aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دبیر کے مرثیوں میں بیانیہ

شمس الرحمن فاروقی

دبیر کے مرثیوں میں بیانیہ

شمس الرحمن فاروقی

MORE BYشمس الرحمن فاروقی

    اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مرزا دبیر بڑے شاعرنہ تھے۔ اس فیصلے پر پہنچنے کے لیے انیس و دبیر کا تقابلی مطالعہ چنداں ضروری نہیں۔ انیس کے مقابلے میں دبیر ہی کیا، تمام مرثیہ گو پھیکے اور محدود معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن اگر دبیر کا مطالعہ الگ سے بھی کیا جائے اور میر انیس سے موازنہ ملحوظ نہ بھی رکھا جائے تو بھی مرزا دبیر کا کلام طرح طرح کے اسقام سے مملو نظر آتا ہے۔ ان کی علمیت، ان کی تلاش مضمون، ان کے استعاروں اور تشبیہوں میں جدت، یہ سب مسلم، لیکن تناسب اور ربط کے تقریباً مکمل فقدان کے باعث مرزا دبیر کی اکثر خوبیاں بے اثر اور ان کی بلند پر وازیاں زمیں بوس نظر آنے لگتی ہیں۔ میں مثال میں صرف ایک بند پیش کروں گا،

    اے دبدبہ نظم دو عالم کو ہلا دے

    اے طنطنۂ طبع جزوکل کو ملا دے

    اے معجزہ فکر فصاحت کو جلا دے

    اے زمزمہ نطق بلاغت کو صلا دے

    اے باے بیاں معنی تسخیر کو حل کر

    اے سین سخن قاف سے تاقاف عمل کر

    مطلع کا بند ہے، بلند آہنگی قابل داد ہے۔ اسے کسی اچھے پڑھنے والے کی زبان سے سنئے یا تنہاہی پڑھیے تو ایک لمحے کے لیے طبیعت دنگ رہ جاتی ہے۔ لیکن معنی اور الفاظ کے دروبست اور مضمون کے ربط پر غور کیجیے تو مایوسی ہاتھ لگتی ہے۔ مصرع اولیٰ میں ’’نظم‘‘ کی مناسبت سے ’’ہلانا‘‘ خوب ہے۔ لیکن مصرع کا بنیادی لفظ ’’دبدبہ‘‘ کارگر نہیں ہے، بلکہ نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے۔ ’’دبدبہ‘‘ کے معنی ہیں ’’زبردست شور، ڈھول کی آواز، شان و شوکت، رعب داب۔‘‘ اگر پہلے دو معنی لیے جائیں (زبردست شور، ڈھول کی آواز) تو ان کے ذریعہ کلام کی مدح اور اپنی تعلی کے بجائے کلام کی توقیر میں کمی اور اپنی ہجو کا پہلو نکلتا ہے اور اگر شان و شوکت اور رعب داب معنی لیے جائیں تو ’’دوعالم کو ہلا دے‘‘ کا فقرہ بے کار ہوا جاتا ہے۔ کیونکہ شان و شوکت اور رعب داب کا عمل لوگوں کو دنگ یا ساکت کر دینا ہوتا ہے، نہ کہ ان کو ہلا دینا۔

    مثلاً ہم کہتے ہیں کہ فلاں کی شان و شوکت ایسی تھی کہ لوگ دنگ رہ گئے، جو جہاں تھا وہیں رک گیا۔ یا ہم کہتے ہیں کہ فلاں کا رعب ایسا تھا کہ پرندہ پر نہ مارتا تھا۔ لہٰذا ’’دبدبہ نظم‘‘ کا فقرہ اس مصرع کے لیے نامناسب ہے اور دبیر نے اپنے مصرع کی بنیاد اسی پر رکھی ہے۔ پھر مصرع کی خوبی معلوم۔ دوسرے مصرع کو دیکھیے۔ یہاں ’’دبدبہ‘‘ کے مقابل ’’طنطنہ‘‘ لائے ہیں۔ لیکن اول تو یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ جزو کل کو ملانے میں کون سا کمال ہے، مشکل یہ آ پڑتی ہے کہ ’’طنطنہ‘‘ کے جتنے معنی ہیں، ان میں سے کوئی بھی مناسب حال نہیں۔ ’’طنطنہ‘‘ کے معنی ہیں۔ ’’آواز، خاص کر طنبور یا اس طرح کے کسی ساز کی آواز، گونج، شور، گھمنڈ اور غرور، خاص کر ایسا جو مبنی برحقیقت نہ ہو، عجب وغرور سے بھرا ہوا برتائو۔ ظاہر ہے کہ ان میں سے کوئی معنی لفظ ’’طبع‘‘ کے لیے مناسب نہیں۔ یہاں بھی تعلی میں اپنی ہی ہجو کا پہلو نکل رہا ہے۔

    اب تک تو خیر اتنا تناسب باقی تھا کہ ’’دبدبہ‘‘ اور ’’طنطنہ‘‘ ہم وزن اور ہم قافیہ تھے، اور ان کے معنی میں تھوڑی بہت مشابہت بھی تھی۔ تیسرے مصرع تک آتے آتے دبدبہ، نظم اور طنطنہ طبع کی جگہ معجزہ فکر کی بات ہونے لگتی ہے، یعنی ہم ادنا سے اعلا کی طرف چلتے ہیں۔ دبدبہ اور طنطنہ عام انسانی چیزیں ہیں اور معجزہ ربانی شے ہے۔ دبدبہ اور طنطنہ کتنا ہی زور دار ہو، لیکن وہ معجزے کے مقابلے میں کچھ نہیں ہوتا۔ چونکہ شروع کے دو مصرعوں میں دبدبہ اور طنطنہ کا تقابل ہے، لہٰذا تیسرے مصرع میں ’’معجزہ‘‘ کا لفظ یہ تاثر پیدا کرتا ہے کہ متکلم کی نگاہ میں معجزہ بھی دبدبہ اور طنطنہ کی ہی قسم کی چیز ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ بات غلط ہے۔

    دوسری مشکل یہ کہ معجزے سے کام وہ لیا جا رہا ہے جو کوئی معمولی قوت بھی کر سکتی ہے۔ یعنی معجزے سے کہا جا رہا ہے کہ تو فصاحت پر جلا کر۔ لفظ ’’معجزہ‘‘ کا مقتضایہ تھا کہ اس کے بعد کسی اعجاز کی طرح کی کسی شے کا ذکر ہوتا۔ معجزہ طلب کرنا اور پھر اس سے صرف معمولی جلا کرنے کا کام چاہنا مقتضائے بلاغت نہیں اور پھر یہاں بھی تعلی میں اپنی ہجو کا پہلو نکل رہا ہے کہ اگر میری فصاحت کو جلا مل جائے تو گویا یہ معجزہ ہی ہوگا۔ یعنی میری فصاحت اس قدر دھندلی اور مدھم ہے کہ کوئی معجزہ ہی اس کو جلا دے سکتا ہے۔

    چوتھے مصرع میں اپنے نطق کو زمزمہ کہا ہے، لیکن ایسا زمزمہ جس میں بلاغت نہیں۔ لہٰذا اس سے کہا جا رہا ہے کہ بلاغت کو پکار۔ یہاں بھی وہی تاکید الذم بمایشبہ المدح والی کیفیت ہے اور پھر مزید مایوس کن بات یہ ہے کہ پہلے دو مصرعوں میں عالمی سطح کی بات ہو رہی تھی، لیکن تیسرے اور چوتھے مصرعوں میں معاملہ سمٹ کر فصاحت اور بلاغت تک رہ گیا۔ یعنی شروع کیا عالمی بلکہ کائناتی تغیرات اور زلازل سے اور آگئے گھر کی مرغی پر۔ لہٰذا شروع کے چار مصرعے عدم تناسب اور عدم توازن اور عدم ربط کی وجہ سے داغ دار ہیں۔

    بیت کا پہلا مصرع مشکل ہی سے معنی کا متحمل ہو سکتا ہے۔ باے بسم اللہ کی تو ایک معنویت ہے، لیکن باے بیاں میں کون سا اسرار ہے جس کے ذریعہ معنی تسخیر حل ہو سکتے ہوں؟ پھر، ’’معنی حل ہونا‘‘ بمعنی ’’معنی حاصل ہونا یا قبضے میں آ جانا‘‘ اسی وقت درست ہو سکتا ہے جب ’’معنی‘‘ کو ’’صورت‘‘ کا متقابل قرار دے کر REALITY کے مفہوم میں لیا جائے۔ اس میں کوئی قباحت نہیں۔ لیکن ’’تسخیر‘‘ کی REALITY پھر بھی محتاج معنی رہتی ہے۔ آخری مصرعے میں سین سخن پھر مخدوش ہے، لیکن پورے بند میں یہی ایک مصرع ہے جس میں شکوہ الفاظ کے ساتھ بڑی حد تک شکوہ معنی بھی موجود ہے۔

    اس تجزیے سے یہ بات واضح ہو گئی ہوگی کہ دبیر کے یہاں شکوہ الفاظ تو ہے، لیکن شکوہ معنی بہت کم ہے۔ اس اعتبار سے وہ اپنے زمانے کے جوش ملیح آبادی معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ دبیر اپنے زمانے میں غیر معمولی شہرت، مقبولیت اور رتبے کے مالک تھے۔ سخن فہموں کی ایک تعداد انھیں انیس تک پر فوقیت دیتی تھی۔ غالب کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ وہ دبیر کے قائل اور مداح تھے۔ اگر صفیر بلگرامی کا بیان معتبر نہ بھی سمجھا جائے تو بھی تقریباً وہی الفاظ جو صفیر نے دبیر کے بارے میں غالب سے منسوب کیے ہیں، ’’سرور ریاض‘‘ میں ریاض الدین امجد سندیلوی نے بھی درج کیے ہیں کہ مرثیہ گوئی مرزا دبیر کا حق اور حصہ ہے۔

    ظاہر ہے کہ دبیر کی مقبولیت اور شہرت اور غالب جیسے شخص کا اعتراف محض بے وجہ اور میر انیس کے مقابلے میں صاف کم تر ہونے کے باوجود دبیر کو اس قدر کامیابی کیوں نصیب ہوئی؟ یہ سوال بھی پوچھنے کا ہے کہ کیا آج دبیر کا کلام بھی ہمارے لیے اسی طرح معنی خیز اور لطف انگیز ہو سکتا ہے جس طرح میر انیس کا کلام ہے؟ ذیل کی سطور میں انھیں معاملات پر چند اشارے کرتا ہوں۔

    سب سے پہلی بات تویہ کہ دبیر کی کامیابی کا سبب ان کی تشبیہات و استعارات اور جدت طرازی اور مضمون آفرینی میں ڈھونڈنا لاحاصل ہوگا۔ ان کی علمیت یقیناً ان کی کامیابی میں ایک اہم عنصر قرار دی جا سکتی ہے۔ یا یوں کہیے کہ علمیت کا اظہار جس طرح ان کے یہاں ہوا ہے وہ فوراً متاثر کرتا ہے۔ کیونکہ علمیت تو میر انیس میں بھی تھی، لیکن وہ اس کا اظہار اس طرح اور اس کثرت سے نہ کرتے تھے جو مرزا دبیر کا وطیرہ تھا۔ جہاں تک سوال دبیر کے استعاروں اور مضمون آفرینی کا ہے، تو مجھے ان کے یہاں استعاروں میں وہ کیفیت بہت کم نظر آئی جسے استعارہ در استعارہ وپیکر کا امتزاج کہا جا سکتا ہے اور جو انیس کا خاصہ ہے، بلکہ جو تمام بڑے شاعروں کا خاصہ ہے۔

    رہی مضمون آفرینی، تو جیسا کہ اوپر کے تجزیے سے ظاہر ہوگا، دبیر کے یہاں تلاش مضمون زیادہ ہے، حصول مضمون کم۔ یعنی وہ مضمون کے امکانات کو بروئےکار نہیں لاتے۔ ان کی فکر میں وہ صفت نہیں جسے کلنتھ بروکس CLEANTH BROOKS نے M SYNESTHESTIC EQUILIBRIU کا نام دیا ہے، یعنی مختلف اشیا یا کسی شے کے مختلف پہلوئوں کو یکجا کر کے بلکہ یک جان کرکے ان میں توازن پیدا کرنا۔ مضمون آفرینی کا تفاعل بھی یہی ہوتا ہے کہ کسی معروف مضمون کا کوئی نیا پہلو تلاش کیا جائے اور پھر معروف کے حوالے سے غیرمعروف کو ثابت کیا جائے یا قائم کیا جائے۔

    صنائع بدائع کے میدان میں بھی دبیر ہمارے بڑے شاعروں مثلاً میر، غالب اور انیس سے بہت پیچھے ہیں۔ اس بیان کی تفصیل کا یہاں موقعہ نہیں۔ صرف اتنا کہنا کافی ہے کہ میر، غالب اور انیس کے یہاں لفظی رعایات اور معنوی تناسبات شعر میں اس طرح پیوست ہیں اور اس طرح ہمہ وقت موجود رہتے ہیں جس طرح رگ میں خون یا اعصاب میں قوت احساس۔ ان لوگوں کے برخلاف، دبیر کے یہاں صنائع بدائع کے استعمال میں اردو کا ہر شاعر میر، غالب اور انیس سے بہت کم تر ہے۔ شبلی نے لکھا ہے کہ میر انیس کو رعایتوں وغیرہ سے چنداں شغف نہ تھا، لیکن کیا کرتے، لکھنو کے مزاج اور ماحول سے مغلوب تھے۔ یہ بات ہر طرح سے غلط ہے۔ میرانیس اگر لکھنو کے مزاج اور ماحول سے مغلوب تھے تو میر اور غالب تو نہ تھے۔ ان لوگوں نے رعایتوں کو اس قدر دل کھول کر کیوں برتا؟ اور اگر رعایتیں لکھنؤ کا خاص مزاج ہیں تو دبیر کے یہاں کثرت سے کیوں نہیں ہیں؟

    دبیر کی مقبولیت اور کامیابی میں ان کے انداز مرثیہ خوانی کا بھی حصہ رہا ہوگا۔ ہم جانتے ہیں کہ دبیر کے پڑھنے کا انداز بہت مؤثر اور بڑی حد تک منفرد تھا۔ لیکن آج تو ہم ان کا مرثیہ کاغذ پر پڑھتے ہیں، اور ہمیں ان کے انداز خواندگی کے بارے میں کوئی براہ راست معلومات نہیں۔ اس کے باوجود دبیر کا مرثیہ آج بھی خاصا مؤثر ہے۔ ایسا کیوں کر ممکن ہو سکا ہے؟ میرا خیال ہے اس سوال کا ایک جواب ان بیانیہ طرز گزار یوں (STRATEGIES) میں ہے جن کے ذریعہ دبیر کے مرثیے میں معنی قائم ہوتے ہیں۔

    مرثیہ اپنی صنف کے اعتبار سے بیانیہ شاعری کی ضمن میں آتا ہے۔ بیانیہ شاعری سے مراد ہے وہ شاعری جس میں واقعات کا بیان ہو۔ اس سوال کا تشفی بخش جواب نہیں مل سکا ہے کہ نثر کے ہوتے ہوئے نظم کو بھی واقعات کے بیان کے لیے کیوں اختیار کیا گیا؟ جیسا کہ البرٹ بی۔ لارڈ ALBERT B. LORD نے لکھا ہے، یہ جواب کافی نہیں ہے کہ نظم میں بدیہہ گوئی اور آسانی سے یاد ہو جانے کی سہولت ہوتی ہے۔ جن تہذیبوں میں منظوم اور منثوردونوں طرح کی زبانی داستانوں کا رواج ہے، وہاں دیکھا گیا ہے کہ منثور داستانوں کا متن منظوم داستانوں کے مقابلے میں زیادہ صحیح طور پر رائج ہے۔ بہر حال، اس مسئلے کی تفصیل میں جائے بغیر یہ بات تو ہم بآسانی دیکھ سکتے ہیں کہ منثور بیانیہ کی شعریات اور جمالیات سے بڑی حد تک مختلف ہوگی۔ مثلاً منظوم بیانیہ میں ربط پیدا کرنا اتنا آسان نہیں جتنا منثور بیانیہ میں آسان ہوتا ہے۔ منظوم بیانیہ چونکہ بحر کا تابع ہوتا ہے، لہٰذا وہ الفاظ اس میں نہیں استعمال ہو سکتے جو اس کی بحر میں نہ آ سکتے ہوں۔

    فرانسیسی کی طرح اردو میں بھی یہ رسم ہے کہ بہت سے الفاظ نثر میں اور طرح بولے جاتے ہیں اور نظم میں اور طرح۔ لہٰذا نظم کا ذائقہ اور فضا اور طرح کی ہوتی ہے۔ بہت سے الفاظ نثری زبان یا بول چال کی زبان میں استعمال نہیں ہوتے، یا بہت کم استعمال ہوتے ہیں، لیکن نظم انھیں بے تکلف استعمال کر لیتی ہے۔ بہت سے الفاظ نثر میں عام ہیں، لیکن نظم میں داخل نہیں ہونے پاتے۔ ان تمام باتوں کے باعث منظوم بیانیہ کی شعریات اور جمالیات منثور بیانیہ سے مختلف ہوتی ہے۔

    منظوم بیانیہ کا ارتقا دوشکلوں میں ہوا۔ ایک تو EPIC یعنی رزمیہ، اور دوسری ROMANCE یعنی مہم جوئی پر مبنی نظم جس میں بزم یعنی عشق کی کارفرمائی زیادہ ہوتی ہے۔ البرٹ لارڈ نے یہ نکتہ بیان کیا ہے کہ رزمیہ کا تعلق دو طرح کی نظموں سے ہے، ایک تو وہ جن میں کسی حادثے یا سانحے پر ماتم LAMENT ہوتا ہے اور دوسری وہ نظمیں جن میں موتی کی توصیف و تمحید کی جاتی ہے۔ ایسی نظموں کو وہ CULT OF THE DEAD پر مبنی نظمیں کہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ مرثیے کا تعلق یا مرثیے کی نوعیت رزمیہ سے ہے جس پر ماتمی نظم اور توصیف موتی پر مبنی نظم کا اثر سب سے زیادہ پڑا ہے۔

    منظوم اور منثور دونوں طرح کے بیانیہ میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ اس میں معنی کس طرح قائم کیے جائیں؟ اور اگر بیانیہ مرثیے کی طرح کا ہو جس میں ماتم اور توصیف موتی کا عنصر حاوی ہو تو معنی قائم کرنے میں اور بھی مشکل ہوتی ہے، کیونکہ اس میں واقعات کے درمیان علت اور معلول کا رشتہ آسانی سے نہیں قائم ہو سکتا۔ بیانیہ میں معنی پیدا کرنے کا سب سے اہم بنیادی طریقہ ارسطونے بتایا تھا کہ جو واقعات اس میں بیان ہوں ان کے درمیان قانون لزوم یا قانون احتمال کی رو سے علت اور معلول کا رشتہ ہو۔ مثلاً،

    (۱) ہوا چلی، عمارت بلند ہوئی، لڑکیاں ہنسیں، پھول کھلا۔

    یہ عبارت بیانیہ کے طور پر بے معنی ہے۔ ممکن ہے استعارے کی سطح پر اس کے کوئی معنی ہوں اور استعارے کو واضح کرنے کے بعد اس میں کوئی بیانیہ شان نظر آئے۔ لیکن مجرد بیانیہ کے طور پر اس کے کوئی معنی نہیں اور اغلب ہے کہ استعاروں کو کھولنے کے بعد بھی بیانیہ معنی نہ قائم ہو سکیں۔ ہاں یہ چاروں جملے الگ الگ چار بیانیہ عبارتیں ہیں۔ لیکن پھر بھی ہم ان کے کوئی معنی نہیں نکال سکتے، ان کا محض ترجمہ کر سکتے ہیں۔ اب اس عبارت کو یوں کر دیجیے۔

    (۲) ہوا چلی تو عمارت بلند ہوئی۔ لیکن لڑکیاں ہنسیں اور پھول کھلا۔

    اب ایک عبارت کی دو عبارتیں ہو گئیں لیکن معنی پھر بھی مفقود ہیں۔ کیونکہ جو واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں نہ پہلے کوئی ربط تھا، یعنی علت اور معلول کا رشتہ تھا، اور نہ اب ہے۔ چلیے اب اس عبارت کو یوں کر دیتے ہیں،

    (۳) ہوا چلی لیکن عمارت پھر بھی بلند ہوئی۔ لڑکیاں یہ دیکھ کر خوش ہوئیں اور ہنسیں۔

    عمارت کے آنگن میں پھول کھلا۔

    اب چونکہ علّت و معلول کا رشتہ ایک حد تک قائم ہو گیا ہے۔ اس لیے یہ عبارت بیانیہ کی حیثیت سے بامعنی ہو گئی ہے۔ لیکن بعض جھول اب بھی باقی ہیں۔ لہٰذا اس عبارت کو یوں کر دیتے ہیں۔

    (۵) ہوا چلی لیکن عمارت بنانے والے اپنے کام میں لگے رہے، لہٰذا عمارت پھر بھی بلند ہوئی۔ جن لڑکیوں کو اس عمارت میں رہنا تھا وہ یہ دیکھ کر اس قدر خوش ہوئیں کہ ہنس دیں۔ ان کی ہنسی کا پھول عمارت کے آنگن میں کھلا۔

    اب چونکہ تمام واقعات کے رشتے پوری طرح واضح ہیں، اس لیے بامعنی بیانیہ ہمارے سامنے ہے۔ ملحوظ رہے کہ عبارت نمبر پانچ میں کوئی ایسی بات نہیں بڑھائی گئی ہے جس کا جواز عبارت نمبر ایک میں نہ ہو۔ لہٰذا واقعات کی نوعیت اور کثرت و قلت کا بیانیہ کی معنویت سے کوئی تعلق نہیں۔

    ظاہر ہے کہ علت اور معلول کے رشتے کے ذریعہ بیانیہ کو بامعنی بنانا سادہ عمل بھی ہو سکتا ہے اور پیچیدہ بھی۔ اس کے لیے طرح طرح کی بیانیہ طرز گزاریاں (NARRATIVE STRATEGIES) استعمال ہو سکتی اور ہوتی ہیں۔ مثلاً فلیش بیک، پیش آمد (ANTICIPATION) فریم (FRAME) یعنی کہانی درکہانی، دو مختلف واقعات کا متوازی بیان۔ لیکن یہ بھی ظاہر ہے کہ خلاق ذہنوں کو نئی نئی STRATEGIES کے علاوہ بالکل نئے طریقوں کی بھی تلاش رہتی ہے، یعنی وہ اس جستجو میں رہتے ہیں کہ علت و معلول کے رشتے کے علاوہ اور کون سے طریقے ہو سکتے ہیں جن کے ذریعہ بیانیہ بامعنی ہو سکے۔ کیونکہ بیانیہ کو بامعنی بنانے کے طریقوں میں تنوع کے ذریعہ ہی زبانی منظومیے اور پھر رزمیے کے مابین انفرادی تخلیق اور اجتماعی تخلیق کی شعریات الگ الگ قائم ہو سکتی ہے۔

    لوک کتھائوں کے بارے میں رومان یا کبسن کے خیالات کو کام میں لاتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ زبانی منظومیے (جو مرثیے کی اصل ہے) کا بےنام پن ANONYMITY اس کی اصل خصوصیت ہے، اور اس کی انفرادیت فروعی ہے۔ لہٰذا جب مرثیہ زبانی منظومیے کی جگہ تحریری، لیکن زبانی پڑھے جانے والے بیانیہ منظومیے کی شکل اختیار کرتا ہے تو گویا شاعر اس کی فروعی خصوصیت کو پیش منظر میں لاتا ہے، اور اس لیے وہ نئی بیانیہ طرز گزاریوں کا متلاشی ہوتا ہے۔

    روسی ہیئت پرستوں نے مغرب میں اس حقیقت کو سب سے پہلے محسوس کیا کہ شاعری کی زبان اور روزانہ استعمال ہونے والی زبان میں وہی رشتہ ہے جو کسی مکمل زبان اور بولی DIALECT میں ہوتا ہے۔ یعنی شاعری کی زبان کے کچھ اپنے قاعدے قانون ہوتے ہیں۔ لہٰذا یہ سوال اٹھنا بھی لازمی ہے کہ کیا شاعری کی زبان بیانیہ کو معنی خیز بنانے کے لیے ایسے ذرائع ایجاد کر سکتی ہے جو عام ذرائع سے مختلف ہوں، یعنی جن میں علّت اور معلول کے رشتے کا سہارا نہ لیا گیا ہو؟ ظاہر ہے کہ ایک طریقہ تو یہی ہے کہ واقعات کو اس شرط کے تحت بیان کیا گیا ہو کہ جو کچھ ہے وہ بالکل سچ اور صحیح ہے۔ اب اگر کوئی واقعہ دراصل پیش آ چکا ہے تو وہ چاہے کتنا ہی خلاف عقل ہو، لیکن وہ بیانیہ کی حیثیت سے بامعنی ہے۔ (یہ بات ارسطو بھی کہہ چکا تھا) ایک طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ بقول وکٹر شکلا وسکی کسی تصور کو ایسے تصورات کے ساتھ رکھ دیا جائے جو اس کی جنس کے نہیں ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں وہ اجنبی تصور توجہ انگیز ہوگا اور ہم لامحالہ اس تصور کا دوسرے تصورات سے ربط تلاش کرنے پر مجبور ہوں گے۔

    لو کاچ کا ایک قول یہاں بہت معنی خیز ہے کہ وقت اور تاریخ کو انگیز کرنے اور ان کی ماہیت تک پہنچے کے لیے ہمارا بنیادی ذریعہ بیانیہ ہی ہے۔ مختلف واقعات کو ایک لڑی میں پرو دینا اور پھر ان سے نتیجہ اخذ کرنا وقت کو انگیز کرنے کا ایک طریقہ ہے، اور مختلف واقعات کی دو لڑیاں الگ الگ دکھائی جائیں اور پھر ان کو سلجھا کر آپس میں مربوط دکھا دیا جائے اسی مقصد کے حصول کا دوسرا طریقہ ہے۔ اسی لیے شکلا وسکی نے کہا ہے کہ بیانیہ کے واقعات کا الجھاؤ اور پھر سلجھاؤ ایہام کا حکم رکھتا ہے۔ کیونکہ ایہام کا ظاہر ایک اور باطن دو ہوتے ہیں۔ اسی طرح واقعات کے دو سلسلوں کا ظاہر الگ الگ ہوتا ہے، لیکن ان کے رسومیاتی باطن کے علاوہ ان کا ایک باطن اور بھی ہوتا ہے، جس میں دونوں سلسلے متحد ہو جاتے ہیں۔

    مرزا دبیر نے بیانیہ میں معنی قائم کرنے کے لیے کئی طرح کے طریقے استعمال کیے ہیں۔ ان کے یہاں بیانیہ طرز گزاری کا تنوع دوسرے مرثیہ گویوں سے بہت زیادہ ہے۔ ان میں سے چند کا بیان حسب ذیل ہے،

    (۱) پیش آمد (ANTICIPATION) اور پیش گوئی (PROGNOSIS) کو ملا دینا، مستقبل اور حال کو یکجا کر دینا۔ مثلاً،

    آدم کا داد رس بنی آدم میں کون ہے

    یکتا خدا کے بعد دو عالم میں کون ہے

    ذبح عظیم مصحف اعظم میں کون ہے

    ہر گھر کا چاند ماہ محرم میں کون ہے

    جس کی خزاں بہار ہے وہ پھول کون ہے

    جس کی دیت خدا ہے وہ مقتول کون ہے

    اس بند میں امام کی حیثیت کئی طرح سے بیان ہوئی ہے۔ مصرع اولیٰ میں پیش آمد، پیش گوئی، مستقبل اور حال سب کیفیتیں ہیں۔ تیسرے مصرعے میں پیش آمد ہے، یعنی مرثیے کے اعتبار سے ابھی امام حسین کی شہادت بیان نہیں ہوئی ہے لیکن قرآن کا ذکر کرکے واقعے کی ماضیت کی طرف اشارہ کر دیا ہے اور قرآن چونکہ ہر زمانے اور ہر جگہ کے لیے ہے، اس لیے حال اور مستقبل بھی موجود ہو گئے ہیں۔ اس طرح یہ بند واقعہ کربلا کی تاریخ بھی ہے اور مرثیے میں آئندہ بیان ہونے والے واقعات اور عالم انسانی پر سانحہ کربلا کے اثر کا خلاصہ بھی۔

    (۲) واقعہ در واقعہ بیان کر دینا۔ اس کی ایک شکل تو یہ ہے کہ جس بات کو بیان کر رہے ہیں، اس کو زور پہنچانے کے لیے کسی اور واقعے کی طرف اشارہ کرنا، عام اس سے کہ وہ واقعہ ہو چکا ہے یا ہونے والا ہے۔ مثلاً،

    تھی صبح یا فلک کا وہ جیب دریدہ تھا

    یا چہرۂ مسیح کا رنگ پریدہ تھا

    خورشید تھا کہ عرش کا اشک چکیدہ تھا

    یا فاطمہ کا نالۂ گردوں رسیدہ تھا

    کہیے نہ مہر صبح کے سینے پہ داغ تھا

    امید اہل بیت کا گھر بے چراغ تھا

    واقعۂ کربلا کی خوں چکانی، دردناکی اور قاتلان حسین کی شقی القلبی کا ماحول قائم کرنا مقصود ہے۔ لہذا صبح کے بیان میں چہرۂ مسیح کے رنگ پریدہ کا ذکر کیا، پھر حضرت فاطمہ کے نالہ وفغاں کو اس طرح لائے گویا واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ حالانکہ ظاہر ہے کہ یہ واقعات اگر رونما ہوں گے بھی تو امام کی شہادت کے بعد ہوں گے۔ لیکن حادثہ فاجعہ کے بیان کو مؤثر بنانے کے لیے دو درد ناک واقعات کی پیش آمد کا اشارہ رکھ دیا۔

    (۳) واقعہ در واقعہ کی دوسری شکل یہ ہے کہ اصل بیانیہ سے بنیادی طور پر غیر متعلق بیانیہ (ایک یا ایک سے زیادہ) داخل کیے جائیں۔ بیانیہ طرز گزاری کی یہ جدت دبیر نے بڑی خوبی سے برتی ہے۔ اس کی بہت عمدہ مثال،

    جب سرنگوں ہوا علم کہکشان شب

    میں ملتی ہے۔ شروع کے بندوں میں بظاہر صبح کا بیان ہے، لیکن دراصل بالواسطہ پیش آمد ہے۔ مثلاً یہ مصرعے ملاحظہ ہوں،

    (۱)

    تھا بس کہ گرم خنجر بیضائے آفتاب

    باقی رہا نہ چشمہ نیلو فری میں آب

    (۲)

    خون شفق میں سرخ قضا نے قلم کیا

    اور خط و خال روز شہادت رقم کیا

    (۳)

    پرحر کا نام مہر سے روشن سوا ہوا

    (۴)

    فریاد و احسین حرم کی زبان سے

    (۵)

    نعرہ سنا اذاں کا خیام امام سے

    اور اقتلوالحسین کا غل فوج شام سے

    اب اس کے بعد عمر سعد کے اردو کا بیان ہے۔ لیکن بجائے اس کے کہ عمر سعد اور اس کی افواج کا احوال رقم ہو، عمر سعد کو اپنا ایک خواب بیان کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ یعنی واقعہ در واقعہ کی طرز اختیار کی گئی ہے اور اس سے پیش آمد کا بھی کام لیا گیا ہے،

    اپنے نبی کو ذبح کیا میں نے خواب میں

    یہ پیش آمد دو طرح کی ہے۔ ایک تو امام کی شہادت اور دوسرے اس ظلم کی پیش آمد جو افواج یزیدی نے شہادت امام کے ذریعہ عالم اسلام پر توڑا۔ پھر شمر اپنا خواب بیان کرتا ہے،

    خنجر سے میں نے قطع کیا سر امام کا

    یہ نکتہ بھی ملحوظ رہے کہ عمر سعد نبیؔ کو شہید کرنے کی بات کرتا ہے جو ظاہر ہے کہ استعارہ ہے۔ اور شمر کے خواب کے ذریعہ آئندہ آنے والے واقعات کی تخصیصی حیثیت واضح ہوتی ہے۔ تدریج کا سلسلہ شمر کے خواب کی مزید تفصیلات سے گزرتا ہے،

    صدقے خدا کے خواب میں کیا کیا مجھے دیا

    بانو کا برقع اور سر کلثوم کی ردا

    اور پھر حرملہ کے خواب پر تمام ہوتا ہے،

    اک بازوے حسین اور اک طفل کا گلا

    ہیں دو نشانے تیر کے میرے جدا جدا

    سانحۂ کر بلا کے ان تین بد ترین کرداروں کے خواب انھیں کی زبان سے بیان کر کے مرزا دبیر نے کئی طرح کے بیانیہ فائدے حاصل کیے ہیں۔ مثلاً ظلم اور کفر کے کسی اور ثبوت کے بغیر ہم پر بات واضح ہو جاتی ہے کہ ظلم اور کفرنے ان کے دلوں اور روح کو اس درجہ مسخ کر دیا ہے کہ اب وہ جانوروں سے بدتر ہیں۔ حتی کہ شمر خدا کا شکر ادا کرتا ہے کہ اس نے ایسا خواب دیکھا جس میں وہ آل نبیؐ کو بے حرمت کر رہا ہے۔ پھر اگرچہ یہ واقعات بظاہر صبح کے بیان سے غیرمتعلق ہیں، لیکن ان سے پیش آمد کا کام بخوبی لیا گیا ہے۔ تیسری بات یہ کہ کئی طرح کے واقعات کا ذکر کرکے سامع کو مشتاق بنایا ہے کہ دیکھیں اس مرثیے میں یہ سب واقعات نظم ہوتے ہیں یا ان میں سے محض ایک یا چند۔

    (۳) کئی طرح کے واقعات متوازی بیان کرنا۔ اس طرز گزاری کے ذریعہ بیانیہ میں اتحاد مکانی کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ مرثیہ زیر بحث میں اس کی بہت اچّھی مثال ہے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا شروع کے بندوں میں صبح کے حوالے سے تمام واقعات کی پیش آمد ہے۔ اس کے بعد پورے مرثیے کو فریم FRAME بنا کر تین اشقیا کے خواب درج کیے گئے ہیں۔ ان خوابوں میں جو واقعات مذکور ہیں وہ گزریں گے تو اصحاب حسین اور حسین پر لیکن ہم ان کو اردوے عمر سعد میں ان کی ہی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ اس کے بعد عمر سعد اپنے جاسوسوں سے اُردوے حسینی کے حالات دریافت کرتا ہے،

    بن پانی کس طرح سے کٹی یہ تمام رات

    کیا گزری شب کو پیاسوں پہ اب کیا ہے واردات

    نامہ تو کوئی ابل وطن کو لکھا نہیں

    بہر کمک کسی کو طلب تو کیا نہیں

    جس طرح عمر سعد وغیرہ کے خوابوں کے ذریعہ ہم حال اور مستقبل کو یکجا دیکھتے تھے، اسی طرح اب ہم جاسوسوں کے بیان کے ذریعہ نزدیک و دور کو یکجا دیکھتے ہیں۔ یعنی اردوئے یزیدی سے ہم خیام حسین کا حال معلوم کرتے ہیں۔

    (۱) ہر سجدے میں شفاعت امّت کی تھی دعا

    (۲) تقسیم سب کو صبر کیا ہے حسین نے

    (۳)

    فرماتے تھے حسین کہ کل صلح ہوئےگی

    لیکن وہ صلح ہوگی کہ سب خلق روئےگی

    (۴) چوتھی طرز گزاری یہ ہے کہ گذشتہ سے حال کی طرف فوراً گزران ہو۔ اس طرح تضاد کا جھٹکا محسوس ہوتا ہے اور شکلا وسکی کی بیان کردہ صورت حال سامنے آتی ہے کہ کسی شے یا تصور کو اس کے عام ماحول سے جدا کسی ماحول میں رکھ دیا جائے تو وہ توجہ انگیز ہو جاتی ہے۔ اسی مرثیے میں خیام حسینی کا حال ختم ہوتے ہی ہم عمر سعد کی فوجوں کو صف بستہ ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں،

    جب مورچے بندھے تو علم یک قلم کھلے

    تیر جفا کمانوں کی میزان میں تلے

    اس کے فوراً بعد منظر بدلتا ہے اور فلم کی سی ٹکنیک کی طرح ہم امام حسین کے اصحاب کا منظر دیکھتے ہیں،

    اب آن کر حسین کا دیکھو جلال وجاہ

    بن میں شگفتہ ہے چمن قدرت الہ

    ملحوظ رہے کہ اب تک ہم نے مرثیے کے صرف تیس بند سنے ہیں، اور ان میں ہم کم سے کم پانچ طرح کی بیانیہ طرز گزاریوں NARRATIVE STRATEGIES سے دوچار ہو چکے ہیں۔ اس تنوع اور آہنگ واقعات کی اس پیچیدگی کے سامنے اشعار کی کمزوری ماند پڑ جاتی ہے۔ کیوں، جو اقتباسات میں نے نقل کیے ہیں وہ کوئی بہت اعلا شاعری نہیں ہیں۔ لیکن زبانی منظومیہ جو دبیر کے مرثیوں کا اصلی نمونہ ARCHETYPE ہے، شاعرانہ نزاکتوں سے زیادہ بیانیہ چابک دستیوں کو ملحوظ رکھتا ہے۔

    (۶) فلیش بیک کا ایک عام طریقہ ہے کہ واقعے کی بیچ میں اچانک گذشتہ واقعات کا بیان شروع کر دیتے ہیں۔ لیکن ایک لطیف تر طریقہ جو دبیر نے استعمال کیا ہے، اس کی مثال

    انگشتری عرش کا یارب نگیں دکھا

    میں ملتی ہے۔ شروع کے کئی بند دعا پر مشتمل ہیں جن میں شاعر عتبات عالیہ کی زیارت کی تمنّا کرتا ہے۔ پھر اچانک یہ شعر آتا ہے،

    ان طائروں کا جلد سنا مجھ کو شور وشین

    دیتے ہیں راہ میں جو خبر کشتہ شد حسین

    ان دو مصرعوں کے ذریعہ نہ صرف سانحٔہ کر بلا کی طرف فلیش بیک قائم ہوتا ہے، بلکہ یہ معنی بھی قائم ہوتے ہیں کہ شہادت امام کوئی گذشتہ واقعہ نہیں، بلکہ آج ہی کی بات ہے۔ یا پھر شاعر اپنے باطن میں اس زمانے کی سیر کر رہا ہے جب وہ واقعہ رونما ہوا تھا۔

    ہمارے مرثیوں میں بیانیہ کی باریکیوں کا مطالعہ اب تک شاید نہیں کیا گیا ہے، اور نہ اس بات کا مطالعہ کیا گیا ہے کہ زبانی منظومیے سے ملتی جلتی چیز ہونے کے باعث ان مراثی کی شعریات میں وہ کون سی چیزیں ہیں جو تحریری منظومیے میں کم ہوتی ہیں یا نہیں ہوتیں۔ میرا خیال ہے کہ اگر دبیر کے مراثی کو کسی اعلا مرثیہ خواں سے پڑھوایا جائے تو ان کی بیانیہ خوبیاں اور بھی واضح ہوں گی۔

    مأخذ:

    انداز گفتگو کیا ہے (Pg. 103)

    • مصنف: شمس الرحمن فاروقی
      • ناشر: مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 1993

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے