aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

خلیل الرحمن اعظمی: موت کی بانسری

شمیم حنفی

خلیل الرحمن اعظمی: موت کی بانسری

شمیم حنفی

MORE BYشمیم حنفی

    خلیل صاحب کے ہونٹوں پر اس بانسری کی دھن کا ارتعاش پہلی بار میں نے ان کی موت سے کوئی سال بھر پہلے محسوس کیا۔ وہ ایک گرم اور بجھی بجھی سی رات تھی، جیسی دلی میں گرمیوں کی عام راتیں ہوتی ہیں۔ کشمیر کے سفر پر روانگی سے پہلے خلیل صاحب چند روز کے لیے میرے ساتھ ٹھہرے تھے۔ شام ہم نے کناٹ پلیس، پھر آل انڈیا ریڈیو، دلی کے ہوسٹل میں کچھ دوستوں کے ساتھ گزاری تھی۔ خلیل صاحب کو دن بھر کی باتوں اور مصروفیتوں نے تھکا دیا تھا۔ ہم گھر آئے اور رات کے کھانے سے فارغ ہوئے تو خیال ہوا کہ اب خلیل صاحب آرام کریں گے مگر انہوں نے پھر باتوں کا سلسلہ شروع کردیا۔

    گفتگو کے معاملے میں خلیل صاحب کا حال یہ تھا کہ طبیعت حاضر نہ ہوتی تو موضوع جو بھی ہو، ان کی زبان سے ہاں، ہوں کے سوا کچھ نہ نکلتا۔ اور جب بولنے پر آتے تو بے تکان بولتے جاتے۔ نقاہت اور بیماری کے باوجود وہ جتنا بولتے، ان کی آواز میں اتنی ہی کھنک اور گونج آتی جاتی۔ بہت دیر تک ہم باتیں کرتے رہے۔ اور اس وقت، جب رات کے بارہ بچ چکے تھے، اور میں سوچ رہا تھا کہ اب خلیل صاحب کو سوجانا چاہیے، اچانک وہ اٹھے، اپنی اٹیچی سے کاغذات کی ایک فائل نکالی۔ بولے، ’’ادھر میں نے کئی کتبے لکھے ہیں۔ سناؤں؟‘‘

    ’’کتبے۔۔۔‘‘ یہ سنتے ہی مجھے کپکپی سی محسوس ہوئی۔ میں نے ایک نگاہ ان کے چہرے پر ڈالی جو ہر تاثر سے عاری تھا اور پھر، اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا، کمرے کی خاموشی میں خلیل صاحب کی آواز گونجنے لگی تھی،

    یہ اس شخص کی قبر ہے

    جس کے اب جسم کا کوئی ذرہ یہاں پر نہیں ہے

    نہ اس کو کوئی کام اس قبر سے

    نہ اس کو خبر ہے

    کہ یہ کس کا گھر ہے

    تو اس شخص کے ایک بے نام گھر کو

    کوئی کیوں کسی نام سے آج منسوب کردے

    اور اس نام کا ایک کتبہ بنائے

    یہ دنیا ہے جس میں، نہ ایسا کوئی گھر بنا ہے نہ آگے بنے گا

    کہ اس کا مکیں اپنے گھر میں ہمیشہ رہے

    تو اب کیا کوئی گھر؟

    اور اس گھر پہ اک نام کندہ!

    کہ جس مرحلے پر کسی کو کسی گھر کی کوئی ضرورت نہیں ہے

    ایک کے بعد دوسرا، پھر تیسرا، پھر چوتھاکتبہ۔ نہ آواز میں کسی طرح کی کوئی جذباتیت، نہ چہرے پر کوئی ایسا تاثر جو ایک الم آمیز تجربہ کی تہ سے رینگ کر نکلا ہو۔ جوان جہاں لڑکیوں کی بات تو الگ رہی جو بیزاری کے لمحوں میں اپنی موت کا نقشہ تصور کی تختی پر کھینچتی ہیں اور سسکیاں بھرتی ہیں، میں نے اچھے بھلے مردوں کو بھی اپنے ذاتی دکھو ں کے بیان میں ایسی بے حجابی کے ساتھ متاثر ہوتے دیکھا ہے کہ ان کے حال پر افسوس ہوا۔ لیکن یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور تھا۔ ایک شخص سچ مچ موت کی دہلیز پر کھڑا ہے او راس صدا کا منتظر جو کوئی دم آیا ہی چاہتی ہے مگر نہ تو یہ احساس کہ اس کے جانے سے دوسرے بے حال ہوں گے، نہ یہ کہ زندگی کی متاع چند روزہ سہی پھر بھی اس سے دستبردار ہونا سہل نہیں۔

    پھر موت سے زیادہ ذاتی تجربہ اور کیا ہوسکتا ہے۔ ہم چاہیں نہ چاہیں زندگی کے سفر میں دوسروں کی مرضی اور اختیار اور تعلق کے جبر سے آزاد نہیں ہوتے۔ وہ شرطیں الگ رہیں جو دنیا کی طرف سے عائد ہوتی ہیں۔ سکون سے زندہ رہنا ہے تو مفاہمتوں کے ایک پورے سلسلے سے گزرنا ہوگا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس ظاہری سکون کے پیچھے ایک مستقل بے اطمینانی کی لہریں بھی چھپی ہوئی ہوں اور اپنا حساب طلب کرتی رہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو سکون اور طمانیت اور آسودگی کے لفظ زندگی کی لغت میں اتنے بے اثر نہ رہ جاتے۔ مگر ایک بہت بڑی قباحت اس پر فریب تماشے میں یہ ہے کہ انسان کسی ذاتی یا بیرونی جبر کے تحت جن رویوں کو اول اول محض بلاٹالنے کی خاطر قبول کرتا ہے، دھیرے دھیرے وہ جزوِعادت بنتے جاتے ہیں تاآنکہ ان کی طرف سے ہمہ وقت چوکنا نہ رہا جائے۔ نتیجہ شخصیتوں کا زوال جواب بہت عام ہوتا جاتا ہے۔

    خلیل صاحب نے بظاہر ایک پرسکون اور محفوظ زندگی گزاری، ایک چھوٹے سے گھر اور گھر کی لکشمی اور گھر کے آنگن میں کھلے ہوئے پھولوں کا وہ تصور جو ایک خواب کی مثال ان کی پرانی نظموں میں ابھرا تھا، خلیل صاحب کی زندگی اس کی تعبیر کے نقطے تک بھی پہنچی۔ پیشہ بھی انہوں نے وہ اختیار کیا جو ان کے مزاج اور طبیعت سے ہم آہنگ تھا۔ ان کی ذاتی زندگی مسطح میدانوں سے گزرتے ہوئے ایک آہستہ خرام دریا کی مانند پرسکون اور شاداب تھی، جذباتی اشتعال، انتشار، اضطراب اور تشدد کی جن کیفیتوں سے وہ شعوری زندگی کے ابتدائی مراحل پر دوچار ہوئے تھے، اب ان کی جگہ ایک نوع کی حقیقت آفرینی اور حقیقت آزمودگی نے لے لی تھی۔ جوان العمری کی رومانی بغاوت، سرکشی، انکار شیوگی رفتہ رفتہ ان کے لیے کل کا قصہ بن گئی تھی اور اب ان کی زندگی میں جو نظم پیدا ہو چلا تھا، بڑی حدتک پریشان رو جذبوں کی اس تنظیم کا عکس تھا، جس میں خلیل صاحب دنیا کے تجربوں اور معاملات کی تفہیم کے بعد بڑی مشکل سے کامیاب ہوئے تھے۔

    اس کا یہ مطلب نہیں کہ خلیل صاحب طبیعتاً بہت عملی یا منطقی قسم کے انسان تھے۔ انہوں نے جذبے کی تندی اور اس کے سیل کو گرفت میں لینے کا ہنر ضرور سیکھ لیا تھا مگر انسانی رشتوں اور زندگی کے تئیں ذاتی رویوں کے معاملے میں وہ ہمیشہ جذباتی رہے۔ انہیں گھر سے، دوستوں سے، اپنے پیشے سے، اپنی دل چسپیوں اور توجہ کے مراکز سے کم و بیش ہمیشہ ایک گہری جذباتی وابستگی رہی۔ روزمرہ زندگی اور عام انسانی تعلقات کے مسائل کا حل بھی وہ اکثر اپنے جذبات کی زمینوں میں ڈھونڈتے تھے اوراس انفردای منطق سے قائل اور مطمئن بھی ہو جاتے تھے جس کی نمود انہی زمینوں سے ہوتی تھی۔

    ایک طرح کی دیہی بے ساختگی اور معصومیت تاعمر خلیل صاحب کے مزاج کا خاصہ بنی رہی اور شعوری سطح پر بچپن کی زندگی کے طبعی اور فکری مناسبات سے ایک طرح کی روگردانی بلکہ برگشتگی کے باوجود وہ اس زندگی کے خمیر سے لاتعلق نہ ہوسکے۔ اس خمیر سے ان کی طینت نے غذا پائی تھی۔ اپنے بزرگوں کے گھر اور اپنے وطن سرائے میر کا ذکر وہ بہت کم کرتے تھے مگر صاف معلوم ہوتا تھا کہ یہ سوچی سمجھی لاتعلقی دراصل ایک گہرے، پایدار، روح میں رچے ہوئے تعلق کی پردہ پوشی کا ایک بہانہ ہے۔ ایک شریف اور شائستہ انسان کی طرح وہ ضبط کے وقار کا احساس رکھتے تھے اور پاسِ ناموسِ عشق کی خاطر انہوں نے اپنے زخموں کو چھپانا بھی سیکھ لیا تھا۔ پھر یہ بھی ہے کہ خلیل صاحب نے علی گڑھ میں زندگی کا جو طور اپنایا اور زندگی کرنے کے جو وسائل انہیں میسر آئے، ان سے وہ بڑی حدتک مطمئن تھے۔ گھر اور احباب اور مشاغل کی دنیا میں انہیں اس زندگی کی جذباتی اور ذہنی تائید کے کچھ ایسے بہانے بھی مل گئے تھے جنہوں نے ایک طرف تو جان کے ساتھ لگی ہوئی بعض محرومیوں اور کڑوی کسیلی یادوں سے چھٹکارے یا کم از کم انہیں سہارنے کی طاقت بہم پہنچائی۔ دوسرے یہ بھی ہوا کہ خلیل صاحب نے گردوپیش کی دنیا میں اپنی وہ چھوٹی سی دنیا بھی الگ سے بنالی تھی جس پر ان کے اپنے انتخاب اور اختیار کا بس تھا۔

    چنانچہ انتقال سے دس بارہ برس پہلے جب ذاتی طور پر ان سے تعارف، پھر دوستی کا آغاز ہوا، اس وقت خلیل صاحب اک خاصی سنبھلی ہوئی آسودہ کام زندگی گزار رہے تھے۔ ان کی صحت بھی اچھی تھی۔ ان کے روزمرہ معمولات میں وہ توازن اور ٹھہراؤ تھا جو ایک طرح کی باطنی تنظیم اور زندگی کے حساب کتاب میں مجموعی طور پر کامیابی کے ساتھ عہدہ بر آہونے کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ان کے چہرے بشرے سے اس شادابی کا اظہار ہوتا تھا جو بظاہر روح کی آسودگی کا اعلامیہ ہے۔ ہر صبح لمبی سیر، پھر شعبے میں بہت انہماک اور جذبہ آمیز سرگرمی کے ساتھ اپنے منصبی کاموں کی انجام دہی اور ہر شام تھوڑی سی چہل قدمی کے بعد ذوقی صاحب کے گھر پر گھنٹے دو گھنٹے کی محفل آرائی۔

    ان دنوں معمول یہ تھاکہ شعبے میں اپنے اپنے کام سے فارغ ہوکر شہریار، وحید اختر، میں، گاہے گاہے شعبۂ انگریزی سے سید وقار حسین، رضوان، ہمایوں ظفر زیدی اور ناصر وغیرہ خلیل صاحب کے کمرے میں یکجا ہوجاتے۔ کافی پی جاتی اور غپ شپ ہوتی۔ یہ علی گڑھ میں علی گڑھ سے بھی کچھ معنوں میں الگ ایک چھوٹی سی دنیا تھی۔ یہاں یونیورسٹی کی سیاست یا شعبے کے کاروبار کا تذکرہ کم کم ہی ہوتا تھا۔ بالعموم کسی شعر یا مضمون، کتاب، شاعر یا ادیب کی باتیں ہوتیں۔ تھوری بہت فقرے بازی یا لطیفے۔ خلیل صاحب کی حیثیت یہاں میر محفل کی ہوتی تھی کہ ان سے ہم سب کے قرب اور بے تکلفی میں ایک احترام کا جذبہ بھی شامل تھا۔ خلیل صاحب خاصے ذکی الحس انسان تھے، چنانچہ چھوٹی چھوٹی باتیں انہیں خوش بھی کرتی تھیں اور مشتعل بھی۔ وہ اپنی ناپسندیدگی اور محبت دونوں کے اظہار میں بیباک اور بے ریا تھے۔

    اشعار، لطائف اور حوالوں کے معاملے میں خلیل صاحب کا حافظہ بہت مالدار تھا۔ ان محفلوں میں وہ بہت باتیں کرتے تھے اور بہت جی کھول کر ہنستے تھے۔ یاد آتا ہے، شہر یار ان دنوں اکثر یہ کہتے کہ خلیل صاحب بہت باضابطہ اور سلیقہ کی زندگی گزارتے ہیں۔ چونکہ ہم میں شہریار سے ان کا تعلق سب سے زیادہ پرانا تھا اور شہریار نے خلیل صاحب کی زندگی کا وہ دور بھی دیکھا تھا جب کسی مضبوط جذباتی سہارے کے بغیر، اپنے ماضی سے منحرف وہ ایک غیر منظم اور بوہیمین زندگی گزارتے تھے۔ اس دور کی ناآسودگی اور لامرکزیت اور بعد کے دور کی زندگی کا نظم اور ترتیب خلیل صاحب کی زندگی کے دو مختلف، ایک حد تک متضاد مراحل کا اشاریہ تھی۔ اور اب کہ خلیل صاحب شاد کام اور آسودہ خاطر تھے، ان کے حال پر دوستوں کا مسرور ہونا فطری تھا۔

    لیکن جیسا کہ میں نے شروع میں عرض کیا تھا، خلیل صاحب کے اس ظاہری سکون اور اطمینان کے پس پردہ چند اضطراب آسالہریں اب بھی موجود تھیں۔ انہوں نے اپنے ماضی سے ایک لمبا ذہنی فاصلہ تو پیدا کرلیا تھا مگر دوری کی دھند نے اس ماضی سے کی جذباتی قدر میں اضافہ بھی کردیا تھا۔ انہیں پرانے چہرے، پرانے منظر، موسم اب بھی یاد آتے تھے۔ یادوں کی یہ گردان کی شاعری اور ادبی تصورات میں بھی اس طرح پھیلی کہ انہوں نے اردو یا فارسی کے کلاسیکی ادب سے اور اپنے حاضر سے ایک نیا رشتہ قائم کرلیا۔ وہ پرانے دوستوں کا، پرانے ادیبوں، کتابوں، واقعات اور واردات کا ذکر ایک گہری جذباتی حرارت کے ساتھ کرتے تھے۔ خلیل صاحب اکثر کہا کرتے تھے کہ ادب کو اس کی روایت سے الگ کرکے پڑھا جائے تو سوجھ بوجھ میں کچھ ’’کھانچے‘‘ ضرور رہ جاتے ہیں اور ذہن ان کے وطن کی بولی میں ایک طرح کے ’’الارپنے‘‘ کاشکار ہوجاتاہے۔ فکر و نظر کے نئے آفاق برحق مگر روایت کی بنیادی وحدت کا تسلسل بھی ایک دائم و قائم حقیقت ہے، وقت اور مقام کے ہر نئے تناظر کی گرفت سے آزاد، حاضر کے جبر سے آزاد۔ خود حاضر کی جڑیں بھی کسی نہ کسی گہرائی میں ہی پیوست ہوتی ہیں۔

    چنانچہ معاملہ خلیل صاحب کی شخصیت کا ہو یا شاعری کا یا ادبی تصور کا، اس کی اساسی قدر کو اگرکوئی نام دیا جاسکتا ہے تو نوکلاسیکیت کا۔ شاید اسی لیے زندگی اور ادب کے وہ رویے جو روایت اور ماضی کی مکمل نفی کے منطقوں پر اپنی بنیادیں استوار کرتے ہیں، خلیل صاحب کے لیے کچھ زیادہ قابل قبول نہ تھے۔ تخلیقی احساس کی سطح پر انہیں گم شدگی کا عمل دریافت کے عمل سے زیادہ عزیز تھا کہ گم ہونا دراصل حاضر کے جبر سے یا کم از کم اس جبر کی موجودگی سے بے نیازی اور نجات ہی کی ایک صورت ہے۔

    شاید اسی لیے خلیل صاحب کو وہ طبیعتیں اور چہرے بھی زیادہ خوش آتے تھے جو حال کے اجالے میں شرابور ہونے کے بجائے اسی دھند میں گم ہوں جس کا علاقہ اس اجالے کی سرحدوں سے آگے شروع ہوتا ہے۔ یاد آتا ہے، ایک بار گورکھپور یونیورسٹی کی دعوت پر فراق سیمنار میں شرکت کے لیے خلیل صاحب، وحید اختر اور ہم ساتھ ساتھ روانہ ہوئے۔ راستے میں مشرقی یوپی کے شہر بستی کے قریب مگہر سے گزر ہواجہاں کبیر داس کی سمادھی اور قبر ہے۔ مگہر کے اسٹیشن پر ہمارے ڈبے میں دو سادھو آگئے۔ وحید اختر ساتھ ہوں تو کیا سفر، کیا حضر، لمحہ لمحہ دل چسپ ہوجاتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے ان سادھوؤں میں دلچسپی لینی شروع کردی۔ پورب کی بولی اپنا محاورہ بھی ہے اور خلیل صاحب تو خیر اسے اپنی یادوں کی طرح اب تک محفوظ رکھتے آئے تھے۔ ادھر سادھوؤں کو بھی اپنی بولی سمجھنے والے سامع مل گئے تھے۔

    چنانچہ گفتگو میں دھیرے دھیرے تیزی اور سنجیدگی آتی گئی۔ ان میں ایک سادھو بہت باتونی تھا۔ اس نے ہمیں دوہے، کبت، چوپائیاں، اشلوک، حکایتیں بہت سنائیں۔ اس وقت خلیل صاحب کا حال وہ تھا جسے کم از کم جذبات کانام دیا جاسکتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ گویا اپنی بازیافت کا ایک وسیلہ اچانک ہاتھ آگیا ہے۔ دراصل خلیل صاحب کی بظاہر تربیت یافتہ، تراشیدہ اور علی گڑھ کی مرتبہ شخصیت میں ایک اور شخصیت بھی چھپی ہوئی تھی، کچھ کھردری اور معصوم، جس کی جڑیں ان کی ظاہری شخصیت کے مقابلے میں بہت مضبوط اور بہت دور تک پھیلی ہوئی تھیں۔ اس شخصیت کے دکھ اور درد بھی ویسے ہی گہرے اور اٹوٹ تھے۔ اس کا اندازہ مجھے خلیل صاحب سے باتوں کے دوران اکثر ان تمنا آفریں لمحوں میں ہوا جب بے خیالی میں وہ اپنے بچپن کا ذکر کرتے کرتے اپنے والدین یا اپنے مدرسے یا گاؤں تک پہنچ جاتے تھے۔ یہ دکھ بہت ذاتی اور اس کا فکری تناظر بہت محدود سہی مگر یہ بہت سچا دکھ تھا، سو ا ن مستعار تجربوں اور المیوں سے بہت زیادہ وقیع جنہیں عالم فاضل لوگ موضوعِ سخن بناتے رہتے ہیں۔

    زندگی کے آخری چند برسوں میں علی گڑھ نے بھی انہیں کچھ دکھ دیے۔ خلیل صاحب جتنے ضبط اور ظرف کے آدمی تھے اس کے پیش نظر یہ سوچنا محض بدتوفیقی کی بات ہوگی کہ انہیں احمقوں کی قدر اور اپنی ناقدری کا گلہ تھا۔ واقعہ بھی یہ ہے کہ خلیل صاحب نے ایسے بہت سوں سے زیادہ عزت اور محبت پائی جن کے طمطراق کی بنیادیں خام اور مناصب و مراتب کے زینوں کی محتاج ہوتی ہیں۔ انہوں نے بھولے سے بھی کبھی کسی مضمون میں خود اپنے ذکر کے جوازکے باوجود اپنا نام نہیں لیا، نہ کبھی دوسروں سے اپنی تحسین کے طالب ہوئے۔ لیکن انہیں یہ احساس ضرور ہوچلا تھا کہ اپنے ماضی کے دائروں سے آگے جس دنیا سے انہوں نے پیمانِ وفا باندھا تھا، اس میں اور ان کی ذات میں اب ایک دوری در آئی ہے۔ اس دوری کو عبور کرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ پہلے خود اپنے آپ سے ایک فا صلہ پیدا کیا جائے۔

    یہ مرحلہ نازک بھی تھا اور دشوار بھی۔ یوں بھی خلیل صاحب کے مزاج میں ایک ضد کی کیفیت تھی۔ عزتِ نفس کے تحفظ کی خاطر دنیا اور دنیا والوں کے تئیں ہمیشہ چوکنا رہنے کا نتیجہ۔ وہ دوستوں کی جاوبیجا باتیں بڑی آسانی سے مان لیتے تھے اور ذرا سی ترغیب سے اپنی رائیں تبدیل کرسکتے تھے بشرطیکہ ترغیب دینے والے کے تعلق پر ان کا اعتماد قائم ہو۔ مگر دنیا کے معاملات میں کسی طرح کی سمجھوتہ بازی، لچک اور کمزوری ان کے مزاج سے بہت دور تھی۔ زندگی کے آخری دنوں میں جس دکھ نے ان کے اعصاب کی آزمائش کا سامان پیدا کیا، وہ یہ نہ تھا کہ وہ زندگی سے ایسی سہولتوں یا مراتب کے متمنی تھے جن تک ان کی رسائی نہ ہوسکی۔

    خلیل صاحب خاصے خود آگاہ آدمی تھے اور اپنے نفس کی قیمت کے ساتھ ساتھ دنیوی مراتب کی پستی اور بے بضاعتی کا شعور بھی رکھتے تھے، خاص طور پر ہمارے تعلیمی معاشرے میں جو اپنی بنیادی قدروں کے مراکز سے کب کا کھسک چکا اور جہاں علم سے زیادہ اب جہل کی حکمرانی ہے۔ خلیل صاحب کو اگر دکھ تھا تو اس بات کا کہ وہ جن رویوں، افراد اور امتیازات کے حریف سمجھے جارہے ہیں، خود ان کی زندگی کے نظام میں یہ سب بے حقیقت تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اندر ہی اندر سمٹتے گئے۔ شعبے میں جانا، پڑھانا اور گھر لوٹ آنا، اپنی پسند اور انتخاب کے چند افراد سے ملنا جلنا اور بس، یہی ان کی زندگی تھی۔

    غلط یا صحیح، میں اب بھی یہی سمجھتا ہوں کہ خلیل صاحب کے مرض الموت میں اس صورت حال اور اس سے پیدا شدہ احساس تنہائی اور بے چارگی کا ایک اپنا حصہ بھی تھا۔ مگر اس سب کے باوجود زندگی، اپنی مطبوع اور منتخبہ زندگی، سے ان کے ذہنی اورجذباتی رابطے کمزور ہونے کے بجائے پہلے سے زیادہ مستحکم ہوتے گئے۔ ان دنوں جب ان کا مرض خطرناک موڑ اختیار کرچلا تھا اور ہم سب اس کی نوعیت سے باخبر اور دل گرفتہ تھے، خلیل صاحب اپنے آپ کو طرح طرح کے بہلاوے دیتے رہے۔ مذہب یا ایک نوع کی روایت آلودگی سے دل چسپی تو خیر ان کی سرشت کے ایک ترکیبی عنصر کی حیثیت رکھتی تھی۔ خلیل صاحب نے اپنے حال پر قابو پانے کے لیے شاید جان بوجھ کر اس کے تئیں ایک تجاہل کو بھی اپنا شعار بنالیا۔ شاید دور آسمانوں سے موت کا جو راگ دھیمے سروں میں ان تک پہنچ رہا تھا، اس سے انکار کے ذریعے وہ خود کو اس کے حصار سے محفوظ کرنے کی ایک نفسیاتی جدوجہد میں مصروف تھے۔ اپنی بیماری کا ذکر وہ خود نہ کرتے، کوئی اور کرتا تو ٹال دیتے یا بہت تیقن آمیز انداز میں اپنے علاج کے کارگر ہونے اور اپنے مرض کے معمولی ہونے پر اصرار کرتے۔

    ان دنوں خلیل صاحب کے مطالعے میں بھی کچھ خاص طرح کی کتابیں عام طور پر نظر آتی تھیں، مثلاً بزرگوں، صوفیوں کے سوانح اور ملفوظات یا پھر مختار صدیقی کا کیا ہوا لن یوتانگ کی کتاب کا ترجمہ ’جینے کی اہمیت۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ زندگی کی چھوٹی چھوٹی باتوں سے جن تک ان کی رسائی تھی، سرور اور آسودگی کشید کرنا چاہتے تھے، ہر لمحے میں چھپی ہوئی مسرت کے جو یا تھے اور وہ باتیں جو دل کو اداسی اور محرومی کی راہ دکھاتی تھیں انہیں بھول جانا چاہتے تھے۔ اپنے بچوں کے لیے اس زمانے میں خلیل صاحب نے کئی نظمیں، گیت اور لوریاں لکھیں۔ وہ چھوٹے، عام اور معمولی لوگ جن سے خلیل صاحب کا تعارف روز مرہ زندگی کی بعض ضرورتوں کے واسطے سے ہوا تھا، مثلاً پھل والا، چوکیدار، ڈاکیہ اور کاری گر یا مزدور، خلیل صاحب کے لیے ہر طرح کے کھوٹ اور تصنع سے عاری زندگی کے علامیے بن گئے۔ نہ صرف یہ کہ وہ ان لوگوں سے بے تکلف باتیں کرتے، ملتے، ان کا ذکر بھی بہت لطف کے ساتھ کرتے تھے۔

    اسی زمانے میں خلیل صاحب نے بعض بزرگوں کے آستانے پر بھی حاضری دی۔ جب جی چاہتا نماز بھی پڑھ لیتے اور تلاوت کرتے۔ یہ ساری سرگرمی زندگی کی دیوار میں پڑتے ہوئے رخنوں کو بھرنے اور موت کے پراسرار سایوں اور اس کی صداؤں کے جال سے نکلنے کی جستجو کا پتہ دیتی ہے۔ اس طرح وہ اپنے وجود کے تسلسل کی اس ڈور کو ازسر نو سلجھانا چاہتے تھے جو زندگی کی لامرکزیت کے ایک دور میں ان کے ہاتھوں سے چھوٹ گئی تھی اور زمانے کی شرارتوں نے جس میں کچھ گرہیں ڈال دی تھیں۔

    آخری چند برسوں کے اشعار، بالخصوص مرض کی شدت کے زمانے کی بعض نظمیں سناتے وقت خلیل صاحب نے اکثر یہ ذکر کیا کہ یہ نظمیں انہوں نے رات کی گہری نیند سے چونک کر ایک عجیب، انوکھی، طلسمی کیفیت کے ساتھ کہی تھیں۔ کبھی کبھی تو یہ احساس ہوا کہ وہ کسی مخفی قوت کے اشارے اور احکام پر بس تیزی کے ساتھ نوٹس لیتے جارہے ہیں۔ میں یہاں خاص طور سے دو نظموں کا ذکر کروں گا۔ ایک تو ’مٹی کا گیت‘ دوسری وہ نظم جس کا ردیف ’ساقی کا‘ ہے۔ یہ نظمیں میں نے آدھی رات کے بعد بہت سناٹے میں خود خلیل صاحب کی زبانی سنی ہیں اور انہیں سنتے وقت ایک ایسے تجربے سے گزرا ہوں جس نے آنکھوں کے سامنے ایک رمز آمیز، غیرحقیقی، قدرے مجنونانہ رقص کے منظر بکھیر دیے تھے۔

    بظاہر یہ رقص موت کا تھا اور موت کی بانسری کے سروں پر اس کے تحرک اور رفتار کی گت لمحہ بہ لمحہ تیز تر، شدید تر اور دیوانہ وار ہوتی جاتی تھی۔ لیکن میں نے اسے خلیل صاحب کی توانا، بھاری اور مستحکم آواز میں زندگی کے ایک، شاید آخری رقص کی مثال دیکھا اور بہت دل تنگ ہوا۔ یوں محسوس ہوا کہ یہ شاید زندگی اور موت کے آخری معرکے کی ناچ کتھا ہے اور اس کتھا میں رچی ہوئی روح کا اضطراب حروف و اصوات کی ہر تھاپ کے ساتھ ایک لازوال، مہیب اور بے کراں الم میں ڈھلتا جاتا ہے، الم جو جاوداں ہے اور زندگی کی بنیادی، پہلی اور آخری سچائی ہے۔

    اس دور کی نظموں اور غزلوں میں بھی ربودگی، دھندلکے اور استفہام کی ایک زیریں لہر جاری دکھائی دیتی ہے۔ گویا کہ رازوں میں زندگی کرنے کے بعد یہ بھید کھلا کہ اس کا اختتامیہ بھی ایک راز ہے اور اسی راز کے رنگ مہد سے لحد تک پھیلے ہوئے ہیں۔ لیکن اسی کے ساتھ ساتھ اس دور کی تخلیقات کا ایک غیر معمولی پہلو وہ ہے جو عام لوگوں کو ان اشعار کی باطنی فصا کی نفی اور تردید کرتا ہوا دکھائی دے گا۔ وہ شاعری جو انتہائی سچے اور نجی تجربوں، انتہائی داخلی کیفیتوں اور ایک انتہائی انفرادی جبر کے ملبے سے رینگتی ہوئی سامنے آئی تھی، اس میں خود خلیل صاحب کی اپنی ذات کئی مقامات پر دور کھڑے ہوئے ایک ناظر یاتماشائی سے مماثل نظر آتی ہے۔ یہ حاصل تھا تخلیقی سرشت کی اس ملال آمیز سنگینی کا جو زخموں کی نمائش کرنے کے بجائے اپنے درد کے وقار کا تحفظ کرنا چاہتی ہے اور اپنے ردعمل کے اظہار میں ایک طرح کی روپوشی کا بھرم بھی قائم رکھا چاہتی ہے۔ اس نوع کی مثالیں خلیل صاحب کی غیرمطبوعہ بیاض میں بہت وافر ہیں۔ یہاں انہیں دوہرانے کے لیے کم و بیش اس کا نصف نقل کرنا ہوگا۔ سو میں بس ایک اور کتبے پر اکتفا کرتا ہوں،

    یہ کتبہ فلاں سن کا ہے

    یہ سن اس لیے اس پہ کندہ کیا

    کہ سب وارثوں پر یہ واضح رہے

    کہ اس روز برسی ہے مرحوم کی

    عزیز و اقارب، یتامیٰ، مساکین کو

    ضیافت سے اپنی نوازیں، سبھی کو بلائیں

    کہ سب مل کے مرحوم کے حق میں دستِ دعا کو اٹھائیں

    زباں سے کہیں اپنی ’’مرحوم کی مغفرت ہو!‘‘

    بزرگِ مقدس کے نامِ مقدس پہ بھیجیں درودوسلام

    سبھی خاص و عام

    اضافہ (کسی اور کا ایک پنسل سے لکھا ہوا)

    مگر یہ بھی ملحوظِ خاطر رہے

    عزیز و اقارب کا شرب و طعام

    اور اس کا نظام

    الگ ہو وہاں سے

    جہاں ہوں یتامیٰ، مساکین، اندھے بھکاری

    پھٹے اور میلے لباسوں میں سب عورتیں اور بچے

    کئی لولے لنگڑے، مریض اور گندے

    وہی جن کو کہتے ہیں ہم سب عوام

    وہاں ہو گا اک شور و غل، اژدہام

    یہ کردیں گے ہم سب کا جینا حرام

    سنگیت کے سروں کو ایک کیفیت یا تاثر سے دوسری کیفیت تک پہنچنے میں دیر نہیں لگتی کہ یہ ایک انوکھا تسلسل ہے، ایک مالا جس میں اجالے اور اندھیرے، سکھ اور دکھ، آسودگی اور اضطراب کے منکے ساتھ ساتھ پروئے ہوئے ہیں۔ خلیل صاحب کے تخلیقی شعور نے بھی یہاں کوئی چھلانگ نہیں لگائی بلکہ بہت آہستہ سے وہ ایک دائرے سے دوسرے دائرے میں پہنچ گئے ہیں جہاں سے آپ اپنا نظارہ کرسکیں، جہاں سے موت اور زندگی کے مشترکہ رقص، ایک دیوانہ وار رقص کو دور کھڑے ہوئے تماشائی کی صورت دیکھ سکیں۔ تو یہ آخری قہقہہ ہے اس تماشے کا، جی چاہے تو اسے چیخ کہہ لیجیے کہ بانسری بھی چیخ سکتی ہے۔

    مأخذ:

    ہم نفسوں کی بزم میں (Pg. 138)

    • مصنف: شمیم حنفی
      • ناشر: مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2006

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے