aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

افسانے کی حمایت میں (۵)

شمس الرحمن فاروقی

افسانے کی حمایت میں (۵)

شمس الرحمن فاروقی

MORE BYشمس الرحمن فاروقی

    کردار، تین دوست، جن میں دو ملاقاتی ہیں اور ایک میزبان۔ ایک درویش۔

    ایک ملاقاتی کی عمر چالیس اور ساٹھ کے درمیان ہے۔ چھوٹا قد، گول مول بدن، بڑا سر جس پر گنتی کے دوچار بال، بلند قہقہوں جیسی گونجتی ہوئی آواز، چہرہ داڑھی مونچھوں سے بے نیاز۔ پتلون بش شرٹ اور سینڈل میں ملبوس ہے۔ ایک ہاتھ میں راجندر سنگھ بیدی کا مجموعہ ہے، دوسرے ہاتھ میں ادھ جلی سگریٹ کے ساتھ کرسٹوفر کا ڈویل (Christopher Caudwell) کی ایک کتاب، جس کا سرورق آدھا غائب ہے۔ کتاب کا نام پڑھنے میں نہیں آتا، لیکن شاید Studies in a Dying Culture کا کچھ پھٹا پرانا نسخہ ہے۔ پیشے کے اعتبار سے پروفیسر، شوق کے اعتبار سے نقاد، مزاج کے اعتبار سے یار باش۔ سہولت کی خاطر اس دوست کو ’’پہلا ملاقاتی‘‘ کہا گیا ہے۔

    دوسرے دوست کی عمر پینتیس سے پچپن سال کے درمیان ہے۔ متوسط قد، متوسط ڈیل، داڑھی مونچھوں سے اسے بھی سروکار نہیں۔ اس کی آواز شگفتہ، ذرا پھنسی پھنسی سی اور شیریں ہے۔ سہولت کی خاطر اسے دوسرا ملاقاتی کہا گیا ہے۔ پیشے کے اعتبار سے وہ صحافی ہے، شوق کے اعتبار سے وہ افسانہ نگار بھی ہے اورنقاد بھی۔ اس کے ہاتھ میں ڈاکٹر عبدالعلیم کی کوئی کتاب ہے، یا شاید مجاز کا مجموعۂ کلام کہ اس کی بھی عمر کچھ اتنی ہی ہوگی یعنی پچاس ساٹھ سال۔

    اس کے سامنے میز پر دو تین پائپ، ایک پائپ لائٹر اور تمباکو کا ایک پیکٹ ہے۔ اس کے سامنے اور دائیں بائیں تین بڑی بڑی راکھ دانیاں ہیں، سب میں تمباکو کی راکھ اور ایک آدھ سگریٹ کا بجھا ہوا ٹکڑا نمایاں ہیں۔ دونوں ملاقاتی پہلے سے وقت متعین کرکے میزبان کے یہاں آئے ہیں۔ درویش سامنے نہیں آتا۔ اس کی عمر اور صورت شکل قیاس سے متعین کرلی جائے۔ چائے کے ساتھ گفتگو شروع ہوتی ہے۔

    پہلا ملاقاتی (خوش طبعی سے) آپ نے افسانے کی دنیا میں، اور اس سے بھی بڑھ کر نقد افسانہ کی دنیا میں، جو انتشار پھیلا رکھا ہے اس کا مواخذہ ہوگا۔ کیا آپ اس کے لئے تیار ہیں؟

    میزبان جناب، میری بساط کیا، جو کچھ شروفساد ہ پھیلاؤں یا انتشار برپا کروں لیکن احباب خود ہی آمادۂ فساد ہوں تو بندہ کیا کر سکتا ہے؟ ویسے، آپ نے میرے خلاف فرد جرم کیا قائم کی ہے، فرمائیں۔ لاؤ تو قتل نامہ، وغیرہ وغیرہ۔

    دوسرا ملاقاتی (ذرا بے صبری سے) صاحب آپ اپنی دراز نفسی فی الحال ملتوی رکھئے۔ افسانہ نگار اور افسانے کے نقاد اور فلسفے کے طالب علم کی حیثیت سے پہلا سوال پوچھنے کا حق میرا ہے۔

    پہلا ملاقاتی (کچھ کہنے کے لئے منھ کھولتا ہے لیکن دوسرے ملاقاتی کے آگے اس کی نہیں چلتی۔ دوسرا ملاقاتی جوش میں ہے۔) 

    دوسرا ملاقاتی صاحب آپ نہ افسانہ نگار، نہ فلسفی۔ رہا سوال افسانے کی تنقید کا، تو آپ۔۔۔

    میزبان (شرارت بھرے لہجے میں) پلاٹ کا خلاصہ اچھا بیان کر سکتے ہیں!

    دوسرا ملاقاتی (ہنستے ہوئے، لیکن اندر اندر کچھ گرم ہوکر) صاحب، آپ دخل در معقولات سے پرہیز کریں اور یہ نہ بھولیں کہ آپ ہمارے سامنے جواب دہ ہیں۔

    میزبان جی بیشک۔

    دوسرا ملاقاتی لہٰذا آپ سب سے پہلے یہ بتائیں کہ آپ نے اپنی انتشار برپا کرنے والی اور انتشار زدہ تحریروں کا نام ’’افسانے کی حمایت میں‘‘ کیوں رکھا، درحالے کہ آپ نے ہماری۔۔۔ میرا مطلب ہے افسانے کی بیخ کنی میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا۔

    میزبان جی میں نے افسانے کی برائی تو کچھ نہیں کی اور نہ اس کی بیخ کنی کی کوشش کی۔ میں تو آپ لوگوں۔۔۔ میرا مطلب ہے اپنے قارئین کو افسانے کی حقیقت سے آگاہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ افسانہ کیا ہے، وہ کس طرح عمل میں آتا ہے، ان سوالات کا جواب دینے کی کوشش میں افسانے کی بیخ کنی کہاں سے ہوئی؟ پھر، اگر میں نے لوگوں کو یہ بتایا کہ افسانہ یعنی فکشن بطور صنف، اصناف ادب میں شاعری سے کمتر درجہ رکھتا ہے تو یہ بھی افسانے کی حمایت ہی ہوئی، کیونکہ میں نے افسانہ پڑھنے والوں اور۔۔۔ اور افسانہ لکھنے والوں کو اس غلط فہمی سے بچایا کہ افسانے کے بل بوتے پر ہم عالمی ادب میں یا اصناف ادب کے ایوان میں اولین مقام کے حامل ہو سکتے ہیں۔

    اس زمانے میں میرا خیال تھا کہ افسانے کے بارے میں غلط فہمیاں دور ہو سکیں تو یہ افسانے کی حمایت ہی تو ہوگی۔ جس صنف میں ہم لوگ تگ وتاز کر رہے ہیں ہمیں اس کے ابتدائی خط وخال ہی نہ معلوم ہوں، اور ہم سماجی معنویت، سیاسی شعور، اصلاح معاشرہ وغیرہ کی بات کرکے افسانے کے مباحث کو آلودہ کرتے رہیں تو یہ کوئی دانش مندانہ بات تو نہ ہوئی؟ تو میں نے یہی تو کیا کہ افسانے کے فن پر کچھ بنیادی باتیں کہہ دیں تاکہ فضا سے غبار کچھ تو چھٹے۔

    پہلا ملاقاتی (اندر ہی اندر دانت پیستے ہوئے) غبار چھٹا؟ کہ الجھاوے اور بڑھے؟

    دوسرا ملاقاتی (زہر خند کے ساتھ، لیکن شائستہ لہجے میں) ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو۔ بندہ نواز، آپ نے تو جڑ ہی کاٹ دی، یہ کہہ کر کہ افسانہ دوسرے درجے کی صنف سخن ہے۔

    میزبان بے شک، افسانہ، یعنی مختصر افسانہ اور طویل مختصر افسانہ اپنی نوعیت ہی کے اعتبار سے درجۂ دوم کی صنف ہیں اور میں نے وضاحت سے عرض کیا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ مختصر افسانے میں تکنیک اور کردار نگاری اور واقعہ سازی کے تنوع کے امکانات کم ہیں۔ ناول میں یہ امکانات زیادہ ہیں۔ مگر میں نے یہ بھی تو کہا کہ افسانے کی بعض کارگزاریاں ایسی ہیں جو کسی اور کے بس کی نہیں اور یہ افسانے یعنی فکشن کا سب سے بڑا امتیاز ہے اور یہ بات تو آپ بھی مانتے ہیں کہ گذشتہ برسوں میں افسانے پر جو کچھ لکھا گیا ہے، اس میں میرے دعوؤں اور مفروضات کا حصہ بہت بڑا ہے تو اگر میں نقادوں اور افسانہ نگاروں کو مہمیز نہ کرتا تو افسانے کی تنقید اس قدر متنوع اور دلچسپ نہ ہوتی جیسی کہ اب ہے۔

    پہلا ملاقاتی (منھ بناکر) بخشو بی بی چوہالنڈوراہی جئےگا۔ ایسی تنقید سے کیا فائدہ جس میں نہ کردار پر بحث، نہ پلاٹ کا خلاصہ، خلاصہ نہ سہی، پلاٹ کا تذکرہ ہی سہی۔

    دوسرا ملاقاتی وہ تنقید کس کام کی جس میں تعیین قدر کے نام پر پلاٹ کا خلاصہ اور کرداروں کے کوائف بیان کر دیے جائیں۔ خیر، اس بات کو تو ابھی سمجھیں گے مگر فی الحال آپ یہ بتائیں کہ آپ کبھی افسانہ کہتے ہیں کبھی فکشن کہتے ہیں۔ ایسا کیوں؟ براہ کرم ایک جگہ پر قائم رہیں۔

    میزبان پلاٹ کا خلاصہ بیان کرنا دراصل نقاد کی ناکامی کا المیہ ہے، کہ اسے کچھ کہتے نہیں بنتی تو وہ بڑی دھوم دھام سے ہمیں بتانا شروع کرتا ہے کہ اس افسانے یا ناول میں یہ ہوا، پھر یہ ہوا، پھر یہ ہوا۔ ارے بھائی صاحب، ہم خلاصہ پڑھ کر کیا کریں گے؟ کیا پلاٹ کا خلاصہ کبھی بھی پلاٹ کا بدل ہو سکتا ہے؟ اور افسانے کے کرداروں پر بحث؟ وہ تو اکثر محض نقاد صاحب کی پسند ناپسند کا بیان بن جاتی ہے۔۔۔

    رہا معاملہ اصطلاحوں کا، تو مشکل یہ ہے کہ ہمارے یہاں فکشن کے لئے کوئی لفظ نہیں۔ چلئے فی الحال یہ طے کر لیتے ہیں کہ ’’افسانہ‘‘ اور ’’فکشن‘‘ سے ہم ایک ہی شے مراد لیں گے، اس فرق کے ساتھ کہ اگر صرف ’’مختصر افسانہ‘‘ کہیں تو اس سے فکشن کی وہ مخصوص صنف مراد لیں گے جسے Short Story کہا جاتا ہے اور ’’فکشن‘‘ سے ہم داستان کے سوا تمام اصناف مراد لیں گے، خواہ نثر خواہ نظم، جن میں کوئی افسانوی بیانیہ قائم ہوتا ہے۔ ان میں مختصر افسانہ شامل ہے۔ اگر ناول کہیں تو اس سے صرف ناول مراد ہوگا، مختصر افسانہ نہیں۔ دوسری بات یہ کہ۔۔۔

    پہلا ملاقاتی (بات کاٹ کر) چلئے مان لیا لیکن داستان کیوں نہیں؟ کیا یہ داستان کی بے حرمتی نہیں کہ اسے فکشن نہ کہا جائے؟

    میزبان اس میں بے حرمتی کی کیا بات ہے؟ معاف فرمائیے، اس زمانے میں مجھ سے زیادہ داستان کا پرستار کون ہوگا؟ اور دوبارہ معاف فرمائیےگا، میں نہ ہوتا تو آپ میں سے اکثر کو معلوم بھی نہ ہوتا کہ داستان کس چڑیا کا نام ہے۔ صاحب، بیانیہ ایک طرز ہے، جو کئی اصناف میں موجود ہو سکتا ہے، شاعری میں بھی، جیسا کہ آپ نے (دوسرے ملاقاتی کی طرف اشارہ کرکے) اپنی کتاب میں لکھا ہے۔ داستان بھی بیانیہ ہے، لیکن فکشن نہیں، کیونکہ داستان ایک اور صنف ہے۔ اس کی شرط یہ ہے کہ وہ زبانی سنائی جاتی ہے، یا پھر زبانی سنائے جانے کے لئے لکھی جاتی ہے۔ فکشن لکھا جاتا ہے اور تنہا پڑھنے کے لئے لکھا جاتا ہے۔ ممکن ہے اسے کسی مجمعے میں پڑھ کر سنایا جائے، لیکن یہ اس کا اولین اور بنیادی مقصد نہیں۔

    پہلا ملاقاتی خوب، تو ہم لوگ مختصر افسانہ، طویل مختصر افسانہ، ناول، ناولٹ، وغیرہ کی بات کررہے ہیں۔ دوسرے کئی قسم کے بیانیوں کوہم فی الحال نظرانداز کریں گے۔

    دوسرا ملاقاتی (کچھ ذرا پہلو بدل کر) اور اخبار کی رپورٹ وغیرہ؟

    پہلا ملاقاتی چہ خوش! اخباری رپورٹ کو بیانیہ کون کہتا ہے؟

    میزبان نہیں، بیانیہ تو وہ بھی ہے۔ شاید آپ کو یہ خیال نہیں کہ بیانیہ کئی طرح کا ہوتا ہے اور کچھ بیانیہ ایسا بھی ہے جو فکشن نہیں ہوتا لیکن اس وقت ہمارا سروکار صرف افسانے اور ناول سے رہے تو بحث زیادہ پھیلےگی نہیں اور آپ لوگ۔۔۔ میرا مطلب ہے ہم سب کی اصل دلچسپی افسانے اور ناول ہی سے ہے، لیکن یہ خیال رہے کہ افسانہ ہو یا ناول، اس میں نثر کی قید نہیں۔ کوئی بھی فکشن منظوم ہو سکتا ہے۔

    دوسرا ملاقاتی چلئے فی الحال اسے مان لیتے ہیں۔ اب آپ جواب دیں کہ آپ نے افسانے کو دوسرے درجے کی صنف کیوں کہا؟ نہیں، ذرا ٹھہریے۔ آپ یہ بھی تو کہتے ہیں کہ روایتی بیانیہ کی شان واقعہ کی کثرت ہے، کردار نگاری نہیں تو آپ اس روایتی معیار کو، جو داستانوں کے لئے ٹھیک ہے، بیسویں صدی کی آٹھویں نویں دہائی کے افسانوں پر کس طرح جاری کر سکتے ہیں؟

    میزبان جاری میں کچھ بھی نہیں کر رہا ہوں۔ میں صرف یہ بتا رہا ہوں کہ روایتی بیانیہ کی رو سے کردار نگاری اہم نہیں، واقعہ ہے اور یہی صورت حال اکثر جدید افسانوں میں نظر آتی ہے، لہٰذا جدید افسانوں کو اس لئے مطعون نہ کرنا چاہئے کہ ان میں کردار نہیں ہے۔ رہے بات افسانے کو دوسرے درجے کی صنف قرار دینے کی۔۔۔

    پہلا ملاقاتی (ذرا دبنگ آواز میں) جی ہاں! آپ نے یہ نوکر شاہوں والے طور ادب میں کیوں جاری کرنا چاہے ہیں؟ پائپ منھ میں لگاکر سوٹ پہن کر کار میں گھومنا اور بات ہے، تنقید لکھنا اور خاص کر افسانے کی تنقید۔۔۔

    دوسرا ملاقاتی خاص کر آپ کے ہوتے ہوئے!

    پہلا ملاقاتی (مداخلت کی پروا کئے بغیر) جی، افسانے کی تنقید لکھنا اور بات ہے، فائلوں پر قلم گھسنا اور بات۔

    دوسرا ملاقاتی جیسا کہ میں نے اپنی کتاب میں دکھایا ہے، نظم، یعنی شعر میں بھی بیانیہ ہوتا ہے، لہٰذا آپ کا یہ کہنا بے معنی ہے کہ فکشن چونکہ بیانیہ ہے، لہٰذا وہ شاعری سے کمتر ہے۔

    میزبان میں نے یہ نہیں کہا ہے کہ افسانہ یا فکشن اس لئے کمتر ہے کہ وہ بیانیہ ہے۔ میں نے تو یہ کہا ہے کہ افسانہ یا فکشن، بیانیہ سے باہر نہیں نکل سکتا۔ افسانے میں کچھ نہ کچھ بیان کرنا پڑتا ہے۔ افسانے میں کچھ نہ کچھ واقع ہوتا ہے۔ ایسا ممکن نہیں کہ کچھ نہ ہو اور افسانہ بن جائے۔ دوسری مشکل یہ کہ فکشن کا میدان بیان کرنا ہے، فکشن بتاتا ہے، دکھاتا نہیں اور آپ جانتے ہیں کہ بتانے کے مقابلے میں دکھانا بے انتہا موثر اور پرقوت ہوتا ہے۔ فلم اور ڈراما کی مثال سامنے کی ہے۔

    پہلا ملاقاتی یہ تو ڈرامے کی بات ہوئی۔ میں نے بھی بہت ڈرامے پڑھے اور پڑھائے ہیں۔ ابھی کل ہی میں امتیاز علی تاج کا ڈراما پڑھ رہا تھا۔۔۔ بھلا سا نام ہے اس کا۔۔۔ ہاں یاد آیا! ’’انار کلی‘‘، اور مجنوں صاحب کا ڈراما بھی تو ہے، ’’سلومی‘‘ جو آسکر وائلڈ کا ترجمہ ہے۔

    میزبان (مداخلت سے بے پروا، پہلا ملاقاتی اور میزبان ساتھ ساتھ بولتے ہیں۔) یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر تکلیف دہ واقعات یا مناظر اسٹیج پر یا فلم میں دکھائے نہیں جاتے۔ ان کے بارے میں صرف بتا دیا جاتا ہے۔

    دوسرا ملاقاتی (بلند آواز میں) ارے بھئی آپ لوگ ایک ساتھ بولتے جا رہے ہیں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے۔

    پہلا ملاقاتی (منھ بناکر چپ ہو جاتا ہے۔) 

    میزبان تو میں یہ کہہ رہاتھا کہ۔۔۔ افسانہ اور فکشن میں ہم کیسی کیسی درد انگیز اور ڈراؤنی باتوں سے دوچار ہوتے ہیں، لیکن اس طرح کا کوئی منظر ہم ڈرامے یا فلم میں دیکھیں تو نہ جانے کتنے تماشائیوں کو دل کا دورہ پڑ جائے۔ دوسری بات یہ کہ بہت سی شاعری ایسی ہے، بہت سے شعر ایسے ہیں، جن میں کچھ واقع نہیں ہوتا، لیکن پھر بھی ہم انھیں شعر کی طرح پہچانتے اور ان سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ افسانے یا فکشن کے ساتھ یہ بات ممکن نہیں۔ اکثر صرف ایک تاثر، ایک کیفیت، ایک احساس، شعر یا نظم کے لئے کافی ہوتا ہے۔ اسی لئے شاعری میں تنوع اور تبدیلی کے امکانات زیادہ ہیں۔ فکشن میں کم۔

    دوسرا ملاقاتی امکانات، واقعہ، کردار، کشمکش، یہ سب باتیں کیا افسانے اور تمام فکشن کو بیحد توانا اور توانگر نہیں بناتیں؟

    میزبان، یقیناً بناتی ہیں۔ لیکن یہی باتیں فکشن کے گلے میں زنجیر بھی بن جاتی ہیں۔ فکشن ان کے باہر نہیں جا سکتا۔ میں جو کہتا ہوں کہ فکشن وقت میں قید ہے تو اس کا مطلب بس یہی ہے کہ کسی بات کے واقع ہوئے بغیر فکشن نہیں اور ہر بات وقت کے اندر واقع ہوتی ہے۔ ایسا کوئی وقوعہ نہیں، ایسا کوئی واقعہ نہیں جس کے بارے میں ہم کہیں کہ وہ نہ ہے، نہ تھا اور نہ ہوگا۔ افسانہ ہو یا ناول، وہ وقت کے باہر نہیں جا سکتے۔ لیکن شعر کے لئے وقت کی قید نہیں، شعر محض کیفیت، محض پیکر، محض استعارے پر بھی قائم ہو سکتا ہے۔

    پہلا ملاقاتی فکشن بھلا وقت کے کیوں باہر جائے؟ ہر ایک کی اپنی اپنی مملکت ہے۔ ہر ایک اپنی اپنی جگہ خوش ہے اور ہر شعر کا تو وہ حال نہیں ہوتا جو آپ نے بیان کیا۔ ہزاروں اشعار ہیں، نظمیں ہیں، رزمیے ہیں، جن میں بہت کچھ واقع ہوتا ہے۔

    میزبان بیشک، فکشن بھلا کیوں وقت کے باہر جائے؟ فکشن کی قوت ان چیزوں میں ہے، فکشن انھیں چیزوں کے باعث اپنی مثال آپ ہے۔ لیکن شاعری زیادہ لچکدار ہے۔ ناول بھی بہت لچکدارہے، لیکن شاعری کے اتنا اور شاعری کی طرح کا لچکدار نہیں۔ لیکن ناول میں وسعت، شدت، تجربہ، کثرت، قلت، پیچیدگی، سب ممکن ہے۔ یہ بھی صحیح ہے کہ بہت سی شاعری میں بیانیہ ہوتا ہے۔ بہت سی شاعری رزمیہ ہو سکتی ہے، منظوم ناول بھی ہو سکتا ہے۔ شاعری میں بیانیہ ہوگا، وہ بھی وقت میں قید ہی ہوگا اور اس حد تک وہ غیربیانیہ شاعری سے کمتر ہو سکتا ہے۔ ناول بہرحال بہت لچک دار اور وسیع ہے اور وہ منظوم بھی ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ناول کو افسانے سے بدرجہا بلند تر صنف قرار دیتے ہیں۔ افسانہ بے چارہ ننھی سے جان رکھنے والا۔۔۔

    پہلا ملاقاتی (بگڑ کر) آپ ہمارے افسانے اور افسانہ نگاروں کی توہین کر رہے ہیں!

    میزبان توہین تو آپ کرتے ہیں برادر، کہ افسانے کی تنقید کے نام بے محابا انشائیہ نگاری فرماتے ہیں۔ یہ آپ ہی کے تو جواہر پارے ہیں (پیچھے ہاتھ بڑھا کر کتاب نکالتا ہے، پھر پڑھتا ہے)، ’’یہ افسانہ (مکتی بودھ) صرف بیدی ہی لکھ سکتے تھے۔‘‘ (ورق پلٹتاہے)، ’’ (کوکھ جلی میں) بیدی کا آرٹ پر فریب ہے۔‘‘ (ورق پلٹتا ہے)، ’’بیدی اپنی شخصیت کو اپنے کرداروں میں فنا کرتے رہتے ہیں۔‘‘ (ورق پلٹتا ہے)، ’’یہاں تاثر ایک ایسے استعارے میں ظاہر ہوا ہے جس میں زمان ومکان کی سرحدیں کھنچ آئی ہیں۔‘‘ (ورق پلٹتا ہے)، ’’جوگیا کہانی نہیں رنگوں کا فشار ہے۔‘‘ اس قسم کی تعمیم زدہ بے معنی فقروں سے بھری ہوئی عبارت (میں اسے تنقید نہ کہوں گا) لکھنا بیچارے بیدی کے ساتھ ایک بھیانک مذاق ہے۔ یگانہ صاحب ایسے موقعوں کے لئے ایک فقرہ استعمال کرتے تھے لیکن میں آپ کو اس سے محفوظ رکھوں گا۔

    دوسرا ملاقاتی (ہنسی کو ضبط کرنے کی کوشش کرتے ہوئے) شاید اسی لئے کہا گیا ہے کہ۔۔۔ خیر چھوڑئیے۔ آپ نے افسانے کو وقت کا قیدی بتایا ہے۔ کانٹ کے مطابق وقت ایک مستقل اور ناگزیر عنصر ہے، جرمن فلسفی کے الفاظ میں Category اور اس سے انکار ممکن نہیں۔ وقت کا عنصر ناگزیر ہے اور یہ صرف خود پر اعتماد کی بات ہے کہ اسے لعنت سمجھا جائے یا نعمت۔ شاعری میں وقت کو عام طور پر مضمر سمجھا جاتا ہے جب کہ افسانوی ادب اس سے آنکھیں چار کرتا ہے۔ خود شاعری میں بھی طویل اور مختصر بحروں کے ذریعہ وقت کو گرفت میں لانے یا اس کی گرفت سے نکلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

    میزبان معاف کیجئےگا، یہاں بات صرف اتنی ہے کہ فکشن کی مجبوری ہے کہ وہ کسی نہ کسی زمانے میں واقع ہوتا ہے۔ میں ابھی ابھی یہ عرض کر چکا ہوں کہ فکشن کو ماضی، حال، مستقبل، ان میں سے کوئی ایک زمانہ تو اختیار ہی کرنا پڑتا ہے۔ کوئی واقعہ زمانۂ حال میں ہے۔ کوئی واقعہ زمانۂ ماضی میں تھا۔ کوئی واقعہ زمانۂ مستقبل میں ہوگا۔ ان کے علاوہ واقعے کے وجود کی صورت نہیں اور واقعہ نہیں تو فکشن نہیں۔ فکشن ان معنی میں زمان یا وقت میں قید ہے۔ اس کے برخلاف بہت سی شاعری ایسی ہے جس میں کچھ واقع نہیں ہوتا۔ بسااوقات شاعری کا ایک مصرع، یا ایک سطر ہی بات کو قائم کرنے کے لئے کافی ہوتی ہے۔ میتھیو آرنلڈ تو کہتا ہی یہی تھا کہ بڑی شاعری کو پہچاننے کے لئے ایک سطر ہی کافی ہے یعنی شاعری کا جوہر ایک سطر میں بھی ظاہر ہو سکتا ہے۔

    فراق صاحب اسی بات کی بنیاد پر مجھ سے اکثر کہتے تھے کہ کبیریا تلسی داس کے مصرعوں کے سامنے میرے مصرعے رکھو۔ آواز سے آواز ملتی ہے۔ خیر وہ الگ بات تھی لیکن آپ کا یہ خیال درست نہیں کہ شاعری میں وزن وبحر کے ذریعہ وقت کو گرفت میں لانے یا وقت کی گرفت سے نکلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

    اول تو شاعری کے لئے وزن اور بحر ضروری نہیں اور دوسری بات یہ کہ شاعری میں وزن کی ایک تعریف یہ ہے کہ اسے وقت کا ایک تفاعل سمجھتے ہیں، یعنی الفاظ کو ارکان تصور کرتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ انھیں ادا کرنے میں ایک طرح کی تال پیدا ہوتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ تال کے معنی ہیں کسی مقرر وقفے کے اعتبار سے طبلے، یاکسی بھی چیز پر تھاپ دینا یا ٹھیکا دینا، لہٰذا شعر میں وقت اس طرح نہیں کام کرتا جس طرح فکشن میں کرتا ہے۔ شاعری میں وقت محض میکانکی پیمانہ ہے کہ کسی مصرعے کو ادا کرنے میں کتنا وقت لگا اور مصرعے میں جو اصوات ہیں وہ کس ترتیب سے آئی ہیں۔ وقت کے اس دوران اور اس کی ترتیب کو صحیح صحیح بیان کرنے کا نام عروض ہے۔

    پہلا ملاقاتی آپ ہر بات میں مثال دیتے ہیں، مثال دینا پدری مزاج کی صفت ہے اور پدری شخصیت میں عموماً طاقت اور اقتدار کا عنصر غالب ہوتاہے جبکہ مادری شخصیت کا خمیر محبت اور اپنائیت سے اٹھتا ہے۔

    میزبان (مسکراتا ہے) اپنی طرف سے گڑھے ہوئے اصولوں کے بل بوتے پر لفاظی کرنے کے پہلے یہ نہ بھولئے کہ انجیل اور قرآن دونوں ہی مثالوں سے بھری پڑی ہیں۔ مثالیں آپ کو شاید اس لئے بری لگتی ہیں کہ ان کا جواب آپ کے پاس نہیں۔

    پہلا ملاقاتی آپ چاہتے ہیں کہ ہر افسانے کے معنی اسی طرح بیان کئے جائیں جس طرح آپ ’’تفہیم غالب‘‘ لکھتے ہیں۔ یعنی آپ ’’تفہیم غالب‘‘ کی طرح مضمون آفرینی کرنا پسند کرتے ہیں، افسانہ جائے چولھے بھاڑ میں۔ آپ نے افسانے پر جو کچھ لکھا ہے اس میں خلوص نہیں، محض اتراہٹ، دھونس اور رعونت ہے۔

    میزبان بندہ نواز، دھونس اور اتراہٹ کو الگ رکھئے اور میں نے جو کہا ہے اس کو سمجھنے کی کوشش کیجئے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ دھونس، اتراہٹ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ کے ساتھ جو بات کہی جائے وہ صحیح بھی ہو؟

    پہلا ملاقاتی ہاں منطقی طور پر ممکن تو ہے لیکن۔۔۔

    میزبان تو بس جو کچھ میں نے کہا ہے اس کی سچائی کو دیکھئے، دھونس وغیرہ کو جانے دیجئے۔ ممکن ہے کہ آپ کو میری باتوں میں اتراہٹ وغیرہ اس لئے نظر آتی ہو کہ ان کا جواب آپ سے بن نہیں آتا۔ اب رہی یہ بات کہ افسانے کی تعبیر اور معنی شناسی میں غالب کی تفہیم کی طرح مضمون آفرینی نہ کی جائے، تو کوئی بات نہیں۔ آپ آسان انداز میں اپنی بات کہئے کہ آٹھ سال کے بچے بھی انھیں سمجھ لیں لیکن آپ کے طوطا مینا تو محمد حسین آزاد کے کان کاٹ ڈالتے ہیں۔ ملاحظہ ہو۔ (پیچھے مڑ کر الماری سے ایک اور کتاب نکالتا ہے۔ صفحہ کھول کر پڑھتاہے)، ’’تنقید میں کبھی تو خیال سے آرٹ کی طرف اور کبھی آرٹ سے خیال کی طرف حرکت کرنی پڑتی ہے۔‘‘ (ہنسی ضبط کرنے کے لئے کھانسنے کا بہانہ کرتا ہے، پھر پڑھتا ہے۔) 

     ’’زبان اور اسلوب کے تجزیے کے ذریعے نقاد بالآخر تو فن کی معنویت پانے ہی کی کوشش کرتا ہے اور فن کی معنویت میں تھیم اورخیال کا بھی ایک حصہ ہوتا ہے۔‘‘ (ہنسنے کی طرح کھانستا ہے۔ کھانستے کھانستے کتاب بند کردیتا ہے۔) شاید اسی کو غالب نے گدائے بے سروپا کی جنوں جولانی کہا تھا۔ کیوں حضرت؟ خیال اور آرٹ شاید دو جگہیں ہیں جن کے درمیان تنقید کی گاڑی کو (بقول آپ کے گھوڑا گاڑی کو) حرکت کرنی پڑتی ہے تو پھر تھیم کیا ہے؟ شاید کوئی تیسرا شہر ہے؟

    دوسرا ملاقاتی چھوڑیے صاحب، اپنا اپنا انداز تحریر ہے۔

    پہلا ملاقاتی (بگڑ کر) آپ میری بات سیاق وسباق سے اکھاڑ کر پیش کر رہے ہیں۔ میں نے یہ بھی تو کہا ہے۔۔۔ لائیے کتاب مجھے دیجئے۔ (میزبان کتاب دیتا ہے۔ ملاقاتی کتاب کھول کر پڑھتا ہے۔) ، ’’نقاد دیکھتا ہے کہ خیال یا۔۔۔ (ذرا ٹھہرتا ہے)۔۔۔ یا۔۔۔ تھیم کی پیش کش کے لئے افسانہ نگار نے کہانی، کردار، واقعات، علامات اور اساطیر کا جو تانا بانا بنا ہے۔۔۔‘‘ (گھبراکر کتاب بند کر دیتا ہے۔) 

    میزبان بے شک! کہانی، کردار، واقعات، علامات، ان میں کوئی فرق ہی نہیں، آپ سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتے ہیں اور یہ بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ ہر افسانے میں علامت ہی نہیں، علامات ہوں اور آپ اس پر بھی بس نہیں کرتے، اساطیر کو بھی کھینچ لاتے ہیں۔ اجی صاحب ان الفاظ کے معنی تو بیان کر دیتے۔ یہ تو واضح کر دیتے کہ واقعات ہی کہانی اور کردار کا مجموعہ ہوتے ہیں۔ ’’کہانی‘‘ اور ’’کردار‘‘ کہہ کر پھر ’’واقعات‘‘ بھی کہنا ظاہر کرتا ہے کہ آپ ان بنیادی الفاظ کے معنی نہیں جانتے۔

    پہلا ملاقاتی نئے افسانوی ادب کو سمجھنے کے لئے مادری کشادگی اور اپنائیت کی ضرورت ہے، لیکن آپ کا مزاج وہی پدری مزاج ہی ہے۔ ذرا آگے بڑھ کر دیکھتے۔

    میزبان ’’مادری کشادگی!‘‘ سبحان اللہ۔

    پہلا ملاقاتی سرور صاحب سے فکشن پر تنقید نہیں سنبھلی۔ کلیم الدین احمد شاعری اور تنقید کے باہر نہیں نکلے۔ ممتاز شیریں شاعری اور تنقید سے بالکل بے بہرہ ہیں۔ احتشام حسین شاعری پر تنقید پر اچھا لکھ گئے لیکن فکشن کی طرف متوجہ ہوئے تو ان پر تھکن طاری ہو چکی تھی۔ فکشن کی تنقید آپ لوگوں کے بس کا روگ نہیں جناب۔ ہمارے نقادوں کا حال ہی ایسا ہے۔

    میزبان (مسکراتا ہے) ان میں مادری کشادگی نہیں ہے۔

    دوسرا ملاقاتی (ہنستا ہے) چھوڑیے صاحب، یہ اردو زبان ہی ایسی ہے۔ لیکن مجھے بھی یہ بات اچھی نہیں لگی کہ کہ آپ افسانہ نگاروں کو ذلیل کرنے کے درپے ہیں۔

    میزبان اگر افسانے کو ناول سے کمتر کہا جائے اور ناول کو شاعری سے کمتر کہا جائے تو اس کے معنی یہ کہاں سے نکلے کہ میں، یا کوئی اور، افسانہ نگار کو ذلیل کرنا چاہتا ہے اور اگر تنقیدی اخلاقیات اسی کا نام ہے تو یہ جرم سب سے پہلے ارسطو نے کیا تھا کہ اس نے المیہ کو رزمیہ اور طربیہ پر فوقیت دی۔ ہومر کے ماننے والوں نے اس پر بھوک ہڑتال تو نہیں کر دی کہ استاد تم ہمارے ہیرو کو ذلیل کر رہے ہو۔ (تھوڑا رک کر) کہیں ایسا تو نہیں کہ افسانہ نگار حضرات خود ہی احساس کمتری میں مبتلا ہوں اور (دوسرے ملاقاتی کی طرف اشارہ کرکے) ہمارے دوست مادری کشادگی کے باعث اسے خود بھی محسوس کر رہے ہوں؟

    پہلا ملاقاتی (بھناکر) آپ افسانے کی برائی ہزار کریں، لیکن Woman Hater کے کہنے سے لوگ عورتوں کے ساتھ محبت کرنا نہیں چھوڑتے اور Fiction Hater کی لن ترانیاں سن کر لوگ افسانے پڑھنا ترک نہیں کرتے۔

    میزبان اس میں کیا شک ہے؟ گھبراہٹ تو آپ لوگوں کو ہو رہی ہے۔ مجھے نہیں۔

    پہلا ملاقاتی اصناف سخن اور قدیم وجدید اور چھوٹی بڑی شاعری کے مسائل ایسے نہیں ہیں کہ رام لعل کو سامنے بٹھا کر یا مکالمے لکھ کر حل کئے جائیں۔ ایسی تنقید اشتعال انگیز ہوتی ہے۔

    میزبان اشتعال تو آپ کو آ ہی گیا ہے۔ سچی بات کہی۔ لیکن یہ جو آپ نے لکھا کہ خراب تنقید احمقانہ سوالات اٹھاتی ہے، تو مجھے خیال آیاکہ خراب تنقید احمقانہ جوابات کو بھی جنم دیتی ہے۔ چلئے حساب برابر ہوا۔ حساب تو برابر ہوا، لیکن افسانے یا افسانہ نگار کی خدمت تو نہ ہوئی، کیونکہ آپ ادب کی Pragmatic سطح پر جیتے ہیں (یہ آپ کا قول ہے، اس کے اہمال کا بوجھ مجھ پر نہ ڈالئےگا) لہٰذا ہر موقعہ کی مناسبت سے بات کہتے ہیں۔ ابھی آپ نے فرمایا تھا کہ افسانے کی تنقید میں اساطیر، علامات وغیرہ کا تانا بانا ہوتا ہے جسے سمجھنا بہت ضروری ہے۔ لیکن بعد میں آپ ترقی پسندوں اور جدید یوں پر یکساں کو اگہار پر اترآئے تو آٖپ نے فرمایا (کتاب نکال کر پڑھتا ہے)، ’’ترقی پسند تنقید کا کوا اسی افسانے پر منڈلاتا ہے جس میں سماج کی بھینس ڈکراتی ہے اور جدید تنقید کا گدھ اسی افسانے پر لپکتا ہے جس میں افسانہ نگار اسطور کی گائے کے تھنوں سے منھ بھڑائے ہوئے ہے۔‘‘ 

    پہلا ملاقاتی جناب آپ میری اس چھوٹی سی کتاب کو بخشئے۔ کہاں تک اس کے پیچھے پڑے رہئے گا۔ میں نے افسانے پر اور بھی تو لکھاہے۔

    میزبان ضرور لکھاہے۔ آپ کے بعض ارشادات ہماری اسی گفتگو میں زیر بحث آ بھی چکے ہیں لیکن بنیادی مسئلہ یہ نہیں ہے کہ کون صحیح ہے کون غلط۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ آپ کی تنقید دراصل ترقی پسند تنقید ہی کی ایک شاخ ہے اور ترقی پسند ادب کے زیادہ تر بڑے کارنامے افسانے کے میدان میں تھے، لہٰذا افسانے کے خلاف آپ کچھ سننا پسند نہیں کرتے۔ دوسری بات یہ کہ فکشن کی تنقید ہو یا شاعری کی تنقید، اصول تنقید میں فرق نہیں ہو سکتا، طریق کار میں فرق ہو سکتا ہے۔

    آپ کا دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ آپ اصول سے سروکار رکھتے نہیں ہیں اور آپ کا طریق کار وہی ترقی پسندوں والا ہے، کہ فکشن میں سماجی شعور وغیرہ تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ (کتاب نکال کر پڑھتا ہے)، ’’ناول اور افسانہ جمہوری ذہن، انسان دوست نقطۂ نظر اور دردمند دل کی ترجمانی کرتے ہیں اور انھیں مرکزی حیثیت دیتے ہیں۔‘‘ (کتاب بند کر دیتا ہے اور مسکراتا ہے۔) اول تو یہ اصطلاحات نہایت ناقص ہیں۔ جمہوری ذہن، یعنی چہ؟ کیا قدیم ایتھنز (Athens) میں جمہوری ذہن نہ تھا اور جمہوریت نہیں تھی؟ ذرا دیکھئے گا افلاطون اور ارسطو نے عورتوں اور غلاموں کے بارے میں کیا لکھا ہے؟

    کیا حضرت جارج بش (George Bush) کسی نام نہاد جمہوری ذہن رکھنے والی پارٹی کی نمائندگی نہیں فرماتے؟ اور ان کے Running Dog میاں ٹونی بلیئر (Tony Blair) برطانیہ کی محنت کش پارٹی (Labour Party) کے اعلیٰ ترین رہنما نہیں ہیں؟ آپ ایک زمانے میں غالی ترقی پسند رہے ہیں۔ ذرا یاد کیجئے اسٹالن بھی تو خود کو سوویٹ اور سوشلسٹ جمہوریہ ہی کا سربراہ بتاتا تھا تو یہ ’’جمہوری ذہن‘‘ کیا چیز ہے؟ اور یہ جو کچھ بھی ہے، کیا آپ کے خیال میں حضرت ٹالسٹائی نے Anna Karenina میں جمہوری ذہن کی نمائندگی کی ہے؟ اور کیا جناب بالزاک کے ناول، جن کا مرکزی موضوع ہی دولت، سرمایہ اور خوش حال طبقے کی ذہنی پیچیدگیاں ہیں، آپ کے دریافت کردہ ’جمہوری ذہن‘‘ کی پیداوار ہیں؟

    آپ مغربی ادیبوں وغیرہ کے نام بہت گناتے رہتے ہیں۔ بھلا فرمائیے کہ روداں (Rodin) نے بالزاک کا جو قد آدم مجسمہ بنایا ہے اور بالزاک کے عضو تناسل کو اس کی عبا کے نیچے سے بھی ایستادہ دکھایا ہے وہ کون سے جمہوری ذہن کی عکاسی ہے؟ (ایک لحظہ رکتا ہے، تمباکونوشی کا پائپ اٹھاتا ہے۔ اسے ادھر ادھر پلٹ کر دیکھتاہے، مسکراتا ہے، میز پر سے پائپ لائٹر اٹھاتا ہے۔) آپ کے خیال میں تو پائپ وغیرہ پینا غیرجمہوری ذہن کی علامت ہے لیکن پائپ پر سب سے اچھی نظم جو میں نے دیکھی ہے وہ بودلیئر نے لکھی ہے اور آپ اس کے بارے میں شاید جانتے ہوں کہ سخت ’’جمہوری‘‘ ذہن کا شاعر تھا۔ آپ کلیشے (Cliche) کو بہت برا کہتے ہیں لیکن آپ کی ساری تنقید کلیشے پر مبنی ہے۔ خیر چھوڑیے۔

    اب رہا فکشن میں ’’دردمندل دل‘‘ کا معاملہ، تو شاید جناب نے نہ فلابیئر Flaubert کو پڑھا ہے اور نہ موپاساں (Maupassant) کو۔ ابھی کچھ دن ہوئے فلابیئر کے آخری (اور نامکمل) ناول Buvard et Pecuchet کا ترجمہ شائع ہوا ہے۔ ذرا اسے دیکھ لیتے کہ اس میں دردمندی کتنی ہے اور فلابیئر نے اپنے دونوں مرکزی کرداروں کے ساتھ اور ان کے ذریعہ تمام آدمیوں کے ساتھ کیسا برا سلوک کیا ہے۔

    پہلا ملاقاتی (بے صبری سے، ہاتھ اٹھاکر) بس بس۔ بہت ہو گیا۔ آپ کے اصول تنقید کو کیا کہا جائے کہ فرماتے ہیں غزل بیک وقت فاسقانہ، عاشقانہ، عارفانہ وغیرہ ہو سکتی ہے، لیکن افسانے کے لئے یہ ممکن نہیں۔ آپ کا یہ بیان غیرمفکرانہ اور بنیادی طور پر احمقانہ ہے۔ آپ کو یہ بھی نہیں معلوم کہ بھلے ہی غزل میں ظاہری تسلسل نہ ہو، لیکن ہر اچھی غزل میں اندرونی ربط ہوتا ہے۔ اچھی غزل فکر واحساس کے موہوم ترین تنافر کو برداشت نہیں کر سکتی۔

    دوسرا ملاقاتی اجی آپ یہ سب کیا لے بیٹھے؟ غزل میں اندرونی تسلسل ہو یا نہ ہو۔۔۔

    پہلا ملاقاتی جی نہیں۔ یہ بہت اہم مسئلہ ہے۔ میں کہتا ہوں کسی بھی اچھی غزل میں اندرونی تسلسل ہونا لازمی ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ غزل کا ایک شعر کسی رنگ کاہو اور دوسرا شعر کسی رنگ کا۔ اچھی غزل ایسے تنافر کو برداشت نہیں کر سکتی۔

    دوسرا ملاقاتی اچھی غزل آپ کسے کہہ رہے ہیں؟ غالب کی غزل، میر کی غزل، سودا کی غزل؟ ان کی کوئی بھی غزل؟

    پہلا ملاقاتی جی ہاں، ان کی اچھی غزلوں میں سے کوئی سی غزل دیکھ لیجئے، میری بات صحیح ثابت ہوگی۔

    دوسرا ملاقاتی یہ استدلال تو Circular ہے۔ جس غزل میں آپ کی بیان کردہ صفت نہ ہوگی، آپ جھٹ کہہ دیں گے کہ وہ غزل اچھی نہیں ہے۔ پہلے آپ بتائیے کہ کس غزل کو آپ اچھی غزل کہیں گے۔

    پہلا ملاقاتی (تھوڑی دیر سوچتا ہے) دیکھئے وہ۔۔۔ جو غزل ہے نہ میر کی۔۔۔ بیگم اختر نے گائی ہے۔ کچھ ایسی سی ہے، ناکام کیا، بدنام کیا، وغیرہ۔ (اس بات پر شگفتہ ہوکر کہ ادھورے طور پر سہی، غزل اسے یاد آ گئی) جی ہاں، وہ اچھی غزل ہے۔ اس میں ایک محزونی، ایک مایوسی، کچھ تلخی سی ہے۔ یہی کیفیات اس غزل کو اندرونی ربط عطا کرتی ہیں۔ دیکھئے نہ، مطلع ہی کیا درد انگیز ہے (یاد کرنے اور پڑھنے کی کوشش کرتا ہے) وہ۔۔۔ الٹی۔۔۔ تدبیریں۔

    دوسرا ملاقاتی جی بہت خوب مطلع ہے، کس قدر غم آلود اور محزوں۔ (پڑھتا ہے)،

    الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
    دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا

    پہلا ملاقاتی (اچھل پڑتا ہے) واہ واہ۔ کیا مطلع ہے! (آنکھیں بند کرکے جھومتا ہے۔) دیکھا اس بیماری دل نے۔۔۔ کام تمام کیا۔۔۔ کام تمام کیا۔۔۔

    میزبان (شعر پڑتھا ہے)،

    شیخ جو ہے مسجد میں ننگا رات کو تھامے خانے میں
    جبہ خرقہ کرتا ٹوپی مستی میں انعام کیا

    پہلا ملاقاتی (بدمزہ ہوکر آنکھیں کھولتا ہے، منھ بناتا ہے) لاحول ولا قوۃ، کیا بیہودہ شعر ہے۔ بھلا کس نے یہ شعر کہا؟ (طنزیہ مسکراہٹ) بندہ نواز کہیں یہ آپ کا شعر تو نہیں؟

    میزبان (مداخلت کی پروا کئے بغیر پڑھتا ہے)،

    ساعد سیمیں دونوں اس کے ہاتھ میں لاکر چھوڑ دیے
    بھولے اس کے قول وقسم پر ہائے خیال خام کیا

    پہلا ملاقاتی (خوش ہوکر) یہ ہوا نہ شعر! کس قدر شوخ شعر ہے، سودا کا معلوم ہوتا ہے۔

    میزبان (قہقہہ مارکر) میاں صاحب یہ سب شعر میر کے ہیں اور اسی غزل کے ہیں جس کا مطلع آپ نے پڑھا تھا کہ اچھی غزل اسے کہتے ہیں۔

    پہلا ملاقاتی (زانو پر ہاتھ مارکر) نہیں، واللہ نہیں! اچھی غزل میں ایک داخلی تسلسل ہوتا ہے۔۔۔

    میزبان اعلیٰ حضرت، پہلے سے طے شدہ مفروضوں کی روشنی میں ادب پڑھئےگا تو یہی حال ہوگا اور کسی تنقیدی اصول کے بغیر افسانے پر تنقید لکھئےگا تو خود ہی کو دھوکا دیجئےگا۔ چند کتابیں الٹی سیدھی پڑھ لینے سے تنقید نہیں آتی۔

    پہلا ملاقاتی (منھ بناکر) آپ تو طنز واستہزا پر اترآئے۔

    دوسرا ملاقاتی بے شک یہ ہنر تو ہمارے دوست کا حق تھا مگر چھوڑیے۔ آپ ہمیں پہلی اور آخری بار صاف صاف بتا دیجئے کہ آپ افسانے کے ہمدرد ہیں یا اس کے دشمن؟

    میزبان برادر میں دشمن ہرگز نہیں ہوں۔ لیکن میری دوستی یا دشمنی سے ہوتا ہی کیا ہے؟ آپ لوگ بلاوجہ ہی گھبرا اٹھے اور افسانے کے دفاع میں سرگرم ہو گئے۔ دراصل آپ ہی جیسے لوگوں نے نقاد کو اہمیت دے کر اس کا دماغ خراب کر دیا ہے۔۔۔

    دوسرا ملاقاتی اور ہمارے بزرگ دوست (پہلے ملاقاتی کی طرف اشارہ کرکے) بھی تو نقاد ہیں۔۔۔

    میزبان بھلا نقاد کے قول کی اہمیت ہی کیا ہے؟ اچھی سے اچھی تنقیدی کتاب پندرہ بیس، حد سے حد پچیس برس میں پرانی ہو جاتی ہے۔ اگر وہ مسترد نہ ہو تو بڑی خوش قسمت ہے۔ ورنہ اکثر تنقیدیں لکھی جانے کے ساتھ ہی ساتھ پرانی بھی اور منسوخ بھی ہونے لگتی ہیں۔ سو میں اگر افسانے یا ناول، یا دونوں کا مخالف بھی ہوں تو کیا ہوا؟ میرے اختلاف سے افسانے کا کیا بگڑ گیا۔۔۔ ؟ بلکہ کچھ بھلا ہی ہوا کہ افسانے پر تنقید اور غور وفکر کا سلسلہ شروع ہوا، ورنہ میری نام نہاد مخالفت کے باوجود افسانے خوب لکھے جا رہے ہیں۔۔۔

    پہلا ملاقاتی (قہقہہ لگاتا ہے) اور بڑے ہی خراب افسانے لکھے جا رہے ہیں!

    دوسرا ملاقاتی (ہنس کر) جب ہم آپ جیسے لوگ افسانے کی تنقید لکھیں گے تو اور کیا ہوگا؟

    میزبان کسی کی مخالفت یا موافقت، خاص کر نقاد کی مخالفت یا موافقت سے تخلیقی ادب کا کچھ نہیں بگڑتا لیکن میں یہ ضرور کہہ دینا چاہتا ہوں کہ میں افسانے کا مخالف ہرگز نہیں ہوں۔

    دوسرا ملاقاتی اے سبحان اللہ۔ افسانے کا جھٹکا کر دیا اور فرماتے ہیں میں افسانے کا مخالف نہیں ہوں۔

    میزبان جھٹکا تو آپ نے کر ڈالا کہ ایسی تنقید لکھی ہے کہ بس۔ مثلاً آپ نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ بابو گوپی ناتھ جیسا افسانہ نہ تو منٹو نے لکھا اور نہ کسی دوسرے افسانہ نگار نے اس کی نقل اڑائی۔ یہ اگر تنقیدی بیان ہے تو آپ چاہے اس کا ہزار بار ورد کریں، چاہے شہد لگاکر چاٹیں، چاہے اسے گھول کر پی جائیں، مرض جہل سے شفا نہ ہوگی۔

     (باہر ایک درویش سہ تار پر گاتا ہوا گذرتا ہے۔) 

    درویش

    جن جن کو تھا یہ جہل کا آزار مر گئے
    اکثر تمھارے ساتھ کے بیمار مر گئے

    پہلا ملاقاتی (کچھ چیں بجبیں ہے، لیکن مسکرانے کی کوشش کر رہا ہے۔) 

    دوسرا ملاقاتی واللہ۔ میر صاحب نے ہر موقعے کے لئے شعر کہہ رکھے ہیں۔ (پکارتا ہے) شاہ صاحب، ارے او شاہ صاحب ہوت! ذرا سامنے تو آئیے۔

    درویش (باہر ہی سے، بآواز بلند، انداز کچھ ترنم کچھ تحت اللفظ کا ہے)،

    دنیا پہ اپنے جہل کی پرچھائیاں نہ ڈال
    اے روشنی فروش اندھیرا نہ کر ابھی

    دوسرا ملاقاتی (کچھ خوش ہوکر، میزبان سے) یہ شعر تو آپ کے لئے کہا گیا تھا!

    درویش (باہر ہی سے، بآواز بلند، انداز کچھ ڈانٹنے کا سا ہے)،

    کہاں سے تہہ کریں پیدا یہ ناقدان حال
    کہ پوچ بافی ہی ہے کام ان جلاہوں کا

    (اچانک بجلی چلی جاتی ہے۔ ہر طرف عجب طرح کا اندھیرا ہو جاتا ہے۔ سہ تار پر درویش کی آواز دور جاتی ہوئی، لیکن صاف سنائی دیتی ہے۔) 

    درویش
    صحبتیں جب تھیں تو یہ فن شریف
    کسب کرتے جن کی طبعیں تھیں لطیف

    تھے جو اس ایام میں استاد فن
    ناکسوں سے وے نہ کرتے تھے سخن

    پھر حصول اس سے نہ دنیا ہے نہ دیں
    کوئی حاجت اس سے وابستہ نہیں

    حاجت اس فرقے سے مطلق یاں نہیں
    جو نہ ہو ناقد تو کچھ نقصاں نہیں

    اک سراپا جہل نا گہ وقت کار
    ہم سے تم سے کرنے لاگا اعتذار

    نکتہ پردازی سے اجلافوں کو کیا
    نقد کب تھا جاہلوں کا فن بھلا

    (آواز مدھم ہونے لگی ہے۔ اندھیرا اب بھی ویسا ہی ہے۔)

    مأخذ:

    (Pg. 77)

    • مصنف: شمس الرحمن فاروقی
      • ناشر: ایم۔ آر۔ پبلیکیشنز، نئی دہلی

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے