aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اکبر کی ظرافت اور اس کی اہمیت

آل احمد سرور

اکبر کی ظرافت اور اس کی اہمیت

آل احمد سرور

MORE BYآل احمد سرور

    میرؔ یڈتھ کا قول ہے کہ ’’کسی ملک کے متمدن ہونے کی سب سے عمدہ کسوٹی یہ ہے کہ آیا وہاں ظرافت کا تصور اور کامیڈی (طربیہ) پھیلتے پھولتے ہیں یا نہیں۔ اور سچے طربیہ کی پرکھ یہ ہے کہ وہ ہنسائے مگر ہنسی کے ساتھ فکر کو بھی بیدا ر کرے۔’’ اردو ادب کا سرمایہ اس سنجیدہ ظرافت کے لحاظ سے ہر طرح قابل قدر ہے۔ سودا کے ہجویات، نظیرؔ، غالبؔ کی ذہنی پھلجھڑیوں اور فرحتؔ اللہ بیگ، رشید احمد صدیقی اور پطرس کے مضامین میں ہمیں اعلی ظرافت کی جھلکیاں جابجا ملتی ہیں۔ مگر اکبرؔ کی ظرافت کا مطالعہ اس لحاظ سے سب سے زیادہ اہم ہے۔ اکبرؔ کی شاعری کی عمرتقریباً ۵۵ سال ہے۔ جس میں تقریباً ۴۵ سال مزاحیہ رنگ کے مظہر ہیں۔ اس مزاحیہ رنگ میں ایک سنجیدہ تہذیبی مقصد ہے، جو اسے محض ہنسنے ہنسانے سے ممتاز کرتاہے۔ اقبالؔ کے الفاظ میں ’’خندۂ تیغِ اصل‘‘ گریہ ابر بہار بھی رکھتاہے۔ 

    اکبرؔ کے تغزل، تصوف اور مشرقیت کا علیحدہ علیحدہ مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ مگر ان تین چیزوں کو اگر ذہن میں رکھا جائے تو ان کی ظرافت کی بنیاد اوراس کی نوعیت واضح ہوجاتی ہے۔ اکبرؔ الہ آباد کے ایک قصبے کے شرفا میں سے تھے۔ انہوں نے مسل خوانی سے ججی تک ترقی اپنی ذاتی محنت اور کوشش سے کی۔ ان کی جوانی خاصی رنگین گزری۔ اور ان کے استاد وحیدؔ کی زندگی کا ان پر خاصا اثر ہوا۔ ان کی شاعری میں جس نئی تہذیب پر طنز ملتی ہے اس کو اپنی زندگی میں خاصی حد تک انہوں نے اپنایا۔ یہاں تک کہ اپنے لڑکے عشرت حسین کو اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ بھیجا۔ 

    ان کے یہاں ایک شدید جذباتیت شروع سے ہے اور گہری فکر، جو ساری زندگی کو اپنے حلقہ میں لے سکتی ہے اور وحدتِ نظر پیدا کرتی ہے، بہت کم ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اکبرؔ کو شروع میں کوچہ و بام سے اور بعد میں ملازمت کے فرائض سے اتنی فرصت نہ ملی کہ اس انقلاب پر غور کرتے جس کو غدر نے نمایاں کردیا تھا۔ متوسط طبقہ جس طرح جاگیر دارانہ تمدن کے لیے آب ورنگ مہیا کرتا تھا اسی طرح اب مغربی سامراج کے اشاروں پر چل رہا تھا۔ مگر ہندوستان کے مسلمانوں میں اس تبدیلی سے ایک غم وغصہ تھا۔ وہ اپنی پچھلی شان وشوکت کو بھولے نہ تھے۔ اکبر نے اس سامراج کی مشین بننے میں پس وپیش نہ کیا۔ مگر ان کے ذہن کا ایک حصہ دوسرے حصے سے باغی رہا۔ وہ دونوں میں کوئی ربط پیدا نہ کرسکے۔ اور یہ کہہ کر رہ گئے، 

    جج بناکر اچھے اچھوں کے لبھالیتے ہیں دل
    ہیں نہایت خوش نما دوجیم ان کے ہاتھ میں 

    شروع کی غزلوں میں ان پرلکھنؤ کی مرصع کاری کا کافی اثر ہے، مگر اس کے باوجود چونکہ ان میں سچّے رنگین اور شوخ جذبات بھی ہیں، اس لیے تاثیر اورکیفیت جابجا پائی جاتی ہے، گوانفرادیت کم ہے۔ اودھ پنج کے نکلتے ہی انہیں اپنی زندگی کے مقصد اور اپنی شاعری کی منزل کا احساس ہوجاتا ہے۔ اودھ پنج ظرافت اور قدامت دونوں کا علمبردار تھا۔ اس کی طنز زیادہ تر وقتی اور اس کا فن بیشتر الفاظ کی طلسم بندی ہے۔ مگر اکبرؔ کی گہری مشرقیت اس سے زیادہ وقیع تھی۔ انہیں آنے والے نئے طوفان کا احساس تھا اور اس کی اہمیت کو سمجھتے تھے۔ اکبرؔ نے سرسید کی تحریک کو ایک خطرہ سمجھا اور اس کا اپنے طنز کے تیروں سے مقابلہ کیا۔ سرسید کے زمانے میں حاجی امداد العلی، علی بخش شررؔ، مولانا رشید گنگوہی کی مخالفت کو زیادہ اہمیت دی جاتی تھی۔ حالانکہ آج اکبرؔ مشرقیت کے پرستار کی حیثیت سے سرسید کے سب سے بڑے مخالف مانے جاتے ہیں۔ سرسید سے ملنے کے بعداور اس کے اخلاق سے متاثر ہونے کی وجہ سے اکبرؔ کی طنز میں زہر ناکی کم ہوگئی۔ اور صرف اصولی اختلاف باقی رہا۔ ایک جگہ لکھتے ہیں، 

    شیخ سیدسے تو خالی نہیں ذکر شاعر
    ذات سے ان کی مخاطب نہیں فکر شاعر

    آخر میں محسن الملک کی شیریں زبانی کی وجہ سے انہوں نے علی گڑھ کالج کی تعریف بھی کی جو انسٹی ٹیوٹ گزٹ میں شائع ہوئی مگر مغربی تعلیم وتہذیب پر ان کے اعتراضات باقی رہے۔ سرسید کی تحریک کے مخالف کی حیثیت سے ان کی شاعری مشرقیت، قدامت، وضع داری کی قدروں کی علم بردار ہے۔ وہ زمانے کا ساتھ نہیں دیتی۔ زمانے پر طنز کرکے اپنا دل ٹھنڈا کرتی ہے۔ اس کی اپنی قدریں رفتہ رفتہ اتنی محدود ہو جاتی ہیں کہ جب اقبالؔ کی اسرار خودی شائع ہوتی ہے تو اس کے دیباچے اور حافظؔ کے متعلق اشعار سے وہ برہم ہوجاتے ہیں اور اقبالؔ پر طنزیہ اشعار لکھتے ہیں۔ آخر عمر میں ترک موالات کا ہنگامہ ان کی نگاہوں سے گزرتا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب وہ دنیا میں رہتے ہوئے بھی اسے چھوڑ چکے تھے۔ اسی لیے بعض اوقات اس تحریک سے ہمدردی ظاہر کرنے کے باوجود بحیثیت مجموعی وہ اس کو مفید نہیں سمجھتے تھے۔ 

    اس تمہید کا خلاصہ یہ ہے کہ اکبرؔ کی شاعری اور اس کی رفتار کو ہم سرسید کی تحریک، اقبالؔ کے نقطۂ نظر اور ترک موالات کی روشنی میں بھی سمجھ سکتے ہیں۔ اور تینوں کے متعلق ان کا نقطۂ نظر ایک ہی ہے۔ چنداشعار سے یہ بات واضح ہوجائےگی۔ 

    حاضر ہوا میں خدمت سید میں ایک رات
    افسوس ہے کہ ہو نہ سکی کچھ زیادہ بات

     
    بولے کہ تجھ پہ دین کی اصلاح فرض ہے 
    میں چل دیا یہ کہہ کے کہ آداب عرض ہے 

    نیچری وعظ ومہذب کو لیے پھرتے ہیں 
    شیخ صاحب ہیں کہ مذہب کو لیے پھرتے ہیں

     
    ہم کو ان تلخ مباحث سے سروکار نہیں 
    ہم تو اک شوخ شکر لب کو لیے پھرتے ہیں 

    تقلید غرب ترک عبادت پہ ہے خموش
    بس چھیڑتے ہیں صوفیٔ خانہ خراب کو

     
    مرعوب ہوگئے ہیں ولایت سے شیخ جی
    اب صرف منع کرتے ہیں دیسی شراب کو

    مناسب تھی ہماری شاعری اک وقت میں اکبرؔ
    مگر اب وہ زمانے کے موافق ہو نہیں سکتی

     
    غنیمت تھی ادائے خانقہ اس کی نگاہوں میں 
    کمیٹی اور ریزولیوشن پہ عاشق ہو نہیں سکتی

    حکّام ہیں خزانہ وتوپ ورفل کے ساتھ
    خدّام ہیں شگوفۂ ترک وعمل کے ساتھ

     
    بازو میں یاں نہ زور گلے کو نہ شوق شور
    ہم تو مشاعرے میں ہیں اپنی غزل کے ساتھ

    اگر آپ اکبرؔ کے خطوط کا مطالعہ کریں تو اکبرؔ کی شخصیت کا ایک اور پہلو سامنے آتا ہے۔ زندگی انہیں بھی عزیز ہے، مگر اس طرح نہیں جس طرح غالبؔ کو عزیز ہے۔ یہ خط ان کی شاعری کے مقابلے میں پھیکے ہیں۔ ان میں بیماری، حالات کی ناساز گاری، چل چلاؤکا ذکر زیادہ ہے۔ غالبؔ نے بھی اپنی بیماریوں کا تذکرہ کیا ہے مگر وہ رنج وراحت کو ہموار کرنا جانتے ہیں۔ ان کے پھوڑے پھنسی بھی’’سر و چراغاں’’ ہیں۔ اکبرؔ کی بیماریوں کا تذکرہ ہمیں مکدر کردیتا ہے۔ اکبرؔ کے یہاں وہ گہری سنجیدگی وہ اعلی نارملٹی نہیں ہے جو غالبؔ کے یہاں ہے۔ 

    وہ کسی نشے کے سہارے ہی چل سکتے ہیں۔ رندی کانہ سہی، تصوف کاسہی۔ وہ مادیت اور روحانیت، علم وعمل، اخلاق وتمدن کے مسائل سے دلچسپی ضروررکھتے ہیں مگر و ہ گہری دلچسپی نہیں جو ایک مستقل خلش بن جاتی ہے، جس سے آتش خانوں کی آگ روشن ہوتی ہے، جوہمیں غالبؔ اور اقبالؔ دونوں کے یہاں ملتی ہے۔ اگر ان کے یہاں یہ بے چینی اور خلش ہوتی تووہ اول درجے کے شاعر ہوتے اور ان کا اسلوب حکیمانہ اور رفیع ہوتا۔ وہ دوسرے درجے پر ہیں اور زندگی کے مسائل سے دلچسپی ایک مزاحیہ پیرایہ اختیار کرلیتی ہے۔ وہ تعمیر نہیں کرسکتے، ہاں طنز کرسکتے ہیں۔ ایک نقاد نے طنز کے ملکہ کو تخلیق کے مقابلے میں کمتر درجہ دیا ہے۔ ممکن ہے اس خیال میں کچھ مبالغہ ہو مگر یہ واقعہ ہے کہ تخلیق ستاروں سے آگے دیکھتی ہے اور طنز ستاروں کو بھی زمیں پر نوچ لاتی ہے۔ بہر حال اس میں کوئی شک نہیں کہ فکر کی کمی کے باوجود ان کے یہاں سچّے اور پرخلوص جذبات کی فراوانی ہے۔ 

    وہ ایک عاشق ہیں اور اپنے عشق میں سب سے منفرد۔ میرؔ عشق سے محبت کرتے ہیں۔ حسرتؔ، حسن سے، غالبؔ، زندگی سے، نظیر اس کی نعمتوں سے، اقبالؔ، توانائی اور تخلیق سے، جوش، شباب سے۔ اکبرؔ ایک تہذیب، ایک تمدن کے عاشق ہیں۔ حالیؔ، شبلیؔ، اقبالؔ، ابوالکلام کسی نے مشرقیت سے اس طرح عشق نہیں کیا جس طرح اکبرآ نے۔ ان کے زمانے میں اس تہذیب پر ہر طرف سے حملے ہوئے اور انہوں نے بڑی بے جگری سے ان حملوں کا مقابلہ کیا۔ آج ہم اس تہذیب کے خط وخال، اس کی عظمت ورفعت اور اس کی کوتاہیاں جس طرح اکبرؔ کے کلام میں دیکھ سکتے ہیں، دوسری جگہ ممکن نہیں۔ اس وجہ سے ان کے سارے نقطۂ نظرکو نہ مانتے ہوئے ہم ان کی تاریخی، تہذیبی اور ادبی اہمیت کو تسلیم کرتے یں۔ اکبرؔ کے کلام میں ہمیں قدیم وجدید کی کشمکش اور اس کے سارے پہلو مل جاتے ہیں اور کچھ نہ کہنے کے انداز میں بہت کچھ آجاتا ہے۔ ان کے یہاں انیسویں صدی کی ذہنی زندگی اور اس کی کشمکش محفوظ ہو گئی ہے۔ 

    اکبرؔ کے یہاں جو لطیف اور رچا ہوا تغزل ہے اس کی بھی ہماری شاعری میں اہمیت ہے۔ یہاں اتنا موقع نہیں کہ اس کی مثالیں پیش کی جائیں لیکن یہ بات کہنی ضرور ہے کہ اس تغزل کی وجہ سے ان کی ظرافت ہمارے لیے بڑی دلکش اور پرکیف ہوجاتی ہے۔ یہ ظرافت جب طنزبن جاتی ہے اور اس میں ایک مقصدی رنگ آجاتا ہے تو اس طنز کو ہم رجعت پرست کہنے پر مجبور ہیں، لیکن ظرافت کا سرمایہ ان کے یہاں کیفیت وکمیت کے لحاظ سے اتنا وقیع ہے کہ اس کی اہمیت پھر بھی باقی رہتی ہے۔ یہاں طنز وظرافت اور مزاح کے فرق کو واضح کرنا ضروری ہے۔ 

    آسکر وائلڈ لکھتا ہے کہ اگر کسی سے سچی بات کہلوانا ہوتو اسے ایک نقاب دے دو۔ ظرافت ایسی ہی ایک نقاب ہے۔ فرائیڈ نے ظرافت کی تعریف کرتے ہوئے اسے SENSE IN NONSENSE کہا ہے۔ یعنی بے تکی باتوں میں تک کی بات۔ 

    اس خیال کے مطابق عام طور پر دلی جذبات کا اظہار آسان نہیں ہوتا۔ ظرافت کے ذریعے سے انسان کی فطرت ان جذبات کے اظہار کا ذریعہ تلاش کرلیتی ہے۔ وہ ہنسی ہنسی میں تنقیدکرتی ہے۔ عقلیت سے گریزکرکے اور بالغ ذہنیت کے بجائے طفلانہ ذہنیت کو بروئے کار لاکر وہ الجھانے اور سلجھانے کا ایک نیا کھیل کھیلتی ہے۔ ظرافت Wit کے ذریعے سے الفاظ کو الٹ پلٹ کرتی ہے۔ مقولوں اور محاوروں سے نئے کام لیتی ہے۔ وقتی عنصر کو صرف میں لاتی ہے۔ جانے پہچانے واقعات میں نیا حسن دریافت کرتی ہے۔ جنسی دباؤ کی نکاسی کاراستہ تلاش کرتی ہے، ذہنی ظرافت میں غلط منطق سے کام لیا جاتا ہے۔ اداروں اور رسم ورواج پر تنقید ہوتی ہے۔ اسی طرح عقلیت اورتنقیدی شعور اور نفسیاتی دباؤ تینوں سے انتقام لیا جاتاہے۔ یہ انتقام صحت مندانہ ہے۔ 

    معمولی ظرافت الفاظ سے پیدا کی جاتی ہے۔ اعلیٰ ظرافت کے لیے خیال کی ندرت ضروری ہے۔ بات کہنے کے تین طریقے ممکن ہیں۔ ایک بات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنا۔ دوسرے اسے ہلکا کرکے دکھانا۔ یہ دونوں طریقے مشہور مزاح نگاروں نے استعمال کئے ہیں۔ بعض بڑے مزاح نگاروں نے تیسرا یعنی صاف بات کہنے کا طریقہ بھی بتایا ہے۔ برناڈشا کہتا ہے کہ سچی بات سب سے زیادہ ظریفانہ ہوتی ہے۔ یہاں بھی غور سے دیکھئے تو پہلا طریقہ ملتاہے۔ رومان اور شاعری میں بھی مبالغہ کام کرتا ہے۔ مگر ظرافت کا مبالغہ اس کی مخالف سمت کاہے۔ سوئفٹ نے گولیور کے سفر Gulliver,s Travels میں ایک دفعہ انسان کو بونوں کے ملک میں دکھایا۔ دوسرے سفرمیں دیوزادوں کے ملک میں اس نے صرف آئینے بدل دیے اور تصویر مضحکہ خیز ہو گئی۔ 

    تمدن کے آغاز میں ظرافت مبالغے کے سہارے چلتی ہے۔ سوداؔ کی ہجویں اس کی مثال ہیں۔ اس دور میں جسمانی کمزوریوں، شخصی خامیوں کا ذکر زیادہ ہے۔ ہنگامے، مارپیٹ، بھاگ دوڑ، شدید جذباتیت روحانیت سے بھی مزاح ییدا کیا جاسکتا ہے۔ نظیرؔ اور عظیم بیگ چغتائی کے یہاں یہ رنگ نمایاں ہے۔ مگر اس کی اپیل زیادہ تر وقتی ہے۔ غور سے دیکھئے تو ہنسنے میں ہم کسی سے برتری کا احساس ظاہر کرتے ہیں۔ ہم کچھ اونچے ہوجاتے ہیں، وہ کچھ نیچا نظر آتاہے۔ ظرافت ایک ایسا کیمرہ ہے جس میں ہر تصویر چھوٹی یا کج اور کچھ پھیلی ہوئی نظر آتی ہے اور نفسیات کے عجیب وغریب قاعدوں کے ماتحت جذبات کی اس نکاسی کے بعد ہم نارمل یا صحت مند ہوجاتے ہیں۔ 

    رشید احمد صدیقی نے ایک جگہ کہا ہے کہ ’’طنز وظرافت کی مثال سفلی عمل کی سی ہے۔ اگر عمل پورا نہ ہوتو عامل خود ہی اس کا شکار ہوجاتا ہے۔’’ اس طرح بعض اوقات لوگوں کے ہنسنے پر رونا آتا ہے اور ان کے رونے پرہنسی۔ ظریف عام خیال کو الٹ کر، کسی جزو پر زیادہ زور دے کر، کسی تشبیہ کے ذریعے ایک پہلو کو نمایاں کرکے ، بات میں بات پیدا کرکے ذہن کے سامنے ایک ایسی انوکھی اوررنگین تصویر لاتا ہے کہ طبیعت شگفتہ ہوجاتی ہے۔ 

    قاعدہ ہے کہ جب تہذیب وتمدن پھیلتے ہیں تو ان کا عمل ایک طرح کی ہمواری اور ایک رنگی کا ہوتا ہے۔ افراد کو یہ ایک سماج بناتا ہے۔ اشخاص کو مجمع کے صفات عطا کرتا ہے۔ جو شخصیتیں کسی کمزوری یا اپج کی وجہ سے خیالات یا عمل کی یہ یکسانی اور وحدت قبول نہیں کرتیں ظرافت ان پر وار کرکے انہیں مجمع میں واپس لانا یا انہیں مجمع سے نکال دینا چاہتی ہے۔ تہذیب یا کلچر کے نمائندے چند افراد ہوتے ہیں۔ کلچر کو تمدن یا Civilisation بننے میں دیر لگتی ہے۔ اسی لیے مہذب افراد تو ہر دور میں عام لوگوں پر ہنستے ہیں مگر تمدن میں ظرافت کا عنصر اسی وقت آتا ہے جب وہ ایک ٹھہراؤ کی حالت میں ہوتا ہے۔ 

    لکھنؤ کی درباری تہذیب نے ایک ظرافت بھی پیدا کی مگر اس میں اعلیٰ ظرافت کم تھی۔ سستی ہنسی، الفاظ کی طلسم بندی، زبان کی بازی گری زیادہ۔ ظرافت کی اعلی حس جسے Sense Of Humoure کہتے ہیں، تہذیب کی پختگی کی علامت ہے۔ اردو میں غالبؔ سے ہمارے یہاں یہ رنگ ملتا ہے۔ اکبرؔ کا کمال یہ ہے کہ ان کے یہاں ظرافت کے سبھی رنگ ملتے ہیں۔ طنز وظرافت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اچھی ظرافت میں ایک پوشیدہ طنز ضرور ہوتی ہے۔ طنز کے لیے ظرافت ضروری نہیں۔ رشید احمد صدیقی کی ظرافت میں طنز کی لہریں ہیں۔ مولانا عبدالماجد اورسجاد انصاری کی طنز میں ظرافت ہر جگہ نہیں ملتی۔ اعلیٰ طنز میں ظرافت اور ادبی حسن دونوں ضروری ہیں۔ خالص ظرافت نشیب وفراز کا احساس دلاکر ایک مسرت یا انبساط پیدا کرتی ہے۔ طنز میں مسرت اور خوشی ملی جلی ہوتی ہے۔ اسلوب کی طرح طنز وظرافت کا حسن بھی یہی ہے کہ اس کے غازہ ورنگ پر نظر نہ پڑے۔ 

    کرجائے کام اپنا لیکن نظر نہ آئے 

    ظرافت کی اعلیٰ قسم کی سب سے اچھی مثال اس مجرم نے پیش کی جو پھانسی کے تختے پر جاتے وقت زکام سے بچنے کے لیے گلے میں مفلر ڈالے ہوئے تھا یا اس امریکن نے جو ایک افعی کے متعلق کہہ رہاتھا کہ یہ ا ٓپ کو ذرا بھی فائدہ نہیں پہنچائے گا۔ غالبؔ کے یہ اشعار بھی اعلیٰ ظرافت کی مثالیں ہیں، 

    کہاں مے خانہ کا دروازہ غالبؔ اورکہاں واعظ
    پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے 

    قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں 
    رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن

    میں نے کہا کہ بزم ناز چاہیے غیر سے تہی
    سن کے ستم ظریف نے مجھ کو اٹھادیا کہ یوں 

    اکبرؔ کی ظرافت کے سب سے اچھے نمونے وہ ہیں جہاں وہ نشیب وفراز پر نظر ڈالتے ہیں اور رومانیت، جوش، جذبے، اندھی تقلید، غلامانہ ذہنیت، بدمذاقی پر مزے کی چوٹیں کرتے ہیں۔ جہاں ان کا مقصد صحت واصلاح ہے، وہاں وہ نشتر سے علاج کرتے ہیں۔ جب وہ اس سے آگے بڑھ کر تاریخی حقائق، واقعات کے بہاؤ، زندگی کے تقاضوں پر طنز کرنے لگتے ہیں تو ان کی طنز پر لطف رہتی ہے مگر وقتی ہوجاتی ہے۔ ان کا کیف وانبساط، خیال کی گہرائی نہ ہونے کی وجہ سے کچھ عرصے کے بعد زائل ہونے لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکبر کا آخری دور شاعری اگرچہ مولانا عبدالماجد کے الفاظ میں اسرار و رموز کی وجہ سے ان کی پختگی کو ظاہر کرتا ہے، مگر شاعری کے نقطہ نظر سے اس میں انحطاط ملتا ہے۔ شاعر واعظ کا جامہ پہن لیتا ہے۔ ایک دلچسپ رفیق کے پیچھے سے ایک ناصح مشفق برآمد ہوتا ہے۔ جو زندگی اور اس کی بہاروں سے مایوس ہو چکا ہے۔ اور جس کے یہاں مزاج خانقاہی اتنا بڑھ جاتا ہے کہ محفل اسے آگے چھوڑ کر بڑھ جاتی ہے۔ پہلے ظریف اکبر کے وہ اشعار دیکھئے جن کا لطف ہر دور میں باقی ہے، 

    خدا حافظ مسلمانوں کا اکبرؔ
    مجھے تو ان کی خوش حالی سے ہے یاس

    یہ عاشق شاہد مقصود کے ہیں 
    نہ جائیں گے ولیکن سعی کے پاس

    کہا مجنوں سے یہ لیلیٰ کی ماں نے 
    کہ بیٹا تو اگرکرلے ایم اے پاس

    توفوراً بیاہ دوں لیلیٰ کو تجھ سے 
    بلا دقت میں بن جاؤں تری ساس

    کہا مجنوں نے یہ اچھی سنائی
    کجا عاشق، کجا کالج کی بکواس

    بڑی بی آپ کو کیا ہوگیا ہے؟ 
    ہرن پر لادی جاتی ہے کہیں گھاس

    دل اپنا خون کرنے کو ہوں موجود
    نہیں منظور مغز سرکا آماس

    یہی ٹھہری جو شرطِ وصلِ لیلیٰ
    تواستعفا مرابا حسرت ویاس

    ملکی ترقیوں میں دوالے نکا لیے 
    پلٹن نہیں تو خیر رسالے نکالیے 

    بو ٹ ڈاسن نے بنایا میں نے اک مضموں لکھا
    ملک میں مضمون نہ پھیلا اور جوتا چل گیا

    یوسف کو نہ سمجھے کہ حسیں بھی ہے جواں بھی
    شاید نرے لیڈر تھے زلیخا کے میاں بھی

    خوب فرمایا یہ شاہِ جرمنی نے پوپ سے 
    وعظ ہم بھی کہتے ہیں لیکن دہان توپ سے 

    پری کی زلف میں الجھا نہ ریش واعظ میں 
    دلِ غریب ہوا لقمہ امتحانوں کا

    شیطانوں نے دیا یہ شیخ جی کو نوٹس
    بالکل ہی گیا ہے زور اب آپ کا ٹوٹ

    آئندہ پڑھیں گے آپ لاحول اگر
    فوراً داغوں کا ایک ڈفیمیشن سوٹ

    خلافِ شرع کبھی شیخ تھوکتا بھی نہیں 
    مگر اندھیرے اجالے وہ چوکتا بھی نہیں 

    رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں 
    کہ اکبرؔ نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں 

    دعوا بہت بڑا ہے ریاضی میں آپ کو
    طولِ شبِ فراق ذرا ناپ دیجئے 

    اجل آئی اکبرؔ گیا وقتِ بحث
    اب اِف کیجئے اور نہ بٹ کیجئے 

    ہم تو کالج کی طرف جاتے ہیں اے مولویو
    کس کو سونپیں تمہیں اللہ نگہبان رہے 

    ظاہر ہوئی کمیٹی وکالج کی اک لکیر
    آخر اسی لکیر کے سب ہوگئے فقیر

    کتنے ہی بے وقار ہوں مرزا کو غم نہیں 
    کافی ہے یہ شرف کہ وفاتی سے کم نہیں 

    مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں 
    فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں 

    اس سے بیگم نے کہا کل، تو کہاں اور ہم کہاں 
    بوٹ کی چرچر میں کیا رکھا ہے یہ چم چم کہاں 

    مس یہ بولی بڑھ کے نکلو تو ذرا اسکول سے 
    اور ہی چالیں نظر آئیں گی یہ عالم کہاں 

    باپ ماں سے شیخ سے اللہ سے کیا ان کو کام
    ڈاکٹر جنوا گئے تعلیم دی سرکار نے 

    کمیٹی میں چندے دیا کیجئے 
    ترقی کے ہجّے کیا کیجئے 

    تاکید عبادت پہ یہ اب کہتے ہیں لڑکے 
     پیری میں بھی اکبرؔ کی ظرافت نہیں جاتی

    وصل ہو یا فراق ہو اکبرؔ
    جاگنا ساری رات مشکل ہے 

    رفیق سرٹیفکٹ دیں تو عشق ہو تسلیم
    یہی ہے عشق تو اب ترکِ عاشقی اولیٰ

    تھے معزز شحص لیکن ان کی لائف کیا لکھوں 
    گفتنی درج گزٹ، باقی جو ہے ناگفتنی

    مرزا غریب چپ ہیں ان کی کتاب ردّی
    بدھوا کڑرہے ہیں صاحب نے یہ کہا ہے 

    کیا پوچھتے ہو اکبرؔ شوریدہ سرکا حال
    خفیہ پولیس سے پوچھ رہاہے کمر کا حال

    قوم کے غم میں ڈنر کھاتے ہیں حکّام کے ساتھ
    رنج لیڈر کو بہت ہے مگر آرام کے ساتھ

    کی تھی پاپوش زنی جب ہوئی نالش دائر
    کہہ دیا صلح کرو، لیتا ہوں جوتا واپس

    واپسی گو تھی زبانی ہوئی نالش ڈسمس
    ہوگیا کورٹ سے وہ شوخ اچھوتا واپس

    کمزور ہے میری صحت بھی، کمزور بیماری بھی
    اچھا جو رہا کچھ کر نہ سکا بیمار پڑا تو مرنہ سکا

    ظاہر کاادب ملحوظ رہا باطن بھی مگر محفوظ رہا
    واعظ سے ادھر اک بات سنی ساقی سے ادھر اک جام لیا

    خدا کے باب میں کیا آپ مجھ سے بحث کرتے ہیں 
    خدا وہ ہے کہ جس کے حکم سے صاحب بھی مرتے ہیں 

    اکبرؔ کی ظرافت یہاں دوباتوں کی وجہ سے پرلطف ہے۔ اول تو وہ انتہا پسندی، شدت اور تقلید پر طنز کرتے ہیں جو ہر دور میں لطف رکھتی ہے۔ دوسرے وہ اپنے دور میں مغرب کی نقالی اور اس کی وجہ سے نئی نسل کی اپنے ماضی سے یکسر بیگانگی کا پردہ فاش کرتے ہیں۔ تیسرے وہ اپنے دور کی تہذیبی زندگی کے نقش ونگار پیش کرتے اوران سے ظرافت کا سامان اخذ کرتے ہیں۔ اکبرؔ کے زمانے میں دراصل جاگیر دارانہ تمدن کو رفتہ رفتہ نئے سرمایہ دارانہ تمدن کے مقابلے میں شکست ہورہی تھی۔ سرمایہ داری، لازمی طور پر زندگی کے ہر شعبے میں ترقی نہیں ہے۔ یہ شروع میں افراد کو آزادی عطا کرتی ہے۔ وہ خاندان کے رسم ورواج اور اس کے شکنجے سے نکل کر تازگی محسوس کرتے ہیں۔ مگر یہ انہیں مطلب پرست بنادیتی ہے۔ یہ ان کے اخلاق کو بگاڑتی ہے انہیں خود غرضی سکھاتی ہے۔ ان کو مشین کا غلام بناتی ہے، ان کی ابتدائی آزادی کو رفتہ رفتہ اپنی تجارت کے تقاضوں پر قربان کردیتی ہے۔ شعر و ادب، تہذیب واخلاق، انسانیت اور علم کے اعلیٰ معیاروں کو اپنے مقاصد کی بھینٹ چڑھا دیتی ہے۔ مارکس نے ایک جگہ اس بورژوا تہذیب کی غارت گری کا بڑے اچھے انداز سے ذکر کیاہے۔ 

    اس لیے اکبرؔ جب نئی نسل کی غلامانہ ذہنیت، مغربی سیاست کی شعبدہ گری، سامراجی چالوں، بازاری اور سرکاری تعلیم، محبت، اخلاق، قومی تاریخ سے بیگانگی کا ذکر کرتے ہیں تو ایک صالح اور رفیع تہذیبی مقصد کی موجودگی کی وجہ سے ان کی ظرافت پر لطف اور اس کی شگفتگی سدا بہار ہے۔ مشکل یہ ہے کہ اکبرؔ اس پر اکتفا نہیں کرتے۔ ان کے یہاں صرف روایت کا احساس ہی نہیں ہے۔ رسم پرستی بھی ہے۔ وہ نل کے پانی، ترقی، تعلیم، ٹائپ کے حروف، عورتوں کی تعلیم، سیاسی جدوجہد، سائنس، عقلیت، فطرت پر تسخیر کا بھی مذاق اڑاتے ہیں۔ 

    نئی تہذیب اپنے ساتھ جو برکتیں لائی، اکبرؔ نے ان پر نظر نہیں ڈالی۔ سرسید کی تحریک کے ذریعے جو تعلیمی تہذیبی، علمی وادبی قدریں ہمیں ملیں، اکبرؔ ان سے خوش نہیں۔ اقبال کے تصوف پر اعتراضات سے بھی وہ خفا ہیں، حالانکہ اقبال درویشی اور سادگی کے دلدادہ تھے، روحانیت کے قائل تھے۔ وہ صرف عجمیت اور گوسفندی اور مزاج خانقاہی کے خلاف تھے جو قوموں کو حرکت، عمل اور جدوجہد سے دور لے جاتا ہے اور خواب فنا میں غرق کردیتا ہے۔ اکبرؔ نے خاص طور پر معاشرت، تعلیم نسواں اور عورت پر طنز کی ہے۔ اس سلسلے میں ایک واقعہ بیان کرنا ضروری ہے۔ چند سال ہوئے میں نے ایک فلم دیکھا جس کا نام ’’فیشن‘‘ تھا۔ اس میں مغربی تعلیم کا مذاق اڑایا گیاتھا۔ گویا فلم اکبرؔ کے خیالات کا آئینہ تھا۔ ایک جگہ ایک شریف گھریلو قسم کی خاتون نے بے پردگی کی برائی کرتے ہوئے اکبر کا یہ مشہور قطعہ پڑھا، 

    بے پردہ کل جو چند نظر آئیں بی بیاں 
    اکبرؔ زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا

    پوچھا جو میں نے آپ کاپردہ وہ کیا ہوا
    کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا

    مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ پورے ہال میں چوتھے مصرع پر شاید دویا تین اشخاص نے تالیاں بجائی ہوں، ورنہ زیادہ تر اشخاص خاموش رہے۔ یہاں اکبرؔ کی طنز خود اکبرؔ پر لوٹ گئی ہے۔ وقت کی طنز شاعر کی طنز سے بڑی ہوتی ہے۔ چنانچہ اکبرؔ جب پردے کو تمکنت، اقبال، میاں پن غیرت وحمیت کی علامت بتاتے ہیں تو ان کی مشرقیت میں جاگیر دارانہ، رئیسانہ او رامیرانہ تمدن کی خو، بو، صاف دکھائی دیتی ہے، جو مردوں اور عورتوں کے لیے علاحدہ علاحدہ نظام تعلیم اور اخلاق مقرر کرتی ہے اور آبادی کے نصف حصے کو گھر کی چار دیواری میں ساز دلبری کا اسیر رکھتی ہے۔ اپنی ایک نظم میں نادانستہ انہوں نے یہ بات بھی کہہ دی ہے، 

    خود تو گٹ پٹ کے لیے جان دیے دیتے ہو
    ہم پہ تاکید ہے پڑھ بیٹھ کے قرآن مجید

    دولہ بھائی کی ہے یہ رائے نہایت عمدہ
    ساتھ تعلیم کے تفریح کی حاجت ہے شدید

    اکبرؔ عورت کے جنسی پہلو سے بہت کم نکلتے ہیں۔ عورت کا وہ تصور جو مثلاً گوئٹے کے فاؤسٹ میں ملتا ہے اور جو ہر انوثیت کو انسانیت کی تکمیل کے لیے ضروری سمجھتا ہے، اکبرؔ کے یہاں نہیں۔ وہ ماں ہے یا بیوی یا بیٹی یا پھر طوائف، مگر صرف عورت کم ہے جو ادب اور آرٹ کی تخلیق کا سرچشمہ اور حسن کاری اور لالہ کاری کا منبع ہے۔ حالیؔ تو ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں تک پہنچے۔ اقبال اورجوش کے یہاں بھی مشرقی تصور زیادہ ہے۔ قرۃالعین، فلورنس نائٹ اینگل، اینی بسنیٹ اور مسز نائیڈو کی اہمیت کو اب جا کر سمجھا گیا ہے۔ اکبرؔ کا تصور جو ان کے جاگیر دارانہ ذہن کا غماز ہے، یورپ میں سرسید کے خاکوں میں اور مغربی عیش وعشرت کی پرکیف داستانوں میں خوب جھلکتا ہے۔ مغربی اور مشرقی عورت، مس، بت، بیگم کا ذکر انہوں نے بڑے مزے لے لے کر کیا ہے۔ انداز بیان کی شوخی اور برجستگی نے ان اشعار میں لطف ضرور پیدا کردیاہے۔ 

    ہر چند کہ ہے مس کالونڈر بھی بہت خوب
    بیگم کا مگر عطر حنا اور ہی کچھ ہے 

    سایے کی بھی سن سن ہوس انگیز ہے لیکن
    اس شوخ کے گھنگرو کی صدا اور ہی کچھ ہے 

    بتوں کے پہلے بندے تھے مِسوں کے اب ہوئے خادم
    ہمیں ہر عہد میں مشکل رہا ہے با خدا ہونا

    ان کی برق کلیسا میں جہاں مرکزی خیال بڑی خوبی سے بیان ہوا ہے وہاں مغربی حسینہ کے سراپا میں اکبرؔ نے بڑی رنگین اور شوخ زبان استعمال کی ہے۔ عورت کانام آتا ہے تو اکبرؔ پھسل جاتے ہیں۔ یہ ان کی جوانی کی حسن پرستی اور رنگینی کا عطیہ ہے۔ 

    اکبرؔ سائنس، عقلیت، فلسفہ، تجربات، فطرت کی تسخیر، انسانی سعی وعمل کی وسعتوں کے قائل نہیں ہیں۔ یہیں آکر ان کی ظرافت بجائے پر لطف ہونے کے خطرناک ہوجاتی ہے۔ اور یہ خطرہ اس وجہ سے اور بھی بڑھ جاتا ہے کہ انہوں نے اردو شاعری کی ساری رمزیت سے اس سلسلے میں خوب کام لیاہے۔ اور زبان پر پوری قدرت کی وجہ سے بڑی اچھی تشبیہوں کے ذریعے سے اپنے خیال کو واضح کیا ہے۔ چنانچہ زیورکی کثرت بعض اوقات حسن کا معیار ہوجاتی ہے۔ میں نے جان بوجھ کر اکبرؔ کی ظرافت کے بیان میں ان کے موضوعات اورافکار کا زیادہ تذکرہ کیا ہے۔ ان کے فن، اس کے آداب اور اس کی خصوصیات کو بیان نہیں کیا، کیونکہ عام طور پر نقادوں نے اسی چیز کو سراہا ہے۔ حالانکہ میرا خیال یہ ہے کہ کوئی فن یا فارم یوں ہی وجود میں نہیں آتا، اس کے پیچھے ایک فکر اور نظر ضرور ہوتی ہے۔ اکبرؔ کے یہاں لفظی ظرافت کا حسن زیادہ ہے۔ گو بعض اوقات ان کا خیال بھی پرلطف ہوتا ہے وہ خود اپنے قوافی کی اپنے حلقے سے داد چاہتے ہیں۔ انہیں احساس ہے کہ 

    اکبرکا قلم صنعتِ لفظی میں ہے کامل

    وہ اگرچہ شاعر ہیں مگر اس کے ساتھ مزاح نگار بھی ہیں۔ شاعری جذبے کی زبان ہے، نثر خیال کی۔ ظرافت میں خیال مضحکہ خیز ہوتا ہے۔ اس لیے ظریف شاعر کو شاعری کے جذبے کے ساتھ خیال کی وضاحت بھی کرنی پرتی ہے۔ ظریفانہ اشعار میں اگر خیال واضح نہیں ہے تو طنز کاوار بےکار جاتاہے۔ اکبرؔ کے فن کی خوبی کی دلیل یہ ہے کہ ان کے یہاں خیال ہیرے کی طرح ترشا ہواہے جسے جوہری نے ایک مناسب جگہ جڑ دیاہے۔ اکبرؔ نے بات کہنے کا انداز اپنے مخالف سرسید سے سیکھا اور صرف بات کہنے کا انداز ہی نہیں اور بھی بہت کچھ۔ اکبرؔ نے اپنی شاعری میں انگریزی کے بہت سے الفاظ استعمال کئے، بعض اصطلاحات بھی وضع کیں، بعض ناموں کو علامات ٹھہرایا۔ بعض ایسے لفظ برتے جو بول چال میں آتے تھے مگر شاعری میں ٹکسال باہر تھے۔ 

    اکبرؔ نے مغربی تہذیب کی بڑی سختی سے مخالفت کی مگر اپنی شاعری میں اس سے خوب کام لیا۔ یہ فنکار کی واعظ پرفتح کو ظاہر کرتا ہے۔ اکبرؔ کی ظرافت کا حسن ان کی مرصع کاری، ان کی موزوں تشبیہات، ان کے قوافی، انگریزی الفاظ کے برمحل استعمال، ان کی علامات، اساتذہ کے اشعار میں بامزہ تصرف اور ان کے نکھرے اور ستھرے اسلوب کا مرہون منت ہے۔ مگر اس سے زیادہ اس تازہ کار و تازہ خیال شعور کا جو عام زندگی کے سیلاب میں اپنے کام کے موتی دیکھ لیتا ہے، جو ہلکے اور گہرے ہر قسم کے رنگوں سے تصویریں بنا سکتا ہے، جسے عبارت، اشارت اور ادا تینوں کا راز معلوم ہے۔ 

    ان کے ذہن میں کہیں الجھن نہیں ہے۔ اشعار ان کے منہ سے اس طرح نکلتے ہیں جیسے باجے سے راگ، شعر کہناان کی طبیعت ثانیہ ہوگیا ہے۔ اکبرؔ کے زمانے میں ادب کو اتنی اہمیت حاصل ہو چکی تھی کہ مصنف اور شاعر ایک سماجی رتبہ رکھتا تھا۔ اکبرؔ کی ان کے زمانے نے کافی قدر کی۔ انہیں کے الفاظ میں ان کاخون جگر مال تجارت بھی بنا۔ میں اس اجمال کی وضاحت کرتا مگر شاعر کا یہ قول آڑے آتا ہے، 

    تفصیل نہ پوچھ ہیں اشارے کافی
    یوں ہی یہ کہانیاں کہی جاتی ہیں 

    میں نے اوپر کہا تھا کہ اکبرؔ جب سائنس، عقلیت اور علم وفن کا مذاق اڑاتے ہیں تو ان کا کلام رجعت پرستی کے ہاتھ میں ایک آلہ ہوجاتا ہے۔ اسی طرح وہ سیاسی اور تعلیمی جدوجہد کو بھی بےکار سمجھتے ہیں اور صرف توکل اور قناعت کا پرچار کرکے ایک مجہول اور مریض روحانیت کے علم بردار بن جاتے ہیں، 

    نہ کتابوں سے نہ کالج کے ہے درسے پیدا
    دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا

    وہ حافظؔ جو مناسب تھا ایشیا کے لیے 
    خزانہ بن گیا یورپ کی داستانوں کا

    فلسفی تجربہ کرتا تھا ہوامیں رخصت
    مجھ سے کہنے لگا وہ آپ کدھر جاتے ہیں 

    کہہ دیا میں نے ہوا تجربہ مجھ کو تو یہی
    تجربہ ہو نہیں چکتا ہے کہ مرجاتے ہیں 

    تڑپوگے جتنا جال کے اندر
    جال گھسے کا کھال کے اندر
    کیا ہوا تین ہی سال کے اندر
     غور کر اس حال کے اندر

    طفل کالج کو سمجھ لیجئے اک پن نائف
    بس قلم ہی کے لیے اس میں بہت تیزی ہے 

    بھول جائیں گی ترقی خواہیاں لاحول تک
    ہم کو یہ تہذیب بیچے گی برازو بول تک

    یہ پولٹیکل مرض یہ ہنگامہ ہے بے سود
    اس سے کوئی چیز اپنی جگہ سے نہ ہلے گی

    کیوں کر کہوں کہ کچھ بھی نہیں فیر کے سوا
    سب کچھ علوم غرب میں ہے خیر کے سوا

    کالج واسکول و یونیورسٹی
    قوم بے چاری اسی میں مرمٹی

    تہذیب قدیم کے جب ارکان تھے چست
    ملکی حالات سبرہے صاف ودرست

    تعلیم جدید نے کیا فتنہ بپا
    اے بادِ صبا ایں ہمہ آوردہ تست

    یہی نہیں کہ اکبرؔ کی صلح پسند اور سکون آشنا طبیعت کو ہر قسم کے ہنگامے بے سود نظر آتے ہیں۔ وہ مشرق کے اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی کوشش کومضر اور نئی تہذیبی غذا سے کچھ زندگی اور قوت اخذ کرنے کو موت سمجھتے ہیں۔ کلیات اکبرؔ حصہ چہارم میں یہ شعر دیکھئے، 

    ہو تیزی انور کی جو ہوس، ہنگامہ کرو توپوں سے 
    گاندھی کی جو حکمت خوش آئے چپ چاپ گزی کے تھان بنو
    صاحب کی رفاقت ہو جو پسند، آسام میں جاکر چائے چنو
    اکبرؔ کی جو مانو بیٹھ رہو، جو کچھ بھی ہو لیکن صبر کرو

    یہی وجہ ہے کہ اکبرؔ کے یہاں تصوف، مشرقیت اور جذباتیت ان کے آخری دور کو ایک المیہ ۱، بنادیتی ہے۔ انہیں اپنے مشن کی ناکامی کا احساس ہو جاتا ہے اور وہ دنیا کی محفل سے منہ موڑ کر کنج عافیت تلاش کرتے ہیں، 

    موزوں نہ انجمن میں میدان کے نہ لائق
    اس وقت مجھ کو گھرکا کونہ ہی چاہیے تھا

    شعر اکبرؔ کو سمجھ لو یادگارِ انقلاب
    یہ اسے معلوم ہے ٹلتی نہیں آئی ہوئی

    ایک بار نظر آیا خزاں کاجو تصرف
    پھر ہم نے کبھی سوئے گلستاں نہیں دیکھا

    ہمیں اس انقلاب دہر کا کیا غم ہے اے اکبرؔ
    بہت نزدیک ہیں وہ دن نہ ہم ہوگے نہ تم ہو گے 

    غریب اکبر نے بحث پردے کی کی بہت کچھ مگر ہوا کیا
    نقاب الٹ دی یہ اس نے کہہ کر کہ کرہی لے گا مراموا کیا

    نہ اکبرؔ کی ظرافت سے رکے یاران خود آرا
    نہ حالیؔ کی منا جاتوں کی پروا کی زمانے نے 

    میری اس ساری گفتگوکا خلاصہ یہ ہے کہ اکبرؔ کی ظرافت کا لطف اب بھی باقی ہے۔ خصوصاً جہاں وہ مزاحیہ انداز میں نئی نسل کی انتہا پسندی اور مغرب کی کورانہ تقلیدکا ذکر کرتے ہیں۔ جب وہ گہرائی میں جاتے ہیں اور افکار واقدار سے بحث کرتے ہیں تو ان کی نظر کی کوتاہی واضح ہوجاتی ہے، اور ان کے پیام کا محدود رنگ ظاہر ہو جاتا ہے۔ اعلیٰ پیامی شاعر کے لیے جس مفکرانہ سنجیدگی کی ضرورت ہے وہ اکبرؔ کے یہاں نہیں ملتی۔ ان کی نظر ماضی کی طرف ہے۔ حال میں بھی انہیں پرانی قدریں عزیز ہیں۔ حالانکہ دنیا کے بڑے مزاحیہ ادب پر نظرڈالنے سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ان میں ماضی پر طنز ملتی ہے اور قدیم روایات کا خاکہ اڑایا گیا ہے، اس لحاظ سے سرشار تک اکبرؔ سے آگے ہیں۔ 

    مگر اکبرؔ کی ظرافت کا ایک تحفہ ہمارے لیے بڑا قابل قدر ہے۔ یہ ہے انیسویں صدی کے آخر اور جنگ عظیم کے بعد تک تقریباًپچاس برس کی تہذیبی زندگی کا ایک نقشہ۔ یہ وہ دور ہے جب پہلی دفعہ نئے اور پرانے زمانے کی کشمکش ایک واضح رنگ اختیار کرتی ہے۔ اکبرؔ کے اشعار میں ہمیں اس کا ایک ایک نقش نظر آتا ہے۔ اکبرؔ اس معنی میں اپنے دور کی پوری ترجمانی کرتے ہیں کہ ان کے کلام میں اس زندگی کا ہر پہلو محفوظ ہو گیا ہے۔ نظام اخلاق، معاشرت، مذہبی اور سیاسی اقدار کے متعلق چند باتیں میں کہہ چکا ہوں، زبان کے متعلق چند باتیں خاص طور پر کہنا چاہتا ہوں۔ 

    ہندوستان میں قومیت کی تحریک نے احیا پسندی کو فروغ دیا۔ مغربی سیاست نے اس کے ساتھ ہندو مسلم اختلاف کو بڑھایا اور اپنے مقصد کے لیے استعمال کیا۔ اکبرؔ مغرب دشمنی کے ساتھ انگریز کے بھی دشمن رہے، وہ مغرب کی اس چال کو سمجھتے تھے۔ چنانچہ زبان وادب کے مسائل، اردو اور ہندی اور شاعری کے اسالیب پر جتنا اکبرؔ نے لکھا ہے، کسی اور نے نہیں لکھا۔ ہندی کے متعلق اکبر کے خیالات ہر جگہ صحیح نہیں۔ ان میں کہیں کہیں تنگ نظری بھی ہے۔ مگر ہندی کی تحریک نے قدیم تہذیب کی جو علمبرداری آج اپنے ذمہ لے لی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اکبر کے اندیشے کچھ ایسے بے جا نہ تھے، 

    اردو میں جو سب شریک ہونے کے نہیں 
    اس ملک کے کام ٹھیک ہونے کے نہیں 

    ممکن نہیں شیخ امراء القیس بنیں 
    پنڈت جی والمیک ہونے کے نہیں 

    بس کہ تھا نامۂ اعمال مرا ہندی میں 
    کوئی پڑھ ہی نہ سکا مل گئی فی الفور نجات

    محو تھا عشق بتاں میں خبر اکبرؔ کو نہ تھی
    ناگری کو بھی کرے گی یہی ناگن پیدا

    بام اردو توڑ کر ہندی کی چھت پر آ گئی
    ساز اُپچ کو چھوڑ کر اپنی ہی گت پر آ گئی

    اردو کو وہ عربی کیوں نہ کریں ہندی کو وہ بھاشا کیوں نہ کریں 
    بحثوں کے لیے اخباروں میں مضمون تراشا کیوں نہ کریں 

    ان کی ایک مسلسل غزل کے یہ اشعاربھی دیکھئے۔ 

    ہماری اصطلاحوں سے زباں ناآشنا ہوگی
    لغاتِ مغربی بازار کی بھاکھا میں ضم ہوں گے 

    نہ پیدا ہوگی خط نسخ سے شان ادب آگیں 
    نہ نستعلیق حرف اس طرح سے زیب رقم ہوں گے 

    اس سلسلے میں موجودہ سیاست کے متعلق ان کے یہ اشعار بھی کچھ کہتے ہیں۔ دیکھئے شاعر نے اپنے درد دل کو کس طرح ایک عام سچائی عطا کردی ہے، 

    ہوں میں پروانہ مگر، شمع تو ہو رات تو ہو
    جان دینے کو ہوں موجود کوئی بات تو ہو

    دل بھی حاضر سرتسلیم بھی خم کو موجود
    کوئی مرکز ہو کوئی قبلہ حاجات تو ہو

    دل کشابادۂ صافی کا کسے ذوق نہیں 
    باطن افروز کوئی میرِ خرابات تو ہو

    گفتنی ہے دل پر درد کا قصہ لیکن
    کس سے کہئے کوئی مستفسر حالات تو ہو

    داستان غم دل کون کہے، کون سُنے 
    بزم میں موقعِ اظہار خیالات تو ہو

    برنارڈ شا نے کہا ہے کہ اسے ادب میں شخصیت سے زیادہ تصور حیات سے دلچسپی ہے۔ یہ نقطۂ نظر صحیح ہے۔ اکبرؔ کی شخصیت بڑی دل کش ہے، وہ سوائے آخر دور کے ایک اچھے اور دلچسپ رفیق ہیں۔ ان کے دلچسپ فقرے اور لطیف جملے، پھڑکتے ہوئے اشعار اور پرمعنی اشارے ہمارے ادب کا ایک قیمتی سرمایہ ہیں۔ ادب میں شخصیت سب کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی بہت کچھ ہے۔ وہ آج غالب کے بعد سب سے بڑے مزاح نگار ہیں۔ انہوں نے خود کہا ہے کہ اگر وہ مدخولۂ گورنمنٹ نہ ہوتے تو گاندھی کی گوپیوں میں پائے جاتے۔ یہ صحیح ہویا نہ ہو مگر یہ واقعہ ہے کہ سرکاری نوکری، فکر و نظرکے راستے بند کردیتی ہے۔ وہ جہاں صاف دل کی بات نہیں کہہ سکتے تو شاہد معنی کو ظرافت کا لحاف اڑھا دیتے ہیں۔ وہ اپنی تہذیب کے سچے عاشق تھے اور عاشق سے آپ اتفاق کریں یا نہ کریں، اس کا احترام تو تہذیب کا تقاضا ہوتا ہی ہے۔ 

    موجودہ نسل اکبرؔ کی ادبی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے، ان کے یہاں انبساط ذہنی کی جو چاندنی ہے اس کے حسن کو مانتے ہوئے، ان کی تمدنی اور تہذیبی مصوری کی قائل ہوتے ہوئے بھی ان کے نقطۂ نظر اور ان کے پیام کو مان نہیں سکتی۔ انہیں کے ایک لطیف اور بلیغ شعر میں اس کا جواز موجود ہے، 

    وہی نگاہ جو رکھتی ہے مست رندوں کو
    غضب یہ ہے کہ بڑی محتسب بھی ہوتی ہے 


    نوٹ
    (۱) اس المیہ کی وضاحت کے لیے میرا ایک مضمون۔ ’’اکبر کا المیہ‘‘ مطبوعہ نگار، دسمبر ۱۹۴۹ء دیکھئے۔

    مأخذ:

    تنقید کیا ہے (Pg. 34)

    • مصنف: آل احمد سرور
      • ناشر: ڈائرکٹر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2011

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے