aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

جدید اردو شاعری اور سماجی کشمکش

سیداحتشام حسین

جدید اردو شاعری اور سماجی کشمکش

سیداحتشام حسین

MORE BYسیداحتشام حسین

    انسانوں کے ابتدائی سماجی شعور سے لے کر اس وقت تک ان کے احساس، وجدان، ذوق اور نقطۂ نظر میں جو تبدیلیاں ہوئی ہیں وہ اس جدوجہد کی کہانی ہیں جو سماج کی بڑھتی اور پھیلتی ہوئی ضرورتوں میں توازن قائم کرنے کے لئے انسانوں نے کی ہیں، یہ کوئی مابعد الطبیعاتی یا خیالی بات نہیں ہے بلکہ مادی کشمکش نے جس طرح کے شعور کو ترتیب دیا ہے، یا سماجی حالات پیدا کئے ہیں، ان کی تاریخ ہے۔

    انسان اپنی ترقی کی رفتار میں جس جگہ ایک دفعہ پہنچ جاتا ہے، ٹھیک اس جگہ پھر نہیں پہنچتا۔ جو نظریے عزیز ہوتے ہیں وہ بدل جاتے ہیں، جو باتیں ایک وقت میں تسکین دیتی ہیں دوسرے وقت وہی تکلیف دہ بن جاتی ہیں۔ سائنس، آرٹ، مذہبی تصورات اور جنسی تعلقات سب میں پیداوار اور پیداوار کی تقسیم کے بدلتے ہوئے تناسب نے فرق ڈال دیا ہے۔ سوسائٹی طبقوں میں تقسیم ہوتی رہی اور ان کی معرکہ آرائیوں میں ادب اور علم زیادہ تر طاقتور طبقے کی ذاتی ملکیت بنے رہے، انہیں کے جذبات کی ترجمانی کرتے رہے اور انہیں کی حمایت۔ یہ بات بھی کسی قدر یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ ایسا کسی سازش کے ماتحت نہیں ہوا بلکہ بادشاہوں اور امیروں نے آرٹ کی سرپرستی کرکے تقریباً غیر شعوری طور پر اپنے طبقے کا آرٹ پیدا کرنے میں مدد دی۔ مگر اس کے ساتھ ہی ساتھ ادب اور دوسرے فنون لطیفہ کا اچھا خاصا ذخیرہ بھی آنے والی نسلوں کے لئے مہیا ہو گیا جس میں آسانی سے مختلف ادوار کے فلسفۂ حیات کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔

    اردو شاعری کی پیدائش اور ترقی کا زمانہ شاہی نظام کے زوال، صوفیانہ خیالات کے عروج کا زمانہ تھا۔ اس لئے اس کے اندر وہ سب باتیں آ گئیں جن میں زندگی سے مقابلہ اور کسی نصب العین کے لئے اٹھ کھڑے ہونے اور جدوجہد کرنے کی تاب نہیں ہے۔ آج البتہ اردو ادب بڑی بڑی تبدیلیوں سے ہم آغوش ہے، زندگی کی وہ ساری معاشی، معاشرتی اور جنسی کشمکش جو غیر ملکی حکومت اور طبقاتی تارا جی کی وجہ سے پیدا ہو سکتی ہے، سفب سے اردو شاعری مقابلہ کر رہی ہے اور وہ صحیح راستہ دکھا رہی ہے جس میں ادب کو آزادی سے بڑھنے اور سانس لینے کا موقع مل سکے، گو کہ قدیم روایات اور اخلاقی قدروں کے اثرات اب بھی تمدن کا اہم جزد بنے ہوئے ہیں اس لئے کہ ’’حال‘‘ میں ’’ماضی‘‘ بھی موجود ہے۔

    یہ تبدیلیاں کیسے ہوئیں، انہیں کے بیان سے موجودہ اردو شاعری ہماری سمجھ میں پوری طرح آ سکےگی۔ قوموں کی تاریخ اقتصادی کشمکش کی وجہ سے ایسی جگہ پہنچ جاتی ہے جہاں اس میں نئے نشانات دکھائی دینے لگتے ہیں، ایک تصور حیات کچھ دنوں تک نیا رہنے کے بعد پرانا ہو جاتا ہے اور بار بار کے تصادم سے اس میں نئے زاویے پیدا ہو جاتے ہیں۔ یہ موقعے تو ہر وقت آتے رہتے ہیں، جن میں تبدیلی ہو سکے۔ لیکن جب کوئی نظام اپنے پھیلنے اور بڑھنے کی طاقت کھو دیتا ہے اور مخالف عناصر رکھنے والی قدروں کو اپنے یہاں جگہ نہیں دے سکتا، اس وقت تاریخ انقلاب کے دور سے گزرتی ہے اور نئی قدریں بہت واضح ہو جاتی ہیں۔

    اب تک کوئی نظام ہندوستان میں ایسا نہیں بن سکا ہے اور نہ موجودہ حالات میں بن سکتا ہے جس میں ایک طبقے کو دوسرے طبقے کی لوٹ سے روکا جائے۔ اس لئے لوٹے جانے والے طبقے کی زندگی نظام معاشرت کے ٹھیک طور سے چلنے میں روڑے کا کام کرتی ہے جو خیال۔۔۔ بلکہ اسے حقیقت کہنا بہتر ہوگا۔۔۔ جو حقیقت شروع میں آہستہ آہستہ چنگاری کی طرح سلگتی رہتی ہے وہ کچھ دنوں کے بعد تنظیم کی مدد سے طاقت پیدا کرکے ایک زبردست شعلہ بن جاتی ہے جس میں پرانی قدریں اس طرح جل جاتی ہیں کہ کام کی چیزیں تپ کر اور نکھر آتی ہیں اور اس راکھ کے ڈھیر سے نئی زندگی پیدا ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ اس طرح ہوتا ہے کہ جو لوگ تاریخ کی پرپیچ راہ سے واقف نہیں ہیں وہ نہیں بتا سکتے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ معمولی سوجھ بوجھ کے نقاد تو ادب اور شاعری کی لطافت میں کھو جائیں گے، لیکن سماج کے بڑھنے اور پھیلنے کی منطق کو سمجھنے والے ان اصولوں کو سمجھ لیں گے جو ان تبدیلیوں کی تہہ میں ہیں۔

    میں نے اپنے ایک مضمون میں اسی بات سے بحث کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’تبدیلیوں کی رفتار خط مستقیم کی طرح نہیں ہوتی بلکہ مادی وجود کے پیہم تصادمات سے چیزیں نئی طرح صورت پذیر ہوتی ہیں اور یہی سلسلہ جاری رہتا ہے، لیکن ان تمام باتوں میں، اس عمل اور ردعمل میں یہ یاد رکھنا بے حد ضروری ہے کہ تمام تغیرات مادی ہوتے ہیں اور وہی تخیل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس لئے اگر ہم ادب کا صحیح مطالعہ کرنا چاہیں تو سماجی نظام کی مادی تبدیلیوں پر غور کئے بغیر ہم ایک فلسفہ عینیت کے ماننے والے کی طرح صرف سطحی، مبہم اور نامعلوم جذبات کی رہنمائی میں آگے بڑھیں گے۔ مادی وسائل کی مقدار اور خصوصیتیں تخیل کا ڈھانچہ بناتی ہیں اور فنکار انہیں کی عکاسی کرکے زندگی کی قدروں کی تخلیق اپنے طور پر کرتا ہے۔ یقیناً کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان تبدیلیوں میں کوئی ریاضیاتی تناسب نہیں ہوتا بلکہ کبھی کبھی تویہ رفتار بہت تیز یا بہت سست ہو جاتی ہے اور کبھی اچانک ’جست‘‘ کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔‘‘

    یہ ہے تبدیلی کا مادی فلسفہ۔ ۱۸۵۷ء کے انقلاب کے بعد سے ہندوستان کی معاشی حالت میں بڑی تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہیں اور ان تبدیلیوں نے ہمارے احساس پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ ہمارے طبقاتی شعور کو بیدار کرکے ہمیں اس جدوجہد میں حصہ لینے پر مجبور کر دیا ہے جن میں تمام دنیا کے لوگ جو اسی حالت میں ہیں، ہمارے شریک اور ہم نفس دکھائی دیتے ہیں۔ غدر کوئی اتفاقی انقلاب نہ تھا۔ پوری اٹھارہویں اورا ٓدھی انیسویں صدی میں ہندوستان کے دل میں جو پھوڑا پک رہا تھا، وہ پھوٹ گیا۔ چنگاری شعلہ بن کر بھڑک اٹھی اور اگرچہ وہ آگ بجھا دی گئی لیکن اس نے جو گرمی پہنچا دی تھی اور تھوڑی دیر کے لئے جو روشنی دکھا دی تھی اس میں بہت سے تصورات اور خیالات کی عمارتیں کھڑی ہوئی دکھائی دیں اور ایسا معلوم ہوا کہ انحطاطی دور ہمیں اس احساس اور شعور کے سوا اور کچھ دے بھی نہ سکتا تھا۔

    غدر میں جو لوگ چونکے، انہوں نے اس بڑے واقعے کونئی زندگی کا نقطۂ آغاز بنا لیا اور اس کے بعد سے ہمارے سامنے بہت سی نئی تحریکیں آ گئیں۔ چونکہ ظاہری اور مادی طور پر ہندوسان کو شکست ہوئی تھی۔ اسلحے چھن گئے تھے، غیر ملکی حکومت کی گرفت مضبوط ہو گئی تھی۔ اس لئے ایک طرح کی مایوس کن، شکست خوردہ ذہنیت پیدا ہو گئی اور نتیجہ کے طور پر اس سے نکلنے کے لیے اصلاح پسندی کا دور شروع ہوا، جس نے شاعری اور ادب کو بھی اصلاح پسندی کی شاہراہ پر لگا دیا۔ اگر کہیں کہیں دہلی کی تباہی لکھنؤ کی بربادی اور پرانے حالات کے بدل جانے پر آنسو بہائے گئے تو یا تو علامات اور استعمارات کی شکل میں اس تباہی پر تبصرہ کیا گیا ہے یا پھر خاموشی اختیار کی گئی۔

    غدر کی تاریخی اہمیت کو مان لینا تو اس لئے ضروری ہے کہ وہاں سے ایک سنگ میل مان کر ہم آگے بڑھ سکتے ہیں اور تاریخ کو مختلف ٹکڑوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ گو یہ اپنی ہی آسانی کے لئے ہوتا ہے اور کبھی کبھی اس طرح تقسیم کر لینا غلط بھی ہوتا ہے، لیکن سوچنے اور جانچنے کے نئے طریقوں نے ہمیں بتایا ہے کہ ایسے بڑے واقعات سے کچھ نئی باتیں شروع بھی ہو جاتی ہیں۔ ایسے ایسے معرکوں میں بہت سی پرانی باتیں مٹ جاتی ہیں اور بہت سی نئی روایتیں پیدا ہوتی ہیں۔ اگر کسی ملک کی اقتصادی حالت نہ بدلے تو تبدیلی کوئی معنی ہی نہیں رکھتی اور اقتصادی حالت کے بدلنے پر پورے سماج کا ڈھانچہ، طبقات کے تعلقات اور سوچ بچار کے راستے بدل جاتے ہیں۔ یہ سب باتیں ایک دوسرے سے اس طرح ملی ہوئی ہیں کہ ایک کو سمجھے بغیر دوسری بات اچھی طرح سمجھ میں نہ آ سکےگی۔

    نئی ہونے والی باتوں کے اثرات کچھ پہلے ہی شروع ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ بھی تو پرانی ہی باتوں کے پیٹ سے پیدا ہوتی ہیں۔ دو چار سوچ سمجھ رکھنے والے انہیں دیکھنے اور سمجھنے بھی لگتے ہیں، ان کے بارے میں لکھتے بھی ہیں۔ لیکن اس زمانے میں ایسے لوگ بھی ملتے ہیں جو حالات کے بدلنے کا اثر نہیں لیتے اور تغیرات کے بعد بھی اپنے خیالات کو بدلنا نہیں چاہتے ہیں۔ غدر کے پہلے ہی انگریزی تعلیم ہندوستان کے بعض حصوں میں پھیل چکی تھی، اخبار نکل رہے تھے، نئے علوم سے واقفیت بڑھ رہی تھی۔ اس کے اثر سے فضا میں ہلکی ہلکی لہریں اٹھ رہی تھیں اور ہندوستان میں کئی طرح کی آوازیں گونج رہی تھیں، مرتے ہوئے ہندوستان کی بوڑھی آواز جس کا سنبھلنا ناممکن تھا۔

    نئے بننے والے ہندوستان کی آواز جسے لوگ سن رہے تھے لیکن اپنی پرانی باتوں سے محبت رکھنے کی وجہ سے زیاد ہ پسند نہ کرتے تھے۔ اگرچہ اس کا شور بڑھتا ہی جا رہا تھا اور پرانے ہندوستان کی وہ آواز جو نئی طاقتوں سے مقابلہ کرنے پر آمادہ تھی اور اب تک مختلف سماجی اور مذہبی خیالات کی آڑ لے کر مقابلے پر آمادہ ہے کیوں کہ گو وہ تنزل کا پرچم بلند کر رہی ہے لیکن ہندوستان کی ترقی کی سست چال کی وجہ سے اب بھی بہت سے لوگوں کے لیے تسکین کا سامان رکھتی ہے۔ یہ آوازیں ان جگہوں سے بلند ہو رہی تھیں جن پر پرانی اور نئی تہذیب کے میل جول کا اثر پڑا تھا۔

    انگریزی تعلیم نے چاہے کچھ اور نہ کیا ہو، چاہے میکالے کا مقصد اس سے پورا ہو ا ہو یا نہ ہوا ہو لیکن یہ تو ضرور ہوا کہ مشرق کی داخلیت، روحانیت، انفرادیت اور سکون کی تلاش، تصوف اور مایا جال کے بچاروں کو چوٹ سی لگی اور سوچنے سمجھنے کا طریقہ بدل گیا، آنکھیں کھل گئیں اور جاگیرداری کے سوکھتے ہوئے تناور درخت کے سائے میں ایک نئے متوسط طبقے کا پودا پیدا ہوکر پنپتا اور بڑھتا ہوا دکھائی دینے لگا۔ یہ طبقہ ہر بات کو کچھ نئی طرح سے دیکھنا چاہتا تھا۔ کلاسیکل تعلیم کی طرف سے لوگوں کا دل کچھ ہٹنے لگا۔ انگریزی اور ورناکیولر کی مانگ زیادہ بڑھی کیوں کہ انگریزی پڑھے ہوئے لوگوں کے دام بازار میں اچھے لگتے تھے۔ نئے حالات نے سب سے پہلے بنگال پر اثر کیا تھا۔ اس لئے وہاں ایک طرح کا نشاۃ ثانیہ شروع ہوا جس کے لیڈر یہی انگریزی تعلیم پائے ہوئے لوگ تھے۔ راجہ رام موہنؔ رائے، مہرشیؔ ٹیگور اور کشیبؔ چندر سین کے نام اس سلسلے میں ضرور آتے ہیں۔

    مسلمانوں کے یہاں بھی مذہبی اصلاح کا زور شروع ہو گیا تھا۔ لیکن اس کی باگ ڈور بالکل دوسرے قسم کے لوگوں کے ہاتھ میں تھی۔ یہ لوگ نئی تعلیم سے متاثر نہ تھے۔ ان میں مولانا سید احمد بریلوی، شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی، مولانا کرامت علی جونپوری کے نام ذکر کے قابل ہیں۔ مسلمانوں کی مذہبی و معاشرقی اصلاح کا وہ دوسرا دور تھا جس کی رہبری سرسید احمد خاں نے کی اور جو اس نئی کشمکش اور نئی تعلیم کے نتیجے کے طور پر تھی۔ یہاں پہنچ کر اصلاحی تحریکوں کا دائرہ بہت بڑھ جاتا ہے اور اس میں مذہب، معاشرت، تعلیم اور ادب وغیرہ سب سما جاتے ہیں۔ پہلی تحریک ادبی حیثیت سے اتنی اہم نہیں جتنی دوسری ہے۔

    غدر کی سیاسی حیثیت سے اس وقت ہمیں سروکار نہیں ہے۔ بلکہ اس کے دوسرے رخ یعنی اس کے سماجی پہلو کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہندوستان کی تاریخ میں وہ کون سی منزل تھی جہاں غدر واقع ہوا، یہ اس وقت ہماری سمجھ میں آئےگا جب ہم دیکھیں کہ ترقی اور تنزلی کی طاقتیں ایک دوسرے پر قبضہ پانے کے لئے لڑ رہی تھیں اور غدر میں ترقی پانے والی طاقت کی جیت ہوئی۔ یہ ایک تاریخی حقیقت تھی جس سے ہندوستان بچ نہیں سکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ متوسط طبقہ جو ترقی کی طاقت کے ساتھ تھا اسی کے راگ گاتاد کھائی دیتا ہے۔ غدر کے پہلے بھی اور غدر کے بعد بھی یہ طبقہ سماجی کشمکش کا ترجمان رہا۔ اس میں بنگال کے رہنماؤں کو چھوڑ کر اردو جاننے والوں اور اردو زبان کے ذریعے سے اپنے خیال ظاہر کرنے والوں میں سرسیدؔ، ذکاء اللہ، نذیر احمدؔ، حالیؔ، آزادؔ، چراغؔ علی، محسن الملک، وقارؔ الملک سب ہیں، مولانا شبلیؔ اگرچہ بعد میں آئے لیکن انہیں حالات نے ان کا ذہن بھی بنایا تھا۔ یوں مذہبی خیالات کے لحاظ سے وہ اس گروہ سے تعلق رکھتے تھے، جو سید احمد شہید اور سید اسمٰعیل کو پیدا کر چکا تھا اور ان کی اصلاح کا طریقہ اور قومی بیداری کا تصور اوپر پیش کئے ہوئے ناموں کے بزرگوں سے مختلف تھا۔

    وہ لوگ جو نئے اثر کا خیرمقدم کر رہے تھے، ان کے متعلق تو کچھ زیادہ کہنا نہیں ہے لیکن سچ یہ ہے کہ مغربی اثر اتنا چھا چکا تھا کہ خود وہ لوگ جو اس مغربی اثر سے بچنا چاہتے تھے اس سے کام لینے پر مجبور تھے۔ اس میں ترقی و تنظیم کی ایک طاقت تھی، جس سے انہیں بھی کام لینے کی ضرورت پڑتی تھی۔ چنانچہ دہلی کے سپاہیوں نے جب غدر میں دہلی پر کچھ دنوں کے لئے قبضہ کر لیا تو وہاں عدالتیں وغیرہ سب انگریزی طریقے کی قائم کیں اس طرح غدر سے پہلے، غدرکے زمانے میں اور غدر کے بعد ہندوستانی سماج میں یہ نئے اثر دکھائی دیتے رہے، جن کی ترجمانی ادب کو کرنا پڑی۔

    اردو شعراء کی وہ آنکھیں جو اندر ہی کی طرف کھلی ہوئی تھیں، جو اپنی ذات یا اپنے معشوق اور بادشاہ کی ذات سے ہٹتی ہی نہ تھیں کھل گئیں اور انہوں نے دیکھا کہ اب وہ سکّہ بازاروں میں زیادہ نہیں چلتا، فرضی غم عشق نے حقیقی غم روزگار کو جگہ دے دی ہے اور تصوف میں تسکین کا کوئی پہلو نہیں رہ گیا۔ پہلے داستانیں جھوٹ معلوم ہوتے ہوئے بھی مزا دیتی تھیں کیونکہ جب تک کہانی میں کوئی نئی بات ایسی نہ ہو جو نہ دیکھی گئی ہو اور نہ سنی گئی ہو، اس وقت تک کہانی کہنے یا لکھنے سے کیا فائدہ! لیکن اب معلوم ہوا کہ نہیں، انسانی زندگی میں بھی کافی پیچیدگیاں ہیں، انفرادی زندگی، خاندانی اور پھر معاشرتی زندگی اتنی الجھی ہوئی ہے کہ اس کے بیان میں بھی مزا آ سکتا ہے۔

    شاعری نے آزادؔ، حالیؔ، اسمٰعیلؔ پیدا کئے تو کہانیوں نے نذیرؔ احمد اور سرشارؔ کے یہاں جنم لیا۔ شاعروں کے تذکرے جو اس وقت تک تنقید کا سب سے اعلیٰ ذخیرہ سمجھے جاتے تھے، ’آب حیات‘ اور’مقدمہ شعروشاعری‘میں بدل گئے۔ مذہبی، اخلاقی اور صوفیانہ مضامین جن کی بنیاد عقل سے زیادہ نقل پر اور سوچ سمجھ کر نتیجہ نکالنے سے زیادہ روایت پر ہوتی تھی، نذیرؔ احمد کے ’الحقوق والفرائض چراغ علی کے رسائل، محسنؔ الملک کے مضامین، شبلیؔ کی تصانیف اور پورے ’تہذیب الاخلاق‘ میں نئی شکل میں دکھائی دینے لگے۔ مختصر یہ کہ غدرکے بعد ہی سے ہندوستان کی تمام زبانوں پر خیالات کے کچھ نئے سائے پڑتے دکھائی دیتے ہیں۔

    جہاں تک اردو ادب کا تعلق ہے، اس میں اصلاح پسندی کا خیال تو درحقیقت حالات نے پیدا کیا تھا، مگر شاعری کا نیا ڈھنگ زیادہ تر مغرب سے مانگا ہوا تھا۔ نثر میں البتہ صرف نقل نہیں معلوم ہوتی بلکہ جو چیزیں انگریزی سے لی بھی گئی ہیں وہ ہندوستانی بنالی گئی ہیں۔ آزادؔ کی ’آب حیات‘ کا خاکہ چاہے جانسؔن کی LIVES OF POETS سے ملتا جلتا ہو، لیکن اس کا حرف حرف ہندوستانی انداز بیان، رنگینی اور ہندوستانی سماج کے نقشوں سے جھلک رہا ہے۔ ’مقدمۂ شعروشاعری‘چاہے ورڈ سورتھؔ اور شیلیؔ کے Preface to lyrical Ballads اور Defence of Poerry سے متاثر ہوکر لکھا گیا ہو لیکن اُردو شاعری کا بہت اعلیٰ تجزیہ ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر نذیرؔ احمد کے ناول ہندوستانی معاشرت کی سچی تصویریں پیش کرتے ہیں۔ ’تہذیب اخلاق‘ Spectator اور Tatler کے نمونے پر ہوتا تھا لیکن ہندوستانی مسائل سے اس کا ہر صفحہ بھرا ہوتا تھا۔ یہ کچھ اتفاق نہ تھا کہ ہر طرح کے مضامین میں چاہے وہ نثر کے ہوں یا نظم کے، ایک طرح کی یکسانیت ہے، نہیں بلکہ نئے حالات اور اثرات کام کر رہے تھے اور اس وقت ایسے ہی اصلاحی ادب کا پیدا ہونا ممکن تھا۔

    حالات کے اس قدر بدل جانے کے بعد بھی بہت سے ایسے شاعر اور ادیب تھے جو نئی زندگی اور نئی بیداری سے متاثر نہ تھے۔ ان کی دنیا بدلنے کے باوجود بھی پرانی دنیا تھی کیونکہ ان کے معاشی تعلقات نہیں بدلے تھے۔ اگر داغ اور امیرؔ، جلالؔ اور امیرؔ پرانے جاگیردارانہ نظام کے پروردہ تھے تو آزادؔ اور حالیؔ نئے متوسط طبقے کے، جو مغرب کے علوم وفنون سے متاثر ہو رہا تھا۔ ۱۸۵۷ء اور ۱۸۸۰ء کے بیچ میں ہندوستانی ادب ایک انوکھی ترقی کے دور سے گزرا۔ میر انیسؔ (جن کا انتقال ۱۸۷۴ء میں) اور مرزا دبیرؔ (جو ۱۸۷۵ء تک زندہ رہے) مرثیہ کے راستے سے اردو میں ایک نئی طرح کی وسعت لائے تھے۔ انہوں نے یکایک اردو زبان کے سرمائے میں جدید انداز بیان اور نئے تصورات کا اضافہ کر دیا جو مواد اور شکل دونوں میں ترقی کی راہ دکھاتے تھے۔ دہلی میں غالبؔ تھے جن کی غزلوں کے بعض شعر زندگی کے نئے شعور کا پتہ دیتے ہیں جنہوں نے پہلی مرتبہ یہ محسوس کیا ہے،

    بہ قدر شوق نہیں ظرف تنگنائے غزل

    کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لئے

    اور اسی خیال کو پھیلاکر آزاد اور حالیؔ نے دبے لفظوں میں غزل کے خلاف ایک طرح کا جہاد شروع کر دیا۔ غالبؔ کی اردو نثر اگرچہ چند تقریظوں کو چھوڑ کر صرف ان کے خطوں کی شکل میں ملتی ہے لیکن ان کے خطوں میں نئی نثرنگاری کے ابتدائی خط و خال دکھائی دے جاتے ہیں کیونکہ اسلوب کی اسی روانی اور لطافت نے پھیل کرنئی نثر پیدا کی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بڑی ذہانت رکھنے والے ہی نئے اثرات سے لطف اٹھا سکتے تھے۔ ورنہ اسی زمانہ میں لکھنؤ اور دہلی میں بہت سے شعراء اور بھی تھے، جن کے یہاں ان باتوں کا پتہ نہیں چلتا۔ اس بات کو دوسری طرح یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ پہلے بھی ادب اور شاعری کا کچھ مقصد ہوتا تھا مگر وہ خود لکھنے والوں کو اچھی طرح معلوم نہ تھا اور اب بھی لکھنے والوں کے سامنے ان کا مقصد تھا اور وہ اپنے مقصد سے باخبر ہوکر لکھ رہے تھے۔ اپنے مقصد کا شعور رکھ کر کوئی بات کہنا اس سے بالکل مختلف ہوتا ہے جو صرف نقالی کے طور پر کہی جاتی ہے۔

    شعور کی رفتار خط مستقیم میں نہ ہوتی ہے اور نہ ہو سکتی ہے۔ اس لئے یہ بتانا کہ حقیقتاً غدر کا کتنا اثر ہے اور نئے نظام کا کتنا، انگریزی تعلیم کا اثر کتنا ہے اور نئے معاشی تعلقات کا کتنا، کسی کے امکان میں نہیں ہے، کیونکہ سب کچھ ایک ہی میں گتھا ہوا ہے بلکہ اگر ہم غور کریں تو دیکھیں گے کہ حالیؔ نے غدر کی اہمیت بیان ہی نہیں کی، آزادؔ نے صاف لفظوں میں کچھ نہیں کہا، ڈاکٹر نذیر احمد نے اپنے ناولوں میں تھوڑا بہت وہ ہندوستان بھی پس منظر کے طور پر رکھا جو غدر کو دیکھ چکا تھا لیکن اس کا تذکرہ خاص طور سے کہیں نہیں کیا، ایک مترجم کی حیثیت سے ایک انگریز افسر کے روزنامچے کا ترجمہ البتہ ان کے قلم سے ملتا ہے۔

    سرسیدؔ نے اپنے رسالہ ’اسباب بغاوت ہند‘ پر اکتفا کی لیکن جو چیز غور کرنے کی ہے، وہ یہ نہیں ہے کہ ان لوگوں نے غدر کا کتنا ذکر کیا، اور کیسا کیا، یہ بھی نہیں کہ ان لوگوں نے غدر کے نتائج کے طور پر تغیر کا احساس کیا یا اور کسی طرح، مگر ایک مبہم طریقے سے یہ ضرور ہوا کہ ان حضرات نے غدر کے سیاسی نتیجے کو برحق مان کر قدم آگے بڑھائے اور لوگوں میں مفاہمت کا جذبہ پیدا کرکے اس متوسط طبقے کی جڑ مضبوط کرنے کی کوشش کی جو حالات کے نتیجے کے طور پر پیدا ہوا تھا، جو ایک دنیا چھوڑ کر دوسری دنیا میں آ گیا تھا۔ ان حضرات کے عنوانات، مضامین کی نوعیت، نظموں کے موضوعات کی تلاش، ناول اور نیا علم کلام، کیا ان سب میں قدیم سے علیحدگی کا پتہ نہیں چلتا، اگرچہ یہ علیحدگی ایسے شعور کا نتیجہ ہے جو کبھی کبھی نقل کے قریب پہنچا دیتی ہے۔

    حالات کے بدل جانے اور ادب میں نئی لہروں کے پیدا ہونے کا سہرا کسی مخصوص تغیر پر یقینا ًنہیں رکھا جا سکتا۔ لیکن غدر میں جس تخریب اور تعمیر کا پتہ چلتا ہے، وہ زندگی کے دھارے کو موڑ دینے کے لئے کافی ہے۔ غدرنہ ہوتا تو انگریزی طاقت کے اقتدار کا اتنا یقینی طور پر مان لینا ممکن نہ ہوتا جتنا کہ اس وقت کے لکھنے والوں کے یہاں دکھائی دیتا ہے۔ وہ مادی اور معاشی حیثیت سے انگریزی طاقت کی فتح کو مان لینے اور اس کے سائے میں آگے بڑھنے ہی کو سو چ سکتے تھے۔ اسی کا اظہار اس وقت کے لکھنے والوں کے یہاں ہوتا ہے۔ آج کے جذباتی نقاد اسے رجعت پسندی اور غلامانہ ذہنیت کہہ سکتے ہیں لیکن اس وقت یہی ہو سکتا تھا۔ اس وقت یہی تاریخی ترقی کی رفتار تھی اور مستقبل کے حالات کو اپنے لئے دوسرا راستہ بنانا تھا جس کی رہنمائی کی ابتدا ان لکھنے والوں نے کردی تھی جو غدر کے قریب دکھائی دیتے ہیں۔ ان لوگوں نے جمود اور یکسانیت کے اس قلعے کو توڑ دیا جو مدت سے شعروادب کو قید کئے ہوئے تھا اور اردو ادب میں تبدیلی کی ایک نئی روایت شروع ہو گئی جو بدلتے ہوئے حالات کا ساتھ دے رہی ہے۔

    حب الوطنی کے جذبات اور قومی ضروریات نے حاکم و محکوم کی کشمکش بڑھا دی تھی اور زندگی کے ہر شعبے میں اس کے اثرات نمایاں ہو گئے تھے۔ بیسویں صدی کے شروع ہوتے ہوتے انگریزی تعلیم کا فی پھیل چکی تھی، ذرائع آمدورفت میں ترقی ہوئی تھی، متوسط طبقے نے حکومت کا بوجھ اپنے کاندھوں پر کسی قدر اٹھا لیا تھا اور انہیں اس کا احساس ہو رہا تھا کہ انہیں اور ان کی اولاد کو اور حقوق ملنے چاہئیں۔ ملک کے کچھ سر پھروں نے قومیت کا تصور بھی پیش کیا تھا، اس لئے معمولی پیمانہ پر جماعتی ترقی کے تصورات بھی پیدا ہوئے اور متوسط طبقہ نے کونسلوں اور اسمبلیوں میں، سول سروس میں اپنے لئے زیادہ جگہیں پانے کی کوشش شروع کی، وہ قومیت اور وطن پرستی کی راہ میں تھوڑی دور جا سکتے تھے زیادہ نہیں۔ بہت تھوڑے سے لوگ دنیا کی دوسری ترقی پسند تحریکوں سے باخبر ہوکر ہندوستان کے سیاسی حالات کو دوسرے پس منظر میں دیکھ رہے تھے۔ اکبرؔالہٰ آبادی، شادؔ عظیم آبادی اور چکبستؔ سب متوسط طبقے کے ترجمان ہیں۔

    اکبرؔ کو مغربی تہذیب سے نفرت تھی۔ بعض اوقات تو ایسا معلو م ہوتا ہے کہ وہ ہر اس چیز سے نفرت کرتے تھے جو زندگی کی کشمکش میں نئی معلوم ہو رہی تھی لیکن جس طرح اکبرؔ نے سیاسی حالات کو سمجھا تھا، اس طرح کم لوگ سمجھتے ہیں اور جس طرح انہوں نے ان مسائل کو اپنی شاعری کا جز بنایا اس طرح اور کوئی نہ بناسکا۔ چکبستؔ نے قومیت اور حب وطن کا پرجوش نعرہ لگانے کے بعد، بھی سب کچھ اپنے طبقاتی مفاد کے دائرے کے اندر ہی سوچا۔

    غزل گو شعراء کی دنیا محبت کی دنیا تھی۔ وہ زیادہ متاثر نہ ہو سکے۔ غزلوں کے اندر جو نئی روح معلوم ہوتی ہے وہ ذہنی کشمکش کا پتہ تو ضرور دیتی ہے لیکن باقاعدہ ہمارے سامنے کسی معاشرتی اور معاشی رجحان یا زندگی کے کسی نصب العین کو پیش نہیں کرتی، ان کی دنیا کے صبح و شام بدل جانے کے بعد بھی بہت بدلے ہوئے نہیں معلوم ہوتے اور اگر انداز بیان سے قطع نظر کریں تو غزلوں کی شاعری کا بہت سا حصہ قدیم شعراء کی آواز باز گشت معلوم ہوتا ہے۔ حسرتؔ موہانی، عزیزؔ لکھنوی، یاس ؔیگانہ، جگر مرادآبادی، صفیؔ لکھنوی، فانیؔ بدایونی، اصغرؔ گونڈوی، ثاقبؔ لکھنوی، یہ سب نئے ہونے کے باوجود پرانے ہیں، نفسیاتی پیچیدگیوں کو صداقت کے ساتھ، زمانے کے نئے وجدان کو ساتھ لے کر بیان کرنے میں یہ لوگ کامیاب ہوجاتے ہیں لیکن معاشی اور معاشرتی کشمکش کا پورا عکس ان کی شاعری میں نہیں دکھائی پڑتا۔

    اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ان میں حسرتؔ کو چھوڑ کر اور کوئی ایسا نہیں ہے جس نے حالات کو ان کے روابط اور اجتماعی زندگی کو اس کے اصل تعلقات میں سمجھنے کی کوشش کی ہو۔ اسی وجہ سے دوسروں کے مقابلے میں حسرتؔ کے یہاں اس کشمکش کا زیادہ احساس ہوتا ہے۔ موجودہ غزل گو شعراء میں فراق گورکھپوری نے غزل کو زندگی کی کشمکش کا آئینہ دار بنانے کی کوشش کی ہے، لیکن غزل اپنے محدود روایتی تاثر کی وجہ سے اس تبدیلی کو آسانی کے ساتھ مکمل طور سے ظاہر نہیں کرتی۔

    آزادی کا مطالبہ ابہام کے حدود سے نکل کر جس قدر سماجی، سیاسی اور معاشی آزادی کے مفہوم کو واضح کرنے لگا، عوام کی خواہشات جس قدر اس پر اثر انداز ہونے لگیں اتناہی یہ سوال اہم ہوتا گیا کہ آزادی کا مقصد کیا ہوگا اور اس سے کس طرح کا نظام حیات مرتب ہوگا۔ کچھ لوگوں کو ان سوالوں سے رومانی دلچسپی تھی۔ لیکن کچھ لوگ واقعی اپنے علم کی روشنی میں ان سوالوں کا جواب ڈھونڈھ رہے تھے۔ شعراء اور مفکرین میں ڈاکٹر اقبال کی ذات ایسی ہے جس کے یہاں ایسی ہی تلاش ہمہ وقت جاری معلوم ہوتی ہے۔ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ آزادی سے کیا مراد ہے اور اس کے حدود کیا ہوں گے؟ ڈاکٹر اقبال تنہا ایک ادارے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انفرادی اور اجتماعی تصورات کی اتنی لہریں ان کے یہاں آکر ملتی ہیں کہ ان کا تجزیہ آسان نہیں رہتا۔

    بیسویں صدی کے شروع میں ان کی شاندار ابتداء ہمالہ، قومی ترانہ اور نیا شوالہ سے ہوتی ہے اور اردو شاعری ایک نئے جاندار احساس سے دوچار ہوتی ہے۔ یورپ کی فلسفیانہ تحریکیں، گری ہوئی قوموں کی حالت اور مسلمانوں کی پستی، اقبالؔ کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں اور ان کے تفکر میں ایک طرح کی بین الاقوامیت جگہ لیتی ہے، جس کی تنظیم کے لئے وہ مختلف تدبیریں سوچتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، اور سب سے زیادہ ان کو خودی کا فلسفہ اپنی جانب کھینچتا ہے۔ وہ یہ سوچنے لگتے ہیں کہ جب تک افراد میں آرزوؤں کا وفور اور نصب العین نہ پیدا ہوگا اور اندرونی طور پر طاقتور بننے کی کمی رہےگی، صرف اجتماعی احساس انہیں منظم نہیں کر سکتا۔

    ۱۹۱۷ء کے قریب وہ روس کے انقلاب سے ایک نئی کرن پھوٹتی ہوئی دیکھتے ہیں اور پیشن گوئی کرتے ہیں کہ اب دنیا میں مزدوروں کا دور آ گیا، اس دور سے انہیں ہمدردی معلوم ہوتی ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کے خیال پر خودی کا فلسفہ غالب آتا چلا گیا اور اس نے ایک طرح کی مابعد الطبیعاتی صورت اختیار کر لی۔ یہاں تک کہ دوسرے اہم خیالات کو دوسری اور تیسری جگہیں ملیں۔ پھر بھی آزادی کی تڑپ انہیں بے چین رکھتی ہے اور وہ کمزور قوموں کو مضبوط بن کر ہر طرح کی غلامی سے آزاد ہو جانے کی تلقین کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے لہجے اور انداز بیان میں رومانیت کے ابہام اور شاعرانہ لطافتوں کے لئے شاعری کرنے کی کوشش کہیں نہیں دکھائی دیتی۔ ایک اونچے پہاڑ کی طرح ان کی شاعری اونچی اور ٹھوس ہے، جس کی بہت سی چوٹیاں دھندلی ہیں، برف پوش ہیں یا کہرے میں گم ہیں۔ کیونکہ وہ اپنے مخاطب کو وجدان کی ان وادیوں میں لے جانا چاہتے ہیں جہاں عقل تنک مایہ کے پر جلتے ہیں اور دلائل کی سانس اکھڑ جاتی ہے اور ان سے کمتر درجے کا وجدان رکھنے والا ان کا ساتھ نہیں دے سکتا۔

    مذہبی نکات، اشارات اور پس منظرنے ان کی شاعری کے بہت سے حصے کو محدود بنا دیا لیکن پھر بھی اس میں علم وعمل کی بہت سی راہیں دکھائی دیتی ہیں۔ اسلامی ممالک کی روز بدلتی ہوئی حالت اور یورپ کا اقتدار انہیں آزادی کا درس دینے پر اکساتا رہتا ہے اور اس آزادی کو اقبالؔ اسلامی حدود کے اندر رکھنا چاہتے ہیں۔ جذباقی اور فکری طور پر اسلام نے انہیں تسکین دی تھی اور ان کا خیال تھا کہ وہی نقطۂ نظر سب سے اچھا ہے۔ وہ نہ صرف تسکین دے سکتا ہے بلکہ تمام مشکل مسائل کو حل بھی کر سکتا ہے، اس لئے وہ اسی کی پرجوش تلقین کرتے ہیں۔

    ڈاکٹر اقبالؔ نے اردو کے نوجوان شاعروں کی راہ میں بہت سے چراغ جلا دیے۔ انہیں انگریزی شاعری کی روکھی پھیکی تقلید سے نجات دلاکر نئی وسعتوں سے آشنا کر دیا۔ حالات بھی اتنے بدل چکے تھے کہ ہندوستانیوں کے سامنے خود نئی حقیقتیں آ گئی تھیں۔ جنگ عظیم کے بعد سے دنیا ایک نئی طرح کی کشمکش میں مبتلا دکھائی دیتی ہے کیونکہ آزادی اور جمہوریت کے مفہوم کو مختلف طاقتوں نے مختلف طریقے پر سمجھنے او ر سمجھانے کی کوشش کی۔ ہندوستانیوں نے بھی اسے سمجھا اور صرف آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد نے پھیل کر معاشی آزادی کا تصور بھی پیدا کر لیا۔ ۱۹۱۹ء کی صلح نے یہ بات اچھی طرح واضح کر دی کہ جمہوریتوں کے یہاں بھی آزادی کا مفہوم ساری دنیا کی آزادی نہیں۔ جب ہندوستانیوں نے بھی اس طرح سوچنا شروع کیا تو گویا ان کی آزادی کی لڑائی وسیع ہوکر ساری دنیا کے دبے ہوئے لوگوں کی آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد کا ایک حصہ بن گئی۔ ہمارے نوجوان شاعر اسے سمجھ رہے ہیں، اسی لئے انہوں نے انسانی برادری کی وسعت کو اپنا موضوع بنا لیا ہے۔

    ظاہر ہے کہ یہ باتیں ابھی زیادہ تر خواہش پرستی، خود تسلی اور ارادے کے طور پر ظاہر ہو رہی ہیں۔ طاقت ہاتھ میں نہیں ہے اس لئے اس کے حاصل کرنے کی جدوجہد، بے اطمینانی، تعمیر کا خیال، یہ چیزیں ادب میں داخل ہو گئی ہیں اور زندگی کے اس تضاد کو نمایاں کر رہی ہیں جن سے ہم گزر رہے ہیں۔ موجودہ نوجوان شعراء روایات قدیم کے قلعے توڑ رہے ہیں اور انقلاب کے حکیمانہ ادراک کے ساتھ دنیا کو بدلنا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان نوجوانوں کی تعلیم متوسط طبقے کی روایات میں حاصل ہونے والی تعلیم ہے، اس کے اثرات اب بھی ان کے یہاں نمایاں ہو جاتے ہیں، لیکن جو بصیرت اور سوجھ بوجھ علمی اور عملی طور پر انہوں نے حاصل کر لی ہے اس میں واضح نقوش بھی ہیں۔

    انہوں نے دوسرے ملکوں کی سیاسی اور معاشی حالت پر غور کیا ہے اور ہندوستان کی تاریخ کو آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد کی تاریخ کے طور پر پڑھا ہے، اس لئے ان کے یہاں بےجا لفاظی، بےاثر اور مبالغے سے بھری ہوئی داخلیت، رومانیت اور بے کیف انفرادیت کی کمی دکھائی دیتی ہے۔ ترقی کی وہ رفتار جو تمام ملکوں میں چھپی یا کھلی ہوئی شکل میں جاری ہے، اردو شاعری کا بھی موضوع ہے۔ فرضی عشق و محبت، مابعد الطبیعاتی تجربے اور کھوکھلے اخلاقی مسائل ان کی شاعری میں جگہ نہیں پاتے۔ بلکہ زندگی کی عریاں حقیقتیں تمام فنی خوبیوں کو برقرار رکھتے ہوئے سامنے آ رہی ہیں۔

    سماجی کشمکش سے پیدا ہونے والے ادب کا جتنا ذخیرہ اردو میں فراہم ہو گیا ہے اتنا شاید ہندوستان کی کسی دوسری زبان میں نہیں ہے۔ اگر صرف ایسے شاعروں کا نام لیا جائے جو انقلاب کی دھمک اپنے سینے میں محسوس کر رہے ہیں تو ان کی تعداد بھی کم نہیں ہے، گوان میں سے اکثر کے یہاں انقلاب کا مفہوم معاشی، معاشرتی اور سیاسی آزادی کا حصول نہیں ہے۔ وہ انقلاب کے اصلی تاریخی مفہوم سے واقف نہیں ہیں لیکن موجودہ نظام کی خرابیوں سے بہت بددل ہیں اور اسے بدلتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ادب کے لیے یہ بھی فال نیک ہے۔ جوش، احسانؔ، ساغرؔ، سیمابؔ، مجازؔ، الطافؔ، سردارؔ جعفری، جوادؔ زیدی، سلامؔ، اخترؔ، جذبیؔ، رضیؔ، مطلبیؔ، شمیمؔ کرہانی، کیفیؔ، ن۔ م راشدؔ، مخدوم، روشؔ، ملا، جمالی، تاثیرؔ، فیضؔ، یہ وہ چند نام ہیں جو جدید اردو شاعری کا ذکر کرتے وقت نظر انداز نہیں کئے جا سکتے۔

    ان میں سے اکثر اس احساس سے سرشار ہیں کہ ان کی شاعری کو زندگی کی کشمکش کا ساتھ دینا ہے، پوری سماجی ذمہ داری سے اس کا حل ڈھونڈھنا ہے، اور تمدن کی بہتر ین قدروں کا ورثہ بننا ہے۔ ان کی شاعری محض ذوق اور وجدان کا نتیجہ نہیں بلکہ علم کا بوجھ بھی اٹھائے ہوئے ہے، ان لوگوں نے شاعری کو سماجی زندگی کے اظہار کا ایک ذریعہ قرار دیا ہے اور اسے زندگی کے اور روابط کی مدد سے سمجھا ہے لیکن اپنے عقائد اور خیالات کے لحاظ سے یہ لوگ ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں اور ہر ایک کو پڑھتے ہوئے اس کے خاص نقطۂ نظرکا خیال رکھنا چاہئے کیونکہ بعض تغیر کی خواہش میں رجعت پسند ہو گئے ہیں، بعض فحش گو۔ اگر سبھوں کو ایک سمجھ لیا گیا تو غلط نتائج نکلیں گے۔

    مختصر سی جگہ میں موجودہ اردو شاعری کے رجحانات یا تجربات کا تفصیلی تذکرہ ناممکن ہے، لیکن کچھ شعراء کے کارناموں کو سمجھنے کے لئے ان کی اس خصوصیت کا ذکر ضرور ہونا چاہیے جو ان کی شاعری کے سماجی رخ کو واضح کرتی ہے، جو ایک معاشرتی بے اطمینانی کی پیداوارمعلوم ہوتی ہے۔ جوشؔ ملیح آبادی نے اس جرأت اور حقیقت نگاری کے ساتھ ہماری زندگی کی سیاسی، معاشرتی اور تمدنی کشمکش کو پیش کیا ہے کہ اردو تو کیا دوسری زبانوں میں بھی ان کا جواب تلاش کرنا آسان نہ ہوگا۔ متوسط طبقے کی روایات میں پرورش پانے کی وجہ سے جوش ان کی تہذیب کے بعض نقوش کو عزیز رکھتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں، ورنہ ان کی روح اور مزاج باغی ہیں۔ انہیں ہمارے نظام تمدن کے اس تضاد کا پتہ ہے جو اس کے ڈھانچے کو خود گراکر تباہ و برباد کر دےگا۔ زبان وبیان پر ان کو اتنی قدرت ہے کہ نقاد ان کے خیال سے اختلاف رکھنے کے باوجود ان سے لطف لیتا ہے۔ ان کے یہاں عقل اور جذبات حکمت اور جنون کی جنگ جاری ہے اور وہ موقعہ سے ایک دوسرے پر قابو پاتی رہتی ہیں۔

    نشاط، امیداور خواہش پرستی کی شاعری، جذبات کو بھڑکانے اور گرمانے والی شاعری میں جوش کا مدمقابل کوئی نہیں۔ جب ان کا موضوع ان میں سے کوئی ہوتا ہے تو اس وقت کسی دریا کی روانی اور کسی آبشارکا شور، کسی پھول کی لطافت اور کسی بہار کی شگفتگی ان کو نہیں پا سکتی۔ جوش صرف ہمارے جذبات کو آسودہ نہیں کرتے بلکہ ہماری فکر کو نئی راہ بھی دکھاتے ہیں جس پر سے ہوکر ایک ایسی دنیا کو راستہ جاتا ہے جہاں آرام ہے اور سکون، جہاں انسان نسل اور رنگ میں تقسیم نہیں ہوئے ہیں، جہاں ترقی کے دروازے سب کے لئے کھلے ہوئے ہیں اور جہاں روایات قدیم ہر قدم پر راستہ نہیں روکتیں۔ جوشؔ کی مادیت جذبات کی شدت میں رنگی ہوئی ہونے کی وجہ سے تاریخی مادیت سے کسی قدر مختلف ہے لیکن جتنی ہے وہ بجلی کی طرح اثر کرنے والی۔

    احسان دانشؔ کو بیان پر قدرت ہے۔ وہ کبھی کبھی کیمرہ کے پلیٹ کی طرح جزئیات کی عکاسی بھی کر سکتے ہیں۔ ذاتی تجربات نے انہیں انقلاب پسند بنایا ہے۔ ان کا نظریۂ انقلاب عمل اور نظریے کے اشتراک، سماج کی اجتماعی جدوجہد کے طور پر نہیں پیدا ہوتا، بلکہ انفرادی خواہش اور جھنجھلاہٹ کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔ ان کا انقلاب اور مزدروں کی ترقی کا تصور تاریخی نہیں ہے لیکن وہ ہمیں ایک بے چین روح کی پکار کا پتہ ضرور دیتا ہے۔

    الطافؔ مشہدی بھی جذبات کے راستے سے انقلاب کے میدان میں آئے ہیں لیکن ان کا جوش و خروش اصلاحات کے ساتھ صلح کرنے پر کسی طرح رضامند نہیں معلوم ہوتا، ان کا سماجی اور انقلابی شعور سطحی ہے۔ ساغرؔ نظامی نے حب وطن اور قوم پرستی کے جذبہ کو ایک مذہبی جذبہ کا تقدس عطا کیا اور ہندوستان کی محبت کو اپنی شاعری کا پیام بنا لیا۔ لیکن وقت کی بڑھتی ہوئی رو کے ساتھ ان کا یہ جذبہ نکھرتا گیا۔ اس میں وسعت آتی گئی، یہاں تک کہ اب ان کے یہاں ترقی اور انقلاب کا تقریباً صحیح شعور پیدا ہو رہا ہے، انہوں نے ہندی لفظوں کے استعمال اور ترنم کی مدد سے اپنے پیام اور خیال کوعام لوگوں سے قریب تر لانے کی کوشش بھی کی ہے۔

    سیمابؔ اکبر آبادی انقلابی شاعر نہیں ہیں لیکن زمانے کی رفتار کو دیکھتے ہوئے انہوں نے بھی زندگی کے بعض ایسے نقوش سے دلچسپی لی ہے جو ہماری معاشرتی بے بسی اور بےکسی کے آئینہ دار ہیں۔ روشؔ صدیقی جذباتی طور پر ارض مشرق میں انقلاب چاہتے ہیں جس کی حیثیت سیاسی سے زیادہ اخلاقی اور روحانی ہوگی اور مغرب اس کی روحانیت کا حلقہ بگوش ہو جائےگا۔ کبھی ایسا ہو چکا ہے اور پھر ہونا چاہیے۔ مجازؔ انقلاب کے رنگین نوا شاعر ہیں لیکن ان کی شاعری کی رنگینی میں شعلہ کی سرخی شامل ہے، اس لئے وہ بہ یک وقت ساز، جام اور شمشیر سب کے پرستار ہیں۔ یہ علامتیں اس بات کا پتہ دیتی ہیں کہ انہیں مکمل زندگی کا احساس ہے۔ ترقی پسندی کے وہ تمام عناصر جواس بحرانی دور میں پائے جا سکتے ہیں، مجازؔ کے یہاں موجود ہیں۔

    شمیم کرہانی اس دنیا سے بددل ہیں جس میں انصاف نہیں ہے اور اپنے سینے میں ایک رنگین اور دلکش دنیا کی پرورش کر رہے ہیں۔ جذبے کی شدت ان کے ہر شعر اور ہر نظم کو مترنم، پرکیف اور پراثر بنادیتی ہے۔ کیفیؔ اعظمی رومانی نظم نگاری سے آہستہ آہستہ انقلاب کی طرف قدم بڑھا رہے ہیں اور ان کا مستقبل بہت ہی امید افزا معلوم ہوتا ہے۔ جذبیؔ ہندوستان کی روح میں بسی ہوئی یاس پسند فضا کے ترجمان ہیں لیکن حالات کو بدلنے کے لیے سپاہی سے خوں فشاں تلوار کھینچنے کا مطالبہ کرتے ہیں تاکہ سرمایہ داری اور غلامی کا خاتمہ ہو۔ مطلبیؔ عوام کی زبان اور عوام کے لب ولہجے میں عوام کو انقلاب اور آزادی کا مفہوم سمجھاتے ہیں۔ راشدؔکی شاعری یکسر تغیر چاہتی ہے لیکن یہ تغیر خیالات کے لحاظ سے معکوس اور منفی معلوم ہوتا ہے۔ جاں نثار اخترؔ رومانی فضاؤں سے نکل کر سماجی حقائق کو سمجھ اور سمجھا رہے ہیں اور اس کشمکش کے ترجمان ہیں جس سے نوجوان اپنی محبت اور معاشرت کی زندگی میں گزر رہے ہیں۔

    ملّا آزادی اور قومی ترقی کا عالمانہ احساس رکھتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ جب تک یہ رات دن نہ بدل جائیں اس وقت تک کچھ نہ ہوگا۔ تاثیر ترقی اور تبدیلی چاہتے ہیں، ایسی تبدیلی جو سماجی آزادی کی ضامن ہو اور جس میں انسان مسرور ہوں۔ فیضؔ ہندوستانی جوانوں کی مجبور و مایوس زندگی کے ترجمان ہو کر بھی انہیں امید اور عمل کا پیغام دیتے ہیں اور ایک نئے اسلوب میں نغمہ ریز ہوتے ہیں۔ سلامؔ کو بھی سماج میں ناانصافی نظر آتی ہے۔ سردار جعفریؔ علم اور جذبے کے توازن سے حسین آہنگ پیدا کرتے ہیں، وہ انقلاب اور تغیّر کے باشعور نقیب ہیں۔ جوادؔ زیدی کے سیاسی شعور نے ان کی شاعری میں بھی سیاسی رنگ آمیزی کر دی ہے اور وہ اپنی شاعری سے انقلاب کی رفتار کو تیزتر کر دینا چاہتے ہیں۔ مخدومؔ انقلاب کا راگ گاتے نہیں تھکتے اور تخریب کے کھنڈر پر تعمیر کے آرزومند ہیں۔

    ان اشاروں سے بھی کم سے کم یہ اندازہ ہوتا ہی ہے کہ مجازؔ، سردارؔ جعفری، جوادؔ زیدی، مخدومؔ محی الدین، فیضؔ، مطلبیؔ سب کے سب انقلاب کی رفتار سے واقف ہیں۔ انہیں تاریخی طور پر سماج کے تضاد اور ہیجان کا حال معلوم ہے۔ انہوں نے دنیا میں انقلابات کی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے۔ انہیں زندگی کے وہ موڑ معلوم ہیں جہاں انسانیت کروٹ بدلتی ہے۔ ان کی تیز نگاہیں ملکوں ملکوں میں آزادی کی جدوجہد، لڑنے اور فتح پانے کی اصولوں کو دیکھ رہی ہیں، ان میں سے کئی تو خود ہندوستان کی جنگ آزادی کے سپاہی ہیں، اس لئے وہ اپنے انفرادی دکھ سکھ کو، جنسی مسائل کو اتنی اہمیت دے کر نہیں بیان کرتے کہ ان پر رومانی ہونے کا الزام لگایا جا سکے بلکہ اپنی جوانی کی طاقت اور خون کو انسانوں کو بیدار کرنے اور صحیح راستہ دکھانے پر صرف کرنا چاہتے ہیں۔ ان لوگوں نے اپنی منزل دیکھ لی ہے، اپنا راستہ پہچان لیا ہے، چاہے وہ تیز نہ چل سکتے ہوں لیکن انہوں نے اپنے قدم ٹھیک راستے پر ڈل دیے ہیں، ان سے لغزشیں بھی ہوتی ہیں، وہ کمزوریاں بھی دکھاتے ہیں، لیکن وہی زندگی کے بھیانک مناظر سے آنکھیں چار کر رہے ہیں۔

    اردو ادب میں انتخابی حقیقت نگاری کا دور آ گیا ہے اور اس میں زندگی بجلی کی طرح کوند رہی ہے۔ سماج کی نامنصفانہ عمارت کی کڑیاں چٹخ رہی ہیں، جس میں آزادی کی جدوجہد عملی ہوتی جا رہی ہے اور اخلاق کے سوکھے حقائق سچی انسانی ہمدردی سے بدلتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ سائنس اور دوسرے علوم کی ترقی نے آنکھیں کھول دی ہیں، اور مذہب و اخلاق، رسم ورواج، تہذیب وتمدن سب برہنہ کھڑے ہیں، شاعروں کے لئے موضوع کی کمی نہیں، انہیں اپنا مقصد متعین کرنا ہے۔ تھوڑے سے غزل گو شعراء کو چھوڑ کر اردو کے بہت سے شاعر ان چیزوں پر نگاہیں جمائے ہوئے ہیں اور جو براہ راست ان تبدیلیوں سے متاثر نہیں ہیں، درپردہ ان کی شاعری بھی، خیال میں نہ سہی انداز بیان میں، بعض تغیرات کو قبول کر رہی ہے۔

    اور اس وقت؟ اس وقت انسانیت ایک خوفناک جنگ میں مبتلا ہے جس نے ساری دنیا کے ادیبوں کے سامنے بالکل نئے حقائق پیش کر دیے ہیں۔ کسی ملک نے خودغرضی سے جنگ میں شرکت کی ہے کسی کو مجبوراً حفاظت خود اختیاری کے طور پر شریک ہونا پڑا ہے۔ کسی نے سامراج کی جڑوں کو مضبوط بنانے کے لیے ہتھیار اٹھائے ہیں، کسی نے جمہوریت کے اصولوں کی اشاعت کے لئے۔ وہاں کے ادیبوں نے اپنی نصب العین کے مطابق اپنے راستے ڈھونڈھ نکالے ہیں، وہ یا تو خاک وخون میں لوٹنے کے حامی ہیں یا امن چاہتے ہیں۔ لیکن ہندوستان میں یہ کشمکش سب سے الگ رہی ہے۔ یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ اس جنگ سے ہندوستان کا کیسا اور کتنا تعلق ہے، اس میں ہندوستان کی آزادی کا مقصد بھی پوشیدہ ہے یا نہیں؟ یہاں کے لوگ خوشی سے اس جنگ میں حصہ لے سکتے ہیں یا نہیں؟ ایسے بہت سے سوالات جواب طلب نگاہوں سے ادیبوں اور شاعروں کی طرف دیکھتے ہیں، ان کے علم اور خلوص کاامتحان لیتے ہیں اور ہمارے بہت سے شعراء ہندوستانی آزادی کے نقطۂ نظر سے جنگ کے اسباب اور نتائج پر غور کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

    اس وقت جنگ سب سے بڑی حقیقت ہے۔ اس کی راہ سے ہمارا سماج بدلےگا، ہمارا اقتصادی نظام بدلےگا، ہم خود بدلیں گے، ہمارا شعور اور ادراک بدلےگا، ہمارا ادب بدلےگا، اس لئے اس کا سمجھنا ضروری ہے۔ وہ شعراء جو اس کے قائل نہیں کہ سماج شاعری سے الگ کوئی غیر مادی چیز ہے وہ تو لازمی طور پر سوچنے اور سمجھنے پر مجبور ہوں گے۔ ہاں وہ شعراء جو زندگی کے تغیرات کے ساتھ ساتھ شاعری میں تغیرات کو نہیں مانتے انہیں جنگ پر غور کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ابھی کوئی بڑے سے بڑا عالم اس بات کی پیشین گوئی نہیں کر سکتا کہ اس جنگ کا انجام کیا ہوگا۔ لیکن ہر شخص اپنی خواہش کا اظہار کر سکتا ہے اور اس سے زیادہ صالح اور انسانیت دوست خواہش اور کیا ہوگی کہ ہمارے شعراء فاشزم کا خاتمہ چاہیں، دنیا کے تمام انسانوں کے لئے آزادی اور اس کا مطالبہ کریں اور انسانی طاقت سے ایک دوسرے کا خون بہانے کے بجائے زندگی کے بہتر بنانے کی تمنا کا اظہار کریں۔ اس سے اعلیٰ تر مقصد اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ لیکن عملاً ان کے حاصل کرنے کی جدوجہد کی جانب اشارہ کرنا بھی ضروری ہے اور ان کے لئے قومی اور بین الاقوامی سماجی کشمکش کا مطالعہ ضروری ہوگا۔

    جو شاعری اس کشمکش کو نہ سمجھےگی اس کا مستقبل بہت اچھا نہیں ہو سکتا۔ اگر شاعری پیغمبری کا جزو ہے اور شاعر ’میر کارواں ‘بننا چاہتا ہے تو اقبالؔ کی زبان میں اسے یہ یاد رکھنا چاہیے،

    نگہ بلند، سخن دلنواز، جاں پرسوز

    یہی ہے رختِ سفر میر کارواں کے لئے

    بغیر اعلیٰ نصب العین، فنی حسن کاری اور خلوص کے شاعری زندہ نہ رہے تو تعجب نہ کرنا چاہیے۔

    مأخذ:

    روایت اور بغاوت (Pg. 46)

    • مصنف: سیداحتشام حسین
      • ناشر: ادارہ فروغ اردو، لکھنؤ
      • سن اشاعت: 1972

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے