Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

غالب کی بت شکنی

سیداحتشام حسین

غالب کی بت شکنی

سیداحتشام حسین

MORE BYسیداحتشام حسین

    انسانوں نے ہمیشہ خواب دیکھے ہیں اور ہمیشہ دیکھتے رہیں گے، اپنے سینوں کو تمناؤں سے ہمیشہ معمور کیا ہے اورہمیشہ معمور کرتے رہیں گے اور اگر ان امنگوں، خواہشوں، خوابوں اور تمناؤں کا تجزیہ کیا جائے تویہ بات بہت جلد ذہن پر نقش ہوگی کہ ہر شخص اپنے حوصلے کے لحاظ سے اور اپنے سہارے کی ضرورت کے مطابق ایک یا کئی بت بنا لیتا ہے اور انہیں پوجتا ہے۔ کبھی کبھی اسے تنہا پوجنے سے سیری نہیں ہوتی اور دوسروں کو بہ جبریا بہ ترغیب اپنے ساتھ شریک کرنا چاہتا ہے تاکہ اس کی بت پرستی ایک ذاتی تو ہم نہ معلوم ہو بلکہ عقل کا فیصلہ نظر آنے لگے۔

    یہ چیز انفرادی سے بڑھ کر اجتماعی بھی ہو سکتی ہے۔ دوسرے لوگ اور دوسرے گروہ اپنے لئے دوسرے بت بناتے اور انہیں پوجتے ہیں۔ پھر یہی نہیں بلکہ دوسروں کے بتوں کو توڑنا بھی چاہتے ہیں۔ اس طرح بت بنتے بھی رہتے ہیں اور ٹوٹتے بھی اور کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے پجاری اپنے ہی بنائے ہوئے بت کو توڑنا چاہتا ہے تاکہ اس سے بہتر بت بنائے، یہ جذبہ کبھی گھبراہٹ کا نتیجہ ہوتا ہے اور کبھی غور وفکر کا۔ دل اور دماغ میں کشمکش پیدا ہوتی ہے اور پجاری ہمت سے کام لیتا ہے توبت شکن بن جاتا ہے۔ یہ ایک بہت بڑی کہانی کی اشاراتی تصویر ہے، اسے ہر شخص چھوٹے یا بڑے پیمانے پر اپنی زندگی میں دہراتا ہے اور ہر قوم اپنی تاریخ میں دہراتی ہے۔ اس طرح بنتی بگڑتی زندگی آگے بڑھی جاتی ہے۔

    غالبؔ نے بھی بت پوجے اور بت شکنی کی۔ بت پرستی اور بت شکنی کا یہ حوصلہ پوری طرح نکلا یا نہیں، یہ تو نہیں معلوم لیکن اتنا معلوم ہے کہ انہیں ناکردہ گناہوں کی حسرت کی داد پانے کی تمنا بھی تھی اور گناہوں پر فخر کرنے کا حوصلہ بھی تھا۔ ان کی انفرادیت تمام بتوں کو توڑ پھینکنا چاہتی تھی اور انہوں نے انہیں توڑا بھی لیکن ان کی راہ میں خود ان کی ذات حائل تھی جو حسرت ویاس کا مجسمہ ہونے کے باوجود انہیں بے حد عزیز تھی۔

    تاب لائے ہی بنے گی غالبؔ

    واقعہ سخت ہے اور جان عزیز

    رسم و رواج، پندار عبادت، زہد ریائی، نمائشی دینداری، روایت پرستی، تقلیدی عشق بازی، سب کے بت ایک ایک کرکے توڑ چکنے کے بعد غالبؔ کو ناکامی کا جو احساس ہوا، اسے انہوں نے یوں بیان کیا ہے،

    ہرچند سبک دست ہوئے بت شکنی میں

    ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہیں سنگ گراں اور

    یہ ہم کائنات کی بڑی اہم خصوصیت ہے۔ برکلے کے لئے کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنے مکالمات میں مادہ کی نفی اس مدلل انداز میں کی تھی کہ جب ڈاکٹر جانسن نے اس کی کتاب کا مطالعہ شروع کیا تو قدم قدم پر انہیں محسوس ہونے لگا کہ واقعی ہر چیز محض وہم ہے۔ یہاں تک کہ گردو پیش کی ہر چیز فرضی اور ہر شے محض خیال اور تو ہم کا کرشمہ نظر آنے لگی، یکایک جانسن نے گھبرا کر کتاب پھینک دی، اپنے پیروں کو زمین پر زور سے پٹکا اور کہا اگر کچھ بھی نہیں ہے تو پھر یہ ’’میں‘‘ کہاں ہوں؟ اور اس ’’میں‘‘ نے انہیں پھر حقائق کی بنیاد میں پہنچا دیا۔ غالبؔ کے سامنے بھی زندگی نے بہت سے المناک کھیل کھیلے، زندگی کی تمام قدریں انہیں مشکوک نظر آنے لگیں، کوئی چیز ایسی نہ تھی جس کا سہارا لے کر وہ کھڑے ہو جاتے، اس لئے کبھی کبھی وہ بھی برکلے کی طرح ساری دنیا کوانسانی ذہن کا مفروضہ اور انسانی خیال کا عکس سمجھنے لگتے تھے اور کہہ اٹھتے تھے،

    ہستی کے مت فریب میں آ جائیو اسدؔ

    عالم تمام حلقہ دام خیال ہے

    ہستی ہے نہ کچھ عدم ہے غافل

    ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے

    لیکن پھر ان کا دل سوال کرنے لگتا تھا،

    جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود

    پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے

    سبزۂ و گل کہاں سے آئے ہیں

    ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے

    یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں

    عشوہ و غمزہ ادا کیا ہے

    شکن زلفِ عنبریں کیوں ہے

    نگہ چشم سرمہ سا کیا ہے

    حقیقت کی اسی جستجو نے انہیں بت شکن بنایا۔ وہ ان حقیقتوں کی نفی نہیں کر سکتے تھے جو ان کی مادی زندگی پراثرانداز ہوتی تھیں۔ وہ ’’میں‘‘ کا بت نہ تو پاش پاش کرنا چاہتے تھے اور نہ یہ ان کے امکان میں تھا کہ مکمل تخریب کرکے کائنات سے زندگی کی آگ ہی بجھا دیں۔ ان کی انفرادیت اور خودشناسی تو کوئی اور ہی خواب دیکھ رہی تھی۔

    نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا

    ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

    سوا اپنے اور کوئی سہارا نہ تھا، اس لئے ذہنی طاقت سے اسی سہارے کو عظیم الشان بنانا چاہتے تھے۔ باپ دادا کی جاگیر کا سہارا ختم، پنشن ختم، حکومت مغلیہ کا سہارا ختم، بعض سلوک کرنے والے امراء ختم اور جو دو ایک سہارے رہ گئے تھے، ان کا بھی کیا ٹھکانا! اس لئے ایسا انسان اپنی ذات پر بھروسہ کرنا چاہتا ہے۔ اگر اس کی زبان سے یہ نکلے کہ،

    بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے

    ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے

    اک کھیل ہے او رنگ سلیماں مرے نزدیک

    اک بات ہے اعجاز مسیحا مرے آگے

    تو اس کی خواہش کے پیش نظر اس میں مبالغہ کا نہیں حقیقت کا اظہار ہوتا ہے۔ وہ اپنی تنہا طاقت سے ہر کمی کو پورا کرنا چاہتا ہے۔ غالبؔ کی نفسیات میں یہ پہلو مطالعہ کے قابل ہے۔

    سب سے زیادہ جو بت انسان کی راہ میں حائل ہوتا ہے، وہ آباء و اجداد کی تقلید اور رسم و رواج کی پیروی کا بت ہے جس نے اسے توڑ لیا اس کے لئے آگے راستہ صاف ہو جاتا ہے، وہ فرد کی حیثیت سے اپنی صلاحیتوں کو خود کام میں لاکر نئی زندگی کی تخلیق کر سکتا ہے۔ کہنے کو تو یہ ایک خیالی بت ہے لیکن غور و فکر ہی نہیں بلکہ عمل کی ساری نوعیت اس سے بدل جاتی ہے اور ذہنی غلامی، مادی اور جسمانی غلامی سے بھی زیادہ خطرناک ثا بت ہوتی ہے۔ غالبؔ نے اسے خوب سمجھا تھا اور بار بار اس کے ٹکڑے اڑائے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ عقل و خرد رکھنے والے بھی تقلید کے دائرے میں چکر کھاتے رہتے ہیں اور جب تک یہ پابندی ہے، کوئی بڑا کام نہیں ہوسکتا۔ غالبؔ نے اپنے ایک مشہور فارسی شعر میں اعتراض کرنے والوں کو متنبہ کیا ہے کہ میری بے راہ روی پر مجھ سے نہ الجھو، حضرت ابراہیم کو دیکھو، جب کوئی صاحب نظر ہو جاتا ہے تو اپنے بزرگوں کی راہ سے ہٹ کر نئی راہ بناتا ہے۔

    بامن میادیراے پسر، فرزند آذر را نگر

    ہر کس کہ شد صاحب فکر، دین بزرگاں خوش نہ کرد

    یہ منزل انسان کے لئے بڑی کٹھن ہوتی ہے کیونکہ ایسا قدم اٹھاتے ہوئے خو د اپنے خیالوں سے ڈر معلوم ہونے لگتا ہے، اپنے بنائے راستوں سے الگ ہوکر نئی راہ نکالنا اور اس پر چلنا، ہر قدم میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ اس پر عمل کر سکے۔ غالبؔ بھی اپنے خیالوں کی تندی اور تیزی سے ڈر جاتے تھے کیونکہ وہ انہیں قدامت کے سیلاب کے خلاف چلنے پر اکساتے رہتے تھے۔

    ہجوم فکر سے دل مثل موج لرزے ہے

    کہ شیشہ نازک و صہبائے آبگینہ گداز

    پھر بھی وہ سوچتے اور کہتے تھے،

    ہیں اہل خرد کس روشِ خاص پہ نازاں

    پابندگی رسم ورہ عالم بہت ہے

    اور اس طرح ’’پابندی رسم و رہ عالم‘‘ کے توڑنے میں لگ جاتے تھے۔ غالبؔ کا زمانہ مغلیہ سلطنت اور قدیم جاگیردارانہ نظام کے زوال کا زمانہ ہے، اس نظام میں زندگی کی جتنی قوت تھی وہ ختم ہو چکی تھی اور ’’داغ فراق صحبت شب‘‘ کی جلی ہوئی اک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی خموش تھی۔ اس وقت کی مادی کمزوری نے تقلید، رسم پرستی اور بے عملی کی شکل اختیار کر لی تھی۔ نگاہیں مستقبل کا پردہ چیر کر کچھ دیکھ نہ سکتی تھیں، ہاں ماضی کی شان وشوکت، گزشتہ دور کے عیش و عشرت کا خیال بار بار آتا تھا اور وہی رسم پرستی بن جاتا تھا۔ لوگ انہیں بے جان قدروں کو سینے سے چمٹائے ہوئے تھے اور جہاں کوئی ان سے ہٹنا چاہتا، اس کی مخالفت کرتے۔

    غالبؔ کو ایسے کئی معرکے جھیلنے پڑے لیکن جن بتوں کو وہ توڑنا ضروری سمجھتے تھے انہیں توڑتے رہے۔ مرزا تفتہؔ کو ایک خط میں لکھتے ہیں، ’’یہ نہ سمجھا کرو کہ اگلے جو کچھ لکھ گئے ہیں وہ حق ہے، کیا آگے آدمی احمق پیدا نہیں ہوتے تھے۔‘‘ خطائے بزرگاں گرفتن خطاست، کے بندھے ٹکے فقرے کیا سخت طنز ہے۔ یہی سبب تھا کہ وہ ان لغت نویسوں کی دھجیاں اڑاتے تھے جنہیں ان کے خیال میں فارسی زبان میں استناد کا حق حاصل نہ تھا۔ لیکن ہر شخص بے سوچے سمجھے انہیں کی رائے بطور سند پیش کرتا تھا۔

    حساس انسان رسم پرستی اور تقلید کے خلاف ہمیشہ آواز اٹھاتے رہے ہیں لیکن جس شاعر کی آواز میں بت شکنوں کے نعرے کی گونج پیدا ہوئی وہ غالب ہی ہیں،

    تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسدؔ

    سرگشتۂ خمار رسوم و قیود تھا

    دیر وحرم آئینہ تکرار تمنا

    وا ماندگی شوق تراشے ہے پناہیں

    تھک کر مذہب میں پناہ لینے کی فلسفیانہ توجیہہ اس سے بہتر طریقہ پر تو نثر میں بھی نہیں کی جا سکتی۔ غالبؔ اس قسم کے انسانوں میں سے تھے جو اپنی راہ آپ بنانا چاہتے تھے اور اگر خضر راستے میں مل جاتے ہیں تو وہ انہیں بھی اپنا رہنما نہیں بناتے،

    لازم نہیں ہے کہ خضر کی ہم پیروی کریں

    جانا کہ اک بزرگ ہمیں ہم سفر ملے

    کون کہہ سکتا ہے کہ خود خضر منزل کی تلاش میں سرگرداں نہیں ہیں۔ شاید یہ خیال اس لئے پیدا ہوا ہو کہ اسے خضر کی رہنمائی میں شک ہے۔

    کیا کیا خضر نے سکندر سے

    اب کسے رہنماکرے کوئی

    ایسی انفرادیت کن نفسیاتی اور سماجی حالات میں ترقی کرتی ہے۔ یہ بحث الگ ہے لیکن اتنا تو واضح ہے کہ غالبؔ کسی کی مدد سے حقیقت کی تلاش میں نہیں نکلنا چاہتے تھے، کسی کے سہارے اس راہ کو طے کرنا انہیں پسند نہ تھا۔

    اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ ہو

    آگہی گر نہیں غفلت ہی سہی

    ہنگامہ زبونی ہمت ہے انفعال

    حاصل نہ کیجئے دہر سے عبرت ہی کیوں نہ ہو

    اپنا نہیں وہ شیوہ کہ آرام سے بیٹھیں

    اس در پہ نہیں بار تو کعبہ ہی کو ہو آئے

    اور پھر فارسی کا وہ مشہور شعر،

    بہ وادے کہ دراں خضر را عصا خفتست

    بہ سینہ می سپرم را اگرچہ پانفتست

    یعنی اپنی ادگھٹ گھاٹی میں جہاں خضر پھر سہارا نہیں دے سکتے اور جہاں خود میرے پاؤں چلنے سے جواب دے چکے ہیں میں اپنا راستہ سینے کے بل طے کئے جارہا ہوں۔ عمل کی زندگی میں تو نہیں ہاں خیال کی زندگی میں یقینا ًغالبؔ نے وہ راستے مستانہ وار طے کئے جن پر چلنے کی دوسرے جرأت نہ کر سکتے تھے۔ رسم و رواج کے سہارے زندگی کو طوفانوں سے بچالے جانا اور بات ہے اور سارے سہارے توڑکر حقیقت کی جستجو خود کرنا دوسری بات۔ ایک عظیم الشان شخصیت یہی دوسری راہ پسند کرتی ہے۔ غالبؔ کا زمانہ عام انسانوں کے لئے تقلید اور روایت پرستی کا زمانہ تھا اور حساس انسانوں کے لئے تشکیک کا۔ غالبؔ بھی شک کا شکار تھے لیکن شکوک کو روند کر آگے بڑھ جانا چاہتے تھے۔ مجبوری یہ تھی کہ تاریخی تقاضے یکسوئی بھی حاصل نہ ہونے دیتے تھے۔ امیدوبیم کے درمیان ہچکولے کھاتے رہنا، قدیم اور جدید کے درمیان فیصلہ نہ کر سکنا، یہی غالب کی تقدیر بن گیا ورنہ وہ تو ’’نو میدی جاوید‘‘ کی یک سوئی پر بھی رضامند تھے،

    بہ فیض بے دلی نومیدی جاوید یکساں ہے

    کشاکش کو ہمارا عقدۂ مشکل پسند آیا

    اور یہی نہیں تشکیک کے جال سے نکلنے کے لئے روحانیت کی مقررہ قدروں کو چھوڑ کر وہ نئی قدریں بھی بنانا چاہتے تھے،

    دل گذرگاہ خیال مے وساغر ہی سہی

    گر نفس جادۂ سر منزل تقویٰ نہ ہوا

    اب مے وساغر اور جادۂ تقویٰ کے ہم پلہ ہونے کا ذکر آ گیا ہے تو ذرا تفصیل سے غالبؔ کے فلسفیانہ اور مذہبی خیالات کا جائزہ لے لینا چاہئے۔ کیونکہ عقیدے سے زیادہ کوئی چیز انسان کے خیال اورعمل کی راہیں معین نہیں کرتی۔ غالبؔ نے عقائد کی چھان بین کی، انہیں انسانی فطرت کی کسوٹی پر پرکھا، عقل کی روشنی میں سمجھا، مختلف مذاہب کے آئینے میں دیکھا، تصوف کی مدد سے جانچا، شاید اسی کھوج کا پتہ اس طرح دیا ہے،

    چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز رو کے ساتھ

    پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں

    بے سوچے سمجھے وہ کعبے میں بھی جانا پسند نہیں کرتے،

    وہ نہیں ہم کہ چلے جائیں حرم میں اے شیخ

    ساتھ حجاج کے اکثر کئی منزل آئے

    اس طرح سوچنے اور غور کرنے میں انہیں زندگی کا جو سب سے بڑا راز ملا، وہ یہ تھا کہ مذہب کے ظاہری پہلوؤں کے برتنے یا اس کے احکام پر عقیدہ رکھنے ہی کا نام ایمان نہیں بلکہ جس عقیدہ کو اپنے وجدان، علم اور ادراک کی مدد سے بالکل صحیح سمجھ لیا جائے اس پر پوری قوت سے قائم رہا جائے۔ ایسی حالت میں دوسرے عقیدے رکھنے والوں کے لئے بھی دل میں جگہ پیدا ہوگی کیونکہ انسان کے بس میں اس سے زیادہ تو کچھ اور نہیں کہ وہ پر خلوص طور پر ایک صحیح راستے کی جستجو کرے اور اگر اس کا ضمیر اس کو یقین دلائے کہ اس نے سچائی کی جستجو میں کوئی کوتاہی نہیں کی ہے تو پھر اس پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ مذہب کے معاملہ میں یہ آزادی دوسرے صوفی شعراء کے یہاں بھی پائی جاتی ہے لیکن جو بات غالبؔ کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے وہ ان کے استدلال کا انسانی عنصر ہے۔ چند شعر سنئے،

    وفاداری بہ شرط استواری اصل ایماں ہے

    مرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو

    نہیں ہے سجہ و زنار کے پھندے میں گیرائی

    وفاداری میں شیخ و برہمن کی آزمائش ہے

    یہاں شیخ و برہمن دونوں کے پندار کا بت پاش پاش ہوتا نظر آتا ہے۔ دونوں ایک ہی سطح پر دکھائی دیتے ہیں اور دونوں کے اندر جو قدر مشترک ہے وہ اپنے عقیدے سے وفاداری ہے۔ یہ نہیں کہ عقیدہ کیا ہے۔ انسانیت کے وسیع دائرے میں زنار اور تسبیح، کعبہ اور کنشت، دیر اور حرم کا فرق ختم ہو جاتا ہے۔ ایک جگہ مرزا غالبؔ یہ تلقین کرتے ہیں،

    زنار باندھ سجہ ٔ صد دانہ توڑ ڈال

    رہرو چلے ہے راہ کو ہموار دیکھ کر

    اور دوسری جگہ کہتے ہیں،

    کعبہ میں جا رہا تو دو طعنہ کیا کہیں

    بھولا ہوں حق صحبت اہل کنشت کو

    یہی وسیع انسانی جذبہ ہے جس نے ان سے ایک خط میں لکھوایا، ’’میں تو بنی آدم کو، مسلمان ہویا ہندو یا نصرانی، عزیز رکھتا ہوں اور اپنا بھائی گنتا ہوں۔‘‘ دوسرا مانے یا نہ مانے اس صوفیانہ آزاد خیال میں وہ مذہب سے بالکل علاحدگی تو اختیار کرنا نہ چاہتے تھے لیکن مذہب کے نام پر جو بت تراشے جاتے ہیں ان کو پوجنا بھی نہ چاہتے تھے۔

    بندگی میں بھی وہ آزادہ خودبیں ہیں کہ ہم

    الٹے پھر آئے درِ کعبہ اگر وا نہ ہوا

    جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد

    پر طبیعت ادھر نہیں آتی

    رکھتا پھروں ہوں خرقہ و سجادہ رہن سے

    مدت ہوئی ہے دعوت آب و ہوا کئے

    لوگ عبادت پر ناز کرتے ہیں، زہد و اتقا پر ناز کرتے ہیں اور اس نمائشی فخر و غرور کی وجہ سے دوسروں پر اپنا تفوق جتاتے ہیں، اپنی عقل پر ناز کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دنیا ان کے سامنے سر جھکا دے لیکن ان چیزوں کی حقیقت غالبؔ کی شاعری میں یوں نمایاں ہوتی ہے۔

    کیا زہد کو مانوں کہ نہ ہو گرچہ رہائی

    پاداش عمل کی طمع خام بہت ہے

    لاف دانش غلط و نفع عبادت معلوم

    درد یک ساغر غفلت ہے چہ دنیا وچہ دیں

    عشق بے ربطی شیرازۂ اجزائے حواس

    وصل زنگار رخ آئینہ حسن یقیں

    اور یہی نہیں بلکہ یہ بھی،

    ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیت لیکن

    دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے

    دیتے ہیں جنت حیات دہر کے بدلے

    نشہ باندازہ خمار نہیں ہے

    کیوں نہ جنت کو بھی دوزخ سے ملا لیں یارب

    سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی

    طاعت میں تار ہے نہ مے وا نگیں کی لاگ

    دوزخ میں ڈال دو کوئی لے کر بہشت کو

    زندگی کو نئے تجربوں کی راہ پر ڈالنا، بندھے ٹکے اصولوں سے انحراف کرکے زندگی میں نئی قدروں کی جستجو کرنا بت شکنی ہے۔ اوریہ عمل خیال کی دنیا میں غالبؔ بار بار دہراتے رہتے تھے۔ کبھی کبھی توبت شکنی کی یہ لے اتنی بڑھ جاتی تھی کہ محبت اور محبوب بھی خطرے میں پڑتے ہوئے نظر آتے ہیں اور محبت کا مثالی تصور بدلتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔

    خواہش کو احمقوں نے پرستش دیا قرار

    کیا پوجتا ہوں، اس بت بیدادگر کو میں

    تو دوست کسی کا بھی ستمگر نہ ہوا تھا

    اوروں پہ ہے وہ ظلم کہ ہم پر نہ ہوا تھا

    نفسِ قیس کہ ہے چشم و چراغ صحرا

    گر نہیں شمع سیہ خانہ لیلیٰ نہ سہی

    بلا سے گر مژۂ یار تشنۂ خوں ہے

    رکھوں کچھ اپنی بھی مژگانِ خوں فشاں کے لئے

    عاشق ہوں پہ معشوق فریبی ہے مرا کام

    مجنوں کو برا کہتی ہے لیلیٰ مرے آگے

    بت شکنی کی بھی حد ہوتی ہے، محبت اور مذہبی روایات سے بغاوت بڑی دشوار منزل ہے۔ چنانچہ جب اس طرح بت شکنی کرنے کا خوف دامن گیر ہوتا تھا تو غالب جبر کے عقیدے میں پناہ لیتے تھے،

    ہے وہی بدمستی ہر ذرہ کا خود عذر خواہ

    جس کے جلوے سے زمیں تا آسماں سرشار ہے

    ہوں منحرف نہ کیوں رہ و رسم ثواب سے

    ٹیڑھا لگا ہے خط قلم سرنوشت کو

    لیکن یہ جبر کا طلسم کبھی کبھی ٹوٹ بھی جاتا تھا۔

    کردہ ام ایمان خود را دست مرد خویشتن

    می تراشم پیکر از سنگ و عبادت می کنم

    اگر اس طرح دیکھا جائے تو بت سازی، بت فروشی، بت پرستی اور بت شکنی ہر منزل غالبؔ کے یہاں ملتی ہے۔ جس میں بت شکنی کا جذبہ سب سے زیادہ شدید اور واضح ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ جو بت توڑا جائے وہ لازمی طورپر توڑنے ہی کے قابل ہو لیکن بت شکن اسی وقت ایک بت کو توڑتا ہے جب دوسرا اس سے بہتر بنا لیتا ہے یا بنا لینے کی آرزو اس کے دل میں پیدا ہوتی ہے۔ یہی زندگی کا راز ہے اوریہ ترقی کا بھی۔ غالبؔ کے مشہور شاگرد مولانا حالی نے اسی تسلسل کو یوں پیش کیا ہے،

    ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں

    اب دیکھئے ٹھہرتی ہے جاکر نظر کہاں

    اور غالبؔ نے اپنی بت شکنی کے حوصلوں کا ذکر یوں کیا ہے،

    جوئے شیر از سنگ راندن ابلبی ست

    بہر گوہر تیشہ برکاں می زنم

    دیگراں گر تیشہ برکاں می زنند

    من شبیخوں بر بدخشاں می زنم

    دی بہ یغما دادہ ام رخت متاع

    امشب آذر در شبستاں می زنم

    درجنوں بے کار نتواں زیستن

    آتش تیزاست وداماں می زنم

    می ستیزم باقضا از دیر باز

    خویش را برتیغ عریاں می زنم

    لعب با شمشیر و خنجر می کنم

    بوسہ بر سا طور و پیکاں می زنم

    بر خرام زہرہ و رفتار تیز

    چشمکے دارم کہ پنہاں می زنم

    اور سب کچھ اس لئے تھا کہ غالبؔ راز حیات سے واقف تھے،

    راز دار خوئے دہرم کردہ اند

    خندہ بر دانا و ناداں می زنم

    یہی راز جوئی اور رازدانی انہیں اندوہ ونشاط، مسرت والم کی بوالعجبیوں کا تماشا دکھاتی تھی اور وہ حیرت سے اپنی کشمکش کا اظہار کرکے رہ جاتے ہیں گو ان کا رجحان طبع اس اظہار تحیر سے بھی نمایاں ہو جاتا ہے،

    تو نالی از خلہ خار و کنکری کہ سپہر

    سر حسین علی بر سناں بگرداند

    برد بہ شادی داند دہ دل منہ کہ قضا

    چو قرعہ بر نمط امتحان بگرداند

    یزید را بہ بساط خلیفہ بنشاند

    حکیم را بہ لباس شباں بگرداند

    غالبؔ ان چیزوں پر قناعت کرنا ہی نہ چاہتے تھے جو زندگی عام انسانوں کو دیتی ہے۔ کم سے کم اپنے لئے وہ ایک نئی دنیا چاہتے تھے۔

    در گرم روی سایہ و سرچشمہ نہ جوئیم

    باما سخن از طوبیٰ و کوثر نہ تواں گفت

    دونوں جہان دے کے وہ سمجھا یہ خوش رہا

    یاں آپڑی یہ شرم کہ تکرار کیا کریں

    یوں ایک بہتر اور آزاد زندگی کی جستجو میں نئے اقدار حیات کی تلاش میں غالبؔ بتوں کو توڑتے رہے لیکن ان کے پیروں میں تخلیقیت، انفرادیت اور وقت کی زنجیریں تھیں، جن سے باہر نکلنا ان کے امکان میں نہ تھا۔ اگر مستقبل امید کی راہ دکھاتا تو غالبؔ صرف ماضی کی یادوں کی ریشمی ڈور کے سہارے نہ جیتے رہتے بلکہ زمانے سے اپنی مایوسیوں اور ناکامیوں کا انتقام لیتے لیکن اس وقت کا ہندوستان جس سیال حالت میں تھا اس میں آئندہ کا عکس دیکھ لینا اور اس کی امید پر جینا ممکن نہ تھا۔ غالبؔ دیدہ ور تھے اور رگ سنگ میں اصنام کا رقص دیکھ لیتے تھے۔

    دیدہ در آنکہ دل نہد آربہ شمار دلبری

    در دل سنگ بنگر و رقص بتان آذری

    لیکن ضعیفی، مصائب و آلام، فقدان راحت ہر چیز انہیں موت کے دروازے کی طرف دھکیل رہی تھی اور وہ زندگی کے انجام سے واقف تھے۔

    رہا گر کوئی تا قیامت سلامت

    پھر اک روز مرنا ہے حضرت سلامت

    زندگی کے اس محدود دائرے میں اور مایوسی کے اس جال میں پھنس کر بھی امید ان کے سینے میں انگڑائیاں لیتی تھی،

    آہی جاتا وہ راہ پر غالبؔ

    کوئی دن اور گرجئے ہوتے

    لیکن قبل اس کے کہ زمانہ راہ پر آئے اوروہ نظام حیات دم توڑے جس نے غالبؔ کو جکڑ رکھا تھا، بت شکن غالبؔ کی زندگی کا بت خود ہی ٹوٹ گیا۔

    مأخذ:

    اعتبار نظر (Pg. 146)

    • مصنف: سیداحتشام حسین
      • ناشر: اترپردیش اردو اکیڈمی، لکھنؤ
      • سن اشاعت: 2010

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے