Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

انور خان: کچھ باتیں کچھ یادیں

سلام بن رزاق

انور خان: کچھ باتیں کچھ یادیں

سلام بن رزاق

MORE BYسلام بن رزاق

    کافکا کی ایک چھوٹی سی کہانی ہے۔ ایک بلّی چوہے کا تعاقب کر رہی ہے۔ چوہا بھاگتا رہا، بھاگتا رہا، بھاگتے بھاگتے وہ ایک سرنگ میں داخل ہوگیا۔ سرنگ کی دیواریں تیزی سے تنگ ہوتی گئیں۔ بھاگتے بھاگتے اب وہ سرنگ کے آخری سرے پر آپہنچا۔ جس پر چوہے دان لگا ہوا تھا۔ چوہے نے کہا۔ ’’اب مجھ کو اس میں داخل ہونا پڑے گا۔‘‘

    ’’تم کو صرف اپنا رُخ بدل دینا ہے۔‘‘ بلّی نے کہا اور اسے کھا گئی۔

    ناقدین نے اس کہانی کی گرہ کشائی کچھ اس طرح کی ہے کہ چوہا در اصل انسان ہے۔ بلّی موت ہے جو اس کی پیدائش کے وقت سے ہی اس کے تعاقب میں ہے۔ سرنگ طبعی عمر کا استعارہ ہے۔ جوں ہی سرنگ ختم ہوتی ہے موت اسے آلیتی ہے۔ ظاہر ہے یہ ایک تمثیل ہے جس میں زندگی اور موت کے فلسفے کو تمثلیپیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ ہم سب زندگی کی سرنگ سے گزر رہے ہیں۔ ہماری سرنگیں قدرے لمبی ہیں لہٰذا ہمارا سفر ہنوز جاری ہے۔ انور خان کی زندگی کا سفر ستمبر ۲۰۰۱ کو ختم ہوگیا اور موت کے فرشتے نے ان کی کتاب زندگی پر تمت بالخیر لکھ دیا۔

    انور خان عصری افسانے کا ایک اہم نام تھا۔ ان کی رحلت سے عصری اردو افسانے میں جو خلاء پیدا ہوگیا ہے اسے شاید کبھی پر نہیں کیا جاسکے گا۔

    انور خان کو میں پچھلے چالیس برس سے جانتا تھا۔ میں ۶۸۔ ۶۷ میں نیا نیا ممبئی آیا تھا۔ یہاں میرا کوئی شناسا نہیں تھا۔ انجمن ترقی اردو ہند کے حوالے سے مکتبہ جامعہ پر شاہد بھائی (شاہد علی خان) سے ملاقات ہوئی۔ وہاں پر سنیچر کی شام کو ممبئی کی بیشتر ادبی شخصیتیں اکٹھا ہوتی تھیں یوں تو وہاں گاہے گاہے جناب علی سردار جعفری، اختر الایمان، ساحر لدھیانوی، ظ۔ انصاری اور جاں نثار اختر جیسے نامور ادیب اور شاعر بھی آجاتے تھے۔ مگر جناب باقر مہدی، ندا فاضلی، یوسف ناظم، محمود سروش، فضیل جعفری، مرزا عزیز جاوید، محمودچھاپرا، عنایت اختر زکریا شریف، ابو بکر مرچنٹ، تصدیق سہاروی وغیرہ ہم اس محفل کے مستقل شرکاء تھے۔ ان میں سب سے کم عمر اور اچھے کاٹھ قد کا ایک نوجوان بھی ہوتا تھا۔ مکتبہ جامعہ کے محررّیوسف کھتری نے بتایا کہ یہ نوجوان افسانہ نگار انور خان ہیں۔

    اس وقت تک میری بھی کچھ کہانیاں شاعر، کتاب، شمع، بلٹز وغیرہ میں چھپ چکی تھیں اور لوگ باگ میرے نام سے واقف ہو چکے تھے۔

    پہلی ملاقات میں انور خان نے کسی خاص گرم جوشی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ان کے اس غیر جذباتی رویے سے میں سمجھا شاید انھیں اپنی ادبی حیثیت و اہمیت کا کچھ زیادہ ہی احساس ہے کیوں کہ اس وقت تک وہ مجھ سے زیادہ ادبی رسائل میں چھپ چکے تھے۔ آہنگ (گیا) نے ان پر ایک گوشہ بھی نکال دیا تھا۔ نیز مکتبہ جامعہ کی محفل کے شرکاء بھی انھیں ممبئی کا ایک ابھرتا ہوا نوجوان افسانہ نگار تسلیم کر چکے تھے۔ مگر بعد میں اندازہ ہوا کہ یہ غیر جذباتی روّیہ ان کے مزاج کا ایک حصہّ ہے۔

    اس زمانے میں ہر سنیچر کو مکتبہ جامعہ کی محفل میں شریک ہونا میرے معمولات میں شامل تھا۔ انور خان بھی باقاعدگی سے وہاں آتے تھے۔ وہاں کے شرکاء سے انور خان کی اچھی خاصی بے تکلفی تھی۔ میں نے محسوس کیا کہ ان کا مطالعہ بہت اچھا ہے۔ وہ ادب کے بدلتے رجحانات اور میلانات سے بھی بخوبی واقف ہیں۔ میں اس محفل میں نووارد تھا۔ میرا مطالعہ بھی بس یوں ہی سا تھا۔ اس لیے مکتبہ جامعہ کے ایک گوشے میں بیٹھا خاموشی سے سب کی باتیں سنتا رہتا۔

    وہاں ہونے والی گفتگو اس اعتبار سے بہت اہم ہوا کرتی تھی کہ اس گفتگو میں نہ صرف اردو ادب کی سمت و رفتار کا پتہ چلتا تھا بلکہ جستہ جستہ عالمی ادب کے حوالے سے بھی کچھ باتیں زیر بحث آجایا کرتی تھیں۔

    رفتہ رفتہ مکتبہ جامعہ کے شرکاء سے میری شناسائی بھی بڑھی اور سنیچر کی شام کو مکتبہ سے اٹھنے کے بعد کبھی باقر صاحب کے مجگاؤں والے مکان پر تو کبھی کریم لالہ کے اڈّے پر محفل بادہ و جام کا بھی انعقاد ہونے لگا۔ انور خان کا گھر مکتبہ سے قریب ہی تھا۔ وہ اپنے گھر چلے جاتے تھے۔ وہ شام کی محفلوں میں شریک نہیں ہوتے تھے۔

    ان دنوں انور خان باقر صاحب کے پسندیدہ افسانہ نگار تھے۔ جدیدیت کے عروج کا زمانہ تھا۔ جس افسانے میں علامت، استعارہ تجریدیت یا ابہام کی سلما کاری نہ کی گئی ہو اسے مشکل سے افسانہ تسلیم کیا جاتا تھا۔ انور خان کے اس زمانے کے افسانے ایک حد تک اس کسوٹی پر پورے اترتے تھے لہذٰا فطری بات تھی کہ ان کے افسانے جدید رسائل میں تواتر سے چھپتے تھے اور جدیدیت پسند حلقے میں ان کے افسانوں کو پسندیدہ نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔

    یہ بات بھی مشہور تھی کہ انور خان افسانہ لکھنے کے بعد سب سے پہلے باقر صاحب کو سناتے ہیں۔ وہاں سے تصدیقی سند پانے کے بعد ہی کسی رسالے کو روانہ کرتے ہیں۔

    ان کے دوسرے مجموعہ فنکاری، کی اشاعت کے بعد برہانی کالج میں باقر صاحب کی زیر صدارت ایک شاندار نشست کا اہتمام کیا گیا تھا۔ سب کو توقع تھی کہ باقر صاحب اپنے پسندیدہ افسانہ نگار کے افسانوں کا سیر حاصل جائزہ پیش کریں گے مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ باقر صاحب نے ایک بہت ہی مختصر اور روکھا پھیکا مضمون پڑھا جس سے حاضرین کو خاصی مایوسی ہوئی۔ انور خان بھی اس مضمون سے خوش نظر نہیں آئے۔ اگرچہ انہوں نے کبھی کوئی شکایت نہیں کی مگر رفتہ رفتہ باقر صاحب سے ان کے مراسم میں پہلی سی گرم جوشی باقی نہ رہی۔

    انور خان کے مزاج میں ایک خاص قسم کی بے نیازی تھی جو بعض مواقع پر لا تعلقی کی حدوں کو چھوتی محسوس ہوتی تھی۔ نہ وہ کسی کی بہت زیادہ تعریف کرتے نہ کسی کی حد سے زیادہ برائی کے مرتکب ہوتے۔ تعلقات میں وہ میانہ روی کے قائل تھے۔ ان کے سیکڑوں ملنے والے تھے اور درجنوں دوست تھے۔ وہ دوستوں سے ملنے کے خواہش مند بھی رہتے تھے۔ مگر وہ بہت کم کسی کے گھر آتے اور اس سے بھی بہت کم وہ کسی کو اپنے گھر بلاتے۔ وہ ذاتی مراسم کو بھی حد توازن میں رکھنے کے قائل تھے۔ نہ بہت زیادہ نہ بہت کم۔

    شاہد علی خان کے جنرل مینجر بن کر دلّی چلے جانے کے بعد دھیرے دھیرے مکتبہ جامعہ کی سنیچری محفلوں میں شریک ہونے والے چہرے بدل گئے مگر انور خان وہاں ہر سنیچر کو برابر جاتے تھے۔ ان بار بار کی ملاقاتوں کے بعد انہیں کبھی کبھی دوستوں کی صحبتوں میں بے کیفی کا احساس بھی ہوتا تھا۔ یا ایک ایسا خالی پن جسے بھرنے کے لیے وہ روزانہ دوستوں سے ملنے پر مجبور بھی ہو جاتے تھے۔ اس کیفیت کو انہوں نے اپنے افسانے، شام رنگ، میں بڑی خوبی سے بیان کیا ہے۔

    وہ اپنی خوشی یا خفگی کا اظہار بھی ضبط و تحمل کے دائرے میں کرتے تھے۔ اگر کسی کی کوئی بات ناگوار گزرتی تو برہمی کا اظہار کرنے کی بجائے اسے در گزر کر دیتے تھے۔

    ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔ غالباً ۷۶۔ ۱۹۷۵ کی بات ہوگی۔ ان کا پہلا مجموعہ راستے اور کھڑکیاں، چھپ گیا تھا۔ جسے مکتبہ جامع نے شائع کیا تھا۔

    میں نے اس پر ایک چھوٹا سا تبصرہ لکھا۔ تبصرے میں دو ایک باتیں قدرے تیکھے انداز میں زیر بحث آگئی تھیں۔ میں نے وہ تبصرہ چند دوستوں کو سنایا۔ دوستوں نے پسند کیا مگر ساتھ ہی کسی نے افواہ اڑادی کہ میں نے تبصرے میں انھیں تھرڈ ریڈ، افسانہ نگار قرار دیا ہے۔

    حسب معمول سنیچر کی شام کو جب میں مکتبہ جامعہ پہنچا تو فضیل جعفری صاحب نے خفگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ ’’سلام! تمھیں اپنے ہم عصروں کے تعلق سے اس قسم کا ریمارک نہیں دینا چاہئیے۔‘‘ پہلے تو میں حیران ہوا لیکن جب پوری بات معلوم ہوئی تب میں نے تبصرے کی اصل کاپی ان کے حوالے کرتے ہوئے کہا۔

    ’’آپ تبصرہ دیکھ لیجیے۔ اس میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ پتا نہیں یہ افواہ کس نے اور کیوں اڑائی ہے۔‘‘

    فضیل صاحب نے تبصرہ دیکھا۔ اس میں انھیں کوئی قابل اعتراض بات نظر نہیں آئی اور انھوں نے اسے جوں کا توں اظہار کے پہلے شمارے میں شایع کردیا۔ تبصرے کی اشاعت کے بعد میں، انور خان اور ن۔ الف ناظر ایک دن کیفے الماس میں بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ ن۔ الف ناظر نے تبصرے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا۔ ’’تبصرہ واقعی ذرا سخت ہوگیا ہے۔‘‘

    مگر انور خان کی پیشانی پر بل نہیں تھا۔ انہوں نے اپنے اسی مخصوص غیر جذباتی انداز میں کہا۔ ’’یار انہوں نے جیسا محسوس کیا لکھا۔ اس میں اعتراض کرنے جیسی کوئی بات نہیں ہے۔‘‘

    ان کے اس ریمارک پر مجھے ندامت کے ساتھ افسوس بھی ہوا کہ میں نے اس تبصرے کی تیزابیت کو کم کیوں نہیں کیا۔ ابھی دو سال قبل میں نے ان کے افسانوں پر ایک طویل مضمون لکھا تھا جو ذہن جدید میں شایع ہوا سوچتا ہوں کہیں وہ مضمون اس تبصرے کی تلافی تو نہیں تھا۔

    ایسا نہیں تھا کہ انور خان کسی سے ناراض نہیں ہوتے تھے، مگر وہ ناراضگی کو سینے سے لگا کر نہیں رکھتے تھے بلکہ جتنی جلد ممکن ہو اسے ختم کرنے پر آمادہ رہتے تھے۔ انور قمر ان کے ہائی اسکول کے زمانے کے ساتھی ہیں۔ دونوں میں بے حد قربت بھی تھی۔ مگر ایک وقت ایسا آیا کہ دونوں میں شدید اختلافات پیدا ہوگئے۔ پھر جلد ہی دونوں میں مفاہمت ہوگئی اور پرانی دوستی مزید مستحکم ہوگئی۔ انور خان کی موت سے سال بھر قبل ان کی علالت کے زمانے میں انور قمر ہر ہفتہ پکھواڑے ان سے ملنے ان کے گھر جاتے تھے اور ہر طرح سے ان کی دلجوئی کرتے تھے اور گھر والوں کو حوصلہ دیتے تھے۔ میں جب بھی ان کی خیریت دریافت کرنے ان کے گھر یا ہسپتال گیا ہوں انور قمر کے ساتھ ہی گیا ہوں۔

    ایک بار ساجد رشید سے بھی ان کے شدید اختلافات ہوگئے تھے اردو ٹائمز اور اخبار عالم کے کالموں میں دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف خوب زہر افشانی کی مگر چند احباب نے مل کر مفاہمت کروادی اور دونوں کے تعلقات پھر بحال ہوگئے۔ ان کی بیماری کے ایام میں ساجد رشید بھی ان کے لیے فکر مند رہتے تھے۔

    ممبئی کی ادبی نشستوں میں اور ممبئی سے باہر سیمناروں اور جلسوں میں ہم کئی بار ساتھ ساتھ شریک ہوتے رہے ہیں۔ وہاں بھی ان کی بحث کا انداز انتہائی غیر جذباتی اور معروضانہ ہوتا تھا۔ بحث میں کبھی ان کی آواز معمول سے زیادہ بلند نہیں ہوتی تھی۔ وہ اپنے مخصوص ٹھہرے ہوئے انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کر دیتے تھے، وہ اپنی جانب سے نہ کوئی فتویٰ صادر کرتے، نہ دانستہ ایسے جملے ادا کرتے، جن سے کسی کی دل آزاری ہو۔ وہ ادب میں متوازن اور صحت مندانہ تنقید کے قائل تھے۔ پچھلے برسوں میں لکھے ہوئے ان کے مختصر مضامین اور تبصرے اس کا ثبوت ہیں۔

    میں نے صرف ایک بار اور غالباً پہلی بار انھیں قدرے برہم ہوتے دیکھا تھا۔ قدرے پرانی بات ہے ہم بیٹر کے ایک سیمنار میں شریک تھے سریندر پرکاش نے اپنی صدارتی تقریر میں حسبِ عادت اپنے بعد کے آنے والے افسانہ نگاروں کے تعلق سے کہہ دیا کہ میں نے ان لوگوں کے افسانے پڑھے ہی نہیں ہیں۔ ظاہر ہے یہ ایک ایسا ریمارک تھا جو محض سنسنی پیدا کرنے کے لیے دیا گیا تھا۔ جیسا کہ سریندر جی کی عادت رہی ہے۔ چوں کہ انہوں نے یہ جملہ اپنی صدارتی تقریر میں کہا تھا اس لیے اس کا بر وقت جواب بھی نہیں دیا جاسکتا تھا۔ انور خان جلسے کے بعد سریندر پرکاش سے اس مسئلے پر دیر تک الجھتے رہے اور پہلی بار کڑے الفاظ میں اپنی خفگی کا اظہار بھی کیا۔ انھیں سریندر پرکاش کے اس تضحیک آمیز ریمارک پر سچ مچ تکلیف پہنچی تھی مگر ان کی یہ خفگی بس شام تک تھی۔ دوچار گھنٹوں میں وہ اس خفگی کو بھول کر سب کے ساتھ ہنستے مسکراتے چائے میں شریک ہوگئے تھے۔

    زندگی میں ان کا یہ غیر جذباتی رویہ ان کے افسانوں میں معروضانہ اظہار کا وسیلہ بن گیا تھا۔ انہوں نے مختلف موضوعات پر افسانے لکھے ہیں مگر وہ کہیں جذباتی ہوتے نظر نہیں آتے وہ حقیقت حال کو معروضانہ انداز میں پیش کرتے تھے مگر ذہین قاری کے لیے ان کے افسانوں میں بین السطور کی ہمیشہ گنجائش رہتی ہے۔

    انور خان کو تصوف سے بھی خاصی دلچسپی تھی۔ تصوف ان کے افسانوں کا ایک اہم موضوع رہا ہے۔ عرفان، چھاپ تلک، اجنبی مانوس رہ گزر، بلاوا، کمپیوٹر اس کی عمدہ مثالیں ہیں۔

    خاص طور پر عرفان تصوف کے موضوع پر ان کا ایک بے حد خوبصورت افسانہ ہے۔ افسانے کی گرہ کشائی سے قبل انور خان کی زندگی کے ایک خاص پہلو پر غور کریں تو افسانے کے گوشے خود بخود روشن ہوجاتے ہیں۔

    انور خان کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ وہ شروع ہی سے کسی نہ کسی شخصیت کے زیر اثر رہے ہیں۔ تصوف کا اصول بھی یہی ہے کہ عشق حقیقی کی منزل کو پانے کے لیے عشق مجازی کی راہ سے گزرنا ضروری ہے۔ یعنی حقیقت اولیٰ تک پہنچنے کے لیے کسی نہ کسی وسیلے کی ضرورت ہوتی ہے، اور وہ وسیلہ کسی بھی بھیس میں نظر آسکتا ہے۔ ایسا لگتا ہے انور خان کو بھی ایسی ہی کسی ھستی کی تلاش رہتی تھی جس سے وہ نہ صرف علمی طور پر استفادہ کر سکیں بلکہ اس کی صحبت ان کی روحانی تسکین کا بھی ذریعہ بن سکے۔

    انور خان شروع میں ایک عرصے تک جناب باقر مہدی سے بہت متاثر رہے۔ ان دنوں ہر اتوار کی صبح کو باقر صاحب کی خدمت میں حاضر ہونا ان کے معمولات کا اہم جز ہوتا تھا۔ بقول باقر صاحب دونوں گھنٹوں انگریزی اور اردو ادب پر گفتگو کرتے تھے۔ انور خان بھی اعتراف کرتے تھے کہ باقر صاحب کی صحبت میں انھیں انگریزی اور اردو ادب کے وسیع تر مطالعہ کی ترغیب ملی، پھر نا معلوم وجوہات کی بنا پر باقر صاحب سے ان کی ملاقاتیں کم ہوتی چلی گئیں۔

    باقر صاحب کے بعد مشہور صحافی اور دانشور اقبال مسعود (مرحوم) سے ان کا ربط وضبط بڑھا یہاں بھی وہ ہر ہفتہ بہت باقاعدگی کے ساتھ ان کے گھر جاتے اور مختلف موضوعات پر بالخصوص انگریزی ادب پر ان سے تبادلۂ خیال کرتے تھے، یہ سلسلہ اقبال مسعود صاحب کی زندگی تک بلا ناغہ جاری رہا۔

    اقبال مسعود کے انتقال کے بعد گریش دھمنیا، سے ان کی راہ و رسم بڑھی گریش دھمنیا، گجراتی بھا شی تھے مگر اردو ادب سے انھیں خاص شغف تھا۔ پاکستانی کتب و رسائل بھی ان کے مطالعہ میں رہتے تھے انگریزی ادب پر بھی ان کی اچھی نظر تھی۔ انور خان سنیچر کی شام کو ان کے گھر جاتے تھے اور بقول انور خان وہ لوگ تین چار گھنٹے جم کر ادب پر گفتگو کرتے تھے۔ جب انور خان ناگپاڑہ سے وڈالا منتقل ہوئے تو گریش دھمنیا سے ان کی ملاقاتیں کم ہو گئیں اور سریندر پرکاش سے ان کا میل جول بڑھنے لگا۔ وہ ہر پیرکی شام کو انور قمر کے ساتھ سریندر پرکاش سے ملنے ان کے مکان پر پہنچ جاتے تھے۔ سریندر پرکاش پچھلے کئی برس سے علیل چل رہے تھے اور زیادہ تر گھر ہی میں رہتے تھے انور خان کا سریندر پرکاش سے ملاقاتوں کا یہ سلسلہ اس وقت تک باقاعدہ جاری رہا جب تک خود انور خان شدید علیل ہوکر اپنے گھر میں قید نہیں ہوگئے۔ خاص بات یہ ہے کہ متذکرہ بالا چاروں حضرات سے انور خان کا تعلق زیادہ تر یک طرفہ رہا ہے یعنی ان چاروں سے ملنے انور خان ان کے دولت کدے پر پہنچ جاتے تھے مگر جہاں تک مجھے علم ہے ان چاروں میں سے کبھی کسی نے ان کے گھر آنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ گویا یہ صرف ون وے ٹریفک تھا۔

    ان ملاقاتوں کا ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ میں انور خان کی شخصیت کے اس پہلو کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں جس میں انھیں ہمیشہ ایک فادر فیگر کی تلاش رہی ہے۔ یا تصوف کی اصطلاح میں انھیں ہمیشہ ایک، رہنما، کی ضرورت رہی ہے۔ مجھے نہیں معلوم انھیں اپنی زندگی میں کوئی ایسا شخص ملا بھی یا نہیں جو ان کی رہنمائی کرتا اور انھیں عرفان کا راستہ بتاتا۔ مگر اپنے افسانے عرفان میں انہوں نے اس مسئلے پر فنکارانہ چابکدستی کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔ اس تناظر میں ان کے افسانے عرفان کا مطالعہ یقیناًدلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔

    یہ افسانہ ان کے معروضی طرز نگارش کا بہترین نمونہ ہے۔

    تیس بتیس برس کے عرصے میں انور خان سے میری سیکڑوں ملاقاتیں رہی ہوں گی۔ وہ جب بھی ملتے گھنٹوں ادب اور ادب کی موجودہ صورت حال پر گفتگو کرتے۔ ادب کے علاوہ سیاست، سماجیات، تاریخ، فلسفہ اور تصوف وغیرہ پر بھی ان کی اچھی خاصی نظر تھی۔ انور خان کا مطالعہ ہم دوستوں کے درمیان سب سے زیادہ وسیع تھا۔ انہوں نے اردو ادب بالخصوص اردو فکشن کا بالا ستعیاب مطالعہ کیا تھا۔ ان کے ذہن میں اردو فکشن کا منظر نامہ پریم چند سے لے کر اپنے معاصرین تک آئینہ کی طرح صاف تھا۔

    اسپورٹس سے بھی انھیں خاصی دلچسپی تھی ایک زمانے میں وہ خود باسکٹ بال کے اچھے کھلاڑی رہ چکے تھے۔ وہ اسپورٹس پر بھی گھنٹوں باتیں کر سکتے تھے۔ مگر وہ اپنے ذاتی مسائل پر بہت کم گفتگو کرتے اگر کرتے بھی تو انداز ایسا ہوتا جیسے وہ اپنا نہیں کسی اور کا مسئلہ بیان کر رہے ہوں۔

    موت سے پہلے تقریباً ایک سال سے ڈائلاسیس پر تھے جس پر ہر مہینہ سات آٹھ ہزار روپیہ خرچ ہو رہا تھا۔ وہ اور ان کی اہلیہ دونوں ملازمت سے سبکدوش ہوچکے تھے۔ ایسی صورت میں ایک ریٹائرڈ ملازم پیشہ شخص کے کرب و احساس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ظاہر ہے وہ بھی اس اذیت ناک اور مہنگے علاج سے بہت پریشان تھے۔ موت سے دو تین ماہ قبل میں اور انور قمر ان سے ملنے ان کے مکان پر گئے تھے۔ ہم ان کی اہلیہ سے ڈائلاسیس اور اس پر ہونے والے اخراجات پر گفتگو کر رہے تھے اور کسی ایسی امکانی صورت پر غور کر رہے تھے جس سے علاج کی گراں باری قابل برداشت ہوجائے۔ تب انور خان نے ایک درد ناک ہنسی ہنستے ہوئے کہا تھا۔

    ’’میں تو گھر والوں سے کہہ رہا ہوں ڈائلاسیس بند کردو مگر یہ لوگ مانتے ہی نہیں۔‘‘

    وہ جانتے تھے کہ ڈائلاسیس کا سلسلہ ان کی سانسوں سے جڑا ہوا ہے مگر انہوں نے اس انداز سے اسے بند کر دینے کے لیے کہا گویا اپنی سردی کھانسی کی دوا بند کر دینے کے لیے کہہ رہے ہوں۔ خیر ڈائلاسیس کا یہ کرب ناک سلسلہ ان کی آخری سانسوں تک جاری رہا۔ اس کے لیے ان کی بیگم کے صبر و تحمل کی داد دینی چاہئیے کہ اس ناقابل برداشت اضافی خرچ کو بھی وہ نہایت خندہ پیشانی سے برداشت کرتی رہیں اور کسی مرحلے پر بھی اپنے شوہر کے علاج میں ذرّہ برابر غفلت نہیں برتی۔ زندگی میں اور اپنے افسانوں میں معروضی انداز اختیار کرنے والا یہ منفرد افسانہ نگار اپنی بیماری سے معروضی انداز اختیار نہ کرسکا۔ دو سال سے وہ اپنی بیماری سے جوجھ رہے تھے۔ وہ جس قدر اس سے اپنا دامن چھڑانا چاہتے تھے اتنا ہی وہ ان کے جسم و جاں سے کسی زہریلی بیل کی طرح لپٹتی جا رہی تھی۔ یہاں تک کہ ۴؍ستمبر ۲۰۰۱ کو رات کے پچھلے پہر موت نے انھیں اپنی آغوش میں لے لیا۔ انور خان چلے گئے۔ ان کا مطالعہ، ان کی باتیں، ان کا معروف اسلوب نگارش ان کے ساتھ ہی ختم ہوگیا۔ اب وہ صرف ہماری یادوں میں محفوظ رہیں گے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے