aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کبیر: حرف محبت

علی سردار جعفری

کبیر: حرف محبت

علی سردار جعفری

MORE BYعلی سردار جعفری

     

    بڑی شاعری کی یہ عجیب وغریب خصوصیت ہے کہ وہ اکثر و بیشتر اپنے خالق سے بے نیاز ہو جاتی ہے، پھر اس کے وجود سے شاعر کا وجود پہچانا جاتا ہے کیونکہ اس کی زندگی کے حالات گزرے ہوئے زمانے کے دھندلکے میں کھو جاتے ہیں اور واقعات افسانے کا لباس پہن لیتے ہیں۔

    پرانی تاریخ نگاری چونکہ بادشاہوں، پروہتوں اور سورماؤں کے گرد گھومتی تھی اور انہیں کی داستان کو اپنا سرمایہ سمجھی تھی، اس لئے اس نے ہمیشہ باغیوں، شاعروں اور فنکاروں کو نظرانداز کیا اور صرف سزاوجزا کے افسانے باقی رہ گئے (کسی کامنہ موتیوں سے بھرا گیا اور کسی کی گستاخ زبان گدی سے کھینچ لی گئی) لیکن وقت کا انتقام بڑ اسخت ہے، بادشاہوں کے کارنامے تاریخ کی کتابوں میں بندہیں اور شاعروں کے کارنامے دلوں کے اندردرد اور مسرت کی لہریں بن کر اتر گئے ہیں۔ لکشمی اور سرسوتی کی باہمی رقابت میں جیت سرسوتی کی ہوئی اور گن لکشمی کے گائے گئے۔

    یہ بات شاید پرانے تاریخ نگاروں کو معلوم نہیں تھی کہ تاریخ محض واقعہ نگاری نہیں بلکہ سماجی اور معاشی رشتوں کی تبدیلی کی داستان بھی ہے اور فکر و شعور کا سفر بھی۔ اس فضا میں آتے جاتے کردار پرچھائیوں کی طرح گھومتے رہتے ہیں اور اگر پرچھائیوں کا نام فراموش ہو جائے تو بھی فرق نہیں پڑتا۔ فکر و شعور کا سفر جاری رہتا ہے۔

    یہی وجہ ہے کہ حالات وواقعات کا کبیر، سن اور تاریخ کا کبیر زندہ نہیں ہے لیکن فکر و شعور کا کبیر، جذبے اوراحساس کا کبیر، شعر اور نغمے کا کبیر زندہ ہے۔ ہر دوہا اس کی ہستی ہے، ہرپد (نظم) اس کی ذات، ہر خیال اس کی زبان اور جب ہم اس کے بولے ہوئے لفظوں کو دہراتے ہیں تو کبیر کا ساز بجنے لگتا ہے۔ شاہی فرمان اور ڈنکے کی آوازیں گونگی ہو جاتی ہیں اور کبیر کے دل سے نکلنے والی صوت سرمدی سے روح سرشار ہو جاتی ہے۔ پنڈت کا منتر اور ملا کی اذان آسمانوں کے سناٹے میں گم ہو جاتی ہے اور کبیر کا حرف محبت دھرتی کے سینے میں دھڑکنے لگتا ہے۔

    یہ بات اہم نہیں ہے کہ کبیر داس جُلا ہے کے بیٹے تھے یا کسی برہمنی کے پیٹ سے پیدا ہوئے تھے اور جُلاہے کے گھرمیں پرورش پائی تھی 1 اہم یہ ہے کہ رامانج (بارہویں صدی) اور ان کے سلسلہ فکر کی ایک معنوی اولاد رامانند (چودھویں اور پندرہویں صدی) کے خیال سے کبیرکے خیال کا کیا رشتہ ہے۔ بھگتی کے انتر گیان کا تصوف کے وجدان سے کیا تعلق ہے۔ ایران کے صوفی شعرا عطار، رومی اور حافظ کی فکر نے ہندوستان کی فکر کو جس حد تک متاثر کیا ہے، ان کے درمیان کتنی مشترک قدریں ہیں اور اثرات کی یہ بہتی ہوئی گنگا جمنی کبیر کی شاعری میں کتنا حسین سنگم حاصل کرتی ہے۔

    صرف اس طرح تفریق اور نفرت کی وہ دیواریں گرائی جا سکتی ہیں جنہیں کبیر نے ڈھا دیا تھا، لیکن ان کے بعد کی نسلوں نے پھر اونچا اٹھا دیا۔ اس پر لڑنے مرنے والے کہ کبیرلنگی پہنتے تھے یا دھوتی باندھتے تھے، یہ بھول جاتے ہیں کہ اصلیت لباس میں نہیں برہنگی میں ہے جس نے معنی کے جسم سے لفظوں کے پردے اٹھا دیے ہوں اور رام اوررحیم کو ایک کر دکھایا ہو، اس کو سوت اور کپاس کا لباس پہنانے کی کوشش اور اس لباس کی تفریق پر منافقت اور نفرت انگیزی کتنی مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہے۔

    کبیر داس کی پیدائش اور موت کی تاریخوں کے بارے میں کچھ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا۔ بس اتنی بات یقینی ہے کہ پندرہویں صدی کبیر کی صدی ہے، ان کی عمر کا اندازہ ایک سوبیس سال کیا جاتا ہے۔ ان کے چیلے دھرم داس سے ایک دوہا منسوب ہے جس کے اعتبار سے سم وت ۱۴۵۵ کے اختتام پرکبیر کی پیدائش کی تاریخ جیٹھ کی پورنیما کی سوموار کے دن نکلتی ہے اس بنیا دپر ۱۳۹۸ء سال پیدائش قرار پاتا ہے (بعض لوگوں کے نزدیک سال پیدائش ۱۴۴۰ء ہے۔ (دیکھئے ایلون انڈرہل کا دیباچہ۔ کبیر کی نظموں کا انگریزی ترجمہ ازٹیگور) انتقال کا سال ۱۵۱۸ء بھی کبیر پنتھوں کے ایک مشہور دوہے کی بنیاد پر تسلیم کیا گیا ہے۔ کبیر داس کا اپنا بیان ہے کہ وہ بنارس میں پیدا ہوئے اور مگھر (ضلع گورکھپور) میں وفات پائی۔

    سکل جنم شیوپوری گنوایا
    مرتی بیر مگھر اٹھ دھایا

    یعنی ساراجنم بنارس میں بیتا اور مرتے وقت مگھر چلا گیا۔ اس میں اہم نکتہ یہ ہے کہ مرتے وقت بھی کبیر نے اپنی انقلابی ادا نہیں چھوڑی۔ جس طرح وہ انسانوں کی اونچ نیچ کے قائل نہیں تھے اسی طرح وہ شہروں کی اونچ نیچ کو بھی پسند نہ کرتے تھے، عام ہندو عقیدہ یہ ہے کہ کاشی میں مرنے والے کی مکتی ہو جاتی ہے اوراس کے برعکس مگھر میں مرنے والا دوبارہ گدھے کا جنم لیتا ہے۔ لیکن کبیر جن کو اپنی بھگتی پر پورا اعتماد تھا اس بات کو کب مان سکتے تھے، اس لئے جب عمر کی اس منزل پر پہنچے جہاں موت قریب معلوم ہوئی تو وہ ترک وطن کرکے مگھر چلے گئے۔ ملک کے کونے کونے سے لوگ موت کی تلاش میں بنارس آتے ہیں اورکبیر مرنے کے لئے بنارس سے یہ کہتے ہوئے چل دئے،

    کیا کاشی کیا اوسر مگھر، رام ہردے بس مورا
    جو کاشی تن تجے کبیرا، رامے کون ہنورا

    (ترجمہ، کاشی ہو یا اجاڑ مگھر، میرے لئے دونوں برابر ہیں۔ کیونکہ میرے دل میں بھگوان بسا ہوا ہے۔ اگر کبیر کی روح کاشی میں اس تن کو تج کر نجات حاصل کرے تو اس میں رام کا کون سا احسان ہے۔)

    اس لئے کبیر جو زندگی بھر کاشی کے باشندے رہے اور بادشاہوں کی طاقت اور تنگ نظر لوگوں کی نفرت بھی ان کو وہاں سے باہر نہ نکل سکی، مرنے کے بعد اپنی مرضی سے مگھر کے باسی ہو گئے۔

    ان کی موت کے گرد، ان کے چاہنے والوں نے جس افسانے کی تخلیق کی ہے وہ کبیر کے لئے عوا م کا سب سے بڑا خراج عقیدت ہے۔ ان کی تعلیم کا نچوڑ وہ خالص انسانی محبت ہے جو مذہب کی تفریق اور ذات پات کے جھگڑوں سے پاک ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے مرنے کے بعد ان کی لاش پر ہندوؤں اور مسلمانوں نے تلواریں کھینچ لیں، ہندوان کی لاش کو جلانا چاہتے تھے اور مسلمان دفن کرنا چاہتے تھے لیکن اس جھگڑے کافیصلہ اس طرح ہوا کہ کبیر کی لاش پھولوں کے ایک ڈھیر میں تبدیل ہو گئی جسے دونوں فریقین نے برابر برابر بانٹ لیا۔ اس طرح ہندو رسم بھی ادا ہو گئی اور مسلمان رسم بھی اور باہمی اختلاف ختم ہو گیا۔ اب مگھر میں املی کی ایک درخت کے نیچے کبیر کا مزار ہے اوربنار س میں ایک مٹھ ہے جو کبیر چورے کے نام سے مشہور ہے۔

    اپنی ذات کے لئے کبیر نے زیادہ تر جولاہے کا لفظ استعما ل کیا ہے اور کبھی کبھی کوری اور کمینہ بھی کہا جاتا ہے۔ شمالی ہندوستان میں اب بھی ہندو بنکر کوری کہلاتے ہیں اور نیچ سمجھے جانے کی وجہ سے انہیں کمین یا کمینہ کے لفظ سے یاد کیا جاتا ہے (مسلم جولاہوں نے اپنے لئے مومن کا لفظ انتخاب کرلیا ہے جس کا کبیر کے عہد میں پتہ نہیں تھا) اس سے یہ گمان ہوتا ہے کہ کبیر کے عہد کے آس پاس ہی کوریوں کی ذات کے ایک بڑے حصے نے اسلام قبول کیا تھا۔

    کوریوں اور جولاہوں کی بستیاں پنجاب سے بنگال تک کے علاقے میں پھیلی ہوئی ہیں، پورے پورے قصبے ان سے آباد ہیں۔ شمالی ہندوستان میں بہار اور بنگال تک ترکوں کی حکمرانی پرتھوی راج کی شکست (۱۱۹۲ء ) کے ساتھ پہنچی۔ ۱۱۹۹ء میں قطب الدین ایبک نے بنارس فتح کیا اور اس کے فوراً ہی بعد محمد بختیار نے بہار کو تہ تیغ کیا اور نالندہ کی مشہور عالم یونیورسٹی کو خاک میں ملا دیا۔ بودھ بھکشوؤں کوقتل کر دیا اور کتابوں کو آگ لگا دی۔ اس طرح بودھ دھرم جس کا زوال بہت پہلے سے شروع ہو گیا تھا اور آٹھویں صدی تک 2 مکمل ہو چکا تھا بارہویں صدی کے خاتمے پر تقریبا نیست و نابود ہو گیا اور نالندہ کے بچے کھچے بھکشو نیپال اور تبت کی طرف بھاگ گئے (بودھ مذہب وہاں پہلے پہنچ چکا تھا۔)

    بودھ مذہب کے افسوس ناک زوال کے بعدہندوستان کے نیچ ذات کے اچھوتوں کے لئے اسلام ہی ایک پناہ گاہ رہ گیا تھا (چنانچہ اس عہدمیں مشرقی بنگال کے گاؤں کے گاؤں اپنا بودھ دھرم چھوڑ کر مسلمان ہو گئے۔) ترک حکمرانوں نے، جو مسلمان سے بڑھ کر فاتح اور حکمراں تھے اور اپنے طبقاتی مفاد کو مذہب پر ترجیح دیتے تھے، اسلام پر ایمان لے آنے والے محکوموں کو برابری کا درجہ نہیں دیا۔ 3 وہ اب بھی کوری سے جلاہے ہو جانے کے بعد کمینے ہی سمجھے جاتے تھے، اس لئے ان کی آخری پناہ گاہیں بھگتی اور تصوف کی پریم نگریاں بن گئیں اوران دونوں خداپرست اور انسانیت دوست تحریکوں کا حسین امتزاج کبیر داس اوران کی شاعری کی شکل میں ظاہر ہوا۔

    مفلسی تو ان کا پیدائشی حق اور باپ دادا کی میراث تھی، مگر بھگتوں اور صوفیوں نے اسے ترک دنیا کی شکل دے کر انقلابی بنا دیا۔ ظاہری مذہب حکمرانوں کے ساتھ تھا جو مال ودولت کے مالک تھے (وہ کبھی شمال مشرقی پہاڑوں کوعبور کرکے آتے تھے اور کبھی مقامی قلعوں سے اپنی فوجیں لے کر نکلتے تھے) اور باطنی مذہب یعنی تصوف اور بھگتی نے عوام کا ساتھ دیا جو مفلس اور محنت کش تھے (یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ زیادہ تر صوفی اور بھگت دستکاروں کے طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔) ظاہری مذہب کے ملا، قاضی، محتسب، پنڈت، پروہت وغیرہ بہت مہنگے تھے، جومذہبی رسوم کے جاننے والے تھے اور حکمرانوں کے اقتدار پر خدا اور بھگوان کی مرضی کی مہریں لگاتے رہتے تھے (اونچ نیچ خدا کی دین ہے، بادشاہ زمین پر خدا کا سایہ ہے۔)

    لیکن باطنی مذہب کے رہنما یا گرو فقیر اور بھکشو تھے، ان کے جسم پر گیروا لباس ہوتا تھا یا شاید وہ بھی نہیں ہوتا تھا۔ ہاتھ میں بھیک کے پیالے، دل میں غم کی قندیل اور ہونٹوں پر حرف محبت۔ وہ صاحب علم نہیں تھے صاحب اسرار تھے، عقل والے نہیں تھے عشق والے تھے، ان کے پاس نہ مندر تھے نہ مسجدیں، نہ اوقاف نہ جائیدادیں، ان کے پاس کتاب بھی نہیں تھی، صرف دل تھا، وہ ہر انسان کو یہی بشارت دیتے تھے کہ خدا محبت ہے اور محبت خدا ہے انسان کا عشق خدا کاعشق ہے اور یہ تبلیغ و تلقین بالکل مفت تھی۔

    طبقاتی نفرت کے بغیر حکمراں حکومت نہیں کر سکتے تھے، لیکن بھگتوں اور صوفیوں نے اس طبقاتی نفرت کے مقابلے پرانسانی برادری اور محبت کانصب العین رکھا۔ حکمرانوں کے لئے سماجی حیثیت کا معیار دنیاوی دولت تھی، بھگتوں اور صوفیوں کے لئے انسان کے اعلی درجہ کا معیار بھگت پریم اور عشق حقیقی اور عشق مجازی تھا۔ مال اور دولت کی محبت اور جائیدادوں کی بندشیں اس عشق میں کمی کر سکتی تھیں، اس لئے ان بزرگوں نے ترک دنیا کو اپنی تعلیمات کا بنیادی جز بنایا۔ چنانچہ مولانا جلال الدین رومی نے دولت کو اس کلاہ سے تشبیہ دی ہے جو گنجے کے سر کو چھپاتی ہے۔ خوبصورت زلفوں والے ننگے سر ہی اچھے لگتے ہیں۔ بازار میں بکنے والے غلاموں کے جسمانی حسن کو ظاہر کرنے کے لئے انھیں ننگا کر دیا جاتا ہے۔ ان کی خر ید و فر و خت کر نے والے امیرا پنے بیمار جسمو ں کو اطلس اور ریشم کی قباؤں میں چھپائے ر ہتے ہیں۔

    کبیر نے اپنی اس طبقاتی کش مکش کو کبھی فراموش نہیں کیا۔ چنا نچہ ایک نظم میں جب مایا سولہ سنگار کرکے اوراپنی مست آنکھوں کی لال تلوار لے کر سامنے آتی ہے اور شاعر کو اپنا بھتار (دولہا یا شوہر) کہہ کر مخاطب کرتی ہے تو شاعر بڑے طنز سے کہتا ہے،

    ’’ہماری ذات جلاہے کی ہے اور نام کبیر ہے۔ ہمیں تو کبھی کسی نے پوچھا نہیں، تم وہاں جاؤ جہاں تخت بچھے ہیں، باغ آراستہ ہیں، اناج کے بورے بھرے ہوئے ہیں، ریشم کی بھرمار ہے۔ اگر اور صندل گھسا جا رہا ہے۔ ہمار پاس آکر کیا کروگی۔ ہم تو کمینوں کی ذات سے تعلق رکھتے ہیں۔‘‘ 4

    ایک اور نظم میں انہوں نے مایا کو، جو صاحب اقتدار طبقوں کے لالچ کی علامت ہے، مہاٹھگنی کہا ہے جس کے ہونٹوں پر میٹھے بول ہیں اور ہاتھ میں پھانسی کا پھندا اور ایک نظم میں مایا شکاری کے روپ میں ظاہر ہوتی ہے جو نہایت بے دردی کے ساتھ انسانوں کا شکار کھیل رہی ہے۔ اس کے وارسے کوئی نہیں بچ سکتا ’’اودھو مایا تجی نہ جائے‘‘ کے ساتھ ملاکر اس نظم کو پڑھنے سے کبیر کا اصل مفہوم واضح ہو جاتا ہے۔

    کبیر کے یہاں مایا کے تصور ک وسمجھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ شنکر آچاریہ (آٹھویں صدی) کے اَدویَت واد اوران کے نقاد رامانج (۱۱۷۵ء لغایۃ ۱۲۵۰ء) کے وِششت ادویت واد کے ایک نکتے کے باریک فرق کو ذہن نشین کر لیا جائے۔ دونوں اُپنی شد کی اس تعلیم کو مانتے ہیں کہ سب کچھ برہمن ہے (سردم کھل ودم برہم) اور وہی سب سے بڑی سچائی ہے اور آتمن (روح۔ خودی) اور برہمن (ذات مطلق) ایک ہیں۔ (آیم آتمابرہم) لیکن اس تعلیم کی تفسیر کے وقت دونوں الگ الگ راہیں اختیار کرتے ہیں، ایک کے یہاں خشک فلسفے کی چمک دار تلوار ایک عظیم عالمگیر ذہن کی تیزی کا پتہ دیتی ہے اور دوسرے کے یہاں دل کی دھڑکن ازلی اور ابدی حقیقت میں انسانی روح کی حرارت پیدا کر دیتی ہے۔

    شنکراچاریہ کا کہنا ہے کہ چونکہ برہمن (ذات مطلق) ہی حقیقت ہے اس لئے مادی دنیا (مایا-سنسار) کی اپنی کوئی حقیقت نہیں، وہ صرف وہم و خیال (امتھیا) ہے۔ اس کو انہوں نے ادویت کہا ہے (یعنی وہ وحدت جس میں دوئی کی سمائی نہیں ہے) لیکن رامانج کا کہنا یہ ہے کہ برہمن (ذات مطلق) آتمن (روح۔ خودی) اورمایا (سنسار) الگ الگ پہنچانے جاتے ہیں لیکن حقیقت میں الگ نہیں ہیں۔ کیونکہ آتمن اور مایا دونوں برہمن کے وشیشن (صفات) ہیں، گویا شنکراچاریہ صفات سے انکار کرتے ہیں اورر امانج صفات کوعین ذات مانتے ہیں، اس صورت میں برہمن کی وحدت باقی رہتی ہے لیکن ساتھ ساتھ آتمن روح، خودی، فرو، جیو) کی حقیقت اوراصلیت بھی باقی رہتی ہے، اس کو وششت ادویت کہا گیا ہے۔

    شنکراچاریہ کے یہاں وحدت میں کثرت کا سوال فلسفیانہ تلواروں کا محتاج رہتا ہے اور رامانج کے یہاں شاعری اور نغمے کے دروازے کھول دیتا ہے اور نرگن کے آگے سرگن ناچنے لگتا ہے۔ صفات ذات کا اشارہ بن جاتی ہیں اور اناالحق کا ساز بجنے لگتا ہے۔ شنکراچاریہ کے یہاں خدا غیرذاتی ہے اور رامانج کے یہاں ذاتی۔ اس لئے ایک کی بھگتی سرد و خشک ہے اور دوسرے کی بھگتی گرم اور رنگین۔ وہاں شونیہ کا سکون ہے اور یہاں مایا کا ہنگامہ، جوسنت اور بھگت شاعروں کے یہاں بے تابی، بے قراری اور سرشاری کا سنگیت بن جاتا ہے اور انہیں جلال الدین رومی اورحافظ شیرازی کے قریب لے آتا ہے۔ شنکراچاریہ کے یہاں غیر ہندو افکار کی آمیزش ذرا مشکل ہے اور رامانج کی دھارا میں بہت سے چشمے مل سکتے ہیں۔ چنانچہ کبیر کے یہاں یہ آمیزش صاف نظر آتی ہے (لیکن کبیر کو سو فیصد رامانج کا چیلا سمجھنا صحیح نہیں ہے۔)

    جیو اور مایا کو برہمن سے الگ پہچاننے کے بعد جیو کو حقیر اور مایا کو بیکار اور بدکار نہیں سمجھا جا سکتا۔ اس طرح جیو کی اہمیت کا اعتراف فرد کی عظمت کا اعتراف ہے اور وہ فرد شودر بھی ہو سکتا ہے اور برہمن بھی اور مسلمان بھی۔ فرد کی یہ اہمیت جاگیردارانہ سماجی رشتوں پر اثرانداز ہوتی ہے (جس میں عظمت کی بنیاد دولت اور طاقت تھی) اور ایک نئی انسان دوستی کے رشتے قائم کرتی ہے۔ اب مایا کوتج دینے کا سوال پیدا نہیں ہوتا بلکہ اس کو فتح کیا جاتا ہے، برتا جاتا ہے اور کبیر کے الفاظ میں وہ ہری بھگتوں کی چنبری (کنیز) بن جاتی ہے۔

    کبیر کے یہاں ترک دنیا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی صرف اپنی ذات میں گم ہو جائے اور اپنی نجات کے لئے مراقبے میں گم ہو جائے۔ وہ خود شادی شدہ آدمی تھے اور صاحب اودلاتھے، کرگھے پر خود کپڑا بنتے تھے اور پھیری لگاکر اسے بیچتے تھے اور اس کی آمدنی سے اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالتے تھے۔ ان کی مادی اور جسمانی محنت ان کے روحانی نغموں کی تخلیق میں حائل نہیں ہوتی تھی بلکہ شاید اس میں مدددیتی تھی۔ ان کو اس پر اصرار تھا کہ بھگوان اس دنیا میں ملتا ہے۔ نجات کا راستہ یہیں سے ہوکر گزرتا ہے اور مایا جو مہاٹھگنی ہے اور بے در دشکاری ہے، بھگتوں کی کنیزبن سکتی ہے۔

    مایا تجی نہیں جاتی کیونکہ وہ کسی نہ کسی شکل میں باقی رہتی ہے۔ دراصل مایا پر فتح حاصل کی جاتی ہے۔ جس طرح پوجا، پاٹ، نماز، روزہ ظاہری عبادت سے صرف غرور (اہنکار) بڑھتا ہے لیکن بھگوان نہیں ملتا، ویسے کپڑے اتاردینے سے یا اپنے پانچوں حواس کو قتل کر دینے سے بھگوان نہیں ملتا اور نہ وہ پہاڑوں پر جا بیٹھنے اور جنگلوں میں کھو جانے سے ملتا ہے (مایا وہاں بھی پیچھا نہیں چھوڑتی۔) ہری (بھگوان) اس پر ریجھتے ہیں جس کے دل میں رحم ہے، جو متقی اور پرہیزگار ہے، جو دنیا میں رہ کر دنیا سے اداس (بے نیاز) رہتا ہے اور ہر ذی حیات کو اپنی طرح جانتا ہے۔ اسی کو وہ حی و قیوم ملتا ہے۔

    سائیں سے اس قسم کی لگن لگانا بہت مشکل ہے۔ اس کے لئے طبیعت کا انکسار اور صبر و قناعت ضروری ہے اور رہن سہن میں پورا اترنا چاہئے اور ساری بات کو کبیر نے یہ کہہ کر ختم کیا ہے کہ دیکھو پانڈے جی فضول بحث و مباحثے سے کوئی فائدہ نہیں۔ سو باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ اس جسم کے بغیر شبد، کلمہ، نام، اناہت ناد کچھ ممکن نہیں ہے۔ انسان اور کائنات سب مٹی ہے اور گوبندکی شکتی۔ مایا اس کو بناتی بگاڑتی رہتی ہے۔ ہمارا جسم ایک مٹی کا مندر ہے جس میں ہم نے گیان دھیان کا دیپک جلا رکھا ہے اور سانس کا اجالا ہے جس سے سارا جگ دکھائی دیتا ہے۔

    اس مٹی کی دنیا کا، جس کی ذمہ داریوں اور فرائض سے سبکدوش ہونا نجات کے لئے ضروری ہے، کبیر کے یہاں پورا احساس ہے اور غالباً بھگتی کا کوئی دوسرا شاعر اس شعور اور احساس میں کبیر کے قریب نہیں پہنچتا۔ اسلام میں انسان کی ذمہ داریاں دوحصوں میں تقسیم کی گئی ہیں۔ ایک حق اللہ ہے اور دوسرا حق العباد، یعنی ایک خدا کا حق اور دوسرا بندوں کاحق۔ عبادت خدا کا حق ہے اور سماجی ذمہ داریاں بندوں کا حق، خدا کے گنہ گار کو، جس نے حق عبادت ادا نہیں کیا خدا معاف کر سکتا ہے لیکن بندوں کے گنہ گار کو جس نے اپنے عزیز و اقارب، پڑوسی، ہم وطن اور اہل دنیا کا حق ادا نہیں کیا، اس کو خدا معاف نہیں کرتا۔ صرف بندے ہی معاف کرسکتے ہیں۔ اس کے بعد رحمت کے دروازے کھلیں گے، اس لئے کبیر نے دونوں کے حقو ق کا ذکر کیا ہے۔

    سرگن کی سیوا کرو، نرگن کا کرو گیان
    نرگن سرگن کے پرے، تہیں ہمارا دھیان

    کبیر پنتھیوں نے کبیر کی پیدائش کو ان حسین و جمل لفظو ں میں بیان کیا ہے،

    گھن گرجے، دامنی دمکے، بوندیں برسیں، جھر لاگ گئے
    لہر تالاب میں کمل کھلے تہاں بھانو پرگٹ بھئے

    (ترجمہ، بادل گرج رہے تھے، بجلی چمک رہی تھی، بوندیں پڑ رہی تھیں اور مینھ کی جھڑی لگی ہوئی تھی۔ اس طوفان میں جب کبیر سورج کی طرح ظاہر ہوئے تو لہر تالاب میں کنول کے پھول کھلے ہوئے تھے۔)

    اس دوہے کے الفاظ، ممکن ہے کہ حقیقت ہی کی ترجمانی کرتے ہوں لیکن اگرانہیں استعارے کی زبان سمجھا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے جنگوں کی گھن گرج میں، قتل وغارت کی بجلیوں میں جہاں خون کی بارش ہو رہی تھی، کبیر کی پیدائش (ظہور) سے یکایک منظر پرسکون ہو گیا اور آسمان پر سورج نکل آیا اور تالابوں میں کنول کے پھول کھل گئے۔ قرون وسطی کے جنگ آلودہ ہندوستان میں کبیر کی یہ شخصیت مبالغہ آمیز نہیں معلوم ہوتی۔

    کبیر داس ایک مسلمان صوفی تھے، جو ہندو بھگتی کی زبان میں بات کر رہے تھے 5 چونکہ انہوں نے اپنے آپ کو بار بار جولاہا کہا ہے اس لئے یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں اسلام کو ترک نہیں کیا تھا لیکن ان کی دھج ہندوؤں کی سی تھی، ماتھے پر تلک لگاتے تھے اور جسم پر جنیو پہنتے تھے اور پھر جرأت اتنی تھی کہ برہمنوں پر طنز کرتے تھے، تو بھامن میں کاسی کا جولہا۔ بوجھو مور گیا نا 6 ہندوستان کی پوری تاریخ میں اتحاد کے اتنے خوبصورت اور جذباتی مظہر کی مثال نہیں ہے۔ اس عہد میں جب تک حکمرانوں کی تلوار ہندوستان کے سر پر چمک رہی تھی، اس مسلمان جولاہے کے حرف محبت میں کتنی کشش ہوگی جس نے اپنے آپ کو سرسے پاؤں تک ہندوؤں کے رنگ میں رنگ لیا تھا اور یہ بھی یقین کیا جا سکتا ہے کہ کبیر سے آشنا ہونے کے بعد عام ہندوعام مسلمان سے نفرت نہیں کر سکتا تھا۔

    کبیر نے منصور کی طرح اناالحق نہیں کہا، لیکن اناالحق کاساراجذبہ ان مصرعوں میں موجود ہے۔ ’’نرگن آگے سرگن ناچے باجے سوہنگ تورا۔‘‘ یعنی ذات کے سامنے صفات ناچ رہی ہیں اور اناالحق کا ساز بج رہا ہے۔ 7 جب وہ یہ کہتے ہیں کہ ’’اس کے وجود میں ایک دنیا کے بعد دوسری دنیا تسبیح کے دانوں کی طرح چل رہی ہے، تو پھر یہ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی کہ ساری کائنات اس کی تسبیح میں مشغول ہے۔ اس طرح جب وہ عوام کی زبان میں یہ کہتے ہیں کہ ’’نراکار‘‘ نرگن انباسی، کرواہی کونگ‘‘ تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہندو پری بھاشا میں ’’قوھواللہ احد‘‘ کی تفسیر اسی طرح بیان کی جا سکتی ہے۔

    کبھی کبھی اس درشن کے دیوانے ’’المست فقیر‘‘ کانغمہ اسلامی فکر کی موجوں میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ یا کریم بل حکمت، تیری کھاک ایک صورت بہتیری۔ یعنی اے کریم! میں تیری حکمت پر قربان جاؤں۔ ایک خاک سے اتنی ساری صورتیں بنا ڈالیں اور کبھی وہ اسلامی عقائد کی زمین سے اٹھ کرویدانت کے شونیہ آکاش میں چلے جاتے ہیں جہاں ذات وصفات سے بھی شعور بلند ہو جاتا ہے۔ پھر وہ کبھی کبھی اسلامی الفاظ استعمال کرتے ہیں اور ہندو انداز فکر اختیار کر لیتے ہیں مثلا ’’نبی آنکھوں میں موجود ہے سیاہ اور سفید تلوں کے بیچ میں ایک تارا ہے جس میں لاکھوں سورج طلوع ہوتے ہیں۔‘‘ مگر اس ہزار رنگ انداز کے اندرشیوہ ایک ہی ہے جو ایک لفظ عشق میں سما جاتا ہے۔ باقی باتیں اس کی تفسیر اور تفصیل ہیں۔

    یہ بات متفقہ طور پر مانی جاتی ہے اورخودکبیر نے اس کا اعتراف کیا ہے کہ وہ ان پڑھ تھے لیکن ان کی پیدائش اور موت کی طرح ان کی شاگردی کے متعلق بھی اختلاف رائے ہے۔ مسلم روایت انہیں ایک صوفی پیر تقی کا شاگرد قرار دیتی ہے لیکن اپنی نظموں میں کبیر نے رامانند کو گرومان کر خراج عقیدت پیش کیا ہے۔

    پندرہویں صدی کے بنارس میں رامانند کی بڑی شہرت تھی۔ ویسے تو ہندو سنت تھے لیکن ان کی مجلس (گوشٹی) میں ہندو اور مسلمان دونوں شریک ہوتے تھے۔ کبیر کا لڑکپن تھا لیکن ان کی نگاہ انتخاب بھی رامانند ہی پر پڑی۔ اب مشکل یہ تھی کہ ایک مسلمان جولاہے کو وہ اپنی شاگردی میں قبول کریں گے یا نہیں۔ کبیر نے اس کا حل جس طرح تلاش کیا وہ بہت دلچسپ ہے۔ رامانند روز صبح سویرے گنگا میں اشنان کرنے جاتے تھے۔ ایک روز صبح کے وقت جب ابھی اندھیرا تھا، کبیر گنگا کی سیڑھیوں پر لیٹ گئے۔ تھوڑی دیر میں جب سوای رامانند آئے توان کا پیر کبیر کے سر پر پڑ گیا اور بے ساختہ ان کے منہ سے رام رام نکل گیا۔ کبیر خوش ہو گئے کہ منترمل گیا اور اس دن سے اپنے آپ کو رامانند کا چیلا کہنے لگے۔ ہندو اور مسلمان دونوں نے شور مچایا لیکن کبیر کے ماتھے پر بل نہیں پڑا کیونکہ وہ بچپن سے اس کے عادی تھے۔ ان کے غیر متعصب رویے کی وجہ سے ہندو لڑکے انہیں مسلمان اور مسلمان لڑکے ہندو سمجھ کر چھیڑتے اور ستاتے تھے،

    زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
    اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلماں ہوں میں

    دیکھ اے چشم عدو مجھ کو حقارت سے نہ دیکھ
    جس پہ فطرت کو بھی ہے نازہ وہ انساں ہوں میں
    (اقبال)

    بہرحال رامانند نے کبیر کو اپنے حلقے میں لے لیا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کبیر ان کی صحبت میں ایک عرصہ تک رہے لیکن بعض لوگ یہ رائے رکھتے ہیں کہ یہ صحبت بہت مختصر تھی اور اس کا ثبوت اس سے بھی ملتا ہے کہ کبیر کے تصورات پر رامانند کے اثرات آہستہ آہستہ دھندلے ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح رامانند سے ملنے سے پہلے کبیرادھر ادھر گھومتے رہتے اسی طرح ان کی شاگردی اختیار کرلینے کے بعد بھی دوسرے سنیاسیوں اور بھگتوں کے علاوہ مسلم صوفیا کی صحبت میں وقت گزارتے رہے لیکن یہ یقینی بات ہے کہ کبیر کی مذہبی معلومات جو حیرت انگیز حد تک وافر ہیں، سوامی رامانند کی گوشٹیوں (مجلسوں) کی بھی دین ہیں اوریہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ ان گوشٹیوں میں بھی شریک ہوئے جو مسلم صوفیوں اور ہندوسنتوں کے درمیان ہوتی تھیں اور اسرار و رموز بیان کئے جاتے تھے۔

    ہندو دھرم کے علاوہ ان کی تصوف اور اسلام سے گہری واقفیت اور رغبت یہ قیاس آرائی کرنے پر مجبور کرتی ہے کہ ان پڑھ ہونے کے باوجود، جس کا انہوں نے خود اعتراف کیا ہے، انہیں اچھی علمی صحبت ملی تھی۔ جھوسی کے شیخ تقی کی صحبت کا ذکر کبیر نے خود کیا ہے، چاہے وہ ان کے شاگر بنے ہوں یا صرف ہم مجلس رہے ہوں۔ ڈاکٹر تاراچند اپنی انگریزی کتاب ’’تمدن ہندپراسلامی اثرات‘‘ میں لکھتے ہیں،

    ’’کبیر کی تعلیمات کے انداز بیان کی صورت گری صوفی اولیا اور صوفیانے کی۔ ہندی زبان کا انہیں کوئی پیش رو نہ ملا اس لئے وہ جن نمونوں کی پیروی کر سکتے تھے وہ مسلمانوں ہی سے مل سکتے تھے۔ مثلا فریدالدین عطار کا پندنامہ 8 بابا فرید اور کبیر کی نظموں کے عنوانوں کے تقابل سے یہ امر باوضاحت معلوم ہوتا ہے۔ کبیر نے دوسرے صوفیا کے علاوہ جلال الدین رومی اورشیخ سعدی کا کلام بھی یقینا ًسنا ہوگا کیونکہ ان کے کلام میں ان صوفی شعراء کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔‘‘ (اردو ترجمہ، محمد مسعود احمد، مطبوعہ مجلس ادب لاہور)

    کبیر کی شاعری میں اردو اور فارسی کے سیکڑوں الفاظ ہیں جن میں سے کچھ تو اس وقت کی ہندی میں رائج ہو چکے تھے اور کچھ براہ راست صوفیانہ شاعری سے آئے ہیں۔ ترک دنیا سے انکار اور یوگ بھوگ دونوں کو گھریلو زندگی کا حصہ قرار دینا اسلامی تصورات سے واقفیت کا ثبوت ہے۔ فنائے ہستی سے کبیر کا مقصد یہ تھا کہ انسان اپنے حواس اور قویٰ سے مسلسل آمادہ پیکار ہے۔ (تاراچند صفحہ ۲۶۱)

    کبیر نے اس پیکار کو ان شاندار الفاظ میں بیان کیا ہے، ’’شمشیر ہاتھ میں لے کر میدان جنگ میں اترو اور اس وقت تک لڑو جب تک جان میں جان ہے۔ دشمن کا سر کاٹ کر اس کا کام تمام کر دو۔ پھر مالک کے دربار میں آکر اپنا سر جھکا دو۔‘‘

    ’’بہادر جنگ کے میدان کو دیکھ کر بھاگتے نہیں اور بھاگنے والے بہادر نہیں ہوتے۔ جسم و جان کے رن میں گھمسان کی لڑائی ہو رہی ہے۔ ہوس، غصہ، غرور اور لالچ مقابلے پر کھڑ ے ہوئے ہیں۔ صبر، قناعت اور صداقت کی بادشاہت میں شمشیر کا نام بلند ہو رہا ہے۔ کبیر کہتے ہیں کہ جب کوئی سورما لڑائی کے لئے نکلتا ہے تو بزدلوں کی فوج پیٹھ دکھا کر بھاگ جاتی ہے۔‘‘

    ’’صداقت کے متلاشی کی جدوجہد بہت کٹھن ہے۔ ستی اور سورما کے مقابلے میں اس کا عہد وفا زیادہ دشوار ہے۔ سورما کی لڑائی دو چار گھنٹے چلتی ہے ستی کی جدوجہد ایک پل میں ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن صداقت کا متلاشی دن رات جنگ کرتا ہے۔ اس کی لڑائی زندگی کے آخری لمحے تک جاری رہتی ہے۔‘‘

    انسان کی اس باطنی جدوجہد کا انجام ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے، ’’جس کے دل میں رحم ہے، جو متقی اور پرہیزگار ہے، جو دنیا میں رہ کر دنیا سے اداس رہتا ہے اور دنیا کے ہر ذی حیات کو اپنی طرح جانتا ہے اس کو وہ لافانی (بھگوان) مل جاتا ہے۔‘‘ (تارا چند صفحہ ۲۔ ۲۶۱۔ کبیر نظم ۶۵۔ کبیربانی مرتبہ سردار جعفری)

    ڈاکٹر تارا چند نے بہت سی مثالوں سے کبیر اور مسلم فلسفیوں، مفکروں اور صوفی شاعروں کے خیالات کی مماثلت ثابت کی ہے اور آخر میں یہ نتیجہ نکالا ہے، ’’اس طرح کبیر نے ایک آفاقی راہ والے مذہب کی طرف انسان کی توجہ پھیری۔۔۔ کوئی ہندو یامسلمان اس مذہب سے پہلو تہی نہیں کر سکتا تھا۔ کبیر کے مشن کا تعمیری پہلو تھا لیکن ان کے مشن کا تخریبی پہلو بھی ہے۔ نئے راستے کی تشکیل اس جھاڑ جھنکاڑ کو دور کئے بغیر جس نے قدیم پگڈنڈیوں کو مسدود کر دیا تھا، ناممکن تھی۔ یہی وجہ ہے کہ کبیر نے بے باکانہ غیظ وغضب اور پرزور زبان میں ظواہر مذہب کے تمام سازوسامان پر، جس نے صداقت کو چھپا دیا تھا، یا ہندوستان کی جماعتوں کو ایک دوسرے سے جدا کر دیا تھا، حملہ کیا۔ ان کے حملے سے نہ مسلمان بچے نہ ہندو۔‘‘ (تارا چند صفحہ ۲۶۷)

    ظاہر ہے کہ اس مقام پر ہندوبھگتی اور مسلم تصوف کا سنگم ناگزیر تھا۔ اسی لئے بعض مقامات پر منصور کی اناالحق کی گونج کے علاوہ جس کا ذکر پہلے آچکا ہے، کبیر کی تعلیمات پر رومی کے تصورات کا بھی عکس دکھائی دیتا ہے جسے انہوں نے ہندو بھگتی کے انداز سے پیش کیا ہے۔ وہی جاہ و جلال، وہی بیتابی اور بےقراری جو رومی کی غزلوں کی خصوصیت ہے، کبیر کی شاعری کا جزواعظم ہے۔ ہندو بھگتی کبیر کو مقام فنا کی سیر کراتی ہے جہاں عجز و انکسار، خضوع و خشوع ہے اور مسلم 9 تصوف مقام بقا پر پہنچاتا ہے، جہا ں قوت وعظمت، جلال وجمال، بے باکی اور بلند آہنگی کے ڈنکے بج رہے ہیں۔ کبیر کے الفاظ میں آسمان گرج رہا ہے۔

    اگر کبیر کے یہاں یہ تصور موجود ہے جو بھگتی اور تصوف دونوں جگہ مشترک ہے کہ قطرہ یا حباب دریا میں محو ہو جاتا ہے، جیو، فرد، آتما جاکر وجود مطلق (برہمن) میں مل جاتی ہے تودوسری طرف یہ تصوف بھی موجود ہے جورومی کی دین ہے کہ قطرہ دریا کو پی لیتا ہے۔ آتمن برہمن کو جذب کر لیتی ہے لیکن یہ دوسری بات اتنے صاف لفظ میں نہیں کہی گئی ہے، جس کی مثال رومی کا یہ شعر ہے،

    بزیر کنگرہ کبریاش مردانند
    فرشتہ صید وپیمبرشکار ویزداں گیر

    (ترجمہ، بام کبریائی کے سائے میں ایسے ہمت والے لوگ کھڑے ہیں جو فرشتے اور پیمبر اور خدا کو بھی شکار کر لیتے ہیں۔)

    یا اقبال کا یہ شعر جو رومی کی صدائے بازگشت ہے،

    دردشت جنون من جبریل زبوں صیدے
    یزداں بکمندآور اے ہمت مردانہ

    (ترجمہ، میرے دشت جنوں میں جبریل ایک حقیر شکار ہے۔ اب ہمت مردانہ خود بڑھ کر یزداں پر کمند ڈال دے)

    لیکن کبیر کاعام انداز یہ ہے جو رومی کے دوسرے شعر میں ہے،

    نہ شبم نہ شب پرستم کہ حدیث خواب گویم
    چو غلام آفتابم ہمہ آفتاب گویم

    (ترجمہ، میں نہ تو رات ہوں اور نہ رات کا پجاری کہ خواب اور کہانیاں سناؤں۔ میں تو سورج کا غلام ہوں اور میرا ہرحرف سورج کی طرح روشن ہے۔)

    یہ بھی مقام بقا ہے ہے اور کی سب سے اچھی مثال کبیر کی اس نظم میں ملتی ہے جس کی ساری امیجری نور اور نغمے سے بنی ہے۔

    ’’سورج، چاند تاروں کے چراغ جل رہے ہیں۔ پریم راگ بیراگ (بے نیازی) کے تال اور سر پر بلند ہو رہا ہے۔ فضاؤں میں رات دن نوبت بج رہی ہے اور کبیر کہتے ہیں کہ میرا پریتم (محبوب) آسمانوں میں بجلی کی طرح چمک رہا ہے۔‘‘

    ’’وہاں لمحے بھر کی اور پل بھر کی آرتی کہاں، ساراسنسار رات دن آرتی اتارتا ہے اور گیت گاتا ہے۔ طبل اورنشان بج رہے ہیں۔ جھل مل جیوتی کی غیبی جھالر جگمگا رہی ہے۔ غیب کے گھنٹوں کی آواز آ رہی ہے۔‘‘

    ’’کبیر کہتے ہیں کہ وہاں رات اور دن اپنے چراغوں کو گردش دے رہے ہیں۔ جگت کے تخت پر جگت کا مالک بیٹھا ہوا ہے۔ سارا سنسار کرم اور بھرم (کام اور مغالطے) میں مبتلا ہے۔ ایسے پریمی جو پریتم کو پہچانتے ہوں، کم ہیں۔ اصلی عاشق وہ ہے جو اپنے دل میں پریم (نیاز) اور بیراگ (بے نیازی) کی لہروں کو اس طرح ملا لیتا ہے جیسے گنگا اور جمنا کے دھارے مل جاتے ہیں۔ اس کے دل میں یہ مقدس پانی ہمیشہ بہتا رہتا ہے۔ تب کہیں جاکر جنم اور مرن، موت اور زندگی کا انت ہوتا ہے۔‘‘

    ’’وہ دیکھو وجود میں کیسا آرام ہے، اس کا لطف وہی اٹھا سکتا ہے جو وجود کو محسوس کر سکے، پریم کی ڈوریاں ہیں اور سکھ کے ساگر کا جھولاہے جو پینگیں لے رہا ہے۔ لفظ وہاں بادلوں کی طرح گرج رہے ہیں۔ ایک عظیم الشان نغمہ بلند ہو رہا ہے۔ وہاں بغیر پانی کے کنول کھلا ہوا دکھائی دیتا ہے اور کبیر کہتے ہیں کہ من کا بھونرا اس کا رس پی رہا ہے۔‘‘

    ’’کائنات کے چکر کے دل میں کیسا حسین کنول کھلا ہوا ہے، اس کا لطف کچھ سنت ہی اٹھا سکتے ہیں۔ یہ نغمے (شبد) کی گھٹائیں چاروں طرف چھائی ہوئی ہیں اور دل ایک بیکراں سمندر کی مسرت میں ڈوبا ہوا ہے۔ کبیر کہتے ہیں کہ اس سکھ ساگر میں اس طرح ڈوب جاؤ کہ زندگی اور موت کا بھرم (مغالطہ) باقی نہ رہے۔‘‘

    ’’دیکھو وہاں پانچوں لذتوں (شبد، سپرش، روپ، رس، گندھ) کی پیاس بجھ گئی ہے اور تینوں دکھوں (مادی، روحانی، ذہنی) کا بخار اتر گیا ہے۔ یہ عقل و فہم سے بالاتر (اگم) کا کھیل ہے۔ دیکھو تمہارے وجود میں غیب کی چاندنی ہے۔ ہاں زندگی اور موت کی تالیاں مسلسل بج رہی ہیں۔ مسرت کی روشنی آسمانوں پر پھیلی ہوئی ہے۔ ایک ابدی نغمے کی جھنکار سنائی دے رہی ہے اور ترلوک محل (تینوں دنیاؤں کا ایوان) کے پریم باجے بج رہے ہیں۔‘‘

    ’’زندگی اور موت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ داہنا اور بایاں ہاتھ ایک ہی ہے۔ کبیر کہتے ہیں کہ یہاں محرم راز گونگا ہو جاتا ہے۔ یہ وہ صداقت ہے جو ویدوں اور کتابوں میں نہیں ملتی (صرف محسوس کی جا سکتی ہے) ‘‘

    ’’میں نے شونیہ کے (خلاؤں میں معلق) آسن پر بیٹھ کر سادھنا کے ناقابل بیان رس کا پیالہ پیا۔ اب میں اسرار کا محرم ہوں اور وحدت کے راز کا سمجھنے والا۔ راہ کے بغیر چل کر میں اس شہر میں پہنچ گیا ہوں جہاں کوئی غم نہیں ہے۔ جگدیو کا رحم اور کرم آسانی سے نصیب ہو گیا ہے۔ میں نے دھیان دھرکے دیکھا تو وہ بغیر آنکھوں کے نظر آ گیا۔ جو لامحدود ہے، جسے لوگ نارسائی کی منزل کہتے ہیں۔ یہ مقام غموں سے آزاد ہے۔ یہاں پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ لیکن جس نے غم پایا وہی بے غم ہو گیا۔ یہاں عجیب آرام ہے۔ دانشمند وہ ہے جس نے یہ مقام دیکھا۔ دانشمند وہ ہے جس نے اس کا گیت گایا ہے۔‘‘

    ’’یہ حرف آخر ہے مگراس کا مزا کیسے بیان کیا جائے۔ جس نے مزا چکھا ہے وہی اس لذت کو جانتا ہے۔ کبیر کہتے ہیں کہ اس سے لذت اندوز ہونے کے بعد جاہل دانش مندبن جاتا ہے اور دانش مند خاموش ہو جاتا ہے۔‘‘

    ’’اودھوت (جوگی) نشے میں چور ہے۔ گیان (علم) اور ویراگیہ (بے نیازی) کی تکمیل ہو گئی ہے۔ آتی جاتی سانس کا پریم پیالا اس نے پیا ہے۔ سارا آکاش سنگیت سے بھرا ہوا ہے۔‘‘

    ’’انگلیوں کی مضراب کے بغیر تاروں سے نغمے نکل رہے ہیں۔ عیش اور غم کا کھیل جاری ہے۔ کبیر کہتے ہیں کہ جو کوئی اپنی زندگی کو زندگی کے سمندر میں ملا دیتا ہے اس کی روح مہا آنند میں ڈوب جاتی ہے۔‘‘

    ’’آٹھوں پہر کا متوالاپن ہے۔ آٹھوں پہر جام پر جام چل رہے ہیں۔ آٹھوں پہر سرمستی چھائی رہتی ہے۔ برہم کے جسم میں بھگت زندہ ہے۔‘‘

    ’’صرف سرور ہی سرور ہے۔ نہ دکھ ہے نہ کش مکش۔ وہاں میں نے بھرپور آنند دیکھا ہے۔ وہاں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ کبیر کہتے ہیں کہ وہاں صرف وحدت کا جلوہ دکھائی دیتا ہے۔‘‘

    ’’میں نے اپنے وجود (جسم) میں کائنات کا ہنگامہ دیکھاہے اور مجھے دنیاوی غلطیوں سے نجات مل گئی ہے۔ خارجی اور داخلی وجود سے ایک آسمان بن گیا ہے۔ محدود اور لامحدود متحد ہو گئے ہیں۔‘‘

    ’’میں دیدار کی شراب سے مست ہو گیا ہوں۔ تیر انور بھرپور شکل میں داخل ہوتا ہے۔ گیان کی تھال میں پریم کا دیا جل رہا ہے۔ شونیہ کے آسن پر سادھنا کا ڈیرا ہے۔ کبیر کہتے ہیں کہ وہاں غلطیوں کا وجود نہیں اور زندگی اور موت کی کشمکش ختم ہو چکی ہے۔‘‘

    ڈاکٹر تارا چند نے اس نظم کے بعض حصوں کو معراج روحانی سے تعبیر کیا ہے جوخالص مسلم عقیدہ ہے 10 لیکن اس نظم میں بھی مسلم اور ہندو فکر کی ایسی آمیزش ہے کہ دونوں کے لئے قابل قبول ہو سکتی ہے۔ ’’وجود‘‘ اور ’’غیب‘‘ جیسے الفاظ کے علاوہ جو اس وقت کی بول چال کے الفاظ نہیں ہو سکتے، کبیر نے گنگا اور جمنا کو ’’گنگ‘‘ اور’’جمن‘‘ کہا ہے جو خالص فارسی تلفظ ہے۔ یہ براہ راست صوفی شاعروں کی روایت کی شہادت ہے۔ پھر’’دیدار کی شراب‘‘ اور ’’عشق کا نور‘‘ بھی مسلم صوفی اثرات کا نتیجہ ہے۔ لیکن ان تصورات کے ساتھ جب کبیر’’شونیہ‘‘، ’’ترلوک محل‘‘، ’’کائنات چکر‘‘، ’’کنول کے پھول‘‘، ’’آرتی‘‘ اور ’’غیب کے گھنٹوں‘‘ کے تصورات کو ملا دیتے ہیں تو وہ اپنی ہندو وراثت کی نشاندہی کرتے ہیں۔

    چونکہ وحدانیت کے ناپیدا کنار سمندرکی لہریں اپنے الگ الگ نام نہیں رکھ سکتیں اس لئے کبیر نے ہندو یا مسلم نام اختیار کرنے سے انکار کر دیا۔

    ہندو کہو تو میں نہیں، مومسلمان بھی ناہیں
    پانچ تتو کا پوتلا، گیبی کھیلے ما ہیں

    (ترجمہ، میں نہ ہندو ہوں نہ مسلمان۔ میں غیب کے کھیل میں پانچ عناصر کا ایک پتلا ہوں)

    اس کے بعد خدا، اللہ، رام، ہری، گوبند، سائیں، صاحب سب الفاظ ہم معنی ہو جاتے ہیں اور ان پر لڑنے والے بےوقوف معلوم ہونے لگتے ہیں۔ رومی نے اپنی مثنوی میں ایک حکایت بیا ن کی ہے۔ ایک شخص نے چار مختلف زبانیں بولنے والوں کو ایک درم دیا۔ ایرانی نے کہا اس سے انگور خریدے جائیں۔ عرب نے کہانہیں عنب، ترک نے اَزم کا نام لیا اور چوتھے نے استافیل کا۔ اس پر چاروں لڑنے لگے۔ اس وقت اگر کوئی ان چاروں زبانوں کا جاننے والا موجود ہوتا تو ان بےوقوفوں کو بتاتا کہ سب ایک ہی چیز مانگ رہے ہیں۔ لڑائی صرف الفاظ پر ہو رہی ہے۔

    اس مثنوی میں دوسری جگہ رومی نے چراغوں اور پھلوں کی تشبیہ استعمال کی ہے۔ اگر ایک مکان میں دس چراغ جمع کر دیے جائیں تو ایک ہر ایک کی شکل دوسرے سے الگ ہو گئی لیکن جب نور پر نظر جائےگی تو کوئی فرق نہیں معلوم ہوگا۔ اسی طرح اگر سو سیب اور سو بہی کا شمار کیا جائے تو سو نظر آئےگا لیکن نچوڑ دینے کے بعد سب کا رس ایک ہو جائےگا۔ دراصل معنی میں گنتی اور تقسیم ممکن نہیں ہے۔ اس لئے یاروں کو یاروں سے مل جانا چاہئے اور صورت کو چھوڑ کر جو سرکش ہے، معنی اختیار کرنا چاہئے۔ (مثنوی دفتراول)

    یہی بات کبیر کہتے ہیں۔ مگروہ ان پڑھ ہونے کی وجہ سے رومی کی طرح عالم اور مفکر نہیں ہیں۔ اس لئے وہ عالمانہ تشبیہیں استعمال نہیں کرتے بلکہ زمین کی گری پڑی تشبیہوں سے کام لیتے ہیں اور براہ راست حملہ کرتے ہیں۔

    ’’دنیا کے دو مالک (جگدیش) 11 کہاں سے آئے۔ تجھے اس بھرم میں کس نے مبتلا کر دیا ہے۔ اللہ، رام، رحیم، الگ الگ کیسے ہو سکتے ہیں۔ ایک سونے سے سب زیور بنائے گئے ہیں۔ یہ سب ایک نماز، ایک پوجا کہنے سننے کی باتیں ہیں۔ ان کو اپنے وجود سے دور کر دے۔ وہی مہادیو ہے وہی محمدؐ۔ جو برہما ہے، اسی کو آدم کہنا چاہئے۔ کوئی ہندو کہلاتا ہے کوئی مسلمان، لیکن رہتے ایک ہی زمین پر ہیں۔ ایک وید کی کتابیں پڑھتا ہے اور ایک خطبہ۔ ایک مولانا کہلاتا ہے اور ایک پنڈت۔ نام الگ لگ رکھ لئے ہیں۔ ویسے برتن سب ایک ہی مٹی کے ہیں۔ (کبیربانی سردارجعفری نظم ۱۲۶)

    رومی نے اپنے اشعار کو یہ عنوان دیا ہے، ’اس بیان میں کہ تمام پیغمبر برحق ہیں، جیسا کہ قرآن کی آیت ہے کہ ہم اس کے پیغمبروں میں سے کسی کی تفریق نہیں کرتے۔’ لیکن کبیر نے یہ عبارت لکھے بغیر اسی جذبے کی ترجمانی کی ہے۔ اگران کے کلام میں صوفیوں کی اصطلاحات سے زیادہ مطابقت نہیں پائی جاتی تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ کبیر ان خیالات سے کم آگاہ تھے، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عالم فاضل نہیں تھے۔ اس لئے جب انہوں نے ان تصورات کو اپنا یا تو فارسی شعروں کو مکمل طور سے اپنے ذہن میں محفوظ نہ رکھے سکے۔‘‘ (تاراچند صفحہ ۲۴۹)

    مسلمان صوفیا رسول اسلام کا نام لینے کے معاملے میں بہت محتاط ہیں۔ ان کا یہ اصول ہے کہ ’’باخدا دیوانہ باشد و با محمدؐ ہوشیار۔‘‘ کبیر سے پہلے رومی بعض مقامات پر ان حدوں سے تجاوز کر گئے ہیں۔ جہاں تک جانے کی ہمت ان سے کمتر درجے کے صوفی اور شاعر نہیں کر سکتے تھے۔ چنانچہ ایک غزل میں وہ بہت سے پیغمبروں کا نام لیتے ہیں اور پھر اشاروں میں رسول اللہؐ کا ذکر کرکے یہ کہتے ہیں کہ رومی نے کوئی کفر کی بات نہیں کہی ہے۔ یہاں صرف چند اشعار کافی ہوں گے۔

    ہر لحظہ بشکلے، بت عیار برآمد
    دل برد ونہاں شد

    ہر دم بلباس دگر آں یار برآمد
    گہ پیرو جواں شد

    خود کوزہ و خود کوزہ گر وخود گل کوزہ
    خود رند سبو کش

    خود بہ سرآں کوزہ خریدار برآمد
    بشکست و رواں شد

    باللہ کہ ہم اوبود کہ می آمد ومی رفت
    ہر قرن کہ دیدی

    تاعاقبت آں شکل عرب دار برآمد
    دارائے جہاں شد

    حقا کہ ہم او بود کہ می گفت اناالحق
    در صوت الہی

    منصور نہ بود او کہ برآں دار برآمد
    ناداں بگماں شد

    ایں دم بہ نہان است بہ بیں گر توبصیری
    از دیدہ باطن
    ایں است کز وایں ہمہ گفتار برآمد
    د دیدہ بیاں شد

    رومی سخن کفر نہ گفتست و نہ گوید
    منکر مشویدش

    کافر شدہ آنکس کہ بہ انکار برآمد
    از دوزخیاں شد 12

    ترجمہ، اس چالاک محبوب نے طرح طرح کی شکلیں اختیار کی ہیں اور دل لے کے غائب ہو گیا۔ ہربار دوسرا لباس بدل کر آیا۔ کبھی بوڑھا بنا اور کبھی جوان، وہ خود ہی کوزہ ہے خود ہی کوزہ گر اور خود ہی کوزے کی مٹی اور خود ہی رند۔ پھر خود ہی اس کوزے کا خریدار بن کے آیا اور اسے توڑ کے چلتا بنا۔ قسم خدا کی وہ خود ہی تھا جوہر زمانے میں آتا رہا اور جاتا رہا یہاں تک کہ آخر کار وہ ایک عر ب کی شکل میں ظاہر ہوا، اور دنیا کا شہنشاہ بن گیا۔ وہی تو تھا جس نے خدا کی آواز میں اناالحق کہا۔ وہ جو دار پر چڑھا، وہ منصور نہیں تھا۔ صرف نادانوں کو غلط فہمی ہوئی۔ اس وقت بھی دل کی آنکھ سے دیکھنے والے دیکھ سکتے ہیں۔ ہر پردے میں وہی چھپا ہوا بول رہاہے۔ رومی نے کفر کی باتیں نہ تو کبھی کہی ہیں اور نہ کہتا ہے۔ اس سے انکار نہ کرو جس نے انکار کیا وہی کافر قرار پایا اور دوزخی ہو گیا۔

    وحدت تمام تضادوں کے خاتمے کا نام ہے۔ رومی کے الفاظ میں دودھ اور شکر مل کر ایک ہو جاتے ہیں۔ عاشق ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں اور رات اور دن کے پردے اٹھ جاتے ہیں اور چاند اور سورج ہم آغوش ہو جاتے ہیں۔ عاشقوں اور معشوقوں کا رنگ سونے اور چاندی کی آمیزش کی طرح مل جاتا ہے اور رافضی یہ دیکھ کر انگشت بدندان رہ جاتا ہے کہ علیؓ و عمرؓ ایک ہیں۔ 13

    چنانچہ اس منزل پر بندے اورخدا کا تضاد بھی ختم ہو جاتا ہے، اس لئے کبیراپنی بعض نظموں میں دونوں کے لئے ایک سا انداز بیان اختیار کرتے ہیں، ’’ازل میں وہ اکیلا تھا اور اس کا وجود ہی اس کے لیے کافی تھا۔ وہ جس کانہ رنگ ہے نہ روپ ہے، وہ جو بے صفات ہے۔ نہ تو ابتدا تھی نہ ارتقا نہ انتہا۔ نہ اندھیرا نہ دھندلکا نہ اجالا۔ نہ زمین تھی نہ ہوا تھی، نہ آسمان۔ نہ آگ تھی، نہ پانی، نہ گنگا جمنا اور سرسوتی کے دھار ے تھے۔ نہ سمندر تھا، نہ موجیں، نہ گناہ تھا، نہ ثو اب، نہ ویدپران تھے، نہ قرآن۔‘‘ (نظم صفحہ۸۱)

    (۲) ’’نہ میں دھرمی ہوں نہ ادھرمی، نہ میں قانون ک ابندہ ہوں نہ خواہشوں کا غلام۔ نہ میں بولتا ہوں نہ سنتا ہوں۔ نہ میں عابد ہوں نہ معبود۔ نہ میں جبر کے قبضے میں ہوں نہ اختیار کے۔ نہ میرا کسی سے تعلق ہے نہ بے تعلق ہوں۔ نہ میں کسی سے دور ہوں نہ کسی سے قریب۔ ہم جہنم میں جاتے ہیں نہ جنت کا راستہ لیتے ہیں۔ سب کام ہم نے کئے ہیں لیکن ہرکام سے بےنیاز ہیں۔ اس فلسفے کے سمجھنے والے کم ہیں۔ لیکن جس نے سمجھ لیا وہ مطمئن ہو گیا۔ کبیر نہ توکسی مت کا بانی ہے، نہ کسی مت کا مٹانے والا۔‘‘ (نظم ۷۹)

    اس کے بعد کبیر کی طرح یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ وحدت کے کثرت میں تبدیل ہونے اور تخلیق کائنات سے پہلے جب وشنو اور شیو کا بھی وجود نہ تھا۔ میں ذات مطلق (برہم) کے عشق میں مبتلا تھا۔ یعنی اس کے ساتھ ایک تھا۔ اور رومی کی طرح یہ بھی دعوی کیا جا سکتا ہے کہ سب کچھ میں ہوں، کعبہ بھی میں ہوں، کعبے کے بتکدے میں بیٹھنے والا ہربت بھی میں ہی ہوں اور انجیل اور زبور اور قرآن بھی میں ہوں 14 اس لئے کہ،

    در عشق نہ جسم ونہ جانم
    چیزے عجبم نہ ایں نہ آنم

    افزوں ززمان و در زمانم
    بیرون زمکان و در مکانم

    ہرجا کہ روم خراب عشقم
    من کعبہ و بتکدہ نہ دانم

    ہمسایہ آفتاب ذاتم
    ہم موج محیط بیکرانم

    (ترجمہ، عشق میں نہ میں جسم ہوں نہ جان۔ نہ یہ ہوں نہ وہ۔ وقت سے بڑا ہوں اور وقت کے پیمانے میں سمایا ہوا ہوں۔ مکان (SPACE) سے بالا ہوں اور مکان میں موجود ہوں۔ جہاں بھی جاؤں میں عشق کا متوالا ہوں۔ میں کعبہ اور بتکدہ کچھ بھی نہیں جانتا میں آفتاب ذات (برہم) کا نور ہوں اور ناپید کنار سمندر کی موج۔)

    ان عاشقوق کی ایک ہی منزل ہے۔ منزل کبریا، کبیر کے الفاظ میں ’’نشانہ‘‘ آسمان کی اوٹ میں ہے۔ داہنی طرف سورج ہے۔ بائیں طرف چاند اور نشانہ بیچ میں چھپا ہوا ہے۔ تن کی کمان ہے اور عشق ڈوری اور میں نے شبد (صوت سرمدی) کا تیر تان لیا ہے۔‘‘ اور رومی کے الفاظ میں،

    از کمان شوق تیر معرفت
    راست کردہ برنشاں انداختیم

    (ترجمہ، شوق کی کمان میں معرفت کے تیر کو سیدھا کرکے میں نے نشانے پر مار دیا ہے)

    اس مقام پر کبیر کی آواز رومی اور دوسرے عظیم صوفی اور سنت شاعروں کی آواز کی طرح صرف وحدانیت کے جذبے سے سرشار ہے اور اس سرشاری کے عالم میں کسی ظاہری رسم یا ظاہری عبادت کی گنجائش نہیں ہے۔ وہ وحدت میں خلل ڈالتی ہے اور جس کو اس عالم میں عبادت کے رسوم سوچنے کی فرصت مل گئی وہ صحیح معنوں میں سرشار نہیں ہے۔ اس لئے وہ یا تو دکھاوے میں مبتلا ہو جاتا ہے یا عبادت کے فرق پر اور رسموں کی ظاہری شکلوں پر لڑتا جھگڑتا ہے جس کی وجہ سے خدا کی مخلوق میں اختلاف پیدا ہوتا ہے اور نفاق کے دروازے کھلتے ہیں۔

    ’’دیکھو سادھو، ساری دنیا پاگل ہو گئی ہے۔ سچی بات کہو تو مارنے کو دوڑتے ہیں۔ لیکن جھوٹ پرساری دنیا کا ایمان ہے۔ ہندو رام کا نام لیتا ہے اور مسلمان رحمن کا اور دونوں آپس میں لڑتے مرتے ہیں، لیکن حقیقت سے کوئی واقف نہیں ہے۔ مجھے دھرم اور اس کے قوانین کے ماننے والے بہت ملے جو ہر صبح اشنان کرتے ہیں اور آتما کو چھوڑ کر پتھر کی پوجا کرتے ہیں۔ ان کا علم اور عرفان جھوٹا ہے۔۔۔ میں نے پیر اور مرید بہت دیکھے ہیں جو کتاب اور قرآن پڑھتے رہے ہیں، وہ قبر دکھاکر لوگوں کو مرید بناتے ہیں، ظاہر ہے کہ انہوں نے خدا کو نہیں پہچانا۔‘‘ (نظم صفحہ ۱۱۷)

    ’’اللہ دین کا اول اصول ہے اور اس نے زبردستی کی ہدایت نہیں فرمائی 15 تمہار ے پیرومرشد کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں۔ روزے رکھنے، نماز گزارنے اور کلمہ پڑھنے سے جنت نہیں ملتی۔ کاش کوئی یہ بات جانے کہ ایک دل میں ستر کعبے ہیں، اپنے محبوب کو پہچانو اوردل میں رحم پیدا کرو اور مال ومتاع کو حقیر سمجھو۔ بہشت تو تب ملتی ہے جب سائیں کو اپنے پاس محسوس کریں۔‘‘

    ’’اے سادھو یہ پانڈے مشاق قصائی ہیں۔۔۔ ان کے دل میں ذرا بھی رحم نہیں۔ اشنان کرکے اور تلک لگاکر بیٹھتے ہیں اور بڑی باقاعدگی سے دیوتا کی پوجا کرتے ہیں۔ یہ اپنی آتما کو ایک پل میں مار دیتے ہیں اور خون کی ندی بہا دیتے ہیں۔ یہ بہت مقدس ہیں اور اونچے خاندان کے ہیں۔۔۔ لوگوں کا پاپ کاٹنے کے لئے یہ کتھا سناتے ہیں اور کام ان سے بہت نیچے کروا دیتے ہیں۔ میں نے دونوں کو ایک ساتھ ڈوبتے دیکھا ہے۔‘‘ (نظم ۱۱۲)

    مالا، لکڑ، ٹھاکر، پتھر، تیرتھ، سگرے پانی
    راما کرشنا مرتے دیکھے، چاروں وید کہانی

    کنکرپتھر جوڑ کے مسجدلئی بنائے
    وا چڑھ ملا بانگ دے کا بہرو بھیو کھدائے

    اور اس سب سے کبیر نے ایک ہی نتیجہ نکالا تھا۔

    پوتھی پڑھ پڑھ جگ موا، پنڈت بھیا نہ کوئی
    ڈھائی اچھر پریم کے پڑھے سوپنڈت ہوئے

    اس میں دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ دیوناگری میں جب ’’پریم‘‘ لکھا جاتا ہے تو اس میں صرف ڈھائی حروف ہوتے ہیں۔

    ظاہری مذہب سے بغاوت اور باطنی مذہب کی تبلیغ کا نقلابی پہلو یہ تھا کہ اس نے قرون وسطی کے انسانوں کو خودداری، عزت نفس اور خود اعتمادی عطا کی اور انسانوں کو انسان سے محبت کرنا سکھایا۔ سنتوں اور صوفیوں کے پاس اتنی طاقت تو نہیں تھی کہ وہ اس ظلم اور بدکاری کے خلاف لڑ سکتے، جن کا مرکز شاہی دربار اور امیروں کے محل تھے۔ اس لئے انہوں نے ان کی طرف سے انتہائی حقارت کے ساتھ منہ پھیر لیا اور صبر و قناعت کی تعلیم دی۔ قناعت کا مقصد ترک دنیا نہیں تھا بلکہ بادشاہوں، درباریوں اور امیروں سے بے نیاز ہوکر تجارت اور جسمانی محنت سے روزی کمانا تھا جس کا نمونہ کبیر نے پیش کیا ہے۔ اس زمانے میں تجارت کو شاہی ملازمت کے مقابلے میں حقیر سمجھا جاتا تھا، اس لئے تجارت اور دست کاری کی آمدنی پرقناعت کرنا اور صبر و شکر کی زندگی گزارنا ہی سب سے بڑی قناعت تھی۔ (شبلی نعمانی۔ شعرالعجم)

    اور یہ قرون وسطی سے جدید صنعتی اور تجارتی عہد کی طرف پہلا قدم تھا۔ اس لئے تصوف اور بھگتی نے جاگیرداری نظام کی فکری بنیادوں کو ہلا دیا۔

    کبیر کی تعلیمات نے عام ہندوؤں اور مسلمانوں کو اپناگرویدہ بنا لیا، لیکن تنگ نظروں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتے رہے۔ اس لئے انہوں نے کبیر کے خلاف ہنگامہ برپا کر دیا اور بادشاہ وقت سکندر لودی تک شکایت پہنچی۔ یہ تو پتہ نہیں چلتا کہ سکندر لودی نے کبیر کو سزا دی یا معاف کر دیا۔ لیکن یہ ضرور ہوا کہ کبیر نے کچھ عرصہ کے لئے بنارس چھوڑ دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی تعلیمات دور دور تک پھیل گئیں۔

    ڈاکٹر تارا چند کے الفاظ میں کبیر پہلا شخص ہے جس نے ایک مرکزی مذہب، ایک بیچ کی راہ کا بے باکانہ آگے آکراعلان کیا۔ اس کا نعرہ پورے ہندوستان میں گونج اٹھا اور سیکڑوں مقامات سے اس کی آواز بازگشت سنی گئی۔۔۔ کبیر کے پیروان مذہب کی تعداد اتنی اہمیت نہیں رکھتی جتنا کہ کبیر کاوہ اثر جو پنجاب، گجرات اور بنگال تک پھیل گیا اور دور مغلیہ میں بڑھتا گیا۔ 
    (تمدن ہند پراسلامی اثرات صفحہ ۲۷۰)

    دوسرے صوفیوں اور سنتوں کی تعلیمات کے ساتھ مل کر کبیر کی تعلیمات اور تصورات شمالی ہندوستان کی تقریباً تمام زبانوں کے ادب میں سرایت کر گئے۔ ان کے براہ راست اثرات کا سراغ گرونانک کی تعلیمات میں بھی ملتا ہے اور آج کے عہدمیں ٹیگور کے تصورات میں بھی کسی شاعر کو اس سے بڑا خراج تحسین اور کیا مل سکتا ہے۔

    ہمیں آج بھی کبیر کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ اس روشنی کی ضرورت ہے جو اس سنت صوفی کے دل سے پیدا ہوئی تھی۔ آج دنیا آزاد ہو رہی ہے۔ سائنس کی بے پناہ ترقی نے انسان کا اقتدار بڑھا دیا ہے۔ صنعتوں نے اس کے دست وبازو کی طاقت میں اضافہ کر دیا ہے۔ انسان ستاروں پر کمندیں پھینک رہا ہے پھر بھی حقیر ہے۔ مصیبت زدہ ہے، دردمند ہے۔ وہ رنگوں میں بٹا ہوا ہے۔ قوموں میں تقسیم ہے۔ اس کے درمیان مذہب کی دیواریں کھڑی ہوئی ہیں۔ فرقہ وارانہ نفرتیں ہیں۔ طبقاتی کشمکش کی تلواریں کھینچی ہوئی ہیں۔ بادشاہوں اور حکمرانوں کی جگہ بیوروکریسی لے رہی ہے۔ دلوں کے اندر اندھیرے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی خودغرضیاں اور رعونتیں ہیں جوانسان کو انسان کا دشمن بنا رہی ہیں۔ جب وہ حکومت اور شہنشاہیت اور اقتدار سے آزاد ہوتا ہے تو پھر اپنی بدی کا غلام بن جاتا ہے۔ اس لئے اس کو ایک نئے یقین، نئے ایمان اور نئی محبت کی ضرورت ہے جو اتنی ہی پرانی ہے جتنی کبیر کی آواز اور اس کی صدائے بازگشت اس عہد کی آواز بن کر سنائی دیتی ہے۔

    غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
    جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

    کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا
    نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

    ولایت پادشاہی علم اشیاء کی جہانگیری
    یہ سب کیا ہیں فقط اک نکتہ ایماں کی تفسیریں

    براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے
    ہوس چھپ چھپ کے سینے میں بنا لیتی ہے تصویریں

    تمیز بندہ وآقا فساد آدمیت ہے
    حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں

    حقیقت ایک ہے ہر شئے کی خاکی ہو کہ نوری ہو
    لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرے کا دل چیریں

    یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم
     جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
     (اقبال)

    یہ کبیر کی، رومی کی غرض تمام سنتوں اور صوفیوں کی تعلیمات کی نئی تفسیر ہے جوایک نئی انسانیت کی بشارت لئے ہوئے ہے۔


    حاشیے
    (۱) کہا جاتا ہے کہ سوامی رامانند کا ایک معتقد ایک برہمن ان سے ملنے آیا تو اس کے ساتھ اس کی بیوہ بیٹی بھی تھی۔ لڑکی کے سلام کے جواب میں رامانند نے بیٹا پیدا ہونے کی دعا دی۔ یہ سن کر برہمن گھبرا گیا لیکن رامانندجی نے کہا کہ میرے الفاظ خالی نہیں جا سکتے۔ چنانچہ اس بیوہ برہمنی کے پیٹ سے کبیر پیدا ہوئے۔ ماں نے بدنامی کے ڈر سے بچے کو ایک تالاب کے کنارے پھینک دیا۔ اتفاق سے بنارس کا ایک مسلمان جولاہا اپنی بیوی نعیمہ کے ساتھ ادھر سے گزرا، وہ دونوں اس بچے کو اٹھا لائے۔ اس کی پرورش اپنے بیٹے کی طرح کی۔ جب قاضی سے نام رکھنے کی فرمائش کی توفال میں کبیر کا لفظ نکلا۔ اس واقعہ کی صحت کے متعلق کوئی تاریخی شہادت پیش نہیں کی جا سکتی لیکن میرا خیال ہے کہ کبیر کی موت کے افسانے کی طرح (جس کا ذکر آگے آئے گا) یہ افسانہ بھی ان کے ہندو مسلم اتحاد کی تعلیم پر زور دیتا ہے۔
    (۲) آٹھویں صدی شنکر اچاریہ کی صدی ہے۔ اس پر اختلاف رائے ہے کہ بودھ دھرم کے زوال میں اور اسباب کے علاوہ شنکر اچاریہ کا بھی کچھ حصہ ہے کہ نہیں۔
    (۳) وہ جسے اسلامی جمہوریت کہتے ہیں اس پر ابتدا میں عر ب کی قبائلی جمہوریت کے اثرات تھے، پیغمبر اسلام کی وفات کے تیس سال کے اندر عرب سماج جب قبائلی منزل سے نکل کر جاگیرداری عہد میں داخل ہو گیا اور جاگیرداری شہنشاہیت اموی اور عباسی خلفا کی سلطنت کی شکل میں ظاہرہوئی تو مذہبی جمہوریت جو خدا کے سامنے محمود اور ایاز کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دیتی ہے معاشی جمہوریت بننے کی صلاحیت کھو چکی تھی، یوں تو حاکم و محکوم دونوں مسلمان تھے، لیکن اسلام کے نام پر ایک طبقاتی نظام حکومت کر رہا تھا، جب حاکم اپنے محکوموں کو ان کا جمہوری حق نہیں دیتے تھے تو محکوم نئے فرقوں کی شکل میں اپنی تنظیم کرتے تھے اور یہ فرقے مذہبی لباس پہن کر ظاہر ہوتے تھے، اسلام کی ابتدائی صدیوں میں یہ عمل بڑے پیمانے پر پہلے ایران اور پھر پورے مشرق وسطی میں نظر آتا ہے اور صوفی تحریک کے سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ ہندوستان میں جو مسلمان فاتح آئے وہ بھی اپنے ساتھ اسلامی جمہوریت کا تصور لے کر نہیں آئے تھے، ان کے پاس ایک جاگیرداری شہنشاہیت کا تصور تھا جس میں حاکم اور محکوم کا فرق نمایاں تھا۔ خاندان، بزرگی اور شرافت پر زور تھا وہاں وہ جذباتی مقاصد کے لئے ضرور اسلام کا نام استعمال کرتے تھے۔
    (۴) جات جلاہا نام کبیرا، اج ہوں پتچوناہیں تہا ں جاؤ جہاں پاٹ پٹمبر اگر چندن گھس لیناں۔ آئی ہمارے کیا کرو گیہم توجات کمیناں۔ ان دوم صرعوں میں پاٹ پٹمبر کا لفظ سب سے زیادہ اہم ہے اور اس کے دومعنی ہیں جو اوپر دیئے گئے ہیں۔
    (۵) کافرعشقم، مسلمان مرادرکارنیست، ہررگ جاں تارگشتہ، حاجت زنارنیست (امیرخسرو) (ترجمہ، میں وہ کافر ہوں جس نے عشق کو خدا مانا ہے۔ اب مجھے اسلام کی ضرورت نہیں، میری ایک ایک رگ ناربن گئی ہے پھر میں جنیو پہن کر کیا کروں)
    (۶) یہ دلچسپ بات ہے کہ کبیر کا خاندان ہندو سے مسلمان ہوا تھا اور اقبال کا خاندان بھی، کبیر نے اپنے آپ کو مسلمان کہہ کر برہمن پر طنز کیا اور اقبال نے اپنے آپ کو برہمن کہہ کر فخرومباہات سے کام لیا۔ ’’برہمن زادہ رمز آشنائے روم و تبریزات‘‘ کبیر نے اپنی شاعری میں ہندو تشبیہ واستعارہ استعمال کیا اور اقبال نے اسلامی روایات سے اپنے تشبیہ اور استعارے لئے۔ حالانکہ ان کے فلسفہ خودی پر اپنی شد اور ویدانت کا اچھا خاصا اثر ہے جس پر ابھی تک تحقیقی کام نہیں ہوا ہے۔
    (۷) مولانا جلال الدین رومی کے نزدیک اناالحق انکسار کی آخری منزل ہے۔ جس طرح شہد میں ڈوبی ہوئی مکھی ہل نہیں سکتی۔ اسی طرح استغراق کے عالم میں کوئی صوفی اناالعبد (میں بندہ ہوں) نہیں کہہ سکتا کیونکہ اس میں دوئی ہے۔ ایک خدا اور ایک بندہ اور یہ غرور کی منزل ہے۔ خدا کے وجود کے سامنے اپنے وجود کا اعلان ہے۔ (مثنوی کا انگریزی ترجمہ ازنکلسن ساتویں جلد) لیکن یہ کہنے کا حق صرف اہل باطن کو ہے، اہل ظاہر کو نہیں۔ کیونکہ اس کی سزا موت ہے جسے اہل باطن جشن عروسی سمجھتے ہیں اور اہل ظاہر سزا کا نام دیتے ہیں۔
    (۸) کبیر سے پہلے ہندی زبان نے کوئی بڑا شاعر پیدا نہیں کیا۔ ملک محمد جائسی کی تاریخ پیدائش ۱۴۹۴ء ہے اور پدماوت کی ابتدا ۱۵۴۰ء میں شیر شاہ سوری کے عہد میں ہوئی۔ جب کہ کبیر کا انتقال ۱۵۱۸ء میں ہو چکا تھا۔ اس لئے مسلم صوفیوں کے ذریعے سے کبیر کے پاس کئی سو برس کی فارسی روایت آئی۔ صوفی حلقوں میں رومی، سعدی، عطار اور حافظ کا کلا م عام طور سے پڑھا جاتا تھا اور کبیر کی شاعری میں ان کے اثرات کی شہادتیں موجود ہیں۔
    (۹) تصوف میں سالک کو کئی مقامات سے گزرنا پڑتا ہے انہیں میں ایک مقام بقا ہے اور ایک مقام فنا۔ دونوں ایک دوسرے کے مقابل ہیں۔ فارسی میں ردکی مقام بقا کے شاعر ہیں، جس طرح کوئی دوسرا صوفی شاعر ردکی کے قریب نہیں پہنچتا اسی طرح کوئی دوسرا سنت شاعر کبیر کے قریب نہیں پہنچ پاتا۔
    (۱۰) قرآن میں آیا ہے کہ ایک رات رسول کریمؐ آسمان پر تشریف لے گئے۔ مسلم عالموں کی اکثریت یہ مانتی ہی کہ یہ جسمانی تجربہ تھا۔ لیکن بعض عالموں کایہ خیال ہے کہ رسول اللہ جسمانی طور پر تشریف نہیں لے گئے تھے بلکہ یہ ایک روحانی تجربہ تھا۔ اسی لئے دو اصطلاحیں بن گئیں۔ ’’معراج جسمانی‘‘ اور ’’معراج روحانی۔۔‘‘
    (۱۱) اصل عربی لفظ اللہ ہے۔ ایرانیوں نے اس کا ترجمہ خدا کیا ہے۔ کبیر نے جگدیش اور رام کر دیا۔ اگر خدا قابل قبول ہے تو جگدیش بھی قابل قبول ہو سکتا ہے۔
    (۱۲) اس غزل کا دوسرا شعر فروز انفر کے مرتبہ یوم شمس تبریزی (تہران ایڈیشن) میں نہیں ملتاہے۔ مجھے بچپن سے یادہے اور افضل اقبال نے اپنی انگریزی کتابI LIFE AND WORK OF RUM (لاہورایڈیشن) میں بھی اس شعر کو اسی غزل کا حصہ قرار دیا ہے۔ میرے دریافت کرنے پرانہوں نے پروفیسر نکلسن کا حوالہ دیا۔
    (۱۳) اقتباس از ’’مثنوی معنوی‘‘ بحوالہ سوانح مولانا روم ’’شبلی نعمانی‘‘ (مطبوعہ مجلس ترقی ادب لاہور) صفحہ ۶۸۔ شیعوں کو رافضی کہتے ہیں۔ جو حضرت عمرکی خلاف کو تسلیم نہیں کرتے۔ آخراس حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔
    (۱۴) قاب قوسین وتدلی یادنی ہرسہ بہم بلکہ انجیل و زبور ومصحف و قرآں منم
    عزی ولات و چلیپابعل وطاغوت وصنم کعبہ دی و صفا و مذبح و قرباں منم (رومی)
    (۱۵) دونوں ٹکڑے قرآن کی آیتوں سے لئے گئے ہیں۔
    نہ تواندر حرم گنجی نہ دربت خانہ می آئی و لیکن سوئے مشتاقاں چہ مشتاقانہ می آئی 
    قدم بے باک تر نہ در حریم جان مشتاقاں تو صاحب خانہ آخر چرا دزدانہ می آئی (اقبال)

     

    مأخذ:

    پیغمبران سخن (Pg. 12)

    • مصنف: علی سردار جعفری
      • ناشر: ایڈ شاٹ پبلی کیشنز، ممبئی
      • سن اشاعت: 1987

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے