Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کم سنی کی شادی

مرزا فرحت اللہ بیگ

کم سنی کی شادی

مرزا فرحت اللہ بیگ

MORE BYمرزا فرحت اللہ بیگ

     

    میں اول ہی سے رشیدہ کی شادی کے خلاف تھا۔ بھائی جان کے سر ہوا کہ خدا کے لیےابھی اس لڑکی کو شادی کی مصیبت میں نہ پھنسائیں۔ بھابی جان کے آگے ہاتھ جوڑے کہ للہ اس بارہ برس کی چھوکری کے حال پر رحم کیجئے۔ مگر میری کون سنتا تھا۔ بھابی جان کو ارمان نکالنے کا شوق تھا۔ رہے بھائی جان تو وہ اپنی بیگم صاحبہ کے ہاتھ میں تھے۔ بھلا ان کے مقابلے میں میری کیا چلتی۔ آخر نکاح کی تاریخ ٹھیر ہی گئی۔

    میں نے ڈپٹی عابد حسین سے کہا کہ آپ اس شادی کو تھوڑے دن کے لیے روک دیجئے۔ ذرا دولہا دلہن دونوں کو کچھ بڑا ہونے دیجئے۔ یا یوں نہیں تو نکاح کر لیجئے۔ وداع دو چار سال بعد کیجئے گا۔ مگر وہ کب ماننے والے تھے۔ کہنے لگے، ’’میاں تم کیوں خواہ مخواہ بیچ میں کھنڈت ڈالتے ہو۔ میرا ایک ہی بچہ ہے۔ بڑھاپے میں پیدا ہو اہے۔ ماشاء اللہ چودہ برس کا ہے۔ ایف اے میں پڑھتا ہے۔ میں اب قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھا ہوں۔ رہیں ان کی اماں تو وہ خود چل چلاؤ پر ہیں۔ اگر ہم دونوں نے محبوب کا سہرا نہیں دیکھا تو شاید ہم کو قبر میں بھی چین نہ آئے۔ اگر تم کو اپنی بھتیجی ایسی ہی عزیز ہے تو بھائی جواب دے دو۔ ہم محبوب کے لیے دوسری جگہ تلاش کر لیں گے۔‘‘

    بڑے میاں نے یہ باتیں کچھ ایسی اکھڑی اکھڑی کیں کہ میں ان کی طرف سے بالکل مایوس ہو گیا۔ اٹھ کر چلا آیا۔ میں نے تو خود ان کے ہی بھلے کو یہ باتیں کہی تھیں اور بڑے میاں کی بیوی نے ہماری بھابی جان کو کہلا بھجوایا کہ تمہارے دیور اس رشتے سے خوش نہیں ہیں۔ پھر کیوں خواہ مخواہ اس رشتے پر اصرار کیا جا رہا ہے۔ یہ سننا تھا کہ بھابی جان کے تو آگ ہی لگ گئی۔ بھائی جان سے ایک ایک کی سو سو لگائیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک سچی بات کہنے سے بھائی جان الگ بگڑ بیٹھے اور ڈپٹی عابد حسین علاحدہ تن گئے کہ یہی شخص فساد کی جڑ ہے اور خواہ مخواہ اس رشتے میں حائل ہو رہا ہے۔

    میں یہ نہیں کہتا کہ ڈپٹی صاحب کی ذات ذمات بری ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ان کے ہاں رشیدہ کو تکلیف ہونے کا مجھے ڈر ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ محبوب اچھا اور نیک بخت لڑکا نہیں ہے۔ میرا کہنا تو یہ ہے کہ ابھی یہ لڑکی اور لڑکا شادی کے قابل ہی نہیں ہیں۔ بارہ برس کی لڑکی اور چودہ برس کے لڑکے کی شادی بھلا کوئی شادی ہوئی۔ گڈے گڑیا کا بیا ہوا۔ جب کبھی بھابی جان سے کہو وہ یہی جواب دیتی ہیں کہ لڑکی جوان ہو گئی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ لڑکی کی ایک خاص حالت کو جوان ہونا سمجھ لیا جاتا ہے ، اس پر غور نہیں کیا جاتا کہ نہ تو ابھی اس کے جوڑ بند مضبوط ہوئے ہیں ار نہ اس کے اعضا ابھی تکمیل کو پہنچے ہیں۔ نہ اس کی عقل ایسی پختہ ہوئی ہے کہ میاں بیوی کے تعلقات کو سمجھ سکے یا گھر سنبھال سکے۔ بس غل مچا ہوا ہے کہ لڑکی جوان ہو گئی۔

    اب اس کو کسی کے پلو سے نہ باندھ دیا گیا تو خدا معلوم کیا آفت بپا ہو جائے۔ یہ نہیں سمجھا جاتا کہ جس کے ساتھ اس کو باندھا جا رہا ہے، اس کی ابھی عمر ہی کیا ہے۔ اس نے ابھی تعلیم کی تکمیل نہیں کی ہے۔ اس میں بھی بردباری نام و نشان کو نہیں ہے۔ وہ ابھی اخراجات کے لیے دوسروں کا دست نگر ہے۔ بھلا ایسے بچے سے کیا توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ شادی کے تعلقات کو سمجھ سکے گا یا اپنی اور اپنی بیوی کی صحت کا خیال رکھ سکے گا یا آئندہ اپنی تعلیم جاری رکھ کر کھانے کمانے کے قابل ہو سکے گا۔

    بہر حال میں نے ہزار طرح سمجھایا۔ میری ایک نہ چلی۔ بڑی دھوم سے شادی ہوئی۔ دنوں مہمان داری ہوئی۔ ہزاروں کا جہیز دیا گیا اور بی رشیدہ اور میاں محبوب میاں بیوی ہو ہی گئے۔ دونوں میں وہ ملاپ ہوا، وہ ملاپ ہوا کہ خدا کی پناہ۔ ایک جان دو قالب تھے۔ جب دیکھو دونوں کے دونوں ایک دوسرے کے پاس جمے ہوئے ہیں۔ میاں محبوب نے گھر سے نکلنا چھوڑ دیا۔ یار دوستوں سے ملنا چھوڑ دیا۔ پڑھنا لکھنا چھوڑ دیا۔ اور آخر تھوڑے ہی دنوں میں کالج جانا بھی چھوڑ دیا۔ بھابی جان خوش تھیں کہ میری بیٹی کو ایسا چاہنے والا شوہر ملا۔ بھائی جان خوش تھے کہ چلو بیٹی آرام چین سے ہے۔ ڈپٹی صاحب اور ان کی بیوی نہال نہال تھے کہ چاند جیسی بٹواسی بہو گھر میں آئی ہے لیکن یہ کوئی نہیں سیکھتا تھا کہ میاں محبوب کی لکھائی پڑھائی کا خاتمہ ہو گیا۔ بہو کی صحت نے جواب دے دیا۔ لڑکے کے قوی مضمحل ہو گئے اور جن باتوں کو میں ابتدا ہی سے رو رہا تھا، ان کا دو ہی مہینے میں ظہور ہو گیا۔

    شادی کو شاید تین ہی مہینے ہوئے ہوں گے کہ مجھے اڑتی اڑتی خبر ملی کہ بی رشیدہ پیٹ سے ہیں۔ میں نے بھابی جان سے پوچھا۔ انہوں نے پہلے تو ٹالنا چاہا لیکن آخر قبولیں۔ میں نے کہا، ’’دیکھئے بھابی جان! میں پہلے ہی آپ کو روکتا تھا کہ اللہ ابھی اس لڑکی کی شادی نہ کیجئے۔ ابھی اس کی عمر ہی کیا ہے لیکن آپ نے ایک نہ مانی۔ خدا کرے ساتھ خیر و خوبی کے بی رشیدہ کے ہاں بچہ ہو۔ مگر یہ سمجھ لیجئے کہ تیرہ برس کی عمر میں اولاد ہونے سے اس بچاری کی صحت تباہ ہو جائے گی اور اگر دوا درمن سے وہ سنبھل بھی گئی تو یہ بتایئے کہ اس عمر میں وہ بچہ کو کیسے پالے گی اور تربیت کیا خاک کرے گی۔ ابھی تو اس کی تربیت خود ہی پوری طرح نہیں ہوئی ہے۔‘‘

     اب آپ ہی بتائیے کہ میں نے ان سے جو کچھ کہا تھا کیا اس میں کوئی بری بات تھی۔ مگر صاحب میری باتیں سن کر بھابی جان تو بگڑ ہی گئیں۔ کہنے لگیں، ’’نوج میری رشیدہ کی صحت خدا نخواستہ کیوں خراب ہونے لگی۔ ہوگی اس کے برا چاہنے والوں کی۔ میری بیٹی تو لالوں کی لال بنی بیٹھی ہے۔ ماشاء اللہ وہ صورت شکل اور ہاتھ پاؤں نکالے ہیں کہ نظر لگتی ہے۔ اب رہا بچہ ہونا تو میری بہن بی نظیر کے ہاں بارہ ہی برس کی عمر میں سعیدہ ہوئی تھی۔ لڑکی کو جوان ہوتے کیا دیر لگتی ہے۔ تمہاری طرح تھوڑی کہ بیس اکیس برس کی عمر ہے اور بارہ برس کے لونڈے معلوم ہوتے ہو۔

    اب رہی تربیت تو بھئی ذرا میں بھی تو سنوں کہ بی رشیدہ کی تربیت میں کون سی کمی ہے۔ ماشاء اللہ کھانا وہ پکائے۔ گھر داری وہ کرے۔ سینا پرونا اس کو آئے کیا یہ کچھ جاننے کے بعد وہ ایک پھونسڑے کو بھی نہ پال سکے گی۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے ہماری زندگی میں یہ دن دکھایا اور تم ہو کہ ابتدا ہی سے جو نہیں نہیں کی رٹ لگائی ہے تو کسی طرح ختم ہی نہیں ہوتی۔ بھئی مجھے تمہاری ایسی باتوں سے وہم ہوتا ہے۔ خدا کے واسطے میرے سے تو تم ایسی باتیں نہ کیا کرو۔ تم جانو اور تمہارے بھائی جانیں۔ ان سے تمہارا جو جی چاہے کہو۔ مگر مجھ سے اگر پھر کبھی ایسی باتیں کیں تو یاد رکھنا میں سر پیٹ لوں گی۔‘‘

    لیجئے دیکھا آپ نے نیک صلاح کا نتیجہ۔ ہے یہ کہ کسی سے سچی بات کہنا مفت کی لڑائی مول لینا ہے۔ بھابی جان سعیدہ کا پیدا ہونا تو بیان کر گئیں لیکن یہ نہیں دیکھا کہ سعیدہ کے پیدا ہونے کے بعد بی نظیر پر کیا گزری۔ بچاری زچگی کے بعد سے جو بیمار ہوئی تو دو برس کے بعد مر ہی کر اٹھی۔ کون سی بیماری تھی جو اس غریب نے نہیں اٹھائی اور کون سی تکلیف تھی جو اس مرنے والی نے نہ سہی۔ روپیہ پانی کی طرح بہہ گیا۔ دنیا جہاں کے علاج ہوئے مگر اس کو نہ بچنا تھا نہ بچی۔ اب ا س کی یاد گار بی سعیدہ رہ گئی ہیں مگر ان کا کیال حال ہے۔ بالکل دھان پان ہیں۔ آج نزلہ ہے تو کل بخار۔ آج پسلی میں درد ہے تو کل معدہ خراب ہے۔ غرض اس کے لیے تو جینا وبال جان ہو گیا ہے۔ عمر پوری کرنی ہے وہ کسی نہ کسی طرح پوری کر رہی ہے۔ ذرا کوئی جھٹکا لگا اور اس کا بھی خاتمہ ہے۔ بہر حال اس روز سے میں نے تو توبہ کر لی کہ اب بی رشیدہ کے بارے میں کچھ کہوں تو جو چور کا حال ہو میرا حال۔

    شادی کے نو مہینے کے بعد رشیدہ کے ہاں لڑکا پیدا ہوا مگر کس مصیبت سے ہوا یہ نہ پوچھو۔ بچاری کی جان کے لالے پڑ گئے۔ مہینہ بھر تک یہ حال رہا کہ کوئی دن نہ ہوتا ہوگا جو ڈاکٹر اور میمیں نہ آتی ہوں، اور بچاس ساٹھ روپے روزانہ خرچ نہ ہوتے ہوں۔ آخر خدا خدا کر کے لڑکی پلنگ سے اٹھی لیکن صورت ایسی ہو گئی تھی کہ دیکھنے سے ڈر لگتا تھا۔ سوکھ کر کانٹا ہو گئی تھی۔ منہ پر دانت ہی دانت دکھائی دیتے تھے۔ چلتی تھی تو ہر قدم پر چکر آتا تھا۔ بس یوں سمجھو کہ موت کے منہ سے نکلی۔ بڑی خوشیاں ہوئیں۔ غریبوں کو خیرات بٹی۔ رشتے داروں کی دعوت ہوئی۔ ڈاکٹروں اور میموں کو تحفے دیے گئے اور سمجھے کہ چلو اللہ نے بڑی خیر کی۔

    رشیدہ کا بچہ صادق انا کا دود ھ پیتا تھا مگر کسی طرح پنپتا ہی نہ تھا۔ ہڈی سے چمڑا لگ گیا تھا۔ دستوں کا جو سلسلہ لگا تو کہیں پندرہ بیس دن میں جا کر ختم ہوا۔ ادھر دست رکے اور ادھر بخار نے آ لیا۔ بیماری کے ہاتھوں ناک میں دم آ گیا۔ رشیدہ اور صادق کی حالت دیکھ کر مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے پھر بھابی جان پر زور دیا کہ ان کو تھوڑے دنوں کے لئے بلا کر اپنے ہاں رکھو۔ جب ذرا پنپ جائیں تو بھیج دینا۔ بھابی جان بھی بچی کی حالت دیکھ کر اس پر راضی ہو گئیں۔ مگر رشیدہ کی سسرال والے کب ماننے والے تھے۔ ہزار ہزار زور دیا لیکن انہوں نے ناسے ہاں نہ کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ابھی اس بے چاری کو بیماری سے ا ٹھ کر تین مہینے بھی نہیں ہوئے تھے کہ پھر حاملہ ہو گئی۔

    میں نے تو یہ خبر سنتے ہی انا للہ پڑھ لی اور سمجھ گیا کہ اب کی دفعہ بی رشیدہ کی خیر نہیں۔ پانچویں مہینے سے اس کی طبیعت بگڑنی شروع ہوئی۔ ہلکی ہلکی حرارت رہنے لگی۔ کھانسی کا بھی لگاؤ تھا۔ پہلے تو موسمی خرابی اس حرارت کا باعث سمجھی گئی۔ لیکن جب بخار نے ہلنے کا نام نہیں لیا تو اس وقت بھاگ دوڑی شروع ہوئی۔ ڈاکٹر ا ٓتے، نسخہ لکھتے، فیس لیتے، چلے جاتے مگر بخار تھا کہ کسی طرح ٹس سے مس نہ ہوتا تھا۔ بیس پچیس روز کے بعد معلوم ہوا کہ بخار اتر گیا۔ بھابی جان کی جان میں جان آئی۔ اچھا ہونے کے کوئی آٹھ دس روز بعد رشیدہ نے غسل صحت کیا۔ ہمارے ہاں آئی۔ پس کیا کہوں اس کا کیا حال تھا۔ سوکھ کر لقات ہو گئی تھی۔ پھونک مارو تو اڑ جائے۔ کہتی تھی کہ کیا بتاؤں دل بیٹھا جاتا ہے۔ جوڑ جوڑ میں درد ہے۔ کھانستی ہو ں تو سینہ میں درد ہوتا ہے۔ بخار اتر نے سے کیا ہوتا ہے۔ یہ درد جائے تو جانوں۔

    دو تین روز ہمارے ہاں رہی تھی کہ سسرال والوں نے بلا بھیجا۔ جانے کو تو اس کا جی نہیں چاہتا تھا مگر لاچار جانا پڑا۔ جا کر کوئی آٹھ ہی دن گزرے ہوں گے کہ پھر بخار نے آ لیا۔ اب کے بخار بھی ذرا تیز اور کھانسی بھی زیادہ تھی۔ سول سرجن کو بلا کر دکھایا۔ انہوں نے شش دیکھ کر کہا کہ میں بغیر خون کا امتحان کیے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ خیر خون کا امتحان کیا گیا۔ معلوم ہوا کہ خون میں دق کے جراثیم ہیں۔ گو ابتدائی درجہ ہے مگر مرض بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ یہ سننا تھا کہ گھر بھر کے پاؤں تلے کی زمین نکل گئی۔ اور جو سیدھا سیدھا علاج ہو رہا تھا وہ بھی غارت گیا۔ کوئی کہتا حکیم کو دکھاؤ کوئی کہتا وید کا علاج کرو۔ کوئی کہتا کہ نہیں جس طرح علاج ہو رہا ہے اسی طرح چلنے دو۔ غرض اس گڑ بڑ میں یہ ہوا کہ آج اس کا علاج ہے تو کل اس کا۔ آج حکیم کا نسخہ پیا جا رہا ہے تو کل وید صاحب کی گولیاں کھائی جا رہی ہیں۔

    آخر اس الٹ پھیر کا نتیجہ یہ ہوا کہ کل کا بگڑتا مریض آج بگڑ گیا۔ میں نے بہت کہا کہ اس کو مدن پلی لے جاؤ مگر ڈپٹی عابد حسین کیا ماننے والے تھے۔ پرانے زمانے کے آدمی تھے۔ کہنے لگے کہ ’’نئیں بھئی میری بہو اور عیسائیوں کے ہاتھوں میں جا کر پڑے۔ توبہ کرو۔ اور اگر بھیجوں بھی تو اس کی خبر گیری کون کرے گا۔ میری یہ عمر نہیں کہ خود مدن پلی جاؤں۔ اب رہے میاں محبوب، تو وہ ابھی بچے 1ہیں۔ ان سے کیا خاک بیمار کا رکھ رکھاؤ ہو سکے گا۔ اب جو قسمت میں لکھا ہے یہیں ہونے دو۔ ہائے! میں بھی کیا بد قسمت آدمی ہوں کہ ایسی خوب صورت اور سلیقہ مند بہو آئے اور دوہی برس میں اس حال کو پہنچ جائے۔‘‘

    غرض بڑے میاں نے بہت کچھ حجت کی، بہت کچھ بسورے مگر بہو کو مدن پلی بھیجنے پر راضی نہ ہوئے۔ ہر پھر کر یہی کہتے تھے کہ یہ مرض لا علاج ہے کیوں اس غریب کو اس حالت میں تکلیف دی جائے۔ سمجھتے تھے کہ رشیدہ مر گئی تو دوسری بہو بیاہ لائیں گے۔ ان کا کیا جاتا تھا۔ جاتا تو ہمارا تھا کہ پالی پوسی لڑکی ہاتھ سے جا رہی تھی۔ میں نے بھائی جان اور بھابی جان سے آ کر کہا کہ آپ ڈپٹی صاحب پر زور دیجئے، شاید راضی ہو جائیں۔ مگر وہ بڈھا اس بلا کا بنا ہوا تھا کہ لاکھ لاکھ سب نے سر پٹخا، اس کو نہ راضی ہونا تھا نہ ہوا۔ جب ادھر سے مایوسی ہو گئی تو سب راضی برضا ہو کر بیٹھ رہے۔ بھابی جان کی یہ حالت تھی کہ ہر وقت روتی تھیں اور آنچل پھیلا پھیلا کر دعا ئیں مانگتی تھیں کہ اس کی آئی مجھے آ لگے مگر اس سے کیا ہوتا ہے جس کی ہوتی ہے اس کو آتی ہے۔ ایک کی بیماری دوسرے کو آ لگے تو دنیا کا کارخانہ ہی درہم برہم ہو جائے۔

    میاں محبوب کی یہ کیفت تھی کہ بیوی کی پٹی جو پکڑ کر بیٹھے تو اٹھنے کا نام ہی نہیں لیتے تھے۔ رات ہے تو جاگ رہے ہیں، دن ہے تو جاگ رہے ہیں۔ نرس نوکر تھی مگر سارا کام خود کرتے۔ دوا خود پلاتے، کپڑے خود بدلواتے۔ کھانا پلانا خود کرتے۔ یہاں تک کہ سر میں کھنگھی خود کرتے اور چوٹی خود ڈالتے۔ میں نے منع بھی کیا کہ میاں محبوب اس طرح تم خود بیمار پڑ جاؤ گے۔ آخر نوکر، مامائیں اور میمیں ہیں کس کام کے۔ کام ان سے لو۔ نگرانی خود رکھو۔ مگر وہ کیا ماننے والے تھے۔ سمجھتے تھے کہ محبت کے اظہار کا یہی موقع ہے اور واقعی اس سے رشیدہ خوش بھی بہت تھی۔ یہ جاننے کے باوجود بھی کہ اب میں جینے کی تو نہیں، ہر وقت مسکراتی رہتی اور میاں کی محبت دیکھ دیکھ کر خوش ہوتی تھی۔

    ایک دن اس کی طبیعت بہت بگڑ گئی۔ صلاح ہوئی کہ کئی ڈاکٹروں کو بلا کر مشورہ کیا جائے۔ سول سرجن کو بلایا اور اس کے ساتھ مشورہ کرنے میں شہر کے پانچ چھ بڑے بڑے ڈاکٹروں کو شریک کیا گیا۔ سب نے اچھی طرح دیکھنے بھالنے کے بعد یہی رائے دی کہ رشیدہ کا بچنا محال ہے اور بیماری کا اصل سبب اس کی کم عمری کی شادی ہے۔ اس کے اعضاء ابھی پوری طرح تکمیل کو نہ پہنچے تھے کہ ان پر ناقابل برداشت بار پڑا۔ اس لیے بجائے بڑھنے کے ٹھٹھر کر رہ گئے۔ اس پر ہوئی اولاد، اعضاء میں جو کچھ تھوڑ ا بہت دم تھا وہ بھی نکل گیا۔ کمزوری میں ہر مرض زور کرتا ہے۔ دق ہو گئی اور اب آخری درجہ پر ہے۔ ڈاکٹر تو یہ کہہ اور فیس لے رخصت ہوئے اور ہماری بھابی جان نے رو رو کر برا حال کر لیا۔ مجھے بلوایا ور کہنے لگیں، ’’بھائی توسچ کہتا تھا۔ میرے شوق نے رشیدہ کو تباہ کیا۔ اب کیا کروں۔ وہ نہ رہی تو میں کیسے جیوں گی۔ کاش اس کی آتی مجھے آجائے۔‘‘

    بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ ان کی یہ حالت ہو اور میں ان کی پہلے غلطیوں پر انہیں لکچر دینا شروع کر دوں۔ میں نے یہ کیا کہ بڑی دیر تک بیٹھا ان کو سمجھاتا رہا۔ وہ بیٹھی روتی اور میری باتیں سنتی رہیں۔ آخر میں کہنے لگیں، ’’سعید خدا کے لئے تو یہ کر کہ رشیدہ کا سارا قصہ شروع سے آخر تک لکھ کر چھپوا دے۔ شاید مجھ جیسی بیوقوف بیویاں اس کو پڑھ کر عبرت حاصل کریں اور اپنی نازوں کی پلی ہوئی بچیوں کا چھٹپنے میں بیاہ کر کے ان کو تباہ نہ کریں۔ ارے مجھے یہ معلوم ہوتا تو میں مر جاتی اور ساری عمر اس کی شادی نہ کرتی۔‘‘

    میں نے کہا، ’’یہ آپ دوسری غلطی کھاتیں۔ زیادہ عمر تک بچیوں کو بٹھا رکھنا بھی ویسا ہی مضر صحت ہے جیسا چھوٹی عمر میں شادی کرنا۔ خیر میں رشیدہ کا قصہ لکھے تو دیتا ہوں مگر مجھے امید نہیں کہ میری ہندوستانی بہنیں اس سے سبق حاصل کریں گی، کیونکہ بچوں کی شادی کا وہ شوق ہوتا ہے کہ ان کو اس وقت بھلا برا کچھ نہیں دکھائی دیتا۔ کم عمری میں شادی کر دیتی ہیں اور آخر میں پچھتاتی ہیں۔‘‘

    بھابی جان سے جو وعدہ میں نے کیا تھا۔ اس کی تعمیل میں یہ مضمون لکھا ہے۔ اب خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ میری بہنیں اس سے سبق لیتی ہیں یا پڑھ کر اور جھوٹا قصہ سمجھ کر ’’اونھ‘‘ کر دیتی ہیں اور کتاب کو اٹھا کر پھینک دیتی ہیں۔

    حاشیہ

     (1) جی ہاں شادی کے لئے بچہ نہیں تھے بیوی کی تیمارداری کے لئے بچہ ہو گئے۔ (مصنف)

     

    مأخذ:

    مرزا فرحت اللہ بیگ کے مضامین (Pg. 172)

    • مصنف: مرزا فرحت اللہ بیگ
      • ناشر: اردو اکادمی، دہلی
      • سن اشاعت: 1997

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے