Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

فیض اور کلاسیکی غزل

شمس الرحمن فاروقی

فیض اور کلاسیکی غزل

شمس الرحمن فاروقی

MORE BYشمس الرحمن فاروقی

    فیض کی غزل کا تذکرہ کرتے وقت عام طور پر جو بات سب سے پہلے کہی جاتی ہے، وہ یہ ہے کہ فیض نے کلاسیکی علامات کو نئے معنی اور نئی معنویت عطا کی۔ یہ بھی کہا گیا کہ فیض کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ ان کے طریق کار میں ہے، جس کے باعث ان کے پانو کلاسیکی زمین میں مضبوط جمے رہے، لیکن انہوں نے اس بنیاد پر جو عمارت قائم کی اس کی دیواریں نئے ذہن کے نئے مسائل سے مستفیض تھیں۔ میں فی الحال اس بات سے بحث نہ کروں گا کہ دار، رسن، قاتل، واعظ، کوے یار وغیرہ قسم کے الفاظ علامت ہیں بھی کہ نہیں۔ ہماری کلاسیکی غزل علامت کے تصور سے ناآشنا تھی۔ اس لیے یہ بات قرین قیاس نہیں کہ جس چیز کا تصور بھی ہماری شعریات میں نہ رہا ہو، اس کا نہ صرف وجود ہو بلکہ ہمارے شعرا اس سے واقف بھی ہوں۔

    مغربی اصطلاحات و تصورات پر مبنی کچی پکی معلومات کی روشنی میں اردو ادب کی تفہیم و تحسین کی جو کوششیں ہمارے یہاں ہوئیں وہ اکثر نامشکور ہی رہی ہیں۔ اردو غزل میں علامت کا وجود ثابت کرنے کی سعی انہیں ناکام کوششوں کی فہرست میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔ خیر، اس مسئلے پر مزید گفتگو نہ کرکے میں صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ فیض کی غزل بے شک ان رسومیاتی الفاظ او رتلازمات سے مزین ہے جو ہماری کلاسیکی شاعری کا نمایاں وصف ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا فیض کی کلاسکیت اور ان کا اجتہاد صرف اسی بات میں ہے کہ انہوں نے کوے یار میں رقیب اور شیخ شہر سے نبرد آزمائی کو عار نہ جانا؟ اس سوال کی چھان بین صرف اس لیے ضروری نہیں ہے کہ فیض کی شاعری یوں بھی خاصے محدود دائرے اور مقصود کی شاعری ہے اور ان کے مداحوں کا ارشاد کہ فیض کی کلاسکیت محض ان چند الفاظ و تلازمات کو نئے معنی دینے تک محدود ہے، تعریف کے پردے میں ان کی مذمت ہی ہے۔

    اس سوال کی چھان بین اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس کے ذریعہ کلاسیکی غزل کے بعض بنیادی پہلوؤں پر بھی روشنی پڑ سکتی ہے۔ اور ایک بات یہ بھی ہے کہ فیض کی موت کے بعد پاکستان میں بعض لوگوں نے فیض کو سچا مسلمان، عاشق رسول اور اہل دل صوفی بھی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے لہٰذا عجب نہیں کہ کچھ دنوں میں فیض کو کلاسیکی صوفی شاعر بھی تسلیم کر لیا جائے اور اس طرح ان کا اصلی ادبی کارنامہ صرف دار ورسن اور قیس و فرہاد کی صوفیانہ یاد تازہ رکھنے تک محدود قرار دیا جائے۔

    سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر کوئی شاعر قدیم الایام سے چلے آنے والے رسومیاتی الفاظ استعمال کرتا ہے لیکن وہ خود جدید زمانے کا شاعر ہے، تو ہم کس بناپر یہ فیصلہ کریں گے کہ اس نے ان الفاظ کو نئے معنی دیے ہیں؟ مثال کے طور پر یہ دو شعر ہیں۔

    نہ سوال وصل نہ عرض غم نہ حکایتیں نہ شکایتیں

    ترے عہد میں دل زار کے سبھی اختیار چلے گئے

    قتل عاشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا

    پر ترے عہد کے آگے تو یہ دستور نہ تھا

    پہلا شعر ظاہر ہے کہ فیض کا ہے اور دوسرا درد کا۔ آپ کس بناپر فیصلہ کریں گے کہ پہلے شعر میں سیاسی جبر کی طرف اشارہ ہے اور دوسرے شعر میں معشوق کے جور کی طرف؟ اگر آپ یہ کہیں کہ دونوں اشعار میں سیاسی جبر کی طرف اشارہ ہے تو فیض کی انفرادیت پر ضرب پڑتی ہے، کیونکہ اس سے تو یہ معلوم ہوا کہ غزل کے رسومیاتی مضامین و الفاظ کو سیاسی معنی میں برتنا فیض کا کوئی اختصاص نہیں۔ اور اگر آپ یہ کہیں کہ فیض کے شعر میں سیاسی جبر کی طرف اشارہ اس لیے ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ وہ ترقی پسند تھے، انقلابی تھے، وغیرہ، تو اس کے معنی تو پھر یہ ہوئے کہ ان رسومیاتی الفاظ کی اپنی کوئی حیثیت نہیں، ان کے معنی شاعر کے لحاظ سے بدلتے رہتے ہیں۔ اگر شاعر شیعہ ہے تو ان کے معنی شیعی ہیں۔ اگر شاعر سنی ہے لیکن اہل حدیث ہے تو ان کے معنی سنی اہل حدیثی ہیں وغیرہ۔ ظاہر ہے اس طرح فیض کی انفرادیت پھر خطرے میں پڑ جاتی ہے۔

    ممکن ہے یہ کہا جائے کہ فیض چونکہ ترقی پسند تھے، اس لیے جب وہ کسی کے عہد میں دل زار کے سبھی اختیارات کے چلے جانے کی بات کرتے ہیں تو اس میں وزن ہی اور ہوتا ہے، اس میں حسن ہی اور ہوتا ہے۔ لیکن اس کے معنی تو ہیں کہ ہر شعر کی خوبی خرابی کے بارے میں فیصلہ کرنے کے پہلے ہم شاعر کے سیاسی عقائد معلوم کریں۔ ظاہر ہے کہ شعر کے وہ معنی جو شاعر کے عقائد کے بارے میں معلومات حاصل کیے بغیر برآمد ہی نہ ہو سکیں، بالآخر باطل ہی ٹھہریں گے۔ کیونکہ اول تو تمام شاعروں کے سیاسی عقائد کے بارے میں معلومات نہیں بلکہ بعض اوقات تو شاعر کا نام بھی معلوم نہیں۔

    اور دوسری بات یہ کہ اگر شعر کا حسن یا معنی ان اطلاعات پر منحصر و مبنی ٹھہرائے جائیں جو شعر کے باہر ہیں تو پھر ہمیں یہ کہنا پڑےگا کہ خود شعر میں کوئی معنی نہیں ہوتے۔ ایسی صورت کو تسلیم کرنے کے بعد تنقید و تفہیم کے سب دروازے بند ہو جائیں گے اور خود فیض کی تمام شاعری معرض خطر میں آ جائےگی۔ کیونکہ وہ انقلابی اور ترقی پسند وغیرہ تھے اس لیے ان کے کلام کو سیاسی معنی پہنانے میں ایک طرح کا لطف ہے۔ ورنہ یہی شعر انہوں نے اگر درد کے زمانے میں یا غالب کے زمانے میں کہے ہوتے تو انہیں کوئی گھاس نہ ڈالتا۔

    ایک بات یہ کہی جا سکتی ہے کہ فیض کا بڑا کارنامہ دراصل یہ ہے کہ انہوں نے کلاسیکی اصطلاحاتی الفاظ کو دوبارہ زندہ کیا اور انہیں غزل میں مقبول کیا۔ ورنہ فیض کے زمانے میں یہ سب خوبصورت الفاظ یا تو ترک ہو چکے تھے یا اپنے معنی کھو چکے تھے۔ اس جواب میں دو مشکلیں ہیں۔ یہ بیان مخدوش ہے کہ دارورسن، قفس و نشیمن وغیرہ الفاظ کسی بھی وقت اپنے معنی کھو سکتے ہیں۔ یہ الفاظ دراصل ایک پورے رسومیاتی نظام کا حصہ ہیں اور ان پر غزل کی دنیا کے تمام مفروضوں کا دارومدار ہے۔ جب تک وہ رسومیاتی نظام اور وہ مفروضات باقی ہیں، یہ الفاظ اپنے معنی نہیں کھو سکتے۔ یہ ناممکن ہے کہ کوئی رسومیاتی لفظ مثلاً ’’جوروستم‘‘ میر کے شعر میں بامعنی ہو اور آج کے زمانے کے شعر میں بے معنی ہو۔ ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ’’جوروستم‘‘ قسم کے رسومیاتی الفاظ اپنی دل کشی اور تازگی کھو سکتے ہیں۔ لیکن ہمارا دعوا دراصل یہ ہے کہ دراصل یہ الفاظ اپنی دل کشی اور تازگی کھو چکے تھے، فیض نے انہیں دوبارہ دل کشی اور تازگی عطا کی۔

    پھر سوال اٹھے گا کہ فیض نے یہ کارنامہ کیونکر انجام دیا؟ آپ جواب دیں گے کہ فیض نے انہیں سیاسی معنی عطا کیے۔ لیکن وہی مشکل پھر آن کھڑی ہوگی کہ فیض کے شعر میں سیاسی معنی کی دریافت اس معلومات پر مبنی ہے کہ فیض سیاسی اور انقلابی شخص تھے۔ یعنی اگر ہم ع پر ترے عہد کے آگے تو یہ دستور نہ تھا، والا شعر فیض کے کلیات میں پڑھتے تو اس میں سیاسی اور انقلابی معنی دریافت کرتے اور اگر اسے درد کے دیوان میں پڑھتے تو اسے محض عشقیہ شعر سمجھتے۔ لہٰذا کلاسیکی رنگ و آہنگ والے الفاظ میں جو دل کشی اور تازگی ہم فیض کے شعر میں دیکھتے ہیں وہ اس وجہ سے کہ ہم جانتے ہیں کہ فیض کے کچھ سیاسی عقائد تھے یعنی فیض نے ان میں کوئی شاعرانہ خوبی نہیں پیدا کی، یہ تو محض ان کی سیاست کا کرشمہ تھا۔

    ظاہر ہے کہ یہ نتیجہ مجھے قبول نہیں۔ اس وجہ سے قبول نہیں کہ میں اسے غلط سمجھتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ کلاسیکی رنگ و آہنگ والے الفاظ ہمارے زمانے میں فیض کے علاوہ دوسرے بہت سے شاعروں نے استعمال کیے ہیں اور وہ فیض کے ہم خیال و ہم عقیدہ بھی تھے لیکن ان کے یہاں ان الفاظ میں وہ حسن نظر نہیں آتا جو فیض کے یہاں ہے۔ لہٰذا فیض کی عظمت اس بنیاد پر نہیں قائم ہو سکتی کہ انہوں نے غزل کے کلاسیکی عشقیہ رسوماتی الفاظ کو سیاسی معنی دیے۔ یہ صفت تو مخدوم، مجروح، ساحر، غلام ربانی تاباں بہتوں کے یہاں ہے۔ ان میں سے کوئی بھی فیض کا مدمقابل نہیں۔

    اگر یہ کہا جائے کہ نئے معنی کی دریابی کے اس عمل میں فیض کو اولیت حاصل ہے، تو یہ بھی درست نہیں۔ ترقی پسندوں میں سب سے پہلے مخدوم نے غزل کو باقاعدہ طور پر اختیار کیا اور سیاسی موضوعات کو غزل میں برتنے کی رسم حسرت موہانی، محمد علی جوہر اور اقبال نے قائم کی۔ ’’دست تہ سنگ‘‘ کے دیباچے میں فیض نے حسرت موہانی کا ذکر کیا ہے۔ اس دیباچے میں انہوں نے لکھا ہے کہ ان کی شاعری کا آغاز ۱۹۲۸ کے آس پاس ہوا۔ اس وقت محمد علی جوہر زندہ تھے اور ان کی سیاسی غزل ایوان ادب میں گونج رہی تھی۔ حسرت کا دبدبہ بطور غزل گو پوری طرح قائم ہو چکا تھا اور اقبال نئے شعرا (بشمول جوش) کے لیے آئیڈیل کی حیثیت رکھتے تھے۔ خود فیض نے اقبال کا جو مرثیہ لکھا ہے وہ ترقی پسند شعرا کی ممتاز نظموں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا فیض کے سامنے غزل کی ایسی مثالیں وافر تھیں جن میں سیاسی موضوعات کو برتا گیا تھا۔

    اس تجربے کی روشنی میں کہنا پڑتا ہے کہ فیض کی غزل میں کلاسیکی رنگ کے حسن و خوبی کا سراغ اس بات سے نہیں لگ سکتا کہ انہوں نے بعض رسومیاتی الفاظ کو بڑی کثرت سے برتا اور ان میں سیاسی معنی داخل کیے۔ تنقید کی دنیا میں یہ مشکل اکثر پیش آتی ہے کہ ہم خوبی کا پتا تو لگا لیتے ہیں، لیکن اس کی وجہ دریافت کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ مرے کریگر MURRAY KRIEGER نے اپنی کتاب THEORY OF CRITICISM میں اس نکتے کو بڑی خوبی سے واضح کیا ہے۔ وہ کہتا ہے،

    ’’اگر ہمیں کوئی ایسا تجربہ حاصل ہو جسے ہم ’’جمالیاتی‘‘ کے لفظ کے ذریعہ بیان کریں تو یہ قرین قیاس ہے کہ ہم اس تجربے کی علت اس شے میں تلاش کرنے کی کوشش کریں گے جس سے ہمیں یہ تجربہ حاصل ہوا ہے اور پھر اس طرح ہم اس شے کو جمالیاتی قدر کا حامل بتائیں گے۔ لیکن بطور نقاد کے ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ وہ جمالیاتی علت ہم میں ہے یا واقعی اس شے میں ہے؟ قطعی لغوی طور پر تو یقیناً یہی کہا جائےگا کہ اس جمالیاتی تاثر کا سرچشمہ ہمارے ہی اندر ہوگا کیونکہ ایسے لوگ بھی ہیں جو اس شے کا سامنے کرنے پر وہ تاثر حاصل نہیں کرتے۔۔۔ کیا کسی شے میں کوئی ایسی جمالیاتی خاصیت ہوتی ہے، جسے ہم محسوس کرتے ہیں (یا ہم کو جسے محسوس کرنا چاہیے؟) اگر ہم نے وہ جمالیاتی خاصیت دریافت کر لی ہے اس طرح کہ ہمارا تجربہ (جس حدتک وہ جمالیاتی ہے) اس خاصیت کے تعلق سے مناسب اور صحیح تاثر ہے، تو پھر ہمیں اس خاصیت کی وضاحت کرنے اور اس کو بیان کرنے پر اپنے جمالیاتی تجربے سے مشابہ تجربے کو دوسرے قارئین تک پہنچانے پر قادر ہونا چاہیے۔‘‘

    آگے چل کر کریگر کہتا ہے کہ نقاد کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ تجربے کے اندر شے OBJECT IN EXPERIENCE اور شے کا تجربہ EXPERIENCE OF OBJECT میں فرق کر سکے۔ یعنی وہ یہ بتا سکے کہ شعر میں جو خوبی وہ دیکھ رہا ہے، وہ اس کے دماغ کی اختراع نہیں ہے اور اس خوبی کے بیان کے ذریعہ یہ حکم لگایا جا سکے کہ جن شعروں میں یہ خوبی ہوگی ان سے فلاں قسم کا تجربہ حاصل ہو سکےگا۔ اگر کسی نظم کے تجربے کو اس طرح بیان کیا جائے کہ اس کے مختلف اجزا اپنی شخصیت کو برقرار رکھیں تو پھر ان اجزا کی یہ خصوصیت مشکوک ہو جاتی ہے کہ ان کے ذریعہ ایک متحد اور خود مکتفی UNITED اور SELF ENCLOSING تجربہ حاصل ہو سکتا ہے۔

    فیض کی کلاسکیت کی تحسین کرنے والوں کی یہی مشکل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ فیض کی غزل میں الفاظ الگ ہیں اور ان کے سیاسی معنی جو فیض کے عقائد نے ان میں داخل کیے ہیں، وہ الگ ہیں۔ کیونکہ انہیں الفاظ میں انہیں وہی سیاسی معنی تو مجروح اور دوسروں کے یہاں بھی ہیں لیکن فیض کے علاوہ کسی میں وہ بات نہیں۔ لہٰذا وہ اس بات کو واضح کرنے میں ناکام رہتے ہیں کہ وہی نسخہ جو فیض کے یہاں کارگر ہے، دوسروں کے یہاں بے فیض کیوں رہ جاتا ہے؟

    اس سوال کو حل کرنے کے لیے مزید دو شعروں کی روشنی میں بعض نکات کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرتا ہوں۔ پہلا شعر کا حافظ ہے اور دوسرا، ظاہر ہے کہ فیض کا،

    عقاب جو رکشا داست بال برہمہ شہر

    کمان گوشہ نشینے و تیر آہے نیست

    بیداد گروں کی بستی ہے یاں داد کہاں خیرات کہاں

    سر پھوڑتی پھرتی ہے ناداں فریاد جو در در جاتی ہے

    اس بات سے قطع نظر کہ حافظ کا شعر بہت اعلا درجہ کا ہے اور فیض کا شعر ان کے اچھے اشعار میں نہیں، پوچھنے کا سوال یہ ہے کہ ہم یہ فیصلہ کس طرح کر سکتے ہیں کہ حافظ کا سیاسی نہیں ہے اور فیض کا شعر سیاسی ہے؟ پھر کیا ہم یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ فیض کا شعر اگرچہ حافظ کے شعر سے بہت پست ہے لیکن اس لیے قابل تعریف ہے کہ اس میں سیاسی پہلو ہے یا سیاسی پہلو بھی ہے؟ (یعنی اور کسی پہلو کے علاوہ سیاسی پہلو بھی ہے) کیا سیاسی شاعری کے لیے ایسے اصول مقرر ہو سکتے ہیں جن کی روشنی میں ہم سیاسی کو غیرسیاسی شاعری سے الگ کر سکیں؟ یعنی کیا یہ ممکن ہے کہ ہم دکھا سکیں کہ غیرسیاسی شاعری پر مبنی رسومیات کی پابندی کرتے ہوئے بھی سیاسی شاعری ہو سکتی ہے، کیونکہ وہ رسومیات CONTEXT NEUTRAL ہے، یعنی کیا یہ ممکن ہے کہ کسی رسومیاتی نظام کو ہم پوری طرح برتیں، لیکن اس کے جو معنی نکلیں وہ غیررسومیاتی ہوں؟

    ان تمام سوالوں کے جواب مہیا کرنے کے لیے ایک دفتر چاہیے۔ میں اس وقت صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ حافظ کا شعر سیاسی معنی کا متحمل ہو سکتا ہے، لیکن ہم اس کو سیاسی نہیں کر سکتے، کیونکہ اس میں سے سیاسی معنی جو ہم برآمد کریں گے ان کا تعلق شعر کی SIGNIFICATION سے ہوگا، اس کے اصل معنی سے نہیں اور یہ استعارے کی خوبی ہے کہ وہ SIGNIFICATION کے لیے دروازے کھول دیتا ہے۔ ہمارے پاس کوئی ایسا پیمانہ بھی نہیں جس کے اعتبار اس شعر کو غیرسیاسی قرار دیں لیکن ہمارے پاس کوئی ایسا پیمانہ بھی ہے جس کے اعتبار سے ہم اس کو محض سیاسی قرار دیں؟ شعر کی معنویت اس کے معنی کا حصہ ہوتی ہے لیکن اس کے معنی کا دائرہ اس کی معنویت سے چھوٹا بھی ہو سکتا ہے۔ فیض کا شعر حافظ کے شعر کے مقابلے میں کم کارگر ہے، اگرچہ اس میں بھی سیاسی معنویت ہے۔ کم کارگر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی معنویت جس معنی پر قائم ہے وہ حافظ کے شعر کے معنی سے کم ہے۔ معنی کے کم ہونے سے میری مراد یہ ہے کہ حافظ کے شعر میں چار استعارے اور چار پیکر ہیں۔ یعنی جو استعارے ہیں وہی پیکر بھی ہیں۔ عقاب، جور، بال کشادست برہمہ شہر، کمان گشہ نشینے و تیرآہے۔ پھر دو چیزوں کا ہونا (جو پہلے مصرعے میں بیان ہوئیں ہیں) دو چیزوں کے نہ ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ فیض کا شعر ان خوبیوں سے خالی ہے۔

    فیض نے جہاں کلاسیکی اسلوب کو کامیابی سے برتا ہے وہاں کیفیت یا مضمون آفرینی کی کارفرمائی ہے۔ ورنہ سیاسی پہلو یا فلسفیانہ پہلو یا عشقیہ پہلو کسی میں کوئی ایسی خوبی فی نفسہ نہیں جو شاعرانہ خوبی سے ضامن ہو سکے۔ بات فیض کی غزل کی ہو رہی تھی، لیکن انہوں نے اکثر نظموں میں بھی غزل کا اسلوب اختیار کیا ہے۔ اس لیے میں ’’ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے‘‘ کے پہلے دو مصرعے پیش کرتا ہوں۔ پھر فارسی کا ایک شعر جو مخلص کاشی کا ہے۔

    تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم

    دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے

    مخلص کاشی کہتا ہے،

    در روزگار عشق تو ماہم فدا شدیم

    افسوس کز قبیلۂ مجنوں کسے نہ ماند

    مضمون آفرینی اور کنایاتی اندازِ بیان کی تمکنت نے فارسی کے شعر کو یادگار بنادیا ہے۔ فیض کے یہاں رعایت تضاد موجود ہے، لیکن مضمون کی پیش پا افتادگی نے فیض کے یہاں تمکنت کے بجائے SELFPITY پیدا کردی ہے جہاں مضمون آفرینی ہوتی ہے وہاں SELFPITY نہیں ہوتی۔ جہاں کیفیت ہوتی ہے وہاں SELFPITY کا خطرہ ہوتا ہے۔ فیض ہمارے ان جدید شعرا میں ہیں جنہیں ان کلاسیکی اصطلاحوں اور تصورات کی اہمیت کا احساس تھا۔ ان میں سے بعض پر انہوں نے ایک مضمون بھی لکھا ہے۔ ہم لوگوں نے مغربی تعلیم کے زیر اثر ان اصطلاحوں سے بے گانگی اختیار کر لی تھی۔ جب ہمارے ذوق سلیم نے فیض کی غزل میں کلاسیکی رنگ محسوس کیا تو اس کی وجہ دریافت کرنے کی مہم میں ان اصطلاحوں اور تصورات سے مدد نہ لے سکے۔ لہٰذا ہم صرف یہ کہہ کر رہ گئے کہ فیض نے شیخ، برہمن، واعظ، کوےیار، رقیب، منزل، دار، رسن وغیرہ کلاسیکی رسومیاتی الفاظ کو نئے معنی میں استعمال کیا ہے۔ فیض کے بہت سے عمدہ اشعار میں رسومیاتی الفاظ نہیں ہیں، پھر ان کی کامیابی کا راز کیا ہو سکتا ہے؟ اس فہرست میں فیض کے بعض مشہور ترین اشعار بھی ہیں،

    وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا

    وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے

    جدا تھے ہم تو میسر تھیں قربتیں کتنی

    بہم ہوئے تو پڑی ہیں جدائیاں کتنی

    ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد

    پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد

    وہی چشمۂ بقا تھا جسے سب سراب سمجھے

    وہی خواب معتبر تھے جو خیال تک نہ پہنچے

    فیض نے غزل میں کلاسیکی رنگ کو جس طرح زندہ کیا وہ ہماری شاعری کا ایک روشن باب ہے۔ ان کی غزل میں اردو غزل کی وہ تہذیب بول رہی ہے جس میں مضمون آفرینی اور کیفیت کا عمل دخل تھا۔ فیض کے یہاں کیفیت کا جادو نظموں میں بھی بڑھ چڑھ کر بولتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ غزل کی تہذیب کے پس منظر میں فیض کا مطالعہ ازسرنو کیا جائے۔

    مأخذ:

    انداز گفتگو کیا ہے (Pg. 116)

    • مصنف: شمس الرحمن فاروقی
      • ناشر: مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 1993

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے