Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ابہام اور بازی گری

سلیم احمد

ابہام اور بازی گری

سلیم احمد

MORE BYسلیم احمد

    اپنے پچھلے مضمون ’’ابہام کیوں؟‘‘ میں، میں نے یہ دکھانے کی کوشش کی تھی کہ، (۱) ابہام کیوں پیدا ہوتا ہے؟ (۲) ابہام کی فنی ضرورت کیا ہے، یعنی دانستہ ابہام کی غرض وغایت کیا ہے؟

    اس کے ساتھ ہی میں نے یہ عر ض کیا تھاکہ ابہام کے دورخ ہیں۔ ایک قاری کی طرف، دوسرا شاعر کی طرف اور قاری کو ابہام کن کن شکلوں میں محسوس ہوتا ہے۔ یہ بھی کہا کہ ابہام کا مقصد کبھی لطف آفرینی ہوتا ہے اور کبھی معنی آفرینی اور یہ دو کوششیں ایسی ہیں کہ ہر دور میں ہوتی رہی ہیں۔ صرف جدید شاعروں یا جدید شاعری سے ان کا تعلق نہیں ہے۔ اب میں اس مسئلے کے ایک اور پہلو کی طرف اشارہ کروں گا یعنی یہ دکھاؤں گا کہ جدید شاعری میں ابہام کی جو صورت ہے، وہ کیا ہے اور جدید شاعری کے ابہام سے مجھے کتنا اختلاف یا اتفاق ہے۔

    لیکن قبل اس کے کہ میں اس بحث میں جاؤں، اردو شاعری کی ایک بنیادی بات کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں۔ اردو شاعری کی مرکزیت روایت یہ ہے کہ آدمی کتنی ہی بڑی بات کیوں نہ کرے اور کتنے ہی نازک احساس، لطیف جذبے اور پیچیدہ تجربے کو کیوں نہ اظہار میں لائے، اسے عام زبان کے مطابق ہونا چاہئے۔ اردو شاعری نے یہ سب سے مشکل خوبی اختیار کرنی چاہی کہ کیسا ہی کلام ہو، روز مرہ کے مطابق اور سیدھے سادے لفظوں میں ہونا چاہئے۔ میں اسے صرف مشکل صفت نہیں سمجھتا، خدائی صفت سمجھتا ہوں۔ صرف خدا ہی انسان سے ایسے بول سکتا ہے کہ عالم و جاہل، عارف وعامی، مبتدی ومنتہی، دونوں فیض یاب ہوں۔

    اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ ایک طرف تو کلام اتنا سادہ اور آسان ہے کہ زبان کا ہر بولنے والا سمجھ سکتا ہے۔ دوسری طرف اتنا مشکل ہے کہ منتہی بھی پناہ مانگ جاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اس کلا م کا ابلاغ کئی سطحوں پر ہوتا ہے اور مخاطب کی صلاحیت اور علم کے مطابق خودبخود بدلتا جاتا ہے۔ اردو شاعری نے یہ کام کتنے بڑے پیمانے پر کیا اور کس حد تک کامیابی حاصل کی، اس کی سب سے بڑی مثال تو میر کی شاعری ہے۔ لیکن اردو کے دوسرے شعرا بھی اسی راہ پر چلتے رہے۔ یہی کوشش مصحفی کی ہے، یہی آتش، یہی درد کی، یہی ذوق کی۔ بعد میں داغ نے روزمرہ کے استعمال کو معجزہ بنادیا۔ داغ کے بارے میں عام لوگوں کا خیال ہے کہ وہ صرف زبان کے شاعر ہیں اور ان کے ہاں معنی کی بلندی اور گہرائی نہیں ملتی۔ خیال عموماً مبتذل اور پست ہوتا ہے اور جذبات ومحسوسات بازاری۔ خود داغ کی زندگی نے اسے تقویت پہنچائی اور اردو کے نقادوں کو تو میر اور مصحفی میں کچھ نظر نہیں آتا، داغ میں کیا نظر آئےگا۔

    لیکن عسکری صاحب نے کسی مضمون میں داغ کے کلام کی ایک معنوی جہت کی طرف اشارہ کیا ہے اور اسے بھی تصوف کی عظیم روایت کا عظیم شاعر قرار دیا ہے۔ یہ خیال لوگوں کواتنا غلط اور مضحکہ انگیز معلوم ہوا کہ بعض تو ا ن کے منہ میں خاک، عسکری کی ادبی موت کا اعلان کرنے لگے۔ اب یہ تو زمانہ ہی بتائےگا کہ موت کس ادب کی ہو رہی ہے اور کون طبقہ اپنے کرتوتوں کے ہاتھوں ادب میں موت کے گھاٹ اترےگا، مگر میں اس میں بے عملی ہی نہیں، ہٹ دھرمی کی بو بھی پاتا ہوں۔ قاعدہ یہ ہے کہ ادب کے بارے میں اگر کوئی ایسا آدمی جس نے اس کی تفہیم کا ثبوت پیش کیا ہو، مناسب علم وادراک رکھتا ہو اور سنجیدگی سے سوچتا ہو، اس کی بات سے خواہ اختلاف کیا جائے مگر غور سے سننے اور سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں سمجھنے کی تو کیا، سننے کی بھی توفیق نہیں ہوتی اور بڑے بڑے لوگوں کو دیکھتا ہوں کہ کوئی نئی بات سن کر بازاری ردعمل میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

    عسکری نے اپنے ’’سات رنگ‘‘ والے مضامین میں اور ان مضامین کے بعد کی کچھ تحریروں میں بھی بعض ایسی نئی، اچھوتی، حیرت میں ڈال دینے والی باتیں کہیں کہ اردو ادب اور اردو ادیب اگر زندہ ہوتے تو تہلکہ مچ جاتا۔ مگر میں نے عام طور پر وہ حال دیکھا جو چھپکلی کا ہوتا ہے، یعنی جسم تو مردہ ہے، بس دم ہل رہی ہے اور وہ بھی پورے جسم سے کٹ کر۔ اردو ادیبوں کی کٹی ہوئی دم ان کی بےتاب زبان ہے کہ دماغ سے الگ ہوکر اچھل کود کرتی رہتی ہے۔

    خیر، داغ کی بات تو یہ ہے کہ ان کے بہترین مداح بھی عسکری صاحب کی رائے کو ذرا مشکل سے اور دیر میں بھی سمجھیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ مگر عسکری صاحب کی بات تو یار لوگوں کو میر کے بارے میں بھی کچھ سوچنے پر مجبور نہ کر سکی۔ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ روایتی چینی لڑکیوں کے پیروں کی طرح ہمارے ذہن بھی لوہے کے جوتے میں جکڑ دیے گئے ہیں اور جکڑے جکڑے ٹھٹھر گئے ہیں۔ ممکن ہے کہ کچھ لوگ اسے خوبصورتی سمجھتے ہوں، مگر ہے یہ غیرفطری بات۔ فکر کے اس ٹھہراؤ کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہمیں معنی کی صرف ایک سطح کا ابلاغ ہوتا ہے اور وہ بھی عموماً ایک پست ترین سطح کا۔ ہم نے اردو شاعروں کے کلام کے سہل انداز او ر عام زبان سے اندازہ لگا رکھا ہے کہ معنی بھی سہل اور معمولی ہیں، سوائے غالب کے۔ غالب نے ایک اپنی مشکل پسندی کا ڈھول پیٹا اور پھران کے مریدوں نے تو انہیں اتنا اڑایا کہ فلک معانی کا ستارہ بن گئے۔

    میں اس ستارے کو اردو کا دم دار ستارہ کہتا ہوں۔ غالب کی مشکل، معنی کی مشکل سے نہیں، ان کی جناتی زبان کے اشکال سے پیدا ہوتی ہے ورنہ بیشتر ان کے کلام کی معنوی سطح پست ہے، اورجب ان کے شنیدن، تپیدن، چکیدن وغیرہ کی گرہ کھولیے توبہت معمولی معنی برآمد ہوتے ہیں۔ یہ جعلی معنی آفرینی اور جھوٹی دقت پسندی ہے اور جہاں غالب سچ مچ صحیح معنوں میں مشکل ہیں وہاں بھی ان کے معنی کی سطح میر تک نہیں پہنچتی۔ خدا نے توفیق دی تو کبھی میز پر کچھ لکھ کر اس بات کو مثالوں کے ساتھ واضح کر دوں گا۔

    غالب کا ستارہ آج کل عروج پر ہے اور جھوٹی مشکل پسندی اور مصنوعی ابہام کا بھی۔ بس یہی وہ مقام ہے جہاں سے جدید اردو شاعری سے میرا راستہ الگ ہو جاتا ہے۔ میں اصولی طور پر ابہام کو کبھی کبھی ناگزیر سمجھتا ہوں اور ایک مستند فنی ضرورت بھی مگر جدید شاعری کا ابہام تو خالی سیپی ہے۔ معنی کے سمندر نے انہیں ساحل پر پٹک دیا ہے اوراب ان کا مصرف یہ ہے کہ ان سے بچے کھیلیں یا ادنی درجے کے صناع اور دستکار کھلونے یا ہار اور بندے بنا لیں۔ ادب کی محفل میں کتنے جدید شاعر ہیں کہ کسی کو ابہام کا ہار گلے میں ڈالے، اتراتے دیکھتا ہوں۔ کسی کو بندے پہنے اکڑتے پاتا ہوں اور بعض تو ایسے ہیں کہ ہار اور بندے بھی نہیں ملے، خالی سیپیوں کے ڈھکن بجاتے پھرتے ہیں۔ مجنوں گورکھپور صاحب نے ایک مرتبہ اچھی بات کہی۔ ان سے کسی نے کہا کہ جدید شاعری سمجھ میں نہیں آتی۔ انہوں نے کہا، جی نہیں، بالکل سمجھ میں آتی ہے۔ سمجھ میں یہ آتا ہے کہ اس میں سمجھنے کی کوئی بات نہیں۔

    جدید شاعری کے ابہام کو میں نے مصنوعی کہا۔ اس کا مشاہد ہ اور تجربہ میں کئی جدید شاعروں کے یہاں کر چکا ہوں۔ ان کا یہ حال ہے کہ پہلے ایک سیدھی سادی نظم کہہ لیتے ہیں۔ پھر اس میں اوپر سے ابہام چھڑکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نسخہ یہ ہے کہ نظم کا پوسٹ مارٹم کیا جائے۔ پہلے تو سر کو کاٹ کر پیر کی جگہ لگا دیا جائے یا پیر کو سر کی جگہ۔ پھر دھڑ میں تبدیلیاں کی جائیں۔ ناف سینے پر لگا دی جائے۔ ناف کی جگہ جہاں خالی ہو وہاں ناک کاٹ کر پھنسا دی جائے۔ پھر ناک کی جگہ منہ بنا دیا جائے اور منہ کی جگہ آنکھیں لگا دی جائیں۔ لیجیے یہ ایک اول درجے کی مبہم نظم تیار ہے۔ جو لوگ صناعی کے اس رتبے تک نہیں پہنچتے، وہ صرف یہی کرتے ہیں کہ نظم کہہ کر سر، پیر اور پیٹ کاٹ کر الگ کر لیتے ہیں اور دکھاتے ہیں کہ دیکھئے کیا چیز پیدا کی ہے۔

    خیر، میں تو ان حرکتوں کا برا ماننے کی بجائے ان سے بھی محظوظ ہوتا ہوں۔ یہ مجھے اپنی ایک بھانجی کا عمل معلوم ہوتا ہے جس نے ایک دن کاغذ پر پانچ لکیریں کھینچیں۔ پھر خدا جانے کیوں دو تین لکیریں مٹا دیں، صرف دو باقی چھوڑ دیں۔ میں نے پوچھا، بیٹا! کیا بنایا ہے۔ کہا، ہوائی جہاز۔ میں نے کہا، پہلے کیا بنایا تھا؟ کہا، وہ گھوڑا بن گیا تھا۔ دراصل گھوڑا اور ہوائی جہاز دونوں صرف اس کے ذہن میں تھے۔

    لیکن ایک اور بات کہنی ضروری ہو گئی ہے۔ بالفرض جدید شاعروں نے گھوڑا اور ہوائی جہاز بنابھی لیا تو کیا کام کیا۔ گھوڑے اور ہوائی جہاز میں کیا رکھا ہے؟ اصل اہمیت تو گھوڑے اور ہوائی جہاز کی معنویت کی ہے۔ ہمارے یہاں علامتی شاعری کا سارا پھڈا اسی قسم کے سطحی فنی کرتب کا نتیجہ ہے۔ آپ میز کہنا چاہتے ہیں، میز کو آپ نے لکھنے کا گھوڑ ا کہہ دیا تو کیا فرق پڑا۔ کوئی میز کو لکھنے کا گھوڑا کہتا ہے، کوئی کمپیوٹر کو کاؤنٹر کی پری کہتا ہے، کوئی راڈار کو آنکھ اور گھڑی کی سوئیوں کو عقرب کہتا ہے۔ یہ ہمارے یہا ں کی علامت پرستی ہے۔ الف لیلہ کے ایک قصے میں شاہ جنات نے ایک شہزادے اور اس کے اتالیق کو ایک لڑکی لانے کا حکم دیا مگر پابندی لگا دی کہ امانت میں خیانت نہ کی جائے۔ شہزادہ نہ مانا اور لڑکی کو شاہ جنات کے پاس جانے سے پہلے چکھ لیا۔ شاہ جنات کو خبر ہوئی تو شہزادے اور اتالیق کو قتل کرنے پر آمادہ ہو گیا۔ اتالیق نے مفت جان جاتی دیکھی تو گھبراکر کھول کر دکھایا کہ حضرت میں تو اپنی علامت پہلے ہی کٹواکر ڈبیا میں بند کرکے شاہی خزانے میں جمع کرا گیا تھا۔

    جدید اردو شاعری کی علامت بھی ڈبیا میں بند ہے۔ اس کی جگہ کوئی ٹکنالوجی کی علامت لگائے پھرتا ہے، کوئی عہد جدید کے پیرافر نیلیا کی۔ یہ جھوٹی، جعلی اور پست علامت پرستی ہے۔ وہائٹ ہیڈ نے لکھا ہے کہ علامتیں دو قسم کی ہوتی ہیں۔ علامت کی ایک قسم یہ ہے کہ کچھ لوگ ایک نشان پر متفق ہو جاتے ہیں جس کا معنی سے کوئی لازمی تعلق نہیں ہوتا۔ اس چیز کو کسی اور نشان سے بھی اسی طرح ظاہر کیا جا سکتا ہے، مثلاً کسی ملک کا قومی ترانہ یا پرچم۔ لیکن اصل علامت کوئی اور چیز ہے۔ وہ ایک ایسی حقیقت کا اظہار ہوتی ہے جو خود ناقابل ا ظہار ہوتی ہے اور اس کے اظہار کا اس کی علامت سے اتناگہرا تعلق ہوتا ہے کہ علامت کے بغیر وہ ظاہر نہیں ہو سکتی جیسے اللہ نورالسموات والارض ہے۔ اس میں نورذات باری تعالی کی علامت ہے۔

    ذات باری تعالی خود ناقابل فہم، ناقابل اظہار ہے۔ لیکن علامت نور کے ذریعے ہمارا فہم وادراک اس کا تصور قائم کرتا ہے اور ہم یہ جانتے ہیں کہ باوجود کہ خدا اس طرح نور نہیں ہے جس طرح بلب کی روشنی، لیکن اس کے وجود اسے ہم نور کہتے ہیں۔ یہ نور کے علامتی معنی ہیں۔ اصول یہ برآمد ہوا کہ علامت اس چیز کی ہوتی ہے جو ناقابل بیان، ناقابل اظہار، ناقابل انکشاف ہو۔ پھر وہ کسی علامت میں ظاہر ہو تو علامت اس سے الگ ہوکر بھی اس کی طرف ایسا اشارہ کرتی ہے کہ اشارہ اور مشارالیہ ایک ہو جاتے ہیں۔ خدا کی جس صفت کو ہم نور کہہ کر ظاہر کرنا چاہتے ہیں وہ نور کہے بغیر ظاہر ہی نہیں ہو سکتی۔ اب نور اور صفت ایک ہو گئے ہیں اور نور صفت کی علامت ہو گیا۔

    جدید علامتی شاعری نہ صرف قابل اظہار بلکہ نہایت پیش پا افتادہ باتوں کو علامتوں کے بہروپ میں پیش کرتی ہے یہ بہروپ اتنا سطحی ہوتا ہے کہ شمس الرحمن فاروقی اور وزیر آغا تک اس میں اپنی دانست میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ایسی علامتوں کے لیے کیا کیا سوانگ رچائے جاتے ہیں، کیسی کیسی زقندیں بھری جاتی ہیں۔ یہ میز کو میز نہیں کہتے اور بس سب کچھ کہہ دیتے ہیں۔ یہ سارا عمل اتنا مضحکہ انگیز ہے کہ سرپیٹنے کو جی چاہتا ہے، اپنے سے زیادہ ان حضرات کا۔

    میں نے اپنے مضمون ’’جدید اردو غزل‘‘ میں لکھا تھا کہ نئے شعرا نے اخبار، ٹیلی فون، ٹرک، راکٹ لکھنا تو سیکھ لیا ہے مگر اخبار صرف روزنامہ ’’ڈان‘‘ یا ’’پاکستان ٹائمز‘‘ بن کر رہ جاتا ہے اور کچھ نہیں بنتا۔ ایک صاحب نے اعتراض کیا کہ اس قسم کے الفاظ کی بدعت شروع کرنے میں آپ کا بھی ہاتھ ہے۔ آپ نے بھی تو اخبار لکھا ہے۔ میں نے کہا، جی ہاں میں نے لکھا ہے ’شہردل سے نکالیے اخبار۔‘‘ ’ڈان‘ اور ’پاکستان ٹائمز‘ کراچی اور لاہور سے نکلتے ہیں، شہردل سے نہیں نکلتے۔ اس میں میری تعریف کا جو پہلو نکلتا ہے اس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ مگر اپنی تعریف سے زیادہ میں صرف یہ دکھانا چاہتا تھا کہ اخبار علامتی بھی ہو سکتا ہے اور لغوی بھی۔ شاعری اس وقت شروع ہوتی ہے جب الفاظ کے لغوی معنوں کو چھوڑ دیتی ہے۔

    اب میرے ان سارے مضامین کا خلاصہ یہ ہے کہ ابہام کی کئی صورتیں اورکئی اسباب ہیں۔ ابہام ابلاغ میں دقتیں پیدا کرتاہے۔ اس کی بھی کئی شکلیں ہیں۔ ہرابلاغ کے مسئلے کا ایک رخ قاری کی طرف اوردوسرا خودشاعر کی طرف ہوتاہے۔ تیسرے ابہام غیردانستہ اوردانستہ ہوتاہے۔ دانستہ ابہام ایک فنی ضرورت ہے، مگر حقیقی ابہام اورہے۔ مصنوعی ابہام اور حقیقی ابہام سے شاعری پیدا ہوتی ہے۔ جعلی ابہام سے بازی گری۔ مجھے نظیر صدیقی سے یہ اختلاف ہے کہ وہ ابہام کی مخالفت کرکے اورسطحی ابلاغ پرستی میں مبتلاہوکر ابہام کو اس طرح ردکرتے ہیں کہ پیغمبر بھی ردہوجائیں اور شمس الرحمن فاروقی اور وزیر آغا کے قبیل کے لوگوں سے یہ اختلاف ہے کہ یہ ابہام کے نام پربازی گری کوسراہتے ہیں۔

    مأخذ:

    مضامین سلیم احمد (Pg. 246)

    • مصنف: سلیم احمد
      • ناشر: اکیڈمی بازیافت، کراچی
      • سن اشاعت: 2009

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے