Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ہمارے ساز

شاہد احمد دہلوی

ہمارے ساز

شاہد احمد دہلوی

MORE BYشاہد احمد دہلوی

     

    موسیقی کے تین عناصر ہیں۔ گانا، بجانا اور ناچنا۔ یہ سب ذرائع ہیں اظہارِ جذبات کے۔ فنکار کسی جذبے کی تصویر بناتا ہے یا خود تصویر بن جاتا ہے اور سننے والے یا دیکھنے والے کے دل میں بھی وہی جذبہ پیدا کر دیتا ہے۔ کمالِ فن یہی ہے کہ فنکار دوسروں کو بھی اسی طرح متاثر کرے جس طرح خود متاثر ہوتا ہے۔ موسیقی میں اگر تاثر نہ ہو تو وہ موسیقی نہیں ہوتی، شور و شغب بن جاتی ہے۔ گلوئی موسیقی کی ہم آہنگی یانقالی کے لئے سازی موسیقی وضع ہوئی۔ سازوں کی ایجاد کے بارے میں وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ کون سا ساز کب وضع ہوا، تاہم اتنا یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ گانے اور ناچنے کی طرح ساز بنانے کا تصور بھی فطرت ہی نے انسان کو دیا۔ آبشاروں کا ترنم، دریاؤں کی روانی، ہوا کے جھونکے، سمندر کی لہریں، ان سب کی سریلی آوازیں سازوں کے قالب میں ڈھل گئیں۔ 


    یونانِ قدیم کی ایک روایتی کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ ایک حکیم اپنے دورانِ سفر میں دھوپ اور گرمی سے تھک کر سستانے کے لئے تھوڑی دیر کو ایک گھنے درخت کے سائے میں لیٹ گیا۔ ہوا کے ہر جھونکے کے ساتھ اس درخت میں سے سریلی آوازیں آنے لگیں۔ حکیم نے بہت دیکھا بھالا مگر اسے کچھ پتہ نہ چل سکا کہ یہ آوازیں کہاں سے آ رہی ہیں۔ جب یہ آوازیں برابر آتی رہیں تو حکیم سے ضبط نہ ہو سکا اور اس کا سبب معلوم کرنے کی غرض سے درخت پر چڑھ گیا۔ درخت کی پھننگ پر حکیم نے دیکھا کہ ایک مرے ہوئے بندر کی آنتیں دو ڈالیوں میں الجھ کر تن گئی ہیں۔ ان سے جب ہوا کے جھونکے ٹکراتے ہیں تو ان میں کپکپی پیدا ہوتی ہے اور اس ارتعاش سے نغمے پیدا ہوتے ہیں۔ 

    کہا جاتا ہے کہ اس حکیم نے اسی اصول پر وایولن ہارپ بنایا۔ اس بربط میں رودے یعنی تانت کے تار لگائے اور اسے مکان کے اوپر ہوا کے رخ پر جڑ دیا۔ ہوا کے نرم اور تیز جھونکوں سے طرح طرح کے نغمے اس بربط سے پیدا ہونے لگے۔ زمانے کی ترقی کے ساتھ ساتھ تانت اور تار کے مختلف ساز وجود میں آتے گئے۔ اسی طرح روایت ہے کہ پہاڑ کی جھریوں اور سوراخوں میں سے ہوا کے گزرنے سے سیٹیوں کی آوازیں سن کر پھونک سے ساز بجانے کا تصور متقدمین کو ملا، یا نرسلوں میں سے ہوا کے سنسنانے سے بانسری بجانے کا تخیل پید ہوا۔ بہر حال اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ سازوں کی ایجاد کے باب میں بھی فطرت ہی انسان کی معلم اول ہے۔ 

    ساز تین قسم کے ہوتے ہیں۔ 

    (۱) گز سے بجنے والے، جیسے چکرہ، دلبر، طاؤس، سارنگی، سارندہ وایولن اور چیلو۔ 

    (۲) ضرب سے بجنے والے، جیسے بین، ستار، رباب، ڈھولک، طبلہ اور پیانو۔ 

    (۳) پھونک سے بجنے والے، جیسے کارنٹ، کلارنٹ، بانسری اور مشک باجہ۔ 

    دلربا صورت شکل میں ستار سے ملتا جلتا ہے۔ ستار کی طرح اس کے گلو میں پردے بندھے ہوتے ہیں۔ باج کے تار کے علاوہ جوڑا کھرج، پنچم اور ٹیپ کے تار بھی ہوتے ہیں۔ آس دینے کے لئے پردوں کے نیچے طربیں ہوتی ہیں۔ اس کا پیٹ یا ساؤنڈ بکس سارنگی سے مشابہ ہوتا ہے۔ قدیم ایرانی تصویروں میں دریا کی شکل کے ساز پائے جاتے ہیں۔ موجودہ دلربا پنجاب کا تحفہ ہے۔ تار پر انگلی رکھ کر اسے بجایا جاتا ہے، پردوں سے اس کے سر متعین کئے جاتے ہیں۔ 

    سارنگی دلربا سے آدھے قد و قامت کا ساز ہے۔ یہ ساز سوا ہندوستان اور پاکستان کے دنیا بھر میں کہیں نہیں پایا جاتا۔ اس ساز میں تین باج کے تار تانت کے ہوتے ہیں۔ ان پر تین سپتکیں بجائے جاتی ہیں۔ تار کی موٹائی پر کھرج کا دار و مدار ہوتا ہے۔ گونج پیدا کرنے کے لئے طربوں کے تین set ہوتے ہیں۔ یہ ساز ناخنوں سے بجایا جاتا ہے۔ اس طرح کہ تانت کے پہلو سے ناخن ملا کر رکھا جاتا ہے۔ بائیں ہاتھ کی انگلیوں کے ناخن رگڑ دے کر اوپر یا نیچے کھسکائے جاتے ہیں اور دائیں ہاتھ سے باج کے تار پر گز چلایا جاتا ہے۔ سارنگی میں پردے نہیں ہوتے، اس لئے یہ سب سے دشوار ساز سمجھا جاتا ہے۔ گلے کے ساتھ سنگت کرنے اور راگ کے نازک مقامات ادا کرنے میں یہ ساز اپنا جواب نہیں رکھتا۔ اس کے پیٹ پر پتلی کھال منڈھی ہوتی ہے جس سے آواز میں گونج پیدا ہوتی ہے۔ جو کچھ گایک کے گلے سے ادا ہوتا ہے اسے سارنگی نواز اپنے ناخنوں سے ادا کر دیتا ہے۔ ہماری زبان کا محاورہ ’’ناخنوں میں ہونا‘‘ اسی سے استعارہ ہے۔ 

    وایولن اہلِ مغرب کی سارنگی ہے۔ نازک سی کمر، صراحی دار گردن۔ کہا جاتا ہے کہ جب ہسپانیہ میں مسلمان راج رجتے تھے، کسی مسلم فنکار نے اسے ایجاد کیا۔ اس کے چار تار ہوتے ہیں جن پر انگلیاں چلائی جاتی ہیں۔ وایولن کا نچلا حصہ تھوڑی کے نیچے دبا لیا جاتا ہے تاکہ ساز ہلنے نہ پائے۔ دائیں ہاتھ سے گز چلایا جاتا ہے اور بائیں ہاتھ کی انگلیاں تاروں پر دوڑتی ہیں۔ 

    چیلو بڑی وایولن ہوتی ہے۔ قد و قامت میں وایولن سے چوگنی۔ اس کے بھی چار تار ہوتے ہیں موٹی تانت کے۔ گز سے بجایا جاتا ہے۔ کھرج دار ہے۔ اس سے آرکسٹرا بھاری بھرکم ہو جاتا ہے اور شکوہ پیدا ہوتی ہے۔ بھاری اور بڑا ساز ہونے کی وجہ سے چیلو زمین پر لٹکا کر بجایا جاتا ہے۔ 

    سارندہ سرحدی ساز ہے۔ وایولن سے بھی چھوٹا ہوتا ہے۔ اس کا گنجارہ دل کی شکل کا ہوتا ہے اور آگے سے کھلا ہوتا ہے۔ تار فولاد کے ہوتے ہیں۔ گز سے بجایا جاتا ہے۔ آواز تیز ہوتی ہے۔ سرحدی دھنوں کے لئے سب سے موزوں ساز ہے۔ اب ہمارے سازینے میں بھی شامل ہو گیا ہے۔ 

    ستار ضرب سے بجنے والے سازوں میں ستار ہر دلعزیز ساز ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بین کے جواب میں امیر خسرو نے ستار بنایا۔ اس میں ابتداً صرف تین تار تھے۔ جس کی وجہ سے ’’سہ تار‘‘ اس کا نام رکھا گیا۔ امتدادِ زمانہ کے ساتھ اس کے تاروں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا اور اس میں بیسیوں تار اور طربیں لگ گئے۔ ایک تونبہ اور گز سوا گز کی ڈانڈ ہوتی ہے جس میں سروں کے فاصلوں کے حساب سے پردے بندھے ہوتے ہیں۔ تار کا نکاؤ بائیں ہاتھ کی انگلیوں سے پردوں پر ہوتا ہے اور دائیں ہاتھ کی انگشت میں مضراب پہن کر باج کے تار پر ضرب لگائی جاتی ہے۔ تار کے کھنچنے سے مینڈ پیدا کی جاتی ہے۔ مینڈ سے سروں کے نازک مقامات ادا کئے جاتے ہیں۔ 

    رباب قدو قامت میں سارنگی کے برابر ہوتا ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ اس سرزمین پر آیا۔ اسی کا نام سرود بھی ہے جس کی وجۂ تسمیہ یہ ہے کہ شروع شروع میں رودے کے تین تار ہوتے تھے۔ یوں اس کا نام ’’سہ رود‘‘ پڑا۔ اب سرود میں فولاد کے تار ہوتے ہیں اور رباب میں رودے کے۔ 

    طبلہ ہندوستان کا قدیم تال کا ساز پکھاوج ہے، جو ڈھولک کی شکل کا ہوتا ہے۔ روایت ہے کہ امیر خسرو نے پکھاوج کو بیچ میں سے کاٹ کر دو ٹکڑے کر لئے اور دایاں اور بایاں الگ الگ بنا دیے۔ دایاں سر میں ملایا جاتا ہے اسی وجہ سے اس کے تسموں میں لکڑی کے گٹے لگائے گئے ہیں۔ انہیں سے طبلے کے آٹھوں گھاٹ ایک سر میں ملائے جاتے ہیں۔ طبلہ تال کا ساز ہے، گویا گانے بجانے کی میزان ہے۔ اس کے بول پکھاوج، ڈھولک تاشے وغیرہ سے الگ ہوتے یں۔ 

    ڈھولک قوالوں کا ساز ہے۔ اس کی آواز اور بول طبلے سے الگ ہوتے ہیں۔ اس میں پکھاوج یا طبلے کی طرح گٹے نہیں ہوتے۔ ڈوریوں میں چھلے ہوتے ہیں جن سے ڈھولک کو چڑھایا، اتارا جاتا ہے۔ بائیں ہاتھ کی پٹری میں گدا ہوتا ہے جس کی وجہ سے گونج پیدا ہوتی ہے۔ 

    بانسری ہر ملک میں قدیم سے بجتی چلی آ رہی ہے، اس کی مختلف شکلیں ہیں۔ ہندوستان میں کرشن مرلی نے شہرت پائی۔ مغرب کے علم الاصنام میں جنگل کے دیوتا PAN نے بانسری بجائے۔ مولانا روم نے، 

    بشنواز نے چوں حکایت می کند
    از جدائی ہا شکایت می کند

    کہہ کر ’’نے‘‘ کو لافانی شہرت دے دی۔ بانسری بانس یا دھات یا ابونائیٹ کی بنائی جاتی ہے۔ اس میں بالعموم چھ سوراخ ہوتے ہیں جن پر انگلیاں رکھی اور ہٹائی جاتی ہیں۔ شہنائی، نفیری، قرنا، سرنا، بوق، کلارنٹ وغیرہ سب اس کی محتلف شکلیں ہیں۔ 

    کلارنٹ مغرب کی ترقی یافتہ بڑی بانسری ہے، اس میں سوراخ بھی ہوتے ہیں اور چابیاں بھی۔ ایک ہی کلارنٹ کھرج کے سروں میں بھی بجائی جا سکتی ہے اور ٹیپ کے سروں میں بھی۔ اس میں بانس کی پتی mouth piece میں لگائی جاتی ہے جس کے اہتزاز سے آواز پید ہوتی ہے۔ سوراخوں اور چابیوں سے سر متعین کئے جاتے ہیں۔ 

    کارنٹ ایک چھوٹا سا پتیلی باجہ ہے۔ بگل کی شکل کا۔ اس میں صرف تین چابیاں ہوتی ہیں جن میں اسپرنگ لگے ہوتے ہیں۔ ان تین چابیوں ہی سے سارے سُر ادا کئے جاتے ہیں۔ ہر چابی سے کئی کئی سر پیدا ہوتے ہیں۔ چابی کو جتنا کم یا زیادہ دبایا جائے اتنا ہی سُر اترتا یا چڑھتا ہے۔ کلارنٹ کی طرح کارنٹ بھی مغربی آرکسٹرا کا ساز ہے جو اب ہمارے سازینے میں بھی شامل ہو گیا ہے۔

     

    مأخذ:

    دلی جو ایک شہر تھا (Pg. 260)

    • مصنف: شاہد احمد دہلوی
      • ناشر: فیاض رفعت
      • سن اشاعت: 2011

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے