aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دلی والوں کے شوق

شاہد احمد دہلوی

دلی والوں کے شوق

شاہد احمد دہلوی

MORE BYشاہد احمد دہلوی

    دلی والوں کو اپنی جان بنائے رکھنے کا بڑا شوق تھا۔ اس شوق کو پورا کرنے کے لئے ورزش کیا کرتے تھے اور ورزشی کھیلوں میں شریک ہوتے تھے۔ ہر گھر میں بگ ڈڑ اور مگدروں کی جوڑی ضرور ہوتے تھے۔ بعض لوگ بگ ڈڑ کا کام گما انٹیوں سے لیتے تھے۔ دیسی ورزش سے سینے چوڑے اور کمر چھلاسی ہو جاتی تھی۔ توند نکلنے نہیں پاتی تھی اور پیٹ چپاتی سا ہو جاتا تھا۔

    ورزش کا شوق دلی کے امیر غریب سبھی کو تھا۔ باریک اور چست لباس پہننے کا رواج تھا، اس لئے اپنے جسم کو سڈول بنانے کی دھن سب کو لگی رہتی تھی۔ پھنسے ہوئے انگرکھے اور چست پاجامے اسی وقت اچھے لگتے ہیں جب ڈنڑ، قبضے اور پنڈیاں بھری بھری ہوں۔ سرکنڈے سے ہاتھ پاؤں بھلا چکن اور ململ میں کیسے بھلے لگ سکتے ہیں؟ بلکہ ایسے سوکھے سہمے لوگوں پر تو ’’کاغذ کے پٹے باز‘‘ کی پھبتی کسی جاتی تھی۔

    گلی گلی اکھاڑے کھلے ہوئے تھے۔ ہر اکھاڑے کے لئے ایک استاد رکھا جاتا تھا جو عموماً کوئی بوڑھا پہلوان ہوتا تھا۔ شہر میں کئی تعلیمی اکھاڑے تھے جن میں فن کشتی کے ماہر اپنے پٹھے تیار کرتے تھے اور جمعہ کے جمعہ موتیا کھان میں دنگل ہوتا تھا۔ اس دنگل میں ان اکھاڑوں کے تربیت یافتہ پہلوانوں کی کشتیاں ہوا کرتی تھیں۔ چالیس پچاس سال پہلے تک دلی میں یہ اکھاڑے مشہور تھے۔

    گوندی شاہ والے، شیخو والے، بھوری والے، میراں شاہ والے، پیر والے اور تیلی والے محلوں میں جو اکھاڑے تھے ان کے استاد اکھاڑے میں آنے والوں کو طرح طرح کی ورزشیں بتایا کرتے تھے۔ یہ نہیں کہ اندھادھند ڈنڑ پیلنے پر لگا دیا۔ جی نہیں، کسی کا اوپر کا دھڑ کمزور ہے تو اسے کچھ ورزش بتائی اور کسی کا نیچے کا دھڑ کمزور ہے تو اسے کچھ اور۔ جسم کی خوبصورتی یہ ہے کہ سرے سے پاؤں تک سڈول ہو۔ تمام اعضا یکساں طور پر تیار ہوں۔ یہ نہیں کہ سینے پر تو گوشت آ گیا مگر ٹانگیں کھپچیاں سی دھری ہیں۔ یا پٹیں تو بھر گئیں مگر بازو سرکنڈے سے رہ گئے۔

    صبح شام اکھاڑے میں رونق ہوتی ہے۔ دیکھئے کوئی بگ ڈنڑ پر ڈنڑ پیل رہا ہے، کوئی سپاٹے سے بیٹھکیاں نکال رہا ہے۔ ایک سنتولا اٹھا رہا ہے تو دوسرا لیزم سے زور آزمائی کر رہا ہے۔ کوئی عشق اللہ لگا رہا ہے تو کوئی ڈھکیلیاں کھا رہا ہے۔ کوئی مگدر پھرا رہا ہے تو کوئی موگریوں کے ہاتھ نکل رہا ہے۔ اکھاڑے کی مٹی میں تیل ملا کر اکھاڑے کو دونوں وقت ہرا کیا جاتا ہے۔ اکھاڑہ کشادہ بنایا گیا ہے، ایک ہی وقت میں کئی کئی جوڑیں چھوٹی ہوئی ہیں۔ پہلے صرف زور ہو رہے ہیں۔ یہ اسے ریلتا ہوا لے جاتا ہے اور وہ اسے پیلتا ہوا لے آتا ہے۔ جب تک سانس نہ پھول جائے یہی ریل پیل رہےگی۔ دم لینے کے بعد ان کی پکڑ ہوگی۔ اتنے میں دوسری جوڑ لنگر لنگوٹا کس کر سامنے آ گئی۔ استاد نے کہا، ’’ہاں بھئی بسم اللہ‘‘ آمنے سامنے ہو کر دونوں نے ہاتھ ملائے، پھر اپنی پنی ران پر تھپکی دے دونوں گتھ گئے۔

    استاد کبھی ایک سے کہتے ہیں، ’’ابے سانٹیاں نکال۔‘‘ کبھی دوسرے سے کہتے ہیں، ’’ابے پڑا کا پڑا رہ گیا؟ ابے گدھا لوٹ لگا۔‘‘ لو وہ نیچے سے نکل آیا۔ دونوں پھر آمنے سامنے کھڑے ہو گئے۔ استاد نے کہا ابے پھٹا باندھ کر دھوبی پاٹ پر کھینچ لے۔‘‘ داؤں کچھ ادھورا رہا تو دوسرے سے بولے، ’’کھپچڑے چڑھالے۔‘‘ اس نے ایسی قینچی ڈالی کہ بس کر دیا۔

    استاد نے چیخ کر کہا، ’’ابے اس قلف کو کہنی کی کنجی سے کھول اور قلا جنگ لگا۔‘‘ لو میاں دیکھا؟ ابھی تو بالکل بے بس ہو رہا تھا یا اب دوسرے کے سینے پر چڑھا بیٹھا ہے۔ ہاں بھئی جس کا داؤں لگ جائے۔ یہ تو پھرتی کا کام ہے۔ نری طاقت بھلا کیا کرےگی؟ غرض پور پور داؤں ہو رہے ہیں۔ آپ چند نام سن لیجئے۔

    رک لنگڑی، چپڑاس، سکی، اندری باہر کی، اندری اندر کی، دکھنی اندری، کھسوٹا، دھوبی پاٹ، کھوکھا، غازبند، گھسا، کھڑا گھسا، مغلا، جھولی، دھڑ مارنا، روم مارنا، سانڈھی، الٹی پٹھی، سیدھی پٹھی، گل لپیٹ، ٹانگ لگانا، قینچی، کنگھی، پھرکی، لپیٹ، ڈھاک، مہرہ، کیلی، گدھا لوٹ، غوطہ، گوؤمکھ، اچھال، طباق پھاڑ، سواکری، قلا جنگ، ڈھیکلی، دیوبند، جھکائی، اکھیڑ میں بیٹھنا، بوجھا دینا۔

    اکھاڑے ہی میں ایک طرف تو پرانے وقتوں کا کنواں ہے۔ ڈول کھینچنا بھی ایک ورزش ہے۔ پسینہ خشک کرتے جاتے ہیں اور باری باری نہاتے جاتے ہیں۔ ایک پانی کھینچ کھینچ کر ڈول پہ ڈال رہا ہے۔ جب وہ نہا چکا تو اس نے دوسرے کو اسی طرح نہلایا۔ جانگئے اتار کر کپڑے پہن، استاد کو سلام کر اکھاڑے سے باہر نکلے اور سیدھے دودھ والے کی دکان پر جاکر سیر سیر بھر اونٹا ہوا دودھ پیا۔ پھر ٹہلتے ٹہلتے جامع مسجد چلے گئے اور چوک کی بہار دیکھی۔ یوں جسم اور صحبتیں بنی رہتی تھیں۔ جوان تو جوان بڈھوں تک کے چہروں پر چلوؤں خون نظر آتا تھا۔ سینے گوشت سے پسے ہوئے، ڈنڑ قبضے بنے ہوئے، رانوں کے مچھلے الٹے ہوئے، پنڈیاں کچالوسی بنی ہوئیں، اپنے پرائے کو دیکھ کر جی خوش ہوتا تھا۔ یا اب جوانوں کا یہ حال ہے کہ جس کو دیکھو کانپ ٹھڈے ٹوٹے ہوئے، کمان بنا قبر کے لئے جگہ تلاش کر رہا ہے۔ یہ جوانی اور مانجھا ڈھیلا!

    ورزشی کھیلوں میں کبڈی ایک ایسا کھیل تھا جس میں کچھ بھی خرچ نہیں ہوتا تھا۔ ہر محلے میں کہیں نہ کہیں تھوڑی سی کھلی جگہ ہوتی تھی۔ اس میں کبڈی کا پالا جمتا، جوڑیاں پگی جاتیں، دس بارہ نوجوان ایک طرف اور دس بارہ دوسری طرف ہو جاتے۔ بیچ میں پالا کھنچ جاتا، اب ایک طرف کا ایک جوان ’’ہل کبڈی‘‘ کا نعرہ لگا کر پالے سے آگے بڑھا، ادھر والے دور دور ہو گئے کہ یہ کسی کو چھو نہ لے، یہ ’’کبڈی کبڈی‘‘ کہتا ایک ایک کی طرف لپکتا ہے مگر کوئی ہاتھ نہیں آتا۔ اسے یہ بھی خیال ہے کہ کوئی پیچھے سے آکر پکڑ نہ لے، یا بیچ میں سانس نہ ٹوٹ جائے۔ چوکنا ہوکر لپکتا پھرتا ہے اور جب سانس ختم ہونے لگتا ہے تو واپس آ جاتا ہے۔

    اس کے پیچھے ہی دوسری طرف کا ایک نوجوان لپکتا ہے تاکہ پالا پھلانگتے ہی اسے چھولے مگر وہ تیتری بنا ہوا ہاتھ نہیں آتا۔ یہ صاحب گرم جوشی میں کچھ زیادہ ہی بڑھ آے۔ ادھر کے دو نوجوان اس کی اس چوک سے فائدہ اٹھاکر اس کے پیچھے آ جاتے ہیں اور کولی بھر کے اسے ادھر اٹھا لیتے ہیں۔ یہ بہتیرے ہاتھ پاؤں مارتا ہے، بھلا وہ کب چھوڑتے ہیں، ایک کی دوا دو۔ اس کا سانس ختم ہو جاتا ہے اور وہ مرکر الگ جا بیٹھتا ہے۔ جب دوسری طرف کا کوئی کھلاڑی مرےگا تویہ جی اٹھےگا۔ دونوں طرف کے مرتے جیتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک فریق کے سارے کھلاڑی مر جاتے ہیں اور وہ فریق ہار جاتا ہے۔ مغرب کی آندھی میں جہاں اور بہت سی کام کی چیزیں اڑ گئیں کبڈی بھی اڑ گئی۔ اس کی جگہ فٹ بال اور رگبی نے لے لی۔

    گیڑیاں کھیلنا بھی سستا اور ورزشی کھیل تھا۔ روپے کی چار من جلانے کی لکڑیاں آتی تھیں۔ من من بھر لے کر دو فریق میدان میں آ جاتے۔ بیچ میں پالا کھنچ جاتا۔ چھوٹی لکڑیاں پنچیاں کہلاتی تھیں۔ ایک فریق والے دوسرے فریق والوں کے آگے پنچیاں ڈالتے جاتے اور اس فریق کا ایک کھلاڑی دنچو سے، جو ایک موٹی بھاری لکڑی ہوتی ہے، پنچیوں پر اس طرح تاک کر ضرب لگاتا ہے کہ پنچی پالے کے پار چلی جاتی ہے۔ جب پنچی اوچھے وار کی وجہ سے پار نہ ہوتی تو دوسرے فریق کے پاس آ جاتی۔ آخر میں سنتا پہنایا جاتا اور ہارنے والوں کی ڈولیاں ہو جاتیں۔ اب گیڑیاں کہاں؟ اب تو ہیمرتھرو ہے۔

    گلی ڈنڈا گلیوں میں نہیں کھیلا جاتا تھا۔ قریب کے میدان میں گچی کھود لی جاتی۔ کھیلنے والوں کی دو ٹولیاں بن جاتیں۔ ایک ٹولی کھیلتی اور دوسری کھلاتی۔ گچی پر گلی رکھ کر ڈنڈے سے سیدھی اچھالی جاتی تھی۔ اگر کھلانے والوں میں سے کوئی لپک لیتا تو کھیلنے والا مر جاتا، ورنہ گچی کے پاس ڈنڈا رکھ دیا جاتا اور گلی تاک کر ڈنڈے کی طرف پھینکی جاتی۔ اگر ڈنڈے سے چھو جاتی تو کھلاڑی مر جاتا، ورنہ کھلاڑی تین انس لگاتا اور جہاں گلی پہنچ جاتی وہاں سے گچی تک اندازے سے لال مانگے جاتے۔ یہ ایک لال ڈنڈے کے برابر ہوتا تھا۔ فریق مخالف یا تو اس کے مطالبے کو منظور کر لیتا یا نامنظور کر کے گلی سے گچی تک ڈنڈے سے فاصلہ ناپتا۔ اگر لال کم رہ جاتے تو کھلاڑی مر جاتا۔

    پٹھو کی تعداد مقرر کرلی جاتی کہ سو لال کا ایک پٹھو ہوگا۔ جس کے پٹھو زیادہ ہوتے وہ فریق جیت جاتا۔ گلی ڈنڈا مغرب کی بھینٹ چڑھ گیا۔ اب تو کرکٹ ہے اور اسکواش۔ جب بلے ٹوٹ جاتے ہیں اور گیندیں پھٹ جاتی ہیں تو گردش ایام ماضی کی طرف لوٹ جاتی ہے اور میدانوں میں بچے گلی ڈنڈا کھیلتے نظر آتے ہیں۔

    گھروں میں گنجفہ، شطرنج، چوسر، پچیسی، تاش، نوکنکرا کھیلا جاتا تھا۔ شطرنج کے بعض ایسے کھلاڑی بھی تھے جو غائب کھیلتے تھے۔ ان کے سامنے شطرنج کی بساط اور مہرے نہیں ہوتے تھے۔ انہیں صرف یہ بتا دیا جاتا کہ حریف نے یہ چال چلی ہے، یہ فوراً کہہ دیتے ہماری طرف سے فلاں مہرا چل دو۔ ان کے ذہن میں شطرنج کا پورا نقشہ جما رہتا تھا۔ ادھر کئی کئی کھلاڑی لگے رہتے اور ادھر یہ صرف اکیلے ہوتے اور پھر جیت بھی انہی صاحب کی ہوتی۔

    شطرنج کے کھلاڑیوں کو بازیوں میں اس قدر انہماک ہوتا کہ انہیں دین دنیا کی خبر ہی نہ رہتی۔ ایک صاحب گھر سے اپنے بیمار بچے کی دوا لینے چلے۔ راستہ میں پھڑجما ہوا دکھائی دے گیا۔ پہلے کھڑے دیکھتے رہے، پھر خاموش نہ رہ سکے تو چالیں بتانے لگے۔ اس کے بعد بھی ضبط نہ ہو سکا تو ہارنے والے کھلاڑی کو ’’اماں ہٹو‘‘ کہہ کر ایک طرف کر دیا اور خود کھیلنے لگے۔ ایک بازی ختم ہوئی تو دوسری اور دوسری ختم ہوئی تو تیسری۔ غرض دوپہر ہونے کو آئی تو کسی محلے والے نے آکر اطلاع دی کہ بچے کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی ہے، دوا کا انتظار ہو رہا ہے۔ ’’ابھی آتا ہوں‘‘کہہ کر پھر چالوں میں گم ہو گئے۔ شام ہوتے اطلاع ملی کہ بچے کا انتقال ہو گیا۔ انا للہ کہہ کر نظر اٹھائی۔ بولے ’’اچھا بھئی کفن دفن کا انتظام کرو۔ بس یہ بازی ختم کر کے میں آیا۔‘‘

    ’’وہاں جنازہ تیار ہو گیا۔‘‘ بولے، ’’تم لے کر چلو میں آیا۔‘‘ پھر اطلاع ملی کہ دفنا بھی آئے بولے، ’’چلو اچھا کیا بچارا بہت تکلیف میں تھا۔‘‘ لوگوں نے کہا، ’’میاں اب تو گھر چلو۔‘‘ بولے، ’’جب مرنے والا ہی نہیں رہا تو اب میں جاکر کیا کروںگا؟ وہ اچھی جگہ ہے ہم بری جگہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ مغفرت کرے۔ یہ دن تو بھئی سبھی کے لئے آنے والا ہے۔

    موت سے کس کو رستگاری ہے

    آج وہ کل ہماری باری ہے

    ہاں صاحب آپ نے کیا چال چلی؟‘‘

    ایک صاحب گھر سے گوشت لینے نکلے۔ قصائی سے گوشت لے کر لوٹ رہے تھے کہ قضا عندا للہ راستے میں کسی بیٹھک میں شطرنج ہوتی دکھائی دے گئی۔ ٹھٹک کر کھڑے ہو گئے۔ جب بازی ختم ہوئی تو صاحب خانہ نے کہا، ’’آیئے میر صاحب آپ سے بھی ایک پکڑ ہو جائے۔‘‘ اندھا کیا چاہے؟ دو آنکھیں۔ جھٹ بیٹھ کر مہرے جمانے لگے۔ اب بازی پر بازی ہوئے چلی جا رہی ہے۔ دوپہر ہوئی، دن ڈھلا، رات ہوگئی۔ بیٹھک میں سڑاند اور بساند پھیلنے لگی۔

    ’’اماں یہ بدبو کہاں سے آ رہی ہے؟‘‘

    ’’کوئی چوہا ووہا تو نہیں مر گیا؟‘‘

    ادھر ادھر سونگھ کر ایک صاحب نے کہا، ’’بدبو، میر صاحب کے پاس سے آ رہی ہے۔‘‘ مگر میر صاحب ہیں کہ شطرنج میں غرق ہیں کسی نے انہیں ہلا جلا کر کہا، ’’اماں میر صاحب یہ بدبو کہاں سے آ رہی ہے؟‘‘ بولے، ’’ارے آرہی ہوگی کہیں سے۔ یہاں لاکھ روپے کی بازی لگی ہوئی ہے، اور تمہیں بدبو کی لگ رہی ہے۔‘‘ مگر بدبو اتنی ناگوار ہو چکی تھی کہ ناک نہیں دی جا رہی تھی۔ ایک صاحب نے اس کا سراغ لگا ہی لیا اور میر صاحب کی بغل سے پوٹلی کھینچ لی۔ ’’اماں میر صاحب یہ کیا ہے؟‘‘ میر صاحب نے چونک کر کہا، ’’اوہو گوشت ہے، سڑ گیا۔ اسے پھینک دو۔‘‘ یہ کہہ کر پھر کھیل میں لگ گئے۔

    چوسر کھیلنے ولے دانا اور پچیسی کھیلنے والے کوڑیاں شرطیہ پھینکتے تھے۔ یعنی جتنے کہو اتنے پھینک دیں۔ یہی حال تاش کا تھا۔ گڈی کو جتنا چاہے پھینٹ دیجئے مگر جب بانٹنے والا بانٹےگا تو اچھے اچھے پتے خود لے جائےگا۔

    یہ اور اسی قسم کے کھیل دیوان خانوں میں کھیلے جاتے تھے۔ یہ مردانہ گھر ہوتے تھے جن میں نہایت شائستہ صحبتیں ہوا کرتی تھیں۔ ہر محلے میں دوچار بڑے بڑے دیوان خانے ہوتے تھے جن میں رات کو احباب جمع ہوتے تھے۔ دل بہلانے اور وقت گزارنے کے لئے تمام کھیل کھیلے جاتے تھے۔ ان ہی دیوان خانوں میں کبھی کبھی شعروسخن کی محفلیں بھی ہوتیں، مصرعہ طرح پر مشاعرے ہوتے۔ دلی میں اس وقت کئی استاد تھے۔ استاد بیخودؔ، نواب سراج الدین احمد خاں سائلؔ، آغا شاعر، پنڈت امرناتھ ساحرؔ اور استاد حیدرؔ بہت مشہور تھے۔ انہی کے شاگردوں نے دلی کے چاروں کھونٹ داب رکھے تھے۔ مشاعروں میں پورے ادب آداب برتے جاتے تھے۔ بعد میں مشاعرے شاعروں کے اکھاڑے بن گئے تھے اور بھلے آدمیوں نے ان میں شریک ہونا چھوڑ دیا تھا۔ صرف سالانہ مشاعرہ پنڈت امرناتھ ساحرؔ کا ایک ایسا رہ گیا تھا جس کے لئے خاص انتظام و اہتمام کیا جاتا تھا۔

    پنڈت جی پنشن یافتہ تحصیل دار تھے۔ ستر سے اوپر ہو گئے تھے مگر صحت اچھی تھی اور کسی عیب میں نہیں تھے۔ لمبی سی چوری نما داڑھی، چغہ پہنتے تھے اور پگڑی باندھتے تھے۔ انہیں اردو سے عشق تھا۔ شہر میں سبھی ان کا احترام کرتے تھے اور ان کے مشاعرے میں نامی گرامی شعراء دور دور سے آکر شریک ہوتے تھے۔

    دیوان خانے کی ادبی نشست نواب خواجہ محمد شفیع دہلوی کے ہاں اتوار کے اتوار سہ پہر سے مغرب کے بعد تک ہوتی تھی۔ آخر میں ادیبوں اور شاعروں کا یہی ایک ٹھکانا رہ گیا تھا۔ کوئی معروف اور غیرمعروف ادیب یا شاعر ایسا نہیں تھا جس نے اس مجلس میں شرکت نہ کی ہو۔ حضرت خواجہ حسن نظامی سے لے کر استاد ہلال چغتائی تک سبھی شریک ہوتے تھے۔ استاد ہلال وہ تھے جنہیں مرزا غالبؔ نے ایک دن خواب میں آکر اپنا خلیفہ بنایا تھا۔ ان کے بے معنی شعروں اور ناموزوں مصرعوں سے سامعین بہت لطف اندوز ہوتے تھے۔ بولی ٹھولی اور فقرے بازی بھی اس مجلس میں خوب ہوتی تھی۔ خود خواجہ محمد شفیع صاحب بڑے پھبتی باز اور چرب زبان آدمی تھے۔ تھے کیا؟ ابھی ہیں۔ اللہ انہیں سلامت رکھے مگر مہاجرت نے ان کی خوش دلی بہت کچھ چھین لی اور لاہور میں کچھ گوشہ نشین سے ہو گئے ہیں۔

    دلی والوں کو تیرنے کا شوق تھا۔ تیراکی کے بھی دلی میں کئی استاد تھے۔ ان کی تعلیمیں مشہور تھیں۔ تیراکی جمنا میں سکھائی جاتی تھی، بعض باؤلیوں میں بھی سیکھتے تھے، مثلاً اگر سین کی باؤلی میں۔ بعض لوگ کہتے تھے کہ یہ اگرسین نہیں اصغر حسین کی باؤلی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ اکثر نام بگڑ کر کچھ کے کچھ ہو گئے تھے۔ مثلاً بوعلی بختیاری کا نام بھوری بھٹیاری بن گیا تھا اور شاہ ابوالعلی کا شاہ بولا بن گیا تھا۔

    ہاں تو ڈھائی ڈھوئی کا مینہہ برسا، ندی نالے چڑھ گئے۔ جمنا لبالب کناروں تک بھر گئی۔ تیراکی کے میلے کی تاریخ مقرر ہو گئی۔ شاہی کی تو کچھ اور ہی شان تھی۔ بھلا جس کام کی سرپرستی بادشاہ خود کریں اس میں رونق اور برکت کیوں نہ ہو؟ شہر کا شہر امنڈ کر میلے میں آ جاتا۔ تہہ بازاریاں لگ جاتیں۔ بادشاہ اور شہزادے جمنا کے رخ سمن برج (مثمن برج) اور دیوان خاص کے صحن میں آ بیٹھتے۔ بیگمات اور شہزادیاں محلوں کے جھروکوں میں سے سیر دیکھتیں۔ جمنا اس زمانے میں قلعہ سے لگی لگی بہتی تھی۔ ٹولیاں کی ٹولیاں جمنا میں اترتیں اور اپنے اپنے کمالات دکھاتیں۔ کوئی پانی پر چت لیٹا ہے، کوئی پالتی چڑھائے بیٹھا ہے۔ کوئی کھڑی لگا رہا ہے کوئی شیر کی تیرائی تیر رہا ہے۔ کوئی گٹھری بنا بہا چلا آتا ہے، کوئی مردے کی طرح تختہ بنا ہوا ہے۔ وزیرآباد سے تیراک چھوٹتے اور جمنا کے پل پر آکر دم لیتے۔ بادشاہ کی طرف سے اچھے تیراکوں کو انعام ملتا۔ یہ میلہ اب تک ہوتا تھا مگر وہ دھوم دھام بادشاہ کے دم کے ساتھ گئی۔ سیکڑوں قسم کی تیرائی تھی چند نام آپ بھی سن لیجئے۔

    کھڑی، ملاحی، ٹنگڑی، مورچال، شیرپانی، بھیڑ یا پانی، کھڑی ملاحی، ہاتھ پھینک ملاحی، چت پٹ، چراغ، گٹھری، دوڑ بھاگ، سن، کشتی، غوطہ، اکوائی، دو ٹنگڑی، آلتی پالتی، فیل، رقص، پیر دکھائی، دست بند، فلک رو، کٹورا، دھارا، بغل گیر، آنکھ مچولی، تہہ آب، پانی چیر، مگرمچھ، الٹی پلٹی، نماز، پلنگ، نوک جھونک، داؤپیچ، شمشیر۔

    دلی کے پتنگ باز بھی مشہور تھے۔ بڑے بڑے ہاتھ لگتے تھے۔ قلعہ والوں اور شہر والوں کی تکلیں لڑتیں۔ اس موقع کے لئے دنوں پہلے سے اہتمام کیا جاتا تھا۔ کانپ ٹھڈے بڑی محنت سے تیار کئے جاتے، مانجھے سونتے جاتے، ذرا ڈور سے ڈور ملی اور ایک نہ ایک کٹی، لو وہ دو تکلوں کے منہ ملے اور دونوں نے ڈھیل دینی شروع کر دی۔ دونوں نے سیروں ڈور پلا دی۔ تکلیں تارا ہو گئیں۔ اب چٹکی ہی سے تکل کی کیفیت معلوم ہو رہی ہے۔ ایک نے ذرا پٹیا چھوڑا کہ دوسری نے وہیں غوطہ مارا۔ ’’وہ کاٹا وہ کاٹا‘‘ کا شور مچ گیا۔ کٹی ہوئی تکل کی ڈور ہاتھ پر سے توڑ دی گئی اور لوٹنے والوں نے جھٹ ساری ڈور لوٹ لاٹ انٹیاں بنا لیں۔ اس دن اس کثرت سے گڈیاں اڑتیں کہ آسمان پٹ جاتا۔

    دمڑچل، دھیل چل، پیسیل، ادھا، کلڈما، للڈما، چپ، بری، شکر پارہ، پٹیئل، بھیڑیا، کلیجہ جلی، سیکڑوں قسم کی گڈیاں اڑتیں۔ کوئی ڈھیل دے کر کاٹتا، کوئی کھنچائی کرتا، کسی کی دال چپو ہو گئی، کوئی ایچم کئے لئے جاتا ہے، کوئی اپنی نوشیرواں پتنگ پر پھولا نہ سماتا۔ غرض دن بھر خوب لطف رہتا۔ ایسے پتنگ باز دلی میں اب تک موجود تھے جو پتنگ میں گجرا لٹکا کر اڑاتے اور پتنگ کو غوطہ دے کر جس کے گلے میں گجرا ڈالنا چاہئے ڈال دیتے، اور رات کو پتنگ میں قندیل باندھ کر اڑانا تو ایک عام بات تھی۔

    مأخذ:

    دلی جو ایک شہر تھا (Pg. 94)

    • مصنف: شاہد احمد دہلوی
      • ناشر: فیاض رفعت
      • سن اشاعت: 2011

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے