Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

حالی کا سیاسی شعور

سیداحتشام حسین

حالی کا سیاسی شعور

سیداحتشام حسین

MORE BYسیداحتشام حسین

    کسی شاعر اور ادیب کے شعور کی جستجو کئی حیثیتوں سے کی جا سکتی ہے کیونکہ شعور کی انفرادیت میں جماعتی ضرورتوں اور خواہشوں سے بہت سے پردے گرتے اور بہت سے اٹھتے ہیں۔ ماحول کی مادی بنیادوں سے لے کر خوابوں کی رنگارنگی تک نہ جانے کتنی منزلیں ہیں، اور ہرمنزل انسانی شعور پر اپنا عکس چھوڑتی ہے۔ گو اصل بنیاد معاشی زندگی کے اتار چڑھاؤ سے متعین ہوتی ہے لیکن دوسرے اثرات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس طرح فرد کا شعور مادی حالات اور سماجی ماحول میں مسلسل عمل اور رد عمل سے تشکیل پاتا ہے۔

    کسی کے پاس بنا بنایا شعور نہیں ہوتا بلکہ بنتا ہے اور حالات بدلیں تو بدل بھی جاتا ہے۔ انسان ماحول کو بدلتا ہے اور اس کے بدلنے میں خود بھی بدل جاتا ہے۔ اسی طرح فرد کے شعور کے مطالعہ میں سماج کے بدلے ہوئے مادی حالات کا مطالعہ ایک جزو لازم کی حیثیت سے شامل ہو جاتا ہے۔ عمل اور رد عمل کا یہی سلسلہ ہے جس کے نظرانداز ہو جانے سے فرد کا شعور گرفت میں نہیں آتا۔ خواجہ الطاف حسین حالی کے سیاسی شعور کے مطالعہ میں جس چیز کو خاص طور سے سمجھنا ہے، وہ انیسویں صدی کے وسط کا ہندستان ہے جس پر کئی پہلوؤں سے نگاہ ڈالی جا سکتی ہے لیکن وہی نگاہ ساری سیاسی، معاشی، معاشرتی اور نفسیاتی گتھیوں کو کھول سکےگی جو تاریخ کا مادی نقطۂ نظر رکھتی ہے۔ اس ہمہ گیر تعبیر کی مدد سے غدر کے قبل اور غدر کے بعد کا ہندوستان اپنی قدریں واضح کرےگا۔

    سیاسی اعتبار سے حالیؔ اس زمانے میں پیدا ہوئے جب ہندوستان کا جاگیردارانہ نظام زوال پذیر ہو چکا تھا۔ ذرائع پیداوار، صنعت اور معاشی حالت میں عام طور سے جمود کی کیفیت رونما ہو چکی تھی اور اس کی جگہ مغرب سے آیا ہوا ایک صنعتی اور تجارتی نظام تدریحی طور پر بڑھ رہا تھا۔ یہ ایک ایسی تاریخی حقیقت ہے جو کسی قدر تشریح چاہتی ہے۔ ہندوستان صدیوں سے دیہی معیشت، غیرمشینی زراعت، گھریلو دستکاری اور ایک خاص طرح کے جاگیردارانہ نظام میں زندگی بسر کر رہا تھا۔ ترقی کی ساری راہیں رکی ہوئی تھیں کہ یورپ کی تجارتی کمپنیاں دولت کمانے کی غرض سے ہندوستان میں داخل ہوئیں اور انھوں نے اٹھارویں صدی میں اچھی خاصی طاقت حاصل کر لی۔ یہاں تک کہ ہندوستانی سیاست میں وہ بھی فریق بن گئیں۔

    ہندوستان زراعتی ملک تھا اور آنے والے غیرملکی حاکم صنعتی دور میں داخل ہو چکے تھے۔ اس لئے جب قوت حاصل کرکے انھوں نے ہندوستان سے زراعتی اور جاگیردارانہ ڈھانچے کو ایک نئی ریاست میں ڈھالنا چاہا تو اچھی خاصی کشمکش پیدا ہوئی۔ یہ صورتیں تقریباً سو سال کے عرصہ میں رونما ہوئیں اور ان کا اثر عوام پر تو براہِ راست نہیں پڑا لیکن اعلیٰ اور متوسط طبقہ سیاسی کشمکش کے ساتھ ذہنی کشمکش میں مبتلا ہو گیا۔

    پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ تدریجی انقلاب کے دور میں شعور کی تشکیل میں غیرمعمولی پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ بہت دنوں تک تبدیلی کے عناصر واضح نہیں ہوتے۔ سیاسی اور معاشی حیثیت سے جو زمانہ اور جو ملک جس قدر زیادہ کشمکش اور پیچیدگی کا شکار ہوتا ہے، اسی قدر اس کے فنون لطیفہ، ادب اور سماج کا تجزیہ مشکل ہو جاتا ہے۔ اتنے عناصر ایک دوسرے کو کاٹتے اور تقویت پہنچاتے ہوئے ساتھ ساتھ چلتے، نئے حالات پیدا کرتے اور ان نئے حالات کی مدد سے تبدیلیاں کرتے چلتے ہیں کہ ان کے اثرات کو الگ الگ دیکھنا ایک مختصر سے مضمون میں ممکن نہیں۔ تاہم انیسویں صدی کے وسطی دور میں ہندوستان کے طبقات اور ان کی زندگی کے مختلف مسائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے تجزیہ کی کوشش کی جائےگی۔

    اس بات کو کسی نہ کسی شکل میں سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ عام سیاسی اور معاشی تبدیلیوں سے سماجی زندگی اور خیالات میں بھی تبدیلیاں ہر طبقہ اور ہر گرہ میں یکساں طور پر نمایاں نہیں ہوتیں اور معاشی تبدیلیاں اس سے مکمل مطابقت بھی نہیں رکھتیں کہ ایک آئینہ میں دوسرے کی پوری تصویر دیکھی جا سکے بلکہ اکثر تو یہ ہوتا ہے کہ ماضی، حال اور مستقبل کی قدریں ایک دوسرے میں پیوست ہو جاتی ہیں۔ بعض طبقے اور بعض گروہ ماضی کی طرف دیکھتے ہیں اور اس کے تسلسل کو اس طرح برقرار رکھنا چاہتے ہیں کہ حال کی کشمکش بے معنی ہو جائے۔ بعض حال سے فائدہ اٹھانے میں ماضی کو بھلا دیتے ہیں اور مستقبل کے نتائج سے بے خبر ہو جاتے ہیں اور بعض مستقبل کی تلاش میں ایسے خیال پرست بن جاتے ہیں کہ ماضی وحال سے بھی فائدہ اٹھانے کا خیال نہیں کرتے۔

    ان گروہوں کے انداز فکر بھی بالکل یقینی طور پر الگ الگ نہیں ہوتے، بلکہ ذہن اور جذبات تغیر پذیری کی حالت میں ہوتے ہیں، جن سے بعض اوقات (ہمیشہ نہیں) واضح عقائد کی جگہ تضاد کا اظہار بھی ہو جاتا ہے۔ بات یہ ہے کہ جن لوگوں کا ذہن پوری طرح کسی معاشی تغیر کو سمجھ کر اور تاریخ کی رفتار سے واقفیت حاصل کرکے تبدیلیوں کو قبول نہیں کرتا، ان کے خیالات اور وقت کے تقاضوں میں مکمل ہم آہنگی نہیں ہوتی، ہاں جس طبقے سے ان کا تعلق ہوتا ہے، اس کے مفاد اور مصالح کے نقطۂ نظر سے اس تضاد کو سمجھا جا سکتا ہے۔

    حالیؔ کا سیاسی شعور ماضی اور مستقبل کی طرف کھینچنے والی تہہ در تہہ تحریکوں، عقیدوں اور خیالوں سے وجود میں آیا تھا۔ ان کا مقصد ماضی کی نیم سیاسی تحریک اور مستقبل کے امکانات کے میل سے کوئی ایسا تصور زندگی پیدا کرنا تھا جو مذہبی، اخلاقی اور دنیوی حیثیت سے مفید ہو۔ بعض اوقات تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کے یہاں بھی وہی کشمکش تھی جو غالب کے یہاں ان الفاظ سے ظاہر ہوتی ہے،

    ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر

    کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے

    اور یہ صرف حالیؔ ہی کی کشمکش نہیں تھی۔ اس زمانے کے اکثر حساس ادیبوں اور شاعروں کو یہ فیصلہ کرنے میں دشواری ہو رہی تھی کہ قدیم سے کتنی علاحدگی اختیار کریں اور جدید سے کتنا ملیں۔ مذہب اور عقل میں کتنی مطابقت پیدا کریں اور دین و دنیا دونوں کو کس طرح بنائے رکھیں۔ حالیؔ وغیرہ کی راہ اس لئے اور بھی کٹھن ہو گئی تھی کہ وہ مسافر نہیں رہنما تھے۔

    حالیؔ ۱۸۳۷ء میں پیدا ہوئے۔ ان کی عمر بیس سال تھی جب غدر ہوا۔ دلی کے مضافات میں ان کا خاندان بہت دنوں سے آباد تھا۔ حالیؔ کا گھر بہت زیادہ خوش حال نہیں معلوم ہوتا۔ ان کے والد نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی سرکار میں معمولی سی ملازمت کر لی تھی۔ حالیؔ نے بھی غدر سے پہلے کلکٹری میں کلر کی کے فرائض انجام دیے تھے۔ گویا ان کے دل میں انگریزوں کے خلاف کوئی نفرت کا جذبہ کام نہیں کر رہا تھا۔ ان کی وفاداری کسی نمایاں شکل میں ہندوستان کی برائے نام مغل حکومت سے بھی نہیں معلوم ہوتی، بلکہ بدلے ہوئے ماحول میں ان کاذہن نئے حالات سے سمجھوتہ کرنے پر تیار تھا۔

    تقریباً تیس پینتیس سال کی عمر تک حالیؔ کے رنگ طبیعت کا اندازہ اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا کہ وہ خاموش مطالعہ اور بےنمود زندگی سے دلچسپی لیتے تھے۔ اپنے مذہبی عقائدمیں پختہ اور اخلاقی اصولوں کے پابند تھے۔ دلی کے قیام اور غالبؔ و شیفتہؔ کی صحبت نے ان کو غزل گوئی میں ایک خاص حقیقت پسندانہ رنگ کا دلدادہ بنایا تھا لیکن اس درمیان میں ہندوستان اور خاص کر دلی میں غیرمعمولی تغیرات ہوئے تھے۔ مغلوں کی جگہ برطانیہ کا تسلط قائم ہو چکا تھا۔ غدر نے سرکشوں اور وفاداروں کو انگریزی چھلنی میں چھان لیا تھا اور باغیوں کو عبرت ناک سزائیں دی جا رہی تھیں۔ نئے وفادار وجود میں آ رہے تھے اور طبقوں کے ڈھانچے بدل رہے تھے۔ یہ سب حالیؔ کی نظروں کے سامنے ہو رہا تھا اور اس میں خود ان کے جاننے والوں کا بھی معاملہ تھا جو تبدیلی کی راہ پر چل رہے تھے۔

    حالی کے سیاسی شعور کا مطالعہ نئے طبقاتی ڈھانچے کے سمجھنے پر منحصر ہے۔ انگریز ہندوستان میں سترہویں صدی میں آئے اور معمولی تجارتی کمپنی کی حیثیت سے کام شروع کرکے ہندوستان میں ایک فیصلہ کن طاقت بن گئے۔ ملک کے انحطاط پذیر قویٰ پر چھاپا مار کر انہوں نے ملک پر اقتدار حاصل کیا۔ سیاسی نوعیت سے تو ہندوستان پر انگریزوں کا قبضہ ہو گیا تھا لیکن معاشی حیثیت سے یہ جاگیردارانہ، زراعتی اور چھوٹے پیمانے والے صنعتی نظام کے زوال اور صنعتی دور کے ترقی کرنے کی ابتدا تھی۔ انگریز مشینی سرمایہ داری کے دور میں داخل ہو چکے تھے اور ہندوستان ان کی تجارتی منڈی اور خام مواد کا گودام تھا۔

    چنانچہ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہندستان کے چند بڑے شہروں، خاص کر کلکتہ اور بمبئی میں ہندوستانی سرمایہ دار بھی پیدا ہو رہے تھے۔ عام طور سے مسلمان جاگیرداری تمدن سے ذہنی اور کسی حد تک علمی طور سے وابستہ تھے۔ اس لئے انھوں نے انگریزی تعلیم کی مخالفت اس وقت بھی جاری رکھی جب ہندوستان کی دوسری قومیں اس کا خیرمقدم کر رہی تھیں اور اسے کام میں لاکر فائدہ اٹھا رہی تھیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ مسلمانوں کا شعور اس تیزی سے بڑھ رہا تھا جس تیزی سے ملک کا معاشی نظام بدل رہا تھا۔ چنانچہ جب ہندوستان کی جاگیردارانہ طاقتوں نے نئی طاقت سے آخری دفعہ، غدر کی شکل میں مورچہ لیا، اس وقت ان طاقتوں نے اس انقلاب کا ساتھ نہیں دیا، جنھیں جاگیردارانہ قوتوں کے کھوکھلے پن کا اور انحطاط کا اندازہ ہو چکا تھا اور جنھوں نے اپنی امیدیں صنعتی دور کے ابھرتے ہوئے سورج سے وابستہ کر رکھی تھی۔

    اس دور کے برطانوی تسلط کو تنقید کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ اگرچہ یہ تسلط، استحصال، استبداد اور جابرانہ لوٹ مار کے نقطۂ نظر سے تاریخ میں عدیم المثال ہے لیکن اس کا آنا ہندوستان سے شاہی مطلق العنانی کا خاتمہ کرنے میں معین ہوا۔ اگرچہ خود غرضی، بد نیتی اور تذلیل کے زاویۂ نگاہ سے برطانیہ کا اقتدار تاریخ کا ایک تاریک دور پیش کرتاہے لیکن غیرشعوری طور پر یہی تسلط ہندوستان کی تاریخ کو بالکل نئے سانچے میں ڈھالنے کا آلہ بن گیا تھا۔ کارل مارکسؔ نے اس زمانہ کا تجزیہ کرتے ہوئے اس کی دو رنگی کا خاص طور سے ذکر کیا ہے اور یہ بات صاف کردی ہے کہ انگریز حکومت نے ہندوستان کی قدیم معاشیات کو بدل دیا۔ ہندوستان کو صنعتی دور سے آشنا کرکے ترقی کی راہ پر لگایا اور خود وہ طاقتیں اس کے ہاتھ میں دے دیں جو مستقبل کے انقلاب میں معین ہونے والی تھیں کیونکہ ترقی کی تکمیل برطانیہ کے خود غرض ہاتھوں سے نہیں ہو سکتی۔ ہندوستان خود آزاد ہوکر اس کام کو پورا کرےگا۔

    مارکسؔ نے سیاسی اتحاد، ملکی فوج، آزادیٔ پریس، نئی تعلیم اور وسائل آمد ورفت کی آسانیوں پر زور دیا ہے جو برطانوی حکومت نے اپنے ابتدائی ترقی پسندانہ دور میں ہندوستان کو دیا لیکن یہ بھی کہا ہے کہ برطانیہ نے ہندوستان کو جان بوجھ کر ایک بڑا صنعتی ملک نہیں بننے دیا اور یہ حقیقت بھی ہے کہ ہندوستان کی ساری مادی پستی کی ذمہ داری اس برطانوی حکومت پر ہے جس نے یہاں کے نظام جاگیرداری کو اپنی ضرورتوں کے لئے باقی رکھا اور صنعتی ترقی کو اس لئے روک دیا کہ ان کے مفاد کو دھکا نہ لگے۔

    ان باتوں کے اظہار سے صرف یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ انیسویں صدی کے وسط میں انگریزی حکومت اس ہندوستانی سماج کے لئے چند ترقی پسندانہ پہلو بھی رکھتی تھی جو صدیوں سے سامنتی اور شاہی نظام میں زندگی بسر کر رہا تھا۔ ظاہر ہے کہ ان چند ترقی پسندانہ پہلوؤں سے ہر طبقہ یکساں فائدہ حاصل نہیں کر سکتا تھا بلکہ اعلیٰ اور متوسط طبقے کو بیرونی حکومت کے ساتھ مل کر عوام پر اپنا اقتدار قائم رکھنا تھا۔ کئی حیثیتوں سے اس حکومت اور متوسط طبقے میں اشتراک کی گنجائش تھی، گو طبقاتی رقابت کی بنا پر ان میں اختلاف ہونا بھی ضروری تھا جو بعد میں ظاہر ہوا۔

    بہرحال ہندوستان میں ایک نئی طاقت کے آجانے اور آہستہ آہستہ اپنا تسلط جمانے کے دوران میں یہاں کا تعلیمی نظام بھی بدل رہا تھا۔ ذہن بھی نئی باتوں کے قبول کرنے پر آمادہ ہو رہا تھا۔ یہ سچ ہے کہ اس سے عوام کی ذہنیت میں کوئی تبدیلی نہیں ہو رہی تھی لیکن اعلیٰ اور متوسط طبقے میں ایک طرح آزاد خیالی ضرور گھر کر رہی تھی اور یوں معاشی اور ذہنی حیثیتوں سے وہ متوسط طبقہ پیدا ہو گیا تھا جو کچھ پرانی اور نئی روایتوں کو ملا کر زندگی کی نئی قدریں تیار کرنے کا متمنی تھا۔ معاشی زندگی میں اس کا اظہار جاگیرداری اور صنعتی دور کے ادھورے اور غیرمنظم میل کی شکل میں ہو رہا تھا اور ذہنی سطح پر نئی مذہبی، ادبی اور تعلیمی تحریکوں کے روپ میں۔ حالیؔ کا تعلق اس گروہ سے تھا اور ذہنی طورپر زندگی کی نئی رو کو قبول کرکے دوسروں کو اسے تسلیم کرنے پر تیار کر رہا تھا۔

    انھیں نئے سیاسی اور معاشی اثرات کی وجہ سے انگریزی حکومت اور ہندوستان کے مختلف طبقوں اور گروہوں کے تعلقات کی سطحیں مختلف تھیں۔ ترقی کے لحاظ سے ملک کے بعض حصے بعض حصوں سے آگے بڑھے ہوئے تھے۔ جہاں تک مسلمان اعلیٰ اور متوسط طبقہ کا تعلق ہے اگرچہ بہت سی باتوں میں وہ عام ہندوستانیوں سے مطابقت رکھتا تھا لیکن نئی تعلیم میں پیچھے ہونے، نئی زندگی کو دیر میں قبول کرنے اور جاگیردارانہ تہذیب سے وابستہ ہونے کی وجہ سے ایک الگ ذہنی کیفیت بھی رکھتا تھا۔ اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لینے کے بعد ہی وہ ساری تحریک سمجھ میں آ سکےگی جس کے رہنما سرسید تھے۔

    سرسید انگریزوں کی ملازمت میں تھے لیکن ان کی قوت عمل اتنی زبردست تھی کہ وہ شروع میں تو علمی اور ادبی کاموں میں لگے رہے لیکن غدر کے بعد ایک پرزور ذہنی تحریک کے بانی بن گئے۔ جو سیاسی اورمعاشی حالات اوپر پیش کئے گئے ہیں، انھوں نے سرسید کی تحریک کو غذا بہم پہنچائی اور بہت سے مفید اور غیر مفید ترقی پسند اور رجعت پسندانہ چیزیں اس طرح وجود میں آ گئیں کہ ان کا اثر مسلمانوں کی زندگی پر آج بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ حالیؔ کے سیاسی خیالات بہت زیادہ واضح نہیں ہیں لیکن جتنے بھی ہیں وہ سرسید کے خیالات کی آواز باز گشت ہیں۔ بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ سرسید عمر میں حالیؔ سے بیس سال بڑے تھے اور جب حالیؔ نے واقعی مسلمانوں کی سیاسی زندگی کو سمجھنا شروع کیا، اس وقت سرسید اس کی راہیں معین کر چکے تھے اور متوسط طبقے کے مسلمانوں کو اپنا وہ سیاسی فلسفہ دے چکے تھے جو ان حالات میں انھیں بہت سے خطرات سے بچاتا تھا، حالیؔ نے بھی اس کو تسلیم کر لیا۔

    جیسا کہ کہا جاچکا ہے کہ ۱۸۵۷ء کا انقلاب جاگیردار طبقہ کی انگریزوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کی آخری کوشش تھی۔ اس کے رہنماؤں نے عوام کو ساتھ نہیں لیا اور لے بھی نہیں سکتے تھے۔ کیونکہ عوام کا فائدہ اس نظام کے بدلنے میں تھا جو صدیوں سے رائج تھا اور غدر کرنے والوں کے پاس ایسا کوئی تصور زندگی نہ تھا جس سے عوام کی حالت بہتر ہوتی۔ اس انقلاب میں کچھ مذہبی، اور معاشی عناصر ضرور شامل ہو گئے تھے لیکن تھوڑے ہی دنوں میں نئی طاقت کی جیت ہو گئی کیونکہ اس کا ساتھ دینے والے عناصر ملک میں موجود تھے۔

    غدر کے بعد پرانے جاگیردار طبقہ پر انگریزی حکومت کا عتاب نازل ہوا۔ ہندوستانی سرمایہ دار بھی، جو انگریزی سرمایہ داری کے رقیب تھے، کسی قدر لپیٹ میں آ گئے۔ گویا کھلم کھلا یہ ایک معاشی اور سیاسی کشمکش تھی جس سے فیصلہ کن نتائج برآمد ہو رہے تھے لیکن سرسید نے غدر کی اس معاشی نوعیت کو ہی تسلیم نہیں کیا اور مسلمانوں کو انگریزوں کے ظلم وجبر سے بچانے کے لئے اس پر زور دیاکہ غدر محض ایک فوجی بغاوت تھی جو انگریزوں کی بعض غلطیوں اور خاص کر ہندوستانیوں پر بھروسہ نہ کرنے کی وجہ سے ہوئی اور جن لوگوں نے بھی ان کے خیالات کو تسلیم کر لیا، سرسید نے انھیں وفادار ثابت کرنے کی کوشش کی۔

    انھوں نے اس بات کو کچھ اس طرح پیش کیا اور اس پر اتنا زور دیا کہ آخر انگریزی حکومت نے بھی ان کے خیالات کو تسلیم کر لیا۔ سرسید اور حالیؔ کو یقین ہو گیا تھا کہ انگریزی حکومت کا قائم ہونا اتفاقی نہیں تھا بلکہ مسلمانوں میں حکومت کی صلاحیت اور لیاقت ہی باقی نہیں رہ گئی تھیں۔ اس حکومت سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش پہاڑ سے ٹکرانے کے مترادف تھی۔ اس لئے سرسید نے ایک جانب مسلمانوں کو یہ سبق پڑھایا کہ وہ حکومت کی اطاعت و وفاداری کو اپنا فرض قرار دیں اور دوسری جانب انگریزوں کو سمجھایا کہ مسلمانوں پر ظلم کرنے کے بجائے ان پر بھروسہ کریں۔ دونوں کو قریب لانے کی کوشش اس وقت کے مایوس، شکست خوردہ اور پریشان حال مسلمانوں کے لئے پیام جاں بن گئی۔ چنانچہ سرسید اور ان کے ساتھیوں نے مذہب، معاشر، ت تعلیم، ادب اور سیاست ہر محاذ پر اسی نفسیات کی روشنی میں کام کرنا شروع کیا اور تھوڑے تھوڑے فرق کے ساتھ ہر رہنما نے ماضی کے مقابلے میں حال کو ترقی یافتہ اور آزاد زمانہ ثابت کیا۔

    غدر میں اور غدر کے بعد جس طرح ہندستانی اور خاص کر مسلمان تباہ ہوئے تھے، اس کے رد عمل کی صرف تین شکلیں تھیں اور تینوں کسی نہ کسی حد تک رونما ہوئیں۔ اول نئے سرے سے بغاوت کی تیاری، دوسرے ناامیدی اور شکست خوردگی کا شکار ہوکر بالکل خاموش بیٹھ رہنا اور تیسرے نئے نظام میں شریک ہوکر زندگی کو نئے حالات کے مطابق بنانا۔ حالیؔ کا پہلے دو گروہوں سے کوئی تعلق نہ تھا۔ وہ دونوں حالتوں کو مسلمانوں کے لئے مضر جانتے تھے اور اپنی نظم ونثر میں مسلسل اس پر زور دیتے تھے کہ ہمیں حالات کا ساتھ دے کر اپنے پیروں پر کھڑے ہونا چاہئے۔

    حالیؔ طبعاً ایک صلح پسند اور امن دوست انسان تھے، اس لئے انگریز حکومت کی برکتوں میں سے جس چیز پر انھوں نے سب سے زیادہ زور دیا ہے وہ امن اور آزادی ہے لیکن حالیؔ کا آزادی کا تصور نہ تو جمہوری تھا اور نہ ہو سکتا تھا۔ ان کے یہاں آزادی کے معنی تھے صنعتی دور کی انفرادی آزادی، مذہب اور رسم ورواج کی آزادی، سرمایہ جمع کرنے اور محنت کشوں سے کام لے کر طبقاتی نظام کو برقرار رکھنے کی آزادی۔ چنانچہ ایک جگہ لکھتے ہیں، ’’امن اور آزادی جو برٹش حکومت کی بدولت ہم کو اس زمانے میں حاصل ہے، وہ کسی عہد میں اور کسی دور میں ہندوستان کو نصیب نہیں ہوئی۔‘‘

    کوئن وکٹوریہ کی جوبلی کے موقع پر حالیؔ نے جو قصیدہ اور مرنے پر جو مرثیہ لکھا ہے ان میں بھی بار بار یہی خیالات دہرائے گئے ہیں۔ غدر کی تباہ کاری اور مغل حکومت کے بیماری اور مدقوق نظام کے بعد ملکہ وکٹوریہ کے اعلان نے متوسط طبقہ کو یہ یقین دلایا کہ آزادی اور خوشی کے دن اب آئے ہیں۔ اس طبقہ کی آزادی کا جو تصور تھا ان سے ان کا ذہن بھی ادھر نہ جا سکا کہ غلامی کی زنجیریں اور کس گئی ہیں۔ اس احساس آزادی کا منطقی نتیجہ یہ تھا کہ ایسی حکومت کی وفاداری کو اور تمام جذبات پر مقدم رکھا جائے۔ چنانچہ حالیؔ نے بھی سرسید کی ہم نوائی کرتے ہوئے کہا، ’’سرسید نے پرزور مذہبی دلائل سے یہ ثابت کیا کہ انگریزی حکومت میں رہ کر مسلمانوں کا مذہبی فرض ہے کہ سلطنت کی اطاعت، خیرخواہی اور وفاداری میں ثابت قدم رہیں۔ سلطنت کو کوئی مشکل پیش آئے تو جان ومال سے اس کا ساتھ دیں۔‘‘

    یہی نہیں بلکہ سرسید کی مذہبی اور سیاسی کوششوں کو سراہتے ہوئے حالیؔ نے حکومت برطانیہ کے جواز میں ایک مذہبی پہلو بھی پیدا کر لیا تھا۔ لکھتے ہیں، ’’سرسید نے مذہب سے پوچھا کہ غیرقوم کی حکومت میں رعیت کو اس کی خیرخواہ اور وفادار رعایا بن کر رہنا ضروری ہے یا نہیں؟ مذہب نے جواب دیاکہ کوئی گناہ اس سے بڑھ نہیں کہ جس گورنمنٹ کے سایۂ حمایت میں رعیت کو ہر طرح کا امن اور آزادی حاصل ہو، اس کی رعیت اپنی گورنمنٹ کی وفادار اور خیرخواہ نہ ہو، لہٰذا اپنی تمام زندگی گورنمنٹ کی وفاداری اور خیرخواہی میں صرف کر دی۔‘‘

    حالیؔ نے بار بار انگریزی حکومت کو ’’شائستہ گورنمنٹ‘‘ کہا ہے، کیونکہ ان کے خیال میں حکومت رعایا کی بہی خواہ تھی۔ انصاف پسند اور رحم دل تھی، اس لئے مذہبی اور اخلاقی حیثیت سے بھی مسلمانوں اور عام ہندوستانیوں کو وہ انگریزی حکومت کی برکتوں سے فائدہ اٹھانے اور اس کے وفادار رہنے کی تلقین کرتے تھے کیونکہ مسلمانوں کا متوسط طبقہ بھی ہندو متوسط طبقہ کے مقابلے میں مجموعی طور پر پست تھا، اس لیے دونوں طبقوں میں باہمی کشمکش بھی تھی اور یہی سبب تھا کہ سرسید اور حالیؔ نے کانگریس کی مخالفت کی اور مسلمانوں کو سمجھایا کہ کانگریس میں شریک ہونے سے انھیں کچھ حاصل نہ ہوگا۔ یہ ترقی اور رجعت کے متضاد پہلو اس وقت اور بھی نمایاں ہو جاتے ہیں جب ہم حالیؔ کو ہندو مسلم اتحاد کی تلقین کرتے اور سودیشی تحریک کی حمایت کرتے دیکھتے ہیں۔

    حالیؔ اتحاد کے اس نتیجے سے بے خبر معلوم ہوتے ہیں جو سیاسی اور معاشی اتحاد کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ حالیؔ نے بار بار اتحاد کو قومی زندگی کا سنگ بنیاد بتایا ہے۔ یہ اتحاد اخلاقی پہلو زیادہ اور سیاسی پہلو کم رکھتا تھا۔ انھوں نے جذبۂ حب وطن کو اتنی اہمیت دی ہے کہ وہ ایک مذہبی عقیدے کی طرح ناقابل شکست بن گیا ہے۔ سودیشی تحریک کو ملک کے لئے مفید بتایا ہے اور انگریزی نوکری کے مقابلہ میں تجارت اور صنعت و حرفت اختیار کرنے کو ترجیح دی ہے لیکن یہ اصلاح پسندی کا وہ راستہ تھا جو ان حالات میں ترقی پسند ہونے کے باوجود سیاسی پیچیدگی اور معاشی بھول بھلیاں میں عوام کی رہنمائی نہیں کر سکتا تھا۔

    حالیؔ نے بغاوت اور ناامیدی کے درمیان ایسا راستہ نکالا جو ایک جانب انہیں نئے خیالات کے قریب لانے، نئی صنعتی زندگی کی برکتوں کا خیرمقدم کرنے، حقیقت پسند اور موقع شناس بنانے میں مدد کرتا تھا، دوسری جانب انھیں اپنے یعنی متوسط طبقے کے مفاد کا مبلغ اور علمبردار بناتا تھا۔ حالیؔ کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے ترقی کے امکانات کا اندازہ لگایا تھا اور مایوسی کا طلسم توڑنے کی جد وجہد کا سبق دیا۔ چنانچہ وہ ان صوفیوں کے مخالف تھے جو زندگی کی بے حقیقی اور ناپائداری پر زور دیتے تھے۔ صوفی شعراء کے ان خیالات کا ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں،

    ’’مگر افسوس ہے کہ یہ نصیحت جیسی دلکش اور دلفریب ہے ویسی قابل عمل نہیں۔ بہ فرض محال تمام انسان اس نصیحت پر کاربند ہوں تو دنیا کے سارے کاروبار درہم برہم ہو جائیں۔ شجاعت اور ہمت، عقل اور تدبیر، محنت اور جفا کشی، عدالت اور سیاست، غرضیکہ وہ سب صنعتیں جو انسان کو انتظام معاشی کے لئے عطا ہوئی ہیں، ایک قلم معطل اور بےکار ہو جائیں اور انسان کے لئے کوئی استحقاق خلیفۃ اللہ بننے کا باقی نہ رہے۔‘‘

    سائنس نے جن امکانات کی طرف اشارہ کیا تھا، ہندوستان کے جاگیردارانہ دور میں ان کا تصور بھی محال تھا لیکن اب انسان اس قدر کمزور اور بےبس نظر آتا تھا کہ اسے مجبور محض سمجھ لیا جائے۔ حالیؔ نے بھی تقدیر اور تدبیر کی بحث میں یہ لکھا ہے، ’’جس قدر ہم کو اس کا یقین ہے کہ عالم وجود ہے اسی قدر ہم کو اس بات کا بھی یقین کہ ہم سب کام اپنے اختیار سے کرتے ہیں۔‘‘

    جتنا وقت گذر جاتا ہے حالی ؔ کا یہ عقیدہ پختہ ہوتا جاتا ہے کہ ہم جس سیاسی دور میں ہیں، اس میں ترقی کے امکانات بہت ہیں۔ اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے، چنانچہ بعض نظموں میں ان کا سیاسی اور سماجی شعور بہت نمایاں طور پر ظاہر ہو گیا ہے، مثلاً،

    لی ہے کروٹ ایک مدت سے زمانے نے بدل

    راس تھا اگلوں کو جو موسم گیا کب کا نکل

    جو تمدن کی عمارت تھے گئے اسلاف چھوڑ

    آ گیا ہے ان کی بنیادوں میں سر تا سرخلل

    کام کے ہیں اب نہ دنیا میں ہنر ان کے نہ فن

    اور بہ کارآمد زمانے میں ہے کس ان کا نہ بل

    ہیں نئی رسمیں، نئے آئیں، نئی ہے چال ڈھال

    اور نئے علم وہنر کا ہے، جدھر دیکھو عمل

    ہے نئی گویا زمیں، ہے آسماں گویا نیا

    کینچلی گویا کہ لی ہے زالِ دنیا نے بدل

    بڑھ رہے ہیں جو ہوا کا رخ یہاں پہچانتے

    مل رہے ہیں اپنی دور اندیشیوں کے ان کو پھل

    مٹ رہے ہیں جو ہیں اپنی آن پر مچلے ہوئے

    آج گذری خیریت سے تو نہیں خیر ان کی کل

    ساتھ انھیں دینا پڑےگا یاں زمانے کا ضرور

    ورنہ رہنا ہوگا دنیا میں بہ حال مبتذل

    ایک دوسری جگہ فلسفہ ترقی کے عنوان سے ایک نظم لکھی ہے جس میں یہ اشعار ملتے ہیں،

    اے عزیزو تم بھی ہو آخر بنی نوع بشر

    غل ہے کیا نوع بشر میں کچھ تمھیں بھی ہے خبر

    کر رہا ہے خاک کا پتلا وہ جوہر آشکار

    ہو رہی ہے جس سے شان کبریائی جلوہ گر

    رفتہ رفتہ یہ غبارِناتواں پہنچا وہاں

    طائرِ وہم وتصور کے جہاں جلتے ہیں پر

    اس نے ان کمزور ہاتھوں سے مسخر کر لیا

    ابرو برق وباد سے تا بحر وبر و دشت و در

    حق نے آدم کو خلافت اپنی کی تھی جو عطا

    دے رہے ہیں اس خلافت پر گواہی بحرو بر

    تھا ارسطوؔ اور فلاطونؔ کو بہت کچھ جن پہ ناز

    ہو گئے تقویمِ پارینہ وہ سب علم و ہنر

    کل کی تحقیقات نظروں سے اتر جاتی ہیں آج

    بڑھ رہا دم بدم یوں آجکل علم بشر

    قوت ایجاد نے اب یاں تلک پکڑا ہے زور

    شام کی ایجاد ہو جاتی ہے باسی تا سحر

    کہتے ہیں مغرب سے جب ہوگا برآمد آفتاب

    عرصۂ آفاق میں ہوگی قیامت جلوہ گر

    دوستو شاید وہ نازک وقت آ پہنچا قریب

    آرہی ہے روشنی مغرب سے اک اٹھتی نظر

    دستکاری کو مٹاتی، صنعتوں کو روندتی

    علم وحکمت کی پرانی بستیاں کرتی کھنڈر

    ہوشیاروں کو کرشمے اپنے دکھلاتی ہوئی

    غافلوں کو موت کا پیغام پہنچاتی ہوئی

    یہ نظمیں اتنے واضح خیالات کا اظہار کر رہی ہیں کہ ان کی تشریح اور تجزیہ کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔ ان میں نئی زندگی کی توانائی اور زور ہے اور ترقی کی رو کو گرفت میں لینے کی خواہش۔ انگریزی حکومت کی پسندیدگی کا یہی وہ راز تھا، حالیؔ جس کے طلسم میں اسیر تھے۔ ذاتی طور سے وہ انگریزوں سے ملنے میں بہت گھبراتے تھے لیکن ان کے وجود کو ہندوستان کے لئے برکت خیال کرتے تھے۔ چنانچہ جب انھیں شمس العلماء کا خطاب ملا تو انہوں نے اپنے بیٹے کو لکھا کہ اب انگریزوں سے ملنا پڑےگا اور درباروں میں حاضری دینی ہوگی۔ میں کہاں اور یہ درد سری کہاں! سودیشی تحریک کی کامیابی کا تذکرہ کرتے ہوئے حالیؔ ایک جگہ لکھتے ہیں،

    ’’اس تحریک کا اثر ملک پر ضرور ہوگا اور رفتہ رفتہ کم وبیش ہوتا جاتا ہے۔ لوگوں کو اس سرنگ کا راستہ معلوم ہو گیا ہے جس راستہ سے ملک کی دولت غیرملکوں میں کھینچی جاتی ہے مگر اس راستہ کا بند کرنا کوئی ہنسی کھیل نہیں ہے اور اس کے لئے جلدی کرنا نیچر سے مقابلہ کرنا ہے،

    ایک دن کا کام کچھ روما کی آبادی نہیں

    اگر ایک صدی میں بھی ہندوستان غیرملکوں کی مصنوعات کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوجائے تو سمجھ لو کہ اس کو بہت جلد کامیابی ہوئی۔‘‘

    ان باتوں کو پیش نظر رکھ کر حالیؔ کے سیاسی اور سماجی شعور کو اس ہندوستان کے آئینہ میں دیکھنا چاہیے جو انیسویں صدی کے وسط میں تھا۔ مسلمان عام طور سے افلاس، پستی، مایوسی، بے علمی اور بے عملی کا شکار تھے۔ ان کے فوری علاج کے لئے ایک نسخہ درکار تھا اور حالیؔ نے یہی نسخہ تجویز کیا۔ وہ کبھی مسلمانوں کو ان کی گذشتہ عظمت یاد دلاکر، کبھی حال کی پستی پر شرمندہ کرکے، کبھی دوسری قوموں کے عروج کی تصویر دکھا کر ایک مضبوط قوم بنانا چاہتے تھے۔ ان کے پیش نظر کوئی مستقل فلسفۂ سیاسیات نہ تھا جو مستقبل میں دور تک دیکھتا۔ اس لئے ان حالات میں انھیں مفاہمت اور انگریزی حکومت کے زیر سایہ ترقی کرنے کے امکانات پیدا کرنے والے سیاسی راستے پر چلنے کی تلقین کرنا پڑی۔ اس وقت متوسط طبقہ کا یہی راستہ تھا۔

    سیاسی شعور نے حالیؔ کی ادبی سرگرمیوں میں جان ڈال دی اور انھیں جدید اردو ادب کا سب سے بڑا معمار بنا دیا۔ یہ سچ ہے کہ جس طرح ان کی سیاست پر متوسط طبقہ کی بہبودی کے خیال اور مذہب کی پرچھائیں پڑ رہی تھیں، اسی طرح ان کی ادبی سرگرمیوں میں متضاد اخلاقی اور سماجی لہریں دوڑتی نظر آتی ہیں۔ تاہم یہ بات صاف ہے کہ وہ رجعت پسند، تنگ نظر اور ابن الوقت نہیں تھے بلکہ فراخ دل، وسیع القلب، نئی زندگی کا استقبال کرنے والے اور حقیقت پرست تھے اور سارے ملک کو اور خاص کر مسلمانوں کو جاگیرداری کے سڑے گلے نظام سے باہر نکال کر صنعتی دور کے قبول کرنے پر تیار کرنا چاہتے تھے۔ اگر حالیؔ کے شعور کی تشکیل اس طرح نہ ہوئی ہوتی تو وہ کبھی یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ، ’’خیال بغیر مادہ کے پیدا نہیں ہوتا۔‘‘ (مقدمۂ شعر وشاعری) او ’’ شاعر کے خیالات کم وبیش کسی حقیقت واقعہ پر، نہ کہ اختراع ذہن پر مبنی ہونے چاہئیں۔‘‘

    (حیات سعدی)

    مأخذ:

    تنقید اور عملی تنقید (Pg. 93)

    • مصنف: سیداحتشام حسین
      • ناشر: محمد نجم الحسن
      • سن اشاعت: 2005

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے