Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ہم بھی ٹی وی کے مہمان ہوئے

طارق مرزا

ہم بھی ٹی وی کے مہمان ہوئے

طارق مرزا

MORE BYطارق مرزا

    کراچی کے ایک نجی ٹی وی کے ادبی پروگرام کے میزبان کی جانب سے انٹرویو کی دعوت موصول ہوئی تومیں نے معذرت کر لی ۔ تاہم دوست کا اصرار جاری رہا حتٰی کہ مجھے مانتے ہی بنی۔ دعوت قبول کی تو اسلام آباد سے کراچی کے سفر کی تیاری شروع کر دی ۔جہاز کی سیٹ کے ساتھ ساتھ ہوٹل میں کمرہ بھی بک کروا لیا کیوں کہ اس وقت تک ٹی وی والوں نے کراچی میں میرے قیام کے متعلق کوئی بات نہیں کی تھی۔تاہم مجھے یقین تھا کہ دوست کی جانب سے میرے قیام کا پورا بندوبست ہو گا۔کیونکہ میرا میزبان ہماری مہمان نوازی سے مستفید ہوچکا تھا یعنی ساس بھی کبھی بہو تھی۔ دوسر ی طرف کراچی میں میرے قریبی عزیز بھی موجود ہیں۔ ان کا اصرار تھا کہ ان کے ہاں قیام کروں جبکہ میں انہیں زحمت نہیں دینا چاہتا تھا۔ ان حالات میں فیصلہ کر نا کارِ دارد ہو گیا۔ بالآخر میں نے سوچا کراچی پہنچ کر فیصلہ کروں گا۔ ابھی اسلام آباد ائرپورٹ میں تھا کہ ہمارے عزیز کا فون آگیا۔ ایک بار پھر انہوں نے میرے قیام کے بارے میں دریافت کیا۔ میں نے جب انہیں بتایا کہ ہوٹل میں ٹھہر رہا ہوں تو وہ قدرے خفا انداز میں بولے ‘‘ کسی کو ائر پورٹ بھیجوں یا اس کی بھی ضرورت نہیں ہے’’

    عرض کیا ‘‘ رہنے دیں آج یا کل شام ملاقات کرنے گھر حاضر ہو جاؤں گا’’

    انہوں نے کہا‘‘ ٹھیک ہے جب فارغ ہوں تو فون کر لیجیے گا کسی کو لینے بھیج دوں گا“

    کافی عرصے بعد پی آئی کے جہاز میں سوار ہوا تو ماضی اور حال کا فرق واضح محسوس ہوا ۔ کہاں بریانی، پلاؤ اور قورمہ ملا کرتاتھا اور کہاں ایک ریڈی میڈ پائی Pie پکڑا دی گئی جو ہم نے صبر اور شکر کے ساتھ تناول کر لی کیونکہ جہاں حالات بد تر اور خدمات کم تر ہو رہی ہوں وہاں جو کچھ ملے غنیمت ہے۔ہم نے پی آئی کا اچھا وقت بھی دیکھا ہوا ہے ماضی کی خوشگوار یادوں سے دل پشوری کر لیا۔ میرے ساتھ والی سیٹ میں برقع میں ملبوس ایک بزرگ خاتون موجود تھیں۔ ان کا تعلق ہری پور کے قریب کسی گاؤں سے تھا۔ وہ پہلی دفعہ جہاز میں سوار ہوئی تھیں۔ کاغذ میں لپٹی پائی دیکھ کر کہنے لگیں‘‘ پتر ایہہ کی اے؟ ’’

    میں نے کہا ‘‘ خالہ اسے قیمے والا سموسہ سمجھ لیں’’

    کہنے لگیں ‘‘ جہاز وچ بس ایہی کھانا ملدا اے؟’’

    میں نے کہا ‘‘ جی ہاں، جب سے دل کی بیماریاں عام ہوئی ہیں پی آئی والوں نے سکول کے بچوں والا کھانا دینا شروع کر دیا ہے تاکہ مسافروں کی صحت برقرار رہے’’

    خالہ مسکرائیں اور کہنے لگیں ‘‘ پتر ایہہ سموسہ کھول دیو’’

    خالہ کے دو بیٹے کراچی میں ٹیکسی چلاتے تھے وہ اُنھی سے ملنے جا رہی تھیں۔کراچی اُتر کرمیں نے خاتون کا بیگ اٹھایا اور انہیں باہر لے آیا جہاں ان کے بیٹے ان کا انتطار کر رہے تھے۔ انہوں نے مجھے بہت سی دُعائیں دیں اور ان کے بیٹوں نے شکریہ ادا کیا ۔ مجھے لینے کے لیے ائر پورٹ پر کوئی بھی موجود نہیں تھا۔ عزیزوں کو میں نے منع کر دیا تھا جب کہ میرا ٹی وی والا دوست بھی ایسے غائب تھا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔

    میرے ساتھ بھی وہی ہوا تھا جو دو گھروں کے مہمان کے ساتھ ہوتا ہے۔بہرحال میں نے بیگ اٹھایا اور ٹیکسی سٹینڈ کی طرف بڑھا ۔خاتون کے بیٹوں میں سے ایک نے کہا‘‘ آپ کہاں جائیں گے ہم آپ کو ڈراپ کر دیتے ہیں’’

    میں نے کہا ‘‘ اس کی ضرورت نہیں ہے میں ٹیکسی لے لیتا ہوں’’

    کہنے لگا ‘‘ فکر نہ کریں ہمارے پاس بھی ٹیکسی ہی ہے اور اس میں جگہ بھی ہے ہم شیر شاہ جا رہے ہیں آپ جہاں کہیں گے آپ کو ڈراپ کر دیں گے“

    ان غریب مگر مہمان نواز لوگوں کے جذبات کا خیال کرتے ہوئے میں نے ہاں کی تو وہ خو ش ہو گئے اور بیگ اٹھا کر میرے آگے آگے چل پڑے۔پرانی سی ٹیکسی میں بہت احترام کے ساتھ انہوں نے مجھے فرنٹ سیٹ پر بٹھایا۔ یہ ٹیکسی ایسے ہچکولے لیتی تھی جیسے کہہ رہی ہو مجھے نہ چھیڑو میں بہت تھکی ہوں۔ جب ڈرائیور کی دست درازی نہ رُکی تو احتجاجاً اس کا نجن بند ہو گیا اور ناراض محبوبہ کی طرح منہ پھلا کر بیٹھ گئی۔ اس وقت تک ہم ائرپورٹ سے زیادہ دور نہیں تھے۔ مجھے لگ رہا تھا کہ اس گاڑی کے ذریعے منزل مقصود پر پہنچنا بہت مشکل ہے مگر ڈرائیور مجھے تسلیاں اور گاڑی کو ہندکو میں گالیاں دے رہا تھا۔ میں ڈر رہا تھا کہ گاڑی والا روئے سخن میری طرف نہ ہو جائے اس لیے سمٹ کر بیٹھ گیا۔حالانکہ سمٹ کر بیٹھنا اس لیے مشکل ہو رہا تھا کہ نومبر میں بھی کراچی میں اتنی گرمی پڑ رہی تھی جو کبھی صرف جون جولائی میں ہوا کرتی تھی۔ میں نے کوٹ اتار کر گود میں رکھ لیا۔ پسینہ پانی کی طرح بہ رہا تھا۔ جب کہ میں اسلام آباد میں خوشگوار موسم چھوڑ کر آیا تھا۔ خدا خدا کر کے گاڑی سٹارٹ ہوئی۔شاہراہِ فیصل پر ٹریفک کا اژدہام ہمارا منتظر تھا۔ سڑک پر موٹر سائیکلیں ایسے جُڑ کر چل رہی تھیں جیسے بھیڑ بکریوں کا ریوڑ چلتا ہے۔ اس ریوڑ میں گاڑی چلانا مداری کے کمال جیسا محسوس ہوتا تھا۔ مگر ہمارا ڈرائیور کانپتی اور تھرکتی گاڑی کو ہارن اور ہندکو گالیوں کے سہارے چلا تاجا رہا تھا۔ اسے دیکھ کر مجھے زمانہ طالب علمی کی وہ بس یا دآگئی جو غالباََ دوسری جنگ عظیم سے بھی پہلے کا ماڈل تھا مگر پاکستانی مستریوں کی مہارت کی وجہ سے ابھی تک چل رہی تھی۔ بس چلتی تھی تو اس کا ایک ایک پرزہ صدائے احتجاج بلند کرتا تھا۔ مسافر خیریت سے منزل پر پہنچتے تھے تو کلمہِ شکر بجا لاتے۔ اس بس میں ایک شعر درج تھا جو کیاحسبِ حال تھا۔:

    انجن کی خوبی ہے نہ ڈرائیور کا کمال

    اللہ کے سہارے چلی جا رہی ہے

    ہوٹل پہنچ کر میں نے سکون کا سانس لیا۔ وہیں سے میں نے اینکر دوست کو فون کر کے اپنی آمد سے مطلع کیا۔ فرمانے لگے ‘‘ ٹھیک ہے کل چینل میں ملاقات ہو گی’’

    گویا چینل سے باہر ان کی کوئی ذمہ داری نہیں تھی۔یہ وہی دوست تھے جو پچھلے کئی ماہ سے مجھے کراچی آنے اور انہیں میزبانی کا موقع دینے پر اصرار کر رہے تھے۔وہ جب میرے شہر میں آئے تھے تو ہوٹل میں نہیں بلکہ میرے گھر میں ٹھہرے تھے۔ چار پانچ دن جی بھرکر ان کی مہمان نوازی کی،جس کو وہ بار بار سراہتے تھے۔ لیکن آج حضور کے تیور بدلے بدلے سے لگ رہے تھے۔ میں نے یہ سوچ کر خود کو تسلی دی کہ شاید بڑے شہروں کے میں ایسا ہی ہوتا ہو یا پھر بقول شاعر ہم ہی میں نہ تھی وہ بات۔

    بہرحال اس شام میں آزاد تھا۔اس لیے اپنے عزیز کو فون کر کے بتایا کہ شام کو ان کی طرف آؤں گا۔ انہوں نے کہا ‘‘ بہت اچھی بات ہے کسی کو بھیج دوں لانے کے لیے؟’’

    میں نے کہا ا س کی ضرورت نہیں ہے میں ٹیکسی لے کر آ جاؤں گا۔’’

    انہوں نے تاکید کی کہ کھانا ان کے ساتھ کھاؤں۔ارادہ تو میرا بھی یہی تھا لیکن بڑے شہر کی کرامات میں یہ بھی شامل ہے کہ جہاں جانے کا ارادہ ہو ضروری نہیں وہاں پہنچ بھی پاؤ۔ میرے ساتھ بھی یہی ہوا۔ اس شام بے نظیر بھٹو پر کارساز میں قاتلانہ حملے کی یاد میں احتجاج ہو رہا تھا جس کا سلسلہ شاہراہ فیصل اور دیگر علاقوں تک پھیلا ہوا تھا ۔ میں نے ٹیکسی لی جس نے ایئر پورٹ کی طرف جانے والے ہر راستے پر قسمت آزمائی کی لیکن ہماری ہر کوشش ناکام ثابت ہوئی۔پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور وہی احتجاج کر رہے تھے شکایت کروں تو کس سے کروں۔ تقریباً اڑھائی گھنٹے کی ناکام سعی کے بعد ہم ہوٹل واپس آگئے اور خالہ کے ہاتھ کی بنی بریانی کی بجائے افغانی کباب اور نان کا ڈنر کیا۔ نہ جانے ان کبابوں میں کس قسم کے مسالے استعمال ہوئے تھے کہ میرے معدے میں سخت جلن شروع ہو گئی۔ کولڈڈرنک سے یہ جلن کم نہیں ہو رہی تھی۔ میں نے ہوٹل کے ملازم کو تازہ دودھ لانے کے لیے بھیج دیا۔ کافی دیر کے بعد وہ واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں ملک پیک کا ڈبہ تھا۔کہنے لگا ‘‘ یہاں تازہ دودھ کی دُکان نہیں ہے بس یہی ملا ہے’’

    میں نے کہا ‘‘یہ مصنوعی دودھ مجھے نہیں چائیے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے اتنے بڑے شہر کا اتنا بڑا بازار ہو اور یہاں دودھ کی دکان نہ ہو’’

    ویٹر کافی تھکا لگ رہا تھا بولا ‘‘ سر میں نے پوری کوشش کی ہے مجھے تو کوئی دکان نہیں ملی’’

    میں نے کہا ‘‘کوئی بات نہیں آپ جائیں’’

    میں خود دودھ کی تلاش بلکہ اس کی نہر کھودنے نکل پڑا ۔ سوچا اسی بہانے چہل قدمی اور علاقے کی سیر بھی ہو جائے گی۔ میں نرسری کے اس بارونق اور پوش علاقے کے بازار میں کئی کلو میٹر تک چلتا چلا گیا لیکن دودھ کی دکان نہیں ملی تاہم جو کھایا پیا تھا وہ ہضم ہو گیا۔

    پچیس تیس برس قبل میں اس شہرِ نگاراں کا باسی رہ چکا ہوں مجھے یاد ہے یہاں ہر علاقے میں ناگوری ملک شاپ یا اس قسم کی دودھ دہی کی دکانیں ہوا کرتی تھیں جہاں گرم اور ٹھنڈا دونوں قسم کا ملائی والا دودھ فروخت ہوتا تھا ۔کہیں کہیں اس کے ساتھ گرم جلیبیاں بھی ہوتی تھیں۔ ان کے آگے بنچ دھرے ہوتے تھے جہاں بیٹھ کر لوگ موسم کی مناسبت سے ٹھنڈا یا گرم دودھ نوش کرتے تھے۔آخر وہ دُکانیں کیا ہوئیں۔

    کیا اس شہر والوں کے مقدرمیں اب فیکٹری میں بنا ملک پیک ہی رہ گیا ہے ۔

    دُودھ کی تلاش میں اتنا دور نکل آیا تھا کہ ٹیکسی لے کر ہوٹل واپس آیا۔ معدے کی جلن کی وجہ سے رات زیادہ تر جاگتے گزری۔صبح سویرے اُٹھ کر تیار ہوا، ٹیکسی لی اور ٹی وی اسٹیشن روانہ ہو گیا۔ ناشتے کا وقت نہیں تھا کیونکہ شو شروع ہوا چاہتا تھا۔ سڑکوں پر حسبِ معمول رش تھا جس کی وجہ سے بمشکل وقت پر پہنچ پایا۔ دوست سے ملاقات ہوئی اور براہ راست پروگرام میں شامل ہو گیا۔ پروگرام کے بعد سٹوڈیو سے نکلا تو دیکھا کہ انتظار گا ہ میں رونق لگی ہے۔ شہر کی کئی ادبی شخصیات موجود ہیں۔کچھ احباب سے بالواسطہ یا براہِ راست میرا رابطہ تھا بقیہ کو ہمارے دوست نے آگاہ کیا تھا۔ شعرائے کرام کو آسٹریلیا کے مشاعروں سے دلچسپی تھی۔شعرو شاعری، مشاعروں اور شاعروں کا تذکرہ ہوتا رہا۔ دبئی، لندن، نیویارک اور پیرس کے مشاعروں اور وہاں کی ادبی تنظیموں کا ذکر ہوتا رہا،چائے کا دور چلتا رہا۔چھوٹا سا کمرہ سگریٹ کے دھوئیں سے بھراتھا۔کئی احباب نے اس شام یا اگلے دن کھانے کی دعوت دی لیکن کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ بھیاآج کچھ کھایا ہے؟

    حتیٰ کہ شام کے سات بج گئے۔ چوبیس گھنٹے سے میرے معدے میں کڑوی کسیلی چائے کے علاوہ کچھ نہیں گیا تھا۔ اس لئے آنتیں قل ہوللہ پڑھ رہی تھیں۔ اُوپر سے ایسے ایسے شعروں کی سنگ باری جاری تھی کہ بقول غالبؔ حیراں ہوں دل کو روؤں یا پیٹوں جگر کو’ والا معاملہ تھا۔

    خالی معدے میں یہ شعر ایسے ہی چبھتے جیسے پچھلی رات افغانی کباب چبھ گئے تھے۔میں نے کئی بار اجازت چاہی لیکن احباب کے ‘‘محبت آمیز’’ اصرار پربیٹھنا پڑا۔ سات بجے میرے ایک دوست کا فون آگیا جو کبھی سڈنی میں میری کمپنی میں ملازم رہ چکا تھا۔ کراچی واپس آکر بھی وہ مجھے نہیں بھولا تھا۔ شاید متوسط طبقے کی وضعداری کا اثر تھا۔ وہ مجھے لینے نیچے آیا ہوا تھا۔ احباب سے اجازت لے کراور ان کی‘‘مہمان نوازی’’ کا شکریہ ادا کر کے نیچے آیا تو میرا دوست ذیشان خان انتہائی تپاک سے ملا۔ کہنے لگا‘‘ بتائیے کیا پروگرام ہے“

    ”کسی ریستوران میں لے چلو ورنہ اسپتال لے جانا پڑے گا“

    ہنستے ہوئے بولا‘‘ شعرو شاعری سے پیٹ نہیں بھرا“

    ”خبردار، یہ نام بھی نہ لینا ورنہ میری طبیعت مزید بگڑ جائے گی’’

    اُس نے ہنستے ہوئے گاڑی کا رُخ قریبی ریستوران کی طرف موڑ دیا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta 10th Edition | 5-6-7 December Get Tickets Here

    بولیے