Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

جامی کی مثنوی زلیخا

پریم چند

جامی کی مثنوی زلیخا

پریم چند

MORE BYپریم چند

     

    فارسی دنیائے حسن و عشق میں زلیخا کو جو شہرت عام حاصل ہے، وہ محتاج بیان نہیں۔ اس کی زندگی حسن و عشق کی ایک بے نظیر اور دلآویز داستان ہے۔ ایک افسر تاج و تخت کے محل میں پیدا ہوئی۔ ناز و نعمت میں پرورش پائی۔ اور بہار عمر آتے ہی قید عشق میں مبتلا ہوگئی۔ پھر مدت العمر اس نے مصیبتیں جھیلیں۔ شہزادی سے فقیرن بنی۔ سب کچھ راہ عشق میں لٹا دیا۔ مگر باوجود متواتر ناکامیوں کے راہ الفت سے نہ ٹلی۔ اگرچہ بعض اوقات معشوق کی سرد مہری اور ابنائے زمانہ کی طعنہ زنیوں سے مجبور ہو کر اس نے اپنے معشوق پر سختیاں بھی روا رکھیں مگر یہ بھی انتہا محبت کا ایک جلوہ تھا۔ اس بسمل خنجر عشق کے نام کو فارسی کے زندہ جاوید شاعر جامی نے غیرفانی بنا دیا ہے۔ اس کے حسن کی تعریف میں یوں رطب اللسان ہے،

    کف راحت دہ ہر محنت اندیش
    نہادہ مرہم بر ہر دل ریش

    میانش موئے بل کز موئے نمے 
    زباریکی برداز موئے بیمے

    سہی سروان ہوا دا ریش کردے
    پری رویان پرستا ریش کردے

    عین عنفوان شباب میں عشق کی گھاتیں اس پر ہونے لگتی ہیں۔ مگر یہ عشق معشوق کے دیدار سے نہیں پیدا ہوتا بلکہ ایک مافوق العادت طریقے پر۔ وہ خواب راحت سے ہم آغوش تھی کہ یکایک،

    در آمد ناگہش از در جوانی 
    چہ میگویم جوانی نے کہ جانے

    ہمایوں پیکرے از عالم نور
    بباغ خلد کردہ غارت حور

    اس جوان رعنا کو خواب میں دیکھتے ہی زلیخا پر اس کی رعنائی کا جادو چل گیا۔

    گرفت از قامتش در دل خیالے 
    نشاند از دوستی در دل نہالے

    زرویش آتشے در سینہ افروخت
    وزان انس متاع صبر و دیں سوخت

    مگر یہ چلن یہ سوز اندرون خود برداشت کرتی ہے۔ اور اصحاب سے حرف حکایت زبان پر نہیں لاتی۔ سکھیوں سہیلیوں سے ہنستی بولتی ہے مگر راز دل کسی نے نہیں کہتی،

    نہان می داشت رازش در دل تنگ 
    چوکان لعل لعل اندر ولے سنگ

    فرد میخور دو چوں غنچہ بدل خوں
    نمیداد از درون یک شمہ بیروں

    نظر بر صورت اغیار می داشت
    ولے پیوست دل با یار میداشت

    کبھی کبھی جب اس جلن سے بے چین ہو جاتی ہے تو تصور یار سے یوں باتیں کرتی ہے،

    کہ اے پاکیزہ گوہر از چہ کافی
    کہ از تو درام ایں گوہر فشانی

    نمیدانم کہ نامت از کہ پرسم
    کجا آیم مقامت از کہ پرسم

    مگر یہ راز عشق کب چھپتا ہے۔ زلیخا زبان سے کچھ نہیں کہتی۔ مگر اس کی خونبار آنکھیں اور زرد رخسارآخر افشائے راز کر ہی دیتے ہیں۔ گل سرخ سا چہرہ لالہ زرد ہو جاتا ہے۔ سرد آہیں بھرتی ہے۔ کنیزیں آپس میں سرگوشیاں کرنے لگتی ہیں۔ کوئی کہتی ہے آسیب ہے۔ کوئی کہتی ہے جادو ہے۔ ان کنیزوں میں زلیخا کی ایک دایہ بھی ہے۔ عشق کی داستانوں میں ایسی عورتیں اکثر آتی ہیں مگران میں شاید ہی کسی کی تعریف ایسی خوبصورتی سے چند شعروں میں ادا کی گئی ہو۔

    ازاں جملہ فسوں گر دایہ داشت
    کہ از افسوں گری سرمایہ داشت

    براہ عاشقی کار آزمودہ 
    گہے عاشق گہے معشوق بودہ

    بہم وصلت وہ معشوق عاشق
    موافق ساز یار ناموافق

    یہ دایہ فسوں گر ایک روز زلیخا سے یوں ہمدردانہ باتیں کرتی ہے،

    دگر رستم طراز دوش بودی
    چو خفتم خفتہ در آغوش بودی

    چوبہ نشستی بخدمت ایستادم
    چو خسپیدی بہ پایت سر نہادم

    ز من راز دلت پنہاں چہ داری
    نہ خود بیگانہ ام زینساں چہ داری

    زلیخا دایہ مہربان سے رو رو کر اپنی رام کہانی کہہ سناتی ہے۔ مگر دایہ صاحبہ باوجود یہ کہ آسمان سے فرشتے اتار لانے کے لئے تیار تھیں۔ یہ قصہ سن کر بول اٹھتی ہیں،

    بلے اس حرف نقش ہرخیال است 
    کہ نادانستہ را جستن محال است

    اس کے کچھ دنوں بعد زلیخا ایک روز بستر غم پر پڑی ہوئی اپنے دل سے فریاد کر رہی ہے کہ اسے دوبارہ جمال یار کا دیدار ہوتا ہے۔ وہ اسے خواب میں دیکھتے ہی اس کے قدموں پر گر پڑتی ہے۔ اوراپنی بے قراری کا اظہار کرنے لگتی ہے۔ اس کی بے قراری دیکھ کر معشوق یا تصور معشوق یوں گویا ہوتا ہے،

    ترا از ما اگر برسینہ داغ است
    نہ پندار ی کزان داغم فراخ است

    مرا ہم دل بہ دام تست در بند
    ز داغ عشق تو ہستم نشانمند

    تصور یار کی یہ دلسوزی زلیخا کی آتش عشق کو اور بھی بھڑکا دیتی ہے۔ کچھ دنوں اور اسی تکلیف میں گزرتے ہیں۔ اور تیسری بار پھر اسے معشوق کے جمال جہاں سوز کا نظارہ ہوتا ہے۔ نشوونما عشق کی یہ نوعیت محبت کی داستانوں میں بالکل نرالی ہے۔ زلیخا پھر تصور یارکے پیرں پر گر پڑتی ہے۔ اور ان الفاظ میں اس کے نظر التفات کی التجا کرتی ہے،

    نمی گویم کہ در چشمت عزیزم
    نہ آخر مر ترا کمتر کنیزم

    چہ باشد گر کنیزے را نوازی
    ز بند محنتش آزاد سازی

    مگر دوسری بار کی طرح اس خیالی معشوق نے اب کی اس گریہ وزاری پر دلداری و دردمندی کا اظہار نہیں کیا بلکہ صرف یہ کہہ کر،

    ’’عزیز مصرم ومصرم مقام است‘‘

    غائب ہوگیا۔ شاعر نے یہاں پر ٹھوکر کھائی ہے۔ جب عشق کی صورت بالکل الہامی اور وہبی ہے تو لازم تھا کہ تصور یار کا یہ پتہ صحیح ہوتا مگر واقعات اس کے خلاف ہیں۔ کیونکہ حضرت یوسف عزیز مصر نہ تھے۔ تاہم زلیخا کو بہت تسکین ہوگئی۔ جب معشوق کا نشان مل گیا تواسے ڈھونڈھ نکالنا کیا مشکل تھا۔ برائے چند اس کی وحشت رفع ہوگئی۔ ادھر تو زلیخا فراق یار میں آشفتہ حال تھی۔ ادھر اس کے حسن و جمال کا شہرہ چار دانگ عالم میں پھیلا ہوا تھا،

    سران ملک را سودائے او بود
    بہ بزم خسرواں غوغائے او بود

    بہر وقت آمدے از شہر یارے
    بہ امید وصالش خواستگارے

    فرمانروایان ملک شام و روم وزنگ نے اپنے اپنے سفیر زلیخا کے باپ شاہ طیموسؔ کی خدمت میں روانہ کئے۔ مگر عزیز مصر کی طرف سے کوئی پیغام نہ آیا۔ شاہ طیموسؔ نے زلیخا کو اپنے روبرو بلایا اور پدرانہ شفقت سے پہلو میں سب تاجداروں کے پیغام کا ذکر کیا۔ مگرجب عزیز مصر کا ذکر نہ آیا تو وہ مایوس ہوکر شاخ بید کی طرح کانپتی ہوئی اپنے گوشہ تنہائی میں آبیٹھی۔ اور یوں گریہ وزاری کرنے لگی،

    مرا اے کاشکے مادر نمی زاد
    و گر میزا و کس شیرم نمی داد

    کیم من از وجود من چہ خیزد؟
    و زیں بود نبود من چہ خیزد؟

    ناچار شاہ طیموسؔ نے اپنی طرف سے عزیز مصر کے پاس پیغام بھیجا۔ عزیز مصر فرط مسرت سے پھولا نہ سمایا۔ قصہ مختصر یہ کہ زلیخا بڑے تزک و احتشام سے مصر کی طرف چلی۔ حضرت جامیؔ نے اس جلوس کے شان وشکوہ کا تذکرہ بہت تفصیل سے کیا ہے۔ اس فاقہ مستی اور ادبار کے زمانے میں اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔ زلیخا خوش خوش چلی جاتی تھی کہ اب عیش و کامرانی کے دن آئے،

    شب غم را سحر خواہد دمیدن
    غم ہجراں بسر خواہد رسیدن

    مگر اسے کیا خبر تھی کہ فلک فسوں ساز اسے سبز باغ دکھا رہا ہے۔ عزیز مصر پایہ تخت سے اس کے استقبال کے لئے آیا ہوا تھا۔ زلیخا نے خیمہ کے شگاف سے اسے دیکھا۔ مگر جونہی،

    زلیخا کرد ازاں خیمہ نگاہے
    برآورد از دل غمیدہ آہے

    کہ واویلا عجب کاریم افتاد
    بسرتا پائے دیواریم افتاد

    نہ آنست آنکہ عقل و ہوش من برد
    عنان دل بہ بے ہوشیم بسپرد

    دریغا بخت سستم ستی آورد
    طلوع اخترم بدبختی آورد

    منم آن بادیان کشتی شکستہ
    برہنہ بر سر لوح نشستہ

    رباید بر زماں از جائے موجم
    برگہہ در حضیضو گہہ در اوجم

    زناگہ روز مے آید پدیدار
    شوم خرم کرد آساں بود کار

    چو نزدیک من آید بے درنگے
    بود بہرہلاک من نہنگے

    اسی طرح پیچ وتاب کھا کر اس نے بہت دیر تک اشک حسرت بہایا اور بارگاہ خدا میں التجا کہ میری عزت و آبرو کا تو نگہبان ہے۔ خدا کی درگاہ میں اس کی دعا قبول ہوئی اور غیب سے ندا آئی،

    کہ اے بیچارہ روئے خاک بردار
    کزان مشکل ترا آسان بشود کار

    عزیز مصر مقصود دولت نیست
    ولے مقصود بے او حاصلت نیست

    ازو خواہی جمال دوست دیدن
    وزو خواہی بمقصودت رسیدن

    مبادا از صحبت او ہیچ بیمت
    کزو ماند سلامت قفل سمیت

    اس نداء غیب نے اس کے دل کو بہت تقویت بخشی۔ اب وہ عزیر مصر کی بیگم تھی۔ اور عزیز وہاں کے رئیسوں کا سردار تھا۔ مال و دولت، حشمت و جاہ کنیز و غلام غرض دنیا کی کسی نعمت کی کمی نہ تھی۔ عیش وطرب کی محفلیں گرم رہتیں۔ مگر یہ تکلفات زلیخا کے لئے سوہان روح تھے۔ اکثر راتوں کو سب سو جاتے تو وہ سرخ جفاکار سے شکوہ شکایت کے دفتر کھول دیتی،

    چہ دانستم بہ وقت چارہ سازی
    زغان دمان مرا آوارہ سازی

    مرا بس بود داغ بے نصیبی
    فزوں کردی براں درد غریبی

    اس کے سر پر تاج جواہر نگار زیب دیتا تھا۔ اس کی محل سرا رشک فردوس تھی اور اس کا تخت مرصع تھا مگرجب دل پر بارغم ہو تو ان ظاہری آرائشوں سے کیا سکھ! اس طریق سے زلیخا نے عزیز مصر کے ساتھ عرصہ دراز تک عمر بسر کی۔ غالباً بعد کو اس کا راز نہفتہ عزیز مصر پر بھی روشن ہوگیا تھا۔ مگر زلیخا اسے چھپانے کی ہمیشہ کوشش کرتی رہی،

    لبش باخلق درگفتار می بود
    ولے جان ودلش با یار می بود

    بصورت بود بامردم نشستہ
    بمعنی از ہمہ خاطر گستہ

    اس عنوان سے جب دن گزر جاتا اور رات کی کالی بلا آجاتی تو وہ،

    خیال دوست را در خلوت راز
    نشاند ے تا سحر برمسند ناز

    بزانوئے ادب بہ نشسیستش پیش 
    بعرض اور سانیدے غم خویش

    خدا جانے کتنے برسوں تک وہ اس سوز نہانی سے تفتہ جگر رہی۔ آخر اس کا عشق صادق دیکھ کر خداوند کریم کواس پر رحم آیا۔ زمانہ نیرنگ سازنے چارہ سازی کی۔ حضرت یوسف کو ان کے بدخواہ بھائیوں نے مارے حسد کے کنوئیں میں ڈال دیا۔ یہ یوسف ہی تھے جن کے جمال جہاں آرا کا نظارہ زلیخا کو خواب میں ہوا تھا۔ حسن اتفاق سے چند تاجروں نے یوسف کو کنوئیں سے زندہ نکال لیا اور انہیں غلام بناکر فروخت کرنے کے لئے مصر میں لائے۔ جب یہاں پہنچے تو ان کے حسن و جمال کا شہرہ بوئے مشک کی طرح پھیلا۔ جو دیکھتا عش عش کرتا شدہ شدہ مصر کے کانوں تک خبر پہنچی۔ اس نے عزیز مصر کو حکم دیا کہ جا کر اس غلام کو دیکھو۔ عزیز نے اسے دیکھا توانگشت حیرت دانتوں تلے دبائی اور آکر بادشاہ سے غلام کے حسن کی بے حد تعریف کی۔

    اسی اثنا میں زلیخا کو معمول سے زیادہ کرب اور بے چینی ہوئی۔ جب سے حضرت یوسف کنوئیں میں گرے تھے زلیخا کو ان سے دلی لگاؤ ہونے کے باعث کسی پہلو چین نہ تھا۔ ایک روز وہ تفریح طبع کے لئے شہر کے قرب ایک جنگل میں گئی۔ اور عیش کا بہت سامان لے گئی۔ مگر وہاں بھی اس کی طبیعت نہ لگی۔ محل سرا کی طرف واپس آرہی تھی کہ راستے میں شاہی محل سرا کے مقابل ایک انبوہ کثیر جمع دیکھا۔ یوسف کی تعریف ہرکس و ناکس کی زبان پر تھی۔ لوگ ان کے عشق میں دیوانہ ہو رہے تھے۔ زلیخا نے بھی اپنا ہاتھی ٹھہرایا۔ اور جونہی یوسف پر اس کی نگاہ پڑی اس کی نگاہوں سے ایک پردہ سا ہٹ گیا اور بے اختیار دل سے ایک آہ سرد نکل آئی۔ اور غشی کی حالت عارض ہوگئی۔ کنیزوں نے یہ حالت دیکھی تو ہاتھی کو تیزی سے خلوت گاہ میں لائیں۔ زلیخا کو جب ہوش آیا تو دایہ نے اس دیوانگی کا سبب پوچھا۔ زلیخا بولی،

    بہ گفت اے مہرباں مادر چہ گویم 
    کہ گردد آفت من ہرچہ گویم

    دراں مجمع غلامے را کہ دیدی
    زا اہل مصر وصف او شنیدی

    ز عالم قبلہ گاہ جان من اوست
    فدائش جان من جاناں من اوست

    بہ تن در تب بدل در تاب از دیم 
    زدیدہ غرق خون ناب ازویم

    زخان و مان مرا آوارہ او ساخت
    درین بے چارگی آوارہ او ساخت

    دایہ نے زلیخا کی تشفی کی۔ ادھر مصریوں نے یوسف کی خریداری میں اپنی قدردانیوں کا ثبوت دینا شروع کیا جو آتا تھا مول بڑھاتا تھا۔ زلیخا کو بھی دم دم کی خبر ملتی تھی۔ اور وہ ہر مرتبہ قیمتوں کو دوگنا کردیتی تھی۔ یہاں تک کہ کوئی خریدار اس کے مقابلے میں نہ ٹھہر سکا۔ مگر عزیز مصر کے پاس اتنی دولت نہ تھی، جو کچھ دفینہ اور زر و جواہر اس کے خزانے میں تھا وہ اس قیمت کا نصف بھی نہ تھا۔ عزیز مصر نے یہی حیلہ پیش کیا لیکن،

    زلیخا داشت در جے پر زگوہر
    نہ درجے بلکہ برجے پرز اختر

    بہائے ہر گہر زاں در مکنوں
    خراج مصر بودی بلکہ افزوں

    عزیز نے جب دیکھا کہ یہ حیلہ کارگر نہیں ہوا۔ تو کہنے لگا کہ شاہ مصر اس غلام کو اپنے غلاموں کا سردفتر بنانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ میری خریداری انہیں ناگوار گزرے گی۔ اس کا زلیخا نے یوں جواب دیا،

    ’’بہ گفتار وسوئے شاہ جہاندار 
    حق خدمت گزاری را بجاآر

    بگو بردل جز ایں بندے ندارم 
    کہ پیش دیدہ فرزندے ندارم

    سرافرازی مرا زیں احترامم 
    کہ آید زیر فرماں ایں غلامم

    ببرجم اخترے تا بندہ باشد 
    مرا فرزند شہ را بندہ باشد‘‘

    آخر عزیز نے لاجواب ہو کر زلیخا کو خریداری کی اجازت دے دی۔ مگر یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ زلیخا یوسف کو اپنا فرزند بنانے کی جرأت کیوں کر کر سکی۔ دونوں ہمسن تھے۔ زلیخا نے خواب میں جو صورت دیکھی تھی وہ بچہ یوسف کی نہ تھی۔ بلکہ یوسف جوان رعنا کی۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ یوسف پر درجہ نبوت رکھنے کے باعث زمانے کا کچھ اثر نہ ہوا ہو۔ زلیخا گوہر مراد پاکر شاد کام ہوگئی۔ اور برائے چندے اس کی زندگی بڑے لطف سے گزری۔ کہتی ہے،

    ’’چو بودم ماہی در ماتم آب
    طپان بر ریگ تفتال از غم آب

    در آمد سیلے از ابرکرامت
    بدریا برد ازاں ریگم سلامت

    کہ بودم گرہے در ظلمت شب
    رسیدہ جان ز گمراہیم برلب

    برآمد از افق رخشندہ ماہے
    بکوئے دولتم نمودار ہے

    زلیخا کو آب بجز یوسف کی خدمت گزاری اور خاطرداری کے اور کوئی کام نہ تھا،

    چو تاج زر بفرقش بر نہادے
    نہازاں بوسہ اش برفرق دادے

    چو پیراہن کشیدے برتن او
    شدے ہمراز با پیراہن او

    کمر چوں چست کردے بر میانش 
    گزشتے ایں تمنا بر زبانش

    کہ گرد ستم کمر بودے چہ بودے؟
    زوصلش بہرہ در بودی چہ بودے

    مسلسل گیسوش چوں شانہ کردے
    مداوائے دل دیوانہ کردے

    غمش خوردی و غمخواریش کردے 
    بہ خاتونی پرستاریش کردے

    مگر چونکہ یوسف پیغمبر تھے۔ اور پیغمبروں کے لئے گلہ بانی مخصوص مشغلہ ہے۔ اس عیش وطرب میں ان کی دل بستگی نہ ہوئی۔ زلیخا نے ان کا عندیہ دیکھا تو از راہ رضا جوئی ان کے لئے گلہ بانی کے لوازمات مہیا کئے۔ ریشم کی رسیاں بنوائیں جواہر نگار عصا تیار کرایا۔ اور حضرت یوسف شبانی کرنے لگے۔ مگر عشق کی نیرنگیاں نرالی ہیں،

    امید کامرانی نیست درعشق
    صفائے زندگانی نیست در عشق

    زلیخا بود یوسف راندیدہ 
    یہ خوابے او خیالے آرمیدہ

    بہ جز دیدارش ازہر جست جوئے
    نمیدانست خد را ارزوئے

    چوشد از دیدن او بہرہ مندی 
    ز دیدن خواست طبع او بلندی

    ز لعل او ببوسہ کام گیرد 
    ز سروش باکنار آرام گیرد

    بلے نظارگی کا مد سوئے باغ 
    ز شوق گل چولالہ سینہ چراغ

    نخست از روئے گل دیدن شود مست
    ز گل دیدن بہ گل چیدن بردوست

    جب تک زلیخا نے یوسف کو نہ دیکھا تھا صرف دیدار کی آرزو تھی اب شوق وصال پیدا ہوا مگر،

    زلیخا بہر یک دیدن ہمی سوخت 
    ولے یوسف ز دیدن دیدہ میدوخست

    زبیم فتنہ سوئے او نمیدید 
    بہ چشم فتنہ روئے او نمیدید

    یوسف کی اس سرد مہری اور بے اعتنائی نے زلیخا کو پھر گرداب غم والم میں ڈالا۔ مزاج میں وحشت از سر نو عود کر آئی۔ اور طبیعت شانہ وسرمہ سے نفور ہونے لگی۔ مہربان دایہ نے از راہ دردمندی اس کاہش جانی کا سبب پوچھا۔ زلیخا نے اپنی داستان حسرت و یاس اس سے کہہ سنائی اور اسے یوسف کے پاس پیغام وصال دے کر بھیجا۔ مگران کا قدم راہ راست سے نہ ڈگا۔ فرمایا،

    زلیخا را غلام زرخریدم 
    بسا ازوے عنایتہا کہ دیدم

    گل وآبم عمارت کردۂ اوست
    دل وجانم وفا پروردہ اوست

    اگر عمرے کنم نعمت شماری
    نیارم کردن اوراحق گزاری

    بفرزند عزیزم نام بردست 
    امین خانہ خویشم سپردست

    نیم جز مرغ آب و دانہ او
    خیانت چوں کنم در خانہ او

    جب دایہ کی فسوں سازی سے کچھ کام نہ چلا تو زلیخا خود صورت سوال نبی ہوئی۔ یوسف کے پاس آئی اور نظر التفات کی داعی ہوئی۔ مگر یوسف نے اسے بھی پہلے کی طرح دانشمندی سے بھرا ہوا جواب دیا،

    خداوندی مجو از بندۂ خویش
    بدیں نظم مکن شرمندۂ خویش

    کیم من تا ترا دمساز گردم
    دریں خوان با عزیز انبار گردم

    بباید بادشہ آں بندہ را کشت
    کہ زوبایک نمکداں بادے انگشت

    یوسف کا جواب صاف اور اصلیت سے مملو تھا۔ شرم دار عورت کے ڈوب مرنے کے لئے اتنا اشارہ کافی تھا۔ مگرعشق نے زلیخا کو بالکل اندھا کردیا تھا۔ اس نے جب یوسف کو اخلاق کے پردے میں چھپتے دیکھا تو اس پردے کو ہٹانے کی فکر کرنی شروع کی۔ اس کے پاس ایک باغ تھا اسے خوب آراستہ و پیراستہ کرکے متعدد گل اندام کنیزیں وہاں بھیجیں۔ اوریوسف کو بھی سیر کرنے کے لئے بھیجا۔ کنیزوں سے تاکید کردی کہ یوسف کو اپنے اوپر مائل کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھنا اور یوسف کو یہ دوستانہ صلاح دی،

    اگر من پیش تو بر تو حرامم
    وزیں معنی بغایت تلخ کامم

    بسوئے ہرکہ خواہی گام بردار
    زوصل ہر کہ خواہی کام بردار

    ان بندشوں کا ماحصل صرف یہ تھا کہ جب یوسف ان کنیزوں میں سے کسی کی طرف مخاطب ہوں تو زلیخا،

    نشاند خویش را پنہاں بہ جائش
    خورد براز نہال دلربائش

    اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ زلیخا کا عشق شہوانیت کا دوسرا نام تھا مگر اس کی کوئی کوشش کارگر نہ ہوئی۔ یوسف نے ان کنیزوں کو کلمہ وحدت کا ایسا مزہ چکھایا کہ وہ شربت وصال کی آرزو سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ زلیخا جب وصل کی آرزو لئے وہاں پہنچی تو کنیزوں کو خدا کا سجدہ کرتے پایا۔ مایوس ہوکر وہاں سے واپس ہوئی۔ اور دایہ سے رو رو کر اپنا درد دل سنانے لگی۔ دایہ نے سمجھایا کہ خدا کے فضل سے آپ بھی حسن و جمال میں یکتا ہیں۔ آپ نے عشوۂ و ناز سے یوسف کو رام کرسکتی ہیں۔ زلیخا نے جواب دیا۔ یہ توصحیح ہے کہ مگر وہ ظالم میری طرف آنکھ اٹھاکر دیکھے تو وہ تو میری طرف تاکتا ہی نہیں۔ نگاہیں چار ہوں تب تو مروت پیدا ہو،

    نہ تنہا آفتم زیبائی اوست
    بلائے من زنا پروائی اوست

    آخر جب تجربہ سے ثابت ہوگیا کہ ان چھوٹی چھوٹی چالوں سے کام نہ چلے گا تودایہ نے ایک بڑی چال چلی۔ مال ودولت کی کم تھی ہی نہیں۔ ایک بڑی عالیشان عمارت بنوائی گئی جس میں سات حصے تھے اور اس ہفت خانہ کو استاد زریں دست نے ایسا مرصع کیا کہ ہر ایک خانہ پہلے والے سے بڑھ چڑھ کر تھا اور ساتواں خانہ تو چرخ ہفتم کا نمونہ تھا۔ ہیرے جواہرات مشک وعنبر، اشجار گرانبار غرض دنیا کی ساری نعمتیں وہاں جلوہ افروز تھیں۔ اس کی ہوا دلوں پر نشہ پیدا کرتی تھی۔ اس کی آرائش بھی نرالی تھی،

    دراں خانہ مصور ساخت ہرجا 
    مثال یوسف و نقش زلیخا

    بہم بہ نشستہ چوں معشوق و عاشق 
    ز مہرجان و دل باہم موافق

    بیک جا ایں لب آں بوسہ دادہ 
    بیک جا آں میان این کشادہ

    جب یہ ہفت خانہ بہمہ وجوہ سج گیا تو زلیخا نے اپنے تئیں بھی خوب دل کھول کر سجایا اور جاکر پہلے طبق میں بیٹھی۔ یوسف بھی بلائے گئے۔ انہیں دیکھتے ہی زلیخا بے قرار ہوگئی۔ صبر ہاتھ سے جاتا رہا۔ یوسف کا ہاتھ ایک انداز سے پکڑ کر ادھرادھر کی سیر کرانے لگی۔ یہاں بجز عاشق و معشوق کے اور کوئی مخل ہونے والا نہ تھا۔ زلیخا بار بار عشق کی گرمی جتاتی تھی۔ مگر یوسف دین اور اخلاق کے دلیلوں سے اسے خاموش کردیتے تھے۔ سوال و جواب ملاحظہ ہو۔

    یوسف
    مرا از بند غم آزاد گرداں 
    بہ آزادی دلم را شاد گرداں

    مرا خوش نیست کا نیجا با تو باشم 
    پس ایں پردہ تنہا با تو باشم

    زلیخا
    تہی کردم خزائن در بیایت 
    متاع عقل و دیں کردم فدایت

    بہ آں نیست کہ درمانم تو باشی 
    رہن طوق فرمانم تو باشی

    یوسف
    بگفتار در گنہ فرماں بری نیست 
    بہ عصیاں زیستن خدمت گری نیست

    زلیخا ہر ایک خانہ سے نکلتے وقت اس کے دروازے پر قفل آہنی لگا دیتی تھی تاکہ یوسف بھاگ نہ جائیں۔ عشق نے اس کی عقل کو ایسا مغلوب کر دیا تھا کہ وہ اس نتیجے کو جو دل کے لگاؤ ہی سے ممکن ہے جبراً حاصل کرنا چاہتی تھی۔ منزل ہفتم میں پہنچ کر زلیخا نے منت وسماجت کرتے کرتے گویا کلیجہ نکال کر رکھ دیا ہے مگر یوسف کا دل نہ پسیجا۔ آخر جب اس کا اشتیاق حد اعتدال سے بڑھا تویوسف نے یوں اس کی تسکین کی کہ عجلت سے نقصان ہوگا۔ زلیخا یوں جواب دیتی ہے،

    ز شوقم جاں رسیدہ رلب امروز 
    نیارم صبر کردن تا شب امروز

    کے آں طاقت مرا آید پدیدار 
    کہ باوقت دگر اندازم این کار

    زلیخا اشتیاق وصال کے نشہ میں متوالی ہو رہی ہے اورجب یوسف کہتے ہیں کہ اس میں دو امور میرے مانع ہیں۔ ایک تو خوف خدا اور دوسرے خوف عزیز مصر تو وہ ان دونوں امورکے دفعیہ کی تدبیر بتلاتی ہے۔ یعن عزیز مصر کو،

    وہم جامے کہ با جانش ستیزد 
    زمستی تا قیامت بر نہ خیزد

    اور خدا سے عفو گناہ کے لئے اپنا سارا خزانہ غربا و فقرا کو تقسیم کردوں گی۔ اس پر یوسف فرماتے ہیں کہ نہ تو مرا خدا رشوت خوار ہے اور نہ میں ایسا احسان فراموش ہوں کہ اپنے ہی آقا کو قتل کرنے کی صلاح دوں۔ آخر جب زلیخا کی ایک بھی نہ چلی تو وہ ایک تیغ براں ہاتھ میں لے کر خودکشی پر آمادہ ہوئی،

    چو یوسف آن بدید از جائے برجست
    چوزریں مار بگرفتن سر دست

    کزیں تندی بیارام اے زلیخا 
    زریں روباز کش کام اے زلیخا

    زلیخا نے جب یوسف کو ذرا نرم ہوتے دیکھا تو ان کی گردن میں ہاتھ ڈال کر لپٹ گئی۔ اور ایسی پیش قدمیاں کرنے لگی جو ایک دوشیزہ کے لئے شایان نہیں۔ شاید اس موقع پر حضرت یوسف بھی باوجود درجہ نبوت رکھنے کے جادۂ راستی سے ڈگمگا گئے تھے۔ مگراسی خلوت کی حالت میں ان کی نگاہ ایک زرنگار پردے پر پڑی جو سامنے لگا ہوا تھا۔ زلیخا سے پوچھا یہ پردہ کیوں پڑا ہوا ہے۔ بول اس کے اندر میرا معبود ہے۔ میں نے اس کے اوپر پردہ ڈال دیا ہے کہ اس کی نگاہ مجھ پر نہ پڑسکے۔ زلیخا کا اتنا کہنا قہر ہوگیا۔ یوسف بولے تو ایک پتھر کی مورت کا اتنا پاس کرتی ہے اور میں اپنے حاضر وناظر خدا سے ذرا بھی خوف نہ کھاؤں۔ یہ کہہ کر فوراً وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے اور باہر کی طرف چلے۔ خدا کی قدرت بھی کچھ ایسا ہوئی کہ ہر دروازے پر پہنچتے ہی قفل آہنی خودبخود کھلتے گئے۔ زلیخا نے جب یوسف کو راہ فراراختیار کرتے دیکھا اور جھلا کر،

    پئے باز آمدن دامن کشیدش 
    ز سوئے پشت پیراہن بریدش

    بردن رفتار کف آں غم رسیدہ 
    بسان غنچہ پیراہن دریدہ

    یوسف اس ہفت خانہ سے نکل ہی رہے تھے کہ عزیز مصر آتے دکھائی دیے۔ انہوں نے یوسف کا ہاتھ فرط شفقت سے پکڑ لیا۔ اور پھر مکان میں داخل ہوئے۔ زلیخا نے جب یوسف کو عزیز کے ساتھ دیکھا تو کبھی اس نے میری شکایت کی ہے۔ فوراً تریا چرتر کھیلی۔ بولی کہ آج میں اس کمرے میں سوئی تھی تویہ غلام جسے میں نے اپنی فرزندی میں لیا ہے، دبے پاؤں میری خواب گاہ میں آیا اور مر چادر عصمت چاک کیا چاہتا تھا۔ اتنے میں میں جاگ پڑی۔ اور یہ بھاگ نکلا۔ عزیز نے یہ داستان سنی تو یوسف کو خوب لعن طعن کی کہ میں نے تجھے بیٹے کی طرح پالا پوسا۔ اور تو ایسا خبیث النفس نکلا۔ تب یوسف نے مجبور ہوکر سارا کچا چٹھا کہہ سنایا۔ مگر زلیخا کی گریہ وزاری نے عزیز کو پگھلا دیا۔ اور حضرت یوسف قیدخانے میں داخل ہوئے۔ یہاں درگاہ خدا میں ان کی فریاد یہاں تک مقبول ہوئی کہ زلیخا کی پیش خدمتوں میں سے ایک کے شیرخوار بچے نے یوسف کی بے گناہی کا اعتراف کیا۔ عزیز مصر کو اب شک کی کوئی گنجائش باقی نہ رہی۔ اس نے یوسف کو رہا کردیا اور زلیخا معتوب ہوئی۔

    مگر جب یہ قصہ عام ہو گیا اور لوگ زلیخا کو مطعون کرنے لگے تواس نے اپنے شوہر سے کہا میں اس غلام کے پیچھے بدنام ہورہی ہوں۔ آپ اسے میری نظروں سے دور کر دیجئے۔ چنانچہ عزیز نے یوسف کو دوبارہ قید کیا۔ مگر،

    چہ مشکل زاں بتر برعاشق زار 
    کہ بے دلدار بیند جائے دلدار

    چو خالی دید از گل گلشن خویش 
    چو غنچہ خاک زد پیراہن خویش

    اپنے کرتوت پر دست افسوس ملنے لگی،

    کہ ایں کارے کہ من کردم کہ کرداست 
    چنیں زہرے کہ من خوردم خورداست؟

    ز غم کوئے بہ پشت خویش بستم 
    بزیر کوہ پشت خود شکستم

    جب فراق یار کا صدمہ برداشت نہ ہوسکا تو چھپ کر دایہ کے ساتھ قیدخانہ میں جاتی اور یوسف کو دیکھ آتی۔ ادھر یوسف نے جیل خانے میں خوابوں کی تعبیر کہنے میں شہرت حاصل کی۔ خواب سنتے ہی اس کی سچی تعبیر کر دیتے۔ انہیں دنوں بادشاہ مصر نے خواب دیکھا تھا کہ میرے مکان میں پہلے سات فربہ گائیں آئیں۔ ان کے بعد سات لاغر گائیں آئیں اور ان فربہ گایوں کو گندم خشک کی طرح کھا گئیں۔ اس خواب کی تعبیر کسی سے نہ ہوئی تھی۔ یوسف کی تعبیر گوئی کی شہرت بادشاہ تک پہنچ چکی تھی۔ بادشاہ نے اسے دربار میں طلب کیا اور یوسف نے تعبیر کی پہلے مصر میں سات برسوں تک فصل پیدا ہوگی۔ لوگ فارغ البال رہیں گے۔ اس کے بعد سات سال قحط اور گرانی کے آئیں گے۔ اور اس زمانے میں رعایا کوسخت تکلیف کا سامنا ہوگا۔ بادشاہ اس تعبیر سے بہت خوش ہوا اور اسی وقت سے یوسف اس کے منظور نظر ہوگئے۔ عزت اور رتبہ بڑھنے لگا۔ مگر جوں جوں ان کا رتبہ بڑھتا گیا عزیز مصر کا رتبہ کم ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ اسی غم میں وہ راہی عدم ہو گیا۔

    عزیز مصر کے مرتے ہی زلیخا کے بھی برے دن آئے۔ آخر یہ حالت ہوگئی کہ یوسف کے گزرگاہ پر ایک چھوٹی سی منڈیا بنا کر،

    بہ حسرت بر سر راہش نشستے 
    خردشاں بر گزر گاہش نشستے

    لڑکے آتے، اسے چھیڑتے عشق نے دیوانگی کا درجہ اختیار کر لیا۔ کیسی حسرتناک تصویر ہے۔ یہ وہی محلوں والی زلیخا ہے جو آج اس حالت کو پہنچی ہے۔

    جب اس حالت دیوانگی میں عرصہ گزر گیا تو ایک روز یاس و ناکامی سے جھلاکر زلیخا نے اپنے معبود کو چور چور کر ڈالا اور اسی عالم خود رفتگی میں حضرت یوسف کے پاس پہنچی۔ یوسف نے متحیر ہوکر نام و نشان پوچھا۔ زلیخا کو پہچان نہ سکے۔ بولی،

    بہ گفت آنم کہ چوں روے تو دیدم 
    ترا از جملہ عالم گر گزیدم

    نشاندم گنج و گوہر در بہایت 
    دل و جاں وقف کردم در ہوایت

    جوانی در غمت برباد دارم 
    بریں روزے کہ می بینی فتادم

    یہ سن کر یوسف کو بہت قلق ہوا۔ آبدیدہ ہوگئے۔ قصہ مختصر یہ کہ ان کی دعاؤں نے زلیخا کو دوبارہ حسن و شباب عطا کیا اور تب خدا کی اجازت سے انہوں نے زلیخا سے نکاح کر لیا۔

    یہ ہے زلیخا کا مشہور و معروف قصہ۔ زلیخا کسی معنی میں اخلاق کا نمونہ نہیں کہی جا سکتی۔ اس کے عشق کا معیار بہت ہی ادنیٰ ہے۔ وہ ایک پر زور جذبات اور خیالات کی عورت ہے۔ اور نفس پر ایمان اور سب کچھ قربان کر سکتی ہے۔ جن حالات میں جو کچھ اس نے کیا وہی ہر ایک معمولی عورت کرے گی۔ اس لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ زلیخا ایک حد تک واقعیت کے رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔ حضرت جامی کا غالباً یہ منشا ہوگا کہ اس کی کمزوریاں دکھا کر یوسف کے فضائل کی دفعت بڑھائیں اور اس ارادے میں وہ بے شک کامیاب ہوئے ہیں۔

     

    مأخذ:

    مضامین پریم چند (Pg. 95)

      • ناشر: مطبع مسلم یونیورسٹی,علی گڑھ
      • سن اشاعت: 1960

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے