Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

چچا سام کے نام ساتواں خط

سعادت حسن منٹو

چچا سام کے نام ساتواں خط

سعادت حسن منٹو

MORE BYسعادت حسن منٹو

    چچا جان!

    آداب و تسلیمات۔۔۔ معاف کیجئے گا، میں اس وقت عجیب مخمصے میں گرفتار ہوں، میرے پچھلے خط کی رسید مجھے ابھی تک نہیں ملی۔ کیا وجہ ہے؟ یہ میرا چھٹا خط تھا۔ میں نے خود پوسٹ کرایا تھا۔ حیرت ہے، کہاں گم ہو گیا۔

    یہ درست ہے کہ ہمارے یہاں بعض اوقات اگر لاہور سے شیخوپورہ کوئی خط بھیجا جائے تو ڈھائی تین سال کے عرصے میں پہنچتا ہے، اور یہ محض ’’چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسد‘‘ کے طور پر دانستہ کیا جاتا ہے، اس لئے کہ ہم پاکستانی شاعر مزاج لوگ ہیں، لیکن آپ کے ساتھ ایسی دل لگی کا خیال بھی ہمارے ڈاک خانے کے محکمے کو کبھی آ نہیں سکتا۔ ا س لئے کہ وہ سب کا سب آپ کا مفت بھیجا ہوا گندم کھا چکا ہے۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں ساری کارستانی روس کی ہے، اور اس میں بھارت کا بھی ہاتھ ہے۔ پچھلے دنوں لکھنؤ میں آپ کے اس برخوردار بھتیجے پر ایک ’’سمپوزیم‘‘ ہوا تھا۔ اس میں کسی نے کہا کہ میں آپ کے امریکہ کے لئے اپنے پاکستان میں زمین ہموار کر رہا ہوں۔ کتنی ٹچی بات ہے۔ ابھی تک آپ نے بل ڈوزر تو بھیجے نہیں اور یہ ساری دنیا جانتی ہے۔ میں بھارت کے اس عقل کے اندھے سے پوچھتا ہوں کہ میں امریکہ کے لئے پاکستان میں زمین کسی چیز سے ہموار کر رہا ہوں۔۔۔؟ اپنے سر سے۔

    میری باتیں بہت دیر کے بعد آپ کی سمجھ میں آتی ہیں۔ صرف اس لئے کہ آپ ہائیڈروجن بموں کے تجربات میں مصروف ہیں۔ آپ کو دین کا ہوش ہے نہ دنیا کا۔ قبلہ ان بموں کو چھوڑیے۔۔۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ میرا چھٹا خط، کمیونسٹ بالا بالا لے اڑیں۔ میرے بس میں ہوتا تو میں ان شرارت پسندوں کے ایسے کان اینٹھتا کہ بلبلا اٹھتے، مگر مصیبت یہ ہے کہ میں۔۔۔ اب میں آپ کو کیا بتاؤں۔ یہاں کے سارے بڑے بڑے کمیونسٹ میرے دوست ہیں۔ مثال کے طور پر احمد ندیم قاسمی، سبط حسن، عبداللہ ملک (حالانکہ مجھے اس سے نفرت ہے۔ بڑا گھٹیا قسم کا کمیونسٹ ہے۔) فیروز الدین منصور، احمد راہی، حمید اختر، نازش کاشمیری اور پروفیسر صفدر۔

    چچا جان، میں ان لوگوں کے سامنے چوں نہیں کر سکتا، اس لئے کہ میں ان سے آئے دن قرض لیتا رہتا ہوں۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ مقروض قرض خواہ کے سامنے کچھ بول نہیں سکتا۔ آپ نے مجھے قرض تو کبھی نہیں دیا۔ البتہ شروع شروع میں جب میں نے آپ کو پہلا خط لکھا تھا تو اس سے متاثر ہو کر آپ نے خیر سگالی طور پر مجھے مالی امداد بھیجی تھی، یعنی تین سو روپے دیے تھے۔ اور میں نے آپ کے اس جذبے سے متاثر ہو کر دل میں یہ عہد کر لیا تھا کہ عمر بھر آپ کا ساتھ دوں گا، مگر آپ نے میرے اس جذبے کی داد نہ دی اور مالی امداد کا سلسلہ بند کر دیا۔ پیارے چچا جان۔ مجھے بتایئے کہ مجھ سے کون سا گناہ سرزد ہوا ہے کہ آپ مجھے سزا دے رہے ہیں۔ لاہور میں جو آپ کا دفتر ہے، اس کے چپراسی بھی مجھ سے سیدھے منہ بات نہیں کرتے۔ دو تین جونیئر افسر جو میرے پاکستانی بھائی ہیں، ان میں آپ نے ایسے سرخاب کے پر لگا دیے ہیں کہ وہ میرا نام سنتے ہی مجھے گالیاں دینا شروع کر دیتے ہیں۔

    آخر میرا قصور۔۔۔؟ میں نے اگر خلوص نیتی سے تسلیم کیا کہ آپ نے میری مالی امداد کی ہے تو اس میں انہوں نے کیا قباحت دیکھی۔ بھارت کو آپ کروڑوں ڈالر دے چکے ہیں۔ وہ تسلیم کرتا ہے۔ میرے پاکستان کو آپ نے مفت گندم بھیجا۔ یہ غریب بھی تسلیم کرتا ہے۔ کراچی میں ہم لوگوں نے اونٹوں کا جلوس نکالا اور باقاعدہ اشتہار بازی کی کہ آپ نے ہم پر بہت بڑا کرم کیا ہے۔ یہ جدا بات ہے کہ آپ کا بھیجا ہوا گندم ہضم کرنے کے لئے ہمیں اپنے معدے امریکیا نے پڑے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا، آپ بھارت کو اربوں ڈالر قرض دے رہے ہیں، پاکستان کو فوجی امداد دینے کا بھی آپ نے وعدہ کیا ہے، لیکن میرا وظیفہ کیوں نہیں لگا دیتے۔ لوگ کیا کہیں گے کہ پاکستان کے اتنے بڑے افسانہ نگار کو صرف تین سو روپیاں دے کر آپ نے ہاتھ روک لیا۔ یہ میری ہتک ہے اور آپ کی بھی، اگر آپ وظیفہ نہیں دینا چاہتے تو نہ دیں۔ قرض میں کیا مضائقہ ہے۔ از راہ کرم فوراً ایک لاکھ ڈالر مجھے قرض دے ڈالئے تاکہ میں اطمینان کے دو سانس لے سکوں۔

    آغا خان کو تو آپ جانتے ہی ہوں گے کیونکہ وہ بھی بہت بڑا سرمایہ دار ہے۔ اس کی حال ہی میں پلیٹی نم جبلی منائی گئی تھی۔ میرا جی چاہتا ہے کہ میری بھی ایک جبلی ہو جائے۔ آپ میرے، پیارے، پیارے، بہت ہی پیارے چچا ہیں۔ آپ سے چوچلے نہ بگھاروں تو کیا اپنے ملک کے وزیر اعظم محمد علی صاحب سے بگھاروں گا۔۔۔ خدا کے لئے میری ایک جبلی کر ڈالئے تاکہ قبر میں میری روح بے چین نہ رہے۔

    پاکستان۔۔۔ میرا پاکستان اپنے فن کاروں کی قدردانی میں غافل نہیں، لیکن مصیبت یہ ہے کہ مجھ سے جو زیادہ حقدار ہیں ان کی فہرست بہت لمبی ہے۔ پچھلے دنوں میری حکومت نے خان بہادر محمد عبد الرحمن چغتائی کے لئے پانچ سو روپے ماہوار تا حیات کا وظیفہ مقرر کیا۔ خان بہادر صاحب اللہ کے فضل سے صاحب جائیداد ہیں۔ اس لئے وہ مجھ سے کہیں زیادہ مستحق تھے۔ اس کے بعد خان بہادر ابوالاثر حفیظ جالندھری صاحب کے لئے بھی تاحیات اتنا ہی وظیفہ منظور کیا گیا، اس لئے کہ وہ بھی صاحب ثروت ہیں۔ میری باری خدا معلوم کب آئے گی، اس لئے کہ میں الاٹ شدہ مکان میں رہتا ہوں جس کا کرایہ بھی میں ادا نہیں کر سکتا۔

    بہت سے مستحق اصحاب پڑے ہیں۔ مثال کے طور پر میاں بشیر احمد بی اے، آکسن مدیر ماہنامہ ’’ہمایوں‘‘ (سابق سفیر ترکی) سید امتیاز علی تاج، مسٹر اکرام پی سی ایس، فضل احمد کریم فضلی وغیرہ وغیرہ۔ ان کا نمبر پہلے آتا ہے اس لئے کہ ان کو کسی وظیفے کی احتیاج نہیں، لیکن میری حکومت کا دل صاف ہے۔ وہ خدمات دیکھتی ہے، دولت نہیں دیکھتی۔ ویسے میں نے کون سا اتنا بڑا کام کیا ہے جو ان لوگوں کو چھوڑ کر میری حکومت اپنی توجہ میری طرف منعطف کرے اور ایمان کی بات تو یہ ہے کہ میں صرف اس بل بوتے پر کہ میں آپ کا بھتیجا ہوں، آپ سے درخواست کر رہا ہوں کہ میری کوئی جبلی کر ڈالئے۔

    میری زندگی کے دن بہت کم ہیں۔ آپ کو دکھ تو ہو گا، مگر میں کیا کہوں، اس اختصار کا باعث آپ کی ذات شریف ہے، اگر آپ کو میری صحت کا خیال ہوتا تو آپ اور کچھ نہیں تو کم از کم وہاں سے الزبتھ ٹیلر ہی کو میرے پاس بھیج دیتے کہ وہ میری تیمارداری کرتی۔ معلوم نہیں آپ کیوں اتنی غفلت برت رہے ہیں۔ کیا آپ میری موت چاہتے ہیں۔۔۔؟ یا کوئی اور بات ہے جسے آپ نے راز بنا کے رکھ چھوڑا ہے؟

    مگر یہ راز اب راز نہیں رہا کہ میرے ملک پاکستان میں کمیونزم بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ میں آپ سے کیا چھپاؤں۔ بعض اوقات میرا بھی جی چاہتا ہے کہ سرخ پَر لگا کر سرخا بن جاؤں۔۔۔ اب آپ ہی فرمایئے یہ کتنی خطرناک خواہش ہے۔ اسی لئے میرے بزرگوار میں نے آپ کو یہ مشورہ دیا تھا کہ روسیوں کے ثقافتی وفد کے توڑ میں وہاں سے اپنی ’’پن اپ گرلز‘‘ کا ایک خیر سگالی وفد روانہ کر دیجئے۔ ساون کے دن آنے والے ہیں۔ اس موسم میں ہم لوگ بڑے رومانٹک ہو جاتے ہیں۔ میرا خیال ہے اگر آپ کا ارسال کردہ وفد اس موسم میں آئے تو بہت اچھا رہے گا۔ اس کا نام ’برشگالی وفد‘ رکھ دیجئے گا۔

    چچا جان، میں نے ایک بڑی تشویش ناک خبر سنی ہے کہ آپ کے یہاں تجارت اور صنعت بڑے نازک دور سے گزر رہی ہے۔ آپ تو ماشاء اللہ عقل مند ہیں، لیکن ایک بے وقوف کی بات بھی سن لیجئے۔ یہ تجارتی اور صنعتی بحران صرف اس لئے پیدا ہوا ہے کہ آپ نے کوریا کی جنگ بند کر دی ہے۔ یہ بہت بڑی غلطی تھی۔ اب آپ ہی سو چیئے کہ آپ کے ٹینکوں، بم بار ہوائی جہازوں، توپوں اور بندوقوں کی کھپت کہاں ہوگی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عالمی رائے عامہ کی شدید مخالفت کی بنا پر آپ کو یہ جنگ بند کرنا پڑی ہے، لیکن عالمی رائے عامہ آپ کے سامنے کیا حقیقت رکھتی ہے۔ میرا مطلب ہے سارا عالم آپ کے ایک ہائیڈروجن بم کا کیا مقابلہ کر سکتا ہے۔ کوریا کی جنگ آپ نے بند کر دی ہے۔ یہ بہت بڑی غلطی تھی۔ خیر اس کو چھوڑیئے۔ آپ ہندوستان اور پاکستان میں جنگ شروع کرا دیجئے۔ کوریا کی جنگ کے فائدے اس جنگ کے فائدوں کے سامنے ماند نہ پڑ گئے تو میں آپ کا بھتیجا نہیں۔

    قبلہ ذرا سوچیئے یہ جنگ کتنی منعفت بخش تجارت ہوگی۔ آپ کے تمام اسلحہ ساز کارخانے ڈبل شفٹ پر کام کرنے لگیں گے۔ بھارت بھی آپ سے ہتھیار خریدے گا اور پاکستان بھی۔ آپ کی پانچوں گھی میں ہوں گی اور سر کڑاہے میں۔ ویسے آپ ہند چینی میں جنگ جاری رکھئے۔ لوگوں کو تلقین کرتے رہیئے کہ یہ بڑا نیک کام ہے۔ فرانسیسی عوام اور فرانسیسی حکومت جائے جہنم میں، وہ اس جنگ کے خلاف ہے تو ہوا کرے۔ ہمیں کوئی پروا نہیں کرنی چاہیئے۔ آخر ہمارا مقصد تو دنیا میں امن و امان قائم کرنا ہے۔ کیوں چچا جان؟

    مجھے آپ کے مسٹر ڈلز کا یہ کہنا بہت پسند آیا ہے کہ آزاد دنیا کا مقصد کمیونزم کو شکست دینا ہے۔۔۔ یہ ہے ہائیڈروجن بم کی پراز حریت زبان۔ جاہل گو یہ کہتے ہیں کہ مغربی اتحاد کا مقصد دوسری اقوام کے درمیان اختلافات کو طاقت کے بغیر حل کرنا ہونا چاہیئے۔۔۔ میں پوچھتا ہوں طاقت کے بغیر کوئی اختلاف آج تک حل ہوا ہے۔ آج کل تو ساری دنیا اختلافات سے بھری پڑی ہے اور اس کا حل اس کے سوائے اور کیا ہو سکتا ہے کہ دنیا کو مکمل تباہی کی تصویر پیش کر دی جائے اور اس سے کہا جائے کہ تم اپنے گھٹنے ٹیک دو۔ برطانیہ کے مسٹر بیوان کا آپ منہ بند کیوں نہیں کرتے۔ آپ کی بلی آپ ہی کو میاؤں۔ خرذات آپ کے خلاف زہر اگل رہا ہے۔ آپ کے مسٹر ڈلز کے متعلق کہتا ہے کہ وہ جدید ترین خیالات سے بے بہرہ ہیں اور دنیا کو ہائیڈروجن بم سے ڈرا دھمکا کر اپنا الو سیدھا کرتے ہیں۔۔۔ الو کہیں کا۔

    چچا جان مجھے بڑا تاؤ آتا ہے جب برطانیہ کا کوئی مسخرا آپ کے خلاف اول جلول بکتا ہے۔ میری مانئے، جزائر برطانیہ ہی کو صفحہ ہستی سے نیست و نابود کر دیجئے۔ اولوالعزم لوگوں کے لئے یہ ٹاپو ہمیشہ درد سر بنے رہے ہیں، اگر آپ ان کو اڑانا نہیں چاہتے تو وہ بیس میل لمبی کھائی پاٹ دیجئے جو برطانیہ عظمیٰ کو یورپ سے جدا کرتی ہے۔ اللہ بخشے نپولین بونا پارٹ اور ہزہٹلر کو اس سے بڑی چڑ تھی، اگر یہ نہ ہوتی تو آج مسٹر بیوان بھی نہ ہوتے اور بہت ممکن ہے آپ بھی غفراللہ ہو گئے ہوتے۔ جو پریشانیاں اب آپ کو اٹھانا پڑ رہی ہیں ان سے آپ کو یقیناًنجات مل جاتی۔

    میں آپ سے سچ کہتا ہوں آگے چل کر آپ کو یہ برطانیہ بہت تنگ کرے گا۔ میں تو کمبل چھوڑتا ہوں، کمبل ہی مجھے نہیں چھوڑتا والا معاملہ ہو جائے گا۔ پچھلی جنگ میں جرمنی نے اٹلی کو اپنے ساتھ ملایا لیکن غریب مصیبت میں گرفتار ہوگیا۔ لینے کے دینے پڑ گئے۔ آپ اس چکر میں نہ پڑیے گا۔ بس اپنے اسی پرانے اصول پر قائم رہیں۔ ’’کیش اینڈ کیری۔‘‘ رود بار انگلستان کو پر کر کے یورپ سے ملانے کا منصوبہ آپ یہ خط ملتے ہی بنا لیں۔ میرا خیال ہے، آپ کے انجینئر ایک مہینے کے اندر اندر اس کام سے عہدہ برآ ہو جائیں گے۔

    میں نے اصل میں یہ خط آپ کو اس لئے لکھا تھا کہ آپ میری کوئی جبلی منائیں، کیونکہ مجھے اس کا بڑا شوق ہے۔ مجھے لکھتے ہوئے پچیس برس ہونے کو ہیں، چونچلا ہی سہی، لیکن میں آپ سے درخواست کرتا ہوں اور گڑگڑا کر کرتا ہوں کہ اور کچھ نہیں تو میری ایک جبلی منا ڈا لئے۔ چونکہ میرا پیشہ لکھنا ہے۔ اس مناسبت سے اس جبلی کا نام ’’پار کر ففٹی ون جبلی‘‘ اچھا رہے گا۔ لاہور کے اوپن تھیٹر میں مجھے پار کر کے ففٹی ون قلموں میں تلوا دیجئے۔ ترازو میں احسان بن دانش کی ٹال سے لے لوں گا۔ معلوم نہیں ایک قلم کا وزن کتنا ہوتا ہے۔ میرا وزن اس وقت ایک من ڈھائی سیر ہے، لیکن جبلی کے روز تک یہ گھٹ کے ایک من رہ جائے گا، اگر آپ نے دیر کر دی تو مجھے بڑی ناامیدی کا سامنا کرنا پڑے گا، اس لئے کہ میرا وزن گھٹتے گھٹتے صفر رہ جائے گا۔ آپ حساب لگا لیجئے کہ ایک من میں ’’پارکر ففٹی ون‘‘ قلم کتنے چڑھیں گے، لیکن خدارا جلدی کیجئے گا۔

    یہاں سب خیریت ہے۔ مولانا بھاشانی اور مسٹر سہروردی ماشاء اللہ دن بدن تکڑے ہو رہے ہیں۔ آپ سے کچھ ناراض معلوم ہوتے ہیں۔ مولانا کو آپ ایک عدد خالص امریکی تسبیح اور مسٹر سہروردی کو ایک عدد خالص امریکی کیمرہ روانہ کر دیں۔ ان کی ناراضی دور ہو جائے گی۔ ہیرا منڈی کی طوائفیں، شورش کاشمیری کے ذریعے سے مجرا عرض کرتی ہیں۔

    مورخہ ۱۴؍ اپریل ۵۴ء

    آپ کا تابع فرمان

    سعادت حسن منٹو

    ۳۱ لکشمی مینشنز ہال روڈ لاہور

    مأخذ:

    اوپر،نیچے اور درمیان

      • سن اشاعت: (1954)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے