Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

خواب نما کے خواب

سلیم احمد

خواب نما کے خواب

سلیم احمد

MORE BYسلیم احمد

     

    آنکھیں یہاں نہیں ہیں۔ 
    ہاں آنکھیں یہاں نہیں ہیں۔ 
    مرتے ہوئے ستاروں کی اس وادی میں۔ 
                                         ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ

    قمر جمیل کو میں برسوں سے جانتا ہوں۔ لیکن خواب نما کی پشت پر ان کی جو تصویر چھپی ہے اسے دیکھ کر کچھ ایسا لگا جیسے میں نے اس سے پہلے قمر کو دیکھا ہی نہیں تھا۔ یہ تصویر اتنی بہت سی چیزوں کا مرکب ہے کہ اس کے بارے میں اپنے تاثر کا اظہار آسان نہیں معلوم ہوتا۔ بلند اور کھلی ہوئی پیشانی کشادہ دلی اور بلند نظری کا پتہ دیتی ہے۔ ایسا آدمی زندگی میں ناکام نہیں ہوسکتا۔ لیکن یہ ادھوری بات ہے، زندگی میں تو وہ بھی کامیاب ہوتے ہیں جو زندگی سے بزدلانہ صلح کی ہمت رکھتے ہیں۔ قمرجمیل کی پیشانی کسی سے بزدلانہ صلح نہیں کرسکتی۔ اس کی کامیابی اس کے جوہر کانتیجہ ہونا چاہیے۔ لیکن ایسی شاندار پیشانی کے نیچے بالکل مختلف آدمی کی آنکھیں نظر آتی ہیں۔ ان آنکھوں میں تحیر تو ہے۔ مگر تحیر کی کیفیت اتنی نمایاں نہیں جتنی بے بسی کی۔ یہ ایک آدمی کی آنکھیں ہیں جو اچانک خلاف توقع کسی ایسے منظر سے دوچار ہوگیا ہو جو اس کے شایان شان نہیں۔ یا کسی ایسی جگہ جانکلا ہو جو اس کی روح کے لیے قابل تحقیر ہے۔ اور ساتھ ہی وہ یہ بھی جانتا ہو کہ اب اس سے مفر نہیں۔ تحیر یہ ہے کہ میں کہاں آگیا۔ اور بے بسی یہ کہ اس سے نکلنے کی کوئی صورت نہیں۔ بے بسی تحیر پر غالب ہے۔ 

    آنکھوں سے نیچے اتریے۔ ناک اور ناک اور ہونٹوں کے درمیان کا حصہ مجموعی طور پر بپھرنے یا حملہ آور ہونے کی حالت کو ظاہر کرتا ہے۔ کچھ غراہٹ کی سی کیفیت ہے، مگر ساتھ ہی داہنی طرف ہونٹوں کاہلکا سا خم ایک دبے ہوئے طنز کو ظاہر کر رہا ہے۔ ایک ایسے آدمی کاطنز جو اپنے سے کسی کمتر چیز سے شکست کھاگیا ہو۔ انسان شکست کھاسکتا ہے اور شکست کھاکر بھی سکون حاصل کرسکتاہے۔ بشرطیکہ وہ اپنی روح کی گہرائیوں میں جان لے کہ اس کا حریف اس سے برتر تھا۔ مگر وہ آدمی جو اچھی طرح جانتا ہو کہ اسے کسی ایسی چیز نے شکست دی جو اس سے کمتر ہے، جو اسے شکست نہیں دے سکتی تھی۔ جسے ہارنا ہی چاہیے تھا۔ مگر کتنی تلخ ہے یہ حقیقت کہ وہ جیت گئی۔ وہ جیت گئی ہے۔ اور وہ کچھ نہیں کرسکتا۔ اور یہ غصہ اور بے بسی دونوں مل کر اوپر کے ہونٹ کا ہلکا سا خم بن گئے ہیں، صرف ہلکا سا خم۔ پھر نیچے کا ہونٹ اور ٹھوری اور چہرہ کا بایاں حصہ مل کر صبر کا تاثر پیش کرتے ہیں۔ یہ تو یونہی ہے، کیا کیا جاسکتا ہے۔ یہ تو یونہی ہے۔ خدا کی مرضی یہی تھی۔ یہ تو یونہی ہے۔ میرے خدا نے یہ سب کچھ خود برداشت کیا ہے۔ یہ تو یونہی ہے۔ 

    لیکن میں جس قمر جمیل کو برسوں سے جانتا ہوں۔ وہ مجھے یہ سب کچھ نہیں بتاتا۔ کون جانے یہ صرف تخیل کا دھوکا نہ ہو۔ بے زبان تصویر کی گواہی کون مانے گا۔ اس لیے آئیے گونگی تصویر کو چھوڑ کر اس طرف چلیں جو بولتی ہے ۔۔۔ شاعری

    ’’خواب نما‘‘ قمر جمیل کی شاعری کاپہلامجموعہ ہے۔ بلکہ مجموعہ کہنا تکلف ہے۔ یہ تو ان کی وہی چھوٹی سی کاپی ہے جو گھر میں کسی گرد آلود تختہ پر پڑی ہوئی تھی۔ اور انہوں نے اسے جھاڑپونچھ کر بازار میں رکھ دیا ہے۔ یہ مجموعہ تو بالکل نہیں معلوم ہوتا۔ مجموعہ ذراگمبھیر ہونا چاہیے۔ پھر یہ مجموعہ کیسا ہے۔ جس میں نہ انتساب ہے، نہ پیش لفظ، نہ حرفِ آخر، نظموں کی فہرست کا پتہ نہیں کیسے موجود ہے۔ لیکن نظموں کے سامنے یہ تک درج نہیں کہ کون سی نظم کس صفحہ پر ہے۔ آپ کا جی چاہے تو صفحے پلٹتے جائیے۔ ایک کے بعد ایک نظم آتی چلی آئے گی۔ ورنہ یہ بھی نہیں۔ ویسے ہی دیکھ کر چھوڑ دیجیے۔ وہ تو کہیے مجموعہ اتنا مختصر ہے کہ آپ ایک سانس میں پڑھ سکتے ہیں ورنہ۔ 

    کسی چیز کو اہمیت دینے کے لیے اسے تھوڑا بہت رسمی بنانا پڑتا ہے۔ شادی بیاہ کے رقعے قریب ترین عزیزوں کو بھی بھیجے جائیں تو لکھا جاتا ہے۔ ’’غریب خانہ پر قدم رنجہ فرماکر ماحضر تناول فرمایں۔ عین بندہ پروری ہوگئی۔ ’’خواب نما‘‘ ایسی دعوت نہیں دیتا۔ اس کا انداز کچھ ایسا ہے جیسے روزمرہ کے آنے جانے والوں سے کہا جائے۔ ’’یار چٹنی روٹی جو کچھ ہے کھاکر چلے جانا۔‘‘ خیر دوستوں کو یہ بے تکلفی بھی اچھی لگے گی۔ لیکن اہل بازارتو دور کے لوگوں میں ہیں انہیں اتنی غیررسمیت اچھی نہ لگے۔ 

    بہرحال مجھے تو قمر کی چٹنی روٹی بھی اچھی لگتی ہے۔ 

    ممکن ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ قمر جمیل چٹنی روٹی کہہ کر جو کچھ کھلاتے ہیں وہ دوسروں کے ’’خوانِ ضیافت‘‘ کے برابر ہوتاہے۔ نمونے کے طور پر چند چیزیں چکھ کر دیکھیے۔ 

    میرے خدا نے بہت صبر کیا میرے ساتھ
    ورنہ کہو سانحہ کیا نہ ہوا میرے ساتھ

    بادِصبا لے چلی، ایک نئے شہر میں 
    اور میرا قافلہ چل نہ سکا میرے ساتھ

    شہر کی گلیاں نہ تھیں پاؤں کی زنجیر تھی
    اور میرا شوق تھا رشتہ بپا میرے ساتھ

    اور میرے دشت ودر چھوڑ گیا میرے ساتھ

    یہ ستاروں میں بھٹکتی ہوئی رات! 
    ہم اسے اپنی تھکن جانتے ہیں! 
    اپنی ناکامیوں پہ آخر کار! 
    مسکرانا تو اختیار میں ہے! 
    یہ دشت میں گھومتا بگولہ! 
    مجھ آبلہ پا کا خواب جیسے! 
    کیسا عالم ہے کہ تنہائی بھی! 
    درو دیوار سے ٹکراتی ہے! 
    آسماں جیسے تنہائی میں چھپ گیا
    جیسے دنیا نظاروں سے گھبراگئی
    جیسے روتی ہوئی سوگئیں بدلیاں 
    چاندنی جیسے شبنم سے کملا گئی
    ڈالیاں جھک گئیں شام کے بوجھ سے 
    رات زنجیر پھولوں کو پہنا گئی
    یہ کسی کی محبت کا انجام ہے 
    یا طبیعت ہی جن سے اکتاگئی

    پوری غزل بہت اچھی ہے۔ چند شعر اور دیکھیے۔ 

    دردِ صہبا ہے اے غم دنیا
    کتنی کم، کتنی تیز، کتنی گراں 
    کچھ طبیعت ہے یوں بھی مائل غم
    اور تنہائی کہہ رہی ہے کہ ہاں 

    شہر کی گلیاں گھوم رہی میں میرے قدم کے ساتھ
    ایسے سفر میں، اتنی تھکن میں کیسے کٹے گی رات

    رات کا کل کی ہر شکن میں اسیر
    آنکھ پر نور آفتاب حرام
    آساں نہیں موسم کے گریباں سے الجھنا
    لیکن یہ تماشے بھی ہواؤں نے دکھائے 
    مشکل شعر کہا ہے۔ چندمصرعے اور

    ناچ رہی ہے چاند کے آگے جانے کتنی کالی دھوپ

    چند بگولے خشک زمیں پر اور ہوا میں تیز

    گفتگو سے اور بڑھ جاتا ہے جوش گفتگو

    درد کو دین سخن جانتے ہیں 

    یہ بدن کا لوچ جیسے روح بل کھانے کو ہے 

    خیر قمر جمیل کو اچھے برے اشعار تو پڑھنے والے خود ڈھونڈ کر نکال لیں گے۔ لیکن وہ قمر جمیل کہاں ہے جس کی ہمیں تلاش تھی؟ اصغر سے ملے لیکن اصغر کو نہیں دیکھا اور قمر تو اپنے اشعار میں بھی نمایاں نہیں ہوتا۔ 

    آپ اسے خوش گمانی کہیں یا بدگمانی لیکن پچھلے ۲۰، ۲۵ سال کی شاعری کے بارے میں مجھے یقین ہے کہ اس زمانے میں راشدؔ اور میراجیؔ کو چھوڑ کر کوئی اور شاعر ذاتی سوانح عمری سے بلند نہیں ہوسکا۔ خاص طور پر وہ لوگ جن کا موضوع عشق ہے۔ عشق یا تو عشق حقیقی بن جاتا ہے یعنی اپنی اور کائنات کی اور خدا کی تفتیش کا ذریعہ۔ ورنہ پھر اس کاخلاصہ (BOY MEETS GIRL) ہی رہتا ہے۔ خاتمہ شادی، عاشق ومعشوقہ کی نہیں۔ معشوق اور رقیب کی۔ یہ رومانی شاعری کی انتہا ہے۔ ترقی پسندوں نے اس ہلکے پھلکے رومان کو ذرا بھاری بھرکم بنانے کی کوشش کی تو اس میں سماجی صداقت کاذرا سا خمیر اور ملادیا۔ یعنی عاشق کی ناکامی کو اس کی بے زری کانتیجہ قرار دیا۔ اس طرح عاشق نظام زرکے خلاف کھڑا ہوگیا۔ اس بغاوت کی کئی منزلیں ہیں۔ غصہ، آوارگی مایوسی اور سب سے آخری خودکشی۔ 

    ترقی پسندوں نے یہ سوانح عمری سماجی عناصر کے ساتھ ذراکھلے ڈھلے انداز میں لکھی ہے۔ اور آپ کوئی بھی مجموعہ اٹھاکر اس کی تصدیق کرسکتے ہیں۔ لیکن یہ بات جس کاذکر کرتے ہوئے میں ہمیشہ کچھ تحقیر کا انداز اختیار کرتا ہوں اپنے اندر ایک تفریحی پہلو بھی رکھتی ہے۔ یہ ان لوگوں کی شاعری سے بہتر ہے جو ذاتی سوانح عمری بھی نہیں لکھتے۔ جس معاشرہ نے بحیثیت مجموعی عشق حقیقی سے انکار کردیا اس میں لکھنے کا واحد طریقہ عشق مجازی ہی رہ جاتاہے۔ ورنہ پھر سردار جعفری کی شاعری پیداہوتی ہے۔ ریل کا پہیہ جام کرو، میں نے اکثر ترقی پسند شعراء کے عشق مجازی پراعتراض کیا ہے۔ لیکن ان کی ذاتی حیثیت میں نہیں۔ ان کی تنقید دراصل میرے نزدیک اس معاشرہ کی تنقید ہے جو عشق مجازی سے بلندنہیں ہوسکتا۔ ورنہ جن لوگوں نے اتنا کام بھی نہیں دیکھا وہ میری فہرست میں شامل نہیں ہوتے۔ ’’خواب نما‘‘ پڑھتے ہوئے بار بار میں نے یہ دیکھنے کی کوشش کی کہ قمر صاحب اپنے بارے میں کیا بتاتے ہیں؟ 

    مجھے خوشی ہے کہ خواب نما نے مجھے مایوس نہیں کیا۔ گو قمر جمیل نے اپنی طرف سے بات چھپانے کی پوری کوشش کی ہے۔ برہنہ حرف نہ گفتن کمال دانائی است۔ قمر جمیل نے برہنہ حروف کی سترپوشی میں سچ مچ بڑی دانائی سے کام لیا ہے۔ ایک تو انہوں نے نظموں کی ترتیب گڈمڈ کردی۔ جن کو آخر میں جانا تھا وہ پہلے ڈال دی گئیں۔ جنہیں پہلے آنا چاہیے تھا وہ آخر میں پہنچا دی گئیں۔ کچھ کو گھپلا کرکے بیچ میں ٹھونس دیا گیا۔ ترقی پسند اپنے مجموعوں کی ترتیب میں اس دانائی کا ثبوت نہیں دے سکتے تھے۔ دوسری دانائی قمر نے یہ کی کہ نظموں کے ’’میں‘‘ کو کنعان کانام دے دیا۔ بس اب مسئلہ صاف ہے۔ سب سے پہلے ’’خط‘‘ پڑھیے،

    تیرے خط سے جھلکتی ہے تیری معصوم فطرت بھی مگر کیا مل سکے گی تجھ کو یہ آیندہ فرصت بھی؟ 

    اس کے بعد ’’حروف‘‘ تک پڑھ جائیے۔ چمک رہے ہیں فضا میں تارے۔ کہ تیری یادوں نے خط لکھا ہے۔ خط، محبوبہ نے لکھا تھا۔ حروف، محبوبہ کی یادوں نے لکھے ہیں۔ اس کے بعد ’دعا‘ ہے۔ تجھے زندگی میں وہ سکھ ملے جو کبھی مجھے بھی ملا نہیں۔ دوسروں نے اتنی داستان سنانے کے لیے پورے مجموعے سیاہ کردیے۔ قمر نے تین چار نظموں میں قصہ پاک کردیا۔ قصہ کی تفصیلات غائب ہیں۔ تفصیلات یا تو لکھی نہیں گئیں یا مجموعہ میں شامل نہیں کی گئیں۔ غالباً پہلا جواب زیادہ صحیح ہے۔ لکھی نہیں گئی۔ کیوں؟ خوف؟ مصلحت؟ محبوبہ کی رسوائی کااندیشہ؟ کچھ تو ہے کہ ان نظموں کا سیدھا سادھا ’’میں‘‘ دوسری نظموں کا کنعان بن جاتا ہے۔ کنعان نوح کے بیٹے کا نام تھا۔ اور نوح کانام طوفان سے وابستہ ہے۔ ایک ایسا طوفان جس نے سب کچھ تباہ کردیا۔ قمرؔ کاخواب نما کی ابتدائی نظموں کا ’’میں‘‘ کسی طوفان کے بعد اپنی مشابہت ’’کنعان‘‘ سے ڈھونڈھ لیتا ہے۔ پھر اس استعارے کی رعایتیں ہیں۔ اسی رعایت سے ایک نظم کاعنوان ہے ’’طوفان سے پہلے‘‘ ابتدا میں خوبصورت منظر کشی ہے۔ اس کے بعد۔۔۔ ع دفعتاً ایک تمکنت سے رسم ادا ہونے لگی۔ یہ رسم کنعان کی شادی کی ہے،

    آسماں کی سمت اٹھائے کاہنوں نے اپنے ہاتھ
    انجمن کے گوشہ گوشہ میں دعا ہونے لگی

    اے خدائے برق و باراں اے خدائے شش جہات
    جس طرح بہتا ہے مل کر ساتھ دجلہ کے فرات

    نوح کالختِ جگر کنعان سے وابستہ رہے 
    دختر شیخ انا ہمزہ کا دامانِ حیات

    ’’طوفان سے پہلے‘‘ یہاں ختم ہوجاتی ہے۔ شائد اس لیے کہ طوفان آگیا۔ قصہ ’’چہار خواب‘‘ میں پھر کچھ اشارے ملتے ہیں۔ 

    رسم ادا ہونے نہ پائی تھی کہ خمیوں کے قریب
    شہ نشین کی سمت دوڑے اس طرح وحشی نقیب

    کتنے ارمان کتنے غم اشکوں میں ڈھل کر رہ گئے 
    عین جشن رسم کے ہنگام کنعان کے گریز

    کتنے منظر عارض ولب کے پگھل کر رہ گئے 
    کتنے لب حسرت چشیدہ، کتنی آنکھیں اشک ریز

    جیسے ساغر آئیں ہاتھوں میں مگر ٹوٹے ہوئے 
    آخری شعر بہت گہرے ’’ذاتی تاثر‘‘ کا سراغ دیتا ہے۔ 

    چھیڑیو مت زندگی کے بال و پر ٹوٹے ہوئے 
    تار ہیں اس ساز کے اے نغمہ گر ٹوٹے ہوئے 

    خواب چہارم میں اِن لوگوں کا ذکر ہے جو اس طوفان کے ذمہ دار تھے۔ 

    یہ قبیلوں کے شیوخ پختہ عمر و سخت کوش
    لڑ رہے ہیں اپنی اپنی کج کلاہی کے لیے 

    یہیں سے قمر جمیلؔ کی نفرت کج کلاہوں کے لیے سیلاب کا خواب دیکھتی ہے۔ جس طوفان نے اسے تباہ کردیا وہ کسی دن انہیں بھی بہا لے جائے گا،

    تخت، میزان، سیف، ظل اللہ
    اور دریائے نیل کا سیلاب

    ایک اور ترقی پسند بنتا ہوانظر آتا ہے۔ 

    میں نے کہا میرے لیے کچھ سکوں 
    اس نے کہا ترے جنوں کے لیے 
    کام بہت شہر و بیابان میں ہے 

    لیکن شہر وبیابان کی فضا قمر جمیل کو کسی سبب سے راس نہیں آئی۔ نتیجہ، درد بھری آواز تو سن لو، درد بھری آواز نہ سمجھو۔ ہم قمرجمیلؔ کی اس جذباتی اپیل کا پاس کرتے ہیں۔ اور نفسیاتی جاسوسی کادلچسپ مگر ایک دو کے بعد غیر ضروری کام چھوڑ کر شاعری کی طرف لوٹتے ہیں۔ قمر جمیل اور ترقی پسندوں کی داستان ایک سہی۔ لیکن قمر جمیل اور ترقی پسندوں کی شاعری ایک نہیں ہے۔ ان دونوں میں فرق ہے۔ ترقی پسندوں کے ہاں جو بات بیشتر ایک امر واقعہ کابیان تھا۔ قمرؔ جمیل کی شاعری میں وہ ایک استعارہ بن جاتی ہے۔ خواب نما کے سارے خواب اسی استعارے سے پیدا ہوئے ہیں۔ 

    قمر جمیل کا ’’میں‘‘ جب اپنے کو کنعان بناتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ عہد حاضر کے ایک ناکام رومان کی داستان ماضی کے پس منظر میں بیان کی جارہی ہے۔ یہ ماضی فرد کا بھی ہے۔ اور انسانیت کا بھی۔ فرد کے ماضی کو انسانیت کا ماضی بنانے کے لیے قمر جمیل کو تخیل کا سہارا لینا پڑا۔ یہی تخیل قمر کی شاعری کو اس کے ترقی پسند رجحان کے باوجود واقعیت زدگی اور واقعیت پرستی سے بچالیتا ہے۔ قمر جمیل نے یہ کام دل لگاکر نہیں کیا ورنہ وہ ہماری ۲۰۔ ۲۵ سال کی مجموعی شاعری میں ایک اور رنگ کااضافہ کرتے۔ قمر جمیل یہ کام دل لگاکر کیوں نہیں کرسکے۔ ذاتی طور پر یہ سوال مجھے بہت دلچسپ معلوم ہوتا۔ لیکن یہاں ہم اس سوال پر غور نہیں کریں گے۔ ابھی ہمیں قمر جمیل کی شاعری کی ایک اور خصوصیت کو دیکھناہے۔ 

    قمرؔجمیل کی شاعری کاسرسری مطالعہ بھی یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے کہ اس پر بہ حیثیت مجموعی ایک تخیلی فضا حاوی ہے، جس کاخود قمر کو بھی احساس ہے۔ یہ بات کوئی بے وجہ نہیں کہ قمر نے اپنے مجموعہ کانام ’’خواب نما‘‘ رکھاہے اور نظموں کے عنوانوں میں بھی خواب کی تکرار کی گئی ہے۔ دجلہ کا خواب۔ قصہ چہار خواب اور ویسے بھی قمر جمیل خواب ناک فضا کی تعمیر میں جتنے کامیاب ہوئے ہیں، کسی اور کام میں نہیں ہوئے۔ خواب کی یہ فضا قمر کی پوری شاعری پر حاوی ہے او راپنی کیفیت اور رنگ کے اعتبار سے بہت منفرد ہے۔ اس فضا میں قمر جمیل کی شاعری کی سب سے اہم خصوصیت پروان چڑھتی ہے۔ یہ تشبیہوں کا بے تکان استعمال ہے۔ میرا خیال ہے کہ پچھلے پندرہ سولہ سال میں جتنے مجموعے شائع ہوئے ہیں ان میں تشبیہوں کا اس کثرت، کیفیت، اور تنوع کے ساتھ استعمال شاذ ہی کہیں اور ملے۔ 

    کاکلوں کے سبنلستاں عارضوں پر عکس ریز
    جیسے ساحل کا نظارہ آبِ دریا پر چلے 
    آگ کے اطراف روشن جیسے ایک فانوس رقص
    رقص کرتی لڑکیاں کچھ آگ کے اطراف ہوں 
    جیسے سطح آب پر مہتاب کے ہالے کا عکس
    جس کو جھولا سا جھلائیں موج ہائے سیم گوں 
    صرف تشبیہات دیکھتے چلئے 
    وہ جبینوں کے عرق میں جیسے شعلوں کے سراب
    جیسے صندل میں شراروں کے تبسم محو خواب
    کتنے لب حسرت چشیدہ کتنی آنکھیں اشک ریز
    جیسے ساغر آئیں ہاتھوں میں مگر ٹوٹے ہوئے 
    ننھے بچے یوں نگاہوں میں ابھرتے آگئے 
    جیسے اس محفل میں تارے ڈرتے ڈرتے آگئے 

    جیسے، جیسے، جیسے، ہر نظم میں، ہر شعر میں، ہر مصرعہ میں، یہاں تک کہ ایک پوری غزل کی ردیف ہے۔ جیسے،

    زنجیر بپا حباب جیسے
    ہم پر بھی ہیں آفتاب جیسے 

    یہ دشت میں گھومتا بگولہ
    مجھ آبلہ پا کاخواب جیسے 

    یوں دل میں تراخیال آیا
    صحرا میں کھلے گلاب جیسے 

    غزل ہی نہیں۔ نیل کے سیلاب کا ایک پورا بند بھی

    چتر شاہی کا عکس گلیو ں میں
    دشت میں آہوئے ختن جیسے 

    جنگجو بستیوں میں شہروں میں کوہساروں میں خیمہ زن جیسے 

    اڑ رہے ہیں ہواؤں میں پرچم
    ناگ لہرا رہے ہوں پھن جیسے 

    اور جہاں ’’جیسے‘‘ نہیں ہے۔ وہاں ’’یوں‘‘ ہے۔ اور جہاں ’’یوں‘‘ نہیں ہے وہاں ’’طور‘‘ یا ’’طرح‘‘ ہے۔ 

    حرف لکھوں نقش قدم کی طرح
    رقص کروں نوک قلم کی طرح

    ناز شیریں کاآئینہ دیوار؟ 
    وسعت فرہاد کی طرح محراب

    اور کہیں ’’یوں‘‘ اور’’جیسے‘‘ سب ایک ہی شعر میں۔ 

    باندھ رکھے ہیں سروں پر یوں پروں کے لالہ زار
    جیسے کہساروں میں کچھ طائر پر افشاں ہوگئے 

    تشبیہ۔ تشبیہ در تشبیہ۔ تشبیہ در تشبیہ۔ قمر جمیل کا فن یہی ہے۔ ان کے خوبصورت ترین اشعار بیشتر تشبیہی اشعار ہیں۔ 

    یہ پیالہ ہے کہ دل ہے یہ شراب ہے کہ جاں ہے 
    یہ درخت ہیں کہ سائے کسی دست مہربان کے 

    چلو موج گل سے پوچھیں یہ سراب ہے کہ شبنم
    یہ بہار ہے کہ شعلے کسی شوق نیم جاں کے 

    یہ پھول یہ شاخوں پہ دیے کس نے جلائے 
    کوئی زنجیر ہے کہ رشتہ جاں 

    خواب نما کے مطالعہ کے دوران مجھے بار بار یہی خیال آتا ہے کہ قمر کے دماغ میں تصویریں ہی تصویریں ہوں، خوبصورت، رنگین، جھلملاتی ہوئی روشنیوں اوررنگوں کے ساتھ۔ ان کی خوبصورت ترین نظم’’نیل کا سیلاب‘‘ تو سچ مچ کی پکچر گیلری ہے۔ 

    یہ محل، یہ نقیب، یہ خدام
    اور یہ شمع دان یہ گلفام

    سائے کس طرح شمع دان کے ساتھ
    ایستادہ دست بستہ غلام

    نیلگوں پیرہن میں خواجہ سرا
    دست نازک میں خلعت انعام

    یہ صراحی یہ سیم گوں سائے
    پردۂ درپہ ارغوانی جام

    نقش دیوار مانی و بہزاد
    پابہ زنجیر رستم و بہرام

    طاق ایران میں جھلملاتی ہوئی
    روشنی کچھ کبود کچھ گلفام

    آپ نے کبھی دیوماسٹر میں ’’الہ دین اور اس کے چراغ‘‘ کی تصویری کہانی دیکھی ہے؟ مجھے یہ منظر ایسی ہی کسی تصویر کی طرح معلوم ہوتاہے۔ خوبصورت، رنگین، تفصیلات کے اعتبار سے مکمل، لیکن ساکن۔ ساکن۔ اس میں حرکت نہیں ہے۔ ہر چیز جہاں ہے وہیں ٹھہر گئی ہے اور ریکارڈ کرلی گئی ہے۔ شمع دان کے ساتھ غلام سائے کی طرح کھڑا ہوا ہے۔ یہ ذرا حرکت کرے تو سائے سے آدمی بن جائے۔ مگر وہ حرکت نہیں کرسکتا۔ وہ صرف سایہ ہے اور اس حالت میں ساکن کردیا گیا ہے۔ 

    نیلگوں پیرہن میں خواجہ سرا دست نازک میں خلعتِ انعام تھامے ہوئے ہے اور بس۔ اسی حالت میں منجمد ہوگیا ہے۔ نقشِ دیوار مانی و بہزاد۔ لیکن اس تصویر میں مانی و بہزادہی نقشِ دیوار نہیں ہیں بلکہ زندہ کردار بھی نقش دیوار بنادیے گئے ہیں۔ یہ تصویر جس منظر کو پیش کرتی ہے وہ خود بھی تصویر ہے۔ 

    تصویر در تصویر یہی قمر جمیل کے وژن (VISION) کی اصلی اور بنیادی خصوصیت ہے۔ اس خصوصیت میں وہ بالکل منفرد ہیں۔ یہ ان کاذاتی جوہر ہے۔ اس میں ان کاکوئی شریک نہیں۔ تشبیہیں دوسروں نے بھی لکھی ہیں، مگر وہ ان کافن ہے وژن نہیں۔ قمر کی شاعری کا سب سے زیادہ نیا اور منفرد پہلو یہی ہے۔ دنیا انہیں تصویر کی صورت میں نظر آتی ہے۔ یا یوں کہیے کہ تصویروں کے مجموعہ کی صورت میں۔ قمر جمیل ک وژن دیوماسٹر وژن ہے۔ 

    میں نے اوپر کہیں کہا تھا۔ قمر جمیل کاوژن تشبیہ کا فن ہے، تشبیہ، تشبیہ در تشبیہ، تشبیہ در تشبیہہ در تشبیہ۔ لیکن اب پتہ چلتا ہے کہ یہ ان کا فن نہیں ہے بلکہ ان کا وژن ہے۔ جو دنیا کو صرف تصویروں میں دیکھتا ہے۔ 

    ایک ورق جس پر مصور کے ہاتھ بات کریں۔ حسن فراوان کے ساتھ۔ قمر جمیل اسے فن بنادیتے تو ان کی شاعری اس عہد کی ایک بڑی حقیقت کاآلہ اظہار بن جاتی۔ قمر جمیل یہاں مار کھاتے ہیں۔ انہوں نے اپنے وژن (VISION) کو فن نہیں بنایا۔ 

    فن بنانے کا مطلب کیا ہے؟ 
    ہم اپنی حقیقت کو بدل نہیں سکتے۔ ہم جو کچھ ہیں وہ ہیں۔ فن اس حقیقت کا شعوری اظہار ہے۔ دنیا کا ہرآدمی اپنی حقیقت کے مطابق زندہ رہتاہے۔ فن کار بھی اور عام آدمی بھی۔ فن کار اورعام آدمی میں فرق یہ ہے کہ فن کار اس حقیقت کو جانتا ہے۔ جاننے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ اورجتنا جانتا ہے۔ اس کااظہار کرنے کی کوشش کرتارہتاہے۔ اور یہ ایک جدلی عمل ہے۔ کبھی وہ جان کر اظہار کرتا ہے، اور کبھی اظہار کرکے جانتا ہے۔ یہاں تک کہ فن کار کی حقیقت، انفرادی حقیقت ہوتے ہوئے بھی آفاقی حقیقت بن جاتی ہے۔ یعنی دنیا کے سارے تعینات میں اس کا اپنا تعین قائم ہوجاتا ہے۔ یہ اعلیٰ ترین مقام ہے جو کسی فن کار کو حاصل ہوسکتاہے۔ اس کے بعد اس اعتبار سے فن کاروں کے درجے ہیں کہ کتنا جانا اور کتنا اظہار کیا۔ 

    اپنی حقیقت کو فن بنانے کا مطلب ہے۔ اسے جاننا اور اس کا اظہار کرنا۔ قمر جمیل کے پاس دیوماسٹر تو ہے مگر وہ اسے کام میں نہیں لاتے۔ اس کی مدد سے وہ دیکتے تو ہیں مگر سوال دیکھنے یا نہ دیکھنے کے درمیان نہیں ہے۔ کیونکہ نہ دیکھنے کی صورت میں وہ شاعر نہ ہوتے۔ سوال نہ دیکھنے کا نہیں ہے۔ بلکہ دیکھنے کی مقدار کا۔۔۔ کاش قمر جمیل اپنے فن سے کچھ زیادہ مخلص ہوتے۔ 

    یہاں ایک اہم سوال اور۔ 

    اس عہد کی وہ بڑی حقیقت کیا ہے جو قمر جمیل کی شاعری کے ذریعہ اظہار پاسکتی ہے؟ کیا بڑی حقیقت کے الفاظ میں نے اس طرح لکھے ہیں جس طرح پیشہ ور نقاد اور تبصرہ نگار عظیم انسان، عظیم ادیب اورعظیم شاعر کے تمغوں کو اپنے ممدوحین کے سینے پر چسپاں کرتے رہتے ہیں۔ 

    ممکن ہے قمر جمیل مصطفیٰ زیدی کی طرح ڈپٹی کلکٹر قسم کی چیز ہوتے تو میں بھی یہی کرتا۔ لیکن فی الحال ایسی کوئی امید نہیں۔ اس لیے مایوسی کے ساتھ کسی فائدہ یا نقصان کی امید یا خوف کے بغیر وہی کہنا پڑتا ہے جو نظر آتا ہے۔ غلط یا صحیح کا فیصلہ اہل دبستان کرلیں گے۔ 

    وہ بڑی حقیقت کیا ہے؟
    افسوس کہ وہ خوشگوار حقیقت نہیں ہے بلکہ ہولناک۔ 

    قمرجمیل کی شاعری اگر وہ اپنی فنی کاوش کو جاری رکھیں اور اسے اس کی تکمیل تک پہنچادیں تو ہمیں بتاسکتی ہے کہ ہم اندر سے مرچکے ہیں اورصرف آنکھوں میں دم باقی رہ گیا ہے۔ نہیں یہ تو اس حقیقت کا پہلا مرحلہ تھا۔ گوہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے * رہنے دو ابھی ساغر و مینا میرے آگے۔ غالب اسی مرحلہ کا شاعر تھا۔ اس غزل کے باقی اشعار کاطمطراق یاد رکھیے اور پھر اس شعر کو پڑھیے۔ کیسا تضاد ہے۔ یہ اس کیفیت کا مکمل اظہار تھا جو دم توڑتے ہوئے آدمی پر آخری لمحوں میں وارد ہوتی ہے۔ جب زندگی کی ساری فتوحات اور ساری شکستیں ایک لمحہ میں سمٹ آتی ہیں۔ ایک آخری شکست میں تحلیل ہوجانے کے لیے۔ غالبؔ کی یہ غزل بلکہ ان کی پوری شاعری اس امر کااظہار ہے کہ ہم اجتماعی موت کی کیفیت میں داخل ہوچکے ہیں۔ پچھلے سو سال میں ہم اس کیفیت کے مختلف مراحل سے گزرے۔ 

    غالب کے زیر سایہ ہونے والی ساری شاعری، اور اس کے سایہ سے کون بچاہے۔ کیفیت مرگ کی شاعری ہے خواہ وہ فانی کی طرح موت کے اثبات کی شاعری ہو۔ یا جوش کی طرح موت کے انکار کی، چیخنے دھاڑنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ رونے اور سسکنے سے بھی نہیں۔ فتوحات کی یاد سے بھی نہیں۔ مرگ و زیست کو صرف فلسفہ بنادینے سے بھی نہیں۔ یہ سب موت کی کیفیت کے مختلف مرحلے ہیں۔ 

    خواب نما کی شاعری ہمیں بتاتی ہے کہ ہم پر ہماری نسل پر آخری لمحہ اور آخری مرحلہ بھی گزر چکاہے۔ کہتے ہیں کہ دنیا کا آخری نظارہ تصویر بن کر مرنے والے کی آنکھ میں مرتسم ہوجاتا ہے۔ دنیا تصویر اس وقت بنتی ہے۔ جب آنکھوں کا دم بھی رخصت ہو رہا ہو۔ قمر جمیل کی شاعری ہمیں بتاسکتی ہے کہ ہم نے، ہماری نسل نے، آنکھوں سے دم رخصت ہوتے وقت دنیا کو کس طرح دیکھا۔ 

    مجھے یاد آرہے ہیں وہ چراغ جن کے سائے 
    کبھی دوستوں کے چہرے، کبھی داغ رفتگاں کے

     

    مأخذ:

    ادب لطیف،لاہور (Pg. 14)

      • ناشر: دفتر ماہنامہ ادب لطیف، لاہور
      • سن اشاعت: 1964

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے