Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کچھ آتش کے بارے میں

آل احمد سرور

کچھ آتش کے بارے میں

آل احمد سرور

MORE BYآل احمد سرور

    اردو میں تنقید حالیؔ سے شروع ہوئی۔ حالیؔ نے جب ہوش سنبھالا تو فکر و فن پر لکھنؤ کا خاصا اثر تھا۔ یہاں تک کہ غالبؔ جیسا صاحبِ نظر ناسخؔ کے رنگ کی طرف کبھی کبھی للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ لیتا تھا۔ حالیؔ نے مجموعۂ نظم حال کے دیباچے میں، مسدس کے دیباچے میں اور پھر مقدمے میں قدیم رنگِ سخن سے بیزاری کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے مقدمے میں اردو غزل کی بیشتر خامیوں کا ذمے دار متاخرین خصوصاً لکھنؤ کے شعراء کو ٹھہرایا ہے۔ یہ صرف دبستانی عصبیت نہ تھی، فکر و فن کے ایک نئے احساس کی کارفرمائی تھی۔

    لکھنؤ کے شعراء میں سے آتشؔ، مصحفیؔ کے اثر سے دہلی کے قریب تھے، ان کا فن سر تا سر لکھنوی ہے مگر ان کے فکر میں دہلی اور لکھنؤ کی دھوپ چھاؤں ملتی ہے۔ غالبؔ نے ان کے یہاں ناسخؔ سے زیادہ نشتر پائے مگر آزادؔ نے ’’آب حیات‘‘ میں جس طرح انیسؔ و دبیرؔ دونوں کو برابر قرار دیا، اسی طرح ناسخؔ و آتشؔ کو بھی۔ حالیؔ کے بعد کے تذکرہ نویسوں اور نقادوں نے لکھنؤ اسکول کے ساتھ انصاف نہیں کیا اور اگرچہ آتشؔ کے تغزل کو برابر سراہتے رہے مگر آتشؔ کی خوبیوں کو پوری طرح اجاگر نہ کر سکے۔ آزادؔ، حالیؔ، امداد امام اثرؔ، عبد الحیٔ، عبدالسلام ندوی، آتشؔ کے تغزل کے معترف ہیں مگر ان میں سے کسی کو ان کی عظمت کا پورا احساس نہیں ہے۔ حالیؔ کی مصلحانہ تنقید کا اثر سب پر نمایاں ہے۔

    جدید تنقید حالیؔ کے اثر سے قبل از وقت نظریاتی ہوگئی۔ اس پر تحسین کا دور پوری طرح نہیں گذرا۔ تحسین سب کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی تنقید کی دنیا میں بہت کچھ ہے۔ تنقید تخلیق کی باز آفرینی نہیں ہے۔ باز آفرینی بھی ہے۔ یہ تجربے کی ترجمانی کا نام نہیں مگر ترجمانی کے بغیر تبصرے کا کام اچھی طرح انجام نہیں پا سکتا۔ جدید دور میں چونکہ اساتذہ کے مطالعے کا ذوق کم ہو گیا ہے اس لیے کم لوگ براہ راست شاعر کا مطالعہ کرتے ہیں۔ وہ زیادہ تر مروجہ تنقیدوں سے متاثر ہوتے ہیں۔ ان کی نظر میں چند اشعار ہوتے ہیں جو کسی خالص دعوے کے ثبوت میں پیش کیے جاتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ چند بندھی ٹکی راہیں ذہنوں میں راسخ ہو جاتی ہیں اور حریت فکر اور آزادی کی رائے جو ادب اور تنقید دونوں کے لیے ضروری ہے، مجروح ہو جاتی ہے۔

    مروجہ تنقید کا اثر یہ ہوا ہے کہ لکھنؤ اسکول کو اس کا حق نہیں ملا اور صرف لکھنؤ کے شعراء کو ان تمام خرابیوں کا ذمہ دار قرار دے دیا گیا، جو دراصل ایک خاص ماحول کی خرابیاں تھیں اور جو دہلی اور لکھنؤ دونوں میں تھوڑے سے فرق سے پائی جاتی ہیں۔ شعر الہند اس لحاظ سے سب سے زیادہ گمراہ کن ہے کیونکہ اس میں چند اشعار کے مطالعے سے سرسری رائیں ظاہر کی گئی ہیں اور ان رایوں کے پیچھے شاعری کا کوئی گہرا اور جامع شعور نہیں ہے۔

    ہماری شاعری میں سب سے زیادہ توجہ بول چال کی زبان پر کی گئی ہے اور اسی لیے بہت سے نقادوں نے زبان، سلاست اور روانی پر بڑا زور دیا ہے یا بندش کی چستی اور تشبیہ کی برجستگی پر وجد کیا ہے۔ بلاشبہ زبان کی شاعری میں بڑی اہمیت ہے مگر شاعری صرف الفاظ کا طلسم نہیں ہے۔ یہ جذبے کی زبان ہے اور جب تک دل میں جذبے کی تھرتھراہٹ محسوس نہ ہو، بے جان لفظوں کا مجموعہ رہے گی۔ یہ خیال کے پرجوش اظہار کا نام ہے یعنی یہاں صرف خیال کی اہمیت نہیں ہے۔ اس خیال کے احساس سے اور احساس کے جوش میں ڈھلنے کا بھی سوال ہے۔ زبان کے تین پہلو ہیں۔ ایک علمی یا سائنسی زبان، ایک روز مرہ یا بول چال کی زبان اور ایک ادبی زبان۔ ادبی زبان نہ مکمل طورپر بول چال کی زبان ہو سکتی ہے نہ مکمل طورپر علمی۔ ہاں دونوں سے مدد لے سکتی ہے۔

    ادبی زبان میں اظہار تحقیقی یا تاثراتی ہوتا ہے یعنی لفظ صرف مفہوم ادا نہیں کرتا تاثر بھی رکھتا ہے۔ اس لحاظ سے ادبی زبان، بول چال کی زبان بھی ایک تاثر ہوتا ہے مگر آئے دن کاروباری استعمال سے اس کا تاثر محدود اور مقرر ہو جاتا ہے۔ علمی زبان تاثر عطا نہیں کرتی، یہ صرف معلوماتی ہوتی ہے۔ ادبی زبان لفظ کے اندر چھپے ہوئے معنی کو اجاگر کرتی ہے۔ یہ اس کے امکانات واضح کرتی ہے اور اس طرح زبان کے حدود کو وسیع کرتی ہے۔ ادیب کے استعمال سے لفظ میں ایک برقی رو مقید ہو جاتی ہے اور جب شعر پڑھا یا سنا جاتا ہے، یہ شاعر سے سننے یا پڑھنے میں منتقل ہوتی ہے۔ یہ برقی رو بول کی زبان سے بھی حاصل کی جا سکتی ہے اور ایک حد تک علمی زبان کے سلیقے کے استعمال سے بھی، مگر در اصل یہ ادبی زبان کی خصوصیت ہے اور اس کے ذریعہ سے شاعری اپنا جادو جگاتی ہے۔ یہ کبھی نشہ بنتی ہے، کبھی ترقی، کبھی نشتر، کبھی تلوار، کبھی شعلہ، کبھی شبنم، کبھی طوفان، کبھی ساحل، کبھی جوئے کہستاں، کبھی بحر بیکراں۔

    ہمارے قد ما لفظ کے اس جادو سے باخبر تھے۔ وجہیؔ سے لے کر میرؔ تک سب نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے مگر وہ جلد سے جلد ویرانے میں پھول کھلانا چاہتے تھے۔ انہیں اس کا ہوش نہ تھا کہ پھولوں کے انتخاب میں، روش کی قطع میں موزونیت اور تناسب کو ملحوظ رکھیں۔ لکھنؤ اسکول میں بہت سی خرابیاں تھیں مگر اس کا یہ احسان کیا کم ہے کہ اس نے شاعری کی قدر کی اور شعراء کو سر آنکھوں پر بٹھایا۔ شاعری کو فن بنایا اور فن کے آداب وضع کیے۔ ایسا کرنے میں انہوں نے بہت سی لطافتوں کا خون کردیا۔ بہت سے نرم اور شیریں الفاظ کو ٹکسال باہر قرار دیا۔

    قواعد کا نہایت سخت حصار بنایا مگر ان کی اس خدمت کا اعتراف ضروری ہے کہ انھوں نے ہر معنی میں اردو شاعری کی سرپرستی کی، اسے وسعت عطا کی، تنوع دیا، رنگا رنگی بخشی، جہاں خون جگر کے باغ تھے، وہاں نئے نئے پھول کھلائے، جہاں محرومی اور ناکامی تھی وہاں نشاط اور کامرانی کی لے پیدا کی۔ ماورائیت کے بجائے ارضیت سکھائی، جسمانی حسن کا احساس دیا اور شاعری کو گرد و پیش کی حقیقتوں سے آئینہ بنایا اور اس کے آئینہ سے ہر قسم کا کام لیا۔

    لکھنؤ اسکول دہلی اسکول سے کئی معنی میں ترقی یافتہ ہے۔ دہلی کا شاعر پراگندہ روزی پر پراگندہ دل ہے۔ وہ زندگی کی تلخیوں سے گھبرا کر کبھی تصوف میں پناہ لیتا ہے اور کبھی سستی لذت پرستی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے پاس زبان کا جو سرمایہ ہے وہ خاصا جاندار مگر بکھرا ہوا ہے۔ اس کی چال میں ایک فطری روانی ہے مگر باقاعدگی نہیں، وہ چند موضوعات کے سہارے چلتا ہے، اسے اپنے مطلب کے ادا کرنے کے لیے جہاں سے لفظ ملیں لے لیتا ہے، وہ اپنے جام سفال پر قانع ہے، اسے شیشہ و مینا سے غرض نہیں۔ اس کی کان سے جو سونا نکلتا ہے اس کی ڈلک کبھی نگاہوں کو خیرہ کر دیتی ہے، کبھی اس میں دھرتی کے دوسرے اجزا ملے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس معدنی پیداوار کو صاف کر کے سونا لکھنؤ نے بنایا۔ شاعری میں ایک منزل سونا نکالنے کی ہے۔ دوسری منزل اسے صاف کر کے اس سے زیور بنانے کی ہے۔ کان کن کا ایک درجہ ہے۔ صناع کا دوسرا۔ اور شاعری صناعی بھی ہے۔ اس لیے آتشؔ کے یہ شعر ایک حقیقت کی ترجمانی کرتے ہیں۔ یہ ساری حقیقت نہیں۔

    کھینچ دیتا ہے شبیہِ شعر کا خاکہ خیال

    فکر رنگیں کام کرتی ہے اس پر پرواز کا

    بندش الفاظ جڑنے سے نگوں کے کم نہیں

    شاعری بھی کام ہے آتشؔ مرصع ساز کا

    اس سلسلے میں شیکسپیر کے یہ الفاظ بھی یاد آتے ہیں،

    As Imagination Bodies Forth, The Form

    Of Things Unknown

    The Poet’s Pen, Turns Them Into Shape

    And Gives To Airy Nothings

    A Local Habitation And Name

    آتشؔ نے خیال، فکر رنگیں، بندش الفاظ اور مرصع سازی کے چار مرحلے بتائے ہیں۔ انصاف یہ ہے کہ شاعری کے عمل کے متعلق یہ مرحلے بڑی اہمیت رکھتے ہیں مگر آتشؔ کی شاعری کی صرف یہ اہمیت نہیں ہے کہ وہ مرصع سازی کا کمال ظاہر کرتی ہے، مرصع سازی کا کمال ظاہر کرتی ہے مگر مرصع سازی شعریت کا بدل نہیں بن سکتی۔ آتشؔ کی مرصع سازی کے پیچھے احساس کی ایک خاص دنیا ہے جس کا تجزیہ ضروری ہے۔

    دہلی کی شاعری دروں بینی کا کمال دکھاتی ہے۔ شاعری اپنی فکر کا باغ لگاتا ہے، اپنے زخموں کے چمن کھلاتا ہے۔ اسے حسن سے زیادہ اپنا عشق عزیز ہے۔ یہ عشق چشم خوں بستہ، دل پر خوں کی گلابی میں ظاہر ہوتا ہے۔ مصحفیؔ کے یہاں ہمیں حسن کے رنگوں، خوشبو، لباس کی شوخی، جسم کے خم و پیچ کا پہلی دفعہ احساس ہوتا ہے۔ یہ لکھنؤ کا اثر ہے اور اسے ہم صحت مند اثر کہہ سکتے ہیں۔ آتشؔ مصحفیؔ کے شاگرد تھے۔ انہیں کے اثر سے آتشؔ کے یہاں حسن کا ایک ایسا شوخ اور رنگین احساس ملتا ہے جو ان کے اشعار کو ہماری عشقیہ شاعری کا ایک قابل فخر سرمایہ بنا دیتا ہے۔ آتشؔ حسن کی عکاسی بھی کرتے ہیں مگر ان کے یہاں حسن کی مصوری ہے۔ مصور جب تصویر کھینچتا ہے تو نقش میں نقاش کا تخیل اور احساس ایک نئی زندگی بھر دیتا ہے۔ اب تصویر صرف خطوط اور رنگوں کا مجموعہ نہیں رہتی۔ منھ سے بولنے لگتی ہے۔ آتشؔ کے بہترین اشعار اس رنگین احساس کا نگار خانہ ہیں،

    نظر آتی ہیں ہر سو صورتیں ہی صورتیں مجھ کو

    کوئی آئینہ خانہ کارخانہ ہے خدائی کا

    عالم حسن خدا داد بتاں ہے کہ جو تھا ناز و انداز

    بلائے دل و جاں ہے کہ جو تھا

    نظر آتے ہیں خال عنبریں گرد لب لعلیں

    سپاہ زنگ نے شہر بدخشاں میں عمل پایا

    کیا بیاں عالم زوال حسن خوباں کا کروں

    روشنی جاتی رہی سرو چراغاں رہ گیا

    لگے منھ بھی چڑانے دیتے دیتے گالیاں صاحب

    زباں بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجئے دہن بگڑا

    بناوٹ کیف مے سے کھل گئی شوخ کی آتشؔ

    لگا کر منھ سے پیمانے کو وہ پیماں شکن بگڑا

    خدا سر دے تو سودا دے تری زلف پریشاں کا

    جو آنکھیں ہوں تو نظارہ ہو ایسے سنبلستاں کا

    اس بلائے جاں سے آتشؔ دیکھیے کیوں کر نبھے

    دل سوا شیشے سے نازک دل سے نازک خوئے دوست

    خوشبو سے ہو رہا ہے معطر دماغ جاں

    چلتی ہے کس طرح کی ہوا کچھ نہ پوچھپے

    دیدۂ یعقوب سے دیکھا جو عالم کی طرف

    یوسف اس بازار میں ہر سو نظر آیا مجھے

    کسی دن تو اے یوسف لقا تازہ دماغ اپنا

    کبھی تو راہ ادھر بھی تیری بوئے پیرہن بھولے

    اس طفل مہ جبیں نے جو رکھی کلاہِ کج

    پیر فلک نے پھینک دی دستار آفتاب

    قدم صنم سا اگر آفریدہ ہونا تھا

    نہ سرو باغ کو اتنا کشیدہ ہونا تھا

    چمن میں شب کو جو وہ شوخ بے نقاب آیا

    یقین ہو گیا شبنم کو آفتاب آیا

    حسن و جمال سے ہے زمانے میں روشنی

    شب ماہتاب کی ہے تو دن آفتاب کا

    ان کی ایک مسلسل غزل میں یار کا سراپا بیان کیا گیا ہے۔ چشم تصور محبوب کے جسم کے گرد ایک نوریں ہالہ بنا دیتی ہے۔ مضامین رسمی ہیں مگر انداز بیان میں احساس کی گرمی محسوس ہوتی ہے۔ صرف مطلع اور مقطع یہاں پیش کیے جاتے ہیں،

    چاندنی میں جب یاد اے ماہ تاباں کیا

    رات بھر اختر شماری نے مجھے حیراں کیا

    دست و بازو کے تصور میں ہوا آتشؔ میں قتل

    پائے بوسی کی ہوس نے خاک سے یکساں کیا

    آتشؔ کے یہاں حسن کی مصوری میں احساس سے رنگ آتا ہے۔ یہی احساس واردات عشق کی کیف و سرمستی کی دنیا بنا دیتا ہے۔ میرؔ کے یہاں عشق ایک آزار ہے مگر آتشؔ کے یہاں ایک شراب ہے۔ ایک خوشبو ہے، ایک چاندنی ہے، ایک رقص و وجد کی شے ہے، یہ عشق ماورائی نہیں ہے، اس میں جسم کی آنچ، اعضا کا نقش جمیل، زخم کی مہک، جذبے کی گرمی اور ذوق و شوق کی لذت ہے۔ آتشؔ اردو کے پہلے عاشق سرشار ہیں۔ نقادوں نے ان کے یہاں حافظ کا سا جوش اور وجد و کیف محسوس کیا ہے اور وہ اسی وجہ سے ہے۔ میرے نزدیک آتشؔ کے یہاں حسن کی مصوری اور عشق کی کیفیات کی نقاشی کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔ اسی وجہ سے ان کی شاعری احتساسی ہے۔ یہ شعر ملاحظہ کیجئے،

    خوشا وہ دل کہ ہو جس دل میں آرزو تیری

    خوشا دماغ جسے تازہ رکھے بو تیری

    کوچۂ دلبر میں میں، بلبل چمن میں مست ہے

    ہر کوئی یاں اپنے اپنے پیرہن میں مست ہے

    کام ہے شیشے سے ہم کو اور نہ ساغر سے غرض

    مست رہتے ہیں شراب روح پرور سے غرض

    جہان و کار جہاں سے ہوں بے خبر میں مست

    زمیں کدھر ہے کہاں آسماں نہیں معلوم

    سبوئے غنچہ ہے معمور، جام گل لبریز

    ٹپک رہی ہے شراب ابر نو بہاری سے

    کوچۂ یار میں سائے کی طرح رہتا ہوں

    در کے نزدیک کبھی ہوں کبھی دیوار کے پاس

    پائے زخم مستوں کے ہو، حق کا وہی عالم ہے

    سرِ منبر وہی واعظ کا بیاں ہے کہ جو تھا

    نہ پوچھ حال مرا چوب خشک صحرا ہوں

    لگا کے آگ مجھے کارواں روانہ ہوا

    کیے ہیں شکر کے سجدے جفائے یار پر کیا کیا

    رہا ہے دل مرا راضی رضائے یار پر کیا کیا

    الٹا اُدھر نقاب تو پردے پڑے اِدھر

    آنکھوں کو بند جلوۂ دیدار نے کیا

    اس سلسلے میں ان کی وہ مسلسل غزل آتی ہے جس کا مطلع ہے،

    شب وصل تھی چاندنی کا سماں تھا

    بغل میں صنم تھا خدا مہرباں تھا

    اچھی عشقیہ شاعری کے متعلق یہ ایک بڑی بلیغ بات کہی گئی ہے کہ وہ صرف عشقیہ نہیں کچھ اور بھی ہوتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ عشق زندگی کی ایک علامت بن جاتا ہے اور بادہ و ساغر کے پردے میں مشاہدۂ حق ہی نہیں مطالعۂ کائنات اور بعض حقائق پر اس انداز سے تبصرہ ہوتا ہے کہ شعر ایک ابدی حقیقت کا پرتو بن جاتا ہے اور ہر دور میں اپنی تازگی قائم رکھتا ہے۔ یہاں سوال دوامی قدروں کا نہیں، ان جذبات و کیفیات کا ہے جو عام ہیں اور بدلتے ہوئے بھی ایک مستقل حیثیت رکھتی ہیں اور انسانی فطرت اور نفسیات کے متعلق ایک ایسی بصیرت عطا کرتے ہیں جو دیرپا مسرت کا باعث ہوتی ہے۔ یہ خصوصیت ہر بڑے شاعر میں ہوتی ہے۔ اس کے اثر سے ایسے اشعار وجود میں آتے ہیں جو زندگی کے مختلف لمحات میں رفاقت کرتے ہیں، جو ان کیفیات کی ترجمانی کرتے ہیں جو ہر ایک پر گذر سکتی ہے۔ اسی لیے انھیں بار بار دہرایا جاتا ہے۔ چند مثالوں سے یہ بات واضح ہو جائےگی۔

    پیام بر نہ میسر ہوا تو خوب ہوا

    زباں غیر سے کیا شرح آرزو کرتے

    آئے بھی لوگ، بیٹھے بھی اٹھ بھی کھڑے ہوئے

    میں جا ہی ڈھونڈتا تری محفل میں رہ گیا

    مشتاق در دعشق جگر بھی ہے دل بھی ہے

    کھاؤں کدھر کی چوٹ، بچاؤں کدھر کی چوٹ

    زمین چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا

    بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

    سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا

    کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا

    بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا

    جو چپرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا

    سفر ہے شرط نواز مسافر بہتیرے

    ہزارہا شجر سایہ دار راہ میں ہیں

    ناگفتنی ہے عشق بتاں کا معاملہ

    ہر حال میں ہے شکر خدا کچھ نہ پوچھیے

    آتشؔ کے یہاں عاشقی کے ساتھ ایک بانکپن اور قلندرانہ شان بھی ہے۔ یہ قلندرانہ شان صرف تصوف کے اثرات کی رہین منت نہیں ہے۔ اگرچہ اس کا سرچشمہ متصوفانہ خیالات میں ملتا ہے۔ یہ ایک تہذیبی قدر بھی ہے۔ دربار کے اس ماحول میں جہاں عیش پسندی اور مدح گوئی کی فضا سب سے نمایاں ہے۔ آتشؔ کی قلندرانہ شان انسان دوستی اور ایک اخلاق کی علامت بن جاتی ہے۔ اس انسان دوستی پر مذہب کی چھاپ ہے اور اس اخلاق میں بھی مذہب کی روح کام کر رہی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ ایک وسیع الخیالی، آزاد مشربی، رندی اور فراخ دلی ہے جو ہماری مشترک تہذیب کی دین ہے۔

    ہماری شاعری میں مے ومیکدہ کی اصطلاحیں صرف علامت ہی نہیں ہیں، تہذیب کے رموز بھی ہیں۔ اس طرح ولیؔ و میرؔ کی روایت جو غزل کے اشاروں میں بیان ہوئی ہے اور جسے نظیرؔ نے اپنی نظموں میں بڑے دل آویز نقش و نگار عطا کیے ہیں، آتشؔ کی غزل میں اور مستحکم نظر آتی ہے۔ اس میں وحدت الوجود کے تصور کا عکس ہے یعنی اس کے پیچھے ایک ایسا فلسفہ ملتا ہے جس میں عجم کا حسن طبیعت اور ہندی ذہن کی پرواز دونوں ملے جلے ہیں مگر انصاف کی بات یہ ہے کہ آتش کے یہاں یہ فکری میلان لکھنؤ اسکول سے تعلق قائم رکھتا ہے۔

    اردو شاعری کی روایت اور ہندوستانی تہذیب کے مزاج سے زیادہ یعنی آتشؔ اپنے دور کے نمائندے ہوتے ہوئے بھی انسان دوستی کی اس صالح روایت کے علمبردار ہیں جو ولیؔ سے ہماری غزل میں اپنی بہار دکھاتی ہے اور جس کے لیے تصوف ایک سہارا اور رفیق ہے۔ اس طرح آتشؔ دہلی کی صالح روایات کی اپنے طور پر توسیع کرتے ہیں۔ فن کے لیے آداب ناسخؔ سے لیتے ہیں مگر فکری میلانات میں وہ لکھنؤ کے انھیں عناصر کو قبول کرتے ہیں جو اردو شاعری کے عام عناصر ہیں۔ اس طرح آتشؔ اردو شاعری کی شاہراہ پر کھڑے ہیں۔ ناسخ ایک علیحدہ راستہ اختیار کرتے ہیں جو فن کی پرستش کی طرف جاتا ہے۔ ناسخؔ نے کہا ہے،

    سب زمینیں ہیں نئی بیتیں ہیں اے یار نئی

    روزیاں ریختے کی اٹھتی ہے دیوار نئی

    ریختے کی نئی دیوار کے معماروں میں آتشؔ بھی ہیں مگر وہ نئے پن کے جوش میں ناسخؔ کی طرح اپنے تجربے کے خود شکار نہیں ہو جاتے۔ وہ الفاظ کے قالب میں جذبے کی روح اور توانائی باقی رکھتے ہیں۔ تصوف اور اخلاق کے مضامین کو عاشقی کے آداب کے مطابق بیان کرتے ہیں۔ وہ معنی آفرینی اور قافیہ پیمائی دونوں کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ ان کی معنی آفرینی باقی رہنے والی ہے مگر قافیہ پیمائی بھلادی جائےگی۔ گو اس قافیہ پیمائی سے بھی فن شعر کو فائدے ہوئے ہیں۔

    ناسخؔ و آتشؔ کے فنی شعور کے متعلق ہم کیا کہہ سکتے ہیں؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ اسے محض لفظی بازی گری کہہ کر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس کے لیے چند تاریخی وجوہ بھی ہیں۔ لکھنؤ اودھی کے سمندر میں اردو کا جزیرہ تھا مگر ایسا جزیرہ جو خود ایک انجمن اور ادارہ بن گیا تھا۔ اس ادارے کو دہلی سے زیادہ فارغ البالی اور رونق ملی تھی۔ اس کے آراستہ کرنے اور سنوارنے میں دہلی کے استادوں کا ہاتھ تھا مگر جب دربار کی قدروں نے اس پر اثر کرنا شروع کیا اور لکھنؤ کو اپنے آزاد، خود مختار اور مستقل وجود کا احساس ہوا تو اس کے لیے دوسروں سے مختلف فکر و فن کے سانچوں کی ضرورت پڑی۔

    فکر میں وسعت اور تازگی اسی راہ سے آئی۔ فن میں ہمواری کا بھی یہی راز ہے۔ گو اس ہمواری کی خاطر بہت سی لطافتوں کا خون اسی وجہ سے ہو گیا کہ لکھنؤ کے پیچھے ایک علاقے کی بول چال کا وہ سہارا نہ تھا جو دہلی میں تھا یعنی فن کے جو قواعد ناسخؔ نے بنائے اور جن پر آتشؔ نے عمل کیا اور وہ ایک تاریخی ضرورت کو پورا کرتے تھے مگر ان قواعد کا لکھنؤ کے ماحول میں اردو کے دامن کو وسیع کرنے کے بعد اسے محدود کرنا بھی قدرتی تھا۔ اگر ہم کسی دور کے مخصوص حالات کو سمجھ لیں تو اس کی خوبی اور خامی دونوں کے متعلق زیادہ معروضی نقطۂ نظر پیدا کر سکتے ہیں۔

    ناسخؔ کے اثر سے اردو شاعری میں قاموسیت کی جو لے آئی ہے اس کا اثر آتشؔ پر بھی پڑا مگر آتشؔ بڑی حد تک اس اثر سے آزاد رہے۔ ان کے اثر سے بول چال کی زبان اور محاورے کی وہ شان آئی جس نے شوقؔ لکھنوی اور خلیق و انیس کے کلام میں اپنا رنگ دکھایا۔ آزادؔ نے آب حیات میں وہ لطیفے لکھے ہیں۔ دونوں سے آتشؔ کے چلن کی سمت کا علم معلوم ہوتا ہے۔ ان کا ایک شعر ہے،

    دختر رز مری مونس ہے مری ہمدم ہے

    میں جہاں گیر ہوں وہ نور جہاں بیگم ہے

    اعتراض یہ کیا گیا کہ بیگم ترکی لفظ ہے اور اس کا تلفظ گاف کے پیش کے ساتھ ہے۔ آتشؔ نے جواب دیا کہ اردو میں بیگم ہی مستعمل ہے۔ جب ہم ترکی میں لکھیں گے تو بیگم کہیں گے۔

    دوسرا لطیفہ دبیر کے ساتھ ہوا۔ دبیرؔ نے ایک مرثیہ پڑھا جس میں ایک شامی پہلوان کی آمد بڑی دھوم دھام سے بیان کی تھی۔ مجلس میں خوب واہ واہ ہوئی مگر جب دبیرؔ آتشؔ سے داد لینے آئے تو آتشؔ نے کہا کہ یہ مرثیہ تھا یا لندھور بن سعدان کی داستان۔

    ان دونوں مثالوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ باوجود ناسخؔ کی اصلاحوں سے متاثر ہونے کے آتشؔ نے اردو پن کو عزیز رکھا اور ہر صنفِ سخن کے تقاضوں کو برتا۔ ان کی غزلوں میں یوں تو اخلاقی مضامین ہیں، تصوف کی چاشنی ہے، زندگی کے حقائق پر تبصرے ہیں مگر بادہ و ساغر اور دشنہ و خنجر کا تلازمہ برابر برتا گیا ہے۔ آتشؔ کی غزل مصحفیؔ و میرؔ کی غزل کی توسیع ہے۔ یہ ان کی غزلوں سےمختلف ہوتے ہوئے بھی ان کے قبیلے سے علیحدہ نہیں ہے۔

    آتشؔ نے جا بجا اپنے کلام میں بندش کی صفائی، معانی کی خوبصورتی، فکر کی لالہ کاری، زبان کی روانی کا ذکر کیا ہے۔ کسی غزل گو شاعر نے سخن، فکر، بندش، مضمون پر اس طرح مختلف پیرایوں میں روشنی نہیں ڈالی۔ ان کے یہاں مضمون آفرینی ہے مگر وہ کہیں ناسخؔ کی طرح پرواز کے شوق میں آسمان کا تارا نہیں بنے۔ ان کے مثالی اسلوب سے ظاہر ہوتا ہے کہ خیال کی ترسیل انھیں عزیز ہے اور وہ ہرمضمون کو عام فہم تلازمے یا تشبیہ میں اس لیے بیان کرتے ہیں کہ اپنی بات سب کے دل میں اتارنا چاہتے ہیں، ان کی فکربلند ہے مگر اس کی خلاقی کچھ محدود قسم کی ہے۔ اس میں غالبؔ کی سی رنگارنگی نہیں، اسی لیے انھوں نے تشبیہ سے زیادہ اور استعارے سے کم کام لیا ہے۔ پھر ان کی تشبیہات صرف مناسبات کو واضح کرنے کے لیے ہوتی ہیں۔ ان میں وہ کنایتی انداز اور وہ تہہ دار کیفیت نہیں ہے جو غالبؔ کے یہاں نمایاں ہے۔ ان کے صرف چند شعر ایسے ہیں جن میں غالبؔ کی سی ذہنی دنیا آباد کرنے کی صلاحیت ہے اور جو ہر دور میں ایک نئی کیفیت کے حامل بن سکتے ہیں،

    نہ پوچھ حال مرا چوب خشک صحرا ہوں

    لگا کے آگ مجھے کارواں روانہ ہوا

    کعبہ و دیر میں وہ خانہ بر انداز کہاں

    گردش کا فرو دیندار لیے پھرتی ہے

    شاید آتشؔ کی سرشاری نے انھیں اس درد اور کرب سے آشنا نہیں کیا جس سے دردمندی کی فضا پیدا ہوتی ہے اور وہ گہری پیاس جو بہت سے زخموں اور بڑی حسرتوں کی غماز ہوتی ہے۔ ان کے یہاں شوخیٔ اندیشہ ہے مگر اندیشۂ فردا اور اندیشۂ دور دراز نہیں ہے۔ اگر اس تلازمے کی توسیع کی جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ آرائش خم کا کل کے لئے آتشؔ، اندیشہ دور دراز کے لیےاردو شاعری غالبؔ کی مرہون منت ہے اور یہ بھولنے کی بات نہیں کہ خم کا کل کے بغیر اندیشہ ہائے دور دراز کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔

    آتشؔ کے بغیر انیسؔ کا تصور ناممکن ہے۔ انیس نے جس عروس سخن کو سنوارا اسے جوانی آتشؔ نے عطا کی۔ اگر اس نکتے پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ غزل ہی میں نہیں مرثیے اور مثنوی دونوں میں آتشؔ کی مرصع سازی کے طفیل کتنے جوہری پیدا ہوئے۔ شاعری کو جہاں دیوزادوں کی ضرورت ہے وہاں جوہریوں کی بھی۔ دیوزادوں کی فہرست میں میرؔ، سوداؔ، نظیرؔ، اقبالؔ آتے ہیں۔ جوہریوں اور میناکاروں کی فہرست میں آتشؔ، انیسؔ، مومنؔ وغیرہ۔ دیوزادوں کے رقص بے پروا سے زبان کو وسعت ملتی ہے۔ جوہریوں کی مینا کاری سے زبان میں دلیری، دلآویزی، دلربائی آتی ہے۔ وہ ایک ایسی متاع عزیز بن جاتی ہے جس کی حفاظت کی جاتی ہے اور جسے سینے سے لگا کر رکھا جاتا ہے۔

    پست و بلند آتشؔ کے یہاں بھی ملتے ہیں۔ ان کے پست وبلند میں اور میرؔ کے پست و بلند میں فرق ہے۔ آتشؔ کی ساری عمر کی کمائی غزلوں کے دو دیوان ہیں۔ وہ پرگو نہیں تھے۔ ہاں مضمون آفرینی کے شوق میں جو انھوں نے لکھنؤ کے دربار کی فضا اور ناسخؔ کے اثر سے سیکھا تھا، وہ کہیں کہیں گٹھل ہو جاتے ہیں۔ باوجود کوشش کے جذبے کی شادابی ان میں نہیں ملتی۔ دوسرے انھوں نے ہرقافیہ نظم کرنے کے شوق میں قدرت بیان کا ثبوت ضرور دیا ہے مگر حسنِ بیان کا نہیں۔

    تیسرے دوغزلوں کا یہ سلسلہ جو ان کے شاگردوں میں بہت مقبول ہوا، غزل کی لطافت اور نزاکت کے لیے بار گراں بن جاتا ہے مگر آتشؔ کے بلند اشعار اپنے اندر اتنی لطافت اور نزاکت، اتنی روانی اور سلاست رکھتے ہیں کہ وہ زندگی کے بہت سے مرحلوں پر ذہنی رفیق بن سکتے ہیں اور بنتے ہیں۔ آتشؔ کا سنجیدہ مطالعہ لکھنؤ اسکول کے کارناموں کی قدر و قیمت واضح کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ آتشؔ شاعری کے فن کے بہترین معلموں میں سے ہیں۔ ان سے اردو شاعری میں نشاط زیست کی لے بڑھی اور مردانگی کا لہجہ ا بھرا۔ ہر دور میں ان کا اثر ملتا ہے اور انیسؔ، چکبستؔ اور یگانہ کے نام اس اثر کی ضمانت ہیں۔

    خلیل الرحمٰن اعظمی کا یہ مقالہ کئی حیثیتوں سے قابل قدر ہے۔ آتشؔ پریوں تو سبھی نے اظہار خیال کیا ہے مگر ابھی تک ان کا سیر حاصل مطالعہ نہیں ملتا۔ دہلی اور لکھنؤ اسکول کی اصطلاح کی آمریت اور ناسخؔ کے موازنے کی کوشش نے کسی کو آتشؔ کی شخصیت اور شاعری پر پوری توجہ نہیں دینے دی۔ یہ مقالہ حرف آخر کی حیثیت نہیں رکھتا مگر آتشؔ کے فکر و فن کی خصوصیات کو پرکھنے کی پہلی بڑی کوشش ہے۔

    شروع میں تذکرہ کے عنوان سے آتشؔ کے حالات زندگی کا ایک جائزہ ہے جو مستند تذکروں، تاریخوں اور تنقیدوں کی مدد سے تیار کیا گیا ہے۔ اس کا مقصد صرف ان کی زندگی کے اہم نقوش کو اجاگر کرنا ہے۔ افسوس ہے کہ آتشؔ کے متعلق ابھی تک اس سے زیادہ معلومات نہیں مل سکیں ورنہ شاید تصویر اور روشن ہوتی۔ بہرحال اس سلسلے میں تحقیق کی گنجائش باقی ہے۔ آتشؔ کی جوانی کے واقعات اور مل سکیں تو ان کے عشق پر ضرور روشنی پڑے گی۔ ان کے بانکے ہونے سے خیال ہوتا ہےکہ یہ دور خاصا پرشور اور تند و تیز رہا ہوگا۔

    دوسرے باب میں ’’چھان بین‘‘ کے نام سے آتشؔ کے متعلق تمام آرا کو یکجا کر لیا گیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے مقالہ نگار نے اپنی رائے قائم کرنے میں عجلت نہیں کی ہے۔ اس نے دوسروں کی رائے کو بھی ملحوظ رکھا ہے اور اس پر غور کیا ہے۔ مگر آتشؔ کے متعلق اس کی اپنی رائے کلام کے براہ راست مطالعے اور اپنے ذوق سلیم کی مرہون منت ہے۔ اس میں مذاق عام کی پابندی نہیں ہے، ادائے خاص کی جلوہ گری ہے۔ امداد امام اثرؔ، ڈاکٹر عبد اللہ اور فراقؔ کے مضامین کے طویل اقتباسات اس بات کے شاہد ہیں کہ ان حضرت کی رائے سے مقالہ نگار کو خاصا اتفاق ہے۔ اس میں شک نہیں کہ آتشؔ کے متعلق ان بزرگوں نے بڑے پتے کی بات کہی ہے مگر مجموعی تاثر وکیل صفائی کا ہوتا ہے۔ آتشؔ کے لیے اعتدال کی ضرورت ہے۔ وہ فکر وفن کی ایک ایسی چوٹی ہیں جس تک پہنچنا ضروری ہے اور جس پر پہنچنے کے بعد کیفیات و تجربات کا ایک خزانہ ہمارا منتظر ہے۔

    تیسرے باب میں آتشؔ کے فن کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اعظمی نے یہاں فکر و فن، فنکاری کے رموز اور آتشؔ کے کارنامے کے متعلق ایسے خیالات پیش کیے ہیں جن سے مجموعی طور پر اتفاق کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے اول و دوم درجے کے شعراء کا فرق، زندگی سے متعلق اثباتی نقطۂ نظر، حواس کی تسکین اور فارسیت اور اردوپن کے خوش گو امتزاج پر بلیغ اشارے کیے ہیں، جن سے ان کے گہرے مطالعے، منفرد احساس اور شگفتہ اسلوب بیان کا قدم قدم پر ثبوت ملتا ہے۔

    عشقیہ شاعری پر باب بھی اہمیت رکھتا ہے۔ آتشؔ کے یہاں جو صحت مند جنسیت ہے، اس کی طرف اعظمی نے مناسب انداز میں توجہ دلائی ہے۔ اردو شاعری میں محرومی و ناکامی کی بنا پر قنوطیت کی جو پرچھائیں ہے اس کو دیکھتے ہوئے آتشؔ کی جاندار، رنگا رنگ اور بھرپور عشقیہ شاعری بڑی قابل قدر ہو جاتی ہے مگر یہ سوچنے کی بات ہے کہ رنگوں، خوشبوؤں اور کرنوں کی یہ جنت زندگی کا ایک قابل قدر گوشہ ہے، ساری زندگی نہیں ہے۔ اسی لیے اس میں کیفیت ہے مگر عظمت کے لیے ہمیں غالبؔ کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔

    خمریات، تصوف اور مسائل حیات کے عنوانوں کے تحت مقالہ نگار نے آتشؔ کے اچھے اچھے اشعار یکجا کر دیے ہیں۔ ان موضوعات میں آتشؔ کا زندگی کے متعلق نقطۂ نظر بھی آ گیا ہے اور اس طرح آتشؔ کی بیشتر خصوصیات کی نشان دہی ہو گئی ہے۔ مقالے کے آخر میں یہ سوال کیا گیا ہے کہ، ’’جس شاعر کے کلام میں زندگی کی اتنی وسعتیں سما گئی ہوں کیا اس کے متعلق اب بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کا شاعرانہ مرتبہ کیا ہے؟‘‘

    اچھا ہوتا اگر اس سوال کا جواب بھی قدرے تفصیل سے دیا جاتا۔ ویسے مقالے میں ان تمام باتوں کی طرف اشارے آ گئے ہیں لیکن خاتمہ میں مجموعی طورپر ایک فیصلے کی ضرورت تھی۔

    آج جب کہ ہمارے قدیم ادب کے متعلق سرسری مطالعے اور سستے نظریے کی بنا پر اظہار خیال عام ہے۔ اس مقالے کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ مقالہ نگار نے ہمارے ادبی سرمائے کا گہرا مطالعہ کیا ہے۔ انھوں نے دوسروں کی رائے کو سہارا نہیں بنایا بلکہ غور و فکر کے بعد اپنی رائے قائم کی ہے۔ ان کا خیال واضح ہے اور انھیں اسے خوش اسلوبی اور شگفتگی کے ساتھ پیش کرنا آتا ہے۔ ان کی تحریر رواں اور دلکش ہوتی ہے، وہ ہوائی باتیں نہیں کرتے، برابر مثالیں دیتے ہیں۔ انھوں نے آتش کے بیشتر نشتر اپنے جائزے میں سمیٹ لیے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ان کا یہ مقالہ آتش کے متعلق خصوصاً اور ہمارے قدیم ادب کے متعلق عموماً سنجیدہ، پر خلوص اور مفصل جائزوں میں مدد دےگا اور آتشؔ پر گفتگو کرتے وقت اسے کسی طرح نظر اندازنہیں کیا جا سکتا۔

    مأخذ:

    کچھ خطبے کچھ مقالے (Pg. 254)

    • مصنف: آل احمد سرور
      • ناشر: ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ
      • سن اشاعت: 1996

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے