Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

علی سردار جعفری کی یاد میں

سلام بن رزاق

علی سردار جعفری کی یاد میں

سلام بن رزاق

MORE BYسلام بن رزاق

    فیض سے تیرے ہے اے شمع شبستان بہار

    دل پرواز چراغاں پر بلبل گلنار

    اردو کی ادبی تحریکوں میں ترقی پسند تحریک سب سے زیادہ توانا اور دور رس نتائج کی حامل رہی ہے۔ اس کے اثرات پورے بر صغیر کے ادب بلکہ تیسری دنیا کے ادب میں بھی تلاش کیے جاسکتے ہیں۔

    اردو کی نابغہ روزگار شخصیت علی سردار جعفری ترقی پسند تحریک کے بنیاد گزاروں میں تھے۔ وہ آخری دم تک اس تحریک سے وابستہ رہے۔ انہوں نے اپنے قلم سے جبر و استحصال، نا انصافی اور تشدد کے خلاف جہاد کیا ہے۔ ایک دانشور کی حیثیت سے انہوں نے ایک بہتر سماج کا خواب دیکھا اور ایک شاعر کی حیثیت سے عمر بھر اس خواب کی عکس بندی کرتے رہے۔

    بعض شخصیتیں اپنے کارہائے نمایاں کے سبب اس قدر مقبول ہوتی ہیں کہ وہ اکثر عوام کے درمیان موضوع بحث بن جاتی ہیں اور اپنی زندگی میں ہی ایک لی جنڈ کی حیثیت اختیار کر لیتی ہیں۔ جعفری صاحب کی شخصیت بھی ایسی ہی تھی۔ ان کی شاعری ان کی کوئی کتاب، ان کی گفتگو، ان کی تقریریں، ان کے مضامین، ان کی فلمیں، یہاں تک کہ ان کی زبان سے نکلا ہوا معمولی سے معمولی فقرہ بھی فوراً موضوع بحث بن جاتا تھا۔ یہ ان کی غیر معمولی مقبولیت کا ثبوت ہے۔ جعفری صاحب میرے لیے بھی شروع سے ایک ہیرو اور آئیڈیل کی حیثیت رکھتے تھے۔ میں جب ہائی اسکول میں پڑھتا تھا ان کی نظم زندگی کا ترانہ۔

    یہ آب و خاک وباد کا جہاں بہت حسین ہے

    اگر کوئی بہشت ہے تو بس یہی زمین ہے

    نصاب میں شامل تھی۔ طلبا اس نظم کو بڑے جوش و خروش سے پڑھتے تھے۔ انہیں دنوں جعفری صاحب کی مشہور نظم، ایک خواب اور، ہماری زبان میں شائع ہوئی تھی۔ غالباً یہ ۱۹۵۸ء کا زمانہ تھا۔ مجھے یاد ہے اس نظم پر مفتی حریر ہاپوڑی صاحب اور وارث کرمانی صاحب نے دست بریدہ میں گلاب‘، تشنگی آبلہ، ’شعلہ بکف موج سراب‘ جیسی تراکیب پر کچھ اعتراضات اٹھائے تھے۔ اپنے آئیڈیل شاعر پر یہ اعتراضات مجھے ناگوار معلوم ہوئے۔ میں نے جذبۂ عقیدت سے مغلوب ہوکر جعفری صاحب کی حمایت میں ہماری زبان کو ایک مراسلہ داغ دیا۔ آل احمد سرور صاحب ہماری زبان کے مدیر تھے۔ اس وقت میں کیا اور میرا مراسلہ کیا مگر خلاف توقع وہ مراسلہ ہماری زبان میں شائع ہو گیا۔ مجھے اس قدر خوشی ہوئی کہ کئی دن تک اس کا سرور قائم رہا۔ اور میں ہفتوں ہماری زبان کا وہ شمارہ بغل میں دبائے گھومتا رہا۔ جعفری صاحب کو تو شاید وہ بات یاد بھی نہیں۔ مگر وہ مراسلہ میری فائل میں آج بھی محفوظ ہے۔

    میں ملازمت کے سلسلے میں ۱۹۶۳ میں ممبئی آگیا تھا۔ غالباً۶۵۔ ۶۴ میں پہلی بار جعفری صاحب کو یوپیا کے ایک جلسے میں تقریر کرتے ہوئے دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ ان کی شخصیت کا کچھ ایسا رعب طاری ہوا کہ بمبئی میں رہتے ہوئے بھی ایک عرصہ تک ان سے ملنے کی جرأت نہیں ہوئی۔ جلسوں اور مشاعروں میں انھیں دور دور سے دیکھتا، سنتا اور دل ہی دل میں غالب کا یہ مصرعہ دہراتا رہتا تھا۔

    لرزتا ہے مرا دل زحمت مہر درخشاں پر

    ان سے بالمشافہ ملاقات بہت بعد میں ہوئی

    میرے افسانوں کا پہلا مجموعہ، ننگی دوپہر کا سپاہی، شائع ہو چکا تھا، اس مجموعہ پر سب سے پہلے ڈاکٹر قمر رئیس نے خط لکھا تھا اور مجموعہ کی خوب پذیرائی کی تھی۔ الہ آباد کے ایک سیمینار میں ان سے ملاقات ہو چکی تھی۔ اسی دوران ان کا بمبئی آنا ہوا۔ مہاتماگاندھی میموریل ہال میں کوئی جلسہ تھا۔ جلسے کے اختتام پر میں ان سے ملا۔ بہت خوش ہوئے قریب ہی جعفری صاحب کھڑے کسی سے محو گفتگو تھے۔ قمر صاحب نے جعفری صاحب سے تعارف کرا دیا۔ میں نے آگے بڑھ کر مصافحہ کیا جعفری صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔

    ’’بھئی یہ بمبئی ہی میں رہتے ہیں لیکن کبھی ملے نہیں۔‘‘

    میں کیا بولتا۔ ایک محجوب مسکراہٹ کے ساتھ خاموش ہوگیا۔

    اس کے بعد بمبئی کے ادبی جلسوں اور نشستوں میں ان سے جب بھی ملاقات ہوتی میں آگے بڑھ کر سلام کرتا، مسکرا کر خیریت ضرور پوچھ لیتے۔

    جعفری صاحب اکثر تقریر کرتے ہوئے اپنے لمبے بالوں کو اپنی فرخندہ پیشانی سے اس ادا سے سرکاتے تھے کہ ایک تصویر سی کھینچ جاتی تھی۔ نوجوانوں کو ان کا یہ اسٹائل بہت پسند تھا۔ اس زمانے میں دو اشخاص کے بال بہت مشہور تھے۔ عوام میں دلیپ کمار کے اور ادبی حلقے میں جعفری صاحب کے، ہمارے ایک شناسانے جنہیں شاعری سے تھوڑا شغف تھا، جعفری صاحب کی تقلید میں انھیں کی طرح لمبے لمبے بال رکھ لیے۔ ہم اسے اکثر رسول حمزہ کی نظم کا ایک ٹکڑا سنا کر چھیڑا کرتے تھے کہ ’’تم نے لیوٹالسٹائی کی طرح ٹوپ تو خرید لیا ہے مگر اس جیسا سر کہاں سے لاؤگے۔‘‘

    جعفری صاحب سے قربت سب چاہتے تھے مگر ان کی شخصیت میں کچھ ایسا رعب کچھ ایسا رکھ رکھاؤ تھا کہ ان سے قریب ہونے کی جرأت کم ہی لوگ کر پاتے تھے۔ لیکن جب کوئی ان سے ایک بار مل لیتا تھا ان کی سحر انگیز شخصیت کا جادو، ان کا دلنواز طرز گفتگو اور ان کے بصیرت افروز خیالات سے ایسا متاثر ہوتا کہ عمر بھر پھر انھیں کا دم بھرتا رہتا۔

    بعض کا خیال ہے کہ جعفری صاحب کی شخصیت میں نرگیسیت کا عنصر شامل تھا۔ نیز یہ کہ انہوں نے کبھی کسی کو پرموٹ نہیں کیا۔ خاطر نشان رہے کہ ادب میں کوئی کسی کو پرموٹ نہیں کرتا۔ یہاں پرموشن انہیں کو ملتا ہے جو اپنی ٹھوکروں سے راہ کے روڑے ہٹاتے ہیں اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہیں۔ ویسے میرا ذاتی تجربہ یہ کہتا ہے کہ جعفری صاحب اپنے سے چھوٹوں سے بھی نہایت شفقت سے ملتے تھے۔ گھر جاؤ تو ہزار مصروفیت کے باوجود بیٹھ کر پوری دل جمعی کے ساتھ گفتگو کرتے تھے۔ رخصتی پر کبھی دروازے تک تو کبھی لفٹ تک پہنچانے آتے تھے۔ مجھے یاد ہے ایک بار مہاراشٹر کالج میں کوئی ادبی نشست تھی۔ جعفری صاحب اور ظ انصاری صاحب بھی مدعو تھے۔ کسی نے نشست کی صدارت کے لیے جعفری صاحب کا نام پیش کیا۔ جعفری صاحب نے انکار کرتے ہوئے کہا۔ ’’بھئی آخر ہم لوگ کب تک صدارت کرتے رہیں گے۔ نئے لوگوں کو بھی آگے آنا چاہیے۔‘‘

    پھر میری طرف دیکھ کر بولے۔

    ’’میں اس نشست کی صدارت کے لیے سلام بن رزاق کا نام پیش کرتا ہوں۔‘‘

    ظ۔ صاحب نے تائید کی اور خاکسار کو صدر بنا دیا گیا۔ وہ نشست میری زندگی کی یادگار نشست تھی۔

    ایک بار میں نے بمبئی میونسپل کارپوریشن کے اساتذہ کے جلسے میں انھیں مدعو کیا۔ انھوں نے فون پر ہی دعوت قبول کرلی۔ تشریف لائے اور تعلیمی مسائل پر ایسا پر مغز لیکچر دیا کہ کارپوریشن کے اساتذہ آج بھی بڑے جوش و خروش سے اس لکچر کا ذکر کرتے ہیں۔ مجھے ان کی ایک اور تقریر یاد ہے۔

    ایک مرتبہ ممبئی یونی ورسٹی میں شعبۂ اردو کی جانب سے اردو غزل پر توسیعی خطبے کے لیے ممتاز نقاد پروفیسر گوپی چند نارنگ کو مدعو کیا گیا تھا۔

    صدارت جعفری صاحب کی تھی۔ نارنگ صاحب نے اردو غزل پر تقریباً ایک گھنٹے کا ایسا دقیقہ رس اور فکر انگیز لیکچر دیا کہ محفل نارنگ صاحب کی معجز بیانی کی قائل ہوگئی، توسیعی خطبے کے بعد جعفری صاحب کی صدارتی تقریر تھی۔ نارنگ صاحب کے اس جامع اور وقیع خطبے کے بعد اس موضوع پر خیال آرائی کرنا آسان نہیں تھا مگر جب جعفری صاحب کے لب اعجاز وا ہوئے اور انہوں نے اپنے مخصوص دلپذیر انداز میں بولنا شروع کیا تو ایسا لگا جیسے گنجینۂ معنی کا طلسم کھل گیا ہو۔ اس روز نارنگ صاحب کے خطبے نے سامعین کو سرشار کردیا تو جعفری صاحب کی تقریر نے اس سرشاری کو کیف و انبساط میں بدل دیا۔

    ایسی ہی ایک محفل میں جعفری صاحب نے کسی موضوع پر تقریر کرتے ہوئے لفظ آتشِ کو بالکسر استعمال کیا محفل میں رشید حسن خان صاحب بھی موجود تھے۔ تقریر کے بعد چائے کے وقفہ میں رشید حسن خان صاحب نے جعفری صاحب سے کہا آتشِ فارسی لفظ ہے جس میں ’ت بالفتح پڑھا جاتا ہے۔

    جعفری صاحب نے مسکرا کر کہا۔

    ’’آپ صحیح فرما رہے ہیں اگر میں اس لفظ کو فارسی میں ادا کروں گا تو آتَش ہی کہوں گا مگر اردو میں اس لفظ کو بالکسر اپنا لیا گیا ہے لہذا ہم اردو میں اسے آتشِ ہی کہیں گے۔

    خان صاحب گردن ہلا کر خاموش ہوگئے۔ بزرگوں کی محفلوں میں نو آموزوں کے لیے ایسی بہت سی باتیں سیکھنے کی ہوتی ہیں۔

    مجھے اردو اکیڈمی میں دو سال تک ان کی ہم نشینی کا بھی شرف حاصل رہا ہے۔ ان دو سالوں میں انہیں قریب سے دیکھنے اور ان کے خیالات سے استفادہ کرنے کا موقع بھی ملا۔

    یہ روایت رہی ہے کہ ہر بڑے ادیب اور شاعر پر بعض کج فہم اور کم سواد لوگوں نے بے بنیاد قسم کی نکتہ چینیاں بھی کی ہیں۔ غالباً اس کا ایک بڑا سبب تو یہ ہوسکتا ہے کہ ہر بڑا ادیب یا شاعر اپنے قارئین کا آئیڈیل یا ہیرو ہوتا ہے بعض لوگ اسے تقریباً مافوق البشر ہستی سمجھنے لگتے ہیں لہذا اس کی معمولی خامی کو بھی خواہ مخواہ محدب شیشے سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں جب کہ فنکار بھی انسان ہوتے ہیں ان میں بھی چھوٹی موٹی خامیاں ہوسکتی ہیں ہمیں عظیم انسانوں کے عظیم کارناموں پر نظر رکھنی چاہیے۔ تنقید کرنے کے لیے پہلے ہمیں خود اپنا قد بلند کرنا چاہیے۔ ورنہ للّی پت کے بونوں کی طرح خواہ مخواہ کی نشتر زنی سے کچھ حاصل نہیں ہوتا اس لیے بہت پہلے کہا گیا ہے کہ خطائے بزرگاں گرفتن خطا است۔

    جعفری صاحب کی نظمیں، غزلیں، مضامین اور تقریریں ہمیں امید، رجائت اور روشن مستقبل کا پیغام دیتی ہیں۔ جعفری صاحب کے ادبی کارناموں کا جائزہ لینے کے لیے دفتر درکار ہے۔ وہ نہ صرف ایک بلند پایہ شاعر تھے ایک صاحب طرز نثر نگار بھی تھے ہمارے نقادوں نے ان پر لکھتے ہوئے صریحاً بخل سے کام لیا ہے۔ اس کا شکوہ جعفری صاحب کو بھی تھا۔

    ان کی شاعری پر بہت کم لکھا گیا ہے۔ اس سے بھی کم ان کی نثر پر لکھا گیا ہے جب کہ ان کی نثر نے ادب میں ایسے چراغ روشن کیے ہیں۔ جن کی روشنی میں آنے والی نسلیں ایک طویل مسافت طے کر سکتی ہیں۔ پیغمبران سخن، ترقی پسند ادب، اقباأ شناسی، لکھنؤ کی پانچ راتیں، ان میں سے ہر کتاب کو عصری اردو ادب میں کلاسیکیت کا درجہ حاصل ہے۔ بالخصوص لکھنو کی پانچ راتیں، اردو یاد نگاری میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ جعفری صاحب نے معمولی باتوں کو بھی اپنی نثر کے جادو سے غیر معمولی بنا دیا۔ مثال کے طور پر پہلی رات میں مجاز کے گیت کا ’بول اری او دھرتی بول‘ راج سنگھاسن ڈانوں ڈول، کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس مضمون سے پہلے بھی ہم سب نے وہ نظم پڑھی ہوگی مگر جعفری صاحب نے جس انداز سے اس کا ذکر کیا اس کے پس منظر میں وہ نظم اردو کے ہر قاری کے ذہن پر ایک انمٹ نقش چھوڑ جاتی ہے۔ جعفری صاحب نے شروع میں چند افسانے بھی لکھے ہیں۔ ان کا پہلا افسانہ شمع تغافل کے نام سے ۱۹۳۶ میں علی گڑھ میگزین میں چھپا تھا۔ ’منزل‘ کے نام سے افسانوں کا ایک مجموعہ بھی شائع ہوا تھا۔ ان افسانوں پر کرشن چندر کا اثر بہت صاف دکھائی دیتا ہے۔

    البتہ ان کا ایک افسانہ یا افسانہ نما، پورتاژ چہرو مانجھی اپنی خوبصورت نثر اور دل پذیر ماجرے کے سبب ایک شاہکار کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ افسانہ ۱۹۴۶ میں لکھا گیا تھا۔ اس زمانے میں اردو افسانے کے افق پر کرشن چندر، بیدی، منٹو اور عصمت آپا چھائے ہوئے تھے مگر جب ہم ’چہرو مانجھی‘ کو ان بڑے افسانہ نگاروں کی تحریروں کے سیاق میں رکھ کر دیکھتے ہیں تو یہ افسانہ ہر اعتبار سے ایک شاہکار افسانے کے معیار کو چھوتا نظر آتا ہے۔ یہ افسانہ اس عہد کے سماجی، سیاسی اور معاشرتی پس منظر میں آج بھی ایک کارنامہ معلوم ہوتا ہے۔ چہرو مانجھی، ہنوز ایک عمدہ تجزیے کا متقاضی ہے۔

    جعفری صاحب کے خطوط کے چند اقتباسات جو گفتگو کے ترقی پسند ادب نمبر میں شائع ہوئے ہیں۔ عمدہ ترین نثر کا نمونہ ہیں۔ یہ خطوط انہوں نے سلطانہ آپا کو لکھے تھے خطوں کو پڑھتے ہوئے ہمیں اس عہد کی سیاسی اور معاشرتی تبدیلیوں کے ساتھ اس زمانے کی ادبی فضا کا بھی بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔

    جدید فکشن میں رمز و استعارے کو خاصی اہمیت دی گئی ہے۔ جعفری صاحب نے اپنی نثر میں جگہ جگہ استعارات اور علامات کے ایسے موتی بکھرے ہیں کہ بے اختیار داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ یہاں صرف ایک مثال پیش کرنے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔

    ۲۷؍ستمبر ۴۹ کے ایک خط کا اقتباس ملاحظہ فرمائیے۔

    ’’جب سے اخبار میں بمبئی کی طوفانی بارش کی خبر پڑھی تمہارے خط کا انتظار کر رہا تھا۔ ناسک میں بھی خوب بارش ہوئی۔ یہاں کی تتلیاں اور پروانے بڑے خوبصورت ہوتے ہیں۔ ان کے پروں کے رنگ اور نقش و نگار بہت ہی نازک ہیں۔ رات کو بجلی کی روشنی میں دیواروں اور میز پر آکر بیٹھ جاتے ہیں۔ ان کے ریشمی جسم اور پر چاندی اور سونے کی طرح جگ مگ جگ مگ کرتے ہیں۔ میں نے کئی تتلیاں تمہارے لیے پکڑ رکھی ہیں۔ دیکھنا وہ کتنی حسین ہیں۔ ایک تتلی کا مجھے بڑا افسوس ہے۔ میں رات کو بستر پر لیٹا ہوا پڑھ رہا تھا کہ وہ اڑتی ہوئی آئی اور بجلی کے قمقمے کے گرد چکر لگانے لگی۔ اس کا بدن سرخ تھا اور پر کالے جن پر سنہرے نقش تھے۔ وہ اڑتے وقت زیادہ خوبصورت معلوم ہوتی تھی۔ میں نے اسے پکڑ کر ایک سگریٹ کی ڈبیا میں بند کر لیا۔ صبح اسے دیکھنے کے لیے ڈبیا کھولی تو وہ پھر سے اڑ گئی۔ لیکن جیسے ہی کمرے سے باہر نکلی بہت سی چڑیاں اس کی طرف لپکیں وہ چڑیوں کو کئی غوطے دے کر زمین پر بیٹھ گئی۔ اتنے میں ایک کوّا آیا اور اسے چونچ میں دبا کر اڑ گیا۔ میں کئی رات سے انتظار کر رہا ہوں لیکن ویسی تتلی پھر نہیں آئی۔‘‘

    کیا یہ پوری عبارت استعاراتی انداز بیان کی بہترین مثال نہیں پیش کرتی۔ خاطر نشان رہے کہ یہ خط ۴۹ سن میں جیل سے لکھا گیا تھا۔ ہندوستان آزاد ہوکر تقسیم کے عذاب سے گزر چکا تھا۔ بائیں بازو کے دانشوروں نے اس لہولہان آزادی کو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔ فیض صبح آزادی کو شب گزیدہ سحر کا نام دے چکے تھے۔ اس پس منظر میں یہ پوری عبارت اس عہد کی سیاسی صورت حال کا استعارہ بنتی نظر آتی ہے۔

    اس مختصر سے تاثراتی مضمون میں جعفری صاحب کی نثر پر تفصیلی گفتگو کی گنجائش نہیں ہے۔ یہ چند سطریں محض خراج عقیدت کے طور پر پیش کردی گئی ہیں۔ سردار جعفری ایک شخص کا نہیں ایک عہد کا نام تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کی رحلت کے ساتھ اردو زبان و ادب کے ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے