Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دلی کے حوصلہ مند غریب

شاہد احمد دہلوی

دلی کے حوصلہ مند غریب

شاہد احمد دہلوی

MORE BYشاہد احمد دہلوی

    میاں شبو اور ان کے دوست جب چچا کے ٹھئے سے چلے تو شبو بولے، ’’میاں یہ بڈھا بڑا وضع دار ہے۔ تم اس کے میلے کپڑوں اور مفلسی کو نہ دیکھو۔ اس نے اپنی ضد کے پیچھے لاکھ کا گھر خاک کر رکھا ہے۔ بھلا یہ بھی کوئی جگہ ٹھیا لگانے کی ہے؟ ادھر تو رستہ ہی نہیں چلتا۔ آس پاس کوئی دکان نہیں ہے مگر بڈھا ہے کہ جما ہوا ہے۔ لگے بندھے گاہک ہیں۔ مشکل سے تین چار روپے روز کی دھیانگی ہوتی ہوگی، اسی میں خوش ہے۔ مسیتا میرٹھ والے کو دیکھو، کباب کیا بیچتا ہے، لونگ چڑے بیچتا ہے۔ مگر وہ کیا کہ دکان اچھی سجا رکھی ہے۔ بیس پچیس روپے روزانہ اٹھاتا ہے۔ یہ سامنے دیکھتے ہو کس کی دکان ہے۔ یہ ہاتھی دانت محل کہلاتا ہے۔ اس کا مالک دلی کا بہت بڑا ہندو رئیس ہے۔ چچا کو وس نے ہزاروں روپے اس بات کے دینے کئے کہ یہاں سے اٹھ جائیں، مگر چچا نے کہا، ’’میں اپنے بزرگوں کی ہڈیاں نہیں بیچتا۔ ہزار کیا لاکھ روپیہ بھی اگر دو تب بھی میں اپنے باپ دادا کا ٹھیا نہیں چھوڑوں گا۔ میاں ہم تو چچا کی انہی اداؤں پر مرتے ہیں۔ چچا نے سچ کہا، ان کے بعد دلی والے چپلیں ہی کھایا کریں گے۔‘‘

    یہی باتیں کرتے چاروں یار ہرے بھرے صاحب کے سامنے پہنچ گئے۔ یہاں دو قبریں ہیں۔ ایک قبر ہرے بھرے صاحب کی ہے اور ایک سرمد صاحب کی۔ ایک پر سبز چادر اور دوسری پر سرخ چادر پڑی رہتی ہے۔ یہاں فاتحہ پڑھنے کے بعد میاں شبو نے کہا، ’’ یہ لال قبر والے بزرگ بڑے جلالی تھے۔ انہیں اپنے تن بدن کا ہوش نہیں رہا تھا اور دین دنیا سے غافل ہو گئے تھے۔ بادشاہ نے ان کا سر اتروا دیا تو یہ اپنا سر ہتھیلی پر رکھ کر مسجد کی سامنے والی سیڑھیوں پر چڑھنے لگے۔ جویہ پوری سیڑھیاں چڑھ جائیں تو قیامت ہی آ جائے۔ وہ تو کہو کہ ہرے بھرے صاحب نے روک لیا یہ کہہ کر کہ فقیر کو اتنا غصہ نہیں کرنا چاہئے۔ بس وہیں گر گئے۔‘‘

    ایک ساتھی نے کہا، ’’اماں استاد تم بھی ایسی بات کہتے ہو جو دھری جائے نہ اٹھائی جائے۔ بھلا کہیں ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی کا سرتن سے جدا ہو جائے اور وہ اپنا سر لے کر چلنے لگے؟‘‘ میاں شبو یہ سن کر سٹپٹائے بولے، ’’ابے میں کوئی وہاں کھڑا دیکھ ریا تھا۔ جو بزرگوں سے سنا تمہیں بتا دیا۔ تم لگے ہجے کے بجے کرنے، اماں نہیں مانتے تو جہنم میں جاؤ، لو چلو، آگے بڑھو۔‘‘

    مٹیا محل کے بازار کے نکڑ پر بائیں ہاتھ کو پان والے کی دکان تھی۔ اس میں بڑے بڑے آئینے لگے ہوئے تھے اور دکان بجلی کے قمقموں سے بقعہ نور بنی ہوئی تھی۔ سامنے برف کی ایک سلی رکھی ہوئی تھی جس پر لگے ہوئے پان دھرے تھے۔ یہ پان والا بھی عجب آن کا تھا۔ صرف دیسی پان اس کے ہاں ہوتے تھے۔۔۔ پرانا دیسی۔ چونے میں کیوڑا اور کتھے میں گلاب ملا ہوتا تھا۔ یہ صاحب ایک پان کبھی نہیں بناتے تھے۔ دو اوپر تلے رکھ کر بناتے تھے۔ لونگ، الائچی، جوتری، جائفل، بنارس کا مسالہ اور خدا جانے کیا کیا پان میں ڈال کر بیڑا بناتے تھے۔ اس پر چاندی کا ورق لپیٹتے اور خود اپنے ہاتھ سے گاہک کے منہ میں دیتے۔ گاہک کی چٹکی کیوں خراب ہو؟ ان کی یہ ادا سب کو بھاتی تھی۔ چاروں یاروں نے اس دکان سے پان کھایا۔ اتنے میں ککڑ والا اپنا بڑا سا حقہ لئے آ گیا۔ خمیرے کی خوشبو سے بازار مہک گیا۔ ان سے نہ رہا گیا، دو دو چار کش لئے، پیسے دئے اور آگے بڑھ گئے۔

    سامنے پھول والے اپنی دکانیں سجائے بیٹھے تھے۔ ان کی سریلی آوازیں گونج رہی تھیں، ’’لپٹیں آ رہی ہیں موتیا میں، گجرات کے مکھانے۔‘‘ میاں شبو نے کہا، ’’یار میں گھر والی کے لئے جوہی کی بالیاں لے لوں ورنہ جاتے ہی ٹانگ لے گی کہ اتنی اوپر کیوں آئے؟‘‘ یہ کہہ کر پھول والے کی دکان کا رخ کیا۔ لال لال گیلے قند پر موتیا کا ڈھیر پڑا ہنس رہا ہے۔ دوسری طرف چنبیلی کی ڈھیری مسکرا رہی ہے۔ پھولوں کے گہنے بنے رکھے ہیں۔ میاں شبو نے جو ہی کی بالیاں لیں، پھول والے نے ہرے ڈھاک کے پتوں کا دونا بنایا۔ اس میں بالیوں کا جوڑا رکھا، دوچار پھول موتیا کے اور ایک آدھ زرد چنبیلی کا بھی ڈال دیا۔ چار پیسے ہی میں کام ہو گیا۔ چتلی قبر کے چوراہے پر پہنچے تو کلن حلوائی کی دکان پر مٹھائیوں کے تھال سجے ہوئے نظر آئے۔ بجلی کی تیز روشنی میں ورق لگی مٹھائیاں دمک رہی تھیں۔ میاں شبو نظر بچا کر نکلے جا رہے تھے کہ کلن کی نظر ان پر پڑ گئی۔

    ’’اماں خلیفہ، بات تو سنو، ارے بھئی ایسی بھی کیا بے مروتی کہ منہ پھیر کے نکلے جا ریئے ہو؟‘‘ میاں شبو چونک کر دکان کی طرف بڑھے، سلام کیا، ’’سلام ولیکم۔‘‘ کلن بولے ’’والیکم سلام، لو ذرا یہ قلاقند تو چکھو۔‘‘ قلاقند کا ایک ٹکڑا چھری سے کاٹ کر دیا۔ شبو نے منہ میں ڈالا تو بتاشے کی طرح گھل گیا اور کیوڑے کی خوشبو سے منہ مہک گیا۔ بولے، ’’بھئی واہ، کیا کہنے کلن استاد کے، لاؤ آدھ سیر باندھ دو۔‘‘

    کلن نے پیچھے سے ٹوکری اٹھائی، اس میں کاغذ بچھایا۔ آدھ سیر قلاقند تول کر کچے سوت سے ٹوکری کو باندھ بوندھ شبو کے حوالے کیا۔ چھ آنے سیر مٹھائی بکتی تھی۔ تین آنے کلن کو دے ایک ہاتھ میں پھولوں کا دونا اور ایک ہاتھ میں قلاقند کی ٹوکری لے کر چل پڑے۔ سوئی والوں کے نکڑ پر پہنچ کر یاروں سے رخصت ہوئے۔ گھر پہنچے تو دروازہ بند پایا۔ رات خاصی آ گئی تھی۔ دوناٹوکری پر رکھ کر کنڈی بجائی تو اندر سے بڑبڑانے کی آواز آئی اور کھٹ سے اندر کی کنڈی گری۔ دروازہ کھولا تو دیکھا کہ گھر والی بپھری ہوئی کھڑی ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ سلواتیں سنائے اور دانتاکل کل ہو، میاں شبو نے کہا، ’’اری یہ تو لے کھڑی کیا گھور رہی ہے؟‘‘ بیوی کا غصہ ہوا ہو گیا اور بانچھیں کھل گئیں۔ جھٹ دونا اور ٹوکری سنبھالی۔

    اتنے میاں شبو کپڑے اتاریں اور تہمد باندھیں، بیوی نے دونا کھول کر بالیاں کانوں میں ڈال لیں اور تلے دانی میں سے سوئی تاگہ نکال کر پھولوں کی ایک لڑی بنا گلے میں ڈال لی۔ پھر چھینکے پر سے روٹیوں کی ڈلیا اتاری اور دسترخوان بچھانے لگی۔ میاں شبو نے آواز دے کر کہا، ’’اری رہنے دو۔‘‘

    بیوی نے تنک کر کہا، ’’باہر کھائی آئے میں بھی تو کہوں اتنی دیر کہاں لگائی۔ راہ تکتے تکتے آندھ آ گئی۔ چٹورپن کی عادت نہیں جاتی تمہاری باہر کی چکوتھیاں منہ کو لگ گئی ہیں۔‘‘

    ’’اری گدی برسوں کی برسات میں ایسا بھی ہو جاتا ہے۔ لے ورے آ یہ ناواں سنبھال۔‘‘ دھیانگی کے بچے ہوئے پیسے بیوی نے لے کر ازاربند میں باندھے۔

    ’’اری وہ ٹوکری تو کھول، دیکھ وس میں کیا لایا ہوں تیرے لئے۔‘‘ اب ان میاں بیوی کو میٹھی میٹھی باتیں کرنے دیجئے۔ آیئے ہم آپ چلیں یہاں سے۔ رات سر پر چڑھتی آ رہی ہے۔

    صبح سویرے ہی کاریگروں اور دستکاروں کو اپنے اپنے کام پر پہنچنا ہوتا ہے۔ گھر میں ناشتہ یا کھانا تیار کرنا گھر والیوں کے لئے مشکل ہوتا ہے، اس لئے ناشتہ بازار سے ہی آتا تھا۔ جو ذرا آسودہ حال تھے حلوے مانڈے اور پوری کچوریوں کا ناشتہ کرتے تھے۔ بچوں کے لئے مٹریاں منگائی جاتی تھیں، ان کے ساتھ روکن میں حلوہ ملتا تھا۔ چائے کا رواج تو اب ہوا ہے۔ پہلے طرح طرح کے شربت پئے جاتے تھے۔ جاڑوں میں گرم دودھ پیا جاتا تھا، بعض گھروں میں کشمیری چائے اور قہوے کے فنجان چلتے تھے۔ مگر غریب غربا نہاری روٹی کھا کر کام پر سدھارتے تھے۔

    نہاری سوائے دلی کے اور کسی شہر میں نہیں پکتی تھی۔ دوسرے شہروں میں پائے پکتے تھے اور انہی کو نہاری کہا جاتا تھا۔ دلی کی نہاری ایک قسم کا قورمہ ہی ہوتا تھا۔ اس میں بڑے گوشت کے صرف پارچے ہی ڈالے جاتے تھے، ہڈیاں گڈیاں نہیں ڈالی جاتی تھیں۔ ان مسالوں کے علاوہ جو قورمے میں پڑتے ہیں، شوربے کو گاڑھا کرنے کے لئے آلن بھی ڈالا جاتا تھا۔ نہاری کی دیگ چولہے میں جمی ہوتی تھی۔ جب دیگ میں پیاز سرخ کرنے کے بعد تمام مال مسالہ پڑ جاتا تو دیگ کے منہ پر کونڈا رکھ کر آٹے سے جما دیا جاتا تھا۔ دیگ کے نیچے موٹے موٹے کندے لگاکر آگ جلا دی جاتی، اور میاں بھٹیارے نچنت ہو، دکان بند کر گھر چلے جاتے۔ صبح منہ اندھیرے دکان پر پہنچ کر دیگ کھولتے تو نہاری پکی پکائی ملتی۔ گاہکوں کا ہجوم موجود ہوتا۔ جھپاجھپ برتنوں میں نکال نکال کر دینی شروع کر دیتے۔

    خمیری روٹیوں کے لئے برابر میں تندور لگا ہوتا، گرم گرم روٹیاں تندور میں سے نکلتی رہتیں۔ کام پیشہ لوگ دوپیسے کی نہاری لیتے اور دو پیسے کی دو روٹیاں۔ روٹی کا آدھا پونا ٹکڑا بچ ہی رہتا اور چار پیسے میں ان کا پیٹ بھر جاتا۔ بس اب دن کو انہیں کھانے کی ضرورت پیش نہیں آئےگی۔ شام کو گھر آکر ہی روٹی کھائیں گے۔ یہ تھی نہاری، دلی کے غریبوں کا من بھاتا کھا جا۔ مگر نہاری کے مخصوص ذائقے کی وجہ سے جو گھر کے پکانے میں پیدا ہی نہیں ہوتا، امیروں اور رئیسوں نے بھی نہاری کھانی شروع کر دی تھی۔ پیسے کے نخرے اور چونچلے نہاری میں بھی در آئے۔ رات ہی کو برتن اور پیسے دکان پر بھجوا دیے اور صبح کسی کو بھیج کر نہاری منگوا لی، مگر جو زیادہ شوقین ہوتے صبح صبح دکان پر پہنچ لیتے اور بالاخانے میں جا براجتے۔ لڑکا آکر پوچھ جاتا، تھوڑی دیر میں دہکتی ہوئی انگیٹھی آجاتی۔ اس کے بعد بڑے سے بادیے میں نہاری آتی جس میں بھیجے اور نلیاں پڑی ہوتیں۔

    ایک پیالے میں داغ ہوتا، یعنی پیاز ڈال کر کڑکڑایا ہوا خالص گھی۔ ایک رکابی میں ہری مرچیں، ہرا دھنیا، ادرک کی ہوائیاں، گرم مسالہ اور نمک کی پیالیاں ہوتیں اور ایک کٹا ہوا کھٹا۔ کم مرچیں کھانے والے نہاری کا روغن اتار کر الگ کر دیتے اور اس کے بدلے داغ کیا ہوا گھی ڈالتے۔ اس سے مرچیں کم ہو جاتیں اور کھانے والے خوب جی لگا کر کھاتے۔ نہاری ذرا ٹھنڈی ہوئی اور غوری انگیٹھی پر رکھی گئی، نہاری کھانے کا مزا جاڑوں ہی میں آتا ہے۔ جب چلے کا جاڑا پڑ رہا ہو اور دانت سے دانت بج رہا ہو تو دانتوں پسینہ آ جاتا ہے۔ نہاری کھانے کے بعد گاجر کا حلوہ لازم و ملزوم سا ہو گیا تھا۔ دلی کے مختلف محلوں میں نہاری والے تھے جن کے ہاں کی نہاری مشہور تھی۔

    کراچی کے بعض اچھے ہوٹلوں میں کچھ اور نزاکتیں بھی پیدا کر لی گئی ہیں۔ مثلاً چھوٹے گوشت کی نہاری پکاتے ہیں، بلکہ مرغ کی نہاری بھی پکاتے ہیں اور جب آپ کے سامنے آتی ہے تو اس میں ابلے ہوئے انڈے بھی پڑے ہوتے ہیں۔ خداجب حسن دیتا ہے نزاکت آ ہی جاتی ہے۔ دولت کے ساتھ نفاست آتی جاتی ہے مگر جو مزا سنڈے کے گوشت کی عام نہاری میں ہوتا ہے وہ کسی اور گوشت کی نہاری میں نہیں ہوتا۔ اگرآپ کو مرغ ہی کھانا ہے تومرغ مسلم کھایئے۔ چرغا کھایئے، غریب نہاری کو اس کے حال پر چھوڑیے۔ غریب اور امیر کا میل ہی کیا؟

    دلی میں بعض ایسے منچلے نہاری والے بھی تھے جو گھر لے جانے کے لئے نہاری نہیں دیتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ یہ غریبوں کا کھا جا ہے، غریب ہی یہاں آکر کھاتا ہے۔ اگرہم امیروں کی پتیلیاں بھرنے لگیں تو غریب بیچارے کیا کھائیں گے؟ جاؤ میاں جاؤ، کوئی اور دکان دیکھو۔ یہاں امیروں کے لئے نہاری نہیں پکتی۔ مگر اب ایسے وضع دار لوگ کہاں؟ سب کے سب پیسے کے میت ہو گئے۔ نہاری والے کے ہاں نہاری لینے جائیے تومعلوم ہوگا کہ بک گئی۔

    ’’اماں اتنے سویرے ہی بک گئی؟‘‘

    ’’جی ہاں ایک میاں جی آئے تھے وہ پوری دیگ ڈیوڑھے دام دے کر خرید کر لے گئے۔‘‘

    دلی کے غریبوں میں بھی یہ بات تھی کہ وہ کسی نہ کسی ہنر میں یکتا ہونا چاہتے تھے، چنانچہ جو ہنر یا فن انہیں پسند آتا اسے اس فن کے استاد سے با قاعدہ سیکھتے تھے۔ استاد اپنے شاگردوں سے پیسہ کوڑی نہیں لیتے تھے اس لئے بڑے بے نیاز ہوتے تھے۔ شاگرد خدمت کر کے استاد کے دل میں گھر کر لیتا تھا اور کسی بات سے خوش ہوکر استاد شاگرد کو دوچار گر بتا دیا کرتا تھا۔

    در اصل خدمت لینے میں یہ گر پوشیدہ تھا کہ استاد شاگرد کی خوبو سے اچھی طرح واقف ہو جاتا تھا۔ استاد کو اندازہ ہو جاتا کہ شاگرد اس فن کا اہل بھی ہے یا نہیں۔ اطاعت و فرماں برداری کرتا ہے یا نہیں۔ جو کچھ ہم کہیں گے اسے مانےگا یا نہیں؟ اگر ہم نے بتایا اور اس نے نہ کیا تو ہماری بات نیچی ہوگی اور شاگرد کا کچاپن ہماری بدنامی کا باعث ہوگا، لہٰذا خوب کس لیتے تھے۔ کوڑی پھیرا بازار کا کراتے، برتن منجھواتے، گھر کی جھاڑو دلواتے، ہاتھ پاؤں دبواتے۔ جوان ناگواریوں کو گوارہ کر لیتا، اسے اس کے ظرف کے مطابق اپنا فن یا ہنر سکھا دیتے۔ نا اہل کو کبھی کوئی استاد کچھ نہ دیتا تھا۔ اناڑی کے ہاتھ میں تلوار دینا بندر کے ہاتھ میں استرا دینا ان کے نزدیک گناہ تھا۔

    معمولی سی بات ہے پنجہ لڑانا، مگر دلی میں اس کے بھی استاد تھے۔ پنجہ لڑانا بھی ایک فن تھا اور اس کی بھی کچھ رکاوٹیں تھیں جنہیں استاد سے سیکھا جاتا تھا۔ دلی کے میر پنجہ کش کا نام بہت مشہور ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ پنجہ لڑانے والوں کا خط خراب ہو جاتا ہے، مگر میر پنجہ کش نہ صرف پنجہ کشی کے استاد تھے بلکہ اپنے زمانے کے اعلیٰ درجہ کے خوش نویس بھی تھے۔ ان کی لکھی ہوئی وصلیاں دیکھ کر آج بھی آنکھوں میں نور آتا ہے۔ اٹھارہ سال پہلے تک دلی میں بعض نامی پنجہ کش تھے جو اپنے شاگردوں کو زور کراتے اور پنجے کے داؤ پیچ بتاتے تھے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ دبلا پتلا سا نوجوان ہے جو ایک قوی ہیکل دیہاتی سے پنجہ پھنسائے بیٹھا ہے۔ دیہاتی کا چہرہ زور لگا لگا کر سرخ ہوا جا رہا ہے مگر نوجوان کا ہاتھ ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ اس نے کچھ اس انداز سے انگلیاں چڑھا رکھی ہیں کہ دیہاتی کی ساری طاقت بیکار ثابت ہو رہی ہے۔

    جب دیہاتی کامیاب نہیں ہوتا تو کہتا ہے، ’’نہیں جی، یوں نہیں میری انگلی اتر گئی تھی۔‘‘ پھر خوب انگلیاں جما کر کہتا ہے، ’’ہاں اب لو۔‘‘ مگر اب کے بھی اس کی پیش نہیں جاتی۔ کہتا ہے، ’’میاں جی اب تم موڑو۔‘‘ نوجوان اس کا پنجہ ایسے پھیر دیتا ہے جیسے موم کا ہو۔ دیہاتی حیران ہوکر کہتا ہے، ’’ٹھیرو میاں جی، مجھے اپنی انگلیاں تو جما لینے دو۔‘‘

    ’’لے بھئی چودھری، تو بھی کیا یاد کرےگا خوب گانٹھ لے۔ اچھا اب ہوشیار ہو جاؤ۔‘‘ اور پھر چودھری کا پنجہ نہیں رکتا اور پھرتا چلا جاتا ہے۔ در اصل ہنر اور فن میں گاؤ زوری نہیں چلتی۔ جبھی تو رستم زماں گاما پہلوان اپنے سے دوگنے پہلوانوں کو مار کر لیا کرتا تھا۔

    لکڑی یا بنوٹ کا فن بھی ایک ایسا ہی فن ہے جس کا جاننے والا قوی سے قوی حریف کو نیچا دکھا سکتا ہے۔ یہ دراصل ’’بن اوٹ‘‘ ہے۔ یعنی اس کی کوئی روک نہیں ہے۔ استاد گھنٹوں اس کے پینتروں کی مشق کراتے ہیں۔ بنوٹیوں میں مچھلی کی سڑپ ہونی چاہئے۔ اگر چستی پھرتی نہیں ہوگی، مار کھا جائےگا۔ لدھڑ آدمی کا کام نہیں ہے۔ یہ اتنا بڑا فن ہے کہ اس پر پوری پوری کتابیں لکھی گئی ہیں۔ مگر یہ فن سرتا پا عمل ہے، اس لئے کسی استاد سے سیکھے بغیر نہیں آتا۔

    دلی کے ۱۹۴۷ء کے فسادات میں یہ تماشہ بھی دیکھا کہ جب ہندو لٹھ بندوں نے کسی محلے پر حملہ کیا تو چند مسلمان لونڈے لکڑیاں لے کر باہر نکلے اور کائی سی پھٹتی چلی گئی، لٹھ دھرے کے دھرے رہ گئے اور ہجوم دیکھتے ہی دیکھتے بھری ہو گیا۔ اپنی آنکھوں تو نہیں دیکھا، ہاں کان گنہگار ہیں کہ ایسے ایسے بھی بنوٹئے ہو گزرے ہیں جو تلواریئے سے تلوار چھین لیتے تھے اور اس کی گٹھری بنا کر ڈال دیتے تھے۔ البتہ یہ کمال ہم نے ضرور دیکھا ہے کہ چارپائی کے نیچے کبوتر چھوڑ دیجئے، کیا مجال جو بنوٹیا اسے نکل جانے دے۔ یہی کیفیت بانک، پٹہ، گتکہ، چھری اور علمی مد کے ہنر مندوں کی تھی۔ بجلی سی چمکی اور حریف ختم۔

    تیر اندازی کے تو ہم نے قصے ہی سنے ہیں البتہ بعض بڈھوں کی غلیل بازی دیکھی ہے۔ وہ غلیل، یہ آج کل کی دو شاخہ وائی کی شکل کی غلیل نہیں ہوتی تھی۔ یہ کوئی دو ہاتھ لمبے لچکدار بانس کو چھیل کر بنائی جاتی تھی۔ اس کے دونوں سروں کے درمیان دہرا تانت کھینچ کر باندھا جاتا تھا جس کی وجہ سے اس کی شکل کمان جیسی ہو جاتی تھی۔ دہرے تانت کے بیچوں بیچ دو انگل چوڑا کپڑا غُلہ رکھنے کے لئے ہوتا تھا۔ جب غلیل استعمال میں نہ ہوتی تو اس کا چلہ اتار دیا جاتا تھا تاکہ بانس کے جھکاؤ کا زور قائم رہے۔ غلے خاص طور سے چکنی مٹی کے بنائے جاتے تھے۔ اگر زیادہ مضبوط درکار ہوتے تو چکنی مٹی میں روئی ملالی جاتی تھی اور گیلے غلوں کو دھوپ میں سکھا لیا جاتا تھا۔ دلی میں غلیل کا سچا نشانہ لگانے والے آخر وقت تک باقی تھے۔ چور کے پاؤں کی ہڈی غلے سے توڑ دیتے تھے۔

    جس زمانے میں مکہ سے مدینہ اونٹوں پر جایا کرتے تھے، تو دلی کے ایک غلیل باز بھی حج کو گئے تھے۔ انہوں نے سن رکھا تھا کہ بعض دفعہ بدو لوگ قافلے کو لوٹ لیتے ہیں۔ یہ صاحب اپنے ساتھ غلیل بھی لیتے گئے تھے۔ سوء اتفاق سے ان کے قافلہ پر بدوؤں نے حملہ کر دیا۔ بڑے میاں نے اپنی غلیل کچھ فاصلے پر پھینک دی اور سب کے ساتھ کجاوے میں اتر آئے۔ جب بدو قافلے کو لوٹ کر گٹھریاں باندھنے میں مصروف ہوئے، تو بڑے میاں نے لٹیروں کے سردار کی پیشانی پر ایسا تاک کر غلہ مارا کہ وہ چلا کر گر پڑا۔ اب جو بھی چونک کر دیکھتا کہ یہ کیا معاملہ ہے اس کی کن پٹی پر غلہ لگتا اور وہ ڈھیر ہو جاتا۔

    جب کئی جوان لوٹ گئے تو بڑے میاں نے للکار کر کہا، ’’خیریت چاہتے ہو تو مال چھوڑ دو اور اپنے آدمیوں کو اٹھا کر لے جاؤ، ورنہ تم میں سے ایک بھی بچ کر نہیں جا سکےگا۔‘‘ بدؤں نے کچھ توقف کیا تو انہوں نے اتنی دیر میں دو ایک کو اور لٹا دیا۔ لہٰذا لٹیروں نے جلدی جلدی اپنے زخمیوں کو اٹھایا اور وہاں سے چمپت ہو گئے۔

    دلی میں ایسے بھی غلیل کے نشانہ باز کبھی تھے جو ایک غلہ ہوا میں اوپر مارتے اور جب وہ غلہ واپس آنے لگتا تو دوسرا غلہ اس پر مارتے اور دونوں غلے ٹوٹ کر ہوا میں بکھر جاتے۔

    مأخذ:

    دلی جو ایک شہر تھا (Pg. 85)

    • مصنف: شاہد احمد دہلوی
      • ناشر: فیاض رفعت
      • سن اشاعت: 2011

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے