے جس کے بارے میں ہمیں کرید ہو، جس کے کرنے والوں سے، یا ان لوگوں سے جن پر وہ بات واقع ہو رہی ہے ہمیں انسانی سطح پر دلچسپی ہو۔ ایسے لوگوں کو آپ کردار بھی کہہ سکتے ہیں، لیکن کوئی ضروری نہیں کہ وہ انسان ہی ہوں، یا ان کو انسان ہی فرض کیا جائے۔ وہ جانور بھی ہو سکتے ہیں، درخت اور پھول بھی، جن اور پری بھی اور فرضی مخلوق بھی۔ شرط بس یہ ہے کہ ان کے جذبات یا حرکات ہمارے اندر کوئی رد عمل پیدا کریں، ہم یہ کہہ سکیں کہ یہ بات ہمیں خراب لگ رہی ہے، یا اچھی لگ رہی ہے۔ یہ بات جھوٹی معلوم ہوتی ہے، یا سچی معلوم ہوتی ہے، وغیرہ۔

    مثال کے طور پر، میں اپنے افسانے میں لکھتا ہوں، ’’اچانک بہت تیز آندھی چلی۔‘‘ یہ ایک تجریدی بیان ہے، اس کے کئی معنی ہو سکتے ہیں، اور سب معنی سچے بھی ہو سکتے ہیں۔ ’’آندھی‘‘ کا مطلب انقلاب یا کوئی تباہ کن فوجی حملہ، کوئی سیاسی تحریک، کوئی وبا، کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اگر میرا افسانہ صرف اس جملے تک محدود ہو تو اس کے علامتی استعاراتی ابعاد کے باوجود آپ اس سے انسانی سطح پر متاثر ضرور ہوں گے، لیکن اس سے کام بنتا نہیں۔ مثلاً ایک مثلث یا مربع کو دیکھ کر آپ تجریدی یا عقلی فیصلہ ضرور کرسکتے ہیں کہ یہ ایک اقلیدسی شکل ہے اور اس کے ذریعے ریاضی کے فلاں فلاں مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ لیکن افسانہ جس سطح پر اپنا عمل کرتا ہے وہ اقلیدسی شکل سے بالکل الگ ہے۔

    اب فرض کیجئے افسانہ یوں ہے، ’’اچانک بہت تیز آندھی چلی اور چراغ بجھ گیا۔‘‘ اب ایک انسانی پہلو در آیا۔ ’’چراغ‘‘ جسے انسان روشن کرتا ہے اور جس سے وہ تاریکی کے مقابلے میں مدد لیتا ہے۔ لیکن مجرد چراغ کا ذکر بھی انسانی صورت حال کو پوری طرح قائم نہیں کرتا۔ ’’چراغ‘‘ کی تجریدی حیثیت بہت نمایاں ہے۔ ہم اسے استعارے کی سطح پر زیادہ آسانی سے قبول کرتے ہیں ( ’’چراغ‘‘ یعنی کوئی زندگی، کوئی شخص، کوئی امید، کوئی آرزو وغیرہ۔) لہٰذا یہ بیان بھی آپ کو عقلی سطح پر متاثر کرتا ہے، آپ کی ذاتی انسانی حیثیت کو متوجہ نہیں کرتا۔ پھر فرض کیجئے افسانہ یوں ہے۔ ’’اچانک بہت تیز آندھی چلی اور چراغ بجھ گیا۔ مجبوراً غریب طالب علم نے اپنی کتاب بند کرکے ایک طرف رکھ دی۔‘‘ 

    اس عبارت میں ’’آندھی‘‘ اور ’’چراغ‘‘ دونوں کی تجریدی اور استعاراتی حیثیت معدوم ہے۔ اس کے بجائے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی طالب علم اتنا غریب ہے کہ وہ کسی چراغ سر رہ گزر کی روشنی میں اپنا سبق یاد کرتا ہے۔ آندھی نے چراغ بجھا دیا تو طالب علم کو مجبوراً اپنا سبق ادھورا چھوڑنا پڑا۔ ظاہر ہے کہ اس عبارت کے تینوں کلیدی عناصر (آندھی، چراغ، طالب علم) ہمارے لئے ایک فوری انسانی اہمیت رکھتے ہیں۔ اس میں الفاظ اگرچہ پہلی دو عبارتوں سے زیادہ ہیں لیکن بات محدود ہو گئی ہے۔ اس محدود بات سے ہمیں جو دلچسپی ہے وہ اس دلچسپی سے مختلف ہے جو نسبتاً نامحدود بات سے تھی۔ نسبتاً محدود بات سے ہماری دلچسپی اسی طرح کی تھی جیسے کسی اقلیدسی شکل سے ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ اقلیدسی شکل افسانہ نہیں ہوتی۔

    نقاد نمبر ایک اجی آپ نے تو پورا لکچر دے ڈالا، ہم تو بےچارے اردو کے نقاد ہیں۔ ان موشگافیوں سے ہمیں کیا لینا دینا ہے؟ افسانہ نگار صاحب آپ جواب دہ ہیں۔ آٖ پ بتائیے، آپ کے افسانوں میں کہانی پن کیوں نہیں ہے؟

    افسانہ نگار ایک بات تو ان صاحب کی میرے بھی دل کو لگتی ہے۔ ہم لوگوں کے افسانوں میں کرداروں کی جگہ زیادہ تر ’’میں‘‘، ’’وہ‘‘، ’’الف‘‘، ’’جیم‘‘، ’’وہ بوڑھا شخص‘‘، ’’وہ نوجوان‘‘، ’’وہ عورت‘‘ وغیرہ قسم کی چیزیں نظر آتی ہیں۔ اگر لوگوں کے نام بھی ہوتے ہیں تو ان کی شخصیتیں نہیں ہوتیں۔ مثلاً آپ مشکل سے کہہ سکتے ہیں کہ فلاں افسانے میں دو کردار ہیں (مثلاً احمد اور محمود) اور ان کے کردار شخصیتوں کے نمایاں پہلوں یہ ہیں اور یہ ہیں۔۔۔

    نقاد نمبردو (خوش ہوکر) تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ لوگ کردار نگاری میں ناکام ہیں؟

    بے نام شخص نہیں، بلکہ ان لوگوں نے کردار نگاری کی کوشش ہی نہیں کی۔ ان لوگوں نے واقعات پر بہت زیادہ زور دیا لیکن یہ خیال نہ کیا کہ واقعات اسی وقت افسانہ بنتے ہیں۔

    افسانہ نگار جب وہ ایسے لوگوں پر واقع ہوں یا ایسے لوگوں کے ذریعے واقع ہوں جو ہمیں انسانی سطح پر متحرک اور متوجہ کر سکیں۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم لوگوں میں انسانی عنصر کی کمی ہے؟ کیا ہمارے افسانے غیر انسانی یا لاانسانی ہیں، یا وہ انسان کے منکر ہیں؟

    بے نام شخص نہیں، آپ لوگوں کا المیہ بھی یہی ہے اور کارنامہ بھی یہی ہے کہ آپ لوگوں نے انسان کو تجریدی سطح پر دیکھا ہے۔ اس طرح آپ لوگ انسان کے دکھ درد کا احساس اور اظہار، عقلی طور پر جتنی خوبی سے کر سکتے ہیں شاید کسی نے نہیں کیا ہے۔ لیکن آپ کے انسان صرف نام، پرچھائیں اور علامت کے طور پر پیش ہوتے ہیں۔ اس لئے آپ کی بات تو پوری ہو جاتی ہے لیکن افسانہ بعض لوگوں کے لئے پریشان کن ہو جاتا ہے، کیونکہ افسانے کے ساتھ انسانی توجہ کی شرط ایسی لگ گئی ہے کہ اس سے مفر فی الحال ممکن نہیں معلوم ہوتا۔ روب گرئیے کی طرح آپ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے افسانے کی کامیابی اسی میں ہے کہ وہ دلچسپ نہ ہو، اگر افسانہ دلچسپ ہو گیا تو مہمل ہو گیا۔

    روب گرئیے کے بہت پہلے ایک بگڑے دل فرانسیسی شاعر نے بھی کہا تھا کہ شاعری کی خوبی یہ ہے کہ وہ خراب ہو، اس معنی میں کہ جس طرح کی شاعری کو آپ اچھی کہتے ہیں، وہ ہمیں منظور نہیں اور ہماری شاعری آپ کو خراب معلوم ہوتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم آپ کے معیاروں اور آپ کی پسند کو مسترد کرتے ہیں، لیکن مجھے لگتا ایسا ہے کہ آپ لوگ (یعنی آج کے افسانہ نگار لوگ) یہ کہنے کو بھی تیار نہیں ہیں۔ (سامنے رکھا ہوا رسالہ کھولتا ہے۔) دیکھئے، اس افسانے میں صرف دو کردار ہیں، ’’ہم‘‘ اور ’’وہ۔‘‘ اگلے افسانے میں بھی دو کردار ہیں، ’’میں‘‘ اور ’’وہ۔‘‘ اگلے افسانے میں دو کردار ہیں، ’’گرگٹ جیسی شکل والا آدمی‘‘ اور ’’نوجوان۔‘‘ آگے چل کر ’’ماتا دین‘‘ نام کا ایک شخص تھوڑی دیر کے لئے دکھائی دیتا ہے، اس کا افسانے سے کوئی زندہ تعلق نہیں، ماتا دین کی جگہ الف، بے، جیم، کچھ کہہ لیجئے۔ پھر ایک اور کردار ملتا ہے۔ ’’بوٹے سے قد والا پر اسرار آدمی۔‘‘ غرض سارا افسانہ ایسے ہی لوگوں سے آباد ہے۔ اگلا افسانہ بھی ’’میں‘‘ سے شروع ہوتا ہے۔

    جو کردار بعد میں آتے ہیں وہ (غالباً) ’’میں‘‘ کی بیوی ہے اور پھر ایک شخص جس کا نام ’’مہی پت‘‘ ہے۔ مہی پت کی بھی کوئی حیثیت نہیں، وہ صرف ’’میں‘‘ (جو ’’وہ‘‘ میں بھی بدل جاتا ہے) سے تبادلۂ خیال، یعنی ’’میں‘‘ (یا ’’وہ‘‘) کے تاثرات جاننے کا ذریعہ ہے۔ اگلے افسانے میں (غالباً) دو لڑکے ہیں جو ایک بلی کو پکڑنا چاہتے ہیں۔ لڑکوں کے نام ظاہر نہیں کئے گئے۔ اگلا دیکھئے۔

    نقاد نمبر ایک (بگڑ کر) بس بس رہنے دیجئے۔ آپ علاقائی تعصب سے کام لے رہے ہیں۔

    نقاد نمبر دو آپ کو اس ادبی گفتگو میں بلایا کس نے؟

    افسانہ نگار (نقادوں سے) پہلے آپ لوگ ’’داستان امیر حمزہ‘‘ پڑھ کر آئیے، پھر یہاں لب کشائی کی زحمت کیجئے۔ (بے نام شخص سے مخاطب ہوتا ہے) یہ بات تو دل کو لگتی ہوئی ہے، لیکن اگر ہم کردار سازی میں لگ گئے تو مجھے خوف ہے کہ ہمارے افسانے کا علامتی پہلو ہلکا رہ جائےگا۔

    بے نام شخص یہ ممکن ہے، لیکن ضروری نہیں۔ کیوں کہ کردار سازی کا کڑا کوس اب وہ معنی نہیں رکھتا جو پریم چند بلکہ منٹو تک کے زمانے میں تھا۔ اس وقت کردار سازی میں سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ افسانہ نگار کی ذاتی پسند، ناپسند اس کی کردار سازی میں جھلک اٹھتی تھی اور قاری کی آزادی خطرے میں آجاتی تھی، اس لئے قاری ہر اس افسانے کو مسترد کرنے پر مائل رہتا تھا، جس میں افسانہ نگار اپنی پسند، ناپسند یا اپنے اخلاقی فیصلوں کو قاری پر مسلط کرنا چاہتا تھا۔ لیکن کردار سازی کی اور بھی صورتیں ہیں۔ کافکا کی مثال سامنے ہے، کہ اس کے کرداروں میں باطنی زندگی کچھ ہوتی نہیں۔ ایک اور صورت Irony کی ہے۔، یعنی کردار کو اس طرح نہ بیان کیا جائے جیسا کہ وہ دراصل ہے، لیکن پڑھنے والے پر دونوں پہلو روشن ہوں (خفیف مسکراہٹ) یا روشن ہو سکتے ہوں، اگر وہ اردو کا نقاد نہ ہو۔

    نقاد نمبر ایک اور دو (طنزیہ) تو کیا آپ جاپانی نقاد ہیں؟

    بے نام شخص (مسکراتا ہے۔)

    افسانہ نگار لیکن میں افسانے میں واقعے کی اہمیت کو کم نہیں کرنا چاہتا۔

    بے نام شخص تھوڑی بہت کمی تو آپ کو کرنا ہی ہوگی۔ اس وقت آپ لوگ واقعے سے وہی کام لے رہے ہیں جو پریم چند کردار سے لیتے تھے اور جس کے لئے آپ پریم چند کو مسترد کرتے ہیں۔ یعنی پریم چند اپنے کرداروں کے ذریعے اپنی ذاتی پسند ناپسند قاری پر مسلط کرتے تھے اور آپ لوگ واقعے کے ذریعہ قاری کی خود مختاری ختم کرنا چاہتے ہیں۔ آپ چاہتے ہیں کہ قاری آپ کے واقعے سے وہی مطلب نکالے جو آپ کو پسند ہے۔ اگر آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ سگریٹ پینا برا ہے تو آپ کا واقعہ اس بات کو طرح طرح سے ظاہر کر دیتا ہے کہ آپ کسی اور نتیجے کو برداشت نہ کریں گے۔ مگر قاری یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنے نتیجے آپ نکالے۔ ممکن ہے وہ آپ سے اتفاق ہی کرے، لیکن وہ آپ کے نتائج کو دو کے پہاڑے کی طرح جبراً نہیں پڑھنا چاہتا۔

    نقاد نمبر ایک اجی آپ ایسے ہی لال بجھکڑ ہیں تو یہ بتائیے کہ ان لوگوں کے افسانے سمجھ میں کیوں نہیں آتے؟

    نقاد نمبر دو اور ان کی علامتیں اتنی مصنوعی اور آورد سے بھرپور کیوں معلوم ہوتی ہیں؟

    بے نام شخص آپ لوگوں نے یہ غور کیا کہ آپ دونوں کی باتیں ایک دوسری کی ضد ہیں؟ اگر علامتیں مصنوعی اور آورد سے بھرپور ہیں تو افسانے سمجھ میں آ گئے، ورنہ یہ فیصلہ آپ نے کیسے کیا کہ علامت افسانے کے بطون سے برآمد نہیں ہوئی؟ اور اگر افسانے سمجھ میں نہ آئے تو یہ آپ نے کیسے فرض کر لیا کہ علامتیں مصنوعی اور فیشن کے طور پر برتی گئی ہیں؟

    نقاد نمبر ایک میرا مطلب یہ ہے کہ علامت سمجھ میں تو آ جاتی ہے لیکن۔۔۔

    بے نام شخص افسانہ سمجھ میں نہیں آتا۔ (ہنستا ہے) جناب بات یہ ہے زیادہ تر افسانے اپنا وعدہ پورا نہیں کرتے۔ ان کا انداز تو بڑا گمبھیر اور رشی منیوں والا ہوتا ہے لیکن دراصل وہ ہزار من کے ہتھوڑے سے مچھر مارنے کی کوشش کا سا اثر رکھتے ہیں۔ یعنی بات تھوڑی اور لہجہ بڑا solemn، بڑا ہی بھاری بھرکم، گویا مکاشفات بیان کر رہے ہوں اور در اصل کہتے ہیں صرف اتنا ہی کہ آج اخبار بڑی دیر سے آیا۔

    افسانہ نگار کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے پاس مسائل اور سوالات کی کمی ہے؟ کل کافی ہاؤس میں ایک صاحب یہی کہہ رہے تھے۔

    بے نام شخص آپ کے مسائل تو اتنے ہی اہم یاغیر اہم ہیں جتنے آپ کے بزرگوں کے تھے۔ زندگی تو بقول آڈن (Auden) وہی ہے، صرف تناظر بدل گیا ہے۔ اہم یا غیر اہم مسائل کی بحث بے معنی ہے۔ اصل بحث یہ ہے کہ فنکار نے مسائل کو تخلیقی سطح پر انگیز کیا ہے کہ نہیں۔ کوئی مسئلہ ذاتی اہمیت کا ہوتا ہے، مثلاً کسی لڑکی کا بالغ ہونا اور حیض کے تجربے سے پہلی بار دوچار ہونا (اس پر پاستر ناک نے معرکے کا افسانہ لکھا ہے۔) کوئی مسئلہ بہت بڑی سماجی اور انسانی اخلاقی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، مثلاً زنا بالجبر، جس پر آج تک کوئی اچھا افسانہ نہیں بن سکا۔

    کوئی مسئلہ بعض گروہوں یا انسانوں کے کسی ایک گروہ کی نفسیاتی اور جسمانی ضرورتوں کا ہوتا ہے، جیسے کارخانے میں کام کرنے والے مرد مزدوروں کے بیچ میں اگر ایک تنہا لڑکی کام کرنے آئے تو اس گروہ کی نفسیات کیا ہوگی؟ (اس پر گور کی نے زبردست افسانہ لکھا ہے) کسی مسئلے کی اہمیت سیاسی ہوتی ہے، مثلاً اقتصادی یا قانونی جبر کے خلاف آواز اٹھانا، (اس پر ڈکنس نے کئی جان دار ناول اور پریم چند نے کئی بوگس افسانے لکھے ہیں۔) کوئی مسئلہ روحانی یا سماجی تاریخی اہمیت کا ہو سکتا ہے، مثلاً یورپ کا روحانی زوال، (اس پر ٹوماس مان Thomas Mann نے بڑا ناول لکھا ہے۔)

    مسائل کی فہرست اتنی ہی طویل ہے جتنی انسانوں کی۔ پھر یہ بھی دیکھئے کہ پہلا مسئلہ ذاتی بھی ہے اور مذہبی اور نفسیاتی بھی۔ دوسرا مسئلہ معاشیاتی بھی ہے اور سیاسی بھی۔ تیسرا مسئلہ روحانی بھی ہے اور اخلاقی بھی۔ چوتھا مسئلہ فلسفیانہ بھی ہے اور خالص انسانی بھی۔ مسائل کی درجہ بندی اتنی ہی مشکل ہے جتنی ان کی فہرست سازی۔ تو مسائل سے کچھ نہیں ہوتا، فن کار کی تخلیقی قوت اور بصیرت اصل چیز ہے۔

    افسانہ نگار آپ کا مطلب شاید یہ ہے کہ لوگوں کے افسانے تخلیقی نہیں ہیں؟ پرسوں یونیورسٹی میں اک صاحب لکچر دے رہے تھے، یا شاید نیند میں بڑا بڑا رہے تھے، کہ اردو کو تخلیقی افسانوں کی ضرورت ہے۔

    بے نام شخص افسانہ تو تخلیقی ہی ہوتا ہے۔ ’’تخلیقی افسانہ‘‘ کی اصطلاح اتنی ہی بے معنی ہے جتنی ’’ہوڑہ برج کا پل‘‘ یا ’’سن لائٹ سوپ صابن۔‘‘ اگر کسی تحریر میں تخلیقی عنصر نہ ہوگا، یا بہت کم ہوگا، تو وہ افسانہ نہ ہوگی۔ تخلیقی عنصر کی ا یک کم سے کم مقدار ہوتی ہے، اس کی پہچان افسانے کی حد تک اور افسانے کے لئے یہ ہے کہ افسانہ، انشائیہ نہ معلوم ہو، نثری نظم نہ معلوم ہو۔ انشائیہ میں کردار اور واقعہ کم ہوتے ہیں۔ اظہار خیال زیادہ ہوتا ہے۔ اگر کسی تحریر میں اظہار خیال زیادہ ہے تو میں اسے افسانہ نہ کہوں گا۔ یہ کہنے کا کچھ مطلب ہی نہیں کہ وہ ’’غیر تخلیقی‘‘ افسانہ ہے۔ آپ لوگوں کے بعض ’’افسانوں‘‘ میں اظہار خیال کا عنصر نمایاں ہے، ایسی تحریریں ناکام ہی ٹھہریں گی اور جو افسانہ نثری نظم معلوم ہو، وہ اسی وقت افسانہ کہلائےگا جب اس میں افسانے کی بنیادی ضرورت، یعنی واقعہ (event) کو خاطر خواہ اہمیت دی گئی ہو۔

    افسانہ نگار ’’اظہار خیال‘‘ کیا چیز ہے اور وہ تخلیقی کیوں نہیں؟

    بے نام شخص اظہار خیال میں تخلیقی پہلو ممکن ہے، لیکن اس حد تک نہیں جس حد تک مثلاً اظہار واقعہ میں ہوتا ہے۔ اظہار خیال کی تخلیقی سطح اس لئے نیچی ہوتی ہے کہ وہ قاری کے لئے بہت کم جگہ چھوڑتا ہے۔ اس میں نتائج پہلے سے مہیا رہتے ہیں اور انہیں نتائج کو بیان یا قائم کرنے کے لئے اظہار خیال کیا جاتا ہے۔ ’’الف مر گیا۔ وہ بری موت مرا۔‘‘ یہ اظہار خیال ہے، کیوں کہ جو نتیجہ قاری کے نکالنے کا تھا وہ مصنف نے خود نکال دیا ہے، کہ الف بر ی موت مرا۔

    الف کے بری موت مرنے کا نتیجہ ان واقعات کی روشنی میں قاری خود نکالے جو مصنف نے بیان کئے ہیں تو الف کی موت کی خبر اظہار خیال کے دائرے سے نکل کر افسانے کے دائرے میں داخل ہو جائےگی۔ مثلاً اخبار کی خبر اظہار خیال ہیں، جن واقعات کو وہ بیان کرتی ہیں وہ بہت ہی محیرالعقول ہو سکتے ہیں، لیکن نتائج سب پہلے سے نکالے ہوئے ہیں، قاری کو بنا بنایا نوالہ مل جاتا ہے۔

    نقاد نمبر ایک (فتح مندانہ مسکراہٹ کے ساتھ) سمجھا! تو آپ افسانے کو مشکل بنانا چاہتے ہیں! افسانے اور قاری کے درمیان جو لڑکھڑاتا ہوا سا ایک پل ہے اسے بھی منہدم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ تو میں بھی کہہ رہا ہوں لیکن افسانہ نگار سنتے نہیں۔

    بے نام شخص ایک حد تک مشکل تو ہر فن پارہ ہوتا ہے۔ منٹو کے بعض افسانے تو بہت مشکل ہیں، نہ ہوتے تو ان کی تعبیروتشریح میں اتنی بحثیں اب تک نہ ہوتیں۔ لیکن فن پارے کا مشکل ہونا نہ ہونا موضوعی اور ذاتی صورت حال بھی ہو سکتا ہے۔ آج کے افسانہ نگاروں کے افسانے اتنے مشکل نہیں ہیں جتنے pretentious ہیں۔ یعنی وہ بات بڑی دھوم دھام سے کہتے ہیں، لیکن کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا والا ہی معاملہ رہ جاتا ہے۔ مثلاً کافکا کو دیکھئے۔ اس کے زیادہ تر افسانوں کے معنی واضح نہیں ہیں، لیکن یہ بات سب پر واضح ہے کہ ان میں جو بات کہی گئی ہے وہ معنی خیز اور گہری ہے۔ کافکا نے جن مسائل پر لکھا ہے وہ کوئی آسمانی مسائل نہیں ہیں، وہی روز مرہ کی باتیں ہیں، لیکن یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان مسائل پر جو کچھ وہ کہہ رہا ہے وہ بہت اہم اور فکر انگیز ہے۔

    لہٰذا معنی واضح نہ ہوتے ہوئے بھی ہم اسے پڑھتے اور ہر پہلو سے اسے سمجھنے کی سعی کرتے ہیں۔ نئے افسانہ نگاروں کی اکثر تحریروں سے مجھے یہ لگتا ہے کہ انہوں نے کوئی گہری بات نہیں کہی۔ بعض اوقات یہ بھی لگتا ہے کہ اگر اسی بات کو وہ سیدھے سادے انداز میں بیان کر دیتے تو شاید بہتر افسانہ بن جاتا۔ ان لوگوں کے افسانے درا صل مشکل نہیں ہیں، بس یہ ہے کہ ان کے افسانوں کا تاثر اکثر یہ ہوتا ہے کہ یہ حد سے زیادہ سنجیدہ اور شکن برجبیں ہیں، لیکن جو بات وہ کہہ رہے ہیں وہ معمولی سی ہے، اگرچہ انداز درویشوں، منیوں اور فلسفیوں کا سا ہے۔

    اس مسئلے کو یوں سمجھئے، نطشہ کی ’’بقول زردشت‘‘ کو بعض لوگوں نے ناول کہا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ انتہائی مشکل کتاب ہے، لیکن ہم اس اشکال کو قبول کر لیتے ہیں اور اسے ناول کی طرح بھی پڑھنے میں تکلف نہیں کرتے، کیوں کہ نطشہ کے یہاں فکر انگیزی بہت ہے۔ اگر ان لوگوں کے افسانوں میں بوڑھی اور غیرضروری سنجیدگی کا عنصر کم ہو جائے، یا پھر ان کو پڑھنے کے دوران یہ تاثر حاصل ہو کہ مشکل سہی، مبہم سہی، پیچیدہ سہی، لیکن یہ افسانہ کسی چیز کے بارے میں ایسی بات کہہ رہا ہے جو اہم ہے اور معنویت رکھتی ہے تو (نقادوں سے مخاطب ہوکر) آپ کو و ہ افسانے اتنے مشکل یا مصنوعی نہ معلوم ہوں۔

    افسانہ نگار آپ نے جو یہ کہا کہ ہم لوگوں کے افسانوں کو پڑھنے کے دوران یہ تاثر حاصل ہوتا ہے کہ یہ لوگ سنجیدہ تو بہت ہیں لیکن اہم معنویت سے بھرپور کوئی بات نہیں کہہ رہے ہیں، تو یہ محض ایک ذاتی تاثر ہے، کوئی تنقیدی رائے تو نہیں ہے۔

    بے نام شخص نہیں ایسا تو نہیں ہے۔ کیوں کہ افسانے کا تجزیہ کرکے ہم اکثریہ بتا سکتے ہیں کہ اس میں کیا نہیں کہا گیا ہے۔ تاثر تو تعین قدر کی پہلی منزل ہے، آخری منزل نہیں۔ مثال کے طور پر غیاث احمد گدی کے اسی افسانے کو لیجئے جس کا میں نے ابھی حوالہ دیا تھا۔ ( ’’طلوع‘‘) اگرچہ اس میں کردار سازی کا وہی طرز ہے جو میرے خیال میں زیادہ تر ناکام ہی ثابت ہوتا ہے، لیکن افسانے میں انسانی بہیمت جیسے وسیع موضوع سے لے کر بچوں کی بے ارادہ اور بے فہم سفاکی جیسے نفسیاتی نکتے کو جس چابک دستی سے پیش کیا گیا ہے وہ اسے اعلیٰ درجے کی تخلیق بنا دیتی ہے۔

    افسانے کا آغاز کمزور ہے، لیکن جہاں مکالمہ شروع ہوتا ہے اور جہاں اس بات کو براہ راست ظاہر کئے بغیر کہ ان دونوں لڑکوں کا شکار ایک بلی ہے، اس بلی کی حالت بیان کی گئی ہے، ہم فوراً دیکھ لیتے ہیں کہ صورت حال اگرچہ بہت غیر معمولی نہیں، (بلکہ رسمی اور روایتی ہے) لیکن اس کے تہ در تہ معنوی امکانات ہیں جو اغوا اور زنا بالجبر سے لے کر فسادات اور منظم جرم کی دنیا تک پھیلے ہوئے ہیں۔ یہی افسانہ نگار کا کمال ہے۔

    نقاد نمبر دو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ افسانے کو معاصر صورت حال کی عکاسی کرنا چاہیے۔ مستقبل کے آئینے میں (بے نام شخص منھ پھیر کر مسکراتا ہے) حال کو دکھانا چاہیے۔ داستان اور فکشن میں یہی فرق ہے۔ آج کل بعض لوگ فکشن کے نام پر داستان کیوں لکھ رہے ہیں؟ مجھے تو گدی کے بھی اس افسانے میں داستانی رنگ نظر آتا ہے۔

    افسانہ نگار سخن فہمی عالم بالا معلوم شد۔ بعض لوگوں کو داستان سے اتنی چڑھ ہے کہ انہیں ہر جگہ داستان سنائی دیتی ہے۔

    نقاد نمبر دو ممکن ہے گدی کے اس افسانے میں داستانی رنگ نہ ہو، (میں نے یہ افسانہ پڑھا نہیں، کہاں چھپا ہے؟) لیکن انتظار حسین نے بہت سے نئے افسانہ نگاروں کے اخلاق خراب کئے ہیں۔

    بے نام شخص، داستان اور فکشن میں تفریق اتنی آسان نہیں جتنی آپ سمجھ رہے ہیں۔ معاصر صورت حال پر بھی داستان لکھی جا سکتی ہے اور قدیم خیالی مخلوقات سے مملو بیانیہ بھی فکشن ہو سکتا ہے۔ بیانیہ کے دو بڑے حصے ہیں، ایک تو وہ جس کی بنیاد ارسطوئی مفہوم میں نمائندگی یعنی Mimesis پر ہے اور دوسرا وہ جس کی بنیاد ارسطو پر ہے۔ نمائندگی پر مبنی بیانیہ بالآخر فکشن بن گیا۔ تفصیل کے لئے شولز (Scholes) اور کیلاگ (Kellogg) کی کتاب ملاحظہ ہو۔ آج کل بعض نئے افسانہ نگاروں نے داستانی طرز کی طرف واپس جانے کی سعی کی ہے، لیکن ان کے وجوہ دوسرے ہیں۔

    انتظار حسین بیانیہ کو خالص بنانا چاہتے ہیں، جس کی مثال Fable ہے۔ Fable میں جانور، انسان، درخت، سب بولتے ہیں اور سوچتے ہیں۔ نئے افسانہ نگار نمائندگی پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں، تاکہ ان پر Mimesis کا الزام براہ راست نہ آئے، (یہ بات ژرارژنیت (Gerard Genette) نے بڑی تفصیل سے بیان کی ہے۔) میرے خیال میں نہ اس میں کوئی برائی ہے نہ انتظار حسین کے طریقے میں۔ نئے افسانہ نگاروں نے داستانی فضا پوری طرح قائم کرنے میں کامیابی حاصل نہیں کی ہے۔

    یہ اور بات ہے انتظار حسین اپنے تمام کرداروں (زرد کتا، شہزادہ آزاد بخت، الیاسف، کچھوا، تتھاگت، یاجوج ماجوج) کو چند لفظوں میں زندہ کر دیتے ہیں۔ وہ یا تو ان سے ایسی بات کہلاتے ہیں جو ان کے کردار (یعنی ہمارے ذہن میں ان کی تصویر) کے مطابق ہو، یا اس کے بالکل مخالف ہو۔ دونوں صورتوں میں کردار قائم ہو جاتا ہے۔ نئے افسانہ نگاروں کو ابھی یہ قدرت حاصل نہیں ہے، لیکن ان کی کوششیں مستحسن ضرور ہیں۔

    نقاد نمبر ایک بھئ آپ بے حد چرب زبان شخص ہیں۔ لگے ہاتھوں یہ بھی تو سمجھا دیجئے کہ جب ان بے چارے افسانہ نگاروں نے پلاٹ کی زمانی ترتیب سے ہی انکار کر رکھا ہے تو یہ کردار کس طرح پیدا کریں گے؟ میرے پاس ایک انگریزی کتاب ہے جسے میرے چچا ابا نے ہائی اسکول میں پڑھا تھا۔ اس میں لکھا ہے کہ واقعات کا ارتقا، کردار کے ارتقا پر اثر انداز ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر نئے افسانے میں پلاٹ کی زمانی ترتیب ہی نہیں ہے تو کردار لامحالہ جامد اور بےرنگ ہوں گے۔

    بے نام شخص یہ خیال غلط ہے کہ ’’اگر واقعات اثر انداز نہ ہوں تو کردار کا ارتقا ممکن نہیں۔‘‘ بالفرض اگر ایسا ہو بھی، تو میں کردار کے ارتقا کی بات کہاں کر رہا ہوں؟ میں تو محض تصویرکشی کی بات کررہا ہوں۔ تصویرکشی سے میرا مطلب ہے ایسا بیان کہ ہمیں ان کرداروں سے ایسی ہی دلچسپی ہو جائے جیسی سچ مچ کے انسانوں سے ہوتی ہے۔ ہمیں ان کے بھلے برے سے غرض ہو۔ وہ خوش ہوں تو ہم بھی خوش ہوں، یا کم سے کم ناخوش تو ہوں، یا اگر کچھ بھی نہ ہو تو ہم یہ محسوس تو کریں ان لوگوں سے لاگ، لگاؤ، لگن، کچھ نہ کچھ ممکن ہے۔ کردار کا ارتقا اتنا ضروری نہیں جتنا ضروری یہ ہے کہ اس کے مختلف پہلو ہوں، اور یہ آہستہ آہستہ ہمارے سامنے آئیں۔ دستہ ئف سکی کی Notes from the Under world یا کامیو کی The Fall اس کی اچھی مثالیں ہیں۔

    نقاد نمبر دو آپ نے کامیو کا ذکر کیا تو مجھے یاد آیا کہ اس نے کہیں لکھا ہے کہ ناول ایک ایسی ہیئت ہے جس میں ہر چیز بہت منضبط ہوتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ نئے افسانے میں نظم و ضبط کی کمی ہے۔

    بے نام شخص مجھے تو شکایت یہ ہے کہ نئے افسانے میں نظم و ضبط خبط کی حد تک پہنچنا چاہتا ہے۔ آخر اکثر افسانوں میں ’’وہ‘‘، ’’میں‘‘، ’’بوڑھا آدمی‘‘، وغیرہ کا تذکرہ اور ہر افسانے میں دھندلی گدلی صورت حال کیا معنی رکھتی ہے؟ یہی نہ کہ نئے افسانہ نگاروں نے کچھ ضابطے بنا لیے ہیں؟ میں پھر کہوں گا کہ کردار کی گمشدگی ایک طرح کی تنگی پیدا کرتی ہے۔ کامیو ہی نے تو کہا تھا کہ ناول میں کردار ہم لوگوں سے کسی حد تک مشابہ ہوتے ہیں، لہٰذا ہم انہیں پہچان پاتے ہیں، لیکن اس کرب کی بنا پر جو ان کا مقدر ہوتا ہے، وہ ہم سے بلند تر اور عریض تر ہوتے ہیں۔ اس طرح ان کے رویے ہمارے حافظے میں جاگزیں ہوجاتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کوئی ضروری نہیں ہر کردار اسی طرح کے کرب کا حامل ہو۔ لیکن ہر کردار بعض انسانی صفات کا حامل ہونا چاہیے، کردار سے مراد کوئی بھی شخص، کوئی بھی شے ہے جو افسانے میں کوئی عمل براہ راست کرتی ہے۔

    افسانہ نگار وہ انسانی صفات کیا ہیں؟

    بے نام شخص اجی ’’صفات‘‘ کو کیا گننا ہے، ایک ہی صفت لے لیجئے تکلم۔

    افسانہ نگار یعنی میرے افسانے میں سب چرند پرند بولتے ہوئے نظر آئیں؟

    بے نام شخص وہ تو بہت بعد کی، یا بہت شروع کی منزل ہے۔ میں تو مکالمے کی بات کررہا ہوں۔ آپ لوگوں کے افسانوں میں مکالمہ بہت کم ہے اور اگر ہے بھی تو غیرشخصی، لہٰذا افسانے کے لئے بہت کارگر نہیں۔

    افسانہ نگار تو آپ چاہتے ہیں ہر کردار کسی مخصوص لہجے میں گفتگو کرے؟

    بے نام شخص جی نہیں، میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ مکالمہ پڑھ یا سن کر معلوم ہو کہ کوئی انسان بول رہاہے، افسانہ نگار یا کمپیوٹر نہیں بول رہا ہے۔ آپ لوگوں کے اکثر کردار تو اپنے ہی آپ سے باتیں کرتے رہتے ہیں۔ انتظار حسین کے کرداروں کو بھی یہ بیماری ہے۔ خود کلامی اپنی جگہ ٹھیک ہے، لیکن خود کلامی کے پردے میں وہ سوالات اور بیانات اسمگل نہ کیجئے جو قاری کا حق ہیں۔ جادو وہ جو سرپر چڑھ کر بولے۔ جب آپ کا کردار خود ہی پوچھ دے گا کہ میں کون ہوں، کیا ہوں، یہ لوگ کون ہیں؟ وغیرہ، تو قاری کو کرید کہاں سے ہوگی؟ (رسالہ اٹھاکر پڑھتا ہے)

    ’’جب وہ بس اسٹاپ کے قریب پہنچا تو ایکا ایکی ٹھنک گیا۔ اسے لگا جیسے اس کی کوئی بہت ہی قیمتی شے کھو گئی ہے۔ ایسی شے جو اسے بہت ہی عزیز تھی، جسے وہ سب کی نظروں سے چھپاکر رکھتا تھا۔ کھڑے کھڑے اس نے اپنا سارا وجود ٹٹول مارا، مگر اسے یاد نہ آیا کہ وہ کیا شے کھو بیٹھا ہے۔ ارے یہ کیا ہوا؟ وہ کون سی بس ہے جس میں اسے سوار ہوکر گھر پہنچنا ہے۔ اب اسے معلوم ہوا کہ وہ اپنا سب کچھ کھو بیٹھا تھا۔ نہ اسے بس کا نمبر یاد رہ گیا تھا نہ وہ سڑک کہ جس پر سے ہوکر وہ گھر جاتا تھا۔ اور نہ ہی اسے یہ معلوم تھا کہ اس کا گھر کہاں ہے؟‘‘ سنا آپ نے؟ اس پوری عبارت کو مکالمے کی ہیئت میں ادا کرکے دیکھئے، فرق خود ہی معلوم ہو جائےگا۔ اور یہ تو سریندر پرکاش جیسے اعلیٰ درجے کے افسانہ نگار کے کمزور لمحے کا ایک اقتباس ہے۔ نوجوان افسانہ نگار کا مکالمہ سنئے۔ (دوسرا رسالہ اٹھاتا ہے۔)

    ’’مسافر معلوم ہوتے ہو؟‘‘ 

    ’’ہاں۔‘‘ 

    ’’مگرزاد راہ تمہارے پاس نہیں۔‘‘ اس آدمی نے اپنے لہجے کے تمسخر کو چھپاتے ہوئے کہا۔

    ’’مجھ سے غلطی ہوگئی، یا شاید میرے بزرگوں سے۔‘‘ اب میری آنکھوں میں چمک آ گئی تھی اور میں بولنے کے قابل ہو گیا تھا، ’’زاد راہ کی ضرورت تو تمہیں آئندہ بھی پڑےگی، کیوں؟‘‘ 

    ’’ہاں۔‘‘ 

    ’’تو پھر خالی ہاتھ پیٹ زمین ناپنے کی بجائے تم یہیں کوئی کام کیوں نہیں کرتے؟‘‘ 

    ’’کام؟ کیسا کام؟‘‘ الفاظ میری زبان سے اچانک پھسل گئے۔

    ملاحظہ کیا آپ نے؟ زبان کی غلطیوں سے قطع نظر، گفتگو بڑی فلسفیانہ ہے۔ لیکن یہ انسان نہیں، مشین بول رہی ہے۔ فطری آہنگ کا نام ونشان نہیں۔

    افسانہ نگار پھر آپ کیسا مکالمہ چاہتے ہیں؟ اچھے خاصے مکالمے کو آپ کمزور کہہ رہے ہیں۔

    بے نام شخص بھائی، یہاں مکالمہ ہے ہی نہیں۔ ارسطو سے پوچھ لیجئے، مکالمہ وہاں کام آتا ہے جہاں کسی بات کو ثابت کرنا یا حل کرنا ہو۔ اسی لئے ہومر کی طویل خود کلامیوں میں کردار اپنے مسئلے کے مختلف پہلوؤں کو بیان کرکے انہیں حل کرتا ہے۔ شیکسپئر کے یہاں مسئلہ لاینحل رہتا ہے اور کردار بار بار اس کے پہلوؤں کو الٹتا پلٹتا ہے۔ مکالمہ اور کچھ نہ کرے، کردار یا واقعات کی صورت حال کو واضح تو کرے۔

    افسانہ نگار لیکن ہم علامتی افسانہ نگاروں کو صورت حال کی وضاحت سے کیا غرض؟

    نقاد نمبر ایک اور دو (قہقہہ مار کر بیک وقت) اور کیا، آپ لوگوں کا کام تو الجھانا ہے، وضاحت سے آپ کو کیا لینا دینا؟

    بے نام شخص صورت حال چاہے کردار کی ہو چاہے واقعے کی، اس کی وضاحت سے یہ مراد نہیں کہ سب باتیں کھول کھول کر کہہ دی جائیں۔ مراد یہ ہے کہ صورت حال کے متعلق قاری کا بھرپور ردعمل حاصل کرنے کے لئے اس کے جن پہلوؤں کو سامنے لانا یا ان کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے، ان کو پش کر دیا جائے، اشارتاً یا کنایتاً۔ افسانے میں ابہام بہت خوب ہے، لیکن ابہام کا زیادہ تعلق ’’کیوں ہوا؟‘‘ سے ہے، ’’کیا ہوا؟‘‘ سے نہیں۔ ’’کیا ہوا؟‘‘ کا جواب مبہم رکھنا بڑے جوکھم کا کام ہے۔

    افسانہ نگار علامتی افسانے میں ابہام تو ہوگا ہی۔

    بے نام شخص بے شک، لیکن مجھے لگتا ہے آپ لوگ علامت سے کم اور تمثیل سے زیادہ کام لے رہے ہیں۔ علامت کثیرالمفہوم ہوتی ہے اور اکثروبیشتر وہ تاریخ، اسطور، قومی حافظہ وغیرہ دھندلی چیزوں سے منسلک ہوتی ہے۔ اس کے برخلاف تمثیل کے ایک ہی معنی ہوتے ہیں اور اس کا تعلق تاریخ وغیرہ سے نہیں ہوتا۔ آپ لوگ کوشش کرتے ہیں علامتی انداز بیان کی اور جا پڑتے ہیں تمثیل میں۔ اس کی ایک وجہ وہ بھی ہے جو میں پہلے بیان کر چکا ہوں، یعنی آپ لوگ تجرید کی طرف بے انتہا مائل ہیں۔ علامت میں کسی نہ کسی شے کا دخل ضرور ہوتا ہے۔ تمثیل محض تصورات پر قائم ہوتی ہے۔ مثلاً ’’مردانگی‘‘ ایک تصور ہے۔ آپ ’’بڑی بڑی مونچھیں‘‘ کہہ دیجئے تو یہ اس تصور کی تمثیل ہوئی، علامت نہیں۔ کیوں کہ اس کا تعلق تاریخ یا اسطور یا قومی حافظے سے نہیں۔ ذاتی علامت بھی فن کار کے پیٹ سے نہیں پیدا ہوتی، بلکہ فن کار کے قومی حافظے کا حصہ ہوتی ہے۔

    افسانہ نگار تو پھر ’’مردانگی‘‘ کو علامتی طور پر کیوں کر ظاہر کیا جائے؟

    بے نام شخص مختلف صورت حالات میں مختلف صورتیں ہوں گی۔ بوڑھا سیاح، خون، سیاہ گھوڑا، کچھ بھی استعمال ہو سکتا ہے۔

    افسانہ نگار میں نہیں سمجھا کہ ’’بڑی بڑی مونچھیں‘‘ کہنے میں کیا قباحت ہے؟ میں تو اسے علامت کہوں گا۔

    بے نام شخص ایسی کوئی چیز جس کا مفہوم محدود ہو اور جس پر مرور ایام کے باعث انسلاکات (Associations) کی تہیں نہ چڑھی ہوں، علامت نہیں بن سکتی۔ جبر کی علامت ’’کانٹے دار تار‘‘ نہیں، بلکہ وہ گڑیا ہے جس کی آنکھیں پھوڑ دی گئی ہیں۔ ’’کانچ کا بازی گر‘‘ علامت نہیں، تمثیل ہے، آنکھوں کا ڈاکٹر جو ’’شناسائی، دیوار اور تابوت‘‘ میں ’’اس‘‘ کو زیرو نمبر کی عینک دیتا ہے، علامت نہیں، تمثیل ہے۔ ’’طلسمات‘‘ میں سفر کرنے والے لوگ تمثیلی ہیں۔ ’’مسافر‘‘ میں علامت کا عمل ہے، لیکن ہر ’’مسافر‘‘ علامت نہیں بنتا۔ ’’مسافر‘‘ کو علامت بنتے دیکھنا ہو تو کولرج کی نظم The Rime of the Ancient Mariner ملاحظہ فرمائیے۔

    افسانہ نگار ہم لوگ تو افسانے میں اظہار ذات کی سعی کر رہے ہیں، آپ ہماری ذاتی بصیرت کو کیوں جھٹلاتے ہیں؟

    بے نام شخص آپ کی ذاتی بصیرت کو جھٹلانے والے وہ نقادان کرام ہیں جو خود بے بصیرت ہیں اور آپ کے افسانوں میں اپنی کتابی بصیرت تلاش کرتے ہیں اور ناکام ہوتے ہیں۔ میں تو آپ کی بصیرت کی قدر کرتا ہوں۔ ہر وہ احساس یا تجربہ جو فن کارانہ اظہار پا جائے، صالح اور صحت مند ہوتا ہے۔ افسانے کی صحت مندی اور جسمانی صحت مندی الگ الگ چیزیں ہیں۔ گلاب کا پھول اگر بہت زیادہ صحت مند ہو تو گانٹھ گو بھی بن جائے۔ لیکن میں آپ سے ایک بات پوچھتا ہوں۔ کھڑکی کے باہر جھانک کر تالاب کو دیکھئے۔ اس میں کئی بچے نہا رہے ہیں۔ لیکن بعض بیچ تالاب میں ہیں اور بعض گھاٹ کی سیڑھیوں پر۔ ایسا کیوں ہے؟

    افسانہ نگار جو گھاٹ کی سیڑھیوں پر ہیں وہ تیرنا نہ جانتے ہوں گے۔

    بے نام شخص ایسے بچے اگر بیچ تالاب میں کود پڑیں تو کیا ہوگا؟

    افسانہ نگار اغلب یہ ہے کہ ڈوب جائیں گے۔

    بے نام شخص اچھا، زبان کیا چیز ہے؟ ٹھاٹھیں مارتا ہوا ایک سمندر ہے، کیوں کہ اس کی قوت میں تمام قوتیں پوشیدہ ہیں۔ اس میں قوت کے تمام سرچشمے ہیں۔ اس میں کودنے کے پہلے تیرنا نہ سہی، سر اوپر اٹھائے رکھنا تو آنا چاہے۔ ہم لوگوں نے انگریزی تعلیم کے زیر اثر آکر یہ بھلا دیا کہ مشق اور ممارست کے بغیر زبان استعمال کرنے کا گر نہیں آتا۔ شاعروں نے استادوں کو ترک کیا، (کرتے بھی کیا، استاد خود جاہل تھے) اور افسانہ نگاروں نے کہا کہ جب شاعر لوگ بلا تربیت کے شاعر بن گئے تو ہم لوگ کیا ان سے کم ہیں؟

    افسانہ نگار میں سمجھا نہیں آپ کس پر برس رہے ہیں؟

    بے نام شخص دیکھئے، افسانہ واقعات کا مجموعہ ہوتا ہے، چاہے ان واقعات میں زمانی ترتیب ہو یا نہ ہو اور جملے الفاظ کا مجموعہ ہوتے ہیں اور کئی جملے مل کر پیراگراف بنتے ہیں۔ تسلسل پیدا کرنے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ پیرا گراف میں کئی جملے ہوں، تاکہ ایک کے بعد ایک تصویر سامنے آئے۔ آپ لوگوں نے نثر کے آداب کی طرف توجہ نہیں دی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ آپ لوگ ایک ایک دو دو جملے کا پیرا گراف بناتے ہیں۔ پھر افسانے میں تسلسل اور بتدریج کھلتے جانے کا تاثر کہاں سے آئے؟ لمبا پیرا گراف بنانے میں تصویر کے آگے تصویر رکھنی پڑتی ہے، تعمیری ربط کی پیدا کردہ داخلی شکل اگر موجود نہ ہو تو ایسے افسانے بھی ممکن ہیں جو تو ایک ایک جملے پر مشتمل کئی پیرا گراف سے شروع ہوتے ہیں اور نثری نظم کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ پھر ایسے افسانوں میں نثر کا آہنگ کس طرح برقرار رکھا جا سکتا ہے؟

    کیا تعجب ہے اگر لوگوں کو شکایت ہوتی ہے کہ آپ لوگوں کے افسانے اکھڑے اکھڑے معلوم ہوتے ہیں۔ جب پیراگراف میں منسلک کرنے کے لئے صرف ونحو کے علاوہ تخیل بھی درکار ہوتا ہے۔ (رسالہ اٹھاتا ہے) دیکھئے اس افسانے کے پہلے نو پیرگراف کا نقشہ یوں ہے، (۱) ایک جملہ (وہ بھی ادھورا)، (۲) چار جملے۔ (۳) دو جملے۔ (۴) دو جملے۔ (۵) ایک جملہ (نامکمل)، (۶) ایک جملہ۔ (۷) دو جملے۔ (۸) ایک جملہ۔ (۹) دو جملے۔

    (دوسرا رسالہ اٹھاتا ہے) اس افسانے کے پہلے آٹھ جملے الگ الگ لکھے گئے ہیں، ہر جملہ ایک پیرا گراف ہے۔

    اس افسانے کو دیکھئے، اس افسانے کے پہلے تین جملے الگ الگ لکھے گئے ہیں۔ ہر جگہ ایک پیرا گراف ہے۔ اس کے بعد گیارہ جملے مکالمے کے ہیں۔ بولنے والوں کے نام معدوم اور ہر جملہ آدھی یا پون سطر سے زیادہ نہیں۔ (افسانوں کی ایک کتاب اٹھاتا ہے) ان افسانوں کو دیکھئے۔ افسانے کے پہلے سات پیراگراف اس طرز کے ہیں، (۱) ایک جملہ (۲) ایک جملہ (۳) چار جملے (۴) ایک جملہ (۵) ایک جملہ (نامکمل)، (۶) تین جملے (۷) ایک جملہ۔ تو یہ کون سی نثر آپ لوگ لکھ رہے ہیں؟ آپ لوگوں کی سانس اتنی جلدی کیوں اکھڑ جاتی ہے؟ آپ کے نقادوں میں تو بعض ایسے ہیں جو چار چار صفحے کا پیراگراف بناتے ہیں لیکن بات ایک جملے بھر کی نہیں کہتے۔ آپ لوگوں کی حالت یہ ہے کہ بات کہنے سے گھبراتے ہیں۔

    نثر کا کھیل بڑا نازک ہوتا ہے، شاعری میں تو نوچ کھسوٹ چل بھی جاتی ہے، (شاعر بے چارہ سمجھتا ہے کہ وہ ڈرامائی انداز اختیار کر رہا ہے)، لیکن نثر میں بہت ناپ تول کر قدم رکھنا پڑتا ہے۔ ارے بھائی بیانیہ کے معنی ہی ہیں وہ تحریر جس میں ’’سخن روشن‘‘ ہو۔ آپ لوگوں کا عالم یہ ہے کہ چار جملے جوڑتے جوڑتے آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جاتا ہے۔ اس طرز میں آپ بیان واقعہ کیا کریں گے، ماحول اور فضا کہاں سے تیار کریں گے؟ آپ لوگوں کو کس نے سکھا دیا ہے کہ کم جملوں والا پیراگراف اور ہر تین لفظوں کے بعد تین نقطے، بڑا ’’آرٹسٹک‘‘ طرز تحریر ہے؟ وہ نثر ہی کیا جس کے اجزا ایک دوسرے سے پیوست نہ ہوں، اگر معنوی طور پر نہیں تو کسی اور منطق کے اعتبار سے سہی۔ وہ ابہام یا ڈرامائیت جو اکھڑے اکھڑے جملوں سے پیدا ہوتی ہے، محض ایک دھوکا ہے۔ اس لئے۔۔۔

    نقاد نمبر ایک (جمائی لیتے ہوئے) اچھا میں چلتا ہوں، اپنے رسالے کا خاص نمبر ترتیب دینا ہے۔

    نقاد نمبر دو ہاں، خوب یاد آیا۔ کل میں نے ایک افسانے میں ٹی۔ ایس۔ الیٹ اور سماجی معنویت کا ذکر پڑھا تھا۔ اس افسانہ نگار سے انٹرویو لینے جانا ہے۔ میں بھی چلتا ہوں۔

    بے نام شخص مجھے تو بیوی نے گوشت لانے بھیجا تھا، یہاں کہاں پھنس گیا، خدا حافظ۔

    افسانہ نگار آپ سے درخواست ہے کہ میرے نئے مجموعے کی رسم اجرا میں ضرور تشریف لائیں، کتاب کا نام ہے ’’پتھر کے جنگلوں کا نمکین شربت۔‘‘ 

    تینوں (یک زبان) آپ کا خدا حافظ!

     

    مأخذ:

    افسانے کی حمایت میں (Pg. 33)

    • مصنف: شمس الرحمن فاروقی
      • ناشر: مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2006

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے